كتاب:خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں
موٴلف محمد صادق نجمی
مترجم: محمد منیر خان

منصب خلافت و امامت فرمان علی علیہ السلام کے پرتو میں :
”ذَرَعُوا الْفُجورَ،وسَقَوہ الغُرورَ،وحَصَدُوْا الثُّبُورَ،لایُقاسُ بِآلِ محمد(ص) من ہذہ اُلامَّةِ اَحَد،ٌ وَ لَایُسوَّی بِہِمْ مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُھم علیہ اَبَداً،ہُم اَساسُ الدِّین، وَعِمادُ الیقین، اِلیھم یَفِئیُ الغَالِی،وبھم یُلْحَقُ التاَّلِی ،ولَہُم خَصائِصُ حّقِّ الوِلَایَة،ِ وَ فِیھم الوَصِیَّةُ وَالْوِراثَةُ،اَلْآنَ اِذْرَجَعَ الْحَقُّ اِلیٰ اَهلہ، ونُقِل اِلیٰ مُنْتَقَلِہ!“ [1]
انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی ،غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ھلاکت کی جنس حاصل کی، اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پر قیاس نھیں کیا جاسکتا،جن لوگوں پر ان کے احسانات ھمیشہ جاری رھے ہوں ،وہ ان کے برابر نھیں ہوسکتے، وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ھیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ھے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ان سے آکر ملنا ھے، حق ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ھیں،انھیں کے بارے میں پیغمبر(ص) کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ھے، اب یہ وقت وہ ھے کہ حق اپنے اھل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا ۔

روش بحث،مقصداورتین سوال
قارئین کرام !جیسا کہ عنوانِ بحث سے ظاھر ھے کہ آئندہ ھم صحیحین کی ان احادیث کو پیش کریں گے جو خلافت سے متعلق ھیں ، لہٰذا ھمارا مقصد یھا ں پر صرف اِن احادیث کا نقل کرنا ھے نہ کہ مسئلہٴ خلافت کی تحقیق،کیونکہ ھماری کتاب علم کلام کی کتاب نھیں ھے کہ جس میں مسئلہ خلافت کی تحقیق وتحلیل کریں اور فریقین میں سے ایک گروہ کے عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے محکم اور ٹھوس دلائل پیش کریں،یا پھر دوسرے گروہ کے عقیدہ کو ھدف تنقید قرار دے کر حق کو بیان کریں ،بلکہ ھمارا مقصد یہ ھے کہ اھل سنت کی اھم ترین اساسی کتابیں ”صحیحین“کے مختلف ابواب میں نقل کردہ وہ حدیثیں جو براہ راست خلافت سے متعلق ھیں،ان کو محترم قارئین کے سامنے پیش کریں،لہٰذا ھمارے اوپریہ لازم نھیں کہ ھم اِن روایات کے تمام تاریخی جزئیات کوجو ان روایتوں کے بارے میں پائے جاتے ھیں نقل کریں،یا ان کی عمیق ودقیق تحقیق و تنقید کریں ،کیونکہ:
ا ولاً: یہ بحث ھمارے موضوع سے خارج ھے۔
ثانیاً :اس بحث کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ھے اور حسن اتفاق سے اس موضوع سے متعلق ھمارے یھاں بھت سی کتابیں لکھی جا چکی ھیں ، چنانچہ اگر ھم نے کھیں پرخلافت سے متعلق بعض مطالب کو بیان کیا ھے تووہ صرف اپنے مطلوب اورمحل بحث احادیث کے مفہوم کی وضاحت کے خاطرھے نہ کہ موضوعِخلافت چھیڑناھے، بھر کیف تمھیدکے طورپر ھم پھلے تین سوال پیش کرتے ھیں اور ان سوالوں کے جوا بات ھر اس شخص سے پوچھنا چاھتے ھیں جو خلافت پر اعتقاد رکھتا ھے۔

مسئلہٴخلافت سے متعلق تین سوال
مسئلہٴ خلافت رسول اسلام کا وہ اساسی ترین مسئلہ ھے جو مسلمانوں کے درمیان ایک،دو،پانچ، دس صدی سے محل ِ اختلاف قرار نھیں پایا بلکہ یہ مسئلہ آفتاب ِ رسالت (ص)کے غروب ہونے کے بعد ھی اختلاف کی نظرہوگیا تھا،جیسا کہ عالم اھل سنت جناب شھرستانی اپنی کتاب”الملل والنحل“ میں کھتے ھیں :
امت اسلام سب سے زیادہ مسئلہ امامت میں اختلاف کرتی ھے، یعنی مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہٴامامت اور خلافت کا ھے جو سبب ِ اختلاف قرار پایا ھے، کیونکہ اسی مسئلہٴامامت کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جانیں گئی ھیں ، امامت کے علاوہ اور کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جس میں اس قدر اختلاف اور خونریزی ہوئی ہو:
”اعظم خلاف بین الامة خلاف الامامةاذماسل سیف فی الاسلام علی قاعدة دینیة مثل ما سل علی الامامة فی کل زمان…“[2]
ھ میں اس ا ختلاف کے وجود میں آنے کی کیفیت اور تاریخ سے کوئی سرو کار نھیں لیکن آیندہ آنے والی احادیث کے لئے تمھید کے طورپر تین مطالب کو بعنوان سوال ذکر کرتے ھیں :
۱۔ جب مسئلہٴ خلافت و امامت اتنا اھم مسئلہ ھے تووہ خدا کہ جس نے اسلام کے ماننے والوں کے لئے رسول(ص) کے ذریعہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بیان کیا ھے ،جیسے سونا ، جاگنا، کھانا، پینا، حمام،غسل کنگھی کرنا ، نامحرم عورتوںپر نگاہ ڈالنا ایک لمحہ بھر ھی کیوں نہ ہو، دوسرے کی غیبت کرنا اگرچہ ایک کلمہ کے ذریعہ ھی کیوں نہ ہو،چنانچہ ان احکام کی تعداد واجبات ،محرمات ،مستحبات اور مکروھات میں بےشمار ھے ،یعنی انسان کی زندگی کا کوئی ایسا پھلو ترک نھیں کیا گیا ھے جس میں شریعت کی طرف سے کوئی حکم نہ ھو ،تو پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ امامت جیسے اھم مسئلہ کے بارے میں کچھ نھیں کھاگیا ہو؟ !اور امت کو بغیر کسی رھبر اورھادی کے چھوڑ کر خدا نے اپنے حبیب کو اپنے پاس بلالیا؟! اگر کھاجائے کہ خدا اور رسول(ص)نے اس مسئلہ کو خود مسلمانوں کے حوالہ کردیا تھا،تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ھے کہ اسلام کے جزئیات اور فروعات کو خدا ورسول(ص) نے خود مسلمانوں کے حوالے کیوں نہ کیا؟! اوران کو خود کیوں بیان فرمایا ؟! اور جب جزئی اور فرعی احکام جیسے سر منڈوانا، ناخون کٹوانا، حج و زیارات، پیشاب، پاخانہ کے آداب، ھمبستر ہونے کے آداب وغیرہ میں بھی سکوت اور چشم پوشی کرنا قاعدہ ٴ لطف کی بنا پر جائز نھیں،تو پھر یہ کیسے تصور کیا ج ا سکتا ھے کہ خدا وند متعال مسلمانوں کے اھم ترین مسئلہٴامامت پر سکوت اختیار کرلے گا؟ !کیا قاعدہٴ لطف یھاں پر تقاضہ نھیں کرتا ؟! اور اگر اس نے سکوت اختیار نھیں کیا تو ھ میں اس خلیفہ کانام اور وہ کن شرائط کا حا مل ھے اس کاپتہ بتلائیں ؟!!اوراگر کوئی خلیفہ تعین نھیں ھو اتو خدا کی ذات ھدف ِ تنقید قرار پاتی ھے!! ”نعوذ بالله من ذالک“ یہ وہ باتیں ھیں جو اس بات کا پتہ دیتی ھیں کہ رسول(ص) نے بحکم خدا ضرور کوئی خلیفہ منتخب کیا تھا اور اگر مان لیا جائے کہ رسول(ص) نے مقرر نھیں فرمایا تو کم سے کم جو رسول(ص) کے بعد اس منصب الہٰی کا بوجھ اٹھائے اس کے لئے کچھ شرائط تو ضرور بیان فرمائے ہوں گے؟!!
۲۔ آیات، احادیث اور رسول(ص) کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ فرزندان ِ توحید ھمیشہ قرآن و احادیث کی شرح و تفسیر ، دینی اخلاقی و دنیوی مسائل میں رسول(ص) کی طرف رجوع کرتے تھے، یھی نھیں بلکہ حوادثات ، امور دنیوی اور اپنی زندگی کے جزئی معاملات میں بھی آنحضرت (ص)کو اپنا ملجاٴ وماوہ سمجھتے اور آپ سے معلومات حا صل کرتے تھے ،یھاں تک کہ اپنی پریشانیوں کے حل اور مریضوں کے معالجہ کے لئے بھی رسول(ص) سے ھی استشفاء کرتے تھے،جیسا کہ صحیح بخاری ،سنن ترمذی ا ور صحیح مسلم میں آیا ھے :
”ایک شخص نے رسول(ص) سے کھا: یا رسول الله (ص) ! میرا بھائی پیچش میں مبتلا ھے، رسول (ص)نے فرمایا : اس سے کھو شھد کا استعما ل کرے ، چند دنوں کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کهنے لگا :اے رسول خدا(ص)!شھد سے میرے بھائی کی ابھی پیچش ٹھیک نھیں ہوئی ھے، رسول(ص) نے اس سے کھا: شھد کا استعمال جاری رکھے، تیسری مرتبہ پھر اس نے پیچش کی شکایت کی ،رسول(ص) پھر شھد کھانے کی تاکید فرماتے ھیں ،یھاں تک کہ اس کی پیچش ٹھیک ھو جاتی ھے۔“[3]
پس یھاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ رسول(ص) کی ۲۳ سالہ زندگی میں کسی شخص کے ذهن میں یہ سوال نہ آیا اور کوئی بھی صحا بیٴرسول (ص)اس بات کی طرف متوجہ نھیں ھو ا کہ رسول(ص) کے بعد مسئلہٴجانشینی کا کیا ہوگا؟!اور نہ ھی کسی مسلمان نے رسول(ص) سے اس بات کو پوچھا: ”اے رسول!(ص) آپ نے اسلام کو خون ِ دل دے کر پروان تو چڑھا یا ھے مگر اس کی حفاظت آپ کے بعد کون کرے گا؟ ! ھم لوگ آپ کی وفات کے بعد اپنے مسائل کے بارے میں کس طرف رجوع کریں گے؟ !!“ آخر تما م مسلمانوں پر غفلت کا پردہ کیوں پڑا رھا ؟! جبکہ سب لوگ یہ جانتے تھے کہ رسول(ص) بھی بشر ھیں لہٰذا آپ(ص) کو بھی موت سے ھمکنار ہونا ھے ،چنانچہ ان آیتوں کو اس
وقت کے سبھی مسلمان سنتے اور پڑھتے ہوں گے: <اِنَّکَ مَیِّتٌ وَ اِنَّہُمْ مَیِّتُوْن۔[4] اے میرے حبیب آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ لوگ تو مریں گے ھی><…اٴَفَاٴِنْ مَّاْ َ اَوْقُتِلَ اِنْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَاْبِکُم …۔[5]پھر کیا اگر (محمد(ص) ) اپنی موت سے مرجائیں ،یا مار ڈالے جائیں،تو تم الٹے پاوٴں (اپنے کفر کی طرف )پلٹ جاوٴ گے >
اور دوسری جانب سب لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ مسئلہٴخلافت انسان کی دنیاوی اوراخروی زندگی سے جڑا ہوا ھے یعنی یہ وہ مسئلہ ھے جو نبوت کی طرح ا نسان کی زندگی میں عمیق اثر رکھتا ھے،اس کے بغیر نہ انسان کی دنیاوی زندگی کامیاب ھو سکتی ھے اور نہ ھی اخروی، اس کے بغیر نہ روح ا نی کمال تک پهنچا جاسکتا ھے اور نہ مادی اورسب سے زیادہ تعجب تو یہ ھے کہ خود رسول(ص) کو بھی فکر نہ ہوئی کہ میں نے اتنی محنتوں سے اسلام کو پھیلایا ھے لیکن اس کا محا فظ میرے بعد کون ہوگا؟!اس کا اتاپتہ نھیں ! پس نہ رسول کو فکر ہوئی اور نہ ھی اس بارے میں کسی نے ۲۳ سال کے اندر آپ سے سوا ل کیا !!
۳۔ خداوند متعال وصیت کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ھے:
<کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَ اْ حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِن تَرَکَ خَیراً نِ الوَصِیَّةُ لِلوَالِدَیْنِ والاَقرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقّاً عَلَی المُتَّقِینَ>[6]
مسلمانو!تم کو حکم دیا جاتا ھے کہ جب تم میں سے کسی کو موت واقع ھو نے والی ھو بشرطیکہ مرنے والا کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے اچھی وصیت کرے ،جو خد ا سے ڈرتے ھیں ان پر یہ ایک حق ھے۔
اسی طرح خودرسول(ص) اسلام اس وظیفہٴوصیت کے بارے میں ارشادفرماتے ھیں :
”قال(ص):ماحق امریٴمسلم لہ شیء یوصی فیہ یبیت لیلتین،الاووصیتہ مکتوبة عندہ۔“
ایک مسلمان مرد کا اھم ترین وظیفہ یہ ھے کہ وہ دو راتیں نہ گزارے مگر اپنے لئے وصیت نامہ تیار کر کے رکھ لے۔[7]
عبد اللہ ابن عمر کھتے ھیں :
میں نے اس مطلب کو جب سے رسول(ص) سے سنا ھے تب سے کوئی بھی رات ایسی نھیں گزری مگر میرا وصیت نامہ میرے ساتھ تھا۔[8]
محترم قارئین!جب قرآن او راحادیث سے ثابت ھے کہ وصیت کرنا ایک ضروری امر ھے توپھرعقل اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتی ھے کہ جو رسول(ص) دوسروں کے حق میں وصیت کے لئے اس قدر تاکید کرے وہ خود وصیت کئے بغیر چلا جائے گا؟! کیایہ کھا جاسکتا ھے کہ رسول(ص) نے کسی کے لئے وصیت نھیں کی تھی ؟!جب کہ آپ کے لئے وصیت کرنا اشد ضروری تھا ؟!کیونکہ رسول (ص)ایک اھم ثروت و ترکہ( دین اور قوانین الٰھیہ )کو چھوڑ کر جارھے تھے، اس سے زیادہ قیمتی اور کوئی ترکہ ہوھی نھیں سکتا تھا ، لہٰذا ان کی حفاظت تو بھت ھی ضروری تھی، ان کے لئے ایک ولی اور سرپرست ھو نا بیحد لازمی تھا ،ان شرائط کے باوجود اگر رسول(ص) اپنے بعد ملت ِمسلمہ اوردین اسلام کا کوئی محا فظ نہ چنیں تو گویا کہ آپ نے سارے جھان کو لاوارث چھوڑدیا!کیا ھمارا وجدان آنحضرت(ص)جیسے دور اندےش اور زیرک ترین شخص کے لئے یہ سوچ سکتا ھے کہ آپ کی عقل ِ کامل اس اھم ترین گوشہ کی طرف کبھی متوجہ ھی نھیں ہوئی ! جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیش قیمت ترکہ( قوانین الٰھیہ) اورملت ِمسلمہ بلکہ سارے جھان کو بغیر ولی اور سرپرست کے یونھی چھوڑ دیااورکسی طرح کا انتظام نھیں کیا ؟!! قطع ِ نظر حکم ِعقل و وجدان کے یہ بات بھی تاریخ اسلام سے ثابت ھے کہ جب رسول(ص) کسی جنگ میں کوئی لشکر بھیجتے تھے تو اس کا ایک رھبر اور سپہ سالا ر معین فرماتے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی تاکید کر دیتے تھے کہ اگر فلاں شخص شھید ھو جائے تو فلاں کو اپن ا سپہ سالار چن لینا اور اگر وہ بھی شھید ھو جائے تو فلاں کو سردار منتخب کر لینا، وغیر ہ وغیرہ ، اسی طرح یہ بات تاریخ میں مسلم الثبوت ھے کہ آنحضرت نے اپنی تدفین ،غسل اور ادائیگیٴقرض کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کردی تھی،لہٰذا ان تاکیدات کے باوجودیہ کیسے سوچا جاسکتا ھے کہ آپ(ص) نے خلافت کے لئے کسی کے حق میں وصیت نھیں کی تھی؟!پس جو رسول(ص)قرض،دفن اور کفن جیسے جزئی مسئلہ کو نہ بھولے وہ خلافت جیسے اھم مسئلہ کو کیسے بھول جائے گا؟!!العجب ثم العجب ۔
محترم قارئین ! ان سوالوں کا جواب اھل سنت نھیں دے سکتے ھیں ، ان کا جواب صرف مذھب اھل تشیع کے نزدیک واضحا ور روشن ھے، کیو نکہ یہ وہ مذھب ھے جو عقیده رکھتا ھے کہ نہ خدا و رسول(ص) نے اور نہ ھی رسول(ص)کی زندگی میں مسلمانوں نے اس مسئلہٴخلافت کے بارے میں سکوت اختیار کیا اور نہ ھی اسکے اظھارسے امتناع کیااورنہ تساھلی سے کام لیابلکہ جس روز سے رسول(ص)مبعوث برسالت ہوئے اسی دن سے آپ کو مامور کیاگیا تھا کہ آپ نبوت کے ساتھ ساتھ منصب خلافت کے حقدار کا بھی لوگوں کے درمیا ن اعلان کردیں، چنانچہ رسول اسلام(ص) نے بھی اس بارے میں کسی طرح کا ابھام نھیں چھوڑا، بلکہ آپ نے ھر جگہ اپنے متعددخطبات و بیانات میں اپنی جانشینی کے مسئلہ کو پیش کیااور جو لوگ آپ کے بعدمنصب ِ خلافت کے حقدارتھے، ان کی پہچان کروائی چنانچہ اوائل ِ بعثت میں جب آیہٴ <وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الاَقْرَبِینَ> نازل ہوئی تو رسول اسلام(ص) نے اپنے خاندان والوں کو دعوت پر بلایا اور کھا نے کے بعد آپ نے تقریر کرنا چاھی،لیکن ابو لھب نے یہ کہہ کر مجمع کو بھکا دیا کہ آپ ساحر ا ور جادو گر ھیں ، کوئی ان کی باتیں نہ سنے ،مجمع متفرق ہوگیا ،لہٰذا رسول اسلام(ص) نے دوسرے دن پھر بلایا اور کھانے کے بعد تقریر کرنا شروع کردی اور اپنی تقریر میں پیغام وحی سنایا اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کیلئے اپنی طرف سے جانشین ا ور خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اور بعض لوگوں کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا مسئلہ مضحکہ خیز بھی قرار پایاکہ ابھی ان کی نبوت کو کوئی مانتا نھیں اور انھیں دیکھو!جانشینی کا اعلان ابھی سے کررھے ھیں ؟!
” فاخذ رقبتی ( علی(ع) ) ثم قال : ان ہٰذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوا لہ و اطیعوا قال: فقام القوم یضحکون… “[9]
کیونکہ و ہ لوگ سمجھ رھے تھے کہ ابھی کسی نے ان کی نبوت قبول نھیں کی تو جانشین کو کیسے قبول کریں گے، لیکن رسول(ص) پھلے ھی مرحلے میں ظاھر کر دینا چاھتے تھے کہ جانشینی کا حق علی (ع) و اولاد علی (ع) کا ھے، لہٰذا جو بھی میرا دین قبول کرے وہ اس لالچ میں قبول نہ کرے کہ آئندہ آپ اسے رھبری کا عھدہ سپرد کردیں گے! کیونکہ منصب ِ خلافت و ولایت ھر کس و ناکس کو نھیں ملتا بلکہ اس کا وھی حقدار ھے جس کا خدا نے انتخاب کیا ہو۔
اسی طرح آ پ(ص) نے غدیر کے بے آب وگیاہ چٹیل میدان اوررچلچلاتی دھوپ میں آگے جانے والے اور پیچھے رہ جانے والے حجاج کو بلا کر اپنے آخری حج کے بعد بحکم خدا ” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ“کہہ کر حضرت علی علیہ السلا م کی خلافت کا اعلان فرمایا۔
اور جب آپ کی عمر کے آخری لمحے گزر رھے تھے ، جب آپ کی پےشانی پر موت کا پسینہ آچکا تھا، اس حساس موقع پر بھی آپ نے اس اھم مسئلہ کو فراموش نھیں کیا، چونکہ آپ کی نظروں میں الله کا دین وآئین گردش کررھا تھا ، لہٰذا آپ کے سامنے اس امت کی سرنوشت مجسم تھی کہ جس کی ھدایت میں آپ نے شدید سے شدید مشقتیں اٹھائیں تھیں ، لہٰذا آپ نے حکم دیا کہ مجھے قلم و دوات دیدو تاکہ میں ایک ایسی چیز ( مسئلہ جانشینی) لکھتا جاؤں، جو میرے بعد تم کوگمراہ ہونے سے بچا لے۔[10]
اورکبھی آپ(ص) منبر پر تشریف لے جاتے اور فرماتے تھے:
”اِنیّ مخلف فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا ابداً“
اورکبھی اپنے حقیقی خلفاء کے اسم لیتے اور لوگوں کے سامنے ان کا تعارف کراتے، کبھی ان کی تعداد بیان فرماتے: ((الخلفاء بعدی اثنی عشر))اورکبھی ان آیات کو پڑھتے تھے جو آپ کے خلفاء کی شان میں نازل ہوئیں ،کبھی آپ ارشاد فرماتے تھے :
”یا علی انت منی بمنزلةھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“۔
کبھی اپنے بعد آئندہ اسلام میں ہونے وا لی بدعتوں کا تذکرہ کرکے اپنے گھرے افسوس کا اظھار کرتے تھے جونا حق خلافت کی وجہ سے وجود میں آئیں گی ۔
چنانچہ چودہ صدیوں سے ظالم اور جابر حکومتیںمسئلہ ٴ خلافت کو دھندلااور حقائق کو پوشیدہ کرنے کی سعی ٴ لاحا صل کئے جارھی ھیں ، حقائق کو چھپانے میں اپنی تما تر قوّتیں صر ف کردیں ، اپنے تمام وسائل اس مسئلہ میں استعمال کرلئے کہ خلافت کو اس کے حقیقی اور واقعی محور و مرکز سے ہٹا کر دوسری جگہ لیجائیں اور اس کو اصلی لباس سے برهنہ کرکے اس لباس میں پیش کریں جو باطل کا خود بافتہ و ساختہ ھے، لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھے، آج بھی سنیوں کی اصلی اورمدر ک کی کتاب صحیح بخاری ، صحیح مسلم کے مختلف ابواب اسی طرح مسلمانوں کی دیگرمعتبر کتابوں میں ایسی ایسی روایات موجود ھیں جن سے صحیح واقعیات و حقائق اور حضرت علی اور بقیہ آئمہ علیھم السلام کی خلافت ِ بلا فصل کا اثبات ہوتاھے جو شیعوں کا عیں ہ ھے ،البتہ صحیحین کے موٴلفین نے کافی کوشش کی ھے کہ ایسی کوئی حدیث نقل نہ کریں جس سے حضرت امیرالموٴمنین (ع)کی خلافت کا اثبات ہوسکے،مگر:
” وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کر ے ‘ ‘
چنانچہ آئندہ فصلوں میں پھلے ھم ان احادیث کو ذکر کر یں گے جو اھل بیت (ع) کی فضیلت کے سلسلے میں صحیح بخاری ا ور صحیح مسلم میں منقول ھیں ،اس کے بعد صحیحین میں نقل کردہ روایات کے مضمون کے مطابق خلفاء کا تعارف پیش کریں گے۔

۱۔ خاندان رسالت کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
۱۔ آیت تطھیراوراھل بیت پیغمبر(ص)
۱۔”قالت عائشة:خرج النبی(ص)غداة وعلیہ مرط مرحل من شعراسود، فجاء الحسن ابن علی،فادخلہ،ثم جاء الحسین،فدخل معہ،ثم جااٴت فاطمة سلام الله علیھافادخلھا،ثم جاء علی،فادخلہ،ثم قال: <اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهل الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطَہِیْرًا>[11]
حضرت عائشہ کھتی ھیں :
ایک مرتبہ حضرت رسول خدا (ص)بوقت صبح گھر سے اس حا لت میں خارج ہوئے کہ آپ کالی چادر اوڑھے ہوئے تھے ، اسی هنگام حضرت امام حسن ابن علی (ع) آپ کے پاس تشریف لائے، آپ نے شہزادے کو زیرچادر داخل کرلیا ،اس کے بعد حضرت امام حسین (ع)آئے ، وہ بھی زیر چادر آپ کے ساتھ داخل ھو گئے ،اس کے بعد حضرت فاطمہ زھرا (ع) تشریف لائیں ، آپ(ص) نے ان کو بھی زیر چادر داخل کرلیا، اس کے بعد حضرت علی (ع) آئے ، آپ(ص) نے انھیں بھی زیر چادر بلا لیا، اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:
<اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهل الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطَہِیْرًا>[12]
<اور اللہ کا ارادہ ھے کہ اے اھل بیت نبی! تم کو پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ھے اورھر رجس و خباثت سے دور رکھے>۔
مذکورہ حدیث مسلم کے علاوہ اھل سنت کی کتب تفاسیر و احادیث میں تواترکے ساتھ نقل کی گئی ھے، جیسا کہ ھم نے بحث”رسول(ص) خداازنظرآیات و احادیث“ میں اس جانب اشارہ کیا تھا ۔
بھر کیف اس آیت کے رسول وآل رسول علیهم السلام کی شان میں نازل ہونے کے بارے کوئی شک وشبہ نھیں چنانچہ جلد اول میں ھم نے اس آیت کے ذیل میں سنیوں کے بعض مدارک کی طرف اشارہ کیا ھے اور اسی جگھاس نکتہ کو بیان کیا کہ اس آیت کے ذریعہ خدا ومند متعال نے اھل بیت(ع) کو ھر گناہ سے پاک رکھنے کی ضمانت لی ھے اور آپ کو معصوم قرار دیا ھے اور یہ کہ آ یت ِ تطھیر اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ اھلبیت (ع)کبھی سہواً بھی کسی گناہ کا ارتکاب نھیں کرتے کیونکہ سھو و نسیان حکم تکلیفی(عقاب) کو تو برطر ف کر سکتے ھیں لیکن رجس اور حرمت کے ا ثر وضعی اوراس کی ذاتی نجاست کو مرتفع نھیں کر سکتے۔

۲۔ اھل بیت علیهم السلام اور آیہٴ مباھلہ
۲۔,,…عن عامر بن سعدبن وقاص عن ابیہ؛قال:امرمعاویة بن ابی سفیان سعداً:فقال:ما منعک ان تسب ابا تراب؟فقال:اماما ذکرت ثلاثاً قالھن لہ رسول اللّٰہ ،فلن اسبہ،لان تکون لی واحدہ منهن احب الی من حمر النعم ، سمعت رسول اللّٰہ(ص) یقول لہ خلفہ فی بعض مغازیہ،فقال علی:یارسول اللّٰہ(ص)!خلفتنی مع النساء والصبیان؟فقال لہ رسول اللّٰہ(ص):” اَمَاْ تَرَضیٰ َانْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَاْرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّااَنَّہ ُلَانَبُوَّةَ بَعْدِیْ“وسمعتہ یقول یوم خیبر:” لاعطین الرایة رجلاًیحب اللّٰہ ورسولہ و یحبہ اللّٰہ ورسولہ“قال فتطاولنا لھا،فقال:ادعوا لی علیا،فاتی بہ ارمد، فبصق فی عینہ،ودفع الرایة الیہ، ففتح اللّٰہ علیہ،ولما نزلت ہذہ الآیہ:<… فَقُلْ تَعَاْلَوْا نَدْعُ اٴَبَنآئَنَاْ واٴَبَنآئَکُم…> [13] دعیٰ رسول(ص) اللّٰہ عَلِیاًّ،وفاطمة،وحسناوحسینا،ً فقال:اَللّٰہُم َّہٰوٴلآءِ اَهلی“ [14]
ایک روز معاویہ ابن ابی سفیان نے سعد بن ابی وقاص سے کھا: تجھے کس چیز نے روکا ھے کہ ابو تراب (علی (ع)) کو گالی نھیں دیتا؟!“ سعد بن ابی وقاص نے کھا : رسول(ص) خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایسی تین فضیلتیں بیان کی ھیں جب بھی وہ فضیلتیں مجھے یاد آجاتی ھیں تو میں گالی دینے سے باز رھتا ہوںاور اگر ان میں سے ایک فضیلت بھی میں رکھتا ہوتا تو میرے لئے وہ سرخ اونٹوں سے بھتر ہوتی اور وہ تین فضیلتیں یہ ھیں :
۱۔ حضرت علی (ع)ھارون امت محمدیہ :ایک مرتبہ رسول خدا(ص) کسی ایک جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہوئے تو حضرت علی علیہ السلام کومدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا، اس وقت حضرت علی (ع) نے رسول(ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے آپ بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رھے ھیں ؟ اس وقت میں نے اپنے دونوں کانوں سے سنا کہ رسول(ص) نے فرمایا:” اے علی (ع)!کیا تم اس بات سے راضی نھیں کہ تمھاری منزلت میرے نزدیک وھی ھے جو موسی (ع) کے نزدیک ھارون (ع) کی تھی ،بس فرق اتنا ھے کہ تم میرے بعد پیغمبرنھیں ھو لیکن ھارون (ع)، موسیٰ(ع) کے بعد پیغمبر تھے“۔
۲۔ مردِ میدان خیبر:اسی طرح جنگ خیبر کے روز میں نے رسول(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
”کل میں یہ َعلم اس شخص کو دوں گا جو مرد ہوگااور اللہ و رسول (ص)کو دوست رکھتا ہوگا اور اللہ و رسول(ص) اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔“
سعد ابن ابی وقاص معاویہ سے کھتے ھیں :ھم سب لوگ اس دن اس َعلم کی تمنا رکھتے تھے، لیکن رسول(ص) خدا نے فرمایا: علی (ع) کو میرے پاس بلاوٴ !حضرت علی علیہ السلام کو آپ کے پا س اس حال میں لایا گیا کہ آپ (ع) کی آنکھیں درد میں مبتلا تھیں ، رسول(ص) نے اپنا لعاب دهن علی (ع) کی آنکھوں میں لگایا اور علم دے دیا، چنانچہ خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھوں جنگ خیبر میں اسلام کو کامیابی عطا فرمائی ۔
۳۔ مصداق آیہ ٴمبا ھلہ: جو میں نے دهن ِرسول(ص) سے سنی وہ یہ ھے کہ جب آیہٴمباھلہ<…فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ اَبنَائَنَاوَاَبنَائَکُمْ…> نازل ہوئی تو رسول(ص) نے علی، فاطمہ ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا خدایا!یہ میرے اھل بیت ھیں ۔

۳۔ حدیث غد یر اور اھل بیت علیهم السلام
حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةَوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیہ، قال لہ حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، راٴیت رسول(ص)َ اللّٰہ، وسمعت حدیثہ،وغزوت معہ،و صلیت خلفہ، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! م ا سمعت من رسول(ص) اللّٰہ، قال یابن اخی:واللّٰہ لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عھدی،و نسیت بعض الذی اٴعِی من رسول(ص) اللّٰہ، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا۔،فلاتکلفونیہ۔ثم قال:قام رسول(ص) اللّٰہ یوما فینا خطیباًبِماءٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰہ َو اَثْنیٰ علیہ و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ:الَاَ یا ایھا الناس! فانما انا بشر یوشک ان یاٴتِیَ رسول(ص) ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِکٌ فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُہُماَ کتاَبُ اللّٰہ ،فِیْہِ الہُدیٰ وَ النُّورِ، فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ بہ، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰہ وَ رَغَّبَ فِیْہِ، ثم قاَلَ: وَ اَهل بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہ فی اَهل بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فیِ اَهل بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰہ فِی اَهل بَیْتی ثلَاَثاٌ،فقال لہ حصین :و من اھل بیتہ؟ یازید !اٴَلَیس نسائُہ من اھل بیتہ؟ قال: نسائہ من اھل بیتہ، و لکن اھل بیتہ من حُرِم الصّدقة بعدہ ،قال :و من ھم؟ قال: ھم آلُ عَلی،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل ہٰوٴلاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم…۔“
مسلم نے روایت کی ھے کہ یزید بن حیاَّن کھتے ھیں :
ایک مرتبہ میں و حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:
”اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حا صل کیا ھے کیو نکہ تورسول خدا(ص) کے دیدار سے مشرف ھو چکا ھے اور حضرت(ص) کی گفتگو سے لطف اندوز ہوچکاھے، تونے رسول (ص)کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی اور حضرت(ص) کی اقتداء میں نماز پڑھی اس طرح تو نے خیر کثیر کو حا صل کیا ھے لہٰذا جو تونے رسول(ص) سے سنا ھے اسے ھمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کھتے ھیں : اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری عمر گزر چکی ھے، چنانچہ بھت کچھ کلام رسول(ص) میں فراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رھا ہوں اسے قبول کرلینااور جھاں سکوت کرلوں اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کھتے ھیں : ایک روز رسول اسلام(ص)مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمائی: اے لوگو ! میں بھی تمھاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ھے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے اور مجھے موت سے ھم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمھارے درمیان چھوڑے جا رھا ہوں، ان میں سے پھلی کتاب خدا ھے جو ھدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ھے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رھو اور اس سے بھرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:
اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اھل بیت(ع) ھیں اور میرے اھل بیت (ع)کے بارے میں خد ا سے خوف کرنااور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا)زید نے جب حدیث تمام کردی، تو حصین نے پوچھا: اھل بیت رسول(ص) کون ھیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ھے؟ کیا رسول(ص) کی بیویاں اھل بیت میں داخل ھیں ؟
زید ابن ارقم نے کھا: ھاں رسول(ص) کی بیویاں بھی اھل بیت(ع) میں ھیں مگر ان اھل بیت(ع) میں نھیں جن کی سفارش رسول(ص) فرمارھے ھیں ، بلکہ یہ وہ اھل بیت(ع) ھیں جن پر صدقہ حرام ھے۔
حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ھیں جن پر صدقہ حرام ھے؟زید بن ارقم نے کھا :وہ اولاد علی (ع)، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ھیں !حصین نے کھا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ھے ؟ زید نے کھا ھاں۔[15]

عرض موٴلف
اس حدیث کو مسلم نے متعددسندوں کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ھے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ھے، حا لانکہ حدیث غدیر کے سیکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم بھی ھیں جو یہ کھتے تھے :
اس وقت رسول(ص) نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ھے، اس کے بعد علی (ع) کا ھاتھ پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علی (ع)اس کے مولا و آقا ھیں ، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ۔[16]
البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیده کے لحا ظ سے اھل بیت(ع) کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ھے، حا لانکہ خود رسول(ص) نے اھل بیت (ع)سے مراد آیہٴ تطھیر اور آیہٴ مباھلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا ھے،جیساکہ آپ نے آیہٴ تطھیر کی شان ِ نزول کے ذیل میں گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمایا ۔

شدیدتعصب کی عینک
واقعہٴغدیر خم اور حدیث ثقلین ان موضوعات و واقعات میں سے ھیں جن کو علمائے اھل سنت نے اپنی معتبر اور بنیادی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ نقل کیا ھے،سینکڑوں کتب تاریخ وحدیث اور تفسیر میں علمائے اھل سنت نے ان واقعات اور روا یات کودسیوں سند کے ساتھ قلمنبد فرمایا ھے، لیکن امام بخاری اور مسلم کی کوتاہ نظری یہ ھے کہ (جیسا کہ ھم نے جلد اول میں بیان کیا) آپ حضرات نے اپنی آنکھوں پر ایسی تعصب کی عینک لگائی کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی بنیادی اور روز روشن کی طرح واضح و آشکار فضائل جیسے حدیث ِغدیرخم ، وحدیث ِ ثقلین وغیرہ نظر نہ آئے !! چنانچہ جو حدیث صحیح مسلم میں آئی ھے اس میں مسلم نے تاریخ اسلام کے مشہور واقعہٴ غدیر کے بعض حصے توڑ مروڑ کر ذکر کئے ھیں ۔
مناسب ھے کہ ھم اس جگہ عالم اھل سنت امام غزالی ابوحا مد کے قول کو نقل کردیں جو ھماری گفتگو سے مربوط ھے ،آپ فرماتے ھیں :
اھل سنت کے اکثر علماء نے رسول(ص) کے اس قول کو نقل کیا ھے جسے آپ(ص) نے میدان غدیر میں صحا بہ کے جم غفیر کے درمیان ارشاد فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَھٰذَاْ عَلِیٌ مَوْلَاہُ “
اس کے بعد تحریر کرتے ھیں :
بنی کے اس جملے کے بعد حضرت عمر اٹھے اور فرمایا:
”بخ بخ لک یا امیرالموٴ منین اصبحت مولای و مولا کل مومن و مو منة“
مبارک ھو مبارک ھو اے مومنوں کے امیر( علی (ع)) آج آپ میرے اور تمام مومنین مرد وعورت کے مولا بن گئے ۔
امام غزالی فرماتے ھیں :
اس جملہ کا مفہوم حضرت عمر کا علی (ع) کو حا کم مانتے ہوئے ان کی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ھے،لیکن بعد میں حب ِ ریاست اور پر چم ِ خلافت کے اٹھا نے کے شوق نے ان کو آلیا اور لشکر کشی اورفتوحا ت کی حرص نے کاسہ ٴ ہوا وہوس کو ان کے ھاتھوں میں تھمادیااور اس طرح یہ اسلام سے منحرف ہوکر زمانہ ٴجاھلیت کی طرف پلٹ گئے اور رسول(ص) کے ساتھ جو عھد و پیمان (غدیر میں )کیا تھا،اس کو فراموش کر کے قلیل قیمت میں فروخت کردیا یہ کتنا بر ا سودا ھے:
<فبئس ما یشترون >”ثم بعد ہٰذا غلب الہوی لحب الریاسة و حمل الخلافة ، عقود البنود وخفقان الہوی …“[17]

۴۔ اھل بیت (ع)”صلوات“ میں شریک ِ رسول(ص)ھیں
اھل سنت کی متعدد کتابوں میں نقل کیا گیا ھے کہ حضرت رسالتمآب (ص)نے تمام مسلمانوں کو حکم فرمایا ھے: جب آپ(ص) پر صلوات بھیجی جائے تو آپ کے اھل بیت علیھم السلا م کو بھی صلوات میں ضرور شریک کیا جائے ،یعنی تنھا رسول(ص) پر صلوات بھیجنا صحیح نہ ہوگا ،جب تک کہ آپ کے اھل بیت (ع)پر صلوات نہ بھیجی جائے گی،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقام نبوت کی تعظیم وتکریم کے ساتھ ساتھ اھل بیت(ع) ِعصمت و طھارت کی بھی تعظیم وتکریم لازم ھے اوراس معاملہ میں آپ (ص)کے اور آپ کے خاندان کے درمیان کسی بھی طرح کا فاصلہ کرنا صحیح نھیں ھے ، چنانچہ کتب اھل سنت میں ایسی بھت ساری روایات موجود ھیں ،لیکن ھم صرف صحیحین سے چند نمونے پیش کر تے ھیں :
۱۔,,…حدثنا الحکم ؛قال: سمعت عبد الرحمٰن بن ابی لیلی؛ ٰقال: لقینی کعب بن عجرة فقال:الااھدی لک ھدیة ً؟ان النبی(ص) خرج علینا فقلنا، یا رسول الله ! لقد علمنا کیف نسلم علیک،فکیف نصلی علیک ؟ فقال(ص): قولوا!”اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ ،کَمَاْصَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاہِیْمَ، اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰہُمَّ بَاْرِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّد،کَمَاْ بَاْرَکْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْہِیْم،َ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔“
حکم نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ھے :
( ایک دن) کعب ابن عجرہ سے میری( عبد الرحمٰن ابن ابی لیلیٰ) ملاقات ھو ئی، تو اس نے مجھ سے کھا : کیا تو چاھتا ھے کہ تجھے ایک تحفہ پیش کروں؟وہ تحفہ یہ ھے کہ ایک مرتبہ رسول(ص)خدا ھمارے درمیان تشریف لائے، ھم لوگوں نے سلام کیا اور پوچھا:یا رسول الله (ص)!ھم نے آپ پر سلام کرنا تو سمجھ لیا !مگر صلوات کس طرح بھیجی جائے؟ آپ(ص)نے جواب میں فرمایا:
” اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَاْصَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاہِیْمَ،اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰہُمَّ بَاْرِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَاْ بَاْرَکْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْہِیْم،َ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔“
” اے میرے معبود !رحمت نازل کر محمد وآل محمد پر،جس طرح تو نے رحمت نازل کی ابراھیم کی آل پر،بےشک تو بزرگ اور قابل حمد ھے، اے میرے معبود!اپنی برکت نازل فرما محمد وآل محمد پر، جس طرح تونے ابراھیم کی آل پر نازل کی ،بےشک تو صاحب مجد اور لائق تعریف ھے۔“[18]
۲۔,,… عن ابی مسعود الانصاری؛قال: اٴَتانارسول الله ،(ص)ونحن فی مجلس سعد بن عبادة ،فقال لہ بشر بن سعد،امرنا الله عزّوجلّ ان نصلی علیک یارسول الله !(ص) قال:فسکت رسول الله ،حتی تمنینا انہ لم یسئلہ،ثم قال رسول الله (ص): قولوا: اَللّٰھمَّ صَلّ علی محمد وعلی آل محمد ،کما صلیت علی آل ابراھیم،وبارک علیٰ محمدوعلیٰ آل محمد،کما بارکت علیٰ آل ابراھیم فی العالمین،انک حمید مجید ،والسلام کما علمتم۔“
مسلم نے ابومسعود انصاری سے نقل کیا ھیکہ ابومسعود کھتے ھیں :
ھم سعد بن عبادہ کی نشست میں بیٹھے تھے کہ رسول(ص) تشریف لائے ،تو بشر بن سعد نے کھا : یا رسول اللہ(ص)!ھم کو خدا نے آپ پر صلوات بھیجنے کا دستور دیا ھے، مگر ھم کس طرح صلوات بھیجیں ؟
ابو مسعود کھتے ھیں :
رسول(ص) نے اس وقت سکوت فرمایااور اتنی دیر ساکت رھے کہ ھم نے کھا : کا ش بشریہ سوال نہ کرتا،اس وقت آنحضرت(ص) نے فرمایا: صلوات اس طرح بھیجو :
” اللّٰھم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ کَمَاْ صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْہِیْمَ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاہِیْمَ فِیْ العَالَمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ“
اور سلام اسی طرح بھیجو جو تم جانتے ہو۔[19]

عرض موٴلف
اھل سنت کی کتب صحا ح و مسانیداور تواریخ و تفاسیرمیں دسیوں حدیثیں رسول(ص) اور آل رسول(ص) پر صلوات بھیجنے کے طریقہ کے بارے میں وارد ہوئی ھیں اوران سب میں جامع ترین تفسیر، دُرِّ منثور (سورہ ٴاحزاب کی تفسیر میں ) ھے۔
لیکن آنحضرت(ص)کی آنکھیں بند ہونے کے بعد حکومت اور جاہ طلبی نے اس قدر مسلمانوں کو اندھا کردیا کہ جتنا ھو سکتا تھا اھل بیت (ع)کے فضائل کو چھپایا جانے لگا !چنانچہ صلوات میں بھی دھیرے دھیرے اھل بیت(ص) کے نام کو حذف کرکے، صرف رسول (ص)پر ناقص اور دم بریدہ صلوات بھیجنے پراکتفاء کرنے لگے ،حا لانکہ رسول(ص)خدانے ایسی صلوات بھیجنے سے بارھا منع فرمایا تھا، مگر افسو س آج بھی مسلمانوں کی یھی سیرت ھے کہ رسول(ص) پر دم بریدہ صلوات بھیج کر دشمنی اھل بیت(ع) کاکھلم کھلا ثبوت دے رھے ھیں ، جب کہ علمائے اھل سنت کی آنکھوں کے سامنے آج بھی یہ حدیثیں موجود ھیں ، بلکہ خود یہ لوگ ان حدیثوں کو نقل بھی کرتے ھیں ، لیکن عملی میدان میں اپنی گفتگو اور تحریروں کے اندر ان احادیث کے مضمون اور حکم رسول (ص)کی صریحا مخالفت کرتے ہوئے رسول(ص) پر صلوات بھیجنے کے بارے میں اپنے اباوٴاجداد کی سنت پر عمل کرتے ھیں !لہٰذا اس جگہ دقت کرنے سے ھماری سمجھ میں صرف ایک ھی چیز آتی ھے اوروہ ھے اپنے آباوٴ اجداد کی طرحا ھل بیت(ع) کے بارے میں شدید تعصب میں مبتلا ہونا!
<وَاِذَاْ قِیْلَ لَھُمُ اْتَّبِعُوْا مَاْ اَنْزَلَ الله قَاْلُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاْ وَجَدْنَاْ عَلَیْہِ آبا ئَنَاْ اَوَ لَوْکَاْنَ الشَّیْطَاْنُ یَدْعُوْھُمْ ِالیٰ عَذَاْبِ السَّعِیْرِ>[20]
” اور جب ان سے کھا جاتا ھے :جو کتاب خدا نے نازل کی ھے اس کی پیروی کرو ،تو وہ (چھوٹتے ھی یہ) کھتے ھیں : نھیں ھم تو اسی طریقہ پر چلیں گے جس پر ھم نے باپ داداؤں کو پایا، بھلا اگرچہ شیطان ان کے باپ داداؤں کو جهنم کے عذاب کی طرف بلاتارھا ہو، تو پھر کیا وہ ان کی پیروی کریں گے۔“

۵۔ کتب اھل سنت میں بارہ اماموں کا ذکر
اھل سنت کی معتبر کتابوں میں بارہ اما م خصوصاً امام مھدی ارواحنا لہ الفداء (عج) کے اوصاف کے بارے میں متعدد روایات موجود ھیں،یھاں تک کہ ان احادیث کی وجہ سے بعض علمائے اھل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں آخری امام کیلئے ایک مستقل فصل قرار دی ھے اور بعض نے امام عصر(ع) کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ھیں،لیکن فی الحال ھم صحیحین سے اس بارے میں نقل شدہ روایات پیش کر نے پر اکتفا ء کرتے ھیں :
۱۔,,…عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرة ؛قال: سمعت النبی(ص)یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعھا،فقال ابی: انہ قال: کلھم من قریش“ [21]
عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ھے:
میں نے رسول خدا(ص) سے سنا : آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کھتے ھیں : دوسرا کلمہ میں نے ٹھیک سے نھیں سنا جس میں آنحضرت(ص) نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا: وہ جملہ جو تم نے نھیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ھے اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آ یا ھے:
”…جابر بن سمرة؛ قال:انطلقتُ الی رسول(ص) اللّٰہ ومعی ابی، فسمعتہ، یقول: لایَزَالُ ہذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْہَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلھم من قریش“ [22]
جابر بن سمرہ کھتے ھیں :
ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا(ص) میں مشرف ہوا تو میں نے رسول(ص) سے سنا :آپ فرما رھے تھے: یہ دین الہٰی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رھے گا،اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حا ئل ہوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا:یہ تمام بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔

عرض موٴلف
اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اھل سنت کی اھم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ھے اور یہ حدیث مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے بطلان اور مذھب شیعہ کے حق ہونے پر ایک محکم و مضبوط دلیل ھے، اس لئے کہ اس حدیث کا مضمون مذھب شیعہ کے علاوہ کسی اور فرقہ ٴ اسلامی کے رهنماؤں سے منطبق نھیں ہوتا،کیونکہ اھل سنت خلفائے راشدین (جو چار ھیں ) کے قائل ھیں ، یا پھر امام حسن مجتبی (ع) کی خلافت کو ملا دیں توپانچ ہوتے ھیں ، لیکن حدیث میں رسول(ص) نے بارہ فرمائے ھیں ، لہٰذا ان کے مذھب سے یہ حدیث منطبق نھیں ہوتی اور اگر خلفائے بنی امیہ و بنی عباس کو ملایا جائے توسب سے پھلے یہ کہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہوتی ھے۔دوسرے یہ کہ ان میں سے اکثرخلفاء اھل فسق و فجور تھے، انھوں نے اپنی ساری عمر گناہوں ،قتل، غارتگری و خونریزی ، شراب نوشی اور زناکاری میں گزاری لہٰذا رسول(ص) ان کو کیسے اپنا جانشین قرار دے سکتے ھیں ؟! پھرجس طرح یہ حدیث اھل سنت حضرات کے خلفاء کی تعداد سے منطبق نھیں ہوتی اسی طرح فرقہٴزیدیہ،اسماعیلیہ ، فطحیہ، سے بھی منطبق نھیں ہوتی ،کیونکہ ان کے مذھب کے خلفاء کی تعداد ۱۲ سے کم ھے، لہٰذا صرف شیعہ اثنا عشریہ کے خلفاء کی تعداد سے منطبق ہوتی ھے، ان میں سر فھرست مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور آخر حضرت مھدی حجة ابن الحسن العسکری (عج) ارواحنا لہ الفداء ھیں ۔
۲۔ … جابر بن عبدالله وابوسعید قالا: قال رسول الله :یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولا یعدہ۔ [23]
جابر بن عبد اللہ اور ابوسعید نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ھے :
آپ(ص) نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں میرا ایک جانشین و امام ہوگا جو مال و ثروت کو( ناپ و تول کے ساتھ ) تقسیم کرے گا نہ کہ گنے گا۔
۳۔ … عن ابی سعید؛ قال: قال رسول الله : من خلفاء کم خلیفة یحشو المال حشیاً ولا یعدہ عداً۔ [24]
ابو سعید نے رسول خدا(ص) سے دوسری حدیث نقل کی ھے ؛ آنحضرت(ص) نے فرمایا: تمھار ے خلفاء اور ائمہ میں سے ایک خلیفہ و امام وہ ہوگا جو مال کو مٹھی سے تقسیم کرے گا نہ کہ عدد و شمار سے۔
امام زمانہ (عج) کے بارے میں فاضل نَوَوی شارح صحیح مسلم؛ مذکور ہ حدیث کی لغت حل کرنے کے بعد لکھتے ھیں :
سونا اور چاندی کی اس قسم کی تقسیم ک ا سبب یہ ھے کہ اس وقت ان حضرت(ع) کی وجہ سے کثرت سے فتوحا ت ہوں گی جن سے غنائم اورمال وثروت فراوانی سے حا صل ہوگا اور آپ اس وقت اپنی سخاوت اور بے نیاز ی کا اس طرح مظاھرہ فرمائیں گے، اس کے بعد کھتے ھیں : سنن ترمذی و ابی واؤد میں ایک حدیث کے ضمن میں اس خلیفہ کا نام (مھدی) مرقوم ھے، اس کے بعد اس حدیث کو سنن ترمذ ی سے نقل کرتے ھیں کہ رسول(ص) نے فرمایا :قیامت واقع نھیں ہوگی جب تک میرے اھل بیت ( خاندان )سے میرا ھمنام، جانشین ظاھر ھو کر عرب پر مسلط نہ ھو جائے۔
اس کے بعد نووی کھتے ھیں :
ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ھے اور سنن داوٴد میں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی تحریر ھے : ” وہ خلیفہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔“
۴۔ امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھیکہ آنحضرت نے فرمایا:
”کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ اِبنُ مَرْیَم فِیکُم وَاِمامُکم مِنْکُمْ“[25]
تمھارا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب ابن مریم حضرت عیسی تمھارے درمیان نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا؟
ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ھے کہ امام شافعی اپنی کتاب ”المناقب“ میں تحریر کرتے ھیں :
اس امت میں امام مھدی (ع)کا وجود اور آپ کا حضرت عیسی (ع) کو نماز پڑھانا حد تواتر کے طور پر ثابت ھے۔[26]
ابن حجر اس کے بعد کھتے ھیں :
بدر الدین عینی اس حدیث کی مفصل شرح کرنے کے بعد اس طرح نتیجہ گیری کرتے ھیں :
”حضرت عیسی (ع) کا اس امت مسلمہ کے امام مھدی(ع) کے پیچھے قیامت سے نزدیک آخری زمانہ میں نماز پڑھنا ،اس بات کی دلیل ھے کہ جو لوگ قائل ھیں کہ زمین کبھی حجت خد ا سے خالی نھیں ، وہ درست ھے اور ان کا یہ عقیده حق بجانب ھے۔“[27]
اور امام نووی”کتاب تہذیب الاسماء“ میں کلمہٴعیسیٰ کے ذیل میں تحریر کرتے ھیں:
” حضرت عیسیٰ(ع) کا آخری زمانہ میں امام مھدی(ع) کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے آنا اسلام کی تائید اور تصدیق کی خاطر ھے ،نہ کہ اپنی نبوت اور مسیحت کو بیان کرنے کے لئے اور خدا وند متعال حضرت عیسیٰ(ع) کو امام مھدی (ع) کے پیچھے نماز پڑھواکر رسول (ص)اکرم کے احترام میں اس امت اسلام کو قابل افتخار بنانا چاھتا ھے۔“[28]
قارئین محترم! یہ تھی چند حدیثیں جوصحیحین میں وارد ہوئی ھیں ،جن سے بعض عقیدہٴتشیع کی تائیدہوتی ھے،لیکن مذکورہ مطالب کو صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے بعض متعصب شا رحین اور عصر حا ضر کے چند نام نھاد سنی مصنفین ہضم کرنے سے قاصر نظر آتے ھیں (اورنہ جانے کیوں ان مطالب کی بنا پر عارضہٴ شکم ِ درد میں مبتلا دکھائی دیتے ھیں!)اور بجائے اس کے کہ یہ لوگ ان حدیثوں کے مفہوم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے،انھوں نے ایسی ایسی الٹی،سیدھی،ضد و نقیض اور غیر قابل ِ قبول توجیھات و تاویلات نقل کی ھیں جو صریحا عقل و نقل کے خلاف ھیں ۔
چنانچہ عصرحا ضر کے بعض محققین جب ان توجیھات کے فساد کی طرف متوجہ ھو ئے تو انھوں نے سرے سے مذکورہ حدیثوں کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک دوسرا راستہ اپنایا! مثلاً شیخ محمود ابوریہ اپنی کتاب میں اس حدیث کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ھیں :
”یہ روایات مشکل ترین حدیثوں میں سے ھیں،جن کا سمجھنا بھت دشوار ھے، بلکہ اس کے واقعی مفہوم کو درک کرنا ھمارے امکان میں ھے ھی نھیں، لہٰذا ان حدیثوں کی تشریح کے بجائے ھ میں اپنا گرانقدروقت اور اپنی قیمتی عمر دوسرے مفیدعلمی مطالب میں صرف کر نی چاھیئے۔‘ ‘[29]

عرض موٴلف
جی ھاں!جو احادیث ان کے عقیده کے خلاف ہوتی ھیں، وہ ان کے نزدیک قابل ِ بحث و تمحیث اور لائق تشریح و تو ضیح نھیں ہوا کرتیں!!ان کا واقعی مفہوم درک(ہضم ) کرنا ان کے بس میں نھیں ہوتا!!حقائق بیان کرنے سے یونھی جان چرائی جاتی ھے ،اللہ بچائے ایسے ناحق شناسوں سے ۔

۲۔ فضا ئل علی علیہ السَّلام صحیحین کی روشنی میں
ابھی تک ھم نے اھل بیت علیھم السلام اور بارہ اماموں کے فضائل کے بارے میں بطور عموم صحیحین سے روایات آپ کی خدمت میں نقل کیں ھیں اب ھم فرداً فرداً اھل بیت کے فضائل میں صحیحین سے روایات نقل کرتے ھیں،چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل سے شروع کرکے حضرت فاطمہ زھر ا سلام الله علیھا پھر حسنین علیھما السلام کے مشترکہ فضائل ذکر کریں گے، اس کے بعد ان میں سے ھرایک کے علیٰحدہ فضائل بیان کریں گے ۔

پھلی فضیلت: د شمنانِ علی دشمنانِ خد ا ھیں
۱۔,,…عن ابی ذرقال نزلت الآیة:<ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ>[30] فی ستة مِن قر یشٍ عَلِی وَحَمزَة وَ عُبَیدَة بنِ الحا رث،و شیبة بن ربیعة وعُتبة بن ربیعة والولید بن عتبة“[31]
ابوذر کھتے ھیں :
یہ آیت<ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِ >دو قریش کے گروہ جو راہ خدا میں آپس میں دشمنی اور عداوت رکھتے تھے یہ آیت تین خالص مومن اور قریش کے تین کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ھے یعنی علی (ع) ، حمزہ(ع)، عبیدہ بن حا رث، یہ توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے لڑے اور عتبہ ، شیبہ، ولید، یہ توحید کے پرچم کو سرنگوں کرنے کے لئے لڑے۔
۲۔,,… قیس بن عباد عن علی (ع)؛ فینا نزلت ہٰذہ الآیة:< ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِمْ>۔[32]
قیس بن عباد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں :
آیہٴ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ> ھماری شان میں نازل ہوئی ۔

دوسری فضیلت : حضرت علی (ع) کی محبت ایمان کی پہچان اور آپ کی دشمنی نفاق کی علامت ھے
۳۔,,…عن عدی بن ثابت عن زر؛قال: قال علی(ع): والَّذی فلق الحبة و بریٴ النسمةانہ لعھد النبی(ص) الا می الی، اَنْ لَایُحِبَّنِی اِلَّا مُوٴمِنٌ وَلاَیَبْغِضُنِی اِلَّا مُنَافِقٌ“
عدی بن ثابت زر سے نقل کرتے ھیں :
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : قسم اس ذات وحدہ لاشریک کی جس نے دانہ کو شگافتہ اور مخلوق کو پیدا کیا کہ یہ رسول(ص) کا مجھ سے عھد و پیمان ھے کہ مجھے دوست نھیں رکھے گ ا سوائے مومن کے اور مجھ سے دشمنی نھیں کرے گ ا سوائے منافق کے۔[33]

تیسری فضیلت :علی (ع) کی نماز رسول(ص)کی نماز ھے
…”عن مُطَرِّف بن عبدالله عن عمران بن حصین؛قال:صلی مع علی علیہ السلام بالبصرة،فقال:ذکرناہذا الرجل صلٰوة نصلیھامع رسول(ص)اللّٰہ، فذکرانہ کان یکبرکلمارفع ،وکلماوضع“[34]
مطرف بن عبد اللہ کھتے ھیں :
ایک مرتبہ عمران بن حُصَین نے بصرہ میں حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی تو کهنے لگے : آج تو میں نے وہ نماز پڑھی ھیجو رسول(ص) کے پیچھے پڑھا کرتا تھا، کیونکہ رسول(ص) بھی ایسے ھی رکوع و سجود نشست و برخواست میں تکبیر کھا کرتے تھے۔

چوتھی فضیلت:رسول(ص) کاحضرت علی(ع)کو ابو تراب کالقب دینا
”… عن ابی حا زم؛ ان رجلاً جاء الی سھل بن سعد، فقال: ہٰذا فلان (امیرالمدینة) یدعوعلیاً عند المنبر، قال : فیقول: ماذا قال؟یقول لہ ابو تراب، فضحک، قال:والله ما سماہ الا النبی، وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔ [35]
ابو حا زم کھتے ھیں :
ایک مرد سھل ابن سعد کے پاس آیا اورکهنے لگا: فلاں شخص (ا میر مدینہ)رسول(ص) کے منبر کے پاس حضرت علی (ع) کو برا بھلا کھتا ھے، سھل بن سعد نے اس سے پوچھا : وہ کیا کھتا ھے؟ اس نے کھا : علی کو ابوتراب کھتا ھے، سھل یہ سن کر مسکرائے اور کهنے لگے : قسم بخدا یہ نام اور لقب انھیں رسول خدا(ص) کے سوا کسی نے نھیں دیا اور حضرت علی علیہ السلام اس لقب کو دیگر تمام لقبوں سے زیادہ پسند کرتے ھیں ۔

عرض موٴلف جیساکہ متن حدیث میں آیا ھے کہ لقب ِ ابو تراب وہ لقب تھا جس سے امیرالموٴ منین (ع)خوش ہوتے اور اس پر افتخار کرتے تھے،لیکن دشمنان علی (ع) کو یہ لقب بھی گراں گزرا ،لہٰذا چونکہ اس سے انکار نھیں کرسکتے تھے اس لئے انھوں نے اس میں ایسی تحریف کردی کہ حضرت امیر لموٴمنین (ع) (ع)کی اس لقب سے فضیلت ظاھر نھیں ہوتی،چنانچہ اس لقب کے عطا کرنے کے بارے میں انھوں نے ایسی روایات جعل کیں جن سے امام المتقین حضرت امیر(ع) کی منقصت ظاھر ھو تی ھے، انشاء الله جلد سوم میں ھم اس حدیث کے اور ان دیگر احادیث پر جن سے مولا علی (ع) کی قدح ظاھر ہوتی ھے، کے اسبابِ جعل پر اگر خدا نے توفیق عنایت کی تو بحث کریں گے ۔

پانچویں فضیلت : علی (ع)سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا تھے
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے:
حضرت عمر نے کھا: حضرت علی (ع)ھم میں سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا ھیں ۔” وَاَقْضَاْنَاْعَلِیٌّ “[36]

عرض موٴلف
خلیفہ ٴ دوم کا اعتراف خود اپنی طرف سے نہ تھا بلکہ رسول(ص) اسلام نے بارھا اس جملہ کو لوگوں کے سامنے فرمایا تھا کہ علی (ع)اصحا ب میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ھیں اور کبھی آپ فرماتے تھے کہ علی (ع)اس امت میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ھیں ۔[37]
بھر حال قابل توجہ نکتہ یھاں پر یہ ھے کہ مسئلہٴ قضاوت میں تقواو پرھیزگاری کے علاوہ وسیع معلومات اور کافی آگاھی کاھو نا ضروری ھے اورجب تک ان علو م سے آشنا نھیں ھو سکتا قضاوت کرنا نا ممکن امر ھے ، لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کا بقول مرسل اعظم علم قضاوت میں سب سے زیادہ آشنا ہونا اس بات کی دلیل ھے آپ(ع) سب سے زیادہ علم و آگاھی رکھتے تھے، گویا ”اَقْضَاْھُم “ کا جملہ ” اَعْلَمُھُمْ“ او ر ”اَتَقَاْہُمْ “ وغیرہ …کی جگہ استعمال کیا گیا ھے ۔

چھٹی فضیلت : علی (ع) خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتے تھے اور خدا و رسول(ص) آپ کو
”… عن سھل بن سعد؛ قال: قال النبی(ص): یوم خیبر” لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ “ فبات الناس لیلتھم ایھم یُعطٰی؟ فغدَوْا کلھم یرجوہ فقال(ص): این علی(ع)؟ فقیل :یشتکی عینیہ، فبصق فی عینیہ ،ودعی لہ، فبرء کاٴن لم یکن بہ وجع،فاعطاہ، فقال(ع): اٴُقاتلھم حتی یکونوا مثلنا ؟ فقال: انفذ علی رِسْلِکَ حتیٰ تَنْزِلَ بِساحَتِھم، ثم ادعھم علی الاسلام، واخبرھم بما یجب علیھم ،فوالله لِاٴَن یھدی الله بک رجلا،خیرٌ لک من ان یکون لک حمر النعم۔[38]
سھل بن سعد نے رسول اسلام(ص) سے نقل کیا ھے:
”رسول خد(ص)ا نیجنگ خیبر کے دن یہ ارشاد فرمایا:
” لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ “
کل میں ایسے مرد کو علم دوں گا جو اللہ و رسول(ص)کو دوست رکھتا ھو اور اللہ و رسول (ص)اسے دوست رکھتے ہوں۔ سھل کھتے ھیں: اس شب تمام لشکر اسلام کو چین کی نیند نہ آئی، کیونکہ ھر شخص اسی انتظارمیں تھا کہ کل مجھے علم اسلام مل جائے لیکن رسول(ص) نے ارشاد فرمایا : علی( علیہ السلام) کھاں ھیں ؟
لوگوں نے کھا: ان کی آنکھوں میں درد ھے( آپ نے مولا علی (ع) کو طلب فرما کر) آپ کی آنکھوں میں لعاب دهن لگادیا اور دعا فرمائی:( اے اللہ علی (ع) کو شفا یاب فرما دے)رسول(ص) کی دعا کے نتیجہ میں آپ(ع) کی آنکھیں ایسی ٹھیک ہوگئیں جیسے کہ آپ کی آنکھوں میں درد ھی نہ تھا چنانچہ رسول(ص) نے علم اسلام کو آپ کے ھاتھوں میں دے دیا، آپ(ع) نے فرمایا: یا رسول اللہ!(ص) کب تک جنگ کروں؟ کیا اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ایمان وعمل میں ھماری جیسے نہ ھو جائیں ؟
رسول(ص) نے فرمایا: اے علی (ع)!اس لشکر کفار کی طرف حرکت کرو ،او رانھیں دعوت اسلام دو، انھیں قوانین اسلام سے آگاہ کرو ،کیونکہ قسم بخدا اگر خدا نے تمھارے ذریعہ سے ایک شخص کو بھی ھدایت فرمادی تو وہ تمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بھتر ہوگا۔
مسلم نے اس حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ بھی نقل کیا ھے :
,,…عن ابی ھریرة؛ان رسول الله قال یوم خیبر:” لَاُعْطِیَنَّ ہٰذِ ہِ الرَّایَةَ رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ یَفتح ا للّٰہُ عَلٰیَ یَدَیْہ“ قال عمر بن الخطاب:مااحببت الامارة الایومئذٍ،فتساورت لھارجاء ان ادعی لھا،فدعی رسول الله علی بن ابی طالب:فاعطاہ ایاھا،وقال امش ولاتلتفت حتی یفتح ا لله علیک،قال:فسارشیئاًثم وقف ولم یلتفت، فصرخ یارسول الله !علی ماذا اقاتل الناس؟قال:وقاتلھم حتی یشھدواان لاا لٰہ الا الله و ان محمداًرسول الله،فاذافعلوا ذالک،فقدمنعوا منک دمائھم و اموالھم، الا بحقھا وحسابھم علی الله “[39]
ابو ھریرہ نقل کرتے ھیں :
رسول(ص) نے بروز جنگ خیبر یہ ارشاد فرمایا:آج میں اسلام کا علم ایسے مرد کو دوں گا جو الله ا ور رسول(ص) کو دوست رکھتا ھے اور الله اس کے دونوں ھاتھوں پہ فتحیابی بخشے گا،حضرت عمر کھتے ھیں : جب رسول(ص) نے یہ اعلان کیا تو مجھے بھی علم لینے کا دوبارہ اشتیاق ہوا ،چنانچہ آپ کھاکرتے تھے: روز خیبر سے پھلے مجھے کبھی علم اسلام اٹھا نے کا شوق نھیں ہوا! لہٰذا جب میں نے یہ اعلان سنا تو میں بھی( رسول(ص) کے پاس دوڑ کر گیا اور) علم کے ارد گرد گھومنے لگا!اس امید میں کہ (رسول (ص)مجھے دیکھ لیں اور ) علم مل جائے لیکن (افسوس) یہ افتخار علی (ع) کو حا صل ہوااور رسول(ص) نے علی(ص) کو بلایا اور علم آپ کے ھاتھوں میں دینے کے بعد فرمایا : اے علی (ع) ! دشمن کی طرف حرت کرو تاکہ خدا تمھارے ھاتھوں کے ذریعہ اس قلعہ کو فتح کرے ۔
حضرت عمر کھتے ھیں : علی (ع) تھوڑی دور آگے بڑھے اور رک گئے، بغیر اس کے کہ اپنا چھرہ پیغمبر(ص) کی طرف گھماتے ، دریافت فرمایا: اے رسول(ص)! ان لوگوں سے کب تک جنگ کروں ؟ آپ(ص) نے فرمایا :اے علی (ع)! جنگ کرو جب تلک کہ یہ لوگ خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرارنہ کرلیں اور جب ان دوباتوں کو یہ لوگ قبول کرلیں تو ان کا خون ومال محفوظ ہوجائے گا اور ان کا حساب پھر خدا کے اوپر ھے ۔

ساتویں فضیلت : حضرت علی (ع) کی رسول(ص) کے نزدیک وھی منزلت تھی جو ھارون کی موسیٰ کے نزدیک
,, … عن مصعب بن سعد عن ابیہ؛ ان رسول الله (ص)خرج الی تبوک واستخلف علیاً ،فقال:اٴ تخلفنی فی الصبیان والنساء؟قال رسول اللّٰہ:”اَلاَ ترَضِیْ اَنْ َتکُوْنَ ِمنیِّ بِمَنْزِلَةِ ھاَرُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ،اِلاَّ اَنہَّ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ“[40]
مصعب بن سعد نے اپنے باپ سے نقل کیا ھے:
جب رسول اسلام(ص) جنگ تبوک کیلئے خارج ہوئے اور آپ نے علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ،تو حضرت علی علیہ السلام نے دریافت کیا : یا رسول الله !آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑیجا رھے ھیں ؟ رسول(ص) نیجواب میں ارشاد فرمایا: اے علی (ع) !تمھاری میرے نزدیک وھی منزلت ھیجو ھارون(ع) کی موسی (ع) کے نزدیک تھی بس فرق اتنا ھے کہ وہ موسیٰ (ع)کے بعد نبی تھے اور تم میرے بعد نبی نھیں ھو ۔

عرض موٴلف
محتر م قارئین !مذکورہ حدیث شیعہ وسنی دونوں کے درمیان متفق علیہ ھے ، یھاں تک کہ آپ کے پکے دشمن معاویہ نے بھی اس حدیث سے انکار کرنے کی جراٴت نھیں کی ھے! اس حدیث میں رسول(ص)خدا نے علی (ع) کو تما م چیزوں میں ھارون سے تشبیہ دی ھے اورصرف نبوت کو خارج کیا ھے یعنی ھارون اور علی (ع) کے درمیان صرف نبوت کا فرق ھے بقیہ تمام اوصاف،کمالات، منصب اور مقام میں باھم شریک ھیں ، کیو نکہ اگر فرق ہوتا تو رسول(ص) نیجس طرح نبوت کو جدا کر دیا،اسی طرح دوسری جھت کو بھی جدا کر دیتے، لہٰذا رسول(ص) کا دیگر مناصب و کمالات سے استثنا ء نہ کرنا بیّن دلیل ھے کہ آپ میں ھارون(ع) کے تمام اوصاف پائیجانے چاھیئے تب تشبیہ صحیح قرار پائے گی اور جاننا چاھیئے کہ جناب ھارون مندجہ ذیل منصب اور کمال پر فائز تھے لہٰذا مولا علی (ع) میں یہ اوصاف پائیجانے چاھیئے تاکہ تشبیہ صحیح قرار پائے :
۱۔ مقام وزارت :جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نبوت کے علاوہ تمام اوصاف علی (ع) میں پائیجانے چاھیئے تب مذکورہ تشبیہ صحیح ہوگی، لہٰذا جس طرح حضرت موسی (ع)کے بھائی ھارون (ع) آ پ کے وزیر تھیجیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا
:<وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْراً مِنْ اَھْلِیْ. ھَاْرُوْنَ اَخِیْ>[41]
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی رسول اسلام(ص) کے وزیر ھیں ، یھی وجہ ھے کہ ر سول(ص) نے متعدد جگہوں پر علی (ع) کے لئے اپنی وزارت کا اظھار کیا ھے۔
۲۔ مقام اخوت و برادری :جس طرح ھارون موسی (ع) کے بھائی تھے<ہَاْرُوْنَ اَخِیْ> اسی طرح علی (ع) بھی رسول(ص) کے( رشتہ اور روحا نی اعتبار سے) بھائی ھیں ۔
۳۔ مقام خلافت:جس طرح موسی (ع)نے ھارون کو کوہ طور پر جانے کے وقت اپنا خلیفہ بنایا:<…وَقَاْلَ مُوْسیٰ ِلَاخِیْہِ ہَاْرُوْنَ اخْلُفنِْیْ فِیْ قَوْمِیْ…>[42]
جناب ھارون(ع) بنی اسرائیل کے درمیان حضرت موسی (ع) کے خلیفہ اور جانشین قرار پائے اور حضرت موسیٰ (ع)نے ھارون کی اطاعت کو بنی اسرائیل پر واجب قرار دیااور ھارون(ع) کو وصیت کی کہ رسالت کی تبلیغ کریں اور میرے دین کو وسعت دیں ، اسی طرح حضرت علی علیہ السلام رسول اسلام(ص) کے خلیفہ اور جانشین ھیں ۔
۴۔ مقام وصایت: جب تک موسی (ع) زندہ تھے ھارون موسیٰ کے خلیفہ اور جانشین تھے، لہٰذا اگر حضرت موسیٰ (ع)
(ع)وفات پا جاتے تو یقینا حضرت ھارون (ع)ھی ان کے وصی قرار پاتے، لیکن ھارون(ع) کا انتقال جناب موسیٰ کی حیات میں ھو گیاتھا،بھرحال جس طرح حضرت موسی (ع)کے ھارون(ع) وصی ہوتے اسی طرح حضرت علی (ع) بھی مذکورہ حدیث کے مطابق پیغمبر (ص)کے وصی ھیں ۔
۵۔ مقام معاونت:جس طرح جناب ھارون حضرت موسی علیہ السلام کے قوت بازو اور امر رسالت میں معاون تھے ،جیساکہ قرآن میں جناب موسی (ع) کی ھارون(ع) کے بارے میں دعا اور اس کے قبول ہونے کے الفاظ آئے ھیں :
<اُشْدُدْ بِہ اَزْرِی.وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ .…قَاْلَ َقْد اُوْتِیت سُوْٴلَکَ یٰا مُوْسٰی>[43]
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی اس صریح حدیث کے مطابق رسول(ص) کے قوت بازو اور معاونِ رسالت تھے ،البتہ خلافت اور جانشینی کے اعتبار سے نہ نبوت کے لحا ظ سے ۔
بھرحال مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ھو جاتی ھے کہ رسول(ص) اسلام کی نظر میں آپ کی زندگی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے نزدیک سب سے بھترین اور خیر امت حضرت علی (ع) تھے اور جس طرح بنی اسرائیل پر ھارون کی اطاعت واجب و لازم تھی، اسی طرح امت محمدی پر رسول(ص)کی زندگی میں احترام علی (ع) واجب تھا اور رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کی اطاعت واجب و لازم تھی کیونکہ رسول(ص) کی وفات کے بعد حضرت امیر (ع)،افضل الناس ،ناصر رسول(ص)اور آنحضرت (ص)کے حقیقی جانشین تھے ۔

ایک قا بل توجہ نکتہ
اس جگہ ایک غلط فھمی کا ازالہ کر دینا لازم سمجھتا ہوں وہ یہ کہ بعض اھل سنت یہ سمجھتے ھیں کہ رسول(ص) نے حدیث ِمنزلت صرف جنگ تبوک کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمائی تھی( اس کے بعد کھیں نھیں فرمایا) لہٰذا حضرت علی(ص) کی خلافت ایک زمانہ کے لئے مخصوص اور محصور ھے،برادرم ایسا نھیں ھے بلکہ اھل سنت کی متعدد معتبر کتابوں کے مطابق رسول(ص)نے تقریباًچھ موارد پر یہ حدیث اختلاف زمان و مکان کے ساتھ ارشاد فرمائی ھے ، لہٰذا حدیث ِمنزلت کو ایک خاص زمانہ میں منحصر نھیں کیا جاسکتا ۔[44]

۳۔ فضائل بنت رسول (ص)؛صحیحین کی روشنی میں
۱۔حضرت فاطمہ زھراسلام الله علیھاجنت کی عورتوں کی سردار ھیں
…,,عن عائشة؛ قالت: اقبلت فاطمة(س) تمشی کَاَنَّ مِشْیَتَھا مَشْیُ النبی(ص)، فقال النبی(ص) :مرحباً بابنتی، ثم اجلسھا عن یمینہ اوعن شمالہ، ثم اسرالیھا حدیثا،فبکت فقلتُ لھا:لم تبکین؟ ثم اسرالیھا حدیثاً ،فضحکت فقلت: ما رایت کالیوم فرحا اقرَب من حزن، فسالتھا عما قال، فقالت: ما کنت لِاُفشِیَ سِرَّ رسول(ص) اللّٰہ حتی قُبِض النبی(ص)، فساٴَلتھا: فقالت: اسرَّ اِلَیَّ: ان جبرئیل کان یعارضنی القرآنَ کل سنة مرّة ،و انہ عارضنی العام مرتین، و لا اُراہ الاحضراجلی،وانک اول بیتی لحا قابی، فبکیت،فقال: اَماَ تَرْضَیْنَ اَنْ تَکُوْنِی سَیَّدةَ نِسآءِ اَهل الجَنَّةِ اَوْ نَسَاْءِ اْلْمَوْمِنِیْن، فَضَحِکْتُ لذالک“
حضرت عائشہ کھتی ھیں :
ایک مرتبہ حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا رسول(ص) کی خدمت میں آئیں تو میں نے دیکھا آپ کی رفتار بالکل رسول(ص) کی رفتار کی طرح تھی رسول(ص) دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا: مرحباً یافاطمہ! اور اپنے داهنے یا بائیں چپ میں بٹھایا اورچپکے کچھ فرمایا، جسے فاطمہ(س) سن کر رونے لگیں ، میں نے پوچھا :گریہ کرنے کی کیا علت ھے؟
اس کے بعد پھررسول(ص) نے چپکے کچھ فرمایا جسے فاطمہ( سلام اللہ علیھا )سن کرهنسنے لگیں ، میں نے کھا: آج تک میں نے یوں حزن کے فوراً بعد سرور نھیں دیکھا ،آج ایسا کیوں ؟ میں نے فاطمہ(س) سے پوچھنا چاھا کہ رسول(ص) نے مخفیانہ کون سی بات بتلائی ھے، لیکن حضرت فاطمہ(ص) نے کھا: میں اپنے باپ کے راز کو فاش نھیں کروں گی، جب رسول (ص)رحلت فرما چکے، تو میں نے حضرت فاطمہ زھر ا( سلام اللہ علیھا )سے دو مرتبہ اس بارے میں پوچھا، تو حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) نے فرمایا:وہ مخفی بات یہ تھی کہ رسول(ص) نے مجھ سے فرمایا : ھر سال جبرئیل میرے اوپر ایک مرتبہ قرآن کو پیش کرتے تھے، لیکن اس سال دو مرتبہ پیش کیا ھے اور اس کی علت اس کے سوا کچھ نھیں کہ میری موت قریب آچکی ھے اور مجھ سے سب سے پھلی جو ملحق ہوگا وہ تم ہوگی، اے میری بیٹی! یہ سن کر میں رونے لگی، لیکن رسول(ص) نے فرمایا: اے فاطمہ! کیا تم خوش نھیں کہ تم جنت کی عورتوں کی یا مومنین کی عورتوں کی سردار ھو ،یہ سن کر میں خوش ہوگئی۔[45]

۲۔ حضرت فاطمہ(ص) پیغمبر اسلام (ص)سے سب سے پھلے ملاقات کریں گی
”… عن عائشة قالت: دعیٰ النبی(ص) فاطمة ابنتہ فی شکواہ الذی قبض فیہ، فسارھا بشیءٍ، فبکت، ثم دعاھا فسارھا، فضحکت، قالت:فساٴلتھا عن ذالک، فقالت سارنی النبی، فاخبرنی انہ یقبض فی وجعہ الذی توفی فیہ، فبکیت، ثم سارنی فاٴخبرنی انی اول اھل بیتہ اتبعہ، فضحکت“۔[46]
امام بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ سے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے :
رسول (ص)نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو مرض الموت میں بلایااور کسی چیز کو مخفی طور پر بتلایا جس کی وجہ سے آپ کی بیٹی رونے لگیں ، اس کے بعد حضرت فاطمہ زھرا (س) کو اپنے پ ا س بلاکر کچھ ایسی بات بتلائی کہ فاطمہ ( س)هنسنے لگیں ۔ عائشہ کھتی ھیں کہ میں نے فاطمہ(س) سے اس طرح هنسنے اور رونے کی علت پو چھی، تو آپ نے کھا : رسول (ص)نے پھلے مجھ سے فرمایا : اس مرض میں میری موت واقع ھو جائے گی ، تو میں رونے لگی ، لیکن اس کے بعد آپ نے فرمایا: میرے خاندان میں سب سے پھلے تم میرے پاس آوٴگی تو میں هنسنے لگی۔

۳۔ حضرت فاطمہ زھرا ء(ع)جگر گوشہٴرسول تھیں
”قال رسول(ص) اللّٰہ: فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِّنیّ فَمَنْ اَغْضَبَہَا اَغْضَبَنِی“[47]
امام بخاری نے رسول (ص)سے نقل کیا ھے:
آنحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا: فاطمہ(س) میریجگر کا ٹکڑا ھے، جس نے اس کو غضبناک کیا ،اس نے مجھے غضبناک کیا۔
رسول اسلام(ص) سے دوسری روایت امام بخاری اس طرح نقل کرتے ھیں :
”فانما ھی بضعة منی یریبنی ما ارابھا و یوٴذینی مااذاھا “ 3
رسول (ص)نے فرمایا :فاطمہ (س) میریجگر کا ٹکڑا ھیجس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا، جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔
مسلم نے بھی اس روایت کو مختصر فرق کے ساتھ نقل کیا ھے۔4

۴۔ تسبیح حضرت فاطمہ زھراء سلام الله علیھا
,,…عن علی(ع) ؛ان فاطمة (ع) شکت ما تلقی من اثرالرحیٰ، فاتی النبی(ص) سبی، فانطلقت، فلم تجدہ، فوجدت عائشة ، فاخبرتھا، فلما جاء النبی اخبرتہ عائشة بمجیء فاطمة، فجاء النبی(ص) الینا ،وقد اخذنا مضاجعنا ،فذ ھبنا نقوم، فقال:علی مکانکما فقعد بیننا حتی وجدت برد قدمیہ علی صدری، وقال: الا اعلمکما خیراً مم ا سئلتمانی؟ اذا اخذ تما مضاجعکما تکبرااربعاً وثلاثین، و تسبحا ہ ثلاثا ً وثلاثین ،و تحمدا ثلاثا ً وثلاثین، فہوخیر ٌلکما من خادم ۔“
امام بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی کتابوں میں حضرت علی (ع) سے نقل کیا ھے:
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے ھاتھ چکی چلاتے چلاتے زخمی ھو چکے تھے، انھیں دنوں پیغمبر(ص) کے پاس کچھ اسیر لائے گئے، تو شہزادی کونین رسول(ص) کی خدمت میں گئیں ،تاکہ خدمت گزاری کے لئے ایک کنیز طلب کریں ،لیکن رسول(ص) کو خانہٴمقدس میں نہ پایا لہٰذا سارا واقعہ عائشہ سے کہہ دیا ،جب رسول خدا(ص) اپنے خانہٴ اقدس میں تشریف لائے تو عائشہ نے سارا واقعہ سنادیا۔
حضرت امیر الموٴمنین (ع) فرماتے ھیں : جب یہ قضیہ رسول(ص) نے سنا تو فوراً ھمارے گھر کی طرف روانہ ہوگئے، ھم لوگ استراحت کے لئیجاچکے تھے کہ رسول(ص) وارد خانہ ہوئے، ھم لوگوں نے چاھا کہ آپ کے احترام میں کھڑے ہوں ،لیکن آپ نے منع کیا اور فرمایا:کیا میں تم کو ایسا عمل بتلادوں جو اس سے بھتر ھو جس کی تم نے خواھش کی ھے؟
دیکھو ! جب تم سونے لگو تو : ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر کھو ، ۳۳ مرتبہ سبح ا ن اللہ اور اتنی ھی مرتبہ الحمدللہ یہ عمل خدمت گزار سے بھتر ھے ۔ [48]

۵۔ رسول(ص) سے حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کی محبت
۱۔,,…عن ابن مسعود؛ قال بینما رسول الله (ص) یصلی عند البیت ،وابوجھل واصحا ب لہ جلوس و قد نحرت جزوربالامس، فقال ابوجھل: ایکم یقوم الی سلا جزور بنی فلان فیاٴخذہ فیضعہ فی کتفی محمد(ص) اذ ا سجد؟فا نبعث اشقی القوم فاخذہ، فلماسجد النبی(ص)،وضعہ بین کتفیہ ،قال: فاستضحکو ا وجعل بعضھم یمیل علی بعض، وانا قائم ،انظر لوکانت لی منعة طرحتہ عن ظھررسول الله ، (ص)والنبی(ص) ساجد ما یرفع راسہ ،حتی انطلق انسان، فاخبر فاطمة (س) فجائت وھی جویریة، فطرحتہ عنہ ،ثم اقبلت علیھم تشمتھم ،فلما قضی النبی(ص) صلاتہ، رفع صوتہ، ثم دعا علیھم “[49]
امام بخاری اور مسلم نے عبد الله ابن مسعود سے نقل کیا ھے:
ایک مرتبہ رسول اسلام(ص) خانہ ٴ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رھے تھے اور ابوجھل اور اس کے( نمک خوار) ساتھی بھی وھیں موجود تھے، ابوجھل نے اپنے ساتھیوں سے کھا : کون ھیجو فلاں شخص کے اونٹ کی اجھڑی کو لاکر سجدے کی حا لت میں اس مرد (رسول(ص)) کی پشت پر ڈال دے؟ ان میں سے ایک بد بخت شخص کھڑا ہوا اور اس نے غلاظت کو اٹھا کر جب آنحضرت(ص)سجدہ میں گئے تو آپ کی پشت پر ڈال دیا،ابو جھل اور اس کے ساتھی یہ منظر دیکھ کر کھل کھلاکر اتنی زور سے هنسنے لگے کہ خوشی کہ وجہ سے ایک دوسرے پر گرے جارھے تھے،ابن مسعود کھتے ھیں : میں اس واقعہ کو دیکھ رھا تھا اور یہ سوچ رھا تھا کہ کاش میں اتناطاقتو ر ہوتا کہ اس غلاظت کو رسول (ص)کے اوپر سے اٹھاکرپھینک دیتا ،تاکہ رسول(ص) کو اذیت نہ ہوتی،ابھی رسول(ص) سجدہ ھی میں تھے کہ کسی نے فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو اس کی اطلاع دے دی ، آپ آئیں اور آپ ابھی بھت چھوٹی تھیں ، بھرحا ل آپ نے اس غلاظت کو صاف کیا اور ان لوگوں کو برا بھلا کھا ،جب رسول(ص) نماز سے فارغ ہوئے تو بلند آواز سے ان لوگوں کے لئے بد دعا کی۔
۲۔ ,,…عن ابن ابی حا زم عن ابیہ؛ انہ سمع سھل بن سعد ؛یسئل عن جرح رسول لله ،یوم احد: فقال: جرح وجہ رسول الله (ص) وکسرت رباعیتہ، وھشمت البیضة علی راسہ، فکانت فاطمة ( س) بنت رسول الله (ص) تغسل الدم، وکان علی بن ابی طالب یسکب علیھا بالمجن، فلما راٴت فاطمة ( س) ان الماء لا یزید الدم الا کثرة، اخذت قطعة حصیر، فاحرقتہ حتی صاررماداً ،ثم الصقتہ بالجرح، فاستمسک الدم ۔ “
امام مسلم نے ابن ابو حا زم سے اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ھے:
سھل بن سعد سے پوچھا گیا کہ رسول(ص) کو روز جنگ احد کیسے زخم آئے ؟ تو سھل نے کھا ھاں اس دن آپ اس قدر مجروح ہوگئے تھے کہ آ پ کے دندان مبارک بھی شھید ہوگئے تھے اور آپ کے سر کا خود بھی ٹوٹ گیا تھا (جس کی وجہ سے آپ ک ا سر بھی زخمی ہوگیا تھا )اس وقت رسول(ص) کی تیمار داری علی (ع) اور فاطمہ (ع) کر رھے تھے، علی (ع) اپنی سپر کے ذریعہ پانی ڈال رھے تھے اور فاطمہ (بنت رسول(ص))آپ کے چھرے کو دھو رھی تھیں،جب فاطمہ ( س) نے دیکھا کہ پانی سے خون نھیں بند ھو تا تو آپ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلاکر راکھ کیا اور اس کو رسول(ص) کے زخم پر رکھ دیا جس سے خون بند ہوگیا ۔ [50]

۶۔ حضرت فاطمہ زھرا(ص) کارسول(ص) کی وفات پربیحد غمناک ہونا
,,…عن انس؛ قال:لمَّاثَقُل النبی(ص)جعل یَتَغشَّاہ،فقالت فاطمة ”علیھا السلام“:واکربَ اباہ !فقال(ص) لھا:” لیس علی ابیکِ کَرْبٌ بعد الیوم“فلمّا مات،قالت :یا ابتاہ !اجاب رباً دعاہ ،یا ابتاہ مَنْ جنة الفردوس ماواہ ،یا ابتاہ الی جبرئیل ننعاہ؟فلمّا دفن،قالت فاطمة علیھا السلام :یا انس! اطابت انفسُکم ان تحْثُوا علی رسول(ص) اللّٰہ التراب“
امام بخاری نے انس سے نقل کیا ھے :
جب پیغمبر اسلام(ص) کا مرض روز بروز بڑھتا گیا تو حضرت فاطمہ زھر ا سلام الله علیھا (بھی روز بروز زیادہ غمگین و ناراحت ہوتی رھیں اور آپ)نے اپنے غم کا اظھار ان جملوں میں کیا :واکربَ اباہ: ھائے میرے بابا کا غم واندوہ ، رسول(ص) نے شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھرا = سے کھا: اے بیٹی! آج کے دن کے بعد تیرے باپ کا غم ختم ھو جائے گا۔
انس کھتے ھیں کہ جب رسول(ص) نے وفات پائی تو فاطمہ (س)نے یوں نوحہ سرائی کی:
اے میرے وہ بابا کہ جس نے دعوت خدا پر لبیک کھی، اے میرے وہ بابا کہ جس کی جائگاہ جنت الفردوس ھے ، اے میرے بابا آپ کی تسلیت کیا جبرئیل کو عرض کروں؟
اورجب رسول(ص) کو دفن کیا گیا تو فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
اے انس! تم لوگ کیسے راضی ہوئے کہ جسد رسول(ص) خاک پر ڈالو۔[51]

۴۔ حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
۱۔ حسنین پرصد قہ حرام ھے
,,عن ابی ھریرة؛ قال:کان رسول(ص) اللّٰہ یُوتیٰ بالتمر عند صِرام النخل، فیجیء ہذا بتمرة ،وہذا من تمرہ ،حتی یصیرعندہ کَوْما من تمر، فجعل الحسن(ع) والحسین(ع) یلعبان بذالک التمر، فاخذاحدھما تمرة، فجعلہ فی فیہ، فنظر الیہ رسول(ص) اللّٰہ(ص)،فاخرجھا من فیہ، فقال: اَمَاْ عَلِمْتَ اَنّّ آلَ مُحَمَّدٍ لَایَاْکُلُوْنَ الْصَّدَقَةَ؟!“[52]
امام بخاری نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ھے :
جب خرموں کے توڑنے اور چننے کا وقت ھو جاتا تھاتو لوگ رسول(ص) کے پاس خرمہ زکات کے طور پر لایا کرتے تھے ، چنانچہ حسب دستور لوگ چاروں طرف سے آنحضرت(ص) کی خدمت میں خرمہ لے کر آئیجن کا ایک ڈھیر ہوگیا، حسنین علیھما السلام ان خرموں کے اطراف میں کھیل رھے تھے ،ایک روز ان دونوںشہزادوں میں سے کسی ایک نے ایک خرمہ اٹھا کر اپنے دهن مبارک میں رکھ لیا !جب رسول(ص) نے دیکھا تو اس کو شہزادے کے دهن سے باھر نکال دیا اور فرمایا: ” اَماَ عَلِمْتَ اَنَّ آل مُحَمَّدٍ لَایَاٴکُلُوْنَ الصَّدَقَة“؟اے میرے لال! کیا تمھیں نھیں معلوم آل محمد پر صدقہ حرام ھے، وہ صدقہ نھیں کھاتے؟! [53]
اسی طرح دوسری روایت امام بخاری نے امام حسن (ع) سے یوں منسوب کی ھے:
”ان الحسن بن علی اخذ تمرةمن تمر الصدقة،فجعلھا فی فیہ، فقال النبی(ص): کخ کخ لیطرحھا،ثم قال: اما شعرت انا لا ناکل الصدقة“۔[54]
ایک مرتبہ امام حسن (ع)بن علی (ع)نے صدقہ کا خرمہ منھ میں رکھ لیا تو رسول(ص) نے فرمایا:نہ ،نہ ،چنانچہ امام حسن (ع) نے خرمہ کو منھ سے باھر نکال دیا اس وقت رسول اسلام (ص)نے فرمایا : اے میرے لال ! کیا تمھیں نھیں معلوم کہ آل محمد(ص) پر صدقہ حرام ھے؟!

۲۔ شبیہ ِ رسول(ص) یعنی امام حسن و حسین (ع)
۱۔۔۔,, عن انس قال:لم یکن احد اشبہ بالنبی من الحسن بن علی(ص)“[55]
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے:
امام حسن علیہ السلام رسول خدا(ص) سے سب سے زیادہ شباھت رکھتے تھے۔
۲۔ ۔۔۔”راٴیت النبی وکان الحسن یشبہ “[56]
دوسری روایت میں امام بخاری نے ابن جحیفہ سے نقل کیا ھے:
میں نے رسول(ص) کو دیکھاتھا امام حسن آپ سے بالکل مشابہ ھیں ۔
۳۔… عن عقبة بن الحا رث؛ قال: راٴیت ابابکر (رضی الله عنہ) وحمل الحسن وھو یقول:بابی شبیہ بالنبی(ص) لیس شبیہ بعلی ،وعلی یضحک“[57]
اما م بخاری نے عقبہ ابن حا رث سے نقل کیا ھے :
عقبہ بن حارث کھتے ھیں : ایک روز میں نے دیکھا کہ ابو بکر امام حسن (ع) کو کاندھے پر بٹھائے ہوئے جارھے ھیں اور یہ کہہ رھے ھیں :
میرا باپ قربان ھو جائے آپ پر (اے حسن (ع))آپ شبیہ رسول ھیں نہ کہ شبیہ علی (علیہ السلام) اور علی (ع) اس (قضیہ) کو دیکھ کر مسکرا رھے تھے۔
۴۔… ,,عن انس بن مالک؛ اُتِیَ عبید اللّٰہ بن زیاد براس الحسین(ع) بن علی علیہ السلام، فجُعِل فی طشت ،فجعل یَنْکُت،ُ وقال فی حسنہ شیئاً ،فقال انس: کا ن اشبہھم برسول(ص) اللّٰہ وکان مخضوباً بالوسمہ“[58]
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے :
جب امام حسین علیہ السلام ک ا سر اقدس جو وسمہ سے مخضوب تھا، عبید اللہ بن زیاد علیہ اللعنة الدائمہ کے پاس لایا گیا ،تو آپ کے سر اقدس کو ایک طشت میں رکھا گیا ،ابن زیاد سر کے ساتھ بے احترامی (سر پر لکڑی مار رھا تھا) کررھا تھا اور آپ(ع) کے حسن و زیبائی کے بارے میں کچھ کھتا جاتا تھا ۔ انس بن مالک یہ بات نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں : جبکہ امام حسین علیہ السلام سب سے زیادہ رسول اسلام(ص) سے شباھت رکھتے تھے۔

۳۔ حسنین علیھما السلام کے ساتھ آنحضرت (ص)کا بیحد محبت کرنا
,,… عن ابی ھریرة؛قبل رسول الله الحسن بن علی،وعندہ الاقرع بن حا بس التمیمی جالساً،فقال الاقرع: ان لی عشرة من الولد،ماقبلت منھم احدا،ً فنظررسول الله (ص)،ثم قال:من لا یرحم لایرحم “[59]
امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے:
ایک مرتبہ رسول خدا(ص) امام حسن علیہ السلام کے بوسے لے رھے تھے، اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حا بس بھی تھا، اس نے کھا: یا رسول(ص) اللہ ! میں دس فرزند رکھتا ہوں لیکن ابھی تک میں نے کسی کا بوسہ نھیں لیا، رسول(ص) نے فرمایا: جس کے دل میں ( فرزند کی) مھر و محبت نہ ھو وہ خدا کی رحمت سے دور رھے گا۔

عرض موٴلف
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے بھی مسند میں نقل کیا ھے لیکن امام حسن (ع) کی جگہ امام حسین بن علی(ع) کا نام ذکر کیا ھے۔[60]

۴۔ حسنین ریحا نہٴرسول(ص) ھیں
”۔۔۔ عن ابن ابی نعیم ؛قال: کنت شاھداً لابن عمر، وساٴلہ رجل عن دم البعوض، فقال: ممن انت؟ فقال :من اھل العراق، قال:انظروا الی ہٰذا یساٴلنی عن دم البعوض وقد قتلوا ابن النبی(ص)؟وسمعت النبی(ص)یقول:ھما ریحا نتا ی من الدنیا“۔ [61]
امام بخاری نے ابن ابونعیم سے نقل کیا ھے:
میں عبداللہ بن عمر کی مجلس میں تھا کہ کسی نے عبد اللہ ابن عمر سے مچھرکے خون کے بارے میں سوال کیا، عبد اللہ بن عمر نے کھا تو کھاں کا رهنے والا ھے؟اس نے کھا عراق کارهنے والا ہوں،اس وقت عبد اللہ ابن عمر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کهنے لگے: اے لوگو! اس شخص کو ذرا دیکھو ،مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ھے حا لانکہ یہ لوگ فرزند رسول(ص) امام حسین (ع) کا خون ناحق بھا چکے ھیں ؟! اس کے بعد عبد اللہ ابن عمر نے کھا: میں نے رسول(ص) سے سنا تھا کہ آپ(ع) نے فرمایا میرے یہ دونوںبیٹے ”حسن و حسین ریح ا نتای من الدنیا“ اس دنیا میں میرے پھول ھیں ۔

۵۔ حسنین (ع) کے لئے دعائے رسول(ص)
” … عن ابن عباس ؛قال:کان النبی(ص) یعوذ الحسن والحسین، ویقول: ان اباکما کان یعوذ بھا اسماعیل(ع) و اسحا ق، اعوذ بکلمات اللّٰہ التامّة من کل شیطان وھامّة ومن کل عین لامّة “[62]
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے:
رسول(ص) نے امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کے بارے میں مخصوص دعا کا تعویذ بنایا اور فرمایا: تمھاریجد ابراھیم نے اپنے دونوں فرزند اسمعیل و اسحا ق کے لئے اسی دعا کا تعویذ بنایا تھا :
,,اعوذ بکلمات اللّٰہ التا مّة من کل شیطان و ھامّة و من کل عین لامّة“

۶۔ اے خدا !جو حسن (ع) کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ
,, …عن ابی ھریرة؛ قال:خرج النبی(ص) فی طائفة النھار،ل ا یکلمنی ولا اکلمہ،حتی اتی سوق بنی قینقاع، فجلس بفناء بیت فاطمة(س)، فقال: اثم لکع اثم لکع؟فحبستْہ شیئاً ،فظننتُ انھاتلبسہ سخاباً اوتغسلہ، فجاء یشتد حتی عانقہ، وقبلہ ،وقال:اللّٰھم احببہ واحبب من یحبہ“[63]
امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے :
ایک روز رسول(ص) خدا اپنے گھر سے بالکل خاموش باھر نکلے ،یھاں تک کہ بازاربنی قینقاع تشریف لائے اور یھاں سے پلٹ کر شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کے خانہ ٴ اطھر کے دروازے پر تشریف فرما ہوئے اور اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو ان لفظوں میں بلانے لگے: کیا لکع یھاں ھے؟ کیا لکع یھاں ھے؟[64]
ابوھریرہ کھتے ھیں : جب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا نے تاخیر کی تو میں نے سوچا کہ شاید آپ نے بچہ کو نظافت کی وجہ سے روک رکھا ھے ، اس کے بعد جب امام حسن علیہ السلام باھر تشریف لائے تورسول(ص)نے شہزادے سے معانقہ کیا اور بوسہ لیا اور اس کے بعد دعا کی:
”اے میرے پروردگار! اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دوست رکھے اسے دوست رکھ“
قارئین محترم! یہ تھیں چند وہ آیات و احادیث جو صحیحین میں اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نقل کی گئیں ھیں ، انھیں چند صفحا ت کادقت سے مطالعہ کرنے سے پتہ چل جاتا ھے کہ مسئلہٴ خلافت ایسا مسئلہ نہ تھا کہ رسول(ص) فراموش کردیتے اور مسلمانوں کے درمیان اس منصب کے لائق اور حقیقی خلفاء کی نشان دھی نہ کرتے،بلکہ یہ وہ مسئلہ تھا جسے رسو ل(ص) نے ھر جگہ بیان کرنا ضروری سمجھا اور متعدد موارد پر اپنے حقیقی خلفاء کا اعلان فرمایا۔
یہ بات بھی ذهن میں رھے کہ ھم نیجو صحیحین سے اھل بیت (ع)کے فضائل نقل کئے ھیں،یہ صحیحین میں ان کے فضائل کے انبار کے مقابلہ میں جو رسول خدا(ص) سے منقول ھیں اورجو سنیوں کی دیگرمعتبر کتب ِ احادیث و تواریخ میں موجود ھیں ،ایک تنکے سے بھی کم ھیں ،بھر حال اب ھم ان مطالب اوراحادیث کو نقل کرتے ھیں ،جنھیں خلفائے ثلاثہ سے متعلق ان دو کتابوں میں نقل کیاگیا ھے، لیکن اس سے قبل مولائے متقیان حضرت علی(ع) کا ایک خطبہ نقل کر دیں جو آپ نے امامت،خلافت ا ور حکومت کے بارے میں بیان کیا ھے اور نشان دھی فرمائی ھے کہ جو امت کا حا کم ھو اس کے لئے کون سے شرائط لازمی ھیں ۔[65]
-------------------------------------------------------------

[1] شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید جلد۱،صفحہ ۱۳۸،خطبہ نمبر۲۔
[2] الملل ونحل جلد۱،المقدمة الرابعہ:در بیان شبہٴ اول ، الخلاف الخامس، صفحہ ۲۴۔
[3] صحیح بخاری ج ۷، کتاب الطب۔ سنن ترمذی کتاب الطب۔ صحیح مسلم کتاب الطب ، حدیث۲۲۱۷۔
[4] سورہٴزمر،آیت ۳۰َ،پ۲۴۔
[5] سورہٴ آل عمران آیت ۱۴۴ پ ۴۔
[6] سورہ بقرہ ،آیت ۱۸۰،پ۲۔
[7] صحیح بخاری ج۴ ،کتاب الوصایا ،باب( ۱) ح ۲۵۸۷۔ صحیح مسلم ج ۵، کتاب الوصیة۔ سنن ابی داوٴد ج ۱، باب” ما جاء فی یومر بہ من الوصیة“ ، ح ۲۸۶۲، ص ۶۵۴۔ سنن نسائی کتاب الوصایا ، باب الکراھیة فی تاخیر الوصیة ، ص ۲۳۹۔ سنن ابن ماجہ ج ۲، کتاب الوصایا، باب” الحث علی الوصیة“ ۔ سنن دارمی کتاب الوصایا باب من استحب الوصیة ص ۴۰۲۔ سنن ترمذی ،کتاب الوصیة ابواب الجنائز باب ما جاء فی الحث علی الوصیة ،ص ۲۲۴۔ مسند ج۲ ،مسند عبد الله ابن عمر، ص ۲ ، ۴ ،۵۷،۸۰۔
[8] صحیح مسلم جلد ۵، کتاب الوصیہ ۔
[9] الکامل جلد۱،” ذکر امر الله تعالی بنبیہ باظھار دعوتہ “ص۵۸۶ ، موٴلفہ ابن اثیر، تاریخ طبری حوادث ۳ ھ ۔
[10] افسوس کہ کچھ ایسے نافرمان صحا بہ رسول(ص) کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، جنہوں نے رسول(ص) کو نوشتہ نہ لکھنے دیا اور عذاب الیم کے مستحق بن گئے۔
صحیح بخاری جلد ۱ کتاب العلم باب کتابة العلم و جلد۷ ،کتاب المرضی باب ”قول المریض قوموا عنی“ دیکھئے :مزید معلومات کے لئے اسی کتاب کی فصل دوم بحث” امامت و خلافت صحیحین کی روشنی میں ،واقعہ قرطاس اور حضرت عمر کا رویہ“ مترجم۔۵۷۳۔
[11] سورہٴ احزاب، آیت۳۳،پ۲۲۔
[12] صحیح مسلم جلد۷،کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل اھل بیت النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم“ ح ۲۴۲۴۔
[13] سورہٴ آل عمران،آیت۶۱، پ۴۔
[14] صحیح مسلم جلد۷ ، کتاب فضائل الصحا بة،باب” فضائل علی علیہ السلام“ حدیث۲۴۰۴۔ ۲۴۰۵۔ ۲۴۰۶۔ ۲۴۰۷۔
مسلم نے مذکورہ روایات کو دیگر متن و طریق کے ساتھ بھی نقل کیا ھے۔
[15] صحیح مسلم ج۷،کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل علی علیہ السلام“ حدیث۲۴۰۸۔
[16] مستدرک حا کم، جلد۳ ،ذکر زید بن ارقم ،ص۵۳۳۔ مسند احمد ابن حنبل ،جلد۴ ،حدیث زید بن ارقم ،ص۳۷۲ ۔
[17] سرالعالمیَنْ وکشف ما فی الدارین ، باب فی المقالة الرابعة فی ترتیب الخلافة ص۲۱ ، مولفہ امام غزالی ،مطبوعة نعمان پریس ، دوسرا ایڈیشن ، ۱۹۶۵ء ،نجف عراق۔
[18] صحیح بخاری: جلد ۸، کتاب الدعوات، باب(۳۱)” الصلاة علی النبی(ص)“حدیث ۵۹۹۶۔۵۹۹۷۔ جلد ۳ ،کتاب الانبیاء، باب” یزفون النسلان فی المشی“(آیت نمبر۹۴) حدیث۳۱۹۰۔ جلد ۶، کتاب التفسیر تفسیر، سورہ احزاب، باب۱۰” آیة ان الله و ملائکتہ یصلون علی النبی “(ص)حدیث ۵۴۲۰ ،۴۵۱۹۔ صحیح مسلم جلد۲ ،کتاب الصلوة، باب” الصلٰوة بعد التشھد علی النبی“ حدیث ۴۰۵،۴۰۶،۴۰۷۔
[19] صحیح مسلم ج۱، کتاب الصلوٰة،باب” الصلوٰت النبی(ص)بعد التشھد“ح ۴۰۵، ۴۰۶،۴۰۷۔
[20] سورہٴلقمان،آیت ۲۱،پ۲۱۔
[21] صحیح بخاری ج۹، کتاب الاحکام، باب(۵۲)”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم ج۶، کتاب الامارة، باب(۱۱)” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“حدیث ۱۸۲۱۔
[22] صحیح مسلم ج ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱حدیث۱۸۲۱۔(کتاب الامارة کی حدیث نمبر۹) ۔
[23] صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن ،باب” لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث۲۹۱۳۔۲۹۱۴۔
[24] صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن، باب ”لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل…“ حدیث۲۹۱۳،۲۹۱۴۔
[25] صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب الانبیاء ،باب ”نزول عیسی ابن مریم “حدیث ۳۲۶۵۔
[26] فتح ا لباری شرحا لبخاری ج۷ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم …ص ۳۰۵۔
[27] عمدة القاری جلد۱۶ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم …۔
[28] الا صابة جلد۴،عیسی المسیح بن مریم الصدیقة بنت عمران ، ص۶۳۸۔
[29] اضواء علی السنة المحمدیہ ، مصنفہ، شیخ محمود ابوریہ۔
[30] سورہٴ حج آیت ۹،پ ۱۷۔
[31] صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہٴ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ>حدیث۴۴۶۷۔
[32] صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶ ،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہٴ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ>حدیث۴۴۶۷۔
[33] صحیح مسلم جلد ۳ ،کتاب الایمان، باب(۳۳) ”ان حب الانصاروعلی(ع) من الایمان“ حدیث۷۸۔
[34] صحیح بخاری جلد ۱، کتاب الصلوٰة، باب” اتمام تکبیر فی الرکوع “حدیث۷۵۱، باب” اتمام التکبیر فی السجود“ حدیث۳۵۳۔مترجم:(صحیح بخاری جلد۱،کتاب الصلوٰة،باب ”یکبر وھو ینھض من السجدتین“ حدیث۷۹۲۔) صحیح مسلم جلد۲، کتاب الصلوٰة،باب(۱۰)” اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع“ حدیث ۳۹۳۔
[35] صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب فضایل الصحا بة،باب”مناقب علی ابن ابی طالب(ع)“ حدیث۳۵۰۰۔ جلد ۱،کتاب الصلاة ابواب المسجد،باب”نوم الرجل فی المسجد“حدیث۴۳۰،جلد۴، کتاب الادب، باب” التکنیّ بابی تراب“ حدیث۵۸۵۱۔ جلد۸ ،کتاب الاستئذان، باب” القائلہ فی المسجد“ حدیث۵۹۲۴۔ صحیح مسلم جلد۷،کتاب فضائل الصحا بة، باب” فضائل علی ابن ابی طالب علیہ السلام“حدیث۲۴۰۹۔
[36] صحیح بخاری ،جلد ۶، کتاب التفسیر سورہ ٴ بقر ہ ،باب ”تفسیر ماننسخ من آیة“(۱۰۶)حدیث۴۲۱۱۔
[37] سنن ابن ماجہ جلد۱۔(اس کتاب میں حقیر نے اس جملہ کو نھیں دیکھا ھے۔مترجم۔) استیعاب جلد۱ ،حرف العین باب علی صفحہ ۸۔ (اس کتاب میں اقضانا اور اقضاھم آیا ھے ۔مترجم )
[38] صحیح بخاری: جلد۴ ،کتاب الجھاد و السیر ، باب۱۲۱ ”ما قیل فی لواء النبی(ص) “حدیث ۲۸۱۲، باب۱۴۳” فضل من اسلم علی یدیہ رجل“ حدیث۲۸۴۷،کتاب فضایل الصحا بہ، باب(۹)” مناقب علی ابن ابی طالب “حدیث۳۴۹۸،۳۴۹۹۔ صحیح مسلم :جلد۷ ،کتاب فضائل الصحا بة ،باب” فضائل علی ابن ابی طالب“ حدیث۰۵ ۲۴، کتاب الجھاد و السیر، باب(۴۵)” عزوہ ذی قرد وغیرھا“ حدیث۱۸۰۷۔
مترجم:(صحیح بخاری: جلد۴ ، کتاب الجھاد و السیر ،با ب” دعاء النبی(ص) الی الاسلام النبوة“حدیث۲۷۸۳۔کتاب فضائل الصحا بة باب ”عزوہ خیبر“حدیث۳۹۷۲،۳۹۷۳۔
مسلم نے ایک حدیث میں اس شعر کو بھی نقل کیا ھے جسے حضرت علی (ع) نے مرحب کے مقابل پڑھا تھا:

اناا لذی سمّتنی امی حیدرہ
کلیث غابات کریہ المنظرہ)

[39] صحیح مسلم جلد۷، کتا ب فضائل الصحا بة ،با ب( ۴)” فضائل علی ابن ابی طالب“حدیث ۲۴۰۵۔
[40] صحیح بخاری :جلد۵،کتاب فضایل الصحا بة ،باب(۹) ”مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام“حدیث ۳۵۰۳۔
جلد ۵،کتاب المغازی، باب(۷۴) ”عزوہ تبوک “حدیث۴۱۵۴۔
صحیح مسلم جلد ۲ ،کتاب فضائل الصحا بة، باب” فضائل علی (ع)“حدیث۲۴۰۴
(یہ حدیث دیگر سند کے ساتھ بھی اس کتاب میں مذکور ھے) ۔
[41] سورہٴ طہ، آیت ۳۰، پ ۱۶۔
[42] سورہ ٴاعراف، آیت۱۴۲،پ۹۔
[43] سورہٴ طٰہٰ ،آیت نمبر۳۱، ۳۲، ۳۶، پ ۱۶۔
[44] تفصیل دیکھئے: کتاب ”المراجعات “ مصنفہ علامہ سید شرف الدین ، و ”کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب ص۲۸۱، باب (۶۰)”فی تخصیص علی بقولہ(ص)انت بمنزلة ھارون من موسی …“ مطبوعہ:۱۳۹۰ “(اس کتاب کے ساتھ گنجی شافعی کی دوسری کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“بھی شائع ہوئی ھے۔ مترجم.
آٹھویں فضیلت : علی (ع) رسول(ص) سے اور رسول(ص) علی (ع) سے ھیں ۔
”اَنْتَ مِنّیِ وَاَنَاْ مِنْکَّّ “حضرت رسالتمآب(ص) نے فرمایا: اے علی! تو مجھ سے ھے اور میں تجھ سے ہوں۔
صحیح بخاری ،جلد ۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب”مناقب علی“۔ جلد۴، کتاب المغازی، باب(۴۱)”عمرةالقضاء (صلح حدیبیہ)“حدیث۴۰۰۵ ۔ کتاب الصلح ،باب(۶) ”کیف یُکتَبُ: ھذاماصالح فلان بن فلان“۲۵۵۲ ۔ مترجم.
نویں فضیلت:رسول(ص)وقتِ وفات علی(ع)سے راضی رخصت ہوئے
حضرت عمر کا بیان ھے : جب رسول (ص)نے وفات پائی تو آپ حضرت علی علیہ السلام سے راضی تھے۔صحیح بخاری جلد ۵،کتاب فضائل الصحا بة ،باب” مناقب علی(ص) (قبل از حد یث نمبر ۳۴۹۸)“ باب ”قصہ البیعة والاتفاق علی عثمان “حدیث ۳۴۹۷۔ مترجم.
محترم قارئین! جیساکہ آپ نے مولا علی (ع)کے فضائل صحیحین کی روشنی میں ملاحظہ فرمائے اور پھر قول حضر ت عمر بھی ملاحظہ فرمایا کہ رسول(ص) کی وفات جب ہوئی تو آپ(ص) علی (ع)سے راضی تھے ،لیکن خود قائل کی پوزیشن کیا تھی؟معلوم نھیں ،کیونکہ صحیح بخاری کے بموجب آنحضرت(ص)نے بوقت وفات جب قلم و دوات مانگی توحضرت عمر نے منع کردیا تھا جس کی وجہ سے رسول(ص) ناراض ہوگئے اور آپ نے حضرت عمر کو اپنے گھر سے باھر نکال دیا، چنانچہ محترم موٴلف صاحب نے بحث ”واقعہ قرطاس“ ص۶۲۲پر اس بات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیاھے۔
[45] صحیح بخاری :جلد۴، کتاب المناقب، باب(۲۲)” علامات النبوةفی الاسلام“ حدیث۳۴۲۶۔ جلد ۸ ،کتاب الاستیذان، باب ” من ناجی بین یدی الناس“ حدیث۵۹۲۸۔ صحیح مسلم جلد ۷ ،کتاب فضائل الصحا بة ،باب ”فضائل فاطمةالزھراء سلام اللّٰہ علیھا “۔
[46] صحیح بخاری :جلد۴،کتاب المناقب، باب( ۲۵) ”علامات النبوت فی الاسلام “حدیث ۳۴۲۶ ۔ جلد ۵،کتاب فضایل الصحا بة، باب(۱۲)” مناقب قرابة الرسول“(ص)حدیث۳۵۱۱۔
مترجم:( صحیح بخاری جلد ۴ ،کتاب المغازی ،باب ”مرض النبی“(ص)حدیث۴۱۷۰۔)
صحیح مسلم جلد۵ ، کتاب فضائل الصحا بة، باب (۱۵)” فضائل فاطمة زھر ا سلام اللہ علیھا“ حدیث ۲۴۵۰۔
[47] .3.4.صحیح بخاری :ج۵،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب قرابة الرسول(ص)“حدیث۳۵۱۰۔ ج ۷،کتاب النکاح،باب” الذب الرجل عن ابنتہ“حدیث۴۱۳۲۔ج۳ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب فاطمة الزھرا(س)“حدیث۳۵۵۶۔ مترجم:( صحیح بخاری ج۳ ،کتاب فضایل الصحا بة،باب( ۱۶) ”ذکراصھارالنبی“ حدیث۳۵۲۳۔) صحیح مسلم ج۷، کتاب فضایل الصحا بة، باب ”فضائل فاطمة زھر ا سلام الله علیھا“حدث۲۴۴۹۔
[48] صحیح بخاری:جلد۴، کتاب الخمس، باب(۶) ”الدلیل علی ان الخمس لنوائب رسول(ص) اللّٰہ“ حدیث۲۹۴۵۔ جلد۵، کتا ب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب علی علیہ السلام“ حدیث ۳۵۰۲۔ جلد۷،کتاب النفقات، باب(۶) ” عمل المرئة فی بیت زوجھا“حدیث۵۰۴۶،
مترجم:(صحیح بخاری جلد۷ ،کتاب النفقات،باب” خادم المرئة“ حدیث۵۰۴۷۔ کتاب الدعوات، باب(۱۱)”التکبیر والتسبیح عند المنام“ حدیث۵۹۵۹۔ )
صحیح مسلم جلد۸، کتاب الذکر و الدعا، باب” التسبیحا ول النھار و عند النوم“حدیث۷۲۷۲۔
[49] صحیح بخاری جلد۱، کتاب الوضوء، باب(۶۹)” اذا اُلقِی علی َظھرِْ المصلی قذر“حدیث۶۹۔ صحیح مسلم جلد۳، کتاب الجھاد و السیر، باب(۳۹)”ما القی النبی(ص) من اذیٰ المشرکین“حدیث۱۷۹۴۔
[50] صحیح بخاری: جلد ۱، کتاب الوضوء، باب(۷۲)” غسل المرئة اباھا الدم عن وجہہ“ حدیث۲۴۰۔ جلد ۴، کتاب فضل الجھاد، باب ”لبس البیضة“ حدیث۲۷۵۴، مترجم:(صحیح بخاری جلد ۴، کتاب فضل الجھاد،باب” المجن ومن تیترس بترس الصحا بة“ حدیث ۲۷۴۷،باب(۱۶۰)”دواء الجرح باحراق الحصیر“ حدیث۲۸۷۲،باب” ما اصاب النبی(ص) من الجراح یوم احد“ حدیث ۳۸۴۷۔ جلد ۵،کتاب النکاح، باب(۱۲۲)”ولا یبدین زینتھن الا بعولتھن “حدیث ۴۹۵۰۔ کتاب الطب، باب” حرق الحصیر لیسدّ بہ الدم“ حدیث ۵۳۹۰ ۔)صحیح مسلم جلد۵، کتاب الجھاد، باب( ۳۷)” غزوة احد“ حدیث ۱۷۹۰ ۔
[51] صحیح بخاری جلد۶ ،کتاب المغازی ،باب(۷۸ )”مرض النبی(ص) و وفاتہ “حدیث ۴۱۹۳۔
[52] بخاری ج۲، کتاب الزکاة ،باب ”اخذ صدقہ التمر عند صرام النخل“ حدیث ۱۴۱۴۔
[53] مترجم: مذکورہ حدیث سے یہ واضح طور پر ثابت جاتا ھے کہ آل محمد(ع) پرصدقہ حرام ھے اس کا مفہوم یہ ہواکہ اصحا ب کے لئے جائز ھے گویا حرمت صدقہ آل محمد ا(ع)ور اصحا ب کرام کے درمیان حد فاصل ھے، اس حدیث میں امام بخاری نے تھوڑ ا سا اضافہ کیا ھے وہ یہ کہ ”حسنین (ع)نے کھجور کو دہن اقدس میں رکھ لیا تب رسول(ص) نے منع فرمایا “ایسا نھیں ھے بلکہ حسنین کھانے کے ارادہ سے بظاھر دیکھنے والوں کی نظر میں اٹھا رھے تھے ،مگر حقیقت یہ تھی کہ آپ دنیا والوں کی زبان پر اپنی فضیلت زبانِ رسالت سے سنوانا چاھتے تھے کہ آل محمد (ع)اور اصحا ب میں زمین و آسما ن کا فرق ھے، یعنی آپ (ع)یہ بتا نا چاھتے تھے کہ اے مسلمانو! کبھی آل محمد(ص) کے مقابلہ میں اصحا ب کا قیاس نہ کرنا :
”لایُقاسُ بِآلِ محمد(ص) من ہذہ اُلامَّةِ اَحَدٌ وَ لَایُسوَّی بھم مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُھم علیہ اَبَداً ہُم اَساسُ الدِّین وَ عِمادُ الیقین اِلیھم یَفِئیُ الغَالِی و بھم یُلْحَقُ التاَّلِی و لَہُم خَصائِص حّقِّ الوِلَایَةِ وَ فِیھم الوَصِیَّةُ وَ الْوِراثَةُ “ شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید جلد۱صفحہ ۳۸ ( خطبہ نمبر۲)
ترجمہ: اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پرقیاس نھیں کیا جاسکتا ،کیونکہ جن لوگوں پر ان کے احسانات ھمیشہ جاری رھے ہوں ،وہ ان کے برابر نھیں ہوسکتے، یہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ھیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ھے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ھے، حقِ ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ھیں ، انھیں کے بارے میں پیغمبر کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ھے ۔۱۲
[54] صحیح بخاری جلد۲، کتاب الزکاة ،باب ”مایذکر فی الصدقہ للنبی“(ص) حدیث ۱۴۲۰۔ جلد۴ ،کتاب فضل الجھاد و السیر، باب” من تکلم بالفارسیة“حدیث۲۹۰۷۔
[55] صحیح بخاری جلد۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ حدیث ۳۵۴۰،۳۵۴۲
[56] صحیح بخاری جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“حدیث ۳۳۴۹،۳۵۰ ۳۔
[57] صحیح بخاری جلد۵ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“۳۵۴۲، ۳۳۵۰۔
[58] صحیح بخاری جلد۵، کتاب الفضایل الصحا بة، باب ”مناقب الحسن و الحسین(ع) “حدیث۳۵۳۸ ۔
[59] صحیح بخاری جلد۸، کتاب الادب، باب(۱۷)” رحمة الولد و تقبیلہ و معا نقتہ “حدیث ۵۶۵۱۔
[60] مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ،مسند ابو ھریرة، ص ۲۴۱ ۔
مترجم: ایک جگہ امام بخاری نے اس طرح نقل کیا ھے:(ع) آنحضرت(ص) نے فرمایا :اللّٰھم انی اُحبّہ فاَ حبَّہ، اے خدا !تو حسن (ع) کو دوست رکھ کیونکہ میں اس کو دوست رکھتا ھو ں۔
صحیح بخاری جلد ۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة ،باب ”مناقب حسن(ع) حسین “حدیث ۳۵۳۹،۳۵۳۷،باب ”ذکراسامة بن زید“ حدیث۳۵۲۸۔
[61] صحیح بخاری جلد۸ ،کتاب الادب ،باب ”رحمة الولد و تقبیلہ“ حدیث۵۶۴۸ ۔
مترجم:(صحیح بخاری ج۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة، باب(۲۴)”مناقب الحسن والحسین“ ح۳۵۴۳۔)
[62] صحیح بخاری جلد۲ ،کتاب الانبیاء، باب ”(سورہٴ صٰفات آیت ۹۴ )یزفون النسلان“ حدیث۳۱۹۱۔
[63] صحیح بخاری جلد۳، کتاب البیوع، باب(۴۹)” ماذکر فی الاسواق“ حدیث۲۰۱۶۔ جلد ۷، کتاب اللباس، باب(۵۸)” السِخّاب للصبیان“ حدیث۵۵۴۵ ،صحیح مسلم جلد ۷ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب(۸ )”فضائل الحسن و الحسین علیھما السلا م“ حدیث۲۴۲۱۔ (معانقہ کے جملے صحیح مسلم میں آئے ھیں صحیح بخاری میں نھیں ۔مترجم )
[64] نوٹ:لکع بمعنی چھوٹا بچہ استعمال کیا جاتا ھے ، دیکھئے :نھایہ ابن اثیر ۔
[65] اگر آپ اس خطبہ کی روشنی میں خلفائے ثلاثہ کی زندگی کو دیکھیں تو پھر آپ کو اس بات کے تسلیم کرنے میں کسی طرح کی شرم اورجھجھک محسوس نہ ھو گی کہ منصب خلافت کے واحد حقدار حضرت علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔مترجم۔