اسرار غدیر
خطبہ ٴ غدیر کے اغراض و مقاصد کا جائزہ
غدیر کی تقریر کی خاص اھمیت، مخصوص کیفیت اور تقریر کرنے والے اور سننے والوں[1] کے جداگانہ شرائط کے پیش نظر ،اور ان باتوں کے باوجود کہ غدیر کے مخاطبوں کی اساس و بنیاد پر ھی ساری دنیا کے قیامت تک آنے والے مسلمانوںکی زندگی استوار هو گی لہٰذا پیغمبر اکرم(ص) نے اس خطبہ میںجن بنیادی اوراعتقادی مسائل کو مسلمانوں کیلئے دائمی راہ و روش اور پشت پناھی کے طورپر معین فرمایا تھا ان کی جمع بندی کرنا ضروری ھے ۔
ان نتائج کے ماتحت جو خطبہ غدیر کے مطالب سے ماخوذھیں یہ معلوم هو جا ئیگا کہ امت کو گمراہ کرنے والے اور خداوند عالم کے دین میں تحریف کرنے والے خداوند متعال اور اسکے پیغمبر کے سامنے کس طرح کھڑے هوگئے اور لوگوں کوجنت کے راہ مستقیم سے منحرف کردیا جو تمام انبیاء علیھم السلام اور پیغمبر اکرم(ص) کی مسلسل تیئس سالہ کاوشوںاور زحمتوں کا نتیجہ تھا اور جس سے استفادہ اور ثمرحاصل کرنے کا وقت آن پہنچا تھا ،اس سے ہٹاکر مسلمانوں کو بڑی تیزی کے ساتھ جہنم کے راستہ پر گامزن کردیا اور پیغمبر اکرم(ص) کے بیان کردہ بنیادی عقائدوغیرہ کے مقابلہ میں مسلمانوں کےلئے ایک طولانی انحراف کے ستونوں کو مستحکم کردیا واضح ر ھے کہ جو بھی مطالب خطبہ کے متن سے اخذ کئے گئے ھیں اور بعض مقامات پر تھوڑی وضاحت و تشریح کے ساتھ ذکرهوئے ھیں ۔خطبہ کی اصل عبارت کواس کتاب کے چھٹے اور ساتویں حصہ نیز چو تھے حصہ کے تیسرے جزء میں خطبہ کی مو ضوعی تقسیم کے اندر ملاحظہ کیا جاسکتاھے ۔

خطبہ ٴ غدیر کے مطالب کی جمع بندی

خطبہٴ غدیر میں گفتگو کا محور
جب پیغمبر اکرم(ص) پر خداوند عالم کی جا نب سے ”حجة الوداع “کا حکم نا زل هوا تو خطاب الٰھی اس طرح تھا کہ حج اور ولایت[2] کے علا وہ تمام الٰھی پیغام لوگوں تک پهونچ چکے ھیں ۔حج کے اعمال بھی اس طو لانی سفر میں مکمل طور پر بیان هو ئے اور غدیر کےلئے صرف ایک موضوع ”ولایت “ باقی رہ گیا تھا ۔
پیغمبر اکرم(ص) کا خطبہ ٴ غدیر میں ایک اساسی اور بنیادی مقصد تھا جس کا نچوڑ (خلاصہ ) اس جملہ میں کیا جا سکتا ھے :
”اپنے بعد قیا مت تک بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا اعلان “
پور ی دقت کے ساتھ پورے خطبہ میں یہ نکتہ مکمل طور پر واضح و روشن ھے کہ رسول اسلام(ص) نے اپنی گفتگو کا محور بارہ اماموںکی ولایت کو قرار دیا اور اپنی گفتگو کے اختتام تک اسی مو ضوع پر گفتگو فر ماتے رھے اور اگر درمیان میں کچھ دو سرے مطالب بھی بیان فر مائے تو بھی ان کا اسی اصل مطلب سے بلا واسطہ تعلق ھے ۔
پھلی دقت نظر میں یہ ادعا کیا جا سکتا ھے کہ آنحضرت (ص) کا کلام اس گفتگو میں ان تین باتوں پر مشتمل تھا :خطبہ میں کچھ مطالب صاف طور پر ولایت اور اما مت کے سلسلہ میں بیان هو ئے ھیں ۔
اور کچھ مطالب موضوع ولایت کے لئے تمھید ی طور پر بیا ن هو ئے ھیں ،کچھ مطالب امامت کے متعلق، ائمہ کی ولایت کی حدود،ان کے فضائل ،ان کے معا شرتی پروگرام ،نیز ان کے دشمنوں کے متعلق اور گمراہ اور منحرف هو جانے والے افراد کے سلسلہ میں بیان فر مائے ۔

خطبہ ٴغدیر میں بیان هونے والے مو ضوعات اور کلمات کی تعداد
ھم تین اھم پھلوؤں کی تعداد کے اعتبار سے پورے خطبہ کا جا ئزہ لیتے ھیں:
پھلے آنحضرت (ص) کے پیش نظر موضوعات کے اعتبار سے اور ھر مو ضوع سے متعلق جملوں کی تعداد مندرجہ ذیل ھے :
۱۔ خدا وند عالم کے صفات :۱۱۰ جملے ۔
۲۔پیغمبر اکرم(ص) کا مقام :۱۰ جملے ۔
۳۔ولایت امیر المو منین علیہ السلام :۵۰ جملے ۔
۴۔ولایت ائمہ علیھم السلام :۱۰جملے ۔
۵۔فضائل امیر المو منین علیہ السلام :۲۰ جملے ۔
۶۔حضرت مھدی علیہ السلام کی حکومت :۲۰ جملے ۔
۷۔اھل بیت علیھم السلام کے شیعہ اور ان کے دشمن :۲۵جملے ۔
۸۔ائمہ علیھم السلام کے ساتھ بیعت :۱۰ جملے ۔
۹۔قرآن اور اس کی تفسیر ۱۲جملے ۔
۱۰۔حلال و حرام، واجبات اور محرمات :۲۰جملے ۔
دو سرے :ان اسماء اور کلمات کی تعداد جو خطبہ میں استعمال هو ئے ھیں جن سے خطبہ کی اھمیت کا اندازہ هوتاھے :
۱۔امیر المو منین علیہ السلام کا اسم مبارک ”علی علیہ السلام “کے عنوان سے چالیس مرتبہ آیا ھے ۔
۲۔کلمہ ٴ ” ائمہ علیھم السلام “ دس مرتبہ آیا ھے ۔
۳۔امام زمانہ علیہ السلام کا اسم مبارک ”مھدی علیہ السلام “کے عنوان سے چار مرتبہ ذکر هوا ھے
البتہ اکثر خطبہ ائمہ علیھم السلام کے سلسلہ میں ھے جو ضمیر یا اشارہ یا عطف کے ذریعہ بیان هوا ھے اسی طرح بہت سے مطالب حضرت بقیة اللہ الاعظم کے سلسلہ میں آئے ھیں ۔مذکورہ مطالب سے مراد پیغمبر اکرم(ص) کا ان اسماء مبارک کو صاف طور پر بیان کرنا ھے جو ان کی فوق العادہ اھمیت کو بیان کرنا ھے
تیسرے :قرآن کریم کی ان آیات کی تعداد جو شاھد کے عنوان سے یا تفسیر کےلئے خطبہ میں بیان هو ئی ھیں ۔خطبہ میں بعض مقامات پر قرآن کریم کی بہت سی آیات کو استشھاد کے طور پر پیش کرنا اس کے برجستہ نکات ھیں ۔خطبہ ٴ غدیر میں شاھد یا تفسیر کے عنوان سے بیان هو نے والی آیات کی تعداد ۵۰ ھے جو اسلام کی اس بڑی سند کو جلو ہ نما کر تی ھیں ۔
اھل بیت علیھم السلام کی شان میں ۲۵ آیات اور اھل بیت علیھم السلام کے دشمنوں کے سلسلہ میں ۱۵ آیات خطبہ کے اھم نکات میں سے ھے ۔
قرآن کی کریم کی دس سے زیادہ آیات واقعہٴ غدیر کے ایام میں نازل هو ئی ھیں اور اس کا آشکار نمو نہ یہ آیات:یَاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ ربِّکَ>،<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمْ الاِسْلاٰمَ دیناً>اور <سَاٴَ لَ سَائِل بِعَذَابٍ وَاقِعٍ>ھیں ۔
یہ خطبہ کے اھم مقامات کی مختصر سی تعداد ھے ۔خطبہ کا دقیق طور پرمطالعہ کرنے کے بعد جاذب نظر اور دقیق تعداد کو اخذ کیا جا سکتا ھے ۔

۱ خطبہ ٴ غدیر کا خلا صہ :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “
خطبہ ٴ غدیر کا سب سے نمایاں جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “ھے ۔جب پیغمبر اکرم(ص) نے خطبہ کے حساس مو قع پر امیر المو منین علیہ السلام کے بازو پکڑ کر مجمع کے سامنے ان کا تعارف کرتے هوئے بیان فر مایا ھے ۔[3]
اگر ھم اس جملہ کی اچھے طریقہ سے تحلیل کریں تو یہ معلوم هوگا کہ یہ جملہ کو تا ہ ضرور ھے لیکن پُر معنی ھے اور کئی اعتقادی پھلوؤں پر مبنی ھے کہ اگر کو ئی اس کوتسلیم نہ کرتا هو تو وہ اس جملہ کو بھی قبول نھیں کر سکتا ھے ھم اسی خطبہ میں مذکورہ مطالب کے ذریعہ ھم جملہ کی تشریح کر تے ھیں ۔

جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ “کے کلمات کی تشریح جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ“پانچ کلموں سے بنا ھے :
”مَنْ “یعنی ”ھر شخص “۔یہ کلمہ ان تمام مسلمانوں کو شامل ھے جو پیغمبر اکرم(ص) کو تسلیم کرتے ھیں۔
”کُنْتُ “،یعنی ” میں تھا “۔فعل ما ضی سے استفادہ کرتے هوئے اس کا مطلب یہ هوگا کہ یہ ”مَوْلَاہُ “یعنی ”مولا اور اس کا صاحب اختیار ۔۔۔“۔یہ جملہ کلمہ کا اصلی محور ھے اور آنحضرت(ص) خود اس خطبہ اور دوسرے مقامات پر اس جملہ کے معنی بیان فر ما ئے ھیں ۔”مولی“یعنی جس شخص کے ھاتھ میں لوگوں کا اختیار هو اور ان کی نسبت وہ ان لوگوں کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتا هو اور جو بھی حکم ان کو دیدے وہ اس حکم کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کریںاور اگراس حکم میں اس کی حقانیت یا شک یا اعتراض کے عنوان سے کو ئی کو تا ھی کرے تو یہ کفر کے برابر ھے اور آنحضرت (ص) کی نبوت کا انکار کرنا ھے ۔
”فَعَلِیٌّ “یعنی ”پس علی ۔۔۔۔علی بن ابی طالب (ع) کومنصب و مقام کےلئے معین کرنا جو بعد کے کلمہ میں ذکر هوا ھے یہ فتنہ ڈالنے والوں اور سازش و منصوبہ بنا نے والوں کے منھ پر زور دار طمانچہ مارناھے تا کہ وہ امام کی شخصیت کے متعلق شک و تردیدیا اس کے تعدد کے احتمال کو اپنے ذہن سے نکال دےں ۔ دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام کے تعارف سے دوسرے گیارہ امام جو ان کے بعد ان کے مقام منصب پر فا ئز هوں گے ان کو اس طرح معین کرنا ھے کہ جس سے تحریف اور شک کا راستہ بند هو جا ئے ۔
”مَوْلَاہُ “، یعنی ”اس کا مو لا اور صاحب اختیار ھے “۔وھی منصب جو اس جملہ کے تیسرے کلمہ میں پیغمبر اکرم(ص) کےلئے ذکر هوا بالکل وھی منصب علی بن ابی طالب (ع) اور آپ کے بعد آپ کی نسل سے آنے والے گیارہ اماموں کےلئے ھے اور خداوند عالم کی جانب سے عطا کیا گیا ھے وہ لوگوں کے صاحب اختیار ھیں جو کچھ وہ فر مائیں اسے بے چون و چرا قبول کرنا ضروری ھے،اور ان کے سلسلہ میں ھر طرح کا اعتراض اور شک و تردید کفر کے مساوی ھے ۔

جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“کا دقیق مطلب
اس جملہ کے کلمات کو بیان کرنے کے بعد اس کا ترکیبی صورت کی وضاحت کے ساتھ ترجمہ کرتے ھیں :
ھر مسلمان جو پیغمبر اکرم(ص) کو اپنا صاحب اختیار قبول کرتا ھے اور ان کے فرامین اوراوامر و افعال میں اپنے کو کسی طرح کا شک و شبہ اور اعتراض کرنے کی اجازت نھیں دیتا ،اس کو علی بن ابی طالب (ع) کی نسبت بھی یھی عقیدہ رکھنا چا ہئے اور ان کی گفتگو ،افعال اور جو کچھ ان سے دیکھے اور سنے اس کو حق سمجھے اور چونکہ ان کے وجود کے سلسلہ میں کسی طرح کے کسی شک و اعتراض کی کوئی گنجائش نھیں ھے ،لہٰذا جو شخص کسی بھی طریقہ سے ان کی مخالفت کرے اوران کے مد مقابل هو جا ئے وہ باطل ھے اور کفر کے مسا وی ھے ۔

”علی علیہ السلام “کے اسم مبارک کو بیان کرنے میں ایک اھم بات
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کا اسم مبارک پیغمبر اکرم (ص)کے بعد امام بلا فصل کے عنوان سے امامت کی راہ میں پھلے شخص کے عنوان سے ذکر کیا گیا ھے تا کہ ان کی امامت ثابت هو جا نے کے بعد یہ رشتہ باقی رھے اوران کے بعدگیارہ اماموں میں سے ھرایک یکے بعد دیگرے اس منزل کو قیامت تک پہنچائے ۔
خطبہ میں مختلف مقامات پر امیر المو منین علیہ السلام کے اسم مبارک کو ذکر کرنے کے بعد فوراً بلا فاصلہ اماموں کی طرف اشارہ کیا گیا ھے اور اس کی وجہ یہ ھے کہ خداوند عالم نے اپنے نا ئب کے عنوان سے ان صاحب اختیارلوگوں کوقیامت تک کےلئے (تسلسل کے ساتھ )لوگوں کےلئے معین فرما دیا ھے اور لوگوں پر اس طرح حجت تمام کردی ھے کہ وہ سیدھے راستہ کو آسانی کے ساتھ اخذ کرلیں اور کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہ رھے ۔

کلمہ ٴ ”مولیٰ “کے بارے میں اھم بات
ظاھر ھے لوگوں کا مطلق صاحب اختیار وھی شخص هو سکتا ھے جونہ صرف گنا ہ ھی نہ کرے اور شیطان اور هویٰ و هوس کو اپنے نفس پرمسلط نہ هونے دے بلکہ وہ اشتباہ و غلطی بھی نہ کرے تاکہ وہ لوگوں کی ھلاکت کا باعث نہ هو سکے ۔
خداوند عالم نے ان لوگوں کو صاحب اختیار قرار دیا ھے جو مطلق عصمت کے مالک ھیں اور وہ ھر طرح کی برائی و پلیدی سے پاک و پاکیزہ اور منزہ ھیں ۔اس کے علاوہ اس نے اُن کے علم کو اپنے لا محدود علم سے متصل فرمایا ھے تاکہ وہ لوگوں کی طرح طرح کی مشکلوں کے جواب دہ هو سکیں ۔
چودہ معصومین علیھم السلام کا لوگوں کے صاحب اختیار هونے کو مشخص و معین کرنا جن کا امر ھر مو جود پر نافذ ھے فقط خداوند عالم کی جا نب سے هو سکتاھے ، چونکہ وھی مخلوق کو وجود سے آراستہ کرنے والا ھے اس نے بہترین چیزوں کو خلق فر مایا ھے اور صرف وھی ھے جو کسی شخص کے ھاتھ میں لوگوں کے اختیار تام کو حوالہ کرنے کی ضمانت دے سکتا ھے ۔ یہ پیغمبر اکرم(ص) ھیں جنھوں نے خداوند عالم کی جا نب سے ائمہ معصومین علیھم السلام کی اس مقام کے سلسلہ میں پشت پنا ھی کے عنوان سے تعارف کرایا ھے ۔
پروردگار مھر بان نے نظامِ خلقت میں صرف اسی پر اکتفا نھیں کی ھے بلکہ اس نے صاحبان اختیار ان لوگوں کو قرار دیا ھے جونور سے خلق هو ئے ھیں اور ان کو انسانی قالب میں ڈھال دیا ھے معصومین علیھم السلام وہ افراد ھیں جو عالَم کی تخلیق سے پھلے خلق هو ئے ھیں اور پوری دنیا ان کے وجود کی برکت سے خلق هو ئی ھے ۔
خداوند عالم نے لوگوں کو نورانی موجودات کے سپردکردیا ھے تاکہ لوگ اس طریقہ سے اس (خدا) کی عبادت کریں اور ان سے ھدایت حاصل کریں ،لہٰذا اور کسی بھی طریقہ سے اخذ کی جانے والی ھدایت خداوند عالم کی بارگاہ میں قابل قبول نھیں ھے ۔امیر المو منین علیہ السلام واقعہ ٴ غدیر کو بیان کرتے وقت فر ما تے ھیں:
”۔۔۔وَکَانَتْ عَلیٰ وِلَایَتِیْ وِلَایَة اللّٰہِ،وَعَلیٰ عَدَاوَتِیْ عَدَوَةُ اللّٰہِ،۔۔۔فَکَانَتْ وِلَایَتِیْ کَمَالُ الدِّیْنِ وَرَضِیَ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ“[4]
”خدا وند عالم کی ولایت میری ولایت کے ذریعہ پہچا نی جا تی ھے اور خداوند عالم سے عداوت بھی میری عداوت کے ذریعہ پہچا نی جا تی ھے ۔۔۔لہٰذا میری ولایت کمال دین اور خداوند عالم کی رضایت کا باعث ھے “
اسی طرح حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اس سلسلہ میں فر ماتے ھیں :جب خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعد اپنے اولیاء کو منصوب فرماکر تم لوگوں پر احسان کیا تو پیغمبر اکرم(ص) سے فرمایا :
<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمْ الاِسْلاٰمَ دیناً>اور اس نے اپنے اولیا ء کے لئے تم پر حقوق واجب کئے اور تم کو حکم دیا کہ اگر تم نے ان کے حقوق کو ادا کیا تو جو کچھ تمھارے پاس ازواج ،اموال اور کھانے پینے کی چیزیں ھیں وہ تمھارے لئے حلال ھیں اور اس میں تمھارے لئے خیر و بر کت ھے تا کہ یہ معلوم هوجا ئے کہ کون شخص خداوند عالم کی اطاعت کرتا ھے ۔[5]

بہترین مو لیٰ کا انتخاب
مسلمان بلکہ تمام انسان خداوند عالم کا کتنا شکر ادا کریں کہ اس نے اپنی بیکراں رحمت کے دروازے اس طرح لوگوں کےلئے کھولے ،اور چودہ معصومین علیھم السلام کے انوار مقدسہ کو اس عالَم نورانی سے انسانی شکل میں قرار دیا اور ان کا اپنے نمائندوں کے عنوان سے تعا رف کرایا ،اس بڑی نعمت کے ذریعہ اس نے عالم بشریت پر ایک عظیم احسان کیا ھے ۔
ھم خداوند عالم کے شکر گزار ھیں کہ اس نے ھم کو یہ اجازت نھیں دی کہ ھم اپنا صاحب اختیار خود معین کریں کہ ہزاروں غلطیوں سے دو چا ر هو جا ئیں ،اور اس نے اپنے انتخاب کے ذریعہ بھی معمو لی انسانوں کو ھمارا مو لا معین نھیں فر مایا ،بلکہ ان ھستیوں کو ھمارا مو لا معین فرمایا جو تمام عالم انسانیت میں سب سے بلند و بالا مقام پر فا ئز ھیں ۔جیسا کہ خود آنحضرت (ص) نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا ھے :تمھارا پیغمبر سب سے بہترین پیغمبر ،اور تمھارا وصی سب سے بہترین جا نشین ،اور ان کی اولاد سب سے بہترین جا نشین ھیں “

جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“سے نتیجہ اخذ کرنا
اس مقام پر خطبہ کی دو اھم جہت جو جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“سے نتیجہ اخذ کرنے کے مترادف ھیں کی طرف اشارہ کرتے ھیں :
الف :صراط مستقیم جس پر قرآن و حدیث استوار ھیں صرف ائمہ معصو مین علیھم السلام کا راستہ ھے
اس سلسلہ میں خطبہ میں دو جامع جملے بیان هو ئے ھیں :
۱۔میں خداوند عالم کا وہ سیدھا راستہ هوں جس کی تم کوپیروی کا حکم دیا گیا ھے اور میرے بعد علی (ع) ان کے بعد ان کے صلب سے میرے فرزند جو ھدایت کرنے والے امام ھیں ۔
۲۔” سوره حمد ائمہ علیھم السلام کی شان میں نازل هوا ھے “یعنی مسلمان جو ھر دن کم سے کم دس مرتبہ ”اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ “کہتے ھیں وہ حقیقت میں خدا وند عالم سے یہ چا ہتے ھیں کہ وہ ان کی ائمہ معصومین علیھم السلام کے راستہ کی طرف ھدایت کرے اور جو لوگ اس راہ کی طرف ھدایت پاتے ھیں وہ ”اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ “ھیں اور جو لوگ اس راہ سے منحرف هو جاتے ھیں وہ ”مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ“اور ”ضَا لِّیْنَ“ھیں ۔
ب:خداوند عالم کا دین اورخداوند عالم کی سب سے بڑی نعمت ،کہ جس نعمت کے آنے سے نعمتیں کا مل هو ئیں ،ائمہ علیھم السلام کی ولایت اوروہ ان کا لوگوں کا صاحب اختیار هونا تھا،اور وہ اسی وقت دین اسلام ایک کامل دین کے عنوان سے خدوند عالم کی بارگا ہ میں قبولیت کے درجہ پر فائز هوا اس سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر میں دو جملہ ارشاد فر ما ئے :
۱۔پروردگار جب میں نے لوگوں کےلئے علی بن ابی طالب (ع) کی ولایت بیان کی تو تو نے یہ آیت: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔“نازل فر ما ئی آج میں نے دین اسلام کو کا مل کردیا تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ھے “اور یہ آیت :<وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْناً۔۔۔>نازل فرما ئی ”اور جو اسلام کے علاوہ کو ئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جا ئے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ اٹھانے والوں میں هوگا “۔
۲۔ایھا الناس !خداوند عالم نے اس (علی (ع) ) کی امامت کے ذریعہ اپنے دین کو کا مل کردیا ھے لہٰذا جو شخص ان کی اور ان کے بعد ان کی نسل سے ان کے جا نشین امام جن کا سلسلہ قیامت تک رھے گا کی اقتدا نہ کرے اور ان کو اپنا امام قرار نہ دے تو اس کے اعمال بیکار ھیں اور اس کا ٹھکانا جہنم ھے “

۲ ”ولایت “کے سلسلہ میں غدیر کے اعتقادی ستون
پیغمبر اکرم(ص) کا منصب
غدیر کی اساس و بنیاد پیغمبر اکرم حضرت محمد بن عبد اللہ (ص)کی نبوت و خاتمیت پر ھے اور جو کچھ غدیر میں اسلام اور جھان کے مستقبل کے لئے پیشینگو ئی هو ئی ھے وہ آنحضرت (ص) کے مقام ِشامخ کے بیان پر مبتنی ھے ،لہٰذا آنحضرت (ص)نے خطبہ کے چند حصوں اپنے مقام و منزلت کو لوگوں کے سامنے بیان فر ما یاھے ۔ان میں سے اکثر مقامات پر اپنے تذکرہ کے بعد ائمہ علیھم السلام کے اسماء کا تذکرہ فرمایا تا کہ یہ معلوم هو جا ئے کہ اس شجرہ ٴ طیبہ کی اساس و بنیاد ،اس طولانی پروگرام کے بانی اور ولایت و امامت کی اصل خود خاتم الانبیاء (ص)ھیں ۔اس سلسلہ میں جو کچھ متن خطبہ میں بیان هوا ھے اس کو چھ عنوان میں جمع کیا جا سکتا ھے :
۱۔آپ(ص) کے سلسلہ میں پیشنگوئی :گذشتہ انبیاء و مرسلین نے آ پ (ص) کے سلسلہ میں بشارت دی ھے ۔
۲۔آپ(ص) کی خا تمیت :آپ (ص) خاتم اور انبیاء و مر سلین کی آخری کڑی ھیں اور ان کے بعد کو ئی نبی نھیں آئے گا ۔اس مطلب کے سلسلہ میں یوں اشارہ فرمایا ھر پیغمبر کی اولاد خو د اس کے صلب سے ھے لیکن میری نسل حضرت علی علیہ السلام کے صلب سے هو گی ۔
آپ (ص) کا مقام و منصب :اس سلسلہ میں چار پھلوؤں کی طرف اشارہ فرمایا :
الف :ان کے وجود میں خداوند عالم کی جانب سے نور قرار دیا گیا ھے ۔
ب:وہ نبی مر سل ،ڈرانے والے ھیں ،اور بہترین پیغمبر ھیں ۔
ج:خداوند عالم کے بعد وہ لوگوں کے مو لیٰ اور صاحب اختیار ھیں اور ان کا اختیار لوگوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ ھے ۔
د:وہ خداوند عالم کا سیدھا راستہ ھیں کہ جس کی پیروی کا حکم دیا گیا ھے ۔
۴: آپ(ص) کا علم :خداوند عالم نے آپ(ص) کو تمام علوم کی تعلیم دی ھے اور ان علوم کو آپ(ص) کے سینہ میں قرار دیا ھے ۔
۵۔آ پ(ص) کا حجت هونا :اس سلسلہ میں تین پھلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ھے :
الف :آپ (ص) تمام مخلوقات اھل آسمان و زمین پرخداوند عالم کی حجت ھیں صرف انسانوں کے لئے حجت نھیں ھیں ۔
ب:آپ (ص) کے حجت هونے میں شک کرنے والا شخص کافر ھے ،اور جو شخص آپ کی کسی بات میں شک کرے گویا اس نے آپ کے تمام اقوال میں شک کیا ھے اور ایسا شک کفر ھے ۔
ج:آپ(ص) جو کچھ بیان فر ماتے ھیںخداوند عالم کی طرف سے بیان فرماتے ھیں۔آپ (ص) کا قول جبرئیل سے اور جبرئیل کا قول خداوند عالم کا کلام ھے ۔
۶۔آپ(ص) کی تبلیغ :اس سلسلہ میں بھی تین باتوں پر رو شنی ڈالی گئی ھے :
الف :جو کچھ خدا وند عالم نے آپ(ص) پر نازل فرمایا آپ(ص) نے اس کے پہنچا نے میں کو ئی کو تا ھی نھیں کی ھے ۔
ب:مطالب کو لوگوں کے لئے روشن کیا اور ان کو سمجھایا ھے ۔عین عبارت یوں ھے :آگاہ هو جاؤ میں نے ادا کردیا ،پہنچادیا ،سنا دیا اور واضح کردیا ھے “۔
ج:آپ نے پیغام پہنچانے اور اپنے تبلیغ کرنے پر خداوند عالم کو شاھد قرار دیا ھے ۔

حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ولا یت
غدیر میں امیر المو منین علیہ السلام کے فقط پیغمبر اکرم(ص) کے خلیفہ اور ان کے جا نشین هو نے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ علی (ع) آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد ان کے قائم مقام هو هوں گے بلکہ وہ لوگوں کے تمام امورمیں تام الاختیار ھیں جن امور میں پیغمبر اکرم(ص) صاحب اختیار تھے ان کے جانشین کےلئے بھی ان سب کا اعلان کیا گیا ھے ۔
خطبہٴ غدیر میں”امام “کا مطلب یعنی جو بشر کی تمام ضرورتوں کا جواب گو هو ،یہ قدرت ان کو خداوند عالم عطا کرتا ھے ۔جو کچھ امامت کے عنوان سے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر میں بیان هوا ھے وہ مندر جہ ذیل ھے :
الف :لوگوں پر صاحب امر اور واجب الاطاعت کے عنوان سے آپ (ع) کی مطلق حکو مت وولایت ،اس سلسلہ میں یہ تعبیر ات ھیں :امیر المو منین ،امام، خداو رسول کی حد تک لوگوں کے ولی ،خلیفہ وصی مفروض الطاعت اور نا فذ الامر ھیں ۔
ب:لوگوں کی خداوند عالم کی طرف ھدایت کرنا جو مندرجہ ذیل تعبیرات کی صورت میں آیا ھے :
وہ ھدایت کرنے والے ھیں ۔
حق کی طرف ھدایت کرتے ھیں اور اس پر عمل کرتے ھیں ۔
باطل کو نیست و نابود کرتے ھیں اور لوگوں کو اس سے منع کرتے ھیں۔
خداوند عالم کی طرف دعوت دیتے ھیں ۔
جو کچھ خداوند عالم کی رضا ھے اس پر عمل کرتے ھیں ۔
خداوند عالم کی معصیت سے منع کرتے ھیں ۔
بشارت دینے والے ھیں ۔
ج:لوگوں کی علمی ضرورتوں کا جواب دینا جس کالازمہ لوگوں کی تمام علمی ضروریات سے آگاہ هونا ھے اس مطلب کو مندرجہ ذیل تعبیرات سے بیان گیا ھے :
وہ میرے علم کے اٹھانے والے ھیں اور میرے بعد تم کو سمجھا ئیں گے اور بیان کریں گے۔ وہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں جا نشین اور خلیفہ ھیں ۔
د :دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنا جو امام کا ایک طریقہ ھے مندرجہ ذیل دو طریقوں سے آیا ھے :
وہ خداوند عالم کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے والے ھیں ۔
وہ ناکثین ،قاسطین اور ما رقین کو قتل کرنے والے ھیں ۔
وسیع معنی کے اعتبار سے ”امامت “ جو خطبہ ٴ غدیر میں بیان کی گئی ھے یہ سب خداوند عالم کی پشت پنا ھی اور اس کے دستخط کے ذریعہ ھے اور وھی اس قدرت کو عطا کرنے والا ھے ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عبارتیں ملتی ھیں :
وہ خداوند عالم کی طرف سے امام ھیں ۔
ان کی ولایت خداوند عالم کی جا نب سے ھے جو مجھ پر نا زل کی گئی ھے ۔
خداوند عالم نے ان کو منصوب فر مایا ھے ۔
وہ خداوند عالم کے امر سے دشمنوں سے جنگ کرتے ھیں ۔

امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل
امیر المو منین علیہ السلام کے مناقب و فضائل (مخفی کرنے اور منتشر نہ کرنے کے باوجود) تمام عالم میں سنے جا رھے ھیں ،دوست و دشمن ،مسلمان اور غیر مسلمان نے ان کو تحریر کر رکھا ھے اور کو ئی شخص ان کا انکار نھیں کرسکتا ھے ۔اس سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر میں دو اھم مطلب بیان کئے گئے ھیں :

۱۔امیر المو منین علیہ السلام کی مطلق اور لا محدود فضیلت کا اثبات
پیغمبر اکرم(ص) نے خطبہ ٴ غدیر میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی فضیلت کے سلسلہ میں وہ بیان فرمایا کہ کو ئی شخص اس سے زیادہ بیان ھی نھیں کرسکتا ھے اور وہ آپ (ع) کا قیامت تک تمام لوگوں سے افضل هونا ھے (پیغمبر اکرم(ص) کے علا وہ )لا محدود ،اورناقابل قیاس فضائل ،وہ فضائل جن کا عطا کرنے والا اللہ ھے اور ان کا اعلان کرنے والا آخری رسول ھے۔
اس کا مطلب یہ ھے کہ جو فضیلت ان کے سلسلہ میں بیان کی جا ئے وہ کم ھے اور عقل بشر ان کی عظمت و جلالت کو درک کرنے سے عا جز ھے ۔ھم اس سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر کے پُر محتوا تین جملوں کا مشاھدہ کرتے ھیں :
۱۔خداوند عالم نے علی بن ابی طالب (ع) کو تمام لوگوں سے ا فضل قراردیا ھے ۔
۲:علی علیہ السلام کو سب لوگوں پر فضیلت دو ،چو نکہ وہ میرے بعد تمام مرد و عورت سے افضل ھیں جب تک خداوند عالم روزی نازل کررھا ھے اور مخلوقات با قی ھیں ۔
۳۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل (جو خداوند عالم نے قرآن میں نازل کئے ھیں )اس سے کھیں زیادہ ھیں کہ میں ان کو ایک نشست میں تم کو سنا ؤں ،پس جو شخص تم کو ان کے فضائل کے سلسلہ میں بتائے اور اس کی معرفت بھی رکھتا هو تو اس سے قبول کرلو ۔
ظاھر ھے ”با معرفت “ کی شرط ایک اھم نکتہ کو شامل ھے وہ یہ کہ اگر کو ئی شخص اھل بیت علیھم السلام کے باب مناقب میں اھل معرفت نہ هو تو ممکن ھے وہ احادیث کے معنی میں ضروری توجہ مبذول نہ کرے اور نتیجتاً آپ (ع) کی شان و عظمت کے خلاف معنی سمجھ بیٹھے ۔دوسری طرف انسان کوافراد ،زمانی اور مکانی حالات ،اور لوگوں کی مختلف افکار کو نظر میں رکھے بغیر ھر فضیلت کو ھر مقام پر نھیں کہنا چا ہئے لہٰذا اس سلسلہ میں لا زمی بصیرت و معرفت کا هونا ضروری ھے ۔

۲۔امیر المو منین علیہ السلام کے بعض فضائل کا تذکرہ
امیر المو منین علیہ السلام کے وہ فضائل جن کا تذکرہ آنحضر ت(ص) نے اپنے خطبہ میں فر مایا ھے وہ آپ (ع) کے مناقب کا اساسی اور اھم پھلو ھے جس سے لوگوں کوخدا ورسول کے ساتھ آپ (ع) کا مکمل اتصال سمجھ میںآ تا ھے ،ان پھلوؤں کو چا ر عناوین میں جمع کیا جا سکتا ھے :
۱۔دین خدا میں سب سے اول پھل کرنے والے علی بن ابی طالب (ع) ھیں اس بارے میں مندرجہ ذیل چیزیں بیان هو ئی ھیں :
اسلام لانے والے پھلے شخص ھیں ۔
خداکی عبادت کرنے والے پھلے شخص ھیں ۔
نماز پڑھنے والے پھلے شخص ھیں ۔
۲۔راہ خدا میںآپ (ع) کی فدا کا ریاںخطبہ میں یوں بیا ن هو ئی ھیں :
وہ خداوند عالم کے دین کے مدد گار ھیں ۔
وہ رسول خدا (ص)کا دفاع کرنے والے ھیں۔
آ پ (ع) وہ وہ ھیں جنھوں نے رسول اسلام(ص) کے بستر پر سوکر اپنی جان ان پر فدا کی ھے ۔
۳۔خداوند عالم کا ان سے راضی هونا ،یہ مطلب آنحضر ت(ص) نے دو جملوں میں اس طرح بیان فر مایا ھے :
خداوند عز وجل اور میں ان سے راضی ھیں ۔
رضایت کے متعلق کو ئی بھی آیت قرآن کریم میں ان کے علاوہ کسی کےلئے نازل نھیں هو ئی ھے
۴۔آپ (ع) کے خصوصیات کو خطبہ ٴ غدیر میں اس طرح بیان کیا گیا ھے :
”امیرالمو منین“کا لقب آپ ھی سے مخصوص ھے ۔
آپ (ع) ”جنب اللہ “ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت سب سے زیادہ سزا وار ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) کے سب سے زیادہ قریب ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) سے اور پیغمبر اکرم(ص) ان سے ھیں ۔
سوره ”ھل اتی ٰ “ان ھی کی شان میں نازل هوا ھے ۔
سوره ”والعصر “ان ھی کے بارے میں نازل هوا ھے ۔
یہ فضائل اس بات کی نشاند ھی کرتے ھیں کہ خدا و رسول کی بارگا ہ میں اس طرح متصل و مقرب شخص کی موجود گی کے باوجودکوئی دوسرا چا ھے وہ جس درجہ اور مقام پر فا ئز هو منصب امامت و ولایت کےلئے سزاوار نھیں ھے تو ناشائستہ اور بغیر فضیلت والے افراد جیسے ابو بکر ،عمر ،عثمان معاویہ اور یزید کیسے اس منصب تک پہنچ سکتے ھیں

ائمہ ٴاطھار علیھم السلام کی ولایت و امامت
خطبہ ٴ غدیر میں ائمہ علیھم السلام کو ان ھی بارہ عدد میں منحصر کرنے پر عجیب و غریب انداز میں زور دیا گیا ھے اور یہ کہ کو ئی فرد ان کی شان میں شریک نھیں ھے ۔دوسری طرف ان سب کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ھے اور ان میںافتراق و جدائی ڈالنے کو منع کیا گیا ھے اور ان میں فرق کرناگو یا امامت میں جدائی ڈالنا ھے ۔
یہ اس وجہ سے ھے کہ تمام ائمہ علیھم السلام خداوند عالم کی طرف سے ایک جیسی شان کے ساتھ اس منصب پر فا ئز هو ئے ھیں اور اس امر میں ھر طرح کا خدشہ و شک درحقیقت فرمان الٰھی میں شک کا مو جب ھے اور ان افراد سے روگردانی کرنا ھے جن کے مقام ومنصب پر خداوند عالم نے اپنی مھر لگا دی ھے ۔
دوسری طرف ائمہ علیھم السلام کی تعداد کے معین و منحصر هو نے کا مطلب یہ ھے کہ اور کو ئی شخص اس شان کے لا یق ھی نھیں ھے ،اور اگر کو ئی ان کے قبول و تسلیم کرنے میں شک کرے تو گو یا اس نے خداکے سلسلہ میں شک کیا ھے ۔اس سلسلہ میں عبد اللہ بن عباس نے معاویہ سے کھا :
”وَتَعْجَبُ۔یَامُعَا وِیةُ۔اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سَمَّی الْاَئِمَّةَ بِغَدِیْرِخُمًّ ۔۔۔یَحْتَجُّ عَلَیْھِمْ وَیَامُرُبِوِلَایَتِھِمْ “۔[6]
اے معاویہ کیا تم اس با ت پر تعجب کرتے هو کہ رسول اسلام (ص) نے غدیر خم میں ائمہ علیھم السلام کے اسماء گرامی کا تعارف کرایا ۔۔۔اس طرح ان پر حجت تمام کی اور ان کی اطاعت کا حکم صادر فرمایا “
خطبہ ٴ غدیر میں ھم کئی مقامات پر ائمہ علیھم السلام کی تعیین کے سلسلہ میں کلمہ ”ھَذا علی “نیز امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کا نام لیا گیا ھے جن سے نسل اما مت کا پتہ چلتاھے اور حضرت علی (ع) کے بازو بازو بلند کرکے اور ان کا مکمل طور پر تعارف کرا کے شک کے راستہ کو ایک دم بند کر دیا ھے اور کئی مقامات پر صاف طور پر یہ عبارت بیا ن فرما ئی ھے :
”امامت قیامت تک میری نسل اور میری اولاد میں سے ھے “
”ائمہ میری اولاد اور حضرت علی علیہ السلام کے صلب سے هو ں گے “
بارہ اماموں میںسے سب کو تسلیم کرنے کے سلسلہ میں ھم خطبہ ٴ غدیر میں اس جملہ کا مشاھدہ کر تے ھیں :
”جو شخص کسی ایک امام کے بارے میں شک کرے تو اس نے تمام ائمہ کے سلسلہ میں شک کیا ھے اور ھما رے سلسلہ میں شک کرنے والے کا ٹھکانا جہنم ھے “
اسی طرح خطبہ میں ان کے نورانی وجود کا تذکرہ مو جو د ھے :
”خداوند عالم کی طرف سے نور مجھ میں ،اس کے بعد علی علیہ السلام اور ان کے بعد ان کی نسل میں مھدی کے ظهور تک قرار دیا گیا ھے “
خطبہ ٴ غدیر میں ائمہ کے انحصار کو بیان کر نے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی امامت کے سلسلہ میں پانچ جہتوںکی طرف اشارہ فرمایا ھے :
الف :قرآن کے شریک :یہ ثقل اصغر ،ثقل اکبر کے ساتھ ھے ۔یہ ثقل اصغر ،ثقل اکبر کے سلسلہ میں خبردیتے ھیں اس کے موافق ھیں اور اس سے جدا نھیں هو ں گے ۔
ب:ھدایت کرنے والے :یہ حق کی طرف ھدایت کرتے ھیں اور حق و عدالت کے ساتھ عمل کرتے ھیں ۔
ج:خداوند عالم کے امین ھیں :یہ زمین پر خداوند عالم کے حا کم اور لوگوں کے ما بین خداوند عالم کے امین ھیں ۔
د:علماء :ان کے پاس حلال و حرام کا علم ھے اور ان کے پاس ھر چیز کا علم ھے ۔جو کچھ ان سے سوال کیا جا ئے اس کے جواب گو ھیں اور جو کچھ تم نھیں جانتے هو یہ تمھیں اس کی تعلیم دیں گے ۔ ھ:خداوند عالم کی حجج :وہ تمام دنیا والوں کےلئے حجت ھیں جب تک ان سے متمسک رهوگے ھر گز گمراہ نہ هوگے ۔اگر تم بھول گئے یا تم نے کسی چیز میں کو ئی کو تا ھی کر دی تو ائمہ تمھارے لئے بیان فر مائیں گے۔ وہ خداوند عالم کے سات دشمن گروهوں پر حجت ھیں :مقصرین، معا ندین ،مخا لفین ،خا ئنین آثمین، ظا لمین اور غا صبین ۔

حضرت مھدی علیہ السلام کی ولا یت و امامت
خطبہ ٴ غدیر میں حضرت بقیة اللہ الاعظم حجة بن الحسن المھدی صلوات اللہ علیہ وعجل اللّٰہ تعا لیٰ فرجہ الشریف وجعلنا من انصارہ و اعوانہ “کے سلسلہ میں خا ص تو جہ دی گئی ھے ۔
مھدی مو عود سے متعلق ان افراد کو خبردیناتھا جن پر امیر المو منین علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنا مشکل تھا ،اسلام کے مستقبل اور دین الٰھی کے طویل پروگرام کو مسلمانوں کیلئے بیان کرنا ھے ۔ اگرچہ اُس دن کے مسلمانوں نے علی بن ابی طالب (ع) کو تسلیم نہ کیا لیکن اس طویل زمانہ میں نسلوں کےلئے حقائق روشن هو گئے اور چونکہ امور خداوند عالم کے قبضہ ٴ قدرت میں ھیں لہٰذاایک دن اھل بیت علیھم السلام کاامر ظاھر هوجائےگا اس دن جھان کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعی جا نشینوں کے حوالہ کر دیا جا ئے گا اور صدیوں سے جو کچھ ان کےلئے پیش آیا ھے وہ اس خون کا انتقام لیں گے ۔
یہ بات بیان کردینا بھی ضروری ھے کہ غدیر خم میں ان مطالب و مقاصد کا اعلان ،ایک پیشینگو ئی اور غیب کی خبریں شمار هو تا ھے ۔
خطبہ ٴ غدیر میں حضرت مھدی علیہ السلام کے سلسلہ میں پچیس جملے آئے ھیں جن کا مندرجہ ذیل چھ عناوین میں خلا صہ کیا جا سکتا ھے :
الف :ان کی بشارت :اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ما تے ھیں :
”آپ (ع) ،وہ ھیں جن کی تمام پھلے آنے والوں نے بشارت دی ھے “
ب:ان کی خا تمیت :اسکے سلسلہ میں دواھم پھلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ھے :
۱:معین شدہ اماموں میں امامت متصل ھے اور منقطع هو نے والی نھیں ھے یھاں تک کہ ان کے آخری اور خاتم حضرت مھدی علیہ السلام تک پہنچے گی ۔
۲۔حضرت مھدی علیہ السلام قیامت تک حجت خدا کے عنوان سے باقی رھیں گے اور ان کے بعد کو ئی حجت نھیں ھے ۔
ج:ان کا مقام و منزلت :اس بارے میں دو پھلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ھے :

۱۔ان کے فضائل و مناقب
وہ خداوند عالم کی طرف سے منتخب شدہ ،ھدایت یافتہ اور تا ئیدشدہ ھے ۔
ان کے اندر خدا وند عالم کی جا نب سے نور قرار دیا گیا ھے ،کو ئی نور نھیں ھے مگر ان کے ساتھ ھے اورکو ئی حق نھیں ھے مگر ان کے ساتھ ھے ۔

۲۔ان کا معاشرہ میں مقام و منصب
وہ زمین پر خدا کے ولی اور مخلوق کے ما بین حکم کرنے والے ھیں ۔
امور ان کے سپُرد کر دئے گئے ھیں وہ خدا وند عالم کے ھر مخفی اور اور آشکار کے امین ھیں ۔
وہ خدا کے دین کے مدد گار ھیں ۔
وہ ھر صاحب فضل کو اس کے فضل کے مطابق اور ھر صاحب جھل کو اس کے جھل کے مطابق حصہ دینے والے ھیں ۔
د:ان کا علم: اس سلسلہ میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ھے :
۱۔وہ ھر علم کے وارث ھیں اور ان کا علم تمام چیزوں پر احا طہ رکھتا ھے ۔
۲۔ان کا علم علمِ الٰھی کے عمیق دریا سے متصل ھے ۔

ھ:اُن کا قیام
خطبہ ٴ غدیر میں کلمہ ”القائم المھدی “دو مرتبہ استعمال هوا ھے اور اس کے بعد حضرت بقیة اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی اس قدرت مطلقہ کی طرف اشارہ کیا گیا ھے جو ان کو خدا وند عالم کی طرف سے عطا کی گئی ھے اور اُن کی طاقت و قدرت کے برابر کو ئی بھی طاقت و قدرت نھیں ھے اس سلسلہ میں تین باتیں بیان کی گئی ھیں :
۱۔اُن پر کو ئی غالب نھیں آسکتا ،اُن کے خلاف کسی کی مدد نھیں کی جا ئیگی ،وہ تمام مضبوط قلعوں کو فتح کریں گے ۔
۲۔وہ تمام ادیان اور تمام مشرک گروهوں پر غلبہ حا صل کریں گے ،ان کی ھدایت کریں گے یا ان کو قتل کر دیں گے ۔
۳۔خدا وند عالم دنیا کی تمام آبادیوں اور شھروں کو ان کی تکذیب کی وجہ سے قیامت تک ھلاک کردے گا اور ان کو حضرت مھدی علیہ السلام کے تحت تصرف لا ئیگا ۔

و:ان کا انتقام
خطبہ ٴ غدیر میں اس بات پر زور دیا گیا ھے کہ اگرچہ اھل بیت علیھم السلام اور ان کے شیعوں کا حق ظالموں کے ذریعہ پامال هو رھا ھے لیکن منتقم آئیگا اور آخرت کے عذاب کے قطع نظر اسی دنیا میں دو ستوں کے دلوں کو انتقام لیکر خوش کرے گا ۔یہ بات تین جملوں میں بیان کی گئی ھے :
۱:وہ خداوند عالم اور اھل بیت علیھم السلام سے متعلق ھر حق کو اخذ کریں گے ۔
۲۔وہ او لیائے خدا کے نا حق بھائے گئے ھر خون کا انتقام لیںگے ۔
۳۔وہ دنیا ئے عالم کے تمام ظالموں سے انتقام لیں گے ۔

ولایت کا حب وبغض سے رابطہ
”<ھل الدین الاالحبّ والبغض >[7]کی اساس ھمار ے اعتقاد کے سب سے اھم ار کان مےں سے ھے ۔اھل بیت علیھم السلام کی ولا یت کا مقصد ان کا صاحب اختیار هونا اور لوگوں کا مکمل طور پر ان کی اطاعت کرنا ھے اس کالازمہ اُن سے محبت رکھنا اور ان کے دشمنوں سے بغض وکینہ رکھنا ھے اس سلسلہ مےں خطبئہ غدیر مےں تین باتوں کو بیان کیا گیا ھے :
الف :خداوند عالم کے نزدیک اھل بیت سے محبت اور بغض کی اھمیت اس سلسلہ مےں تین نکتے بیان کئے گئے ھیں :
جو شخص علی کو دوست رکھتا ھے خدا اس کو دوست رکھتا ھے اورجو علی (ع) کو دشمن رکھتا ھے خدا اس کو دشمن رکھتا ھے در حقیقت اُن سے محبت ودشمنی کا مسئلہ خود خدا وندعالم سے محبت اور دشمنی کی طرف پلٹتا ھے ۔
۲۔اھل بیت کے دشمن کی خدا وندعالم نے مذمت کی ھے اور اُس پر لعنت فرمائی ھے۔ان کے دوست کی خداوندعالم مدح کرتا ھے اور خدا اس کو دوست رکھتا ھے :
۳۔خدا وندعالم ایک خاص وحی اور خطاب مےں ارشاد فرماتا ھے :”جوشخص علی (ع) سے دشمنی کرے اور ان کی ولایت کا انکار کرے اس پر میری لعنت اور میرا غضب هو “
ب:اھل بیت علیھم السلام کی محبت اعمال کے تو لنے کا پیمانہ ھے اس سلسلہ مےں ارشاد هوتا ھے :تم مےں سے ھر ایک کو اپنے دل مےں علی کی نسبت محبت ودشمنی کے مطابق عمل کرے یعنی ھر انسان کو عمل کر نے سے پھلے یہ دیکھنا چا ہئے کہ وہ حضرت امیر المو منین علیہ السلام سے کتنی محبت یا دشمنی رکھتا ھے اور اسی کے مطابق وہ عمل کرے اس مطلب سے تین موضوعات کا استفادہ هو تا ھے :
۱۔جو اھل بیت سے محبت رکھتے ھیں وہ اس نعمت کی قدر کو پہچا نیں اور اس نعمت کے مدنظر نیک اعمال کرنے کی کو شش کریں :
۲۔محبین اور شیعہ حضرات محبت اھل بیت کی راہ مےں زیادہ کا م کریں ،اپنی محبت کے درجہ کو اوپر لے جائیں ،ان کی راہ اور ان کے امر کو زندہ کرنے کے لئے فدا کاری کریں ۔
۳۔اھل بیت علیھم السلام کے دشمن یہ جان لیں کہ جب تک وہ اھل بیت علیھم السلام کی اساس و بنیاد جو محبت ھے،کو محکم و مضبوط نھیں کریں گے اس وقت تک وہ بیکار اپنے اعمال انجام دیتے رھیں گے چونکہ اھل بیت علیھم السلام کی محبت کے بغیر عمل کی کو ئی قدر و قیمت نھیں ھے ۔لہٰذا اگر وہ اپنی خو د سازی اور خدا وندعالم کی راہ میں قدم اٹھا نا چا ہتے ھیں تو ان کےلئے اس مرحلہ سے اپنی اصلاح شروع کردینا چا ہئے پیغمبر اکرم(ص) ایک حدیث میں فر ماتے ھیں :
”اِنَّمَایَکْتَفِیْ اٴَحْدُکُمْ بِمَایَجِدُ لِعَلِیٍّ فِیْ قَلْبِہ“ِ “
” تم میں سے ھر ایک جو کچھ اپنے دل میںعلی کی نسبت پاتاھے اسی پر اکتفا کرے “[8]
ج:اھل بیت علیھم السلام کی محبت وہ دُرّ بے بھا ھے جو ھر ایک کو نھیں ملتا ھے ۔اگر کسی شخص نے اس کو قبول کرلیا تو یہ اس کی سعادت اور تقویٰ کی علا مت ھے ،اور اگر کسی نے قبول نہ کیا تو اس کی شقاوت کی نشا نی ھے ،اور شقی انسان کے لئے اس گوھر نایاب تک دست رسائی کر نا سزاوار نھیں ھے ۔

شیعہ اور اھل بیت علیھم السلام کے محبین
شیعہ اور اھل بیت علیھم السلام سے محبت کرنے والے اس بات کو جا ن لیں کہ انھیں کو نسے مذھب کو قبول کیاگیا ھے اورولایت ومحبت کے شرائط اور معیارکی حفاظت کرے نیزاس لئے کہ پروردگار عالم کے نزدیک اس کا مقام و منزلت واضح و روشن هو جا ئے اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ ٴ غدیر میںچند بنیادی نکات بیان فرمائے ھیں :
الف : ائمہ علیھم السلام کے شیعوں اور محبوں کا خداوند عالم کے نزدیک مقام و منزلت ۔
۱۔خداوند عالم ان کی مدح کرتا ھے ،وہ حزب اللہ ھیں اور خداوند عالم ان کی مدد کرتا ھے ۔
۲۔ان پر خداوند عالم کی رحمت نازل هو گی اور وہ بخش دئے جا ئیں گے ۔
۳۔چونکہ محبت حقیقی ایمان کی حکایت کر تی ھے ،لہٰذا یہ خالص صاحبان ایمان اور متقی ھیں اور ایمان ان کے دلوں میں ڈالدیا گیا ھے ۔وہ خداوند بالغیب سے خو ف کھا تے ھیں ،ھدایت یافتہ ھیں اور گمراھی سے امان میں ھیں ۔
ب:قیامت کے دن شیعوں اور اھل بیت علیھم السلام سے محبت کرنے والوں کا مقام
۱۔وہ بڑی کا میابی کے حامل ھیں اور اجر کبیر کے مستحق ھیں ۔
۲۔قیامت کے هو لناک دن کاان کو کو ئی ڈر نھیں ھے اور وہ رنجیدہ نھیں هو ںگے۔
۳۔ان کی آخری جزا بھشت ھے ۔وہ امن و سلا متی کے ساتھ اس میں داخل هوں گے اورانھیں بغیرحساب کے رزق دیاجا ئےگا ۔ان کاساتھ دینے کےلئے ملا ئکہ آئیں گے اور ان پر سلا م کریں گے، اور ان کو ابدی جنت کی بشارت دیں گے ۔
ج:جن پھلوؤں کی شیعوں اورمحبان اھل بیت علیھم السلام کودعوائے ولایت کی بناپررعایت کرنا ضروری ھے :
۱۔اپنے عقیدہ میں شک و شبہ کو راہ نہ دیں ۔
۲۔خدا ورسول اور اھل بیت علیھم اسلام کے دشمنوں سے دوستی نہ رکھیں اگرچہ وہ ان کے ماں باپ، اولاد ،بھائی اور رشتہ دار ھی کیوں نہ هوں ۔
۳۔اپنے پاکیزہ ایمان پر ظلم اور برے اعمال کا لباس نہ ڈالیں ۔

اھل بیت علیھم السلام کے دشمن
اھل بیت علیھم السلام مخلوق کا عصارہ ھیں ،خداوند عالم نے تمام مخلوقات کو اِن ھی برکت اور اِن کے وجود کی برکت کے سایہ میں پیدا کیا ھے ،جس قدر اھل بیت علیھم السلام سے محبت کی خداوند عالم کی بارگاہ میں قدر وقیمت ھے اتنا ھی خداوند عالم کی اس بہترین مخلوقات کے ساتھ اُن سے عداوت اور بغض نہ بخش دئے جانے والا گناہ ھے اور تمام اچھائیوں کو برباد کرنے والا ھے ۔
مسلمان اھل بیت علیھم السلام کے مقابل ھمیشہ دو راھے پر ھیں :یا ان سے محبت کریں یا دشمنی کریں ان کے پاس تیسرا کوئی راستہ نھیںھے ۔اھل بیت علیھم السلام کی معرفت کے باوجودان سے محبت نہ کرناجرم ھے اور اس سلسلہ میں کسی کے لئے کو ئی فرق نھیں ھے ۔
ظاھر ھے جس طرح اھل بیت علیھم السلام سے محبت کے درجات ھیں اسی طرح ان کے دشمنوں میں بغض و عداوت بھی یکسان نھیں ھے اس میں کمی اورزیادتی اور اس کی نوعیت بھی مختلف ھے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ٴ غدیر میں اھل بیت علیھم السلام سے دشمنی کے معیار (اتمام حجت کے عنوان سے )کو لوگوں کے لئے مشخص و معین فر ما دیا ھے ،اور ان کی مخالفت و دشمنی کی جزا ء اور سزا کو بھی معین فر مادیا ھے ۔جس کو ذیل میں بیان کرھے ھیں :

الف: اھل بیت علیھم السلام سے دشمنی کی نوعیت
۱۔ان کے حق کا انکار کرنا اور ان کی ولایت کو قبول نہ کرنا ۔
۲۔ان کے سلسلہ میں اور خدا وند عالم کی جانب سے ان کو عطا کئے گئے مقام ومنصب میں شک کرنا ۔
۳۔ان کو اپنے امام کے عنوان سے قبول نہ کرنا اور ان کی اقتدا نہ کرنا ۔
۴۔ان کے کلام کوردکرنا ،ان کی مو افقت نہ کرنا اور ان کے امر کی مخالفت کرنا ۔
۵۔ان سے دلی دشمنی اور ظاھری عداوت کرنا ۔
۶۔ان کو ذلیل و رسوا کرنا اور ان کی مدد کرنے سے انکار کرنا ۔
۷۔ان سے محبت نہ کرنا ۔
۸۔ان سے حسد کرنا ۔

ب:خداوند عالم کی بارگا ہ میںدشمنان اھل بیت (ع)
۱۔ملعون ،مغضوب اور شقی ھیں ۔
۲۔سفیہ(بیوقوف) ،گمراہ ،شیطانوں کے بھائی اور مکذبین ھیں ۔
۳۔خداوند عالم ان کی مذمت کرتا ھے ان کو خوار و رسوا کرتا ھے ، ان سے دشمنی رکھتا ھے ان کو نھیں بخشے گا اور ان کی تکذیب کی وجہ سے ان کو ھلاک کردے گا ۔

ج:قیامت کے دن اھل بیت علیھم السلام کے دشمنوں کی سزا
۱۔ان کے اعمال کی دنیا و آخرت میں کو ئی قدر و قیمت نھیں ھیں اور سب برباد هو جا ئیں گے ۲۔وہ جہنم کے شعلوں میں ڈالے جا ئیںگے ،جہنم کے شعلوں کی آواز سنیں گے اور اس کے شعلوں کا مشاھدہ کریں گے ۔
۳۔ان کے عذاب میں کو ئی کمی نھیں کی جا ئے گی ۔
۴۔وہ ھمیشہ سخت عذاب میں رھیں گے اور وہ ھمیشہ جہنم میں رھینگے ۔

گمراہ اماموں کا تعارف
دشمنان ولایت کو ان کے رھبروں کی شناخت کے ذریعہ پہچانناھدایت کےلئے بہت اثر رکھتا ھے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کوقابل اطمینان اوربے خطرمستقبل سے خوش نھیں کیا بلکہ مسلمانوں کومستقبل کے خطروں اور ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں سے بھی مطلع کیاھے کہ کھیں وہ ایسے مو ڑ پر آکر نہ کھڑے هو جائیں جھاں حق کو باطل سے تشخیص نہ دے سکیں اور گمرا هوں کے دھوکہ میں آجا ئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلہ میں تین بنیادی پیشینگوئیاں فرما ئی ھیں :
۱۔عوام الناس کے لئے بیان فرمایا کہ خو د سے مطمئن نہ هو جانا خوا ھشات نفسانی اور شیطان کے دھوکہ سے بچتے رہنا اور یاد رکھو اگر میں دنیا سے چلا گیا یا قتل کردیا گیا تو یہ احتمال موجود ھے کہ نہ صرف تم گمراہ هو جا ؤ گے بلکہ اپنی جا ھلیت کی طرف پلٹ جاؤ گے ۔
۲۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو خبر دار کیا کہ ائمہ حق جن کا میں نے تمھارے سامنے خداوند عالم کی جا نب سے تعارف کرایا ھے ان کے مقابلہ میں کچھ ایسے لیڈر بھی هو ں گے جو لوگوں کو آتش جہنم کی طرف بلا ئیں گے لہٰذا تم ایسے گمراہ لیڈروں سے اپنے کو بچا ئے رکھنا ۔
اسی طرح آپ نے یہ بھی خبر دی ھے کہ ائمہ حق کی امامت کو کچھ لوگ غصب کریں گے اور ریاست طلبی اور با دشاہت کے چکر میں اس مقام و منصب پر قابض هو جا ئیں گے ،اس کے بعد آپ نے لوگوں کے سا منے ان کے غاصب ،ظالم اور نا حق هو نے کو بیان فرمایا ۔
نتیجتاً آپ نے گمراہ لیڈروں کی اصل بنیادکو لوگوں کو بتاتے هوئے اشارہ کے طور پریہ ارشاد فرمایا :”وہ اصحاب صحیفہ ھیں “چونکہ تمام گمراہ لیڈروں کی بنیاد وہ ”صحیفہ ٴ ملعونہ “ھے جس پر کعبہ میں دستخط کئے گئے تھے ۔[9]
۳۔گمراھی کے اماموں اور خلافت و امامت کے غا صبوں کے سلسلہ میں دو بنیادی مطلب بیان فر ما ئے اور ان کی عاقبت کو معین و مشخص فرمایا :
الف :ان کو مورد لعنت قرار دیا اور یہ اعلان فرمایا کہ میں اور میرا پروردگار ان سے بیزار ھے ۔ ب:ان کو یہ خبر بھی دی کہ نہ صرف گمراہ امام بلکہ ان کے دوست ،ان کا اتباع کرنے والے ان کی تا ئید کرنے والے بھی جہنم کے آخری درجہ میں هوں گے ۔

۳ ولایت سے متعلق مسائل میں، غدیر کی عملی اور اعتقادی بنیادیں
قرآن سے متعلق
خطبہ ٴ غدیر میں قرآن کے سلسلہ میں چار اساسی پھلوؤں پر رو شنی ڈالی گئی ھے :

الف ۔قرآن کی منزلت
۱۔قرآن مسلمانوں کے ما بین پیغمبر(ص) کی یادگار اور نشا نی ھے ۔
۲۔قرآن ثقل اکبر (”اِنّی تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن“)ھے اور ثقل اصغر کی خبر دیتا ھے۔

ب:قرآن کا مطالعہ
۱۔قرآن میں تدبّر و تفکر کرو اور اس کی آیات کو سمجھو ۔
۲۔محکمات قرآن پر غورکرو اور اس کے متشابھات کو چھوڑ دو ۔

ج: قرآن کی تفسیر
۱۔قرآ ن کے مفسر اور اس کے باطن کو بیان کرنے والے صرف اھل بیت علیھم السلام ھیں ۔
۲۔قرآن کی تفسیر کرنے میں اھل بیت علیھم السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ اور جا نشین ھیں اور وہ ھستیاںھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستخط کے ذریعہ یہ حق رکھتے ھیں ۔

د: قرآن کریم کااھل بیت علیھم السلام کے ساتھ رابطہ
۱۔قرآن اھل بیت علیھم السلام کے موافق ھے اور ان سے جدا نھیں هوگا ۔
۲۔ان میں سے ھر ایک ،ایک دو سرے کے سلسلہ میں خبر دیتا ھے ۔
۳۔خداوند عالم نے قرآن کریم میں حضرت امیرالمو منین (ع) کے فضائل نازل فرما ئے ھیں ۔
۴۔قرآن فرماتا ھے کہ ائمہ علیھم السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کی نسل سے ھیں ۔

امام علیہ السلام بشر کی علمی ضرورتوں کے جواب گو ھیں
معاشرہ کی سب سے بڑی ضرورت اور متعدد مشکلوں کو حل کرنے والا کہ جس سے کوئی معا شرہ بے نیاز نھیں هو سکتاوہ ” علم “ھے ۔خدا وند عالم نے مسلمانوں کے مستقبل میں اس ضرورت کے بہترین ممکنہ حل کوان کے سامنے پیش کیا ھے ۔
تمام علوم بغیر کسی استثناء کے ھر مو ضوع کاعلم چا ھے اس کانتیجہ لوگوں تک پهونچتا هو یا ان علوم کا نتیجہ دین اور آخرت سے متعلق هو کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیاھے اور اس سے متعلق علوم ان کے سپرد کئے ھیں ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ تمام علوم علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرف منتقل هو گئے ھیں اور امیر المو منین علیہ السلام کے بعد ان کے بعد والے اما م کی طرف منتقل هوئے ھیں اور علم کا یہ بیکراں دریا ائمہ علیھم السلام میں یکے بعد دیگرے منتقل هوتا رھا اور آج یہ علم کا مخزن قائم آل محمد حضرت صاحب العصر والزمان سلام اللہ علیہ وعجل اللہ فرجہ الشریف کے پاس ھے ۔
خطبہ ٴ غدیر میںحلا ل و حرام اور تفسیر قرآن کے علم کے علاوہ کہ جس کا خاص طور پرتذکرہ هوا ھے کچھ مقامات پر صاف طور پر بیان هوا ھے کہ ان کے پاس ھر علم ھے اور اس سلسلہ میں دواھم باتوں کی طرف اشارہ کیاگیا ھے :

الف: ان کے علم کی کیفیت اور قدر و قیمت
۱۔ان کو علم خداوند عالم نے ھبہ کیا ھے اور ان کو خداوند عالم کی طرف سے عطا کیا گیا ھے اور یہ خداوند عالم کے لا محدود علم سے متصل ھے ۔
۲۔کو ئی شخص اس علم تک راہ نھیں پاسکتا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ علم صرف ان ھی کے سپرد کیا ھے اور جو شخص ان کے علاوہ ایسا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ھے ۔

ب:ان کے وسعت علم کا نتیجہ
۱۔جو کچھ تم ان سے سوال کروگے یہ تم کو جواب دیں گے ۔
۲۔جو کچھ تم نھیں جانتے هو یہ بتا ئیں گے اور بیان کریں گے ۔یعنی اگر تم سوال نھیں کروگے تو بھی از خودیہ تمھیں سمجھا ئیں گے نیز اگر کچھ مقامات پر مسئلہ مبھم رہ گیا یا تم اس کو غلط سمجھ گئے تو یہ تمھارے لئے روشن کریںگے ۔

حلال و حرام کے سلسلہ میں کلی قوانین
اگرچہ حلال و حرام اور واجبات و محرمات کی تعداد بیشمار ھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۲۳ سال کے عرصہ میں کچھ ھی بیان فر ما ئے ھیں اور چونکہ ان سب کو ایک ساتھ بیان کر نے کا مو قع (نہ لوگوں کے صبروتحمل کے لحاظ سے اورنہ ھی معاشرتی حالات کے اعتبارسے )فراھم نہ هو سکا لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکام الٰھی کو دو بنیادی پھلوؤں سے بیان فرمایا :
الف :جو احکام انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بیا ن فر ما ئے ان کے سلسلہ میں دو باتیں بیا ن فر ما ئیں :
۱۔جو کچھ میں نے بیان فرما دیا ھے اس سے ھرگز نھیں پلٹوں گا کہ کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردوں اور فطری طور پرکسی کو یہ حق حا صل بھی نھیں ھے ۔
ب:جو کچھ میں نے بیان فر مادیا ھے ھر گز اس میں کسی بھی حالت میں رد و بدل نھیں کر وں گا اور پس کسی کوبھی کسی کو ایسا کرنے کا حق حا صل نھیں ھے ۔
ب:جن احکام کو آپ بیان نھیں فر ما سکے تھے ان کے سلسلہ میں لوگوں کو علی بن ابی طالب (ع) اور گیارہ ائمہ علیھم السلام سے رجوع کرنے کا حکم دیاکہ ان کی امامت قیا مت تک باقی رھے گی اس طرح آپ(ص) نے تمام لوگوں پر حجت تمام کردی اور کسی کےلئے عذر تراشی کا کو ئی مو قع باقی نہ چھوڑا ۔
اس سلسلہ میں تین اھم باتیں بیان فر ما ئیں :
۱۔حلال و حرام کو بیان کرنے کےلئے ان کے علم کی ضرورت ھے اور یہ علم خداوند عالم کی طرف سے فقط پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیھم السلام کو عطا کیا گیا ھے ۔
۲۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیھم السلام کا کلام خداوند عالم کا کلام ھے اور قرآن کے مساوی ھے ۔
۳۔احکام الٰھی کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیھم السلام کے علاوہ کسی کوخبر دینے کاحق نھیں ھے اور لوگ بھی ان کے علاوہ حلال و حرام کو پہچا ننے کی صلاحیت نھیں رکھتے ھیں بنابریں کسی دو سرے راستہ کی پیروی بدعت ،ضلالت اور حکم الٰھی کے خلاف اخذ کرنا ھے ۔

امر بالمعروف اور تبلیغ کے سلسلہ میں کلیات
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ٴ غدیر میں امر با لمعروف اور نھی عن المنکر کے مسئلہ کو ابلاغ و تبلیغ کے مو ضوع کے ساتھ ملا کربیان فرمایا ۔دوسرے لفظوں میں امر با لمعروف اور نھی عن المنکر کے وقت انسان خداوند عالم ،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے وظیفہ بتا کر انجام دیتا ھے اور خداوندعالم کامامور اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیھم السلام کے خادم کے عنوان سے عمل کرتا ھے ۔
اس مطلب کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امر با لمعروف اور نھی عن المنکر کے سلسلہ میں تین بنیادی چیزیں بیان فرمائیں :
الف :اس چیز کو جا ننے کے لئے کہ امر با لمعروف کیا ھے اور منکر کیا ھے فقط ایک راہ مو جو د ھے اور وہ ائمہ معصومین علیھم السلام کا بیان ھے ۔اگر امر با لمعروف اور نھی عن المنکر کے سلسلہ میں ان کے علاوہ کسی اور طریقہ سے کو ئی بات پهونچے تو وہ نہ صرف معتبر نھیں ھے بلکہ بدعت بھی ھے ۔اسی وجہ سے آپ نے فرمایا ھے :
سب سے بلند و بالا امر با لمعروف اور نھی عن المنکر یہ ھے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کی ولایت کو لوگوں تک پہنچایا جائے ۔تا کہ اس ذریعہ سے معروف اور منکرات کی شناخت کے لئے لوگوں کو اس مرکز اور مرجع کا تعارف کرایا جا ئے ۔
ب:امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے سے پھلے تین اھم باتیں مد نظر رکھنی چا ہئیں :
۱۔اچھی طرح سیکھنا اور اصل مطلب کو سمجھنے میں اشتباہ نہ کرنا ۔
۲۔مطلب کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا اور یاد کرنا۔
۳۔مطلب میں تغیر و تبدل نہ کرنا اور صحیح پہنچانا ۔
ج:آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائرہ تبلیغ کی وسعت ، احکام الٰھی کی تبلیغ اور اس کے مراحل یوں بیان فر ما ئے ھیں :
۱۔جو جا نتے ھیں وہ ایک دو سرے کو سفارش کریں اور یا د دلا ئیں ۔
۲۔ماں باپ اپنی اولاد تک دین پہنچا نے میں ایک خاص وظیفہ رکھتے ھیں ۔
۳۔احکام الٰھی کا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک پہنچانا بہت ضروری ھے ۔
۴۔حاضرین کوغائبین تک پہنچانا چا ہئے ۔
۵۔دور اور نزدیک ھر جگہ تبلیغ کرنا چا ہئے اور مطالب پہنچانا چا ہئے ۔
۶۔جس شخص کو دیکھیں تبلیغ کریں اور خداکے حکم کو پہنچا ئیں ۔
البتہ ان تمام موارد میں زمان و مکان اور افراد کے حالات کی رعایت کرنا ضروری ھے ۔

نماز اور زکات کے سلسلہ میں اھم باتیں
خطبہ ٴ غدیر میں نماز اور زکات کے سلسلہ میں تین اساسی باتیں بیان فرما ئی ھیں :
۱۔دین اسلام کی ان دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا کہ ان کے دنیوی، اُخروی ،فردی اور معاشرتی اثرات سے سب آگاہ ھیں ۔
۲۔ان دو فریضوں کواس طرح انجام دینا جیسے خداوند عالم نے اس کا حکم دیاھے (کماامرکم اللہ ) اس طرح کہ ان میںجا ن بوجھ کر کسی طرح کی بدعت ،کمی اور زیادتی ان کو نابود کردیتی ھے اور اس کا مطلب یہ ھے کہ خداوند عالم لوگوں کی کامل اطاعت کے درجہ کو ان دو عمل کے ذریعہ تولنا چا ہتا ھے اور اس طرح لوگ اپنے اندر (الاسلام ھوالتسلیم )کی میزان کواپنی کسوٹی پرپرکھیں ۔
۳۔اگر ان دونوں عمل کے سلسلہ میں کو ئی مشکل پیش آجا ئے تو ائمہ علیھم السلام سے سوال کیاجائے تاکہ ان کو خداوند عالم کی مرضی کے مطابق انجام دیا جا سکے ۔

حج اور عمرہ کے سلسلہ میں رہنما ئی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ٴ غدیر میں حج و عمرہ کے متعلق چار اھم پھلوؤں پر زوردیا ھے :
الف۔حج اور عمرہ شعا ئر الٰھی میں سے ھیں :<وَمَنْ یُّعَظِّمْ مِنْ شَعَائِرَاللہِ فَاِنَّھَامِنْ تَقْوَ یَ الْقُلُوْبِ >،اور ان کو زندہ کرنا دین خدا کو زندہ کرنا ھے ۔
ب۔خداوند عالم کی طرف سے حجاج کے لئے دنیاوی اور اخروی نفع کو مد نظر رکھا گیا ھے :
ب ۔دنیاوی فائدہ :جو شخص حج کرنے کےلئے جاتا ھے خداوند عالم اس کوغنی کر دیتا ھے ۔ خدا حا جیوں کی مدد فرماتا ھے ۔جو کچھ وہ سفر حج میں خرچ کرتے ھیں خداوند عالم اس کی جگہ اموال سے پرُ کردیتا ھے ۔
۲۔نفع اُخروی :اس کے گناہ معاف کر دئے جا تے ھیں،ان کو نئے سرے سے اعمال انجام دینے کوکھا جاتا ھے اور ان کو بشارت دیدی جا تی ھے ۔
ج:جان بوجھ کر حج نہ کرنا خداوند عالم کے یھاں بہت اھم ھے اور عذاب اخروی کے علاوہ دنیوی ضرر بھی رکھتا ھے اور وہ یہ ھے کہ عمر کم هو جا تی ھے ،نسل منقطع هو جا تی ھے اور فقر کا باعث بھی هو تا ھے
د:جو شخص حج کرنے کےلئے جاتا ھے اس سے تین اھم چیزیں طلب کی گئی ھیں :
۱۔اس کا حج اکمال دین کے ساتھ هو نا چا ہئے اور ظاھری طور پر اس سے اھل بیت علیھم السلام کی ولایت مراد ھے ۔
۲۔ حج کے صحیح ادراک کے ساتھ حج کے مفاھیم و مقاصد کو سمجھ کراعمال حج انجام دے ۔
۳۔حج میں محکم توبہ کرے کہ ھر گز خانہ ٴ خدا سے واپس آنے کے بعد دوبارہ گناہ نھیںکرےگا ۔

۴ بیعت غدیر کا دقیق جا ئزہ
”بیعت غدیر “کو خطبہ کے متن میں بیان کیا گیا ھے حقیقت میں یہ اس کے محتویٰ کا پابندهونا ھے۔[10]
”بیعت “یعنی کسی کے مقام و منصب کو قبول کرنا اس کا اقرار کرنا اور اس کے اقرار کرنے کے سلسلہ میں پیش آنے والی تمام ضروریات کو پورا کرنے کےلئے اپنا ھاتھ بڑھانا ۔لہٰذا بیعت میں اس کا اصلی موضوع اورکئے گئے وعدے مشخص و معین هو نے چا ہئیں ۔اسی طرح اس کی قدرو قیمت ،اس کی پشت پنا ھی ، ضامن و شاھد ،اس کی کیفیت اور شکل معین و مشخص هو نی چا ہئے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ٴ غدیر میں ان تمام پھلوؤں پر روشنی ڈالی ھے جس کو ھم ذیل میں بیان کر رھے ھیں :

بیعت غدیر کا اصلی مو ضوع غدیر کی بیعت کا اصلی موضوع امیر المو منین علیہ السلام اورائمہ جوان کی اولادمیں سے ھیں آخر ی حضرت مھدی علیہ السلام تک ان کی امامت کو قبول کرنا اور اس کا اقرار کرنا اور ان کی امامت قیامت تک ھے اور ان کے ان تمام مناصب کو قبول کرنا جو خطبہ کے متن میں بیان هو ئے ھیں ۔
لہٰذا خطبہ کا اصلی مو ضوع فقط علی بن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور خلافت نھیں ھے بلکہ تمام ائمہ علیھم السلام کی امامت ھے اور ان کی امامت قیامت تک باقی رھے گی اور ان سے پھلے اور ان کے بعد کو ئی اما م نھیں ھے اور ان کے علاوہ کسی اور کو اس طرح کا دعویٰ کرنے کا کو ئی حق نھیں ھے جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی گو یا انھوں نے تمام ائمہ علیھم السلام کی بیعت کی ھے ۔

بیعت غدیر کا مطلب غدیر میں لوگوں نے مو ضوع ولایت کے سلسلہ میں کئے گئے جن وعدوں کو وفا کرنے کےلئے بیعت کی ھے وہ مندرجہ ذیل ھیں :
۱۔ھم نے سنا ھے کہ:پس کو ئی شخص یہ نھیں کھے گا کہ” میں نے نھیں سنا اور میں متوجہ نھیں هو ا “۔
۲۔ھم مقام عمل میں اطاعت کرتے ھیں اور سر تسلیم خم کرتے ھیں ۔
۳۔ھمارا قلب و ضمیر اس مطلب سے راضی ھے ۔
۴۔ھماری مو ت و حیات اور حشرونشر اسی عقیدہ پر هو گا ۔
۵۔ھم ان مطالب میں کو ئی تغیر و تبدل نھیں کریں گے ۔
۶۔ھم ان مطالب کے متعلق اپنے دل میں کو ئی شک و شبہ نھیںآنے دیں گے ۔
۷۔ھم ان مطالب کا مستقبل میں انکار نھیں کریں گے ،اپنی بات سے نھیں پھریں گے ،اپنے عھدوپیمان کو نھیں توڑیں گے اور اپنے وعدہ کو وفا کریں گے ۔
۸۔ھم آپ کا یہ فرمان اپنے قریب و دورکے رشتہ داروں اوردوستوںتک پہنچا ئیں گے۔

بیعت غدیر کی قدر و قیمت اور پشت پناھی جس طرح تمام احکام و مسائل جو دین سے متعلق ھیں ان کی اس وقت کو ئی قدر و قیمت هو گی جب وہ خداوند عالم سے متصل هوں اور ان کا فرمان خدوند عالم کی طرف سے صادر هواهو ،بیعت غدیر جو حقیقت میں تمام احکام الٰھی کا تسلیم کرنا ھے اس کو بھی الٰھی پشت پناھی کی ضرورت ھے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ زور دیا ھے کہ اس بیعت کانہ صرف خداوند عالم کی طرف سے حکم دیا گیا ھے بلکہ یہ خود خداوند عالم سے بیعت کرنے کے مترادف ھے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل جملے فرما ئے :
۱۔یہ بیعت خداوند عالم کی جا نب سے اور اس کے حکم سے ھے ۔
۲۔جو اس بیعت کو انجام دیںگے حقیقت میں خداوند عالم سے بیعت کریں گے۔
۳۔میں نے خداوند عالم سے بیعت کی ھے اور علی (ع) نے مجھ سے بیعت کی ھے ۔
۴۔خداوند عالم سے بیعت کرو اور مجھ سے ،علی (ع) ،حسن ،حسین اور ائمہ علیھم السلام سے بیعت کرو ۔
۵۔جو بیعت کرنے میں ایک دو سرے پر سبقت کریں گے وہ کا میاب ھیں اور ان کا ٹھکانا نعمتوں کے باغات هوں گے ۔
۶۔جو شخص یہ بیعت توڑے گا وہ خود اپنا ھی نقصان کرے گا اور جو شخص خداوند عالم سے کئے هو ئے عھد کو وفا کرے گا خدا وند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔

بیعت غدیر کے ضامن اور شاھد ھر عھد و پیمان کے لئے گواہ اور ضامن کی ضرورت هوتی ھے تا کہ انکار کی صورت میں اس کی طرف رجوع کیا جا سکے ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بیعت کے گواہ خداوند عالم ،بذات خود ، ملا ئکہ ،اور خداوند عالم کے صالح بندوں کو قرار دیا اور فرمایا :
”کهو :ھم خداوند عالم کو اس مطلب پر گواہ قرار دیتے ھیں ،اور آپ بھی ھم پر گواہ ھیں اور ھروہ شخص جو خدا وند عالم کی اطاعت کرتا ھے خداوند عالم کے فرشتے ،اس کا لشکر ،اور اس کے بندوں کو شا ھد قرار دیتے ھیں اور خداوند عالم ھر شاھد و گواہ سے بلند و بالا تر ھے “۔

بیعت غدیر کی کیفیت ظاھر ھے بیعت کاعمومی طریقہ وھی ھاتھ میں ھاتھ دینا ھے ،لیکن اس ھاتھ دینے کا مطلب حقیقت میں عھد کرنا اور دل و زبان سے وفا داری مصمم هوتی ھے ۔
غدیر میں کئی پھلو تھے جن کی وجہ سے ھاتھ سے بیعت کرنے سے پھلے ،زبانی طور پر بیعت کا اقرار لیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متن گفتار بھی معین فر مایا وہ پھلومندرجہ ذیل ھیں :
۱۔ھاتھ سے بیعت کرنے کو تشریح کی ضرورت ھے ،اور یہ پھلے معلوم هونا چا ہئے کہ کس چیز کے لئے بیعت کی جا رھی ھے ۔یہ زبانی اقرار حقیقت میں ھاتھ سے بیعت کرنے کی تشریح تھی جو خطبہ کے بعد انجا م دی گئی ھے ۔
۲۔اس بات کا امکان تھا کہ کچھ لوگ خطبہ کے بعد ھاتھ سے بیعت کرنے کے لئے تیار نہ هوں اور خود کو اس مطلب سے دور کر لیں اور بعد میں یہ کھیں :”ھم نے بیعت ھی نھیں کی ھے “لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھلے زبانی طور پر اقرار لیااور فرمایا :”جو شخص ھاتھ سے بیعت کر سکا اس نے ھاتھ سے بیعت کر لی ھے اور جو ھاتھ سے بیعت نھیں کر سکا اس نے زبان سے اقرار کر لیا ھے “
۳۔اگر زبا ن سے بیعت کر نے کی عبارت اور متن معین نہ هو تا تو ممکن تھا ھر انسان اپنے ذوق و سلیقہ کے مطابق عبارتیں استعمال کرتا جو قانو نی اعتبار سے غلط اور مشتبہ هو تی ۔اور ھرج و مرج کے علاوہ حقیقت میں ھر انسان اس مطلب کا اقرا ر کرتا جو دوسروں سے کم اور زیادہ هوتا ۔
۴۔اگر متن معین و مشخص نہ هو تا تو یہ امکان تھا کہ کچھ فتنہ و فساد پھیلانے والے گروہ شبہہ ڈالنے والی خاص عبارتیں آمادہ و تیار کرلیتے اور ان کے ذریعہ اس بیعت کی قدرو قیمت کو کم کرنے کے اسباب فراھم کرتے ۔
۵۔مجمع کی کثرت ،وقت کی کمی اور لوگوں کے توقف کے نا مساعد حالات فراھم نہ هو نے کی وجہ سے یہ قوی احتمال تھا کہ کچھ افراد کو ھاتھ سے بیعت کرنے کا مو قع نہ مل سکے لہٰذا یہ زبان سے بیعت ضرور هو نا چا ہئے تھی ۔
اس مطلب کی وضاحت کرنے کے بعد ھم یہ با ت بیان کرنا چا ہتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھاتھ اور زبان سے بیعت کو کس طرح انجام دیا:

الف :ھاتھ کے ذریعہ بیعت ۱۔خطبہ کے دوران بیان فر ما یا کہ میں خطبہ کے بعد تم کو ھاتھ سے بیعت کرنے کے عنوان سے بلاؤں گا ۔
۲۔آ پ نے حکم فرما یا کہ پھلے لوگ خود آنحضرت (ص) کے ائمہ علیھم السلام کے سلسلہ میں بیان کردہ کلام کا اقرارکرنے کےلئے آنحضرت (ص) کی بیعت کریں اور اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی بیعت کریں ۔
۳۔ھاتھ سے بیعت کو دل و جان سے بیعت کی حکایت بتلایا ۔
ب:زبان سے بیعت کے سلسلہ میں پانچ باتیں بیان فر ما ئیں :
۱۔تمام مل کر اپنی زبان سے یہ کلمات دُھرائیں :”۔۔۔“انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفصیلی طور پر وھی متن معین فرمایا ۔[11]
۲۔ایھا الناس جو کچھ میں نے تم سے کھا اس کو اپنی زبان سے دُھراؤ۔
۳۔ایھا الناس تم کیا کہتے هو ؟خداوند عالم آوازوں کو سنتا ھے اور تمھا رے نفسوں میں مخفی چیزوں سے بھی با خبر ھے ۔(یہ اس با ت کی طرف اشارہ تھا کہ اگر چہ آوازیں ایک دو سرے سے مخلوط هو جا ئیں گی اور باطن کی بھی کسی کو خبر نھیں ھے لیکن خداوند عالم نا ظر اور شا ھد ھے )۔
۴۔ایسی بات کهو جس سے خدا راضی هو ۔
۵۔کهو :”ھم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ھیں جس نے ھم کو اس مطلب کی ھدایت دی اور اگر خداوند عالم ھما ری ھدایت نہ کرتا تو ھم ھدایت نھیں پا سکتے تھے “۔

بیعت غدیر کا نتیجہ اگرچہ نص ”روایت “کے باوجود بیعت غدیر کی کو ئی ضرورت نھیں تھی اور لوگوں کے لئے اسلام کے دیگر منصوص موارد کی طرح خلافت کو بھی تسلیم کرناضروری تھا ،لیکن یہ عام بیعت ایک قانو نی اور معا شرتی حق کے عنوان سے تھی جو سقیفہ کے مقابل قرار پا ئی ۔یعنی جب وہ یہ کہتے تھے : ھم سقیفہ میں لوگوں کی بیعت کے ذریعہ ابوبکر کی خلافت قائم کرچکے ھیں تواس کے مقابلہ میں ان سے کھا جاتا تھا :اس سے پھلے غدیر کی بیعت جم غفیر اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجود گی میں نص الٰھی کے ذریعہ انجا م پا چکی ھے۔
مزید یہ کہ اھل سقیفہ نے اپنے کام کے مختلف مراحل میں مختلف بیعتوں کا سھارا لیا ھے ۔ابو بکر کی بیعت فلتة تھی (یعنی اچا نک هو گئی تھی )جوصرف چند افرادکے ذریعہ اور بغیر مشورہ کے انجام پائی اور اس میں افضلیت کا کوئی پھلو نھیں تھا۔عمر کی بیعت ابوبکر کی سفارش اور اس کے مشخص کرنے کے ذریعہ هو ئی اور عثمان کی بیعت عمر کی تعیین کردہ اور شوریٰ کے ذریعہ هو ئی تھی ۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام کی بیعت انتخاب افضل تھا اور یہ افضلیت رسول اللہ کی نص کے ذریعہ تھی اس کے علا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نص انتصابی بھی تھی جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چا ہتے تھے اس کے اقرار اور اس کوقبول کرنے کے عنوان سے هو ئی تاکہ اگر کو ئی کسی دو سرے کی بیعت کرلے تو معلوم هو جا ئے کہ اس نے پھلے غدیر کی بیعت قبول کر لی تھی ۔
--------------------------------------------------------------------------------

[1] اس سلسلہ میں ضروری وضاحت پھلے حصہ کے دوسرے جزء میں گذر چکی ھے ۔
[2] اس سلسلہ میں اسی کتاب کے دوسرے حصہ کے پھلے جزء میں رجوع کیا جا ئے ۔
[3] اس سلسلہ میں دوسرے حصہ کے دوسرے باب میں رجوع کیجئے ۔
منصب پیغمبر اسلام (ص) کےلئے ان کی عام نبوت کی بنیاد اوراختتام نبوت ھے اور یہ ان لوگوں سے خطاب ھے جو اب تک آنحضرت (ص)کے اس منصب کو قبول کرتے ھیں ۔
[4] بحا رالانوار جلد ۵۰ صفحہ ۳۲۱۔
[5] بحا ر الانوار جلد ۲۳صفحہ ۹۹ حدیث ۳۔
[6] کتاب سلیم صفحہ۸۴۳ح۴۲۔
[7] بحار الا نوار جلد ۶۷ صفحہ ۵۲ ،جلد ۶۸ صفحہ ۶۳ جلد ۶۹ صفحہ ۲۴۱۔
[8] بحار الانوار جلد ۸ ،پراناچاپ صفحہ ۳۴۵۔
[9] صحیفہ ٴ ملعونہ کی داستان تیسرے حصہ کی دو سری قسم میں بیان هو چکی ھے۔
[10] دو سرے حصہ کی تیسری قسم میں بیعت غدیر کے رسم و رسومات کا تذکر ہ هو چکا ھے ۔
[11] اس کتاب کے چھٹے حصہ کی گیا رهویں قسم میں ملا حظہ کیجئے ۔

Signature Down with America Down with Israel punjtni14 View Public Profile Visit punjtni14's homepage! Find More Posts by punjtni14 12-11-08, 10:15 AM post no : 29 punjtni14 Urdu Shia Lover Re: اسرار غدیر -محمد باقر انصاری-مکمل کتاب Online Read Book --------------------------------------------------------------------------------