شرح دعاء کمیل
 
”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَ۔“۔
”ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ھوتے ھیں“۔

جن گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھیں
جس گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھے وہ تین گناہ ھیں:
۱۔ دل سوز اور پریشان حال کی فریاد پر بے توجھی کرنا۔
۲۔ مظلوم کی مدد نہ کرنا۔
۳۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کو ترک کرنا۔

دل سوز اور صاحب حزن و ملال کی فریاد پر بے توجھی کرنا
جس انسان کا مالی نقصان ھوجاتا ھے، یا اس کا کوئی عزیز مرجاتا ھے، یا کسی دوسری مصیبت اور رنج و غم میں گرفتار ھوجاتا ھے،اور اگر وہ اپنے دینی برادران سے اپنی مشکلات کو دور کرنے میں مدد و فریاد کرتا ھے، تو انسانی شرافت اور محبت کا تقاضا یہ ھے کہ اس کی مددکے لئے قدم بڑھائے، اور حتی الامکان اس کے رنج و غم کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
جو لوگ درد مندوں کے درد اور دل سوز لوگوں کی آہ و فریاد سن کر ان کی مدد کے لئے قدم نھیں اٹھاتے تو ایسا شخص نہ یہ کہ مسلمان نھیں ھے بلکہ آدمیت و انسانیت کے دائرہ سے(بھی) خارج ھے۔

تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید کہ نامت نھند آدمی

(اگر تجھے کسی دوسرے کے رنج و غم میں کا کوئی درد نھیں ھے تو پھر تجھے آدمی کھلانے کا بھی حق نھیں ھے)
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:
”مَنْ اٴَصْبَحَ لَایَہْتَمُّ بِاٴُمُورِ المُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ“[1]
”جو شخص صبح اٹھے لیکن مسلمانوں کے مسائل و حالات پر اھمیت نہ دے وہ مسلمان نھیں ھے“۔
ایک دوسرے کی امداد کرنا اور مسلمانوں کے مسائل پر توجہ کرنا خصوصاً فریادیوں کی فریاد رسی کرنا، خدا و رسولاور ائمہ علیھم السلام کا حکم ھے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے: جو کسی مرد مومن کے رنج وغم کو دور کرے، خداوندعالم اس کی آخرت کے رنج وغم کو دور کرے گا، اور مطمئن طور پر قبر سے نکلے گا۔ اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی بھوک مٹائے،تو خداوندعالم اس کو بھشتی پھلوں سے نوازے گا، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کو ایک گلاس پانی پلائے تو خداوندعالم اس کو رحیق مختوم سے سیراب فرمائے گا۔[2]
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: جو شخص کسی غم زدہ اور پیاسے مومن اور پریشانی کے وقت مدد کرے اور اس کاحزن و الم دور کرے اور اس کی حاجت روائی میں اس کی مدد کرے تو خداوند عالم اپنی طرف سے ۷۲ رحمتیں لکھ دیتا ھے جن میں سے ایک رحمت کے ذریعہ اس کی دنیا کے مسائل بہتر ھوجائیں گے اور ان میں کی ۷۱ رحمتیں قیامت کے ھولناک ماحول اور خوف و وحشت سے بچانے کے لئے محفوظ رھیں گی۔[3]

مظلوم کی مدد نہ کرنا
اسلامی نقطہ نظر سے مظلوم کی مدد کرنا اس قدر اھمیت رکھتا ھے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنی آخری عمرمیں (شب ۲۱ رمضان المبارک) میں حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیھما السلام کو وصیت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”کُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَلِلْمُظْلُومِ عَوْناً“[4]
”ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گاررھو“۔
جی ھاں! ظلم و ظالم اور مظلوم کے سلسلہ میں یہ اسلامی بہترین عملی شعار ھے ۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:
مَنْ اٴَخَذَ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَالِمِ کاَنَ مَعی فِی الجَنَّةِ مُصاحِباً“[5]
”جو شخص ظالم سے کسی مظلوم کا حق دلائے وہ جنت الفردوس میں میرا ھم نشین ھوگا“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”اگرکسی پر ظلم ھوتے دیکھو تو ظالم کے خلاف اس کی مدد کرو“۔[6]
نیز آپ ھی کا فرمان ھے:
” اٴَحْسَنَ العَدْلِ نُصْرَةُ المَظْلُومِ“[7]
”بہترین عدل مظلوم کی مدد کرنا ھے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”کسی مومن کا ؛مظلوم کی مدد کرنا ایک ماہ کے روزے اور مسجد الحرام میں اعتکاف سے بہتر ھے، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی مدد کرنے کی قدرت رکھتا ھو اس کی مدد کرے تو خداوندعالم اس کی دنیا و آخرت میں مدد کرے گا، لیکن اگر کوئی شخص برادر مومن کی مدد کرسکتا ھو اور وہ مدد نہ کرے تو خداوندعالم بھی دنیا و آخرت میں اس کی مدد نھیں کرے گا“۔[8]
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے کہ خداوند عز وجل فرماتا ھے:
”اپنی عزت و جلالت کی قسم! میں دنیا و آخرت میں ظالم و ستمگر سے انتقام لوں گا، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مظلوم کو دیکھے اور اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ھو اور اس کی مدد نہ کرے تو اس سے بھی انتقام لوں گا۔[9]

امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا ترک کرنا
امر بالمعروف و نھی عن المنکرالٰھی فرائض میں سے دو اھم فریضے ھیں،اور دینی واجبات میں سے دو واجب ھیں جن کو انجام دینے کے اگر شرائط پائے جاتے ھیں تو واجب ھے یعنی امر بالمعروف کرنے والا معروف ونیکی کو جانتا ھو اور خود بھی اس پر عمل کرتا ھو اور برائیوں سے دور ھو،اور ان دونوں فریضوں کو ترک کرنا گناہ عظیم اور سبب نزول بلاء ھیں۔
امر بالمعروف و نھی عن المنکر دین کا اھم ترین محور اور اس کی واضح حقیقت ھے جس کو برپا کرنے کے لئے انبیاء علیھم السلام مبعوث برسالت ھوتے تھے۔
اگر یہ دونوں فرائض (امر بالمعروف و نھی عن المنکر ) ختم ھوجائیں اور ان دونوں کے سلسلہ میں علم و عمل نہ ھو، تو پھرتحریک نبوت کا خاتمہ ھوجائے گا،اور دین تباہ و برباد ھوجائے گا، سب لوگ گمراہ ھوجائیں گے، اور ھر طرف جھل و نادانی پھیل جائے گی، لوگوں کے مسائل میں برائیاں جڑ پکڑ لیں گی، آبادی میں تباھی پھیل جائے گی اور انسانیت؛ ھلاکت کے گڑھے میں گرجائے گی۔
اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ھے:
۱۔” وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اٴُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ“[10]
”اور تم میں سے ایک گرو ہ کو ایسا ھونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے ،نیکیوں کا حکم دے ،بُرائیوں سے منع کرے اور یھی لوگ نجات یافتہ ھیں “۔
۲۔” وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ۔۔۔“[11]
”مومن مرد اور مومن عورتیں سب آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ھیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ھیں اور بُرائیوں سے روکتے ھیں “۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:
”لَتَاٴمُرُنَّ بِالمَعروفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ المُنْکَرِ اٴَو لَیُسَلِّطَنَّ اللهُ عَلَیْکُم شِرارَکُم ثُمَّ یَدعُو خِیارُکم فلا یُستَجَابُ لَہُم“[12]
”اے لوگو! (یا)تم امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو، ورنہ دشمن تمھارے اوپر مسلط ھوجائیں گے، اور تم سے اچھے لوگ (بھی) دعا کریں گے لیکن دعا مستجاب نھیں ھوگی“۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے: تم لوگ آنے جانے والوں کے راستہ پر نہ بیٹھا کرو، لوگوں نے کھا: ھم وھاں بیٹھ کر باتیں کرنے کے لئے مجبور ھیں۔ تو آپ نے فرمایا: اگر تم لوگ مجبور ھو تو راستہ کے حق کا لحاظ رکھو۔ لوگوں نے سوال کیا: (یا رسول اللہ) راستہ کا کیا حق ھے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: نامحرم کو نہ دیکھو، لوگوں کو اذیت نہ دو، سلام کرنے والوں کو جواب دو، امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو۔[13]
اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں: امر بالمعروف ، نھی عن المنکر اور ذکر خدا کے علاوہ انسان کی تمام باتیں اس کے نقصان میں ھیں۔[14]
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: خداوندعالم نے (حضرت) شعیب پر وحی فرمائی: تمھاری قوم کے ایک لاکھ افراد پر جن میں سے چالیس ہزار برے لوگوں پر اور ساٹھ ہزار اچھے لوگوں پرعذاب کروں گا، (جناب شعیب(ع) نے) کھا: پالنے والے! برے لوگوں پر عذاب کرنا تو صحیح ھے، لیکن اچھے لوگوں پر کیوں؟ تو خداوندعالم نے فرمایا: (کیونکہ) نیک لوگوں نے برے لوگوں کے لئے بھلائی نھیں چاھی، ان کو برائیوں سے نھیں روکا، ان پر اعتراض نھیں کیا اور میرے خشم و غضب کی وجہ سے ان پر غضبناک نھیں ھوئے۔[15]
قبیلہ ”خثعم“ کا ایک شخص پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں پھنچا اور کھا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اسلام کی بہترین چیز سے باخبر فرمائیں؟
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: صلہ رحم۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: امر بالمعروف و نھی عن المنکر۔
اس نے سوال کیا: کونسا عمل خدا کے نزدیک سب سے بُرا ھے؟
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:خدا کا شریک قرار دینا۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
فرمایا: قطع تعلق کرنا۔
اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: برائیوں کا حکم دینا اور نیکیوں سے روکنا۔[16]

”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِي کُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ،وَکُلَّ خَطٓیئَةٍ اٴَخْطٰاٴْتُھٰا“۔
”خدایا میرے تمام گناھوں اور میری تمام خطاوٴں کو بخش دے “۔
گناہ کی لذت و کشش جب تک انسان کے دل میں مستحکم جگہ نہ بنالے بلکہ کبھی کبھی انسان کو بُرے اعمال میں مبتلاء کردے تو اسی کو اھل تحقیق کی نظر میں ”ذنب“ (گناہ) کھا جاتا ھے، اور جب یہ چیزیں انسان کے دل میں اپنی جگہ مستحکم کرلیں ، اور انسان کے دل میں راسخ ھوجائے یھاں تک کہ انسان کسی بھی جگہ ھو کیسا بھی موقع ھو ، کیسے بھی حالات ھوں؛ وھاں پر گناہ کرتا ھے، اھل لغت کی اصطلاح میں اس کو ”خطیئة“ کھاجاتا ھے۔
درگاہ ربّ العزت کا بھکاری اور خدائے مھربان کے در کا سوالی اپنے ان گناھوں کی طلب بخشش کے بعد جن کے ذریعہ خدااور انسان کے درمیان موجود پردہ ختم ھوجاتا ھے، اور جن کے ذریعہ بلاء ومصیبت اور عذاب نازل ھوتے ھےں اور جن کے ذریعہ نعمتیں بدل جاتی ھےں، اور جو دعا قبول ھونے میں مانع ھوتے ھیں، اور جن کے ذریعہ انسان پر بڑی بڑی مصیبت و بلاء نازل ھوتی ھیں؛ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کرتا ھے:
پالنے والے میرے تمام گناھوں کو بخش دے جو میری زندگی میں ھوئے ھیں چاھے چھوٹے گناہ ھوں یا بڑے گناہ، چاھے میں نے ان کو جان بوجھ کر انجام دیا ھو یا بھولے سے ھوگئے ھوں، چاھے بچپن کے گناہ ھوں یا نوجوانی کے، چاھے بلوغ کے شروعات کے ھوں یا بھر پور جوانی کے عالم میں، اور چاھے میں نے ان کو مخفی طور پر انجام دیا ھو یا علی الاعلان انجام دیا ھو،کیونکہ تیرے علاوہ کوئی ایسا نھیں ھے کہ تمام گناھوں کو بخش دے۔ تونے ھی اپنے لطف و مھربانی اور عظمت و بزرگی کا اعلان کیا ھے:
”لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔“[17]
”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ھونا بیشک اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

”اٴَللّٰھُمَّ اِٴنّي اٴَتَقَرَّبُ اِٴلَیْکَ بِذِکْرِکَ“
”خدایامیں تیری یاد کے ذریعہ تجھ سے قریب ھو رھاھوں “۔

فانی دنیاکے کھنڈر
حد سے زیادہ مادی امور سے لگاؤ اورایسی محبت جو خدا اور بندے کے درمیان حجاب کی طرح حائل ھوجائے، حد سے زیادہ شھوات، لذت کی دنیا میں غرق ھوجانا،مال دنیا حاصل کرنے کے لئے دن رات ، ہفتوں اور مھینوں کا صرف کردینا، جاھلوں اور غافلوں کے ساتھ نشست و برخاست کرنا، خیر و خیرات سے دور رھنا، لباس و پوشاک میں اسراف (فضول خرچی) کرنا، مختلف سامان میں پیسے کو بے جا خرچ کرنا، عوام الناس اور رشتہ داروں سے بے خبر ھوجانا، واجبات کی ادائیگی میں سستی اور کاھلی کرنا، محرمات وگناھوںمیں آلودہ ھونا اور معرفت و حقیقت سے خالی ھونا؛یہ تمام کی تمام چیزیں اس فانی دنیا میںزندگی بسر کرنے کی نشانی ھیں۔
اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛جن میںسانپ، بچھو، مکاری، دھوکہ بازی، حیوان صفتی، شیطنت و مستی، غارت ولوٹ مار، جھوٹ و ریاکاری و خود پسندی، غیبت و تھمت، سود و غصب، شھوت و خیانت، آلودگی و دنائت (پستی) زنا و چوری، قتل و شرارت، کبر و نخوت، حرص و طمع، بخل و حسد، کینہ و دشمنی، خشم وغضب اور گناہ و معصیت کے علاوہ اس میں کچھ نھیں ملتا!!
اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس میں انسانیت کا (عظیم)خزانہ شیطان صفت لوگوں کے ھاتھوں میں ھے جس سے انسان کی عمر تباہ و برباد ھوجاتی ھے اور انسان کا معنوی سرمایہ نابود ھوتا ھے، جھاں انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ھے، اور انسان کو ھمیشہ کے لئے خسارہ اٹھانا پڑتا ھے،اور جس سے ناشکری، شرک و نفاق اور کفر کا سایہ دل پرچھاجاتا ھے۔
اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس میں خرید و فروخت کا بازار شیطان صفت لوگوں کے ھاتھوں میں ھوتا ھے اور جس میں اکثر لوگ انسان کی صورت میں حیوان ھوتے ھیں؛ جس کا ظاھر کافر کی قبر کی طرح زر و زیور سے مزین ھوتا ھے لیکن باطن میں دوزخ کے درد ناک عذاب سے بھرا ھوتا ھے۔
فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس کے رھنے والے ظاھری طور پر انسان ھوتے ھیں لیکن کردار و عمل کے لحاظ سے حیوان، سبھی چون چرا میں مشغول، لیکن عبادت و بندگی کی لذت سے بے خبر، جن کی تصدیق تصور سے مبرّا، اور جن کی تحقیق حقیقت سے جدا، بیھودہ باتیں اور بکواس کرنے والے زیادہ، سبھی اندھے او رگونگے، وھم و گمان کرنے والے لیکن ایمان و یقین سے دورھوتے ھیں۔
یہ کھنڈر ؛ جس کے رھنے والے گناھوں میں مدھوش، فسق و فجور سے ھم آغوش، گناھوں کا پردہ چاک کئے ھوئے، شھوت کا پرچم اٹھائے ھوئے، سبھی ھوا و ھوس کے بستر پر سوئے ھوئے، عیاش مرد بدکار عورتوں کو لئے ھوئے، جس میںمکّار لڑکیاں غدّار لڑکوں کے ساتھ، جس کے جوان ناشناختہ اور بے کار، جس کے بوڑھے فاسق و بدکردار، جو طور و طریقہ کے لحاظ سے چوھے ھیں اور کردار کے لحاظ سے خرگوش، ایک سانپ کی شکل میں تو دوسرا بچھو کی شکل میں، یہ دانتوں سے کاٹتا ھے ، تو وہ دُم کی طرف سے، اس کھنڈر کا نام جنگل ھے جس کا بادشاہ جھل ھے تو اس کا سپاھی برائی، اس کا مادہ حرام ھے اور اس کا کام انسان کو نابود کرنا ھے!!

مُلک وصال اس فانی دنیا کے کھنڈروں سے کوچ کرنا عقل وشرع کے لحاظ سے واجب ھے، بے ثمر چیزوں کی محبت کا سنگین وزن دل سے نکال پھنیک دیا جائے اور مُلک وصال کے سفر کے لئے اپنے بال وپر کھول دئے جائیں، اور پوری طاقت سے اڑان بھری جائے اور ”ذکر و اذکار“ کی قدرت سے مدد لیتے ھوئے اس مُلک کے سفر کے لئے تیار ھوجائیں وہ مُلک جو معرفت و فضیلت، صدق و صفا، امانت و صداقت، حق و حقیقت، وفا و صفا، شور و وجد، بندگی و عبادت، شرافت و کرامت، محبت و صمیمیت، زھد و قناعت، صبر و توکل، بصیرت و استقامت، تقویٰ و پرھیزگاری، ورع و پارسائی، واقعیت و عزت اور احسان و عدالت کا مُلک ھے۔ (اس مُلک میں پھنچ کر) مقام قرب خدا کی چاشنی کا مزہ لیں، اور وصال محبوب کی خوشبو سونگھےں، اور معشوق کے اخلاق سے مزین ھوں، اور انبیاء و صدقین اور شھداء وصالحین جیسے دوستوں کی ھم نشینی حاصل کریں۔
قرآن مجید اس روحانی اور عاشقانہ سفرکے بارے میں جس میں تمام برائیوں اور پلیدیوں سے ؛ تمام اچھائیوں اور نیکیوں کی طرف کوچ کیا جاتا ھے ؛ فرماتا ھے:
” وَمَنْ یُہَاجِرْ فِی سَبِیلِ اللهِ یَجِدْ فِی الْاٴَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِیرًا وَسَعَةً وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللهِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اٴَجْرُہُ عَلَی اللهِ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا“[18]

ذکر محققین فرماتے ھیں: لفظ ”بذکرک“ میں حرف ”با“سببت کے معنی میں ھے۔ لہٰذا اس نورانی جملہ کے معنی یہ ھوں گے: خدا یا! میں تیرے ذکر کے سبب تجھ سے تقرب حاصل کرنا چاہتا ھوں۔

معنی ذکر لفظ ”ذکر“ کے لئے تین معنی بیان کئے گئے ھیں:
۱۔ خداوندعالم پر توجہ اور دل میں اس کی یاد۔
۲۔ قرآن۔
۳۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام۔
خداوندعالم پر توجہ اور دل میں اس کی یاد
توجہ اور یاد، ذکر و تذکر ؛ یہ سب غفلت کی ضد ھیں، خدا سے غافل رھنے والے کو کچھ پروا نھیں ھوتی کہ اس کی عمربر باد ھو، وہ گناھوں میں غرق ھوجائے، حقوق الناس کو پامال کرڈالے، عبادت و بندگی سے محروم ھوجائے، حرام خوری کرنے لگے اور بد بختی و شقاوت اس پر مسلط ھوجائے۔
لیکن جس شخص کے دل میں خدا کی یاد اور اس کا سینہ ذکر محبوب کا گھر ھو، اور اسی کے لئے اس کا دل دھڑکے، ایسا شخص اس حقیقت کو جانتا ھے کہ خداوندعالم نے اپنے بندوں کی ھدایت کے لئے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا، آسمانی کتابیں نازل کیں، اور نیکیوں کے لئے بہترین جزا مثل جنت قرار دی اور برائیوں کے لئے دوزخ جیسی سزا معین کی، ایسا شخص شب و رزعبادت و بندگی، انسانوں کی خدمت، محرمات سے دوری، حقوق الناس کی رعایت، تقویٰ و عفت کا لحاظ، علم و معرفت کی تحصیل، جائز کاموں کے ذریعہ کسب حلال، پریشان حال لوگوں کی دست گیری، ضرورت مندوں کی حاجت برآری او رغریب و فقراء کی امداد کرتا ھے، اور ان تمام کاموں میں صرف خوشنودی خدا کو مد نظر رکھتا ھے۔
خدا کا ذکر کرنا اس پر توجہ کرنا یہ باطن اور دل کا کام ھے، جس کی وجہ سے نیکیوں سے آراستہ ھونے کی قدرت عطا ھوتی ھے اور کچھ ھی مدت میں خداوندعالم کی بارگاہ کا محبوب بندہ ھوجاتا ھے، اور اس کی بارگاہ میں حاضری کے لئے بے چین رہتا ھے، اور اس سے مناجات ، عبادت اور بندگان خدا کی خدمت کی لذت محسوس کرتا ھے۔
جناب یونس(ع) کی قوم بہت زیادہ غفلت کی شکار ھوگئی تھی، ایک عالم و عارف کی تبلیغ سے خدا کی یاد آنے لگی، اور خدا کی یاد سے غفلت کا پردہ اس کی آنکھوں سے اٹھ گیا، اور یہ قوم جنگل و بیابان میں نکل گئی اور وھاں پر جاکر سجدہ ریز ھوگئی، آنسوؤں سے اپنے باطن کو صاف کیا اور حقیقی توبہ کے ذریعہ اپنے وجود کو پاک کیا ، اور اپنے اس کام سے آنے والے درد ناک عذاب (صاعقہ) کو اپنی بستی سے دور کردیا، اور پھر بارگاہ الٰھی میں حقیقی بندے بن گئے اور باقی عمر کو عبادت و بندگی میں صرف کیا اور آخر کار خوشنودی خدا اور رحمت الٰھی کے زیر سایہ ان کو موت آئی ، او رآخرت میں قدم رکھا یھاں تک کہ ھمیشہ کے لئے بھشت رضوان میں اپنی جگہ بنالی۔
بہت سے ایسے فاسق و گناھگار لوگ تھے جن کی عاقبت بخیر ھوگئی اپنے گناھوں سے ھاتھ کھینچ لیا اور ضلالت و گمراھی کے کھنڈر سے نور وھدایت کے باغ وبوستاں میں داخل ھوگئے ، اور اپنی شیطنت و مکاری سے ھاتھ روک کر سلامت و امنیت کے دائرہ میں آگئے، اور خدا کی عبادت و بندگی کے ذریعہ اپنے گزشتہ تمام گناھوں کا جبران کردیا۔ ایسے لوگ یاد خدا اور قلبی توجہ کی برکت سے اس بلندمقام پر پھنچے ھیں، اور اپنی توبہ کے ذریعہ آئندہ کے لئے نمونہ عمل بن گئے ھیں، اور خدا کی حجت کو تمام لوگوں پر تمام کردیا ھے۔
تاریخ کے اوراق پر ایسے حضرات کا ذکر ھمارے لئے نمونہ ھے اور ھماری زندگی کے لئے روشنی بخش ھے جیسے آسیہ، اصحاب کہف، بھلول نبّاش، حر بن یزید، فضیل عیاض وغیرہ، جن لوگوں نے اپنے گزشتہ گناھوں سے توبہ کرکے یاد خدا کو اپنا شعار بنالیا اور اپنی تاریک زندگی کو منور کرلیا، اور شیطان کے چنگل سے نکل کر رحمت الٰھی کے زیر سایہ آگئے، اور لمحات میںاپنے کو پستی سے نکال کرکرامت و سعادت کی بلندی پر پھنچادیا اور خدا کی رحمت و وصال تک پھنچ گئے۔

قرآن
خداوند مھربان نے متعدد آیات میں قرآن مجید کو ”ذکر“ سے یاد کیا ھے منجملہ:
” إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ“[19]
”ھم نے ھی اس قرآن کونازل کیا ھے اور ھم ھی اس کی حفاظت کرنے والے ھیں “۔
قرآن مجید میں ایسے معارف و احکام بیان ھوئے ھیں جن کے بروئے کار لانے سے انسان کو دنیا و آخرت کی سعادت حاصل ھوجاتی ھے۔
قرآن کریم ، ھماری زندگی کی کتاب ھے، اور انسان کی ھدایت کے لئے تمام مراحل میں پیش آنے والی ضرورتوں کے تمام حل اس میں موجود ھیں۔
قرآن کریم ، انسان کو بہترین اور مستحکم ترین راستہ کی طرف ھدایت کرتا ھے، اور اپنی آیات پر عمل کرنے والے کے لئے اجر کریم کی بشارت دیتا ھے۔
قرآن کریم کی آیات پر غور و فکر کرنے سے جھل جیسی خطرناک بیماری کا علاج ھوجاتا ھے اور انسان کا دل معرفت کامکان بن جاتا ھے۔
قرآن مجید کی نیکیاں بیان کرنی والی آیات پر عمل کرنا اسی طرح برائیوں کو بیان کرنے والی آیات پر عمل کرنے سے انسان کو نجات کی امید پیدا ھوتی ھے اور قرب خدا کا راستہ ھموار ھوتا ھے۔
قرآن کریم پر عمل کرنے سے انسان تمام نیکیوں سے آراستہ ھوجاتا ھے، اور برائیوں سے دوری اختیار کرتا ھے، اور دنیاوی و اُخروی خطرات سے محفوظ رکھتا ھے۔
گزشتہ کا علم اور آئندہ کی خبر ، دردوں کا علاج اور امور زندگی کا نظم قرآن مجید میں موجود ھے۔
پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے قرآن کی تبلیغ کے ذریعہ برے لوگوں کو نیک و صالح افراد بنادیا، اور جاھل عرب و حقیقت سے دور عجم کو جھنم کی آتش سے نجات دلادی، اور آخرت کی خوشبختی و سعادت اور بھشت کی سر حد تک پھنچا دیا۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:
”فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ المُظْلِمِ فَعَلَیْکُم بِالْقُرآنِ فَإِنَّہُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلُ مُصَدَّقٌ وَمَنْ جَعَلَہُ اٴَمَامَہُ قَادَہُ إِلَی الجَنَّةِ وَمَنْ جَعَلَہُ وَرَاءَ ہُ سَاقَہُ إِلَی النَّارِ“[20]
”جب فتنہ و فساد کی وجہ سے حقیقت کا پتہ نہ چل سکے، اس وقت قرآن کی طرف رجوع کرو، کیونکہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ھے جس کی شفاعت مقبول ھے، اور ایسا شکایت کرنے والا ھے کہ اس کی شکایت (بھی) مقبول ھے، جو شخص قرآن کو اپنے لئے ھادی و رھبر قرار دے وہ اس کو بھشت میں لے جائے گا، اور اگر کوئی اس سے منھ موڑے تو اس کو جھنم میں ڈھکیل دے گا“۔
حضرت مام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”لَوْ مَاتَ مَنْ بَیْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اٴَن یَکُونَ القُرآنُ مَعِی“ [21]
” مغرب و مشرق کے رھنے والے اگر تمام افرادمرجائیں اور قرآن میرے ساتھ ھو تو مجھے کسی چیز کا خوف نھیں ھوگا“۔
جی ھاں ،امام سجاد علیہ السلام کے وجود میں توحید کی آیات تحقق پیدا کرچکی تھیں جس کی بنا پر دل کی آنکھوں سے خدا کا مشاھدہ کرتے تھے، اور اپنے ازلی و ابدی محبوب سے انس رکھتے تھے، اور اخلاق کی آیات باطن کے مشرق سے طلوع کرکے روشن و منور تھیں، آپ احکام و وظائف کی آیات پر مکمل طور پر عمل کیا کرتے تھے، اور ان کو نافذ کرنےمیں مکمل طور پر اخلاص کی رعایت فرماتے تھے، اور قیامت کے بارے میں موجود آیات سے اس قدر مانوس تھے کہ اپنے کو نجات کے بلند درجہ پر دیکھتے تھے ، تنھائی کے عالم میں بھی ذرہ برابر خوف و وحشت نھیں تھا۔
چنانچہ آپ کا ارشاد ھے:
”آیاتُ القُرآنِ خَزَائِنُ فَکُلَّمَا فُتِحَتْ خَزانَةٌ یَنْبَغِی لَکَ اٴَنْ تَنْظُرَ مَا فِیہَا“[22]
”قرآن مجید کی آیات (ایک عظیم) خزانہ ھے اور جس وقت خزانہ کھلتا ھے تو پھر اس کا غور سے دیکھا جاناضروری ھے “۔
قرآن کریم کی آیات میں غور و فکر کرنے والا اور عرفانی و ملکوتی معنی و مفاھیم تک پھنچنے والا ان پر عمل کرکے اپنے ظاھر و باطن کو قرآن مجید کے سانچے میں ڈھال لیتا ھے، جس کی وجہ سے قرب خدا تک پھنچنے کے لئے قدرت و طاقت حاصل کرلیتا ھے، اور قرآن کریم ( جو ذکر خدا ھے) کے ذریعہ قرب محبوب کی بارگاہ میں قرار پاتا ھے، اور اپنے دل کی آنکھ سے ھر وقت اس کے جمال کا نظارہ کرتا رہتا ھے اور زبان حال سے کہتا ھے:

تا مرا نور در بصر باشد
بہ جمال ویم نظر باشد

نظری را کہ او کند نظری
آن نظر کیمیا اثر باشد

کافرم گر بہ جنب رخسارش
نظرم جانب دیگر باشد

( جب تک میری آنکھوں میں نور باقی رھے گا، اس کے حسن جمال کا نظارہ کرتا رھوں گا۔ اور اگر وہ مجھ پر ایک نظر کرلے تو اس کی یہ نظر کیمیاوی اثر رکھتی ھے۔ اگر میں اس سے نظر پھیر لوں تو میں کافر ھوجاؤں گا۔)

پیغمبر(ص) اور اھل بیت علیھم السلام
حضرت باقر العلوم علیہ السلام ایک بہت اھم روایت میں بہترین مطالب بیان فرماتے ھیں، مرحوم کلینی نے اس روایت کو اپنی گرانقدر کتاب ”کافی“ میں قرآن کی فضیلت میں پھلی روایت کے عنوان سے بیان کیا ھے جس میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت کے بارے میں وضاحت کی گئی ھے:
” إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللهِ اٴَکْبَرُ“[23]
”بیشک نماز ھر بُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ھے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شئے ھے“۔
”وَنَحْنُ ذِکْرُ اللهِ وَنَحْنُ اٴَکْبَرُ“[24]
بے شک ”ذکر“ سے مراد پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور بارہ امام ھیں، وہ بارہ امام جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ایمان واخلاق علم و معرفت اور بصیرت کے وارث ھیں۔
وہ بارہ امام جو مفسر قرآن، احکام بیان کرنے والے، محافظ دین اور خداوندعالم کی طرف حق کے امانتدار ھیں۔
وہ بارہ امام جو قرآن مجید کے عینی مصداق ، چراغ ھدایت، راھنمائے انسانیت اور دین و دنیا کی بھلائی دینے والے ھیں۔
ائمہ علیھم السلام حقائق کی طرف متوجہ کرنے والے، واقعیات کو واضح وروشن کرنے والے،علم و عرفان کا مخزن اور صفات الٰھی کا مظھر ھیں۔اور چونکہ ائمہ معصومین علیھم السلام قرآن ناطق ھیں لہٰذا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: ”ھم ھی ذکر اللہ ھیں اور ھم ھی اکبر ھےں“۔
بے شک ائمہ علیھم السلام کی سرپرستی اور ان کی تعلیمات کو قبول کئے بغیرنیز حقیقی جانشین رسول کی اطاعت کئے بغیر، اور ان کی ولایت کے دائرہ میں آئے بغیر ؛ ایمان ناقص، اخلاق فاسد ، اعمال نامناسب، دنیا میں بے نظمی اور آخرت میں درد ناک عذاب تیار ھے۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی آخری عمر میں یہ اعلان فرمایا: ”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اھل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گی یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پھنچ جائیں گی، لہٰذا اگر تم ان دونوں سے متمسک رھے تو کبھی بھی میرے بعد گمراہ نہ ھوں گے“۔[25]
اس حقیقت پر توجہ کرنا ضروری ھے کہ اپنے دل کو برائیوں اور آلودگی سے پاک کرا، اس کو برائیوں سے دھونا، خداوندعالم کے صفاتِ علیا اور اسماء حسنیٰ کے معنی و مفھوم کو دل میں حاضر کرنا، ان عظیم حقائق و کریم مراتب کو شیاطین جن و انس سے محفوظ کرنا، ھمیشہ اس کے حضور میں حاضر ھونا اور ھر کام میں اسی پر توجہ رکھنا، اور کسی بھی موقع پر اس کی یاد سے غافل نہ ھونانیز اپنے تمام واجبات کو بجالانا، اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ھر نیک کام اور عوام الناس کی خدمت کرنا ؛ ”ذکرخدا“ ھے۔
بعض صاحبان دل، اور آب و گِل سے آزاد شدہ حضرات اور بعض عارفین نیزذکر کی طرف دعوت دینے والی قرآن مجید کی آیات ، اسی طرح معصومین علیھم السلام سے وارد شدہ احادیث میں کلمہ ”ذکر“ کو ان ھی باطنی حقائق اور اعمال میں شمار کیا گیا ھے، اسی طرح قرآن مجید کی آیات ، کلمات نبوت اور روایات معصومین علیھم السلام کے ذریعہ اپنی زندگی کو ڈھالنا ”ذکر“ کے کامل مصداق میں سے ھے۔
جی ھاں! قرب الٰھی کو ذکر خدا ھی کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ھے،جیسا کہ گزشتہ حقائق کو ذکر کے عنوان سے بیان کیا گیا ھے، اور ذکر خد ا کے علاوہ ؛ قرب الٰھی حاصل کرنے کا کوئی راستہ نھیں ھے۔
قارئین کرام! ھمارے دل پر یاد خدا کی حکومت ھونا چاہئے، اور قرآن مجید کی آیات پر عمل کریں، اور دل وجان سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نبوت اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی امامت کو قبول کرتے ھوئے ان کی پیروی کریں، تاکہ قرب الٰھی حاصل ھوجائے، اور مقربین الٰھی کے دائرہ میں شامل ھوجائیں، اور انس خدا اور اس کے احکامات کو جاری کرکے نیز پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کی ھمراھی کی شیرینی کا احساس کریں، جس کے بعد تمام ھی سعادت و خوشبختی کو اپنی آغوش میں لے لیں۔
جس وقت ھمارا یہ دل خداوندعالم کے اسماء و صفات کے معنی و مفھوم کا مظھر قرار پائے، اور ان معنی و مفاھیم کے آثار ھماری روح اور اعضاء و جوارح میں سے ظاھر ھونے لگےں، خوشبو دینے والی محبت اور آگ لگانے والا عشق (جو خود معرفت اسماء الٰھی کا بہترین ثمرہ ھے) ھمارے دل میں اپنا گھر بنالے اور ”اٴَشَدُّ حُبّاً لِلّہِ“[26]”ایمان والوں کی تمام ترمحبت خدا سے ھوتی ھے “ھمارے تمام وجود پر سایہ کرلے اور انسان اس آیت
”رِجَالٌ لَا تُلْھِیھِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْعٌ عِنْ ذِکْرِ اللّہِ“[27]
”وہ مرد جنھیں کارو بار یا دیگر خریدو فرخت ذکر خدا ،قیام نماز اور ادائے زکوةسے غافل نھیں کر سکتی “کا مصداق بن جائے جو خود ایک بلند وبالا مقام ھے تو پھر انسان مسند خلافت وجانشینی خدا پر بیٹھا ھوا نظر آتا ھے اور پھر قرب خدا کی شیرنی کی لذت حاصل کرتا ھے۔
یہ بلند و بالا مقام ھر جال میں پھنسانے والے شیطان سے محفوظ ھے اور جب انسان اس مقام پر پھنچ جاتا ھے تو پھر کوئی بھی طاقت اس کو خدا سے دور نھیں کرسکتی، اور اس نورانی مقام پر پھنچنے کے بعد وہ خدا کے علاوہ کسی اور کو نھیں پہچانتا، اور خدا کے علاوہ کسی غیر کو نھیں دیکھتا، خدا کے علاوہ کسی کو نھیں جانتا اور خدا کے علاوہ کسی کو نھیں پاتا ھے۔
سید العارفین، امام المتقین،اسوہ عاشقین، رھبر شیعیان، مقتداء بزرگان اپنے تمام وجود سے یہ عاشقانہ ترانہ زبان پر لاتا ھے:
” مَا رَاٴیْتُ شَیْئاً اِلَّا وَرَاٴیْتُ اللهَ قَبْلَہُ وَ مَعَہُ وَ بَعْدَہُ“۔
”میں نے کچھ نھیں دیکھا مگر یہ کہ اس سے پھلے اس کے بعد اس کے ساتھ خدا کو دیکھا ھے“۔
حضرت امام حسین علیہ السلام ، دامن معرفت اور علم و بصیرت کی آغوش کے تربیت یافتہ؛ اپنی انتھائی بھوک و پیاس اور مصائب و آلام کی حالت میں ۷۱ ٹکڑے ٹکڑے لاشوں کے درمیان اور اھل حرم کے درد ناک نالہ و شیون کی آواز کو سنتے ھوئے بارگاہ رب العزت میں سجدہ کی حالت میں زبان پر ان کلمات کو جاری کرتے ھیں:
”إلٰ