خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں
۱۰۔ حضرت عثمان کا ایک انوکھا فتوی!!
غسل جنابت آیہٴ قرآن کی نص اور متعدد احادیث کے مطابق (جو خود صحا ح ستہ میں نقل کی گئی ھیں ) مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر واجب ھو جاتا ھے:
۱۔ منی کا خارج ہونا ۔
۲۔ التقاء ختانین (یعنی مرد و عورت کی ختنے کی جگہ مل جائے اور جماع صادق آئے) چاھے منی خارج ھو یا نہ ہو،چنانچہ حدزنا اور لزوم مھروغیرہ میں جنابت سے مراد یھی ھے۔
امام شافعی کھتے ھیں :
خدا نے غسل کو جنابت کی وجہ سے واجب قرار دیا ھے اور جنابت کے معنی عرب کے نزدیک عام فھم ھیں،اھل عرب جانتے ھیں : جنابت سے مراد جماع ہوتا ھے چاھے منی خارج نہ ہوئی ہو،چنانچہ جماع ھی مھر اور حد زنا کا موجب ھو تاھے اوران موارد میں بھی منی کانکلنا لازمی نھیں، لہٰذا جو شخص عربی زبان سے واقفیت رکھتا ھے اس کے سامنے یہ کھا جائے کہ فلاں مرد فلاں عورت سے مجنب ہوگیا تو اس کے نزدیک یھی معنی تبادر کر یں گے کہ اس مرد نے فلاں عورت سیجماع کیا ،چاھے منی خارج نہ ہوئی ہو۔
اس کے بعد امام شافعی کھتے ھیں :
قطعی سنت اس بات پر قائم ھے کہ جنابت دو طریقے سے حا صل ہوتا ھے، مرد عورت سیجماع کرے چاھے منی خارج نہ ھو ،یا منی خارج ھو جائے چاھے اسیجماع نہ کھیں ۔[1]
اھل سنت کی معتبر کتابوں میں منجملہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں اس موضوع سے متعلق کثرت کے ساتھ روایات منقول ھیں :
اگر مرد و عورت کی ختنے کی جگہ مل جائے(جماع کریں ) تو غسل جنابت واجب ھو جاتا ھے چاھے منی نہ نکلی ھو ۔
چنانچہ مسلم نے تو اس بارے میں ایک مخصوص باب اس:”نسخ الماء من الماء ووجوب الغسل بالتقاء الختانین “عنوان سے تحریر کیا ھے۔ [2]
لیکن صحیحین کی ایک دوسری روایت کے مطابق عثمان سیجب کسی نے سوال کیاکہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سیجماع کرے اور منی نہ نکلے تووظیفہ کیاھے؟
حضرت عثمان نے کھا : وہ شخص عضوئے تناسل کو دھوکر وضو کرلے اور میں نے یہ مسئلہ رسول اسلام(ص) سے یوں ھی سنا ھے اورجب میں نے حضرت علی (ع)، زبیر بن العوام،طلحہ بن عبید الله اور ابی بن کعب وغیرہ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ لوگوں نے بھی یھی جواب دیا جس کو میں نے رسول(ص) سے سن رکھا تھا:
… ”خالد الجھنی اخبرہ؛ انہ ساٴل عثمان بن عفان؛ فقال: اٴرایت اذا جامع الرجل امراٴتہ فلم یمن؟ قال عثمان: یتوضاٴ کما یتوضاٴ للصلٰوة، ویغسل ذکرہ، قال عثمان :سمعتہ من رسول الله (ص)، فساٴلت عن ذالک علی بن ابی طالب،(ع) والزبیر بن العوام ،وطلحة بن عبید الله ، و ابیٴ بن کعب، فامروہ بذالک “[3]

عرض موٴلف قارئین محترم ! یہ تھا صحیحین میں حضرت عثمان کا انوکھا فتویٰ کہ اگر انسان جماع کرے تو غسل کرنے کی ضرورت نھیں ، لیکن روایت کا دوسرا حصہ جس میں اس فتوی کی تائید کرتے ہوئے راوی نے رسول خد(ص)ا، حضرت امیر المومنین ،طلحہ ،زبیر اور ابی ٴ بن کعب وغیرہ کے قول کو نقل کیا ھے آیا یہ حقیقت ھے ؟! ھرگز نھیں ،بلکہ یہ ( بالکل کھلا وا کذب اور برهنہ الزام ھے ) عثمان کی عزت بچانے کی خاطر اسے ان کے فتوے کے ساتھ اضافہ کر دیا گیا ھے اوریہ کوئی تعجب خیز بات نھیں بلکہ ایسے شواھد کثرت کے ساتھ پائیجاتے ھیں ((وکم لہ من نظیر)) یا پھر یہ کہئے کہ جو فتویٰ عثمان نے دیا یہ صدر اسلام سے مربوط ھے،کیو نکہ نقل کیا گیا ھے کہ رسول خدا(ص)نے صدراسلام میں فرمایا تھا (الماء من الماء) لیکن ابن عباس فرماتے ھیں : یہ جملہ احتلام سے مربوط ھے نہ کہ جماع سے۔[4]
بھر صورت جو مسئلہ روز مرّہ کا مبتلا بہ ھو اس میں خلیفہ صاحب کا نا بلد ہونا تعجبخیز ھیجبکہ اس سلسلے میں اصحا ب کے درمیان حدیثیں کثرت کے ساتھ پائی جاتی تھیں !(اذا جاوز الختان وجب الغسل) ممکن ھے کہ عثمان نے صدر اسلام میں کھیں سے سن لیا تھا کہ خالی دھونا کافی ھے، چنانچہ صدر اسلام کا یہ جملہ یا د کرلیا اور انھیں ا س حکم کے نسخ کی اطلاع نہ ملی، لہٰذا اپنی سابقہ ذهنی معلومات کی بناپر فتوی صادر کردیابھر کیف مسئلہ ھر حال میں محل تعجب ھے!!

۱۱۔ احراق قرآن بدست حضرت عثمان !!
اما م بخاری نقل کرتے ھیں :
جب حذیفہٴیمانی اھل شام وعراق کے ھمراہ آرمینیہ اور آذربائیجان کی جنگ میں مصروف تھے تو قرآن کی قراٴتوں میں مسلمانوں(اھل شام و عراق) کے درمیان اختلاف دیکھ کر گھبرا گئے اور حضرت عثمان سیجاکر کھا کہ قبل اس کے کہ یہود و نصاری کی طرح مسلمان بھی اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں اختلاف کا شکار بن جائیں کتاب خدا کی خبر لیجئے، حضرت عثمان نے ایک گروہ کو حکم دیا کہ جتنے قرآن دسترس میں ھیں انھیں جمع کرلیا جائے اور پھرجو رسول(ص) کے زمانہ میں قراٴت تھی اسی کے اعتبار سے نسخہ بر داری کریں اور اگر اختلاف نظر ہوجائے تو قریش کے لہجے اور قراٴت میں قرآن لکھنا کیونکہ قرآن قریش کے لہجے میں نازل ہوا ھے، المختصر یہ کہ اس قرآن سے متعدد نسخے بناکر اطراف و نواح کے شھروں میں بھیج دئے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ اس قرآن کے علاوہ جھاں بھی دوسراقرآن ھے اسے فوراً جلا دیا جائے:
”وارسل الیٰ کل افق بمصحف ممانسخواوامربماسواہ من القرآن فی کل صحیفةاومصحف ان یحرق“[5]
چنانچہ ایسا ھی کیا گیا کہ تمام دیگر قرآنوں کو جمع کرکیجلا دیا گیا،اگر کوئی قرآن ہڈی وغیرہ پر لکھا تھا تو اسے سرکہ سے دھو دیا گیا!!
عصر حا ضر کے ایک مشہور محقق کھتے ھیں :
حضرت عثمان نے اپنے دورخلافت میں جس قراٴت پر قرآن جمع کروایا تھا وہ وھی قراٴت تھی جو اُس وقت مسلمانوں کے درمیان رائج ، متواتر اور قطعی الصدور تھی جس کا آنحضرت(ص) سے نقل ہونا یقینی تھا،لہٰذا حضرت عثمان نے اس کام کو انجام دیکر امت مسلمہ کو ایک قراٴت پر جمع کر دیا اور دیگر بے اساس ، ناشائستہ ا و رغلط قراٴتوں سے بچا لیا جو مسلمانوں میں اختلاف ک ا سبب بنتیں چنانچہ حضرت عثمان کا یہ عمل بجا اور شائستہ تھا، اسی وجہ سے آپ اس عمل کی بنا پر مسلمانوں کے درمیان لعن طعن کا نشانہ نھیں قرار پائے ،کیونکہ اگر حضرت عثمان یہ کام نہ کرتے تو اسی قراٴت کے اختلاف کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے کو کفر کا فتویٰ دیکر قتل و خونریزی کرتے!البتہ جو چیز اعتراض کے قابل ھے وہ یہ ھے کہ آپ نے دیگر قرآنوں کو جلوادیا ! اور یھی نھیں بلکہ یہ کام آپ نے خود کیا اور لوگوں کو اس بات کا حکم بھی دیا!حضرت عثمان کی یہ بات قابل تنقید ومذمت ھے یھاں تک کہ کچھ مسلمانوں نے آپ پر اعتراض بھی کیا اور آپ کو”حرّاق المصاحف“ قرآن جلانے والاکهنے لگے۔[6]

عرض موٴلف
آپ جانتے ھیں کہ قرآن مجید اسلام کی نظر میں ایک خاص احترام کا حا مل ھے اور اس کے احترام ، عظمت اور حفاظت کے بارے میں اسلام میں باقاعدہ قوانین اور شرائط پائیجاتے ھیں ۔ مثلاًاس قرآن کو بغیر وضو مس کرنا حرام ھے ، مجنب و حا ئض کے لئے سورہٴعزائم کا پڑھنا شیعوں کے نزدیک اور تمام سورتوں کاپڑھنا اکثرعلمائے اھل سنت کے نزدیک حرام ھے، اسی طرح قرآن کا نجس کرنا بھی حرام ھے۔ کلی طور پر علمائے اھل تشیع و تسنن کا اتفاق ھے کہ قرآن کے ساتھ ھر وہ عمل انجام دینا حرام ھیجو قرآن محید کی بے احترامی ک ا سبب بنے،چنانچہ احترام قرآن سے متعلق اسلامی کتابوں میں متعدد احادیث کو نقل کیا گیا ھے، ترمذی اپنی سنن میں رسول (ص)سے یہ حدیث( مجنب اور حا ئض قرآن نھیں پڑھ سکتے )نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں :
یھی فتوی صحا بہ کرام ،تابعین عظام اور موجودہ ومتقدمین علمائے اسلام کا ھیجیسے سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمدبن حنبل،اسحاق، وغیرہ ان تمام علماء نے فتوی صادر فرما یا ھے کہ مجنب اورحائض قرآن نھیں پڑھ سکتے البتہ کسی آیت کے ایک کلمہ کواور اسی طرح تسبیح وتھلیل کرنا ان کے لئیجائز ھے ۔[7]

عرض موٴلف
جی ھاں! یہ تمام تاکیدیں قرآن مجید کی عظمت ،اھمیت ا ور احترام کی حفاظت کی خاطر دین اسلام میں بیان کی گئی ھیں ، لیکن اس کے باوجود خلیفہٴوقت کا مدینہ اور دیگر تمام اسلامی ممالک میں موجودہ قرآن جلانے کا حکم دینا کس مدرک کی بنا پر تھا ؟! آخر ایسا فتوی کیسے صادر کیا؟ قرآن کی اس قدر عظمت اوراس کے صریحا حکام کے ہوتے ہوئے خلیفہ صاحب کی کیسے ھمت ہوئی کہ قرآن کیجلانے میں حکم صادر فرمائیں؟!ان مطالب کو ھم قارئین کی صوابدید پر چھوڑتے ھیں ۔[8]
اوراگر دیگر قرآن جلانے کا مقصد یہ تھا کہ دوسری قرائتوں کو ختم کیا جائے تاکہ مسلمانوں میں اختلاف نہ ہونے پائے ،تو یہ کام دوسرے طریقے سے بھی کیا جاسکتا تھا ، جس سے احترام قرآن باقی رہ جاتا، مثلاً دوسرے قرآنوں کو کسی پاک جگہ دفن کردیاجاتا ،یا کسی محفوظ جگہ حفاظت سے رکھ دیا جاتا، یادریا برد کردیاجاتا وغیرہ وغیرہ ۔

۳۔ خلفاء اوراسلامی احکام
امام ؛احکام الہٰیَّہ کامحا فظ اور قرآنی قوانین کاجاری کرنے والاھے
قال علی علیہ السلام:”وَلَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَیُھلِکُ اْلاُمَّةَ“”قدعملت الولاة قبلی اعمالا خالفوا فیھا رسول(ص) اللّٰہ“
,,اورامام کو احکام خدا معطل نھیں کرنا چاہئے کیونکہ امام کااحکام خدا ترک کرنا امت مسلمہ کے ھلاک ہونے ک ا سبب ہوتا ھے،بالتحقیق مجھ سے پھلی جو خلفاء گزرے انہوں نے کچھ ایسے اعمال انجام دئیجن میں رسول اللہ کی صریحا مخالفت کی گئی تھی“
ا س میں کوئی شک و شبہ نھیں کہ امام اور اسلامی حا کم کے لئے سب سے اھم شرط بلکہ خلافت الٰھیہ کا اصل فلسفہ اور مفہوم ھی یہ ھے کہ وہ احکام خداوندی کا پاسبان اور قرآن کے قوانین کا اجرا ء کرنے والا ہو، مولائے متقیان (ع) خلیفہ کے لئے اس شرط کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ھیں :
”امام کو احکام خدا معطل نھیں کرنا چاہئے کیونکہ امام کااحکام خدا ترک کرنا امت مسلمہ کے ھلاک ہونے ک ا سبب ہوتا ھے“۔
لیکن تاریخ اسلام اور صحیحین کی مختلف احادیث سے پتہ چلتا ھے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں احکام خدا کوا علانیہ اور ظاھر بظاھر ترک کیا گیا، احکام خداوندی میں تغییر و تحریف کی گئی ،اسلامی احکام کو ذاتی نظریات ، مقاصد اور مصالح میں رنگ دیا گیا ،ھر شخص جیسے چاھتا اسلامی حکم کو اپنی رائے کے مطابق تبدیل کردیتا !جیسے چاھتا اسلامی قوانین میں اظھار نظر فرماتا ! چنانچہ خلفائے ثلاثہ نے بھی حکم ِ خدا میں خوب من مانی کی اور جب محل لعن و طعن قرار دیا گیا تو کچھ نام نھاد اور زر خرید علمائے اھل سنت نے اس تحریف وتغےیر کو علمی رنگ میں پیش کرنے کے لئے اسے اجتھاد کا نام دیکر ان عیوب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور انھوںنیجھاں اس قسم کی مخالفت اور تحریف دیکھی اسے اجتھاد کے خوش نما لفافہ میں رکھ کر اسلامی امت کے سامنے پیش کردیا، تاکہ اسلامی معاشرہ کے نزدیک قابل قبول قرار پائے، حا لانکہ اجتھاد ایک جدا بحث ھے اورصریحا قرآن و سنت کی مخالفت ایک جدا بحث ھے، دونوں میں کوئی ربط نھیں ھے۔
حضرت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ھیں :
”قد عملت الولاة قبلی اعمالاخالفوا فیھارسول (ص)الله معتمدین بخلافہ، ناقضین لعھدہ، مغیرین لسنتہ، ولوحملت الناس علی ترکھا وحولتھا الی مواضعھاوالی ما کانت فی عھد رسول الله لتفترق عنی جندی، حتی ابقی وحدی اومع قلیل من شیعتی الذین عرفوا فضلی وفرض اما متی من کتاب الله و سنةرسولہ“[9]
مجھ سے پھلے خلفاء ایسے اعمال انجام دے چکے ھیں کہ جن میں عمداًرسول (ص)الله کی صریحا مخالفت اور پیمان شکنی کی گئی،آپ کی سنت کو بدلا گیا، چنانچہ اگر میں لوگوں کو ان بدعتوں کے ترک کرنے پر مجبور کروںاور اسلامی قوانین کواصلی صورت پر پلٹاوٴں جس روش پر رسول(ص) الله کے زمانہ میں تھے،تو میرے لشکر والے ھی سب سے پھلے مجھ سے دور ھو جائیں گے اور میں اپنے شیعوں کے چند افراد کے ساتھ تنھا رہ جاوٴں گا، جنھوں نے میری فضیلت اور امامت کو قرآن وسنت سے پہچانا ھے ۔
دوسری جگہ امام فرماتے ھیں :
جس روز میں نے اپنے داخلی اختلاف سے نجات پائی اسی دن بھت سے ان بدعتی احکام کو ا ن کی اصلی صورت پر پلٹاوٴں گا:
”لوقد استوت قدما ی من ھٰذہ المداحض لغیرت اشیاء“
ابن ابی الحدید امام کے اس قول کے ذیل میں کھتے ھیں :
اس میں کوئی شک نھیں کہ امیر الموٴمنین (ع)احکام شرعی اور قضاوت میں گزشتہ خلفاء کے فتاوی اور ان کے نظریات کے خلاف عمل کرتے تھیجیسے چور کی حد ، ام ولد کا حکم، امام نے گزشتہ خلفاء کے بر خلاف چور کی حد میں انگلیوں کو کاٹا اور ام ولد کو فروخت کیا[10]
ابن ابی الحدید آخر میں تحریر کرتے ھیں :
جو چیز امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کو بطور کلی بدعتی احکام بدلنے سے مانع تھی وہ آپ کا باغی اور خوارج کے ساتھ مصروف جنگ رهنا ھے،امام کو اس اختلاف نے فرصت نھیں بخشی کہ خلفاء کے زمانہ والے بھت سے بدعتی احکام تبدیل کرتے۔[11]

عرض موٴلف
جو اسلامی احکام خلفاء کے زمانہ میں تبدیل کئے گئے وہ کثرت کے ساتھ کتب تواریخ ، تفاسیر ا ور احادیث میں موجود ھیں لیکن ھم اپنی روش کے مطابق صرف صحیحین سے چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ھیں ۔

۱۔ خلیفہ کے حکم سے مسلمانوں کا قتل عام اور اسلامی احکام میں تبدیلی
اس میں کوئی شک وشبہ نھیں کہ جس نے کلمہٴ شھادتین زبان پر جاری کر دیا اور خدا کی وحدانیت اور رسول(ص) کی رسالت کا اعتراف کر لیا ،اس کی جان و مال اسلام کی رو سے محفوظ و محترم ہوجاتی ھے اور کسی کو اسیجانی اور مالی نقصان پهنچانے کا حق نھیں ھے مگر یہ کہ کوئی ذاتی حق رکھتا ھو ، چنانچہ رسول خدا(ص) اس بارے میں ارشاد فرماتے ھیں :
”امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا: لا الٰہ الا اللّٰہ ،فمن قال: لا الٰہ الا اللّٰہ، فقد عَصَمَ منّی مالَہ و نفسَہ الا بحقّہ وحسابُہ علی اللّٰہ“
مجھے خدا کی طرف سے حکم دیا گیا ھے کہ میں اس وقت تک منکرین خد ا سیجنگ کروں جب تک کہ کلمہ لاالہ الا اللہ کوزبان پر جاری نہ کریں ، لہٰذا اگر کوئی کلمہٴ توحید پڑھنے لگے تواب اس کی جان و مال محفوظ ہوجاتی ھے، البتہ اگر کوئی شخصی حق رکھتا ھے تو کوئی مضائقہ نھیں اور اس کا حساب یوم آخرت اللہ کے اوپر ھے۔[12]
لیکن افسوس کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد خلفائے وقت نے کچھ ایسے مسلمانوں کا خون مباح کر دیا تھا جوتمام اسلامی احکام اور زکاة کے پابند تھے صرف خلفائے وقت کو زکاة دینے سے انکارکر رھے تھے در حقیقت ان لوگوں نے خلیفہ کی بیعت کرنے سے انکارکر دیا تھا اس لئے ان کے مردوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور ان کی عورتوں ، بچوں کو اسیر کر کے کنیز ا ور لونڈی بنا لیا گیا(جو اسلام کی رو سے قطعاً جائز نہ تھا)۔[13]
البتہ اس قتل وغارت کی توجیہہ اور خلیفہ صاحب کے دامن کو تنقید سے بچانے کی خاطر کچھ زرخرید راویوں نے روایتیں گڑھنا شروع کردیں! جن کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جن لوگوں کو خلیفہ ٴ وقت نے قتل کرنے کا حکم دیا تھا وہ مرتد ہوگئے تھے!! اس طرح ان لوگوں کو مانند مسیلمہ اور طلیحہ، کفار کی صف میں کھڑا کردیا! زمان رسالت سے مسلمانوں سے نبرد آزما ں تھے ، حا لانکہ کتب تواریخ وروایات اس اتھام کو صراحت کے ساتھ رد کرتی ھیں ، چنانچہ صحیحین میں بھی اس واقعہ کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا گیا ھے، لہٰذا پھلے ھم اس بارے میں صحیحین سے نقل کرتے ھیں ، اس کے بعد تاریخ کے لحا ظ سے اس واقعہ کا خلاصہ نقل کریں گے:
…,,عن ابن شھاب؛اخبرنی عبید اللّٰہ بن عبدا للّٰہ بن عتبة؛ان ابا ھریرة قال:لما توفّٰی النبی(ص) واستخلف ابوبکر وکفر من کفر من العرب،قال عمر:یا ابابکر کیف تقاتل الناس وقد قال رسول(ص) اللّٰہ: امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا:لا الہ الا اللّٰہ، فمن قال لا الہ الا اللّٰہ عَصَمَ منی مَاْ لَہُ ونفسہ الا بحقہ وبحسابہ علی اللّٰہ؟قال ابوبکر؛واللّٰہ َلاٴ قاتِلَنَّ من فرّق بین الصلٰوة والزکٰوة،فان الزکاة حق المال واللّٰہ لو منعونی عَناقا کانوایوٴدونھا الی رسول(ص) اللّٰہ، لقاتلَتْہُمْ علی منعھا، قال عمر:فواللّٰہ ما ھو الّا ان رَاٴیتُ ان قد شرّحا للّٰہ صدرَابی بکر للقتال، فعرفتُ انہ الحق“[14]
امام بخاری اور مسلم نے تمام اسناد کے ساتھ نقل کیا ھے:
جب رسول خدا(ص) کی وفات ہوئی اور ابوبکر تخت خلافت پر جا نشین ہوئے تو عرب کے بعض قبیلے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے، عمر نے ابوبکر سے کھا: اے ابوبکر! تم ان لوگوں سے کیسیجنگ کرو گے حا لانکہ رسول(ص) کا فرمان تھا: میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ اس وقت تک لوگوں سیجنگ کروں جب تک یہ خدا کی وحدانیت کے قائل نہ ھو جائیں اور جو شخص خدا کی وحدانیت کو قبول کر لے اس کی جان و مال محفوظ ھے، البتہ اگر کوئی شخصی حق رکھتا ھو تو اس کی جان مباح ہوسکتی ھے؟ (بطورخون بھا وغیرہ) ،ابوبکر نیجوا ب میں کھا: خدا کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کروں گا جنہوں نے نماز و زکاة میں فرق کیا کیونکہ زکاة مالی حق ھے (اسلامی حکومت کا حق ھے) قسم خدا کی جو زکاة یہ لوگ رسول خدا(ص) کو دیتے تھے وھی مجھے نہ دی اور اس میں سے ایک بکری کا بچہ بھی روک لیا تو میں ان سیجنگ کروں گا۔
عمر نے کھا :قسم خدا کی یہ جواب ابوبکر کو اس شرح ِ صدر کی وجہ سے عطا ہوا تھا جو خدا نے کیا یعنی یہ جواب خدا کی طرف سے القاء ہوا تھا لہٰذا میں سمجھ گیا کہ ابوبکر کی بات کاملاً ٹھیک ھے۔[15]

عرض موٴلف
اس حدیث کے پھلے ٹکڑے میں یہ کھا گیا ھے: عرب کے بعض قبیلے کافر ہوگئے ،یہ سراسر غلط اور جھوٹا الزام ھے اور در حقیقت خلیفہ صاحب کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ جملہ اضافہ کیا گیا ھے، چنانچہ مزے کی بات یہ ھے کہ اسی روایت کے بعد والی جملوں سے اس کا جعلی ہونا ثابت ھے کیونکہ :
۱۔ اس روایت میں آیا ھے کہ جب عمر نے ابو بکر سے پوچھا کہ آپ ان سے کیسیجنگ کریں گے؟ تو ابوبکر نے کھا میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کروں گا جو نماز و زکاة میں فرق کر رھے ھیں ، اس جملہ سے ظاھر ہورھا ھے کہ وہ نہ صرف کافر نھیں ھو ئے تھے بلکہ خدا کے حکم کے مطابق نماز و روزہ و اصول دین وغیرہ پر یقین رکھتے تھے اور ان کی بجا آوری بھی کرتے تھے۔
۲۔ اگر مان لیا جائے کہ وہ لوگ کافر ہوگئے تھے تو حضرت عمر نے ابو بکر پر کیوں اعتراض کیا تھا کہ ان سے کیسیجنگ کی جائے گی حا لانکہ وہ لاالہ الا اللہ اور محمد رسول (ص)الله کھتے ھیں اور رسول اسلام(ص) کو حکم بھی یھی دیا گیا تھا کہ جب تک لا الہ الا اللہ نہ کھے اس وقت تک جنگ کرو؟
مشہور فقیہہ اور فلسفی جناب ابن رشید کھتے ھیں :
زکاة کے احکام میں سے ایک حکم اس کا یہ بھی ھے کہ کوئی شخص زکاة کے وجوب کا انکار نہ کرے لیکن زکاة دینے سے انکار کرے اورابوبکر کا عقیده یہ تھا کہ جو شخص زکاة کے وجوب کا قائل ھو مگر دینے سے انکار کرے وہ مرتد کے حکم میں ھے، چنانچہ جب عرب کے قبائل نے ابوبکر کو زکاة دینے سے انکار کر دیا توحضرت ابو بکر نے ان سیجنگ کی اور ان کے بال بچوں کو اسیر کر لیا،لیکن عمر کا یہ نظریہ نھیں تھا لہٰذا انھوں نے اس حکم میں ابو بکر کی مخالفت کی اور جن لوگوں کو ابوبکر نے اسیر کر رکھا تھا آزاد کر دیا اور اکثر علمائے اھل سنت بلکہ تمام علماء اس مسئلہ میں عمر کے ھم عقیده ھیں ۔
”وخالفہ فی ذالک عمرۻ واطلق من کان استرق منھم و بقول عمر قال الجمہور…“[16]
یہ سارا قتل وغارت کا قضیہ عکرمہ ابن ابی جھل کی سرپرستی میں ” حضر موت“ کے مقام پر مختلف قبائل (کندہ، مآرب) کے ساتھ اور اطرافِ مدینہ میں ” عبس و ذبیان، بنی کنانہ “سے خالد بن ولید کی سرپرستی میں وقوع پذیر ہوا، یہ تمام افراد جن کو مسلمانوں نے خالد بن ولید و عکرمہ کی سرپرستی میں قتل کیا مرتد نھیں ہوئے تھے،بلکہ سب یھی کہہ رھے تھے کہ جب تلک ھمارے درمیان رسول(ص) تھے ھم نے ان کی پیروی کی لیکن ابوبکر سے ھمارا کوئی تعلق نھیں ھے”اطعنا رسول الله مادام وسطنا فیا قوم ما شاٴ نی و شاٴن ابی بکر “ اورکبھی گورنر کے سامنے یہ کھتے کہ تو ھ میں ایسے مرد کی اطاعت کو کیوں کہہ رھا ھیجس کے بارے میں ھم سے اور تجھ سے کوئی عھد نھیں لیا گیا ھے؟”انک تدعوا الی طاعة رجل لم یعھد الینا ولا الیکم فیہعھد “ اور کبھی یہ کھتے کہ تم نے خاندان پیغمبر (ص)کو اس معاملہ سے کیوں دور کر دیا؟منصب خلافت کے اصلی حقدار وہ ھیں جن کے بارے میں ارشاد الہٰی ھے:
<…وَاُوْلُواْالاَرْحا مِ بَعْضُہُم اَوْلَی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہ… > [17]
ابن کثیر کھتے ھیں :
عرب کے مختلف قبائل، گروہ در گروہ مدینہ آتے اور نماز کے سلسلے میں اقرار و اعتراف کرتے تھے، لیکن زکاة کے ادا کرنے سے گریز کرتے تھے اور کچھ ان میں سے ایسے تھیجو خلیفہ ٴ وقت کو زکاة دینے سے انکار کرتے تھے۔[18]
سنیوں کے مشہور مصنف عقاد مصری کھتے ھیں :
وہ عرب کے قبیلیجو مدینہ کے نزدیک رھتے تھے رسول(ص) کے بارے میں بھت مخلص اورھمدرد تھے، لیکن جب رسول(ص) کی وفات ہوئی اور ابوبکر نے زمام حکومت سنبھالی تو ان لوگوں نے اس کی نافرمانی اور مخالفت کی اور کهنے لگے :ھم رسول خدا(ص)کی پیروی کرتے ھیں ھم کو ابوبکر سے کیا مطلب؟ !
اس کے بعد عقاد کھتے ھیں :
کچھ افراد ایسے تھیجو اصل زکاة کا عقیده رکھتے تھے لیکن جو زکوٰةوصول کرنے والے تھے ان کو دینے سے انکار کرتے تھے۔ [19]
مشہور مصنف محمد حسین ھیکل مصری کھتے ھیں :
”ابوبکر نے صحا بہ کو جمع کیا اور ان لوگوں کے بارے میں مشورہ کیا جنہوں نے ابوبکر کو زکاة دینے سے انکار کر دیا تھا کہ آیا ان سیجنگ کی جائے یا نھیں ؟کچھ لوگوں کا کهنا تھا کہ ان سیجنگ کرنا جائز ھے اور کچھ لوگوں کا کهنا تھا کہ جنگ نہ کی جائے اور ان منع کرنے والوں میں حضرت عمر بھی تھے، آپ کا کهنا تھا : ان سیجنگ نہ کریں کیونکہ یہ لوگ خدا و رسول(ص) پر ایمان رکھتے ھیں ،بلکہ ان سے دشمنان اسلام کے مقابلہ میں فائدہ اٹھایا جائے۔ “
اس کے بعد محمد حسین ھیکل کھتے ھیں :
شاید مجلس مشاورت میں شرکت کرنے والوں میں سے اکثر لوگ یھی عقیده رکھتے تھے کہ ان سیجنگ نہ کی جائے اور اس نظریہ کے مخالفین اقلیت میں تھے ،بلکہ ظن قوی یہ ھے کہ جب حا ضرین مجلس میں اس اھم اور خطرناک معاملہ پر بحث ومباحثہ بھت بڑھ گیا تو ابوبکر نے مجبور اً ذاتی طور پر اس میں مداخلت کرکے اقلیت کے نظریہ کی تصدیق و تائید کردی اور پرُ زور طور پر اپنی بات منوانے کیلئے کهنے لگے : ”قسم بخدا وہ چیز جو رسول(ص) کو دی جاتی تھی اس میں سے انہوں نے ایک بکری کا بچہ بھی روک لیا تو میں ان سیجنگ کروں گا“[20]

عرض موٴلف
اس تمام واقعہ کو سیوطی نے تاریخ الخلفاء، بلاذری نے انساب الاشراف اور اعثم کوفی نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ھے، اعثم کوفی کھتے ھیں :
ابوبکر نیجملہ قسمیہ ”والله لومنعونی عقالاً“ عمر کیجواب میں کھا تھا، کیونکہ عمران مسلمانوں سے قتل و کشتار کرنے کے مخالف تھے۔[21]
بھر کیف جو تفصیلات اور مطالب ھم نے تاریخ ابن کثیر اور دیگر کتابوں سے نقل کئے ھیں ان سے اور خود حضرت ابو بکر کی بات سے بالکل واضح ہوجاتا ھے کہ جن کو ابوبکر کے حکم سے قتل کیا گیاوہ مرتد نھیں بلکہ مسلمان تھے اوریہ لوگ باقاعدہ اصل زکاة پر ایمان رکھتے تھے ،البتہ ابوبکر کوزکاة دینے سے انکار کر رھے تھے، بس اسی بات پر ان کو ابو بکر نے تہہ تیغ کروادیا !!

مالک بن نویرہ (نمائندہٴ رسول (ص)) کے قتل کاواقعہ
قارئین کرام! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں عرب کے مختلف قبائل سے اس لئیجنگ لڑی گئی اور ان کے بچوں اور عورتوں کو اس لئے اسیر کر لیا گیا کیونکہ ان لوگوں نے زکاة دینے سے
انکار کیاتھا ،مگر مشہور یہ کیا گیا کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے تھے، اگر ان تمام واقعات اور جزئیات کی تفصیل لکھی جائے تو ایک مستقل کتاب مرتب ھو جائے لیکن ھم یھاں پر صرف مالک بن نویرہ اور ان کے خاندان (جنھیں بے دردی سے قتل کیا گیا)کے واقعہ کو نمونہ کے طور پرنقل کرتے ھیں :
ابن حجر اپنی کتاب” الاصابہ“ میں تحریر کرتے ھیں :
رسول اسلام(ص) نے مالک بن نویرہ کو ان کے خاندان سے صدقات وصول کرنے کیلئے اور قبیلہ ٴ بنی تمیم سے زکاة حا صل کرنے پر اپنا نمایندہ مقرر فرمایا تھا۔[22]
اعثم کوفی کھتے ھیں :
خالدبن ولید نے اپنے لشکر کو اس جگہ روک دیا جھاں قبیلہ بنی تمیم رھتا تھا اور گروہ گروہ کر کے تمام اطراف میں لشکر کو بھیجا،چنانچہ ایک گروہ اس باغ میں بھیجا جھاں مالک بن نویرہ اپنے خاندان کے ساتھ رھتے تھے، اس گروہ نے ا چانک حملہ کر کے تمام لوگوں کو گرفتار کرلیا اورمالک اور ان کی بیوی جو بیحد خوبصورت تھی اور ان کے خاندان کو اسیر کر کے خالد بن ولید کے پاس لایاگیا،خالدبن ولیدنے حکم دیاکہ مالک کے تمام خاندان کو قتل کردیا جائے!!
مالک اور ان کے ساتھیوں نے کھا: اے خالد! تو ھم کو کیوں قتل کر رھا ھے حا لانکہ ھم سب مسلمان ھیں ؟ اس وقت خالد نے کھا : خدا کی قسم میں تم سب کو قتل کردوں گا!! یہ بات سن کر ایک بوڑھے شخص نے کھا: اے خالد! کیا ابوبکر نے تجھے یہ حکم نھیں دیا ھے کہ جو کعبہ کی طرف نماز پڑھتے ہوں ان کو قتل نہ کیا جائے؟ خالدنے کھا: کیوں نھیں ، لیکن تم لوگ اصلاً نماز ھی نھیں پڑھتے ہو!
اعثم کھتے ھیں :
اس وقت ابو قتادہ جو خالد کے لشکریوں میں سے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور خالد سے کھا: میں گواھی دیتا ہوں کہ تو ان کو قتل کرنے کا حق نھیں رکھتا، کیونکہ جب ھم ان کو گرفتار کرنے گئے تو ان لوگوں نے پوچھا کہ تم کون ھو ؟تو ھم نے کھا: مسلمان ھیں ،اس وقت انہوں نے بھی کھا : ھم بھی مسلمان ھیں اور اذان دی گئی اور ان سب نے ھمارے پیچھے نماز ادا کی۔
اس وقت خالد نے کھا: اے ابو قتادہ !اگرچہ یہ لوگ نماز پڑھتے ھیں مگر چوں کہ زکاة دینے سے انہوں نے انکار کیا ھے لہٰذا ان کو قتل کیا جائے گا، یہ سنکر وہ بوڑھا مرد زورز ور سے چیخنے لگا ،لیکن خالد نے ان کی ایک فریاداورآہ وبکا کو نہ سنا اور ان سب کو یکے بعد دیگرے بے رحمی ا ور بے دردی سے قتل کردیا!
اعثم کوفی کھتے ھیں :
اس وقت سے ابو قتادہ نے یہ عھد کر لیا تھا کہ جس لشکر ک ا سردار خالد ہوگا اس میں شرکت نہ کرے گا۔
پھر خالد نے مالک کو پکڑ کر آگے کھینچا، مالک نے کھا: اے خالد! تو ایسے شخص کو قتل کر رھا ھیجو کعبہ کی طرف نماز پڑھتا ھے؟! خالد نے کھا: اے مالک! تم مسلمان ہوتے تو زکاة دینے سے انکار نہ کرتے اور نہ اپنے قبیلے کو زکاة دینے سے منع کرتے ، اے مالک ! خدا کی قسم میں تم کو ضرور قتل کروں گا،قبل اس کے کہ تیرے لبوں تک ایک قطرہ ٴ آب پهنچے ،اس وقت مالک نے اپنی بیوی کی طرف چھرہ کیا اور فرمایا : اے خالد! تو مجھے اس (بیوی) کی وجہ سے قتل کر رھا ھے؟
خالد نے کھا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا کیونکہ تو اسلام سے خارج ہوگیا ھے، تونے زکاة کے اپنے سارے اونٹ متفرق کردئے ھیں اور اپنے قبیلے کو زکاة دینے سے منع کردیا ھے، لہٰذا خدا نے تیرے قتل کا حکم دیا ھے ، اس وقت خالد نے مالک بن نویرہ کو تمام لوگوں کے سامنے قتل کر دیا۔
اعثم کوفی کھتے ھیں :
تمام مو ٴرخین نے بالاتفاق نقل کیا ھے کہ خالد نے مالک کو قتل کرکے ان کی بیوی سے شادی کر لی تھی۔ [23]
مشہور مو ٴرخ ِاسلام یعقوبی کھتے ھیں :
مالک کے بھائی متمم بن نویرہ نے اپنے بھائی کے سوگ میں اشعار و مراثی بھت کھے چنانچہ ایک روز متمم شھر مدینہ میں ابوبکر کے پاس گئے اورجب نماز صبحا بو بکر کے ساتھ بجالا چکے تو اپنی کمان پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور مندرجہ ذیل اشعار پڑھنا شروع کر دئے:

نعم القتیل اذاالریاح تناوحت
خلف البیوت قتلت یابن الازور

ادعوتہ باللّٰہ ثم غد رتہ
لوہودعاک بذ مة لم یغد ر

کیا خوب مقتول ھے کہ جب سے قتل ہوا توفضائیں نوحہ کر رھی تھیں ،اے ازور (جھوٹے) کے بیٹے تو نے اس کو پشت خانہٴ کعبہ میں قتل کیا ھے، آیا پھلے تو نے خدا کی طرف اسے دعوت دی اس کے بعد اس کے ساتھ حیلہ و فریب کیا؟ اگر وہ (مالک) تجھے دعوت دیتا اور تیرے ساتھ عھد و پیمان باندھتا تو ایسا ذلیل فعل انجام نہ دیتا۔[24]
ابوبکر نے کھا: نہ میں نے اس کو دعوت دی تھی اور نہ اس کے ساتھ غدر و فریب کیا۔
یعقوبی کھتے ھیں :
عمرنے تخت خلافت پر آنے کے بعد واقعہ جو کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ جن لوگوں کو ابو بکر نے اسیر بنا رکھا تھا ان کو آزاد کر دیا۔[25]
اعثم کوفی کھتے ھیں :
جب مرتدین کے اسیروں کو لایا گیا تو عمر نے قتل کرنے سے منع کردیا تھا چنانچہ ان لوگوں کو ابوبکر نے یں خانہ میں ڈلوا دیا تھا ، لیکن عمر نے ان لوگوں کو آزاد کر دیا۔[26]
جی ھاں! صرف ایک زکاة نہ دینے پر خلفاء نے کس طرح حکم خدا و رسول(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کا خون مباح کر دیا تھا ؟!ظلم کی انتھا یہ کہ ان کے بچوں اور عورتوں کو بھی تہہ تیغ کر دیا گیا !اورجو عورتیں بچے زندہ رھے،ان کے ھاتھ، پیروں میں زنجیرو ھتھکڑی ڈال کر اسلامی دارالحکومت کی طرف خلیفہ کے حکم سے کشاں کشاں لیجایا گیا !(اور کچھ عورتوں سے زبردستی خود عقد کر لیا ! چنانچہ) ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ کو اس فعل کو خطا ء کهنے پر مجبور ہونا پڑا اور پھلی فرصت میں ان قیدیوں کو آزاد کیا ، یہ ھیں مسلمانوں کے چھیتے خلفاء کے سیاہ کارنامے کہ شریعت اسلامیہ کو بالکل بالائے طاق رکھ کر جو دل چاھا حکم صادر کیا!کسی کو کوئی پاس خدا و رسول(ص) نہ تھا!
صحیح مسلم میں آیا ھے :
مولائے متقیان حضرت علی (ع)کو جب جنگ خیبر میں علم دیا گیا تورسول(ص) نے فرمایا : اے علی !”امش ولا تلتفت “جاوٴ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا تو اب علی (ع) کی اطاعت دیکھئے !کچھ دور چلے اور بغیر اس کے کہ چھرہ کو پیچھے کریں اسی طرح کھا :یا رسول اللہ!(ص) اس قوم سے کب تک جنگ کروں؟رسول(ص) نے فرمایا: جب تک یہ قوم خدا و رسول(ص) پر ایمان نہ لائے، بس اسی صورت میں ان کی جان و مال محفوظ ھے اس کے بعدفوراً چل دئے اور جنگ کی .[27]
یہ ھے اسلامی خلیفہ کی اطاعت ِ فرمانِ رسول(ص) ! یہ ھے اسلام کا نظام! ایسے ھی افراد پر خلافت الٰھیہ زیب دیتی اور نازکرتی ھے۔( اور وہ ھے مسلمانوں کے خلیفہ ٴوقت اور نام نھادجانشین ِ رسول(ص) کا کردار !وہ ھے اسلام اور فرمان رسول (ص)کے ساتھ کھلواڑ !! ) بھرحال یہ تھا اس واقعہ کا خلاصہ جو آپ نے ان چند سطروں میں ملاحظہ فرمایا ، صحیحین میں بھی اس کی طرف قدرے اشارہ کیا گیا ھے۔

۲۔ جاگیرفدک اور میراث پیغمبر کی سرگزشت
جھاں اور بھت سی حکم خدا و رسول(ص) کی مخالفتیں دور خلافت ابوبکر میں کی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رسول(ص) کی ساری میراث اورباغ فدک جسے رسول(ص) نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو ھبہ کر دیا تھا واپس لے کر بیت المال میں ملا دیا گیا،اس طرح صدیقہٴطاھرہ کے دل کو رنجیدہ کیا، اس ماجرا کو صحیحین میں دوجگہ عائشہ سے اشارةً نقل کیا گیا ھے ، لہٰذا پھلے ان دو مورد کو ذیل میں ھم معہ متن و ترجمہ پیش کرتے ھیں اس کے بعد ان کی اجمالی توضیح و تحقیق کریں گے:
۱۔…”عُرْوة بن اٴلزُبیر؛ان عائشة ام الموٴمنین؛اخبرتہ ان فاطمة الزھراء علیھاالسلام ابنةَ رسول(ص) اللّٰہ(ص) ساٴ لت ابا بکر الصد یق بعد وفاة رسول(ص) اللّٰہ ان یقسم لھا میراثھا مما ترک رسول(ص) اللّٰہ مما افاء اللّٰہ علیہ، فقال لھا ابوبکر:ان رسول(ص) اللّٰہ قال”لا نورث ما ترکنا صدقة“ فغضبت فاطمة(س) بنت ُرسول(ص) اللّٰہ ، فہجرت ابابکر فلم تزل مھاجرتَہ حتی توفِّیَتْ، وعاشت بعد رسول(ص) اللّٰہ ستَة اشھر،قالت وکانت فاطمة(س) تساٴلُ ابابکرنصیبھا مما ترک رسول(ص) اللّٰہ من خیبروفدکٍ وصَدَقَتَہُ بالمدینة ،فابی ابوبکرعلیھا ذالک…!![28]
عروہ بن زبیر نے عائشہ سے نقل کیا ھے:
وفات رسول(ص) کے بعد حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے ابوبکر سے مطالبہ کیا کہ آپ کو میراث پیغمبر(ص) کا حصہ اور پیغمبر(ص)کی ثروت جو خداوند متعال نے آپ کو بطور خاص عطا فرمائی تھی دی جائے،ابوبکر نے کھا : رسول(ص) نے فرمایا ھے: ”لانورث ما ترکنا صدقة“ھم کسی کو اپنا وارث نھیں بناتے بلکہ جو چھوڑتے ھیں وہ صدقہ ہوتاھے۔
شہزادی کونین( س) اس جواب کو سن کرناراض ہوگئیں اور اسی ناراضگی کی حالت آپ نے د نی ا سے وفات پائی۔
عائشہ کھتی ھیں : فاطمہ(س) وفات پیغمبر (ص)کے بعد چھ مھینے زندہ رھیں اور اس مدت میں آپ اس میراث کو طلب فرما تی رھیں جو رسول (ص)نے خیبر ،فدک اور صدقاتِ مدینہ سے ارث کے طورپرچھوڑا تھا لیکن ابوبکر نے دینے سے انکار کردیا۔
۲۔ … عن عروة عن عائشة؛ ان فاطمہ بنت النبی ارسلت الی ابی بکر تسئلہ میراثھا من رسول الله (ص) مما افاء الله علیھا بالمدینہ وفدک ومابقی من خمس خیبر،فقال ابو بکر:ان رسول الله (ص)قال:” لا نورث ما ترکناصدقة“انما یاٴکل آل محمد فی ہٰذا المال، وانی والله لا اغیر شیئاً من صدقة رسول الله عن حا لھا التی کان علیھا فی عھد رسول الله (ص) ،ولا اعملن فیھا بما عمل بہ رسول الله ، فابی ابوبکران یدفع الی فاطمة منھا شیئاً ،فوجدت فاطمة علی ابی بکر فی ذالک، فہجرتہ فلم تکلمہ حتی توفیت، وعاشت بعد النبی ستة اشھر، فلما توفیت دفنھا زوجھا علی لیلاً ،ولم یوٴذن بھا ابا بکر، وصلی علیھا،وکان لعلی من الناس وجہ حیاةفاطمة(سلام الله علیھا)،فلماتوفیت،استنکرعلی وجوہ الناس،فالتمس مصالحة ابی بکر،ومبایعتہ،ولم یکن یبایع تلک الاشھر،فارسل الی ابی بکران ائتنا ولا یاٴتنا معک احد …!![29]
عروہ نے عائشہ سے نقل کیا ھے :
ایک مرتبہ بنت رسول(ص) حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجا کہ جو رسول(ص) نے باغ فدک و دیگر اموال ِمدینہ میراث کے طورپر چھوڑے ھیں وہ شہزادی کو دے دئیجائیں اور خمس خیبر بھی دیا جائے ۔
ابوبکر نیجواب میں کھلایا : رسول(ص) نے فرمایا ھے: ”لانورث ما ترکنا صدقة“ ھم کسی کو اپنا وارث نھیں بناتیجو چھوڑتے ھیں وہ صدقہ ہوتا ھے بس وہ( آل رسول) اس مال وثروت سے استفادہ نھیں کرسکتے ھیں ،قسم بخدا میں رسول(ص) کا ترک کردہ صدقہ اسی طرح ا ستعمال کروں گا جس طرح رسول(ص) کے زمانے میں استعمال ہوتا تھااور ھرگز تغیر نھیں کرسکتا جس طرح رسو(ص)ل عمل کرتے تھے اسی طرح میں عمل کروں گا۔ پس جب ابوبکر نے میراث رسول(ص) حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو نھیں دی تو حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا ابوبکر پر ناراض ہوگئیں اوراپنی وفات تک ابوبکر سے کلام تک نہ کیا۔ حضرت عائشہ کھتی ھیں : رسول(ص) کی وفات کے بعد شہزادی کونین( س) صرف چھ ماہ زندہ رھیں اور جب آپ نے وفات پائی تو حضرت علی علیہ السلام نے شب کی تاریکی میں انھیں دفن کر دیا اور خود ھی نماز وغیرہ پڑھی، ابوبکر کو خبر تک نہ دی اور جب تک فاطمہ(ع) زندہ تھیں علی علیہ السلام لوگوں کے درمیان وقعت و اھمیت رکھتے تھے، لیکن جب حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کی وفات ہوگئی تو لوگوں کے اخلاق و کردار علی علیہ السلام کے بارے میں بدل گئے اور وہ حضرت علی (ع) کو نفرت کی نظروں سے دیکھنے لگے ،”چنانچہ علی (ع) نے ابو بکر سے مصالحت کرنا چاھی تاکہ بیعت کریں جبکہ حضرت فاطمہ زھر ا (ع)کے ہوتے ہوئے چھ مھینے تک آپ نے بیعت کرنا قبول نھیں کیا تھا، لہٰذا کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا کہ وہ ھمارے پاس تنھا آئیں اور کسی کو ساتھ میں نہ لائیں “۔[30]

عرض موٴلف
یہ دونوں حدیثیں صحیحین میں مفصل مذ کو رھیں ھم نے یھاں پر صرف اپنے استشھاد کے لئے اختصار کے طور پر نقل کیا ھے،بھر حال عائشہ نے اپنے زعم ناقص میں ان دونوں حدیثوں کے ذریعہ معاملہ کو لیپنے پوتنے کا کام کیا ھے، لیکن موصوفہ کی گفتگو سے در حقیقت چند قابل ِ توجہ نکا ت کا ایک ناقابل ِ انکا ر حقیقت سے پردہ فاش کرتے ھیں ، چنانچہ اختصار کے طور پر ذیل میں ھم ان نکات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ھیں :
۱۔ مذکورہ روایت سے ثابت ھو تا ھے کہ رسول(ص) نے صرف میراث میں باغ فدک ھی نھیں چھوڑا تھا جیسا کہ مشہور ھے بلکہ فدک کے علاوہ دیگر اموال، آراضی اور قریہ و دےھات بھی چھوڑے تھیجو اطراف مدینہ میں واقع تھے، [31]اور حضرت عائشہ کی گفتگو سے اسی نکتہ کا استفادہ ہوتا ھے کہ آنحضرت (ص)کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ زھرا (س) ابو بکر کے ساتھ متعدد چیزوں مانند باغ فدک ، خمس ،غنائم ِخیبر، صفایا اور صدقات ِاطراف مدینہ میں اختلاف رکھتی تھیں ۔
ممکن ھے فدک کے مشہور ہونے کی وجہ یہ ھو کہ اس کی مالیت سب سے زیادہ تھی جیسا کہ سنن ابی داؤد (متوفی ۲۷۵ ھ) میں آیا ھے :خلافت عمر بن عبد العزیز ( ۹۹۔۱۰۱ھ )کے زمانہ میں فدک کی سالانہ آمدنی چالیس ہزار دینار تھی۔ [32]
۲۔ ابوبکر نے میراث رسول(ص) حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو نہ دینے کے لئے ایک جعلی دلیل کاسھارا لیا اور اس دلیل (حدیث) کورسول(ص) کی طرف منسوب کر دیا !!
۳۔ فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے اس جعلی قانون کو رد کرتے ہوئے تمام لوگوں کے سامنے واضح کر دیا کہ ابوبکر کا یہ کهنا کہ رسول(ص) نے یہ فرمایا ھے بالکل غلط اور بھتان ھے کیونکہ اگر میرے بابا کا یہ فرمان ہوتا تو مجھ سے وہ یہ بیان کر کیجاتے لہٰذا یہ ابوبکر کی من گڑھت حدیث ھے، اسے میں مردود جانتی ہوں،یھی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے ابوبکر سے تا وفات بات نہ کی اور یھی نھیں بلکہ آپ جنازے میں شرکت کے لئے بھی منع فرما گئیں تھیں ، چنانچہ حضرت علی (ع) نے ابوبکر کو شہزادی کی وفات کی خبر تک نہ دی تھی اور آپ نے خلیفہ ٴوقت کوبغیر اطلاع کئے رسول(ص)کی اکلوتی بیٹی کو راتوں رات نماز جنازہ پڑھ کر دفنا دیا ۔
۴۔حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھااپنی چھ ماہ کی زندگی میں مولائے کائنات (ع) کے لئے مخالفین کے مقابلہ میں سب سے بڑی قوت تھیں ،یھی وجہ تھی کہ جب تلک فاطمہ (س) زندہ رھیں آپ نے(بقول عائشہ ) خلیفہ وقت کی بیعت نہ کی اور شہزادی کے ھو تے ہوئے کسی میں ھمت نہ تھی جوعلی (ع)سے اعلانیہ نفر ت کرتا، لیکن جیسے ھی حضرت فاطمہ زھرا(س)کی وفات ہوئی تو حضرت علی سے لوگوں کے چھرے بدل گئے یھاں تک کہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر سے مصالحت کی خواھش فرمائی!!
” استنکرعلی وجوہ الناس فالتمس مصالحة ابی بکر“!![33]

حد یث” نَحْنُ مَعَا شِرَالَْا نْبِیَاءِ لَانَرِثُ وَلَانُو ْرِثُ“کی حقیقت
قارئین ھماری بحث سے مربوط مذکورہ چار مطالب میں سے صرف پھلے دو مطلب ھیں :
۱۔ میراث رسول(ص) کا غصب کرنا۔
۲۔ جھوٹا قانون جعل کرکے رسول (ص)کی طرف منسوب کردینا۔
ان دو مطلب میں سے بھی ھم میراث رسول(ص) کے غصب کرنے کے بارے میں بحث نھیں کریں گے،کیونکہ یہ بات توتمام موٴرخین کے نزدیک مسلم الثبوت اور مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ ھیکہ یہ حق حضرت فاطمہ زھرا ( س) کا تھا جس سے انھیں محروم کردیا گیا،چنانچہ اس وقت ھماری بحث صرف دوسرے مطلب (جھوٹا قانون )سے ھے، لہٰذا ذیل میں قدرے اس بارے میں تحقیق کرتے ھیں :
چونکہ خلیفہ ٴ اول اس حساس موقع پر اپنی بات کو عملی جامہ پهنانا چاھتے تھے اورجو اموالِ رسول(ص) حضرت فاطمہ زھرا کے پاس تھے انھیں بیت الما ل کا جزء بنانا چاھتے تھے اور اھل بیت نبی(ص) (ص)کے مقابلہ میں پبلک کے سامنے ہزیمت نھیں اٹھانا چاھتے تھے لہٰذا آپ نے حدیث کی صورت میں ایک نیاقانون گڑھا اور اس کی نسبت رسول کی طرفدے دی کہ رسول(ص)نے فرمایا:” ھم (گروہ انبیاء) جوترک کرتے ھیں وہ صدقہ ہوتاھے اور ھمارا کوئی وارث نھیں ھو تا !“[34]
لیکن مذکورہ فرسودہ روایت کی قرآن صراحت کے ساتھ تکذیب کرتا ھے، اس کے علاوہ ذیل میں اس کیجعلی ھو نے پر چند دیگر شواھدو قرائن پیش کرتے ھیں تاکہ اھل انصاف کے لئے تحقیق کا راستہ باز ہوجائے :
اگر اس حدیث کا وجود تھا تو کیوں نھیں ، رسول(ص)نے اپنے اعزا ، اقرباء اور اصحا ب میں بیان فرمایا یھاں تک کہ اپنی بیویوں ، داماد اوربیٹی کے سامنے بھی کبھی اس کا ذکر تک نہ کیا اور حضرت ابو بکر کے علاوہ کسی کو اس کا علم نہ تھا ایسا کیوں؟!
کیا رسول (ص)پر لازم نہ تھا کہ آیہٴ< وَانْذ ِرْعَشِیْرَتَکَ اَلٴاقْرَبِیْنَ < اے رسول(ص)! سب سے پھلے تم اپنے قرابت دارو ں کو ڈراؤ اور ان کو احکام الٰھی سے آگاہ کرو>کے مطابق سب سے پھلے اس قانون کو اپنی بیٹی ، داماد اور دیگر خاندان کے افراد سے بیان فرماتے ،تاکہ اصحا ب ا ور اھل بیت رسول(ص) کے درمیان ارث کے بارے میں اختلاف نہ ہوتا؟! کیارسول نھیں جانتے تھے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی میراث میں ایک شدید اختلاف ھو جائے گا ؟!
اور اگر رسول(ص) نے بیان فرمادیا ھو تا تو پھر حضرت فاطمہ زھرا (س)جو کہ ھر خطا و نسیان سے پاک و پاکیزہ تھیں ،جن کی شان میں آیہٴ تطھیر نازل ہوئی ،کیوں میراث طلب فرمانے کے لئے بنی ھاشم کی عورتوں کے ساتھ اس حا لت میں جاتیں کہ غصہ سے چھرہ زرد ہورھا تھااور چادر زمین پر خط دے رھی تھی اور آپ کی رفتار ھو بھو رسول کی مانند رفتار تھی؟ چنانچہ آپ اس حا لت میں مسجد نبوی میں ابو بکر کے پاس پهنچیں کہ جب ابو بکر مھاجرین ، انصار او ر صحا بہ کے درمیان بیٹھے محو گفتگو تھے، آپ کے پردہ کیلئے مسجد میں ایک چادر تان دی گئی ، اس پردہ کے پیچھے سے شہزادی کی درد ناک آوازآہ وبکا بلند ہوئی ، جس کی وجہ سے اھل مسجد پر ایک سکوت سا طاری ہوگیا اور ایک آہ ونالہ کی فریاد بلند ہوئی، حضرت فاطمہ زھرا (س) نے تھوڑا صبر کیا، یھاں تک آوازیں خاموش ہوئیں اور گریہ رک گیا،پھر آپ نے خطبہ شروع کیا، جس میں سب سے پھلے حمد وثنائے الہٰی بیان فرمائی اور زحمات ِ پیغمبر اور مسئلہٴ خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محکم دلیلوں کے ساتھ مسئلہ ٴ توارث کو بیان فرمایا ، جس کا یہ جملہ آج بھی تمام تواریخ نے قلم بند کیا ھے کہ آپ نے فرمایا:
”یابن ابی قحا فةاٴفی کتاب الله ان ترث اباک ولاارث من ابی“؟!
اے قحا فہ کے بیٹے !کیا یھی کتاب خدا میں ھے کہ تو اپنے باپ کا وارث بنے،لیکن میں اپنے بابا کی وارث نہ بنوں ؟!
اس کے بعد آپ نے رسو ل(ص)کی قبر کی طرف رخ کیا اور ان اشعار کو پڑھا:
اے بابا!جان آپ کے بعد مصیبتوںاور بلاؤں کے پھاڑ ٹوٹ گئے۔
اے بابا!اگر آپ زندہ ہوتے تواس قدر مصائب نہ ڈھائیجاتے ۔
اے بابا!کچھ لوگوں نے اپنے سینوں میں جوکینے چھپارکھے تھے، ان کو ظاھر کردیا، جب آپ چلے گئے اور ھمارے اور آپ کے درمیان مٹی کے ڈھیر حا ئل ہوگئے۔
اے بابا!آپ کیجانے کے بعد کچھ لوگ ایسے ہوگئیجوھم کو بھرے دربار میں ذلیل کرتے ھیں اور نفرت کا اظھار کرتے ھیں ، اے بابا!لیجئے اب ھمارے مال کو صریحا غصب کیا جا رھاھے؟!
”لمااجمع ابو بکر علی منع فاطمة فدک،بلغھا ذالک،لاثت خمارھا، واشتملت بجلبابھا،واقبلت فی لمة من حفدتھا،ونساء قومھا،تطاٴ ذیولھاما تخرم مشیتھا مشیة رسول الله(ص)،حتی دخلت علی ابی بکر،وھو فی حشد من المھاجرین والانصاروغیرھم،فنیطت دونھا ملاٴة،فحنت ثم انت انة،اجھش القوم لھابالبکاء، فارتج المجلس ثم امھلت هنیةً،حتی اذا اسکن نشیج القوم،وھدئت فورتھم، افتتحت الکلام … الی ان قالت:

۱۔ قد کان بعدک انباء وھنبثہ
لوکُنْتَ شاھِدَ ھا لَم تکثر الخطبُ

۲۔ اَبد ت لنارجالٌ نجوی صدورِھم
لَمَّاقضیتَ وحا لَتْ دونک الکثبُ

۳ ۔ تَجْھمتنارجالٌ واستخف بنا
اذغِبْتَ عنا فنحن الیوم مغتصبُ[35]

اگر رسول(ص) نے حدیث بیان فرمائی ہوتی تو ھر گز فاطمہ زھرا.کہ جس کی شان میں رسول(ص)نے بارھا فرمایا تھا: ”جس نے فاطمہ(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی“ [36]ابو بکر سے تاوفات ناراض نہ ہوتیں ، جبکہ آپ خلیفہ سے اس قدر ناراض تھیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے وصیت بھی کردی تھی کہ ابو بکر ان کے کفن و دفن میں شریک نہ ہوں اور اگر یہ حدیث صحیح ہوتی توحضرت امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب (ع)و حسنین علیھم السلام ،جن کی شان میں آیہٴ مباھلہ و آیت تطھیر نازل ہوئیں ھر گز حضرت فاطمہ زھرا (س)کے دعویٰ کی موافقت نہ کرتے ۔
اور اگر یہ حدیث سچی ہوتی تو اھل بیت(ع) کیسے اس بات سے راضی ھو ئے کہ جو صدقہ اور فقراء کا مال ھے اس کو خود ضبط کرلیں ؟!! جبکہ خود صحیحین میں وارد ہوا ھے کہ اھل بیت (ع)پر صدقہ حرام ھے۔
پس مذکورہ باتوں سے ثابت ہوتا ھے کہ آپ حضرات( حضرت فاطمہ زھرا ، حضرت علی ، حسنین علیھم السلام)ابو بکر کو اس حدیث کے بارے میں جھوٹ ا سمجھتے تھے۔[37]

کیا صحا بہٴ کرام ”حد یث لا نورث “سے مطلع تھے ؟!
جیسا کہ ھم نے ضمناً اشارہ کیا کہ حدیث میراث( ھم گروہ انبیاء نہ کسی کو وارث بناتے ھیں اور نہ کسی کے وارث بنتے ھیں )ابو بکر کے علاوہ کوئی بھی صحا بی ٴ رسول (ص)نہ جانتا تھا ، چنانچہ اس بات پر تمام علماء ،محققین اور موٴرخین اھل سنت کااتفاق ھے ، ھم بطورنمونہ چند شواھد ذیل میں نقل کرتے ھیں :
۱۔ ابن ابی الحدیدمعتزلی اپنی شرح نہج البلاغہ میں تحریر کرتے ھیں :
اس حدیث کو صرف ابوبکر نے رسول(ص) (ص)سے نقل کیا ھے اور اس پر تما م بزرگ محدثین اتفاق رائے رکھتے ھیں ، یھا ں تک علم اصول ِ فقہ میں اس واقعہ سے استنباط کرتے ھیں کہ انسان صرف ایک صحا بی کے قول کو دلیل بنا کر دینی موضوعات میں حکم صا در کر سکتاھے،ایک جگہ تحریر کرتے ھیں : یہ بات سید مرتضیٰ(رہ)کی صحیح ھے کہ اس حدیث کو تنھاابوبکر نے رسول(ص) سے نقل کیاھے ۔[38]
۲۔علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب” تاریخ الخلفاء“ میں تحریرکرتے ھیں :
رحلت رسول اکرم(ص)کے بعد اصحا ب کے درمیان آپ کی میراث کے سلسلے میں اختلاف ہوگیاتھااور اس بارے میں کسی کو کوئی اطلاع نہ تھی ، تنھا ابوبکر تھیجنھوں نے فرمایا: میں نے رسول (ص)کو یہ فرماتے ہوئے سنا ھے: ”اِنَّامَعٰشِرَ اْلاَنٴبِْیَاء لانورِْثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَة ً“ھم گروہ انبیاء کسی کو وارث نھیں بناتے ،بلکہ جو کچھ ترک کرتے ھیں وہ صدقہ ہوتاھے ۔[39]
۳۔ علامہ ابن حجر تحریر فرماتے ھیں :
جب میراث پیغمبر(ص) میں اختلاف ہوگیااور اس بارے میں کسی کے پاس کوئی اطلاع نہ ملی ،تب ابوبکر نے کھا: میں نے رسول (ص)سے سنا ھے:”اِنَّا مَعٰشِرَ اَلانْبِیَاءِ لَانُوْرِثُ مَاتَرَکْنَا صَدْقَةً“[40]

کیاازواج رسول(ص)حدیث”لانورث“سے واقف تھیں؟
جس طرحا صحا ب رسول(ص) مذکورہ حدیث سے مطلع نہ تھے، اسی طرحا زواج رسول (ص)کو بھی اس حدیث کی مطلقاً خبر نہ تھی ، لہٰذا اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو کم سے کم رسول(ص)(ص)دوسرے لوگوں سے پھلے اپنی ازواج کو تو ضرور بتلاکر جاتے ؟( یھاں تک کہ آپ نے اپنی چھیتی بیوی حضرت عائشہ سے بھی اس بات کو نہ بتلایا !!) کیونکہ آپ کی ازواج بھی میراث میں حصہ دار تھیں ۔
چنانچہ صحیح بخاری میں عائشہ سے منقول ھے:
خود ازواج پیمبر(ص)نے بھی وفات رسول(ص) کے بعد میراث میں سے اپنے حصہ کا مطالبہ عثمان کے ذریعہ ابوبکر تک پهنچایا،پس اس مطالبہ سے ظاھر ہوتا ھے کہ وہ بھی عملاً ابوبکر کو مذکورہ حدیث نقل کرنے میں منفرد اور کاذب سمجھتی تھیں ، ان کا بھی یھی عقیدہ تھا کہ میراث کا یہ نیا قانون خود ابو بکر کا گڑھا ہوا ھے اور رسول خدا (ص)نے ایسی کوئی حدیث بیان نھیں فرمائی ھے نہ اسلام میں ایسا کوئی قانون پایا جاتا ھے( اوربالخصوص حضرت عائشہ کا مطالبہ ٴ میراث کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ آپ بھی اپنے بابا کو اس معاملہ میں جھوٹا جانتی تھیں ) چنانچہ امام بخاری نے اس بارے میں ایک مفصل حدیث نقل کی ھے ملاحظہ ھو :
”…عن عروة ابن الزبیر:سمعت عایشة زوج النبی: تقول؛ ارسل ازواج النَّبِی صلَّی الله علیہ وآلہ وسلم، عثمان الیٰ ابی بکریسئلنہ ثمنھن مماافاء الله علیٰ رسولہ، فکنت انااَرُدُھن فقلت لھن: الا تتقین الله الم تَعْلَمْنَ ان النبی(ص)کان یقول:”لانورث ماترکنا صدقة“؟یریدبذالک نفسہ انمایاکل آلُ محمد (ع) فی ھذاالمال؟!…“ [41]
عروہ بن زبیر نے عائشہ سے نقل کیا ھے:
ازواج رسول (ص)نے عثمان کو ابوبکر کے پاس بھیجاکہ ان کے حصہ (۸۱)کی میراث ان کو دی جائے،جواللہ نے رسو(ص)ل کو عطاکی تھی عائشہ کھتی ھیں : میں نے ان کو جواب دیاکہ کیا تم کو خوف خدا نھیں ، کیا تم نے نھیں سنا ھے کہ رسول(ص)نے فرمایا :”لَانُوْرِثُ مَاتَرَکْنَا صَدَقَةً“ھم کسی کو اپنا وارث نھیں بناتے، بلکہ جو ترک کرتے ھیں ، وہ صدقہ ھو تاھے ، لہٰذارسول(ص)کے اھل بیت (ع)اس مال سے دیگر مسلمین کی طرح بقدر حا جت اخذکرسکتے ھیں ؟!

عرض موٴلف
جیساکہ ھم نے پھلے اشارہ کیاکہ اس حدیث کو سوائے ابوبکر کے کسی نے نقل نھیں کیا ھے، چنانچہ متذکرہ روایت
میں بھی عائشہ نے دیگر ازواج رسول(ص)کے سامنے اپنے باباجان کے قول کو ھی دھرایا ھے اپنی طرف سے کوئی بات نھیں کھی ۔ اور یہ بات بھی مخفی نہ رھے کہ دوران خلفائے ثلاثہ تمام ازواج کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا اور یہ وظیفہ اس میراث کی خانہ پری کرتا تھا،جس کو ابوبکر نے حدیث کے سھارے سے دبالیا تھا اور حضرت عائشہ کوبنسبت دیگر ازواج رسول(ص)کے ھمیشہ زیادہ ملتارھاھے، بھر حال حقیقت وھی ھیجسے ابن ابی الحدید کے ھم عصر جناب علی ابن الفارقی استاد مدرسہ غر بیہ بغداد نے ابن ابی الحدید سے کھا تھاکہ جب ابن ابی الحدید نے آپ سے پو چھا :
آیا حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کا دعویٰ فدک کے بارے میں صحیح تھا؟
ابن الفارقی نے کھا :جی ھاں !بالکل حق بجانب تھا ،اس وقت ابن ابی الحدید نے کھا: پھر استاد ابو بکر نے فدک واپس دینے سے گریز کیوں کیاجبکہ خود ابو بکر اس بات کو درست سمجھتے تھے ؟ابن الفارقی جوکہ ایک باوقار اور هنسی مذاق سے دور رهنے والے شخص تھے مسکرائے اور اس لطیف جملہ کو بیان کیا : اگر اس روز ابوبکر اس کو مان جاتے اور صرف حضرت فاطمہ(س) کے دعویٰ کرنے پر باغ فدک واپس کردیتے تو آگے چل کر اگر حضرت فاطمہ زھرا (س) اپنے شوھر نامدار کے لئے خلافت کے سلسلے میں دعویٰ کرتیں تب ابوبکر کو ماننا پڑتا اور ابوبکر کوئی عذر پیش نھیں کر سکتے تھے،کیونکہ جب آپ حضرت فاطمہ زھرا (س) کو مسئلہ ٴ فدک میں سچا اور صادق تسلیم کرچکے ہوتے تو پھر مطالبہ ٴ خلافت پر کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہ ہوتی۔پھرابن ابی الحدید کھتے ھیں : اگر چہ استاد نے مجھ سے یہ بات مزاح و شوخی کے طورپر کھی تھی مگر حقیقت میں یہ مطلب صحیح تھا!! یعنی حضرت فاطمہ زھر ا سلا م الله علیھا اپنے قول میں بالکل صادق تھیں :
”ہٰذا الکلام صحیح و ان کان اخرجہ مخرج الدعابة والہزل“[42]

۳۔ صلح حدیبیہ اورحضرت عمرکی کٹ حجتی!!
ابو وائل کھتے ھیں کھ میں جنگ صفین میں تھا، جب لشکر علی (ع)و معاویہ میں جنگ بندی پراتفاق ھو نے کے بعداس کا اعلان کر دیا گیاتوحضرت علی علیہ السلام کے لشکر سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے مخالفت کردی، اس وقت سھیل بن حنیف ، لشکر کے در میا ن کھڑے ھو کر یوں کهنے لگے :
یاایھاالناس اتّھموا انفسکم فانا کنّا مع رسول(ص) الله یوم الحدیبیة،ولونری قتالا لٰقتلنا،فجاء عمربن الخطاب،فقال یارسول(ص) الله !اٴلسنا علی الحق وھم علی الباطل؟فقال:بلی فقال:اٴلیس قتلا نا فی الجنة وقتلا ھم فی النار؟قال: بلی،قال:فعلیٰ مانعطی الد نّیہ فی دیننا اٴَ نرجع ولما یحکم الله بینناوبینھم؟فقال:یا بن الخطاب! انی رسول(ص) الله ولن یُضَیِّعَنیِ الله ابدا،فرجع متغیظا فلم یصبرحتی جا ء ابوبکر، فقال: یا ابابکر! اٴلسنا علی الحق وھم علی الباطل؟ قال:یا بن الخطاب اِنہ رسول(ص) الله ولن یضیّعہ الله ابدا، فنزلت سورة الفتح:<اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحا مُّبِیْناً…>
اے لوگو ! امیر الموٴمنین (ع)کے سامنے اپنا نظریہ بیان نہ کرو اور خود خواھی سے دور رھو ،کیو نکہ میں صلح حدیبیہ میں رسول(ص) کے ساتھ تھا اور ھم تیار تھے کہ اگرجنگ ھو گی توجنگ کریں گے (لیکن جب صلح پر معاھدہ طے پایا) توعمرا بن خطاب آنحضرت (ص)کی خدمت میں آ ئے اور معاھدہٴ صلح پر اپنی ناراضگی کا اظھار کیا اور کهنے لگے: یا رسول (ص)اللہ! کیا ھم حق پر اور مشرکین باطل پر نھیں ھیں ؟! رسول(ص) نے فرمایا:کیوں نھیں ،ھم حق پر ھیں اور مشرکین باطل پر ھیں ،اس پر عمر نے کھا :کیا ھم میں سیجو قتل ہوں گے وہ جنت اور مشرکین کے مقتولین جهنم میں نھیں جائیں گے ؟ رسول(ص) نے فرمایا :کیوں نھیں ، عمر نے کھا: پھر کیوں ھم اپنے موقف میں ذلت اختیار کریں اور بغیر جنگ و فتحیابی کے اپنے وطن واپس چلیجائیں ؟! رسول نے فرمایا:اے خطاب کے بیٹے ! میں الله کا رسول (ص)ہوں ، میں جو بھی اقدام کروں گا،خدا اس کو بے نتیجہ اور ضائع نھیں کر یگا ، عمر پھر بھی رسول(ص)کے کلام سے مطمئن نہ ہوئے اور حا لت غیظ میں واپس آگئے، یھاں تک کہ جب ابوبکر آئے تو ان سے کھا : اے ابوبکر! کیا ھم حق پر اور مشرکین باطل پر نھیں ھیں ؟ ابوبکر نے کھا: اے عمر! وہ خدا کے رسول(ص) ھیں ،خدا ان کے اقدام کو ھر گز ضائع نھیں کرتا ،چنانچہ اسی وقت خدا نے سورہ ٴ فتح نازل کرکے مسلمانوں کو فتحیابی کا مژدہ سنایا۔[43]
مذکورہ حدیث صحیحین میں کئی سند کے ساتھ وارد ہوئی ھے ،ان میں سے ایک حدیث میں یہ جملہ بھی ملتاھے کہ جب سورہ ٴ فتح نازل ہواتو رسول (ص)نے وہ سورہ عمر کے پاس بھجوایا، عمر نے کھا: کیا یہ مژدہ ٴفتح ھے ؟رسول(ص)نے فرمایا:ھاں عمر فتح کی خوشخبری ھے، تب عمر خاموش ھو کر چلے گئے ۔[44]

عرض موٴلف
قارئین کرام ! آپ حضرات مذکورہ حدیث اور آئندہ آنے والے واقعہٴ قرطاس سے رسول (ص)کے سامنے خلیفہ دوم کی جسارت اور جراٴت کااچھی طرح ا ندازہ لگ ا سکتے ھیں اور ان واقعات سے اس بات کا بھی علم ھو جاتا ھے کہ آپ کا رسول اسلام (ع)کے قول و فعل پر کس قدر ایمان ، اعتقادا وراعتماد تھا ؟ اسی طرح صاحبِ<وَماَیَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ. اِنْ ھُوْاِلاَّوَحْیٌ یُوْحیٰ>کے فرمان کے سامنے خلیفہ صاحب کا رد عمل بھی ھمارے لے واضحا ور روشن ھو جاتا ھے ۔
اے ایماندارو ! بولنے میں تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیاکرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زو ر زور سے بولا کرتے ھو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو ،ایسا نہ ھو کہ تمھارا کیا کرای ا سب اکارت ھو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ھو .بے شک جو لوگ رسول خدا (ص)کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرلیا کرتے ھیں یھی لوگ ھیں جن کے دلوں کو خدا نے پرھیزگاری کیلئیجانچ لیا ھے ان کیلئے آخرت میں بخشش اور بڑا اجر ھے ۔[45]

۴۔ واقعہٴ قرطاس اور حضرت عمرکارویہ!!
۱۔…”عبیدالله بن عبد الله بن عتبةعن ابن عباس؛ قال:لماحُضِررسول(ص)الله وفی البیت رجال فیھم عمر بن الخطاب،فقال النبی(ص):ھَلُمَّ اکتب لکم کتابالاتضلون بعدہ ،فقال عمر:ان رسول الله (ص)قد غلب علیہ الوجع،و عندکم القرآن حسبنا کتاب الله ،فاختلف اھل البیت،فاختصموا،فمنھم من یقول قرّبوا یکتب لکم رسول الله(ص) لن تضلّوابعدہ،ومنھم یقول ماقال عمر،فلما اکثرواللغووالاختلاف عند رسول(ص)الله ،قال رسول (ص)الله :قوموا۔قال عبید الله :فکان ابن عباس یقول:ان الرزیة کل الرزیة ماحال بینَ رسول(ص) الله وبین ان یکتب لھم ذالک الکتاب من اختلافھم ولغطھم۔ “[46]
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ ،ابن عباس سے نقل کرتے ھیں :
جب رحلت پیمبر(ص) نزدیک ہوئی اس وقت آپ کے اصحا ب کا ایک گروہ آپ کے خانہ ٴ اقدس میں موجود تھا ،جن میں حضرت عمر بھی تھے ، رسول اللہ(ص)نے فرمایا: مجھے (قلم و دوات ) دیدوتاکہ تمھارے لئے ایک نوشتہ لکھتاجاوٴں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ھو ،عمر نے کھا:ان کے اوپر وجع(شدیدبخار) کا غلبہ ھے ( اس لئے یہ اَوْل فول بک رھے ھیں )ھمارے درمیان کتاب خدا ھے، جو ھمارے لئے کافی ھے ، پس تمام حا ضرین کے درمیان اختلاف ھو گیا اور ایک دوسرے کی آوازیں آنحضرت(ص)کے سامنے بلند ہونے لگیں ،بعض لوگ کهنے لگے : رسول اللہ(ص)کو کاغذو قلم دیدیا جائے تاکہ وہ کچھ لکھ دیں جو ھم کو گمراہ ھو نے سے بچالے اوربعض لوگ عمر کی پیروی میں انکار کررھے تھے، جب بھت زیادہ ھلڑ هنگامہ رسول(ص)کے سامنے بلندھو گیا ،تو رسول(ص) نے فرمایا:یھاں سے چلیجاوٴ! عبید الله کھتے ھیں : ابن عباس کھا کرتے تھے: سب سے بڑی مصیبت اسلام میں یھی تھی کہ اس قدر رسول (ص)کے سامنے اختلاف اور هنگامہ برپاہوا کہ رسول (ص)وصیت نامہ نہ لکھ سکے!!
۲۔…”عن سعید بن جبیر عن ا بن عباس؛انہ قال:یوم الخمیس ومایوم الخمیس؟ثم بکیٰ حتیٰ خَضَبَ دمعہُ الحصباءَ،فقال اشتد برسول(ص) الله وجعُہ یوم الخمیس،فقال ایتونی بکتاب اکتب لکم کتابالن تضلوابعدہ ابدا،فتنازعواولا ینبغی عند نبی(ص) تنازُعٌ ،فقالوا:ھجررسول(ص)الله!وقال(ص):دعونی فاالذی انافیہ خیر مماتدعوننی الیہ،واوصٰی عند موتہ بثلاث:اخرجواالمشرکین من جزیرة العرب، واجیزواالوفَد بنحوماکنتُ اجیزُھم،ونسیت الثالثة!!! [47]
سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ھے:
آپ فرماتے تھے: جمعرات کا دن کس قدر عظیم مصیبت کا دن تھا ،اس کے بعد آپ گر یہ کر نے لگے اور اس قدر گریہ کیا کہ آپ کے آنسووٴں سے پوری ڈاڑھی تر ھو گئی اور کهنے لگے : روز جمعرات جب رسول (ص)کا مرض شدت اختیار کر گیاتوآنحضرت(ص) نے حکم صادر فرمایا : مجھے قلم ودوات دیدو تاکہ تمھارے لئے نوشتہ لکھدوں اور تم گمراھی سے میرے بعد محفوظ رہو۔ لیکن اس حکم پیغمبر (ص)پر لوگ آپس میں جھگڑا کرنے لگے، حا لانکہ نبی (ص)کے سامنیجھگڑانھیں کر نا چاھیئے تھا،چنانچہ بعض افراد (جیسے عمر)کهنے لگے: رسول(ص)ہذیان بک رھے ھیں ، (ان کی بات مت مانو)اس وقت آنحضرت (ص)نے (ناراضگی کی حا لت میں ) ارشاد فرمایا : تم لوگ میرے گھر سے نکل جاؤ، کیونکہ میرے لئے مرض کی تکلیف تمھار ی نافرمانی اور حکم عدولی کی تکلیف سے بھتر ھے۔
ابن عباس کھتے ھیں : رسول(ص) نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت کی تھی :
۱۔ حکم دیا کہ مشرکین کو جزیرةالعرب سے باھر نکال دو۔
۲۔ جو لوگ شھرمدینہ آئیں ان کو انعام وعطای ا سے نوازا جائے، جس طرح میں اپنی زندگی میں ان کو نوازتا تھا۔
۳۔ تیسری چیز میں ( راوی) فراموش کر گیا!!

عرض موٴلف
یہ حدیث صحیح مسلم میں ابن عباس سے دو طریق (سند) سے نقل کی گئی ھے : پھلاطریق؛ سعید بن جبیر تک پهنچتا ھے
اوردوسرا طریق ؛عبیداللہ بن عتبہ تک پهنچتا ھے۔[48]
صحیح بخاری میں سات (۷) موارد پر مختلف اسناد کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا گیا ھے ۔
چونکہ یہ حدیث متن و الفاظ کے اعتبار سے صحیح بخاری میں ھر جگہ کچھ نہ کچھ مختلف نقل کی گئی ھے ،لہٰذا ان میں قابل ِ توجہ نکات اوراختلاف کی طرف ھم اشارہ کرتے ھیں :
پھلانکتہ:۔ صحیح بخار ی کے سات موارد میں سے تین ایسے مورد ھیں جھاں پر صراحت کے ساتھ مذکور ھے کہ حضرت عمر نے رسول(ص)اسلام کے حکم کی مخالفت کی اور آپ کو وصیت لکھنے سے روک دیا اور ان میں یوں آ یا ھے کہ عمر نے کھا : ”فقال عمر:ان رسول الله قد غلب علیہ الوجع…“ [49] رسول(ص) پربخار کا غلبہ ھے، اس لئے آپ الٹی سیدھی باتیں بک رھے ھیں !!
اور چار جگہ پرراوی نے رسول(ص) کی مخالفت کرنے والے کے نا م کو ذکر نہ کرکے لفظ ”بعض“ اور”قالوا“وغیرہ کہہ کر نام چھپانے کی کو شش کی ھے،ان میں سے ایک جگہ” بعض“ اور” قد غلب علیہ الوجع“کے ساتھ یوں استعمال ہوا ھے :”فقال بعضھم: ان رسول(ص) الله ، قد غلب علیہ الوجع ((پس بعض لوگوں نے کھاکہ رسول(ص) پر بخار کا غلبہ ھے))[50]اور تین ” قد غلب“ کی جگہ ہجر اور بعض کی جگہ”فقالوا “کے ساتھ اس طرح آ یا ھے:”فقالوا:ھجر رسول الله …“((پس لوگوں نے کھا : رسول(ص) ہذیان بک رھے ھیں ))۔[51]
بھر کیف مذکورہ احادیث کے مضمون اوران میں موجود تمام قرائن کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل عیاں ھو جاتی ھے کہ جس نے رسول(ص)کو وصیت لکھنے سے باز رکھا ، جس نے اس معاملہ میں سب سے پھلے شبہ کا القاء کیا، وہ حضرت عمرھی تھے،لہٰذاان حدیثوں میں مذکورہ اختلافِ الفاظ:”فقال بعضھم“اور”فقالوا
ہجررسول الله “حقیقت کو نھیں چھپ ا سکتا ،کیونکہ ا گر چہ کچھ روایتوں میں لفظ ِ”بعض“ آیا ھے لیکن بعض روایتوں میں صراحت کے ساتھ خلیفہ صاحب کے نام کا ذکر ھیجو لفظ ”بعض“ کے پیچھے چھپے ہوئے شخص کی نشان دھی کرتا ھے اور جو لوگ حا ضرین میں رسول (ص)کی وصیت قبول ا و ررد کرنے کے بارے میں مخالفت کررھے تھے، وہ حضرت عمر ھی کی وجہ سے وجود میں آئی، کیونکہ ان کے قول کے بعد کچھ لوگوں نے آپ( عمر ) کی موا فقت کی اور کچھ لوگوں نے مخالفت کی ،پس جس جگہ لفظ ِ”بعض“ کا استعمال ہوا ھے، وہ بھی حضرت عمر کے اشارہ او ر ایماء سے ھی وجود میں آیا:
”فقال عمر:ان رسول (ص)الله قد غلب علیہ الوجع وعند کم القرآن حسبنا کتاب الله ،فاختلف اھل البیت، فاختصموا،فمنھم من یقول قربو ا یکتب لکم رسول الله کتاباً لن تضلوا بعدہ ،ومنھم من یقول ما قال عمر۔۔ “
ابن ابی الحدیدنے ابن عباس اورعمر میں ایک مرتبہ ملا قا ت کے درمیان جو گفتگوہوئی اس کو بالتفصیل نقل کیا ھے، جس میں حضرت عمر نے صریحا اس بات کو قبول کیا ھے کہ میں ھی نے آنحضرت(ص)کو وصیت لکھنے سے باز رکھا :
”و لقد اراد ان یصرح باسمہ، فمنعت من ذالک “
رسول(ص)حا لت مرض میں چاھتے تھے کہ خلافت کے بارے میں علی (ع) کے نام کی تصریح کردیں ، لیکن میں نے ان کو اس بات سے باز رکھا ۔“
ابن ابی الحدید اس کے بعدکھتے ھیں :
”ذکر ہٰذاالخبر احمد بن ابی طاھرصاحب کتاب تاریخ بغداد فی کتابہ مسندا۔“[52]
اس واقعہ کو احمد بن ابی طاھر تاریخ بغداد کے موٴلف نے اپنی کتاب میں باقاعدہ تما م اسناد کے ساتھ تحریر کیا ھے ۔
دوسرانکتہ:۔ دوسرا قابل غور نکتہ یہ ھے کہ جب رسول اسلام(ص) نے وصیت لکھنے کے لئے قلم دوات طلب فرمایا تو جواب میں آنحضرت (ص)کے لئے ”ھجررسول الله “ اور”قد غلب علیہ الوجع “ جیسے کلمات استعمال کئے گئے!جو مفہوم اور معنی کے لحا ظ سے ایک ھیں ، یعنی جس طرح ”ھجررسول الله “سے توھین رسالت ھو تی ھے، اسی طرح ”قد غلب علیہ الوجع“سے توھین رسالت ظاھر ہوتی ھے اور ”ہجر رسول الله “کہہ کر ہذیان اور بیہودہ گوئی کی نسبت خاتم الانبیاء (ص)کی شان میں دینا تونھایت ھی بدتمیزی اور گستاخی ھے!! یھی وجہ ھے کہ جب رُواة ِاحادیث اور موٴرخین ِ اھل سنت و الجماعت نے اس چیز کو دیکھا کہ اس روایت میں ہجر و ہذیان کی نسبت رسول(ص) کی طرف خلیفہ صاحب کی جانب سے صراحت کے ساتھ دی گئی ھیجو قابل ِ تنقید واعتراض ھے اور اس طرح کی نسبت رسول(ص) کی طرف دینا صریحا قرآن کے مخالف ھے :<مَاْ ضَلَّ صَاْحِبُکُمْ وَمَاْ غَوٰی…>(نہ تمھارادوست گمراہ ھو ااور نہ بھکا) لہٰذا اپنی پرانی خصلت کے مطابق روایت کے الفاظ میں اس طرح ردو بدل کردی کہ جھاں ہجر (ہذیان ) کا لفظ تھا وھا ں لفظ ِ عمرکو چاٹ گئے اور ہذیان کی نسبت حا ضرین ِ مجلس(فقالوا ہجر رسول الله ) کی طرف دے دی!!
ا ورجھاں خلیفہ صاحب کا نام صراحتاً یا کنایةً جیسے لفظ بعض کی آڑ میں مذکور تھا وھاں جملہٴ ”قدغلب علیہ الوجع“(ان کے اوپر بخار کا غلبہ ھے ) جوکنایہ کی صورت میں ھے اضافہ کردیا ،تا کہ اپنے محبوب کو تنقید سے کچھ حد تک بچایا ج ا سکے!!لیکن اگر غور کیا جائے تو جیسا کہ پھلے ھم نے اشارہ کیا کہ حا ضرین کے درمیان اختلاف کرنے کا شوشہ حضرت عمر ھی کی جانب سے چھوڑا گیا تھا یعنی حضرت عمرسے پھلے رسول(ص) کی بات قبول کرنے میں کوئی بھی آنا کانا نھیں کر رھا تھا، یہ تو صرف آپ کی ھی دین تھی جس کی وجہ سے لوگوں میں حکم ِ رسول کی بابت چہ می گوئیاں ہونے لگیں،لہٰذا حا ضرین کی جانب سے اگر رسول(ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تھی تووہ حضرت عمر ھی کے الفاظ دھرا رھے تھے اوراس سلیقہ سے پےش آنے کا طریقہ حضرت عمر نے ھی بتلایا تھا!![53]
تیسرا نکتہ :۔تیسرا نکتہ جو اس حدیث کے ذیل سے مربوط ھیجسے اھل سنت کے بعض محدثین وموٴلفین نے نقل کیاھے اور بعض نے نھیں، یہ ھے کہ جب رسول (ص) تحریری وصیت نامہ نہ لکھ سکے تواس وقت آپ نے تین چیزوں کی وصیت کی ،لیکن ان تینوں وصیتوں میں سے( بعض ناقلین ِ حدیث نے) صرف دو کو تو قلمبند کیا ھے مگر تیسری چیز کے بارے میں کھا گیا کہ راوی فراموش کر گیا!!
سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ وہ تیسری کون سی شےٴ تھی جسے راوی فراموش کر گیا ؟!آخر تیسری وصیت کے یاد رکھنے کے موقع پر ھی کیوں راوی کے ذهن پرمکڑی نے فراموشی کا جالا تنا ؟! یقینا کوئی ایسی شیٴتھی جس کے فراموش کرنے میں راوی کو مصلحت نظر آئی اور بقیہ یا د رہ گئیں ؟!
بھر حال اتنی بات تومسلم ھے کہ تیسری کوئی ایسی خاص شےٴتھی جس کے اھتمام کے لئے رسول(ص) نے حساس موقع پر لکھنے کی ضرورت محسوس کی اور زبانی بتانے پر اکتفاء نہ کی اور ارشاد فرمایا : قلم و دوات دے دو تاکہ میں لکھدوںاور تم گمراھی سے محفوظ رہو۔
پس اتنا تو ماننا ھی پڑے گاکہ جس تیسری شےٴکی رسول وصیت کر رھے تھے وہ گمراھی سے بچانے والی تھی ،لہٰذا اب ھ میں جستجو اس بات کی کرنا ھے کہ آخر وہ شےٴجو گمراھی سے امت ِ محمد(ص) کو بچانے والی ھے وہ کیا ھے ؟کیا دیگر مورخین ومحدثین نے کوئی ایسی شے ٴ بتلائی ھیجو رسول(ص) کی امت کو گمراھی سے بچالے ؟تواس کے لئے اکثر علمائے اھل سنت کا اتفاق ھے اور اس کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیاھے کہ رسول(ص) نے فرمایا:
”انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا ابداً کتاب الله و عترتی …۔“
اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ یجارھا ھو ں ایک کتاب خدا ھے اور ایک میری عترت جو میرے اھل بیت(ع) ھیں ،اگر تم نے ان سے تمسک کیا توگمراھی سے محفوظ رھو گے اور یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سیجدا نھیں ہوں گی یھاں تک کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ ھمارے پاس حوض کوثر پر واردہوں گی… ۔
چنانچہ اسی بات کیلئے رسول(ص) بار بار قلم مانگ رھے تھے:
”فقال اٴِیتونی بکتاب اکتب لکم کتابالن تضلوا بعدہ ابدا“
اب آپ خود ھی فیصلہ کریں کہ جو چیز نجات ِ مسلمین کا باعث ہووھی راوی بھول جا ئے(اورجو قابل اھمیت نہ ھو ں وہ یاد رہ جائے )تعجب خیزنھیں تو کیاھے ؟!!
پس ثابت ھوا کہ رسول(ص) بوقت وفات ایک بھت ھی اھم امر کی وصیت کرنا چاھتے تھے کہ جس کی وجہ سے بعض صحا بہ کی طرف سے ایسا ر د عمل ھو ا کہ آنحضرت(ص) جیسی بلند شخصیت کے مقابلہ میں بھی مخالفت کرنے کھڑے ھو گئے!! [54]اوریھی نھیں کہ رسول اسلام (ص)کے حکم کی ان لوگوں نے نافرمانی کی، بلکہ یہ لوگ باقاعدہ آپ کی اھانت کرنے پر تل گئے !اور کهنے لگے:
رسول(ص) کا دماغ خراب ھو گیا ھے ! معاذالله یہ دیوانے ھو گئے ھیں!ان کی باتیں کوئی نہ سنے !یہ پاگل پن اور ہذیان کی باتیں کرتے ھیں !!!
بھر حال ان تما م باتوں سے ثابت ھو تا ھے کہ رسول(ص) بوقت آخرایک ایسی اھم شے ٴلکھنا چاھتے تھیجو بعض لوگوں کو ہضم نہ ھو سکی اور مخالفت کر بیٹھے! اور قابل توجہ بات یہ ھے کہ سلسلہ ٴ رواة میں سے ابن عباس اور سعید بن جبیر نے تیسری وصیت کو نقل کیا تھا لیکن جب یہ سلسلہ تیسرے راوی جناب سلیمان تک پهنچا تو وہ تیسری شے ٴ بھول گئے:(ونسیت الثالثھاور میں تیسری وصیت فراموش کر گیا!)کیونکہ بخاری تصریح کرتے ھیں :
”سفیان بن عینیہ اس حدیث کے سلسلہٴرواة میں سے چوتھے فردکھتے تھے :یہ قول (نسیت الثالثہ“ میں تیسری وصیت بھول گیا) سعید بن جبیر یا ابن عباس کا نھیں بلکہ سلیمان کا ھے ”قال سفیان بن عینیہ: ھذامن قول سلیمان“سفیان کھتے ھیں :” مجھ سے سلیمان نے کھا: میں تیسری وصیت فراموش کر گیا“ ۔[55]
پس نتیجہ یھی نکلتا ھے کہ جس چیز کو فراموشی کا نام دیا گیاوہ صرف اھل بیت(ع) کی حا کمیت اور بالاخص علی (ع)کی خلافت کامسئلہ تھا جس کو دیگر مقامات پر مثلاًابن عباس اور عمر کے درمیان کی گفتگو میں وضاحت کے ساتھ ذکر کیاگیا ھے ۔

عرض موٴلف
مردہ باد ایسی سیاست جس نے رسول(ص) کو واضحا ور روشن حقائق کے بیان سے باز رکھا ،زائل ھو جائیں وہ ذهن جو عالی اور لازمی مطالب کو سیاست میں فراموش کر جائیں !! لعنت ھو ایسی سیاست پر جس کی وجہ سے حقائق میں تحریف کردی جائے!!!

ایک اعتراض
بعض علمائے اھل سنت اعتراض کرتے ھیں کہ اگر اس قدر رسول(ص) کی وصیت اھمیت رکھتی تھی تو پھر رسول(ص) (ص)بعض لوگوں کی مخالفت کی بنا پر لکھنے سے باز کیوں رھے ؟کیوں نھیں آپ نے اپنی وصیت کو تحریر کیا جو امت کے نفع کے لئے تھی ؟

مذکورہ اعتراض کاجواب
اس سوال کیجواب میں ھم علامہ سید شرف الدین مرحوم کے قول کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں جو معترضین کا منھ توڑ جواب ھے :
”وھی نظریہ جو (ہذیان یا غلب علیہ الوجع) حا ضرین مجلس کی طرف سے پیش کیا گیا، اسی کو مد نظر رکھتے ھو ئے رسول(ص) (ص)وصیت لکھنے سے باز رھے ،کیونکہ جب رسول اسلام(ص)کے سامنے ھی اس قدر اختلاف و تند مزاجی بڑھ گئی اور ایک هنگامہ اٹھ کھڑا ہواتھا؟ تو اب اگر رسول(ص)کچھ لکھتے بھی تو اس کا اثرکیا مر تب ھو تا؟سوائے فتنہ وفساد بڑھ جا نے کے اور وھیں پرجنگ و جدال کی نوبت آجاتی، لہٰذ ارسول(ص) کے لئے بھتر یھی تھا کہ آپ کہہ دیں:” یھاں سے نکل جاوٴ!“(قوموا عنی)اور اگر رسول(ص) اپنے حکم کے صادر کرنے میں اصرار کرتے تو وہ افراد اس سے بھی زیادہ سرکشی اور سختی کرتے ،جس کو رسول(ص)کی نظر یں دیکھ رھی تھیں اور رسول (ص)کے ہذیان پر زیادہ سے زیادہ دلائل پیش کرتے اوران کی اندھی تقلید کرنے والوں کی طرف سے آج رسول (ص)کے ہذیان پر سینکڑوں کتابیں لکھ دی جاتیں ! ہزاروں صفحا ت پر کئیجاتے ! چنانچہ رسول(ص)نے بغیر کسی اصرار کے اپنی بات کو دبا لیا اور خاموش ھو گئے ، دوسری جانب رسول خدا(ص)جانتے تھے کہ چاھے وصیت لکھی جائے ،یا نہ لکھی جائے ، حضرت علی علیہ السلام اور ان کے صحیح چاهنے والے رسول(ص) کی بات کے سامنے مطیع اور خاضع ھیں اورمخالفین کو امیرالموٴمنین حضرت علی (ع) کو خلیفہ تسلیم ھی نھیں کرنا ھے ،لہٰذاوصیت لکھنے سے کچھ فائدہ نھیں تھا۔[56]
خلاصہ یہ کہ جب رسول(ص) نے یہ احساس کرلیا کہ یہ لوگ میرے سامنے ھی مجھے پاگل اور دیوانے کی نسبت دے رھے ھیں تو اگر میں اس وقت حضرت علی (ع) کے حق میں وصیت لکھ دو ں گاتو یہ لوگ میری جانے کے بعد میرے ہذیان اور دیوانے پن کوثابت کرنے میں اور کوشاں ھو جائیں گے اور یہ وصیت نامہ میری نبوت کو درجہٴاعتبار سے ساقط کر دے گا اور نتیجہ وھی ھو گا جو اس وقت میں ملاحظہ کر رھا ہوں،بلکہ اس سے بھی بدتر حال ھو جائے گا، لہٰذا رسول(ص) کی حکمت ِ بالغہ اور دور اندیشی کا تقاضہ یہ تھا کہ وصیت لکھنے سے اجتناب فرمائیں تاکہ اصل نبوت پر اعتراض اور انتقاد کرنے کا دروازہ بند رھے۔

۵۔ حج تمتع اورخلفا ئے اسلام!
تاریخ اسلام کی روشنی میں یہ بات پا یہٴ ثبوت تک پهنچ چکی ھے کہ حضرت عمر کے دور حکومت میں بھت سے اسلامی احکام کی مخالفت کی گئی اور بغیر کسی جھجھک کے حضرت عمر نے دستور ِ خداو رسول (ص) میں تغیرو تبدل کیا، ان میں سے ایک حکم حج تمتع ھیجسے حضرت عمر نے اپنے زمانے میں حرام قرار دے دیا تھا، لیکن حضرت علی (ع) نے خلفاء کے اس بدعتی رویہ کی دور عثمان اور موصوف کے زمانہٴ خلافت کے بعد شدید مخالفت کی، یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے سچے چاهنے والے اصحا ب کو اس حکم کے اصلی صورت پر لانے کے لئے بھت ھی زیادہ زحمت اور کوشش کرنا پڑ ی تب کھیں امام کواس حکم ِخدا ورسول (ص)کو اصلی صورت پر لانے میں کامیابی ہوئی، اس طرح عمر کے دستور کے مطابق جو ابھی تک عمل ہوتا آیا تھاوہ ختم کیا گیا اور قابل توجہ بات یہ ھے کہ آج تمام علمائے اھل سنت بھی عمر ابن الخطاب کے نظریہ کے خلاف حج تمتع کیجواز کا فتویٰ دیتے اور عمل کرتے ھیں ۔ [57]
لہٰذا ضروری ھے کہ ھم یھاں پر اس حکم کی کیفیت کے بارے میں کتب احادیث بالخصوص صحیحین سے جواستفادہ ھو تا ھے اس کو قارئین کی خدمت میں نقل کریں:

حج تمتع کسے کھتے ھیں ؟
حج تمتع یہ ھے کہ انسان شوال،ذیقعدہ یا ذی الحجہ کے مھینوں میں سے کسی ایک میں اپنے میقات سے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے ،اس کے بعد مکہ میں داخل ہواور طوافِ کعبہ ،سعی بین ِ صفاو مروہ اور تقصیر (سر کے تھوڑے سے بال کٹوانا )کرکے احرام سے خارج ہوجائے یعنی وہ چیزیں جو حا لت ِ احرام میں حرام ہوتی ھیں وہ تقصیر کے بعد حلال ہوجاتی ھیں ،پھر تقصیر کے بعد اسی سال مکہ سے حج کے لئے احرام باندھے اور عرفات کے لئے روانہ ہوجائے ،عرفات کے بعد مشعر کی طرف کوچ کرے ،اس کے بعد منیٰ آئے اور بقیہ اعمال”رمیٴجمرہ،قربانی وطواف وغیرہ“ انجام دے، اسے حج تمتع کھتے ھیں اوراس حج کو حج تمتع اس لئے کھتے ھیں کہ اس حج میں لذت (متعہ) حا صل کرنے کو جومحرماتِ احرام میں سے ھیجائزقرار دیاگیا ھے ،کیونکہ دو احرام (احرام عمرہ واحرام حج )کے درمیان فاصلہ ھے اس فاصلہ میں وہ کام جو حا لت ِ احرام ِ عمرہ میں حرام تھے اور جو آئندہ احرام ِ حج میں حرام ھو جائیں گے وہ حلال کر دئیجاتے ھیں ، اس طرح یہ شخص احرامِ حج کے باندھنے تک ان لذات سے استفادہ کر سکتاھے ، مگریہ ان لوگو ں کے لئے ھیجو مکہ ٴمعظمہ سے تقریباً۷۸کلو میٹر دور رھتے ھیں اوریہ حکم نص ِقرآن اورقول و فعل ِرسول (ص)کے ذریعہ پایہٴ ثبوت تک پهنچ چکا ھے، چنانچہ اس بارے میں ارشاد الہٰی ھو تا ھے:
<…فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِاِلیَ الْحَجِّ فَماَاسْتَیْسَرَمِنْ الْھَدْیِ فَمَنْ لَمْ َیجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثةِاَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبْعَةٍاِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَةُکاَمِلَةٌ ذَالِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اَھْلُہُ حا ضِرِیِْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوْااْللّٰہَ وَاعَْلَمُوْااَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ>[58]
پس جو شخص اعمال ِ عمرہ انجام دے چکا اور اعمال حج انجام دینا چاھتا ھے اس کے لئے ضروری ھے کہ جو قربانی میسر آوے کرنی ہوگی اورجس سے قربانی ناممکن ھو تو تین روزے زمانہٴحج میں (رکھنے ہوں گے )اور سات روزیجب تم واپس آوٴ یہ پوری دھائی ھے،یہ حکم اس شخص کے لئے ھیجس کے لڑکے بچے مسجدالحرام(مکہ )کے باشندے نہ ہوں اورخداسے ڈرواور سمجھ لو کہ خدابڑ ا سخت عذاب والاھے ۔“
اس بارے میں احادیث بھی تواتر کے ساتھ پائی جاتی ھیں چنانچہ چند احادیث ھم آئندہ نقل کریں گے ۔

آنحضرت(ص)کادورجاھلیت کی بیہودہ رسوم کے خلاف جدوجھدکرنا
دورجاھلیت میں اعمال عمرہ ”ماہ شوال،ذیقعدہ اورذی الحجہ “ میں بجالانا ایک بھت بڑاگناہ سمجھاجاتا تھا ،لیکن آنحضر ت (ص)نے اعلان ِبعثت کے بعد حکم صادر فرمایا: اعمال عمرہ انھیں میں سے کسی ایک ماہ میں انجام دئےجائیں گے،اس طرح آ پ نے حج ِ تمتع کو ان مھینوں میں تشریع کر کے دور جاھلیت کے خود ساختہ قانون کو بدل دیا،مگر چونکہ یہ قانون ایک نیا قانون تھا، لہٰذابعض مسلمانوں کے لئے گراں اور ناقابل قبول گزرا اوروہ حکم رسول(ص) کی مخالفت پر اتر آئے۔
امام بخاری اور مسلم نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں اس ماجرا کو ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ھے :
۱ ۔…”عن ابن عباس؛قال:کانوایرون ان اٴلعمرةَ فی اشھرالحج من افجرالفجورفی الارض،ویجعلون المحرَّمَ صفراً،ویقولون اذابَرَءَ َالدَبَرُوعَفَاالاثَرَُوانْسلَخَ صَفَرحَلَّتِ العُمرَةُ لمن اعتمر،قدم النبُی (ص)واصحابُہ صبیحةَرابعة مُھلِیّن بالحج،فامرھم ان یجعلوھاعمرة،فتعاظم ذالک عند ھم، فقالوا:یارسول الله ! اَیُّ الحِلِ؟ قال:حِلٌّکلہ “[59]
امام بخاری اور مسلم نے ابن عباس سے نقل کیا ھے:
اسلام سے پھلے حج عرب کے مھینوں (شواّل،ذیقعدہ ،ذی الحجہ ) میں اعمال عمرہ بجالاناروئے زمین پر سب سے بڑا گناہ سمجھتے اور کھتے تھے: جب ماہ صفر ختم ھو جائے تو اعمال عمرہ بجالانا حلال ھے (یعنی صفر کا مھینہ تمام ہونے کے بعد اعمالِ عمرہ بجالا نا جائز سمجھتے تھے )ابن عباس کھتے ھیں : رسول خدا(ص)اپنے اصحا ب کے ساتھ ماہ ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح میں اس حالت میں مکہ وارد ہوئے کہ آپ احرام ِحج زیب تن فرمائے ہوئے تھے، آنحضرت(ص)نے فرمایا: اس احرام کو عمرہ میں تبدیل کرد و(یعنی ابھی جواحرام باندھے ہوئے تھے ،اس کو احرامِ عمرہ سمجھو)اور احرام ِ حج سے خارج ھو جاوٴاور اب تم محل ہوگئے ،لیکن یہ دستور کچھ اصحا ب پر گراں گزرا،لہٰذا قبول کرنے سے آنا کانی کرنے لگے اور کهنے لگے:یا رسول اللہ!احرام سے خارج ھو نے کی وجہ سے کون کون سی چیزیں حلال ہوں گی ؟!آنحضرت (ص)نے فرمایا:تمام وہ چیزیں جواب تک حرام تھیں۔
۲۔…”عن جابرابن عبداللّٰہ؛ قال:اَھْلَلْنَا مع رسول(ص) اللّٰہ بالحج خالصاًلانخلطہ بعمرة،فقَدِ مْنَامکةلاربع لیال خلون من ذی الحجة،فلمّا طفنا بالبیت وسعینا بین الصفاء والمروة امرنا رسول(ص) اللّٰہ ان نجعلھا عمرة وان نحل الی النساء،فقلنا:ما بیننا، لیس بیننا و بین العرفة الاخمس، فنخرج الیھا ومذاکیر نا تقطرمنیا،فقال رسول(ص) اللّٰہ: انی لابرکم واصدقکم ولولاالھدی لاحللت، فقال سراقة ابن مالک: امتعتنا ھٰذہ لعامنا ھٰذاام للابد؟فقال:لا۔لابد الاباد“[60]
جابر بن عبداللہ سے منقول ھے :
ھم لوگوں نے رسول(ص)کے ساتھ تنھا احرام حج باندھا ، بغیر اس کے کہ عمرہ کو اس میں دخل ھو اور چار راتیں ماہ ذی الحجہ کی گزر چکی تھیں کہ وارد مکہ ہوئے ،جب طواف و سعی بین صفا ومروہ سے فارغ ہوئے تو آنحضرت(ص)نے حکم فرمایاکہ ان تمام اعمال کو اعمال عمرہ سمجھواوراب ھماری عورتیں ھمارے لئے حلال ھو جائیں گی ،جابر کھتے ھیں : اس حکم کو سن کر ھم لوگ آپس میں چہ می گوئیاں کرنے لگے اور کهنے لگے : اب سے عرفہ تک صرف پانچ دن کافاصلہ ھے ،کیا ھم عرفہ کے لئے اس حا لت میں حرکت کریں گے کہ ھمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپکتی ہو!(اس اعتراض کو رسول(ص)نے سن کر ) فرمایا: میں تم سب سے زیادہ احکام خداوندی کا پاسباں، وفادار اور سب سے نیک ہوں ،اگر میں قربانی کا جانورنہ لایا ہوتاتو تمھاری طرح میں بھی احرام سے خارج ھو جاتا، سراقہ بن مالک نے کھا :
آیا یہ حج تمتع صرف اسی سال کے لئے خاص ھے یا ھمیشہ کے لئے ؟رسول (ص)نے فرمایا: نھیں ،یہ ھمیشہ کے لئے ھے ۔
--------------------------------------------------------------------------------

[1] الاٴم جلد۱،کتاب تالطھارة ، باب ”ما یوجب الغسل ولا یوجبہ “صفحہ ۳۱ ۔
[2] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الحیض، باب(۲۲)”نسخ الماء من الماء ووجوب الغسل بالتقاء الختانتین“ حدیث ۳۴۸، ۳۴۹۔
[3] صحیح بخا ری: جلد۱، کتاب الغسل، باب ”غسل ما یصیب من فرج المراٴة“ حدیث ۲۸۷۔ ۲۸۸۔۲۸۹۔ کتاب الوضوء، باب ”من لم یر الوضوء الا من المخرجین من القبل والدبر“ حدیث نمبر۱۷۷ صحیح مسلم جلد۱، کتاب الحیض، باب(۲۱)” انما الماء من الماء“ حدیث۳۴۷۔
[4] فتح الباری جلد ۱،کتاب الغسل ، باب” غسل ما یصیب من رطوبة فرج المرائة“ ص ۳۳۹۔
[5] صحیح بخاری ج۶ ،کتاب فضائل القرآن، باب” جمع القرآن“ ح۴۷۰۲۔( تاریخ یعقوبی ج۲ ،ص۱۷۰۔ مترجم)
[6] بیان در علوم ومسائل کلی قرآن ، جلد ۱ ،ص۴۴۹ ، ترجمہ موٴلف و آقائی ھریسی۔
[7] سنن ترمذی جلد۱، باب(۹۸) ابواب طھارت حدیث ۱۳۱،ص۸۸۔
[8] ھمیں سب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پر ھے جو خلیفہ صاحب کی اس بارے میں اندھی حمایت کرکے نار جحیم کے مصداق بن رھے ھیں !! مسلمانو ! ذرا انصاف سے بتاوٴ کیا قرآن جلانے کا حکم عظمت ِ قرآن کے مخالف نھیں ؟ مترجم۔
[9] الکافی ،((الروضة )جلد ۸، ”تاسف علی(ع) حدیث بعض ما حدث بعد رسول لله “ص ۵۱۔کتاب سلیس بن قیس ، ”کلام علی عن بدع ابی بکر و عمر و عثمان “ص۱۶۲۔ بحا رالانوار جلد ۸،ص ۷۰۴۔ احقاق الحق جلد ۱،ص۶۱۔
[10] شیعہ مذھب کے مطابق ام ولد کوفروخت نھیں کیا جاسکتا۔ دیکھئے : فقھی کتابیں ۔مترجم۔
[11] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۹،خطبہ ۱۷۸، ص۱۶۱۔
[12] صحیح بخاری :جلد۹ ،کتاب استتابة المرتدین ،باب (۳) حدیث۶۵۲۶۔
مترجم:(صحیح بخاری جلد ۲ ،کتاب الزکاة ،باب(۱) حدیث۱۳۳۵ ۔ جلد۳،کتاب الجھاد، باب” دعاء النبی(ص)الیٰ الاسلام والنبوة“حدیث۲۷۸۶۔ جلد ۶،کتاب الاعتصام بالکتاب السنة، باب” اقتداء سنن رسول (ص)الله “ حدیث۶۸۵۵۔) صحیح مسلم جلد۲ ،کتاب الایمان، باب (۸) ”الامر بقتال الناس“حدیث۲۰،۲۱۔ مسلم نے تقریباسات عدد اسناد کے ساتھ مذکورہ روایت کو نقل کیاھے۔
[13] ریاض النضرہ ، جلد ۱ ص ۱۰۰ ،تالیف محب الدین طبری۔
[14] صحیح بخاری جلد۹، کتاب استتابة المرتدین باب(۳) حدیث۶۵۲۶۔
مترجم:( بخاری ج ۲ ،کتاب الزکاة ،باب(۱) حدیث۱۳۳۵۔ ج۳،کتاب الجھاد، باب” دعاء النبی(ص)الیٰ الاسلام والنبوة“حدیث۲۷۸۶۔ ج۶،کتاب الاعتصام بالکتاب السنة، باب” اقتداء سنن رسول (ص)الله “حدیث۶۸۵۵۔)<
>مسلم ج۲ ،کتاب الایمان،باب(۸)”الامر بقتال الناس حتی یقولوا…“ حدیث۲۰۔۲۱۔
مسلم نے تقریب ا سات عدد اسناد کے ساتھ مذکورہ روایت کو نقل کیاھے۔
[15] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الایمان، باب” الامر بقتال الناس حتیٰ یقولوا…“حدیث۲۰۔
صحیح بخاری: جلد۹،کتاب استتابةالمرتدین، باب( ۳)حدیث۶۵۲۶۔
مترجم:(صحیح بخاری ،جلد۱،کتاب الزکٰوة،باب (۱) ”وجوب الزکاة“حدیث۱۳۳۵،باب(۳۹)”اخذ العناق فی الصدقة“ حدیث۱۳۸۸۔جلد ۳،کتاب الجھاد، باب” دعاء النبی(ص)الیٰ الاسلام …“حدیث۲۷۸۶۔
جلد۶،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة،باب” الاقتداء بسنن رسول (ص)لله“ حدیث۶۸۵۵۔جلد۱،کتاب الایمان، باب(۱۴)”فان تابوا واقامواالصلوة والزکاة۔“(سورہٴ توبہ۵)حدیث۲۵)۔
[16] بدایة المجتھد ج۱،کتاب الزکاة ، المسئلة الثالثة ،”اذا مات بعد وجوب الزکاة علیہ …“ ص ۲۰۰۔
[17] سورہٴاحزاب،آیت۶، پ ۲۱۔
نوٹ:مذکورہ واقعہ کو ” معجم البلدان حموی مادہ حضرت موت اور انساب الاشراف بلاذری” مالک ومتمم ابنا نویرة “اور تاریخ اعثم کوفی“ ذکر خلافت ابوبکر ،میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
[18] البدایہ و النھایہ؛ابن کثیر، جلد۶،فصل : ”تنفیذ جیش اسامة بن یزید “ صفحہ ۳۳۵۔
[19] عبقریة الصدیق،بحث:”الصدیق والدولة الاسلامیة“ صفحہ ۱۲۴۔ ۱۲۵ ،مطبوعہ: بیرو ت لبنان۔
[20] الصدیق ابوبکر ،الفصل الخامس : ”قتال من منعواالزکاة “ صفحہ ۹۶۔
[21] ترجمہ اعثم کوفی ج ۱،”ذکرخلافت ابو بکر “ ص ۶،مطبوعہ: ایران ۔
[22] الاصابہ جلد ۵ ، نمبر ۷۷۱۲، ( در بیان حا لات مالک بن نویرہ بن جمرة )ص۵۶۰۔
[23] ترجمہ ٴتاریخ اعثم کوفی جلد۱ ،ذکر خلافت ابو بکر ،صفحہ۷ ۔
[24] تاریخ یعقوبی جلد۲ ،ایام ابو بکر صفحہ ۱۳۲ ۔
[25] تاریخ یعقوبی جلد۲ ،ایام عمر بن الخطاب ، صفحہ ۱۳۹۔
[26] تاریخ اعثم کوفی ج۱ ،ذکر خلافت ابو بکر ، ص ۱۸۔ ۱۹۔
[27] صحیح مسلم ج۷، کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل علی علیہ السلام“
[28] صحیح بخاری: جلد۴، کتاب الجھاد ابواب الخمس، باب” فرض الخمس“ حدیث ۲۹۹۶۔ مترجم:( صحیح بخاری جلد۴،کتاب المغازی، باب ”حدیث بنی نضیر“حدیث ۳۸۱۰،باب” غزوةخیبر“، حدیث۳۹۹۸۔ جلد ۳ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب قرابةالرسول“ حدیث۳۵۰۸۔ جلد ۵،کتاب الفرائض، باب ”قول النبی(ص)لال نورث ماترکنا صدقة“ حدیث۶۳۴۶،۶۳۴۹۔) صحیح مسلم جلد۵، کتاب الجھاد والسیر، باب” قول النبی(ص) لانورث“ حدیث۱۷۵۹۔
[29] صحیح بخاری جلد۵،کتاب المغازی ،باب ”غزوة خیبر“حدیث۳۹۸۹۔ صحیح مسلم جلد۵، کتاب الجھاد و السیر ،باب (۱۶)”قول النبی :لا نورَث ما ترکنا فھو صدقة“حدیث۱۷۵۹۔
[30] ھمارے پاس قرآ ن مجید او رکتب تواریخ سے مسلم الثبوت دلائل موجود ھیں کہ معصوم غیر معصوم کی بیعت نھیں کرتا لہٰذا مذکورہ حدیث میں جو بات حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کھی گئی ھے کہ آپ نے وفات بنت رسول(ص) کے بعد ابو بکر کی بیعت کرنے کی خواھش ظاھر فرمائی یہ کھلا ہوا بھتان اور برہنہ کذب ھے، چونکہ اس کتاب کا موضوع اس بحث سے جدا گانہ ھے لہٰذا اس بارے میں آپ ھماری علم کلام کی کتابیں دیکھئے۔مترجم ۔
[31] سنن ابی داؤد، جلد۲ ، کتاب الخراج والامارة ، باب(۱۹)” فی صفایا رسول الله من الاموال“حدیث۲۹۶۸۔
[32] سنن ابی داؤد جلد۲ ، کتاب الخراج والامارة ، باب(۱۹)” فی صفایا رسول الله من الاموال “ح ۲۹۷۲،ص ۲۴۔
[33] شیعہ مذھب کے نزدیک یہ بات محکم اورمتقن دلائل کے ساتھ ثابت ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے بجز رسول کسی کی بھی بیعت نھیں کی ھے۔مترجم
[34] اس حدیث کے جعل کرنے سے ایک مقصد ابو بکر کا یہ بھی تھا کہ اس ھتھکنڈے کے ذریعہ اھل بیت(ع) عصمت و طھار ت کو مالی ا ور اقتصادی اعتبار سے کمزور کیا جائے تاکہ وہ ھمیشہ ھمارے( خلفاء کے) محکوم رھیں اور کبھی اپنی خلافت کا حق نہ جتا پائیں اوردوسرے خلیفہ صاحب کی حا کمیت کے پر چار کے لئے دولت کی فراوانی رھے۔مترجم۔
[35] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ۱۶،مکتوب نمبر ۴۵، ص۲۱۱۔ بلا غات النساء بحث فدک،ص۱۳۔ کتاب الشافی ،موٴلفہ سید مرتضی۔
[36] صحیح بخاری جلد۵،کتاب فضائل اصحا ب النبی،(ص)باب مناقب قرابة الرسول(ص)،جلد۷،کتاب النکاح، باب ”ذب الرجل عن ابنتہ …“صحیح بخاری کے بقیہ حوالے جات ص۵۴۵ پر نقل کر چکے ھیں ، صحیح مسلم جلد۷،باب فضائل فاطمہ بنت النبی(ص)…حدیث۴۴۹۔
[37] مزہ کی بات تو یہ ھے کہ جس مال کو صدقہ کہہ کر مسلمان فقر اء کا مال قرار دیا گیا اسی کو خود اپنے ذاتی تصرف میں ان حضرات نے لے لیا !یہ کھاں سے جائز ہوگیاتھا ؟!! مترجم۔
[38] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۱۶،مکتوب ۴۵، ص۲۲۷۔۲۴۵۔
[39] تاریخ الخلفاء جلد۱،فصل ”فیماوقع فی خلافةابی بکر“ص۷۳۔
[40] صواعق محرقہ ،ص۱۹۔
[41] صحیح بخاری:ج۵،کتاب المغازی، باب”حدیث بنی نضیر“حدیث نمبر۳۸۰۹ ، ۳۸۱۰۔ مترجم:( صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب الجھاد ابواب الخمس، باب”فرض الخمس“حدیث ۲۹۹۶۔ جلد ۳،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب قرابةالرسول“حدیث۳۵۰۸،باب” غزوة خیبر“ حدیث ۳۹۹۸ ۔ جلد ۵،کتاب الفرائض، باب”قول النبی لانورث ما ترکناہ صدقة“ حدیث۶۳۴۶ ، ۶۳۴۹۔) صحیح مسلم ج۵،کتاب الجھادوالسیر،باب”قول النبی (ص)لانورث“ حدیث ۱۷۵۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶،مکتوب ۴۵، ص۲۲۰، ۲۲۳۔
[42] شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید ،ج ۱۶،مکتوب ۴۵، صفحہ ۲۸۴۔
[43] صحیح بخاری: ج۴،کتاب الخمس،ابواب الجزیة والموادعة،باب( ۱۷)”اثم من عاھد ثم غدر“ح۳۰۱۱۔ ج ۶، کتاب التفسیر،تفسیر سورہٴ فتح ،باب(۵) ”اذ یبایعونک تحت الشجرة “ ح۴۵۵۳۔ مترجم:( صحیح بخاری، ج۶،کتاب المغازی،باب(۳۳)”غزوة حدیبیہ“ح ۳۹۴۳۔) صحیح مسلم ج ۵،کتاب الجھاد، باب”صلحا لحدیبیة“ح ۱۷۸۵۔
[44]صحیح بخاری: ج۴،کتاب الخمس،ابواب الجزیة والموادعة،باب( ۱۷)”اثم من عاھد ثم غدر“ح۳۰۱۱۔ ج ۶، کتاب التفسیر،تفسیر سورہٴ فتح ،باب(۵) ”اذ یبایعونک تحت الشجرة “ ح۴۵۵۳۔ مترجم:( صحیح بخاری، ج۶،کتاب المغازی،باب(۳۳)”غزوة حدیبیہ“ح ۳۹۴۳۔) صحیح مسلم ج ۵،کتاب الجھاد، باب”صلحا لحدیبیة“ح ۱۷۸۵۔
[45] عرض مترجم: بھتر ھے کہ یھاں پر قرآن کی ان آیات کو پیش کردیا جائے جن میں رسول اسلام (ص)کے سامنے کلام کرنے کے طریقے اورآپ پر حقیقی ایمان لانے کی شناخت کو بیان کیا گیا ھے، چنانچہ ارشاد ھو تا ھے: <ےَٰاْ اَیُّہَا الذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَرْفَعُوْاْ اَصْوَاْتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ اْلْنَّبِیِّ وَلَاْ تَجْہَرُوْاْ لَہ بِاْلْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَاْلُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاْ تَشْعُرُوْنَ . اِنَّ اْلَّذِیْنَ یغضُّوْنَ اَصْوَاْتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ الله اُوْلَاْئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ الله قُلُوْبَہُمْ لِلتِّقْویٰ لَہُمْ مَغْفِرَةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ>(سورہٴ حجرات،آیت۲۔۳، پ۲۶)<اِنَّمَاْ اْلْمُوْٴمِنُوْنَ اْلَّذِیْنَ آمَنُوْاْ بِالله وَرَسُوْلِہ ثُمَّ لَمْ یَرْتَاْبُوْاْ وَجَاْہَدُوْاْ بِاٴَمْوَاْلِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ الله اٴُوْلَائِکَ ہُمُ الْصَّاْدِقُوْنَ>(سورہٴ حجرات،آیت۱۵،پ۲۶)
سچے مومن تو بس وھی ھیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جھاد کیا یھی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ھیں۔ ۱۲
[46] اس کے تفصیلی حوالے آگے نکتہ اولی۔میں ملاحظہ فرمائیں ۔
[47] تفصیلی حوالے آگے نکتہ ٴ اولی ۔میں ملاحظہ کریں ۔
[48] صحیح مسلم جلد ۵ ،کتاب الوصیة، باب(۵) ” ترک لمن لیس لہ شیء یوصی فیہ“حدیث۱۶۳۷۔
[49] صحیح بخاری: جلد۱،کتاب العلم ،باب(۴۰)”کتابة العلم“حدیث۱۱۴۔جلد ۷ ،کتاب المرضی، باب(۱۷)” قول المریض قومواعنی“حدیث۵۶۶۹۔ جلد۹،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة،باب(۲۶)” کراھیة الخلاف“ حدیث۶۹۳۲۔
[50] صحیح بخاری ج۶،کتاب المغازی،باب”مرض النبی(ص) ووفاتہ“حدیث ۴۱۶۹۔
[51] صحیح بخاری جلد ۴،کتاب الجھاد، باب” ھل یستشفع الی اھل الذمة“ حدیث ۲۸۸۸۔ کتاب الخمس ابواب الجزیة والموادعة،باب”اخراج الیہود من جزیرة العرب“حدیث ۲۹۹۷۔ جلد ۶،کتاب المغاز ی، باب ”مرض النبی(ص)ووفاتہ “حدیث ۴۱۶۸۔
[52] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد۱۲، خطبة ۲۲۳،ص۲۱،۷۸ ۔
[53] عرض مترجم :”ھجررسول الله “اور”قد غلب علیہ الوجع “ان دونوں جملوں کا مفاد ایک ھی ھے اورو ہ ھے شان رسالت (ص)میں گستاخی اور آنحضرت(ص)کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرنا،حا لانکہ قرآن صراحت کے ساتھ رسول(ص) کی شان اس طرح بیان کرتا ھے:
۱۔ < یا اَیُّہَا ْالَّذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَرْفَعُوْاْ اَصْوَاْتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ اْلْنَّبِیِّ وَلَاْ تَجْہَرُوْاْ لَہ بِاْلْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَاْلُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاْ تَشْعُرُوْنَ .سورہٴ حجرات، آیت۲ ،پ۲۶>
اے ایماندارو ! بولنے میں تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیاکرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زو رزور سے بولا کرتے ھو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو ،ایسا نہ ھو کہ تمھارا کیا کرای ا سب اکارت ھو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ھو ۔
۲۔<اِنَّ اْلَّذِیْنَ یغضُّوْنَ اَصْوَاْتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ الله اُوْلَاْئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ الله قُلُوْبَہُمْ لِلتِّقْویٰ لَہُمْ مَغْفِرَةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْم ٌ. سورہٴ حجرات،آیت ۳، پ ۲۶ >
بیشک جو لوگ رسول خدا کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرلیا کرتے ھیں یھی لوگ ھیں جن کے دلوں کو خدا نے پرھیزگاری کیلئے جانچ لیا ھے ان کیلئے آخرت میں بخشش اور بڑا اجر ھے ۔
۳۔<اِنَّمَاْ اْلْمُوْٴمِنُوْنَ اْلَّذِیْنَ آمَنُوْاْ بِالله وَرَسُوْلِہ ثُمَّ لَمْ یَرْتَاْبُوْاْ وَجَاْہَدُوْاْ بِاٴَمْوَاْلِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ الله اٴُوْلَائِکَ ہُمُ الْصَّاْدِقُوْنَ.سورہ حجرات، آیت۱۵،پ ۲۶>
ترجمہ :۔ سچے مومن تو بس وھی ھیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جھاد کیا یھی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ھیں ۔
[54] جبکہ قرآن صراحت کے ساتھ یہ اعلان کرتا ھو نظر آتا ھے : < یا اَیُّہَا ْالَّذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَرْفَعُوْاْ اَصْوَاْتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ اْلْنَّبِیِّ وَلَاْ تَجْہَرُوْاْ لَہ بِاْلْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَاْلُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاْ تَشْعُرُوْنَ . اے ایماندارو ! بولنے میں تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیاکرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زو ر زور سے بولا کرتے ھو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو ،ایسا نہ ھو کہ تمھارا کیا کرای ا سب اکارت ھو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ھو >؟! سورہٴ حجرات، آیت۲)
[55] صحیح بخاری کتاب الخمس ابواب الجزیة والموادعة، باب” اخراج الیہود من جزیرة العرب“ حدیث ۲۹۹۷۔
[56] المراجعات ص۸۶ ۔موٴلف علامہ شرف الدین ۔
[57] تفصیل ملاحظہ کریں : بدایةالمجتھد جلد ۱، کتاب الحج،القول فی التمتع ، ص ۲۶۵۔ الفقہ علی المذاھب الاربعہ،کتاب الحج۔
[58] سورہ بقرہ ،آیت نمبر۱۹۶، پ ۲۔
[59] صحیح بخاری :ج۲،کتاب الحج، باب(۳۴) ” التمتع و الاقران والافراد“ حدیث۱۴۸۹۔ مترجم:( صحیح بخاری جلد ۳،کتاب فضائل الصحا بة ، باب(۲۶) ” ایام الجاھلیة“ حدیث ۳۶۲۰۔)
صحیح مسلم ج۴،کتاب الحج، باب(۳۱) ” جواز العمرة فی ا شھرالحج“ حدیث۱۲۴۰۔
سنن نسائی کتاب مناسک الحج، باب ”اشعار الھدی “ حدیث نمبر ۲۷۳۶،ص ۱۸۰۔
[60] سنن ابن ماجہ جلد ۲، کتاب المناسک، باب (۴۱) فسخ الحج ، حدیث۲۹۸۰۔ صحیح مسلم جلد۴،کتاب الحج، باب (۱۷) بیان وجوہ الااحرام وانہ…حدیث۱۲۱۶۔ صحیح بخاری:جلد۲،کتاب الحج، باب تقضی الحا ئض المناسک کلھاحدیث ۱۵۶۸۔ جلد۳،کتاب الحج ابواب عمرہ ، باب”عمرةالتنعیم“ حدیث۱۶۹۳۔ جلد ۳، کتاب الشرکة،باب(۱۵)” الاشتراک فی الھدی والبدن“حدیث۲۳۷۱۔
نوٹ: امام بخاری نے اس مضمون کی متعدد روایا ت ذکر کی ھیں ۔ دیکھئے: حدیث ۱۶۹۳ ، ۱۴۹۵ ، ۱۴۹۳ ، ۴۰۹۵، ۶۸۰۳ ، ۶۹۳۳ ، ۱۰۳۵ ، ۱۶۸۹ ۔مترجم۔
[61] نوٹ:ضاقت بہ صدورن ا سے کثر ِت ناراضگی و نا پسندید گی کی طرف اشارہ ھو تا ھے۔