بِقُوَّتِکَ الَّتي قَھَرْتَ بِھٰا کُلَّ شَيْ ءٍ“
” اور اس قوت کے واسطہ سے ھے جو ھر چیز پر حاوی ھے،“
خداوندعالم کی قدرت اور توانائی اس کی عین ذات ھے اور بے نھایت اور بے انتھا ھے، دنیا کی تمام قدرتیں اس کی قدرت کے مقابلہ میں ھیچ ھیں۔کسی بھی قدرت مند کی قدرت اس کی قدرت کے مقابلہ میں مستقل نھیں ھے، تمام قدرتیں اس کی قدرت کی شعاعوں کی ایک جھلک ھے: ”لا حول ولا قوة الا بالله“ ۔
گزشتہ صفحات میں ”کل شیءٍ“ کے بارے میں مختصر طور پر وضاحت کی گئی جس کا نتیجہ یہ ھوا : ”کل شیءٍ“ یعنی: تمام مخلوقات اور تمام وہ چیزیں جو اس کے ارادہ سے پیدا ھوئی ھیں، ان کی تعداد اور ان میں سے بہت سی چیزوں کی کیفیت اس کے علاوہ کوئی نھیں جانتا ھے، اور روز قیامت تک نھیں جان سکتا ھے۔
اربوں آسمانی موجودات، کہکشان اور نباتات، حیوانات،چرند پرند،اور خشکی ودریا کے خزندہ ، بے شمار کیڑے مکوڑے، ” وائیرس "Virus"، اورمیکروب “ "Microbe"اور غیبی موجودات نیز وہ فرشتے جن سے زمین وآسمان بھرا ھوا ھے، ان سب سے کون آگاہ ھوسکتا ھے اور ان کی تعداد کا حساب کون لگاسکتا ھے؟ خدائے مھربان اپنی بے نھایت قدرت سے ( کل شیءٍ) ھر چیز پر غلبہ رکھتا ھے اور کوئی بھی چیز اس کے احاطہٴ قدرت سے باھر نھیں ھے اور کوئی چیزباھر ھوبھی نھیں سکتی ھے۔ اجرام آسمانی (فلکی ستارے) کہکشاں اور اس کے ستارے، منظومہ اور اس کے مابین موجودات جن میں سے بعض بعض کا وزن اربوں اور کھربوں ٹن بلکہ اس سے بھی زیادہ ھے؛ بغیر ستون کے لٹکے ھوئے ھیں، اور اپنی معین شدہ رفتار کے ساتھ اپنے وقت پر گردش کرتے ھیں اور اربوں سال سے گردش کی حالت میں ھیں؛ یہ سب کے سب خدا کی قدرت کاملہ سے محفوظ ھیں ۔
”وَخَضَعَ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،وَذَلَّ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ“
” اور اس کے لئے ھر شے خاضع اور متواضع ھے‘۔
تمام غیبی اور شھودی موجودات ؛ بڑی سے بڑی معنوی اور مادی موجود سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق تک، عظیم ترین کہکشاں اور ثابت ستاروں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے اٹم "Atome"تک جس کو بڑی سے بڑی میکرواسکوپ "Maicroscope"بھی نھیں دکھاسکتی، تمام کی تمام چیزیں خداوندعالم کی مسخر کردہ اور اسی کی فرمانبردار ھیں، اس کے حکم کے سامنے سبھی سرِ تسلیم خم کئے ھوئے نظر آتی ھیں، اور سب کے سب اس کا حکم ماننے کے لئے حاضر ھیں، نیز ان کے اندر مخالفت او رمعصیت کا ذرا بھی تصور نھیں پایا جاتا۔
وہ موجودات جو بغیر کسی استثناء کے؛ خدا کی بے انتھا قدرت کے سامنے مقھور اور مغلوب ھیں ان تمام چیزوں کا وجود خضوع اور خشوع نیز عین ذلت ومسکنت ھے۔
حضرات معصومین علیھم السلام کی ایک فرد کی زبان مبارک سے نکلے ھوئے دعا کے چند جملوں کی طرف توجہ کریں:
”یقیناً توھی وہ خدا کہ جس کی قدرت اور توانائی کے سامنے تمام چیزیں ذلیل ھیں، اور تمام ھی چیزوں کا سر تیری قدرت کے سامنے خم ھے، جو تو کرنا چاہتا ھے کردیتا ھے، اور جس چیز کا ارادہ کرلے وہ کر گزرتا ھے، تیری ھی مقدس ذات نے تمام چیزوں کو خلق فرمایا ھے، اور تیرے ھی دست قدرت میں تمام چیزوں کے امور ھیں، تو تمام چیزوں کا مولا وآقا ھے، اور تمام چیزیں تیری ھی مغلوب اور مسخر ھیں، تیرے علاوہ کوئی معبود نھیں تو عزیز وکریم ھے۔۔“۔
بے شک تیری رحمت سبھی چیزوں پر چھائی ھوئی ھے اور تیری بے نھایت قدرت تمام چیزوں پر غالب ھے، تیرا ھی وجود بابرکت ھے جس کی قدرت کے سامنے تمام چیزیں ذلیل وخوار ھیں، لہٰذا اس کے لئے یہ کام بہت آسان ھے کہ اس بندہ کی دعا قبول کرلے جو خلوص وانکساری کے ساتھ حالت خضوع وخشوع میں روتے اور گڑگڑاتے ھوئے شب جمعہ جیسی مبارک رات میں دعا کررھا ھو ، اور اس کے لئے بہت ھی زیادہ آسان ھے کہ وہ اس بندہ کی حاجت روائی کے لئے زمین و آسمان میں موجود اپنے لشکر اس کی امداد کے لئے بھیجے تاکہ وہ اس کو دنیاوی او راُخروی مقاصد تک پھنچادیں۔
جو شخص تواضع او رانکساری کے ساتھ اس کی رحمت وقدرت کا واسطہ دے کر پکار رھا ھو اور اس کی رحمت وقدرت کے علاوہ کوئی رحمت وقدرت اس کے پیش نظر نہ ھو ، کیا اس کی دعا کاباب اجابت سے نہ ٹکرانا ممکن ھے ؟ ھر گز نھیں۔
کوئی ضعیف وناتوان موجود اس کی حاجت روائی نھیں کرسکتا اور دعا کرنے والے کی دعا کو مستجاب نھیں کرسکتا۔ مگر صرف وہ جو غنی ھے اور رحمت واسعہ اور قدرت کاملہ کا مالک ھے جس کے قبضہ قدرت میں تمام چیزیں ھیں اپنے بندوں کی مصلحت اور اپنی حکمت کی بنا پر اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ھے اور مانگنے والوں کی جھولی بھر دیتا ھے۔
صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر ۱۳ میں وارد ھوا ھے:
” تونے مخلوقات کو فقر کی طرف نسبت دی ھے کہ وہ واقعا تیرے محتاج ھیں لہٰذا جو شخص بھی اپنی حاجت کو تیری بارگاہ سے پورا کرانا چاہتا ھے اور اپنے نفس سے فقرکو تیرے ذریعہ دور کرنا چاہتا ھے اس نے حاجت کو اس کی منزل سے طلب کیا ھے اور مقصد تک صحیح رخ سے آیا ھے اور جس نے بھی اپنی حاجت کا رخ تیرے علاوہ کسی اور کی طرف موڑدیا ،یا کامیابی کا راز تیرے علاوہ کسی اور کو قرار دیا ھے اس نے محرومی کا سامان مھیا کرلیا ھے اور تیری بارگاہ سے احسانات کے فوت ھوجانے کا استحقاق پیدا کرلیا ھے۔ خدایا ! میری تیری بارگاہ میں ایک ایسی حاجت ھے جس سے میری کوشش قاصر ھے اور میری تدبیریں منقطع ھوگئی ھیں اور مجھے نفس نے ورغلایا ھے کہ میں اسے ایسوں کے پاس لے جاؤںجو خود ھی اپنی حاجتیںتیرے پاس لے کر آتے ھیں اور اپنے ضروریات میں تجھ سے بے نیاز نھیں ھوسکتے ھیں اور یہ خطاکاروں کی لغزشوں میں سے ایک لغزش ھے اور گناھوں کی ٹھوکروں میں سے ایک ٹھوکر ھے اس کے بعد تیری یاددھانی کے ذریعہ میں خواب غفلت سے چونک پڑا اور تیری توفیق کے سھارے اپنی لغزش سے اٹھ کھڑاھوا اور تیری رھنمائی سے اپنی ٹھوکر سے پلٹ پڑا اور میں نے فورا اعلان کردیا کہ میرا رب پاک وپاکیزہ ھے کوئی محتاج کسی محتاج سے کیسے سوال کرسکتا ھے اورفقیر کسی فقیر کی طرف کس طرح رغبت کرسکتا ھے ۔
یہ سوچ کر میں نے تیری طرف ر غبت کی اور اپنی امیدوں کو لے کر تیری بارگاہ میں حاضر ھوگیا کہ مجھے تجھ پر بھروسہ تھا اور مجھے معلوم تھا کہ میں جس کثیرکا سوال کررھا ھوں وہ تیری عطا کے مقابلہ میں قلیل ھے اور جس عظیم کا تقا ضا کررھاھوں وہ تیری وسیع بارگاہ میںحقیر ھے تیرا کرم کسی کے سوال سے تنگ نھیں ھوتا ھے اور تیرے ھاتھ عطاکرنے میں ھر ھاتھ سے بالا تر رہتے ھیں ۔تمام ممکنات ایک روز عدم محض تھے، موجود ھی نھیں تھے کہ قابل ذکر ھوتے، تیرے ارادہ اور قدرت کے زیر سایہ پیدا ھوئے اور ان کی زندگی بھی تیرے ھی لطف وکرم کی بدولت ھے، کسی بھی طرح کا کوئی استقلال نھیں رکھتے ان کے پیشانی پر فقر ذاتی اور ذلت وخواری کی مھر لگی ھوئی ھے اور تیری قدرت ازلی کے سامنے خاکساری اور ذلت کی حالت میں سجدہ ریز ھیں۔ کسی انسان کو یہ حق نھیں پھونچتا کہ وہ تیری بے نھایت قدرت کے سامنے اپنی قدرت کی بساط پھیلائے، انانیت کا ڈنکا بجائے، اور تکبر کا نعرہ لگائے، اپنی اس کم بضاعتی جس خلقت ایک مشت خاک سے ھوئی ھو محض ذلیل وخوار ھے اور اس کا وجود صرف ایک پھونک کا کام ھے اس کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت نھیں ھے اور اپنی اس کم عقلی کی بنا پر جو ایک ذرہ کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر وناتوان ھے اپنے مولا و آقا ، مدبر اور پروردگار کی قدرت کے سامنے ؛ جس کی قدرت نے تمام چیزوں کو تحت الشعاع قرار دے رکھا ھے، اس کے سامنے اپنی قدرت کے نعرہ لگائے !! اور اگر ایسا کرے بھی تو اس کی قدرت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے اوروہ ذلیل و خوار ھوجائے، نیز رحمت خدا سے محروم کردیا جائے اور عذاب الٰھی میں گرفتار ھوجائے۔
” وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتي غَلَبْتَ بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ“
” اور اس جبروت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر غالب ھے“۔
”جبروت“ لغوی اعتبار سے” صیغہ مبالغہ“ ھے، یعنی تمام موجودات او رممکنات کے نقائص کا بہت سی نعمتوں اور بہت سے ساز وسامان کے ذریعہ ان کا جبران اور تدارک کرتا ھے، اور وہ بھی بلندترین درجہ اور کثیر تعداد میں۔
ابتدائے خلقت میںکوئی بھی موجودقابل ذکر نہ تھا، اس کی پھلی تصویر ایک ذرہ "Atome"کی شکل میں تھی یا ایک دانہ یا بے اھمیت نطفہ کی طرح تھی۔ ھر موجود ناقص تھا، خداوندعالم کی صفت جبروتیت نے تمام خامیوں اور نواقص کو پورا کےا تاکہ ان کو مکمل شکل وصورت مل جائے ،اور ایک بااھمیت شکل میں جلوہ نما ھو اور اپنی اصل صورت میں پیدا ھو۔
خدائے مھربان کے ذریعہ نقص کا پورا ھونا
خداوندعالم کی طرف سے کمیوں اور نواقص کا پورا ھونا ایک اھم اور قابل توجہ مسئلہ ھے، اس سلسلہ میں چند چیزوں کو ایک اھم کتاب سے نقل کرتے ھیں جس کی بنا پر ھمارے ایمان میں اضافہ ھو اور ھمیں یہ معلوم ھو کہ خداوندعالم ھمارے یا دوسری مخلوقات کے نقص کوکیسے پورا کرتا ھے:
سورج کی خرچ شدہ طاقت کا جبران
جس سورج کی وجہ سے اکثر طاقت ملتی ھے یہ”کل شیءٍ“ کا ایک چھوٹا سا مصداق ھے۔
سورج کی گرمی اتنی زیادہ ھے کہ بہت زیادہ بھڑکتی ھوئی آگ بھی اس کے سامنے ٹھنڈی ھے، سورج کی گرمی تقریباً"6093cg"ھے اور اس کے اندر کی گرمی تو اس سے بھی کھیں زیادہ ھے۔
سورج ھر سیکنڈ میں 12400,000.ٹن انرجی"E`nergiee" (طاقت) فضا میں پھیلاتا ھے، کہ اگرسورج کی ایک منٹ کی گرمی کو کوئلہ کے ذریعہ حاصل کرنا چاھیں تو تقریباً 679,000,000,00.ٹن کوئلے کو جلانا ھوگا۔
اس ایک سیکنڈ میں حاصل شدہ سورج کی طاقت کا وزن تقریباً 4000,000.ٹن ھوتا ھے اور یہ مقدار ایک سال میں تقریباً 126,144,000,000,000.ھوجاتی ھے ، اور یہ طے ھے کہ اگرجلتی ھوئی آگ کا ایندھن ختم ھوجائے تو آگ خاموش ھوجاتی ھے،لہٰذا جب سورج کوئی ایندھن نھیں لےتا اور ھر سال اتنی طاقت خرچ کرتا ھے تو پھر اس کو ختم ھوجانا چاہئے تھا؟ !! جبکہ اگر سورج خالص کوئلہ سے بنا ھوتا تو ۶۰۰ سال کے بعد ختم ھوجاتا۔
قارئین کرام! اس سوال کا جواب صرف صفت ”جبروت“ کے ذریعہ حاصل ھوسکتا ھے، اس نے سورج کوگیس کے ایک عظیم پھاڑ کی طرح بنایا ھے جس کا گیس سکڑنے اور پھیلنے کی بنا پر کھوئی طاقت دوبارہ لوٹا دیتا ھے۔
یہ بات مشرق ومغرب کے بڑے بڑے دانشوروں کی تحقیق کا نتیجہ ھے جس کے بارے میں کتاب کے ہزاروں صفحات لکھے جاچکے ھیں جو ایک سادہ جملہ میں ھم تک پھنچا ھے۔
جی ھاں! وھی ھے جو اشیاء کی کھوئی ھوئی طاقت کو لوٹاتا کرتا ھے ، اور سورج کی کھوئی ھوئی طاقت کو واپس پلٹانا اس کی صفت ”جبروتی“ کی ایک نشانی ھے۔
دریائے خزر کے جزر و مد[1] کا جبران
دریا ئے خزرکی سطح آزاد دریا سے ۲۷۶ میٹر نیچے ھے، اور اس سے نیچے ھوتی جائے گی، دریائے خزر آزاد دریاؤں سے متصل نھیں ھے ، لہٰذا عمومی اقیانوس کے جزر ومد کے تابع بھی نھیں ھے۔ دریائے خز ر چونکہ چھوٹا ھے لہٰذا چاند کی قوت جاذبہ سے بھرہ مند نھیں ھوسکتا، لہٰذا اس میں جزر ومد نھیں ھونا چاہئے اور اس کے پانی کو گندا ھوجانا چاہئے اس دریائے خزر کو پیدا کرنے والے کا وجود مبارک جانتا ھے کہ اس نقص کو کس طرح پورا کیا جائے ، اس نے ”سرنوک“ ، ”خزری“ اور ”میانوا“ نامی ھوائیں چلائیں تاکہ اپنی پوری طاقت کے ذریعہ پانی کو متحرک کرےں یھاں تک کہ جو دریا اس میں گرتے ھیں ان کے پانی کو اوپر نیچے کرے۔
یہ ھوائیں اس قدر طاقتور ھوتی ھیں کہ دریائے خزر کے پانی کو اس قدر اوپر لے جاتی ھیں کہ اکثرکشتیوں کے ناخدااس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ھیں،یہ ھوائیں ایک دوسرا کام بھی کرتی ھیںوہ یہ کہ دریائے خزر کے شمال میں موجود بادلوں کو جنوب کی طرف بھگادیتی ھیں جس کی بنا پر ایران کے شمالی علاقہ میں بارش ھوتی ھے تاکہ وھاں پر کھیتی ھری بھری ھوجائے۔
یہ ھوائیں اس دریاکے پانی کو”مرداب انزلی“ میں ڈھکیل دیتی ھیں تاکہ مرداب(بہت گھراتالاب اور گڑھا) کاپانی صاف ھوجائے، شھر گیلان کا دریا مسلسل بارشوں کی بنا پر اکثر اوقات مٹیالا ھوتا ھے جس میں جنگلی گھاس وغیرہ کے بیج وغیرہ ھوتا ھے اور جب اس مرداب میں مٹی بھرجاتی ھے ، اس سے پانی پر کف (جھاگ) پیدا ھوتا ھے ، گھاس کے بیج وغیرہ وھاں رشد ونموکرنے لگتے ھیں ، انھیں دو اسباب کی بنا پر اس مرداب کا پانی خشک ھوجانا چاہئے اور اسے دلدل کی شکل اختیار کرلینا چاہئے، لیکن ہزاروں سال سے یہ مرداب اسی طرح باقی ھیں، کیوں؟
اس لئے کہ خداوندعالم جبران کرنے والا ھے لہٰذا س مشکل سے روک تھام کے لئے اس دریا کا پانی سیلاب سے ملادیتا ھے اور جس وقت ”سرنوک“، ”خزری“ اور ”میانوا“ نامی ھوائیں بادلوں کو برسنے کے لئے جنوب کی طرف روانہ کرتی ھیں تو دریا کا پاک وصاف پانی ،گدلے پانی سے مل جاتا ھے جس کی بنا پر اس گدلے پانی کی غلظت ھلکی ھوجاتی ھے، بیج اور بیل وغیرہ دریاکے نمکین پانی میں نابود ھوجاتے ھیں۔
جس وقت یہ (مذکورہ) ھوائیں بند ھوجاتی ھیں ، اس وقت ”کرامو“، ”کناروا“ اور ”آفتاب بوشو“ نامی ھوائیں چلتی ھیں تو ان مرداب کے پانی کو دریائے خزر میں پھونچادیتی ھیں جس کی بنا پر وھاں گدلا پانی صاف ھوجاتا ھے۔
اسی طرح ”گیلوا“ اور ”درشتوا“ نامی ھوائیں مرادب کے پانی کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جاتی ھیں اور اس پانی کو ملانے میں کافی مدد کرتی ھیں۔!![2]
پھلوں کے نقص کو دور کرنا
جب تک پھلوں کے بیج بوئے نہ جائیں اور خداوندعالم کی صفت جبروتی مختلف طریقوں سے اس کے نقائص کو پورا نہ کرے تو ان سے استفادہ نھیں کیا جاسکتا۔
خوشمزہ اورلذیذسیب کے سلسلہ میں غور و فکر کریں کہ ایک روز یھی دانہ اور ایک ذرہ کی شکل میں دکاندار کے یھاں تھا۔
اور جس وقت وہ ایک دانہ تھا صرف اس کو بونے کے علاوہ دوسرے کام کے لئے کارگر نہ تھا اور جب کسان اس کوزمین میں ڈال دیتا ھے، تو ھوا ، نور ، پانی اور نمک اس کے پاس آتے ھیں، اور خدا وندعالم کے ارادے سے اس کی کمی پوری کی جاتی ھے ، جس کے نتیجہ میں ایک خوش رنگ اور لذیذ غذا بن جاتا ھے اور دسترخوان کی زینت بن جاتا ھے۔
قارئین کرام! خداوندعالم کی صفت جبروتی سے مزید آگاھی کے لئے درج ذیل مطالب کو غور وفکر کے ساتھ پڑھیں:
سیب کے اندر بطور خلاصہ درج ذیل چیزیں پائی جاتی ھیں:
نیٹروجن ترکیبات (پروٹین، امینوایسڈ، : لیزین، ارژنین، ھسٹاڈین اور ٹیروزن)
مواد معدنی: ( آیوڈین،پوٹاشیم، برم، فاسفورس، کیلشیم، آئرن، تانبا، سوڈیم، سفلر، میگنیز، قلعی،منیزایم)
اجزائے نشاستہ : (ڈکسٹروز، سیلولوز،پینٹازن،اسٹارچ(نشاستہ))
شکر: ( گلوکوز، فریکتٹوز،سیکروز)
مواد پکٹک: ( پکٹک ایسڈ،پیکٹن، پیکسٹک ایسڈ ،پروٹوپکٹین)
چربی اور ایسڈ: (مَیلک ایسڈ، سڑک ایسڈ، ایگزیلک ایسڈ،اسکوریک ایسڈ، لیکٹک ایسڈ)
ترکیبات رنگی: اینٹوسینیز، فلاوونز ، کلوروفل)
ویٹامن: (A.B.C.G)
اینزایم: (کیٹلوز، ایکسیڈوز)
پانی: ۸۴ فی صد۔
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ خدائے جبار کس طرح ایک پھل کی کمی اوراس کے نقص کو پورا کرتا ھے۔ اور اگر دوسری چیزوں کے مادی عناصر نیز معنوی چیزوں کے نواقص کے جبران کا ذکر کیا جائے تو تمام موجودات کے برابر صفحات بھر جائیں گے!!
” وَبِعِزَّتِکَ الَّتي لاٰ یَقُومُ لَھٰا شَيْءٌ“
” اور اس عزت کے واسطہ سے ھے جس کے مقابلہ میں کسی میں تاب مقاومت نھیں ھے“۔
وہ پاک وپاکیزہ ذات جس نے اپنی قدرت کے ذریعہ تمام چیزوں کو خلق فرمایا، اور سب پر اپنی رحمت نازل کی، اور وہ تمام چیزیں جو اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ اعلان کرتی ھیں کہ جو اس کی قدرت کے سامنے ذلیل وخوار ھیں اور وہ اپنے صفت جبروتی کے ذریعہ تمام چیزوں کے نواقص کو برطرف فرماتا ھے،اس کے مقابلہ میں کوئی بھی چیز قدرت نمائی نھیں کرسکتی؟
ایک چیز کا وجود اپنے تمام تر خواص وترکیبات کے ساتھ آسمان و زمین سے لے کر اور جو کچھ ان کے درمیان ھے، چاھے وہ غیبی موجودات ھوں یا ظھاری اللہ ان کی عزت اور قدرت کا ایک معمولی عکس ھے ، اور اپنے مولا وآقا کے مقابلہ میں ایک معمولی سایہ کی طرح ھے؛ لہٰذا اس کی ازلی اور ابدی عزت اور لامتناھی قدرت کا مقابلہ کیونکر کیا جاسکتا ھے۔؟”عزت“ کے معنی قدرت وتوانائی ھیں، اور تمام ھی موجودات میں اس کی عزت کا ایک معمولی سا جلوہ پایا جاتا ھے۔ ایک معمولی اور بے مقدار شعاع کھاں اور بے نھایت اور ازلی وابدی نور کھاں!!
”فَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ جَمِیْعاً۔“[3] ”عزت سب پروردگار کے لئے ھے“۔
جی ھاں، قرآن مجید کے فرمان کے مطابق تمام ”عزت“ خداوندعالم ھی کے لئے ھے، اور جس کو چاھے اس کی صلاحیت کے لحاظ سے عطا کردیتا ھے، اور جس کو نہ چاھے اس کو یہ عزت نھیں دیتا، اور اگر چاھے تو عزت دینے کے بعد چھین سکتا ھے، لہٰذاکوئی بھی اس کے مقابلہ میں مستقل طور پر صاحب عزت نھیں ھے، اور کوئی بھی اس کی قدرت کا مقابلہ نھیں کرسکتا، وہ شکست ناپذیر قدرت کا مالک اور غالب غیر مغلوب ھے۔
” وَبِعَظَمَتِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ کُلَّ شَيْءٍ“
”اور اس عظمت کے واسطہ سے ھے جس نے ھر چیز کو پر کردیا ھے“
فعل سے اس کے فاعل کی پہچان
قارئین کرام! آپ حضرات جانتے ھیں کہ کسی بھی فاعل (کام کرنے والا) کی عظمت اور بزرگی اس کے کام کے ذریعہ کافی حد تک پہچانی جاسکتی ھے۔ وہ انجینئر جو ایک سو دس (۱۱۰)منزلہ بلڈنگ یا اس سے کم وزیادہ منازل کی بلڈنگ بنالے تو اس فلک شگاف عمارت کو دیکھ کر انجینئر کی قوت فکر اور علمی صلاحیت کا اندازہ لگاجاسکتا ھے۔
ایک عظیم الشان موٴلف، جیسے صدر المتاٴلھین جنھوںنے ”اسفار“ ، ”عرشیہ“، ”حکمت متعالیہ“ اور ”اسرارالآیات“ جیسی عظیم الشان کتابیں لکھ دے تو اس کی علمی صلاحیت اندازہ اس کی کتابوں سے لگایا جاسکتا ھے۔
برقی رو"E'lectricity"کا کارخانہ ایجاد کرنے والے کو دیکھ کر؛ جس کی وجہ سے رات کی تاریکی دن میں بدل جاتی ھے، اس کی عظمت اور قوت فکر کا اندازہ ھوجاتا ھے۔
خداوندعالم کی عظمت اور بزرگی ”ازلی، ابدی اور بے نھایت“ ھونے کی وجہ سے ھے، اور ھم چونکہ وجود کے اعتبار سے محدود ھیں اس کو سمجھنے سے قاصر ھیں، لیکن اس کی عظمت اور بزرگی کے جلووں کو دنیا میں غور وفکر کرکے اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ھیں، جس کی عظمت کے جلوے تمام ھی چیزوں میں روز روشن کی طرح چمک رھے ھیں۔
ھم اس سلسلہ میں صرف دو روایت اور اس کے بعد ایک علمی مطلب کی طرف اشارہ کریں گے، اور اس اشارہ کی بنا پر ھم کافی حد تک اپنی مطلوب حقیقت تک پھنچ جائیں گے۔
چند عالم کی خلقت
کم نظیر کتاب ”اسلام و ھیئت“ تالیف علامہ کبیر دانشمند مصلح جناب ھبة اللہ شھرستانی صاحب کتاب” خصال“صدوق، ”بحار الانوار“علامہ مجلسی، اور ”انوار نعمانیہ“، و”شرح صحیفہ“ اور ”تفسیر نور الثقلین“ سے معتبر اور قوی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں:
” اِنَّ لِلّہِ عَزَّ وَجَلَّ اِثْنَیْ عَشَرَاٴَلْفَ عَالَمٍ کُلّ عَالَمٍ مِنْہُم اٴَکبَرُ مِنْ سَبعِ سَماواتٍ وَسبعِ اٴَرَضِینَ مَا یُریٰ عَالَمٌ مِنْہُمْ اٴنَّ لِلّہِ عَزَّ وَجَلَّ عَالَماً غَیْرَہُم “[4]
”خداوندعالم کے بارہ ہزار جھان ھیں، جن میں سے ھر ایک ساتوں آسمان اور زمین سے بڑا ھے، اور ان میں سے ھر ایک کے رھنے والے دوسرے جھان کی خبر نھیں رکھتے“۔
آج کل کے ستارہ شناس ماھرین کہتے ھیں: جھان ھستی ہزاروں جھان سے مرکب ھے اور ھر جھان میں ھماری زمین وآسمان سے بڑے زمین وآسمان ھیں۔[5]
اکثر اوقات عدد (مثلا بارہ ہزار) قرآن مجید اور روایات میں حدود او رتعداد کو بیان کرنے کے لئے نھیں ھوتا، بلکہ اس سے مراد کثرت اور زیادتی ھوتی ھے؛ لہٰذا یہ تصور نہ پیدا ھوجائے کہ ھستی بارہ ہزار جھان میں محدود ھے، جھان کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ھے جن کی تعداد قرآن مجید، روایات اور علم نجوم میں بیان ھوئی ھے۔
آسمان پر لٹکی ھوئی قندیلیں اور منظومہ شمسی
سید نعمت اللہ جزائری ”شرح صحیفہ“ میں حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے روایت ھے :
خداوندعالم نے ایک لاکھ قندیلیں خلق فرمائی ھیں، اور ان کو عرش پر لٹکایا ھے ، اور تمام آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ھے یھاں تک کہ بھشت ودوزخ ایک قندیل میں ھے ، اور خدا کے علاوہ کوئی نھیں جانتا کہ دوسری قندیلوں میں کیا کیا ھے!!
علامہ شھرستانی اس معجز نما روایت کی تفسیر میں بیان کرتے ھیں:
قندیل؛ منظومہ شمسی سے چند شباہت رکھتی ھیں:
پھلی شباہت: قندیل انڈے کی طرح ھے ، اور ھمارے نظام شمسی بھی آج کل کے ماھرین فلکیات کی بنا پر انڈے کی شکل کے ھیں۔
دوسری شباہت: قندیل ایک لطیف جسم والی ھے جو اس کے درمیان میں ھے اور وہ اپنے چاروں طرف نور ونار پھیلاتا ھے، اسی طرح ھمارا شمسی نظام ایک لطیف کرہ سورج پر مشتمل ھے جو وسط میں ھے اور اپنے اطراف موجود ستاروں کونور ونار عطا کرتا ھے۔[6]
تیسری شباہت: قندیل ھوا میں لٹکی ھوئی ھے ، دیوار یا کسی دوسری چیز پر نصب نھیں ھے، اسی طرح ھمارا نظام شمسی فضا میں لٹکا ھوا ھے۔
چوتھی شباہت: قندیل کا نور بخش حصہ بالکل وسط میں نھیں ھے بلکہ وسط کے کافی حد تک قریب ھے، اسی طرح سورج بھی منظومہ شمسی کے بالکل وسط میں نھیں ھے۔
قارئین کرام ! مذکورہ شباہتوں کے پیش نظر یہ معجز نما روایت آج کل کے فلکیاتی ماھرین کے عقیدہ کے موافق ھے اور قدیم فلسفہ کے مخالف ھے ، جو اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کررھی ھے کہ ہزاروں جھان ، منظومہ شمسی موجود ھیں، جو ایک دوسرے سے جدا اور مستقل ھیں اور ان میں بھی سورج، چاند، ستارے، شھر وبستی، اور بھشت ودوزخ وغیرہ ھیں؛ اور ان میں سے ھر ایک قندیل کے جھان میں نظام شمسی اور زمین وآسمان ھیں!![7]
بے شمار سورج
بیسوی صدی کے آغازمیں جب عوام الناس نے یہ سنا کہ ھمارے اس کہکشاں میں جو رات کو واضح طور پر دیکھا جاتا ھے، تیس ملین سورج موجود ھیں، تو سب انگشت بدنداں ھوگئے، اور بھاگنے لگے۔ لیکن آج سائنس نے تحقیق کی کہ ھمارے کہکشاں میں دس ہزار ملین (10.000.000.000.) ستارے یعنی سورج موجود ھیں۔
ھم جب رات کے وقت بغیر دوربین کے اس کہکشاں پر نظر ڈالتے ھیں تو یہ چھوٹا دکھائی دیتا ھے، یھاں کہ برسات میں بادلوں کے ایک جھرمٹ کے برابر بھی دکھائی نھیں دیتا، لیکن اگر ایک فلکی بڑی دوربین جیسے رصد گاہ(جھاں سے ستاروں کاحال معلوم کیا جاتا ھے) کی دوربین ”ویلسون“ یا دوربین ”پالومر“ جس کا لینس پانچ میٹر کا ھوتا ھے؛ وغیرہ سے کہکشاں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ھے کہ یہ کتنا بڑا اور عظیم ھے۔
کہکشاں میں سورج یکے بعد دیگرے اس طرح ھیں کہ ان کا صحیح طریقہ سے شمار بھی نھیں کیا جاسکتا، اور ابھی تک کسی بھی نجومی نے صحیح طور پریہ معین نھیں کیا ھے کہ ھمارے اس کہکشاں میں کتنے سورج ھیں بلکہ تخمینی طور پر کہتے ھیں: ھمارے اس کہکشاں میں دس ہزار ملین سورج ھیں۔!!
اس بنا پر کہکشاں کے ایک حصہ کو محدود کردہ سورج کو شمار کرتے ھیں اور کہتے ھیں کہ: ھمارے اس کہکشاں میں دس ہزار ملین سورج ھیں۔
لیکن سورج کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ھونے کا امکان، کیونکہ اس کہکشاں میں ستاروں کی تعداد اس زیادہ ھے کہ ان میں سے بعض بعض کے مقابل آجاتے ھیں جس کے وجہ سے ان کے پیچھے کے ستاروں کو دیکھا نھیں جاسکتا، لیکن کہکشاں کے عجیب وغریب عمق (گھرائی) سے یہ پتہ چلتا ھے کہ ان دکھائی دینے والے سورجوں کے علاوہ دوسرے سورج بھی موجودھیں۔ اس کہکشاں کے سورجوں کے درمیان ایسے سورج بھی ھیں جوایک کروڑھمارے سورج سے بڑے ھیں!!
ھمارے اس جھان میں ملیونوں کہکشاں موجود ھیں اور کبھی ان کہکشاں میں دوسرے کہکشانوں سے بیس لاکھ نوری [8]سال کی دوری سے بھی زیادہ کا فاصلہ ھے۔
آج کل کی سب سے بڑی اور طاقتور دوربین ”پالومر“امریکہ میں ھے ، اس دوربین کے ذریعہ ایک ارب نوری سال کے فاصلہ پر کہکشانوں کے مختلف رنگوںکو دیکھا جاسکتا ھے، لیکن کبھی کبھی اس دوری کے پیچھے بھی نور دکھائی دیتا ھے جس سے نجومی حضرات اس بات کا اندازہ لگاتے ھیں کہ اس کے بعد بھی کہکشاں موجود ھیں۔
سورج کا وزن ارب در ارب(1000000000.0000000000) ھے، اور ھمارا یہ کہکشاں جو جھان عظیم کا ایک چھوٹا سا حصہ ھے تقریباً سورج کے۱۶۵ ہزار ملین گنا وزن ھے۔
ان تمام مادہ او رعناصر کے باوجود ؛ جس کی عظمت اور بزرگی پورے جھان میں پھیلی ھوئی ھے؛ جھان کا زیادہ تر حصہ خالی یا تقریباً خالی ھے!!
ھم سے قریب ترین ستارے کا فاصلہ ۴۰ ملین ملین کلو میٹر ھے!![9]
اس جھان عظیم کا ایک حصہ جس کو ایک محدود دور بین کے ذریعہ دیکھا گیا ھے ، ھم اسی کو دیکھ کر اور اس کے طول وعرض اور وزن کو ملاحظہ کرنے کے بعد کیا خدا ئے بزرگ کی عظمت اور بزرگی کا اندازہ لگاسکتے ھیں جس کی عظمت بے نھایت ھے اور پوری دنیامیں پھیلی ھوئی ھے؟!!
یہ جھان عظیم، خدائے عظیم کا کارخانہ اور اس کی کتاب ھے، فعل خدا کی تکوینی کتاب اور اس کی عظیم کتاب کو تھوڑا بہت پڑھ کر خداوندعالم کی عظمت کا اندازہ لگاسکتے ھیں ، اور پھر اپنے دل سے خلوص کے ساتھ یہ جملہ کھیں:
” اللهُ اٴَکْبَرُ مِنْ اٴَنْ ُیوصَفَ “[10]
خدا اس کھیں زیادہ بزرگ ھے کہ اس کی توصیف کی جائے۔
کیونکہ بڑے سے بڑا عالم خدا کی توصیف کرنے والا اس کی توصیف سے عاجز ھے اور بلیغ ترین زبان اس کی تعریف کرنے سے گنگ ھے اور قوت فکر کی سب سے بڑی طاقت اس کی عظمت کے ایک حصہ تک بھی نھیں پھنچ سکتی ھے!
جی ھاں، اس کے بارے میں تو وھی جملہ کھا جس کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے تعلیم فرمایا ھے:
” مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ “[11]
”جوحق تیری معرفت کا ھے وہ معرفت ھم حاصل نھیں کرسکتے“۔
” وَبِسُلْطٰانِکَ الَّذي عَلاٰ کُلَّ شَيْءٍ“
” اور اس سلطنت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے سے بلند تر ھے“۔
قارئین کرام ! آپ حضرات نے گزشتہ صفحات میں جھان ھستی کی عظمت کے ناچیز گوشوںکے بارے میں پڑھا، اور خداوندعالم کی بے چون وچرا سلطنت کو ملاحظہ کیا، اسی کی ذات! جھان اور اس کی مخلوقات کے ظاھر وباطن سے مافوق ھے۔ اس کی قدرت تمام چیزوں پر مسلط ھے، اور تمام چیزیں اپنے تمام امور میں اسی مالک الملک کی فرمانروائی کے زیر سایہ ھیں۔ اس دنیا میں ھر شخص اپنی صلاحیت کے لحاظ سے فرمانروائی رکھتا ھے، اور اس کی فرمانروائی خدا وندعالم کی عطا کردہ بخشش ھے، اور اگر وہ چاھے تو اس سے لے کر دوسرے کو عطا کرسکتا ھے۔
حکام اپنی فرمانروائی کو خداوندعالم کی سلطنت، حاکمیت اور فرمانروائی کی ایک کرن تصور کریں اور عدل وانصاف سے کام لیں اور اگر عدل وانصاف کے علاوہ حکمرانی کریں تو ان کا شمار ظالمین میں ھوگا۔ اور جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ھوا ھے اور تاریخ نے بھی یہ بات ثابت کی ھے کہ خدا کی لاٹھی میں آواز نھیں ھوتی، اور وہ انتقام لے لیتا ھے ، اور کچھ ھی مدت میں ظالم کو ذلیل وخوار کردیتا ھے، اور دردناک عذاب میں ڈھکیل دیتا ھے۔
اس کی فرمانروائی ،زمانہ نوح(ع) کے کفار ومشرکین کو موسلا دھار بارش اور زمین سے پانی کا چشمہ ابال کر طوفان کی شکل میں نیست ونابود کردیتی ھے۔
اس کی فرمانروائی، قوم عاد کو تیز آندھی اور طوفان کے ذریعہ سوکھی ھوئی گھاس کی طرح اڑا دیتی ھے، اور ایک منٹ میں ان کی زندگی کا خاتمہ ھوجاتا ھے۔
اس کی فرمانروائی ، کے ذریعہ دریائے نیل میں ظالم وجابر اور ستمگرجیسا فرعون غرق ھوجاتا ھے۔
” وَبِوَجْھِکَ الْبٰاقي بَعْدَ فَنٰاءِ کُلِّ شَيْءٍ“
” اور اس ذات کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کی فنا کے بعد بھی باقی رھنے والی ھے“۔
اس کی ذات مقدس ؛ عین حیات ھے، اس کی ھستی ازلی، ابدی اور سرمدی ھے، وہ ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا، کوئی چیز اس کے پھلو میں نھیں تھی اور نہ ھے، اس نے اپنے ارادہ کے ذریعہ تمام چیزوں کو خلق فرمایا حالانکہ وہ تمام چیزوں سے بے نیاز ھے، تمام چیزیں فنا ھونے والی ھیں، جب کہ اس کی ذات ھمیشہ کے لئے باقی رھے گی۔
اس جھان ھستی میں کوئی بھی چیز اپنی طرف سے مستقل حیات نھیں رکھتی، اس کی حیات خداوندعالم کی ایک روح پھونکنے کا ایک معمولی اشارہ ھے، لہٰذا تمام چیزوں میں فنا ھونے کی قابلیت حتمی ھے، فنا صفات نقص اور بقا صفات کمال میں سے ھے، جس کا نتیجہ یہ ھے کہ کمال مطلق باقی رھے گا، اور فنا ایک ایسی مُھر ھے جو تمام ھی موجودادت کی پیشانی اور تمام چیزوں کی دفتر حیات پر لگی ھوئی ھے۔
” وَبِاٴَسْمٰائِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ اَرْکٰانَ کُلِّ شَيْءٍ“
” اور اور ان اسماء مبارکہ کے واسطہ سے ھے جن سے ھر شے کے ارکان معمور ھیں“۔
دعا کے اس فقرہ میں”اسماء“ سے مراد لفظی اسماء نھیں ھیں جو حروف سے مرکب ھوتے ھیں، بلکہ وہ حقائق اور مصادیق مراد ھیں جن پر الفاظ دلالت کرتے ھیں۔
رحمت واقعی، لطف حقیقی، علم ذاتی، عدل عینی اور قدرت فعلی نے تمام چیزوں کی ضرورتوں کو پورا کردیا ھے، یا یوں کہئے کہ تمام چیزیں خدا کی حقیقی خالقیت، بارئیت، مصوریت، علم، بصیرت، عدل، حکمت، رحمت اور رافت کی مظھر ھےں۔
تمام موجودات انھیں حقائق کی وجہ سے وجود میں آئے ھیں، اور انھیں کے ذریعہ باقی و قائم ھیں، نیز انھیں کی برکت سے ان کی زندگی باقی ھے اور انھیں کے سبب سے ان کو روزی ملتی ھے۔
انھیں تمام چیزوں میں غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ حروف سے مرکب شدہ لفظی اسماء ”اسماء حقیقی“ ھیں۔ اور ”کلُّ شیءٍ“یعنی تمام موجودات کے مختلف حالات اور ان کی حقیقت و حیثیت موثر ھیں اسماء حقیقی موٴثرھیںاسماء لفظی نھیں ۔
بھر حال یھی اسماء حقیقی جھان ھستی کی مختلف حقائق کے تحقق کے لئے واسطہ ھیں۔ جیسا کہ معصومین علھیم السلام سے وراد شدہ ”دعاء سمات“ میں ھم پڑھتے ھیں:
”بار الہٰا! تیری بارگاہ میں تیرے بڑے نام سے، تیرے عظیم نام سے، تیرے عزیز نام سے، تیرے برجستہ نام سے، اور تیرے گرانبھا نام سے سوال کرتا ھوں ۔
قارئین کرام ! اس دعا میں جو چیزیں بیان ھوئی ھیں وہ لفظ قدرت کے” ق د ر ت“سے نھیں ھے بلکہ حقیقت قدرت اور عین قدرت کی وجہ سے ھیں۔
جن اسماء کے ذریعہ ”کلّ شیءٍ“ ( یعنی تمام چیزوں) کی ضرورتیں پوری ھوتی ھیں ، در حقیقت وہ موجودہ حقائق ھیں جن کو قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں ”اسماء“ سے تعبیر کیا گیا ھے۔
انھیں اسماء کے حقائق میں سے ”ائمہ طاھرین علیھم السلام“ ھیں جو تمام ھی مخلوقات میں خاص عظمت و اھمیت کے حامل ھیں، جو بندوں اور خدا کے درمیان روز قیامت کے لئے ”واسطہ فیض“ ھیں۔ خداوندعالم کی رحمت، ھدایت، لطف، رافت، کرم و بخشش انھیں حضرات کے صدقہ میں بندوں تک پھنچتی ھیں،اور انھیں حضرات کی معرفت اور ولایت کے زیر سایہ بندوں کے اعمال بارگاہ الٰھی میں قبول ھوتے ھیں۔
حکیم بزرگوار فیض کاشانی اپنی عظیم الشان تفسیر ”صافی“ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں:
”نَحْنُ وَاللهِ الاٴَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ اَلَّذِیْ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنَ الْعِبَادِ عَمَلاً اِلّٰا بِمَعْرِفَتِنَا“
”خدا کی قسم ھم خدا کے اسماء حسنیٰ ھیں، کہ خدا اپنے بندوں کے اعمال ھماری معرفت اور ھماری ولایت سے تمسک کے ذریعہ ھی قبول کرتا ھے“۔
لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ انسان اگرفقط الفاظ پر توجہ کرے تو کسی مقام پر نھیں پھنچ سکتا ، لہٰذا الفاظ کو چھوڑتے ھوئے حقیقت کی تلاش کریں، کیونکہ عالم ھستی میں جتنے بھی آثار پائے جاتے ھیں وہ اسماء حقیقی یا عین واقعیات ھیں۔
”وَ بِالاسْمِ الَّذِیْ خَلَقْتَ بِہِ الْعَرشَ وَ بِالاسْمِ الَّذِیْ خَلَقْتَ بِہِ الْکُرْسِیَّ، وَ بِالاسْمِ الَّذِیْ خَلَقْتَ بِہِ الرُّوْحَ“۔
”اس اسم کی قسم جس کے وسیلہ سے عرش پیدا ھوا، اور اس اسم کی قسم جس کے ذریعہ کرسی کا وجود پیدا ھوا اور اس اسم کی قسم جس کی برکت سے روح کو خلق کیا“۔
”وَبِعِلْمِکَ الَّذي اٴَحٰاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ“۔
” اوراس علم کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کا احاطہ کئے ھوئے ھے “
خدا وندعالم کے علم کے سلسلہ میں جو علم فعلی اور علم حضوری ھے اور جو تمام موجودات کے ظاھر و باطن کا احاطہ کئے ھوئے ھے اور کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ نھیں ھے (اگرچہ کروڑوں ذرات میں سے کوئی بھی ذرہ کیوں نہ ھو) تمام مخلوقات کی تعداد، ان کے ذرات ، اور مختلف قسم کے دانے یھاں تک کہ بارش کے قطروں کا علم اس کے پاس موجود ھے۔ھم یھاں پر اس سلسلہ میں قرآن مجید میں بیان شدہ آیات پر اکتفاء کرتے ھیں:
ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
” َیَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ ۔۔۔“[12]
”وہ زمین و آسمان کی ھر چیز کو جانتا ھے“۔
” وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا ۔۔۔“[13]
”اور وہ خشک وتر سب کا جاننے والا ھے کوئی پتہ بھی گرتا ھے تو اسے اس کا علم ھے“۔
” وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ “[14]
”اور اللہ ھی تمھارے باطن و ظاھر دونوںسے باخبر ھے“۔
” یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا وَہُوَ الرَّحِیمُ الْغَفُورُ“[15]
”وہ جانتا ھے کہ زمین میں کیا چیز داخل ھوتی ھے اور کیا چیز اس سے نکلتی ھے اورکیا چیز آسمان سے نازل ھوتی ھے اورکیا اس میںبلند ھوتی ھے اور وہ مھربان اور بخشنے والا ھے“۔
ان آیات کی حقیقت کو بہتر سمجھنے کے لئے پھاڑ کے ایک حصہ کو دیکھ لینا کافی ھے جوہزاروں کی تعداد دنیا بھر میں موجود ھےں۔
ماھرین نےآج تک کی رپورٹ کے مطابق کیڑے مکوڑوں کی سات لاکھ قسموں کا پتہ لگالیا ھے، جبکہ ان کی تعداد اس قدر ھے کہ الفاظ میں ان کو بیان نھیں کیا جاسکتا۔
گرمی کے دنوں میں جب آسمان صاف ھو تو اس وقت سوسک ، مکھی اور کنکھجوروں کی تعداد پھاڑ کی ایک دراڑھ میں اس قدر زیادہ ھے کہ ایک برّاعظم کے لوگوں سے بھی زیادہ ھے۔ اور اگر اس زمین سے ناگھاں نوع بشریت کا خاتمہ ھوجائے تو زمین پر دوسری موجودات اس قدر زیادہ ھیں کہ مشکل سے نوع بشریت کے خاتمہ کا احساس کرپائیں گے۔[16]
”وَبِنُورِ وَجْھِکَ الَّذي اٴَضٰاءَ لَہُ کُلُّ شَيْءٍ“۔
” اوراور اس نور ذات کے واسطہ سے ھے جس سے ھر شے روشن ھے“۔
آیات و روایات میں نور کے معنی
قرآن مجید اور روایات میں کمالات اور اقدار کو ”نور“ سے تعبیر کیا گیا ھے۔
”نور“ سے مراد ھدایت ھے[17]، ”نور“ کے معنی ایمان کی طرف قدم بڑھانے کے ھیں۔[18] ”نور“ یعنی اسلام۔ ”نور“ یعنی معرفت۔ ”نور“ یعنی علم۔ ”نور“ یعنی دلی روشنی۔[19]
قرآن کریم میں ”نور“ کے معنی اس طرح بیان کئے گئے ھیں:
” قَدْ جَاءَ کُمْ مِنْ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ “[20]
”اے اھل کتاب !تمھارے پاس ھمارا رسول آچکا ھے جو ان میںسے بہت سی باتوں کی وضاحت کررھا ھے جن کو تم کتاب خدا میںسے چھپا رھے تھے“۔
”نور“کے معنی احکام الٰھی ، مسائل اخلاقی اور اعتقادی حقائق ھیں:
” إِنَّا اٴَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیہَا ہُدًی وَنُورٌ “[21]
”بیشک ھم نے توریت کو نازل کیا جس میںھدایت اورنور ھے“۔
قارئین کرام ! مذکورہ معانی کے پیش نظر یہ بات کھی جائے کہ ”نور“ سے مراد خداوندعالم کے صفات، کمالات اور اسماء حسنیٰ ھیں جن سے ھر مخلوق اپنی استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے فیضیاب ھوتی ھے۔ اور اس کامرانی میں اپنی ظلمت و تاریکی سے نجات پیدا کرتی ھے۔
صاحب استعداد انسان؛ اس بہت اھم اور سنھرے موقع سے ظلمت عدم سے نورھستی کی طرف، ظلمت نقص سے نور کمال کی طرف، ظلمت جھل سے نور معرفت کی طرف، ظلمت ظلم سے نور عدالت کی طرف، ظلمت کفر سے نور ایمان کی طرف، ظلمت ضلالت سے نور ھدایت کی طرف اور ظلمت مادیت سے نور معنویت کی طرف آتا ھے ا ور اس سے آراستہ و مزین ھوتا ھے، در حقیقت خدا کے اسماء و صفات کا طلوع مطلع الفجرھوتا ھے جو نور محض اور نور خالص ھے۔
قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ ”نوروجہ“ سے مراد وھی حقائق اور کمالات ھیں جس کے ایک ہزار نمونے ”دعاء جوشن کبیر“ میں بیان کئے گئے ھیں۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ لفظ ”نور“ مفرد کیوں ھے؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ خداوندعالم کے تمام اسماء حسنیٰ اور اس کے بلند و بالا صفات، اس کی عین ذات ھیںاور اس کی ذات مقدس میں کسی طرح کی کوئی”ترکیب“ نھیں ھے یعنی صفت اور موصوف کا تصور نھیں پایا جاتا۔ خدا وندعالم کا علم، اس کی حکمت، اس کا عدل، رحمت، لطف اور اس کی رحمانیت وغیرہ تمام کی تمام اسی خدا ئے واحد ویگانہ کی ذات بابرکت ھے۔
اور چونکہ لفظ ”نور“ کا استعمال ھدایت پر ھونا معارف الٰھی میں بہت زیادہ بیان ھوا ھے جس کے پیش نظر شاید اس نورا نی جملے کے معنی یہ ھوں:
”خدایا! میں تجھ سے تیری اس ھدایت اور رھنمائی کے واسطہ سے سوال کرتا ھوں جس کے ذریعہ تمام موجودات ھدایت یافتہ ھیں“۔
بھر حال لفظ ”نور“ میں تمام آسمانی اور ملکوتی معنی اور مفاھیم سمائے ھوئے ھےں،یہ تو ذوق سلیم اور قلب نورانی اپنے لحاظ سے مختلف معنی میں استعمال کرتا ھے؟
” یٰا نُورُ یٰا قُدُّوسُ، یٰا اٴَوَّلَ الْاٴَوَّلینَ،وَیٰا آخِرَ الْآخِرینَ“۔
”اے نور ،اے پاکیزہ صفات،اے اوّلین سے اوّل اور آخرین سے آخر“۔
اے تمام کمالات، اے سب کے پیدا کرنے والے ، اے ظھور محض،اے ظاھر، اے آشکار اور اے واضح کہ روز عرفہ صحرائے عرفات میں تیرا عاشق بے قرار اور عارف دلدادہ نیز تیرا خالص بندہ اور تیرے نور کا مطلع الفجر یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام تیری بارگاہ میں عرض کرتا ھے:
” اٴَیَکُونُ ِلغَیرِکَ مِنَ الظُّھورِما لَیسَ لَکَ حَتَّی یَکونَ ہُوَ المُظہِرَ لَکَ؟ مَتَی غِبْتَ حَتَّی تَحْتاجَ ِالَی دَلیلٍ یَدُلُّ عَلَیکَ وَمَتی بَعُدْتَ حَتَّی تَکونَ الآثارُ ہِیَ الَّتِی تُوصِلُ اِلَیکَ؟ “[22]
”کیا تیرے علاوہ کسی غیر کے لئے کوئی ظھور ھے جو تیرے لئے نھیں ھے، جو کوئی دوسرا تیرے ظھورکے لئے وسیلہ بنے؟ بارالٰھا تو کب مخفی تھا جس کو ظاھر کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ھوتی، تو کب دور تھا جو تجھ تک پھنچانے والے آثار کی ضرورت ھو؟“
” اے پرودگار عالم! جس وقت میں اپنی نفسانی حالت سے دور رہتے ھوئے اپنی حقیقت کو سمجھنے کے بعد غور سے دیکھتا ھوں تو پتہ چلتا ھے کہ اس جھان ھستی میں تیرے جلال و جمال کی روشنی ھر چیز سے روشن تر ھے، تیرے وجود کے لئے کوئی خِفا اور پوشیدگی نھیں ھے، کہ کوئی چراغ جلا کر تیری ربوبیت کی جستجو کروں، کیونکہ جب بھی کسی حقیقت کے ذریعہ اپنے راستہ کی دلیل فرض کروں تو غور و فکر کے بعد یہ واضح ھوجاتا ھے کہ اس دلیل کا پیدا کرنے والااور اس چراغ کو روشن کرنے والا بھی تو ھی ھے“۔
تو کس وقت غائب اور چھپا ھوا تھا کہ کسی دلیل کا محتاج ھوتا جو تیرے وجود پر دلالت کرتی، اور تو کب اور کس موقع پر دور تھاتاکہ تیرے ھی پیدا کردہ آثار کے ذریعہ ؛تجھ تک پھنچاجاتا؟
اے تمام عیوب سے پاک و پاکیزہ! اے تمام نواقص اور خامیوں سے پاک و منزہ! اے جو تمام توصیف بیان کرنے والوں کی توصیف سے بلند و بالا ھے! اے کل الکمال! اے حقیقت محض! یا نور یا قدوس! اے تمام چیزوں کی ابتداء بغیر اس کے تری ذات مقدس کے لئے کوئی ابتداء ھو، اے تمام چیزوں کی آخر کے آخر بغیر اس کے تیری ذات کے لئے کوئی آخر ھو، تو ھر چیز کی ابتداء کرنے والا ھے حالانکہ تیرے لئے کوئی ابتداء نھیں ھے، اور اے ذات ازلی! جو تمام چیزوں کے فنا ھونے کے بعد بھی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے باقی رھے گا۔
ابتداء اور آخر صفت ”کل شیءٍ“ کی ایک اصطلاح ھے۔ تمام چیزیں اول اور آخر نیز ابتداء اور انتھا رکھتی ھیں اور اس ابتداء و انتھا میں دو حقیقتیں ھیں جن کو تو نے ھر مخلوقات کے لئے قرار دے رکھا ھے۔ ابتداء کا ھونا اس بات کی دلیل ھے کہ یہ موجودات ایک دن نھیں تھیں، تو نے ان کو لباس خلقت سے آراستہ کیا، اور آخر ھونا اس بات کی دلیل ھے کہ یہ تمام چیزیں ایک دن فنا کی چادر اوڑھ لےںگی اور تیری ھی ذات ان کو فنا دے گی۔ لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ تو ”کل شیءٍ“ سے پھلے تھا اور ”کل شیءٍ“ کے بعد بھی باقی رھے گا، اور تیرے بعد کوئی چیز نھیں رھے گی۔
یٰا اٴَوَّلَ الْاٴَوَّلینَ،وَیٰا آخِرَالْآخِرینَ۔
”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَھْتِکُ الْعِصَمَ “۔
” خدایا میرے ان تمام گناھوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ھیں“۔
گناہ
وہ اعمال و افعال، حالات ورفتار اور وہ اخلاق و کردار جو خداوندعالم اور انبیاء و ائمہ معصومین علیھم السلام کے احکام کے خلالف ھوں ؛ ان کو گناہ شمار کیا جاتا ھے۔
بعض گناھوں کی شدت اور جرم اس قدر زیادہ ھے جن کو انجام دینا خدا و رسول سے جنگ کرنے کے برابر قرار دیا گیا ھے[23]
جو انسان اس دنیا میں گناہ کرتا ھے وھی روز قیامت میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے آتش جھنم بن کر گناھگارکے ساتھ ساتھ رھےں گے:
” إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا۔۔۔“[24]
”جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموںکا مال کھاجاتے ھیںوہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رھے ھیں“۔
گناہ کرنا، خدائے رحمن و کریم کے دسترخوان پر نمک کھا کر نمک دان توڑ دینے کی طرح ھے۔
زندگی بھر نمک کھاکر نمک دان کو توڑنا بہت بے انصافی ھے۔
نمک کھاکر نمک دان توڑدینے والی حکایت
یعقوب لیث، سیستان کی مشھور و معروف شخصیت، جس نے خونخوار اور ظالم عباسی حکومت کے خلاف انقلاب کی بنیاد ڈالی، شروع میں” مسگر“ (تانبے کے برتن بنانے والے) کے علاوہ کچھ نھیں تھے۔
کافی دنوں تک اپنے کام میں مشغول رھے اور اپنے حاصل کردہ پیسہ کو فراخ دلی سے اپنے نوجوان دوستوں کو کھلاتے رھے۔
اس کی سخاوت اور شجاعت کی وجہ سے کچھ جوان بھادر اور محنت کش بھی اس کے پاس آگئے۔
اپنے اس ساتھی کی وجہ سے اس نے اپنا کام چھوڑ دیا ، اور ایک دوسرا کام شروع کردیا، لیکن کچھ مدت کے بعد ھی اس کام کو بھی چھوڑ دیا اور سیستان کے حاکم یا امیر کے مال پر نگاہ جمالی اور اس کے مال میں خیانت کرنے کا پروگرام بنالیا۔ لیکن چونکہ امیرکی طرف مال کی حفاظت کے لئے سخت محافظ قرار دئے گئے تھے، لہٰذا ایسا کرنا ممکن نھیں تھا، پروگرام یہ بنایا کہ بیرون شھر سے ایک سرنگ اس کے خزانہ تک کھودی جائے جس کے ذریعہ اس کا سارا مال حاصل کرلیا جائے۔
سرنگ کھودنے میں چھ مھینے لگ گئے، آخر کار وہ اس کے خزانہ تک پھنچ گیا اور ایک سوراخ کے ذریعہ خزانہ میں وارد ھوگیا تمام سونا، چاندی اور قیمتی جواھرات ، درھم و دینار آھستہ آھستہ مختلف بوریوں میں بھر لیا اور کسی محافظ و نگھبان کو خبر تک نہ ھوئی ، سرنگ کے ذریعہ ان کو باھر لا ھی رھا تھا کہ اس آدھی رات میں یعقوب کی نگاہ ایک چمکتی ھوئی گوھر جیسی چیز کی طرف رکی۔لیکن چونکہ کافی اندھیرا تھا اس کو نہ پہچان سکا، زبان سے چھک کر دیکھا تو بہترین چمکتا ھوا نمک تھا، اس موقع پر اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو حکم دیا کہ تمام مال کو یھیں چھوڑدو اور خالی ھاتھ یھاں سے نکل چلو۔
اس کے تابع اور مطیع جوانوں نے تمام مال کو وھیں چھوڑ ا او رخالی ھاتھ شھر سے باھر آگئے، اور جب یعقوب سے اس کام کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ اگرچہ میں نے خزانہ تک پھنچنے کے لئے چھ مھینہ تک بہت زیادہ زحمت اٹھائی ھے اور چاہتا تو اس کا سارا مال لے جاتا، لیکن چونکہ میں نے امیر سیستان کا نمک کھالیا ھے لہٰذایہ میری غیرت اور انصاف سے دور ھے کہ اس کا نمک کھاکر اس کے مال کو غارت کرڈالوں!!
ادھر جب محافظوں نے خزانہ کا دروازہ کھوالا تو وھاں کی حالت دیکھ کر خصوصاً وھاں پر موجود سونا چاندی او ردرھم و دینار کو دیکھ کر مبھوت رہ گئے اور اس کی رپورٹ امیر سیستان کو دی۔ امیرنے یہ واقعہ سن کر شھر میں اعلان کرادیا کہ جس نے بھی یہ کام کیا ھو وہ اپنے کو امیر کے سامنے حاضر کردے تاکہ امیر اس کو بہترین انعامات سے نوازے۔
ادھر جب یعقوب نے امیر کا یہ اعلان سنا تو فوراً امیر کے پاس پھنچے، اور کھا کہ میں نے تمھارا نمک کھالیاتھا، لہٰذا نمک کھاکر نمک دان توڑنا میری غیرت کے خلاف تھا۔
جب امیر سیستان نے ایسے شجاع، بھادر، محنتی ، انصاف پسند جوان کو دیکھا تو بہت خوش ھوا اور اس کو سیستان کے لشکر کا امیر بنادیا، اسی وقت سے یعقوب نے وھیں سے ترقی کرنا شروع کردی یھاں تک کہ عباسیوں کی ظالم حکومت سے مظلومین کو نجات دلانے کی کوششیں شروع کردیں اور ایک انقلاب کی بنیاد ڈالدی۔
گناہ ،ایک معنوی نجاست ھے جس کی وجہ سے انسان کی روح و جان اور خیال و فکر اور دل گندا ھوجاتا ھے ، جس کی بنا پر انسان رحمت الٰھی، لطف خداوندی اور فیض الہٰی سے محروم ھوجاتا ھے۔
گناہ کی وجہ سے انسان سے حفاظت کرنے والاعذاب و ذلت کا پردہ پھٹ جاتا ھے، جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں اس کے اسرار اور راز فاش ھوجاتے ھیں، اور وہ بندگی کی منزل سے خارج ھونے لگتا ھے، نیز خداوندعالم کی بخشش و مغفرت اور اس کی پردہ پوشی سے دور ھوتا چلا جاتا ھے!
علماء اسلام نے قرآن مجید اور معصومین علیھم السلام کی احادیث کے پیش نظر گناھوں کی دو قسمیں بیان کی ھیں:
۱۔ گناہ کبیرہ۔
۲۔ گناہ صغیرہ۔
گناہ کبیرہ وہ گناہ ھیں جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے کہ خدا ان گناھوںکے بدلے دوزخ کو واجب کردیتا ھے۔[25]
اگر انسان گناہ کبیرہ سے دور رھے اور اس خطرناک وادی میں قدم نہ رکھے اور دامن انسانیت کو آلودہ نہ کرے تو خداوندعالم اس کے دوسرے گناھوں سے در گزر کرجاتا ھے اور اس پر اپنی رحمت و مغفرت نازل فرماتا ھے:
”إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا“[26]
”اگر تم بڑے بڑے گناھوںسے جن سے تمھیں روکا گیا ھے پرھیز کرلو گے تو ھم دوسرے گناھوںکی پردہ پوشی کردیں گے اور تمھیں باعزت منزل تک پھنچا دیں گے“۔
کتاب گرانقدر ”عیون اخبار الرضا(ع)“ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ھے کہ امام علیہ السلام نے گناھان کبیرہ کی فھرست اس طرح بیان فرمائی:
۱۔ نفس محترم کا قتل کرنا۔
۲۔ زنا۔
۳۔ چوری۔
۴۔ نشہ آور چیزیں کھانا۔
۵۔ عاق والدین ھونا۔
۶۔جنگ سے بھاگنا۔
۷۔ناجائز طریقہ سے مال یتیم کھانا۔
۸۔مردار ، خنزیر اور جس جانور پر ذبخ کرتے وقت غیر خدا کا نام لیا گیا ھو اس کا گوشت کھانا۔
۹۔سود۔
۱۰۔مال حرام کھانا۔
۱۱۔قمار بازی (جُوا)۔
۱۲۔کم تولنا۔
۱۳۔کسی پاک دامن پر تھمت لگانا۔
۱۴۔لواط۔
۱۵۔رحمت خدا سے مایوس ھونا۔
۱۶۔اپنے کو عذاب خدا سے محفوظ گرداننا۔
۱۷۔ظالموں کی مدد کرنا۔
۱۸۔ستمگروں سے دلی لگاؤ رکھنا۔
۱۹۔جھوٹی قسم کھانا۔
۲۰۔بغیر تنگدستی کے حقوق الناس کو ادا نہ کرنا۔
۲۱۔جھوٹ۔
۲۲۔تکبر۔
۲۳۔اسراف۔
۲۴۔ تبذیر (فضول خرچی کرنا)۔
۲۵۔خیانت کرنا۔
۲۶۔حج کو سبک اور کم اھمیت قرار دینا۔
۲۷۔اولیاء اللہ سے جنگ کرنا۔
۲۸۔بے فائدہ اور بے ھودہ کھیلوں میں مشغول رھنا۔
۲۹۔گناھوں پر اصرار کرنا۔[27]
گناھوں کے برے آثار
قرآنی آیات اور روایات معصومین علیھم السلام کے پیش نظر گناھوں کے برے آثار کو درج ذیل عناوین کے تحت بیان کیا جاسکتا ھے:
گناہ کے ذریعہ انسان کے نیک اعمال نابود ھوجاتے ھیں۔ گناہ کی وجہ سے انسان دنیاوی بلاؤں اور اُخروی درد ناک عذاب میں مبتلا ھوجاتا ھے۔ گناہ کی وجہ سے انسان کی دعا قبول نھیں ھوتی۔ گناہ کی وجہ سے انسان شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے محروم ھوجاتا ھے۔ گناہ دل کو سخت و تاریک بنادیتے ھیں۔ گناہ کی وجہ سے ایمان ختم ھوجاتا ھے۔ گناہ کی وجہ موعظہ و نصیحت بے اثر ھوجاتے ھیں۔ گناہ انسان کو ذلیل و رسوا کردیتے ھیں۔ گناہ کی وجہ انسان رزق الٰھی سے محروم ھوجاتا ھے۔ گناہ انسان کو منزل عبادت اور بندگی سے دور کردیتی ھے۔ گناھوں کی وجہ سے انسان پر شیطان کے مسلط ھوجانے کا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔ گناہ کی وجہ سے گھر، خاندان اور اجتماعی زندگی میں پریشانیاں پیدا ھوجاتی ھے۔ گناہ کی وجہ ایک دوسرے پر اعتماد اور اطمینان کا خاتمہ ھوجاتا ھے۔ گناہ دل پر قبضہ کرلیتا ھے۔ گناہ کی وجہ سے انسان کو جان کنی کی حالت، فشار قبر اور برزخ میں سختی اور پریشانی ھوتی ھے۔[28]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے :
” اٴَمَا اِنَّہُ لَیسَ مِن عِرقٍ یَضْربُ وَلا نَکْبَةٍ وَلاصُداعٍ وَلا مَرَضٍ الّا بِذَنبٍ وَذَلِکَ قَولُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِی کِتابِہِ: ” وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ[29]
”کوئی بھی رگ نھیں کٹتی اور کبھی ٹھوکر نھیں لگتی اور کسی کے سر میں درد نھیں ھوتااسی طرح کوئی بیماری یا مرض انسان کو نھیں ھوتا مگر یہ کہ انسان کے گناھوں کی وجہ سے۔ اسی وجہ سے خداوندعالم نے قرآن [30]مجید میں ارشاد فرمادیا ھے:”اور تم تک جو مصیبت بھی پھنچتی ھے وہ تمھاری ھی وجہ سے ھے اور وہ بہت سی باتوںکو معاف بھی کردیتا ھے “۔
اسی طرح امام علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:
”انّ الرَّجُلَ یُذنِبُ الذَّنبَ فَیُحْرَمُ صَلَاةَ اللَّیلِ وَاِنَّ العَمَلَ السَّیِّیٴَ اٴَسْرَعُ فِی صاحِبِہِ مِن السِّکِینِ فِی اللَّحْم “[31]
”بے شک جب انسان گناھوں کا مرتکب ھوتا ھے تو خداوندعالم اس کو نماز شب پڑھنے کی توفیق سے محروم کردیتا ھے، گناہ کا اثر گوشت پر چاقو کی دھار سے تیز ھوتا ھے“۔
حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:
” اٴَوحَی اللهُ عَزَّوَجَلَّ الَی نَبیٍّ مِنَ الَانبِیاءِ:اِذا اٴُطِعْتُ رَضِیتُ ،وَاِذا رَضِیتُ بَاَرکْتُ،وَلَیْسَ ِلبَرَکَتِی نِھایَةٌ وَاِذا عُصِیتُ غَضِبْتُ،وَاِذاغَضِبتُ لَعَنتُ،وَلَعْنَتی تَبْلُغُ السَّابِعَ مِن الوَرَی “[32]
”خداوندعالم نے اپنے پیغمبر پر وحی نازل فرمائی کہ جب کوئی شخص میری اطاعت کرتا ھے تو میں خوشنود ھوتا ھوں اور جب خوشنود ھوتا ھوں تو اس شخص کے لئے برکت قرار دیتا ھوں جبکہ میری برکت بے نھایت ھے۔ اور اگر کوئی شخص میری نافرمانی و معصیت کرتا ھے تو ناراض ھوتا ھوں اور جب ناراض ھوتا ھوں تو اس پر لعنت کرتا ھوں اورمیری لعنت سات پشتوں تک شامل رہتی ھے“۔
یہ بات تجربہ سے ثابت ھوئی ھے کہ جب نیک افراد پر غربت و ناداری، بیماری و ناتوانی یا رزق کی قلت جیسی بلائیں نازل ھوتی ھیں تو یہ بھی ان کے لئے خدا کا ایک لطف و کرم ھوتا ھے تاکہ دوسروں کی طرح گناہ اور طغیان میں مبتلا نہ ھوں۔
گناہ پر اصرار (یعنی ایک گناہ کو بار بار انجام دینے) کے بارے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ھے:
”خداوندعالم ھر بندہ کی حرمت کے لئےچالیس پردہ قرار دیتا ھے، مگر یہ کہ جب انسان چالیس گناھوں کا مرتکب ھوجاتا ھے، (تو اس کے وہ پردہ ختم ھوجاتے ھیں) اس وقت خداوندعالم اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ھے کہ اپنے پروں سے میرے بندے کو چھپالو۔ چنانچہ فرشتے اپنے بالوں سے اس کو چھپائے رکھتے ھیں، مگر وہ شخص گناھوں پر گناہ بجالاتا رہتا ھے یھاں تک کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے گناھوں پر فخر کرتا ھے، اس وقت فرشتے کہتے ھیں: پالنے والے! یہ تیرا بندہ ھر گناہ کا مرتکب ھوتاجاتا ھے اور ھمیں شرم آتی ھے۔ خداوندعالم ان پر وحی نازل کرتا ھے کہ اپنے پروں کو ہٹالو۔ اور جب نوبت یھاں تک پھنچ جاتی ھے تو اس وقت وہ شخص اھل بیت (علیھم السلام) سے دشمنی کرنا شروع کردیتا ھے، اس وقت زمین وآسمان میں اس کی حرمت و عظمت کا پردہ چاک چاک ھوجاتا ھے۔ اس وقت فرشتے کہتے ھیں : پروردگارا! تیرے بندہ کا پردہ پارہ پارہ ھوچکا ھے، اس وقت وحی الٰھی نازل ھوتی ھے کہ اگر خدا اس پر توجہ رکھتا تو تمھیں پروں کے ہٹا لینے کا حکم ھی نھیں دیتا![33]
وہ باتقویٰ اور پاکدامن انسان جو ھمیشہ یاد خدا اور قیامت پر توجہ رکھتا ھے اور گناھوں کے برے آثار سے ظاھر اور مخفی طریقہ سے دوری اختیار کرتا ھے وہ زندہ ھے، لیکن خداوند عالم قیامت اور انجام گناہ سے نہ ڈرنے والا گناھگار شخص مردہ ھے۔[34]
جن گناھوںکے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ھے:
محدث بزرگوار شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”معانی الاخبار“ میں گناھوں کے برے آثار کے سلسلے میں ایک بہت اھم حدیث بیان کرتے ھیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ھوا ھے کہ جس کے ایک حصہ کو دعاء کمیل کے ”اللھم اغفر الی الذنوب“ سے شروع ھونے والے جملوں کی وضاحت میں فرمایا:
جن گناھوں کے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ھے وہ درج ذیل ھیں:
۱۔ نشہ آورچیزیں پینا۔
۲۔ جُوا کھیلنا۔
۳۔بے ھودہ کاموں اورلوگوں کو ھنسانے کے لئے بے جا مذاق میں مشغول رھنا۔
۴۔ دوسروں کے عیوب بیان کرنا۔
۵۔ گناہ و بدکاری سے متھم افراد کی ھم نشینی۔
شراب خوری:
حضرت امام موسیٰ کاظم ، و امام رضااور امام محمد تقی علیھم السلام نے شراب پینے کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا ھے۔
عصر حاضر کے مغربی و مشرقی دانشوروں اس بات کے قائل ھیں کہ نشہ آور اشیاء چاھے کم ھو یا زیادہ انسان کے دل و دماغ اور معدہ اور پھیپڑوں نیز سانس کی نالی اور خون کی روانی میں خطرناک اثرات پیدا کرتی ھیںجو اس کی اولاد میں بھی پھنچتے ھیں، اور بعض اوقات تو ان کا علاج کرنا ناممکن ھے، جس کے نتیجہ میں شراب پینے والے کی ھلاکت یقینی ھوجاتی ھے۔
”شیطانی بوٹل“ یعنی شراب ایک بہت خطرناک شیطان اور جانی دشمن ھے اور شرعی لحاظ سے نجس ھے۔
قرآن مجید نے سیال نشہ آور اشیاء کو ناپاک، رجس اور شیطانی کاموں میں شمار کیا ھے۔[35] اور اس کے فائدہ کو اس نقصان کے مقابلہ میں بہت کم اور ناچیز شمار کیا ھے۔[36]لہٰذا شراب انھیںنا قابل تلافی خطرات کی بنا پر تمام لوگوں پر حرام کی گئی ھے اور شراب پینے والے کو اگر توبہ نہ کرسکے تو اس کو دنیا وی اور اُخروی عذاب سے دو چار ھونا پڑے گا۔
پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے شراب کے سلسلہ میں دس لوگوں پر لعنت کی ھے:
۱۔ جو کوئی شخص شراب بننے والی چیزوں کے درخت کو شراب کے لئے لگائے۔
۲۔ جو شخص اس درخت کی دیکھ بھال کرے۔
۳۔ جو شخص شراب بنانے کے لئے انگور یا کسی دوسری چیز کا رس نکالے۔
۴۔ شراب پینے والا۔
۵۔ شراب پلانے والا۔
۶۔ جو شخص شراب کو اپنے کاندھے پر یا سواری پر رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے۔
۷۔ جو شخص اس لانے لے جانے والے سے لے کر رکھے۔
۸۔ شراب بیچنے والا۔
۹۔شراب خریدنے والا۔
۱۰۔ شراب سے حاصل شدہ منافع کو کھانے والا۔
روز قیامت شراب خوراس حال میں محشور کیا جائے گا کہ اس کا چھرہ سیاہ، منھ ٹیڑھا اور اس کی زبان پیاس کی شدت سے باھر نکلی ھوئی ھوگی، اس وقت اس کو زنا زادوں کی میل و گندگی گرنے والے کنویں سے پانی پلایا جائے گا۔[37]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”شراب خوری بت پرستی کے برابر ھے“۔[38] شراب خوار روز قیامت کافر محشور کیا جائے گا“۔[39] ”شراب خواری تمام گناھوں کی بنیاد ھے“۔[40]
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی نظر میں شراب خوری؛ چوری اور زنا سے بدتر ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ھاں؛ کیونکہ زنا کرنے والا شاید کوئی دوسرا گناہ نہ کرے، لیکن شراب پینے والا جب شراب پی لیتا ھے تو وہ زنا بھی کرسکتا ھے، کسی کو قتل بھی کرسکتا ھے اور نماز کو بھی ترک کردیتا ھے۔[41]
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
”جو شخص شراب پئے در حالیکہ مجھ سے اس کی حرمت کے بارے میں سن چکا ھو ، تو اگر ایسا شخص کسی لڑکی سے رشتہ لے کر آئے تو اس کو مثبت جواب دینا سزاوار نھیں ھے، شراب پینے والے کی سفارش قابل قبول نھیں ھے، اس کی بات کی تصدیق نہ کی جائے۔ اس کو کسی چیز پر امانت دار بھی نہ بنایا جائے، لہٰذا اگر ایسے شخص کو کوئی امانت دی جائے تو خدا کی طرف سے کوئی ضمانت نھیں ھے“۔[42]
قمار بازی (جوا کھیلنا)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک روایت کے ضمن میں قمار بازی کو گناہ کبیرہ شمار کیا ھے۔[43]
قرآن مجید نے نے صرف قمار بازی اور شراب کو گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
” یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ۔۔۔“(۴)
”یہ آپ سے شراب اور جوے کے بارے میںسوال کرتے ھیں تو کھے دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ھے۔۔۔ “۔
قمار بازی کے تمام وسائل و سامان بنانا، اور ان کے بنانے پر اجرت لینا نیز ان کی خرید و فروخت حرام ھے۔
بہت سے شیعہ فقھاء کرام کے نزدیک قمار بازی بغیر کسی شرط کے بھی شرعی حیثیت نھیں رکھتی ھے۔
ان وسائل کا رکھنا حرام اور ان کو نابود کرنا ضروری ھے۔
قمار بازی کو دیکھنا ،وھاں بیٹھنا حرام اور اس جگہ کو ترک کردینا واجب شرعی ھے۔
لوگوں کے ھنسانے کے لئے بے ھودہ کام انجام دینا
بے ھودہ کام سے مراد ایسے اعمال وافعال ھیں جن کے کرنے سے دنیاوی یا اُخروی کوئی فائدہ نہ ھو، صرف انسان کا وقت برباد ھوتا ھے۔ انسان کی عمر کاایک لمحہ لاکھوں اور کر وڑوں اسباب کی باھم کارکردگی کی بنا پر حاصل ھوتا ھے۔
بے شک اپنی عمر برباد کرنا کفران نعمت ھے۔ کیونکہ انسان کی عمر خداوندعالم کی عطا کردہ ایک عظیم اور مفید نعمت ھے اور اس عظیم الشان نعمت کا شکر یہ ھے کہ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ خداوندعالم کی عبادت و بندگی ، اور حصول علم و دانش نیز بندگان خدا کی خدمت میں گزارا جائے۔
محدث قمی اپنی کتاب ”منازل الآخرة“ میں ایک حکایت نقل کرتے ھیں:
ابن صمد نامی شخص شب و روز اپنے وجود کا حساب کرتا تھا، اپنے زندگی کے گزرے ھوئے دنوں کو شمار کرتا تھا ، اور جب اس کے لحاظ سے اس کی عمر ساٹھ سال ھوگئی اس کے دنوں کو شمار کیا تو ۲۱۹۰۰ ھوگئے تو اس نے ایک فریاد بلند کی کہ اگر میں نے ھر روز بھی ایک گناہ کیا ھو تو ۲۱۹۰۰ گناہ ھوگئے ھیں اور میں اس قدر گناھوں کے ساتھ خدا سے ملاقات کروں گا، یہ کہتے ھی بے ھوش ھوکر زمین پرگر پڑا اور اسی حالت میں اس دنیا سے چل بسا۔
دوسروں کے عیوب بیان کرنا
مسلمین اور مومنین کی عزت و آبرو کی حفاظت ایک بہت اھم فریضہ ھے جس پر اسلام نے بہت زیادہ توجہ دی ھے یھاں تک کہ اسلامی تعلیمات کے پیش نظر مومن کی عزت و آبرو اس کے خون کے برابر قرار دی گئی ھے:
”عرض المومن کدمہ“
”مومن کی عزت اس کے خون کی طرح ھے“۔
لوگوںکی آبرو کے ختم ھونے سے اطمینان و اعتماد کی عمارت ویران ھوجاتی ھے، گھریلو زندگی اورمعاشرہ کا نظام درھم و برھم ھوجاتا ھے جس سے مسلمانوں کے امور میںخلل پیدا ھوجاتا ھے۔
فقط انبیاء اور ائمہ علیھم السلام نیز اولیاء اللہ بے عیب اور کامل انسان ھیں۔ ان کے علاوہ تمام انسانوں میں عیوب ھوتے ھیں جن کوسبھی چھپاتے ھیں۔
البتہ بعض ایسے بے شرم افراد ھوتے ھیںجو دوسروں کے سامنے اپنے عیب بیان کرتے ھوئے فخر کرتے ھےںاور ان کے بیان کرنے پر ان کو کوئی تکلیف نھیں ھوتی، لیکن اکثر لوگ اپنی عزت و آبرو کے قائل ھیں اور اپنی عزت و آبرو کو پامال کرنے پر راضی نھیں ھوتے۔
پس جو شخص دوسروں کے عیب بیان کرتا ھے، چاھے وہ جسمانی عیب ھوں یا عملی و اخلاقی یا مالی ھوں یا دینی و دنیاوی ھوں، وہ شخص دوسروں کو بے آبرو کرتا ھے اور ان کی ذلت وخواری کا باعث بنتا ھے، اوراپنے کو ایک بہت بڑے گناہ میں ملوث کرتا ھے اور قیامت کے درد ناک عذاب و رسوائی کا مستحق ھوتا ھے۔
حضرت امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھما السلام سے روایت ھے :
”اٴَقْرَبُ ما یَکونُ العَبدُ اِلَی الکُفْرِ اٴَن یُواخِیَ الرَّجُلَ عَلَی الدِّینِ فَیُحْصِی عَلَیْہِ عَثَراتِہِ وَزَ لَّاتِہِ لِیُعَنِّفَہ بِہَا یَوماً مَا “[44]
”انسان کو سب سے زیادہ کفر سے نزدیک کرنے والی چیز یہ ھے کہ دینی بنیاد پر اپنے کسی برادر کی خطا و گناھوں کو شمار کرتا رھے تاکہ موقع آنے پر ان کے لحاظ سے اس کی ملامت و مذمت کرے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت کی ھے کہ آنحضرت نے فرمایا:
”یَا مَعْشَرَ مَن اٴَسْلَمَ ِبلِسَانِہِ وَلَمْ یُخْلِصِ الإیمَانَ إِلَی قَلْبِہِ لَاتَذُمُّو الْمُسلِمِینَ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِہِم ، فَإِنَّہُ مَنْ تَتَبَّعَ عَورَاتِہِم تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَہُ ،وَمَنْ تَتَبَّعَ الله تَعَالَی عَوْرَتَہُ یَفْضَحہُ وَلَوْ فِی بَیْتِہِ “[45]
”اے وہ گروہ! جنھوں نے فقط زبان سے اسلام قبول کیا ھے جبکہ ان کے دل ایمان سے خالی ھیں، مسلمانوں کی سرزنش نہ کرو اور ان کے عیوب کو تلاش نہ کرو، کیونکہ جو کوئی بھی ان کے عیوب کو تلاش کرے گا تو اس کے عیوب کو خدا تلاش کرے گا، اور جس کے عیوب کی تلاش خداوندعالم کرے اگرچہ وہ گھر ھی میں کیوں نہ ھو تو اس کو رسوا کردے گا“۔
گناہ سے متھم افراد کے ساتھ ھمنشینی
انسان پر صحبت کا اثر دوسری چیزوں کی نسبت زیادہ ھوتاھے۔ انسان کے وجود میں ھمنشینی اور صحبت کا اثر سب چیزوں سے زیادہ ھے؛ اسی وجہ سے قرآن مجید او رآئمہ معصومین علیھم السلام کی روایات میں دوست اور ھم صحبت کے انتخاب کے لئے انسان خصوصاً اھل ایمان کے لئے تاکید کی گئی ھے۔
ان تمام چیزوں کی واقعیت بیان کرنے نیز آیات و روایات کی توضیح و وضاحت کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ھے، کہ الحمد لله علماء اسلام نے اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں لکھی ھیں۔
قرآن کریم و روایات معصومین علیھم السلام نے؛ لوگوں کوکفار، مشرک، فاسق و فاجر نیز یھود و نصاری بلکہ گناہ و معصیت سے متھم افراد کی دوستی سے منع فرمایا ھے، تاکہ ھم صحبت کے اخلاق اور شیطانی عقائد اس انسان میں موٴثر نہ ھونے پائیںاور اس کو رحمت الٰھی سے دور نہ کردیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
” لَا یَنْبَغِی لِلْمُوٴْمِنِ اٴَنْ یَجْلِسَ مَجْلِساً یُعْصَی اللهُ فِیہِ وَلَایَقْدِرُ عَلَی تَغْیِیِرِہِ “[46]
”کسی بھی مومن کے لئے سزاوار نھیں ھے کہ ایسی جگہ جائے جھاں پر خدا کی نافرمانی ھوتی ھو اور اس کی اصلاح نہ کرسکتا ھو“۔
ابو ھاشم جعفری کہتے ھیں : حضرت امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: تم کیوں عبد الرحمن بن یعقوب کے پاس اٹھتے بیٹھتے ھو؟ میں نے کھا کہ وہ میرے ماموں ھیں۔ تب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ خدا کے بارے میں ناسزا اور غیر قابل قبول باتیں کہتا ھے، ”ایسی باتیں جو قرآنی آیات اور اھل بیت (علیھم السلام) کی تعلیمات سے ھم آھنگ نھیں ھیں“۔ خدا کو دوسری چیزوں کی طرح توصیف کرتا ھے۔ لہٰذا یا اس کے ساتھ ھم نشینی کرو یا پھر ھمیں چھوڑدو یا ، یا ھمارے ساتھ ھم نشینی کرو اور اس کو ترک کردو۔
میں نے عرض کیا: وہ کچھ بھی کھے ھمیں تو کوئی نقصان نھیں پھنچتا، جب میں اس کی بات کی تائید نھیں کرتا ھوں تو مجھ پر کوئی ذمہ داری نھیں ھے۔
تب امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمھیں اس بات کا خوف نھیں ھے کہ اس پر عذاب الٰھی نازل ھوجائے اور ساتھ میں تمھیں بھی لپیٹ لے!! کیا تم نے یہ واقعہ نھیں سنا کہ ایک شخص جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے دوستوں میں سے تھا اور اس کا باپ فرعون کے دوستوں میں سے تھا، جس وقت فرعون کا لشکر دریاکے کنارے حضرت موسیٰ(ع) اور ان کے اصحاب کے پاس پھنچا وہ بیٹا جناب موسیٰ سے جدا ھوا تاکہ اپنے باپ کو نصیحت کرے، اور پھر پلٹ کر جناب موسیٰ(ع) کے ساتھ ھوجائے، لیکن اس کا باپ فرعون کے باطل راستہ پر چلتا رھا اور یہ بیٹا اسے دین کی باتیں بتا رھا تھا یھاں تک کہ دونوں دریا کے کنارے پھنچ گئے، اور دونوں غرق ھوگئے، چنانچہ جب جناب موسیٰ کو خبر ھوئی اس وقت انھوں نے فرمایا: اس پر خدا کی رحمت نازل ھورھی ھے ، لیکن جب عذاب آتا ھے جو شخص گناھگار کے پاس ھوتا ھے اس کا دفاع نھیں ھوسکتا۔[47]
” مَن کَانَ یُوٴْمِنُ بِاللهِ وَالْیُوٴْمِ الآخِرِ فَلَا یَقُومُ مَکَانَ رِیبَةٍ “[48]
”جو شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ھے اس کو چاہئے کہ مقام تھمت و شک سے دور رھے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:
” مَن قَعَدَ عِنْدَ سَبَّابٍ لِاٴَوْلِیَاءِ اللهِ فَقَدْ عَصَی اللهَ تَعَالَی “[49]
” جو شخص اولیاء اللہ کو گالی دینے والوں کے پاس بیٹھے بے شک وہ خدا کا نافرمان ھے“۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اپنی دوستی کو اھل گناہ و معصیت سے کینہ و دشمنی کے ذریعہ ظاھر کرو، اور اس سے دور ھوکر خدا سے نزدیک ھوجاؤ اور خدا کی خوشنودی کو اس طرح کے لوگوں کی ناراضگی کے بدلے حاصل کرو۔ چنانچہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کس کے ساتھ ھم نشینی کریں؟تو فرمایا: اس شخص کے ساتھ جس کو دیکھنے کے بعد خدا کی یاد آجائے، اور اس کی گفتگو تمھارے علم میں اضافہ کرے، اور تمھیں آخرت کی طرف رغبت دلائے۔[50]
جی ھاں ! تقویٰ اور پاکدامنی، ورع و زھد، صداقت و درستی، عبادت و خدمت جیسے پردے ؛ انسان اور عذاب خدا کے درمیان مانع ھوتے ھیں، اور یہ پردے اس وقت مستحکم ھوجاتے ھیں جب انسان شراب پینے، قمار بازی، دوسروں کے عیوب بیان کرنے اور متھم افراد سے ھم نشینی وغیرہ سے پرھیز کرے؛ لیکن اگر خدا نخواستہ شیطانی وسوسوں کا شکار ھو کر گناہ سرزد ھوجائے تو اس نے گویا ان پردوں اور حجابات کو پارہ پارہ کردیا ھے، اور بلا و مصیبت کے نازل ھونے کا راستہ ھموار کرلیا ھے۔
”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ “۔
” ان گناھوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ھوتے ھیں“۔
جن گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھیں:
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے ایک اھم روایت میںنو گناھوں کو بلا نازل ھونے کا سبب قرار دیا ھے:
۱۔ بغی۔(حق کے مقابلہ میں سرپیچی کرنا)
۲۔ حقوق الناس کو پامال کرنا۔
۳۔ بندگان خدا کا مذاق اڑانا۔
۴۔ عھد و پیمان توڑدینا۔
۵۔ کھلم کھلا گناہ کرنا۔
۶۔ جھوٹی چیز مشھور کرنا۔
۷۔ حکم خدا کے بر خلاف قضاوت اور فیصلے کرنا۔
۸۔ زکوٰة ادا نہ کرنا۔
۹۔ ناپ و تول میں کمی کرنا۔[51]
بغی:
لفظ ”بغی“ لغت میں حق سے سر پیچی اور حدود الٰھی سے تجاوز، لوگوں پر ظلم وستم، معصیت و گناہ، فساد اور زنا کے معنی میں ھے، چنانچہ قرآن مجید اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے مروی روایات میں موجود ھے:
” اِٴنَّ قَارونَ کانَ مِن قَوْمِ موسَیٰ فَبَغَیٰ عَلَیْھِمْ ۔۔۔“[52]
”بیشک قارون ، موسیٰ کی قوم میں سے تھا مگر اس نے قوم پر ظلم کیا۔۔“۔
”وَلَوْبَسَطَ اللّہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِی الاٴَرْضِ ۔۔۔۔“[53]
”اگر خدا تمام بندوں کے لئے رزق کو وسیع کردیتا تو یہ لوگ زمین میں بغاوت کردیتے۔۔“۔
”یا اٴُخْتَ ھارُونَ ما کاَنَ اٴَبُوکِ امْرَاٴَ سَوْءٍ وَمَا کانَتْ اٴُمُّکِ بَغِیّاً “[54]
”اے ھارون کی بھن نہ تمھارا باپ بُرا تھا اور نہ تمھاری ماں بد کار تھی “۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:
” اِٴنَّ اٴَسْرَعَ الْخَیرِ ثَوَاباً البِرُّ وَاِٴنَّ اٴَسْرَعَ الشَرِّ عِقَاباً البَغیُ “[55]
”بے شک کہ سب سے جلدی ثواب ملنے والی نیکی ، دوسروں کے ساتھ نیکی و بخشش اور اچھائی کرنے والی نیکی ھے اور جلد بلا نازل ھونے والی برائی بھی دوسروں پر ظلم و ستم اور تجاوز ھے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
” سِتَّةٌ لاَتَکونُ فِی المُوٴْمِنِ:العُسْرُ وَ النَّکَدُ وَاللَّجَاجَةُ وَالکِذْبُ وَالحَسَدُ وَالبَغْیُ“(۳)
”مومن میں چھ برے صفات نھیں ھوتے، عجز ودر ماندگی، خساست و کم خیر ھونا، لجاجت اور سرسختی، جھوٹ، حسد اور دوسروں پر ظلم و تجاوز کرنا“۔
حقوق الناس کا پامال کرنا
خداوندرحمن و مھربان نے عوام الناس میں ایک دوسرے کے حقوق قرار دئے ھیں جن کو ادا کرنا لازم و ضروری ھے، اور ان سے تجاوز کرنا خدا کی معصیت اور سبب نزول بلا ھے۔
ماں باپ کا حق اولاد پر، اولاد کا حق ماں باپ پر، رشتہ داروں پر ایک دوسرے کے حقوق، پڑوسی کا حق، حکومت پر عوام الناس کا حق، عوام الناس کا حق حکومت پر، شوھر کا حق زوجہ پر، زوجہ کا حق شوھرپر، ماتحت افراد کا حق صاحب نعمت پر، فقیر کا حق مالدار پر، اور ان کے علاوہ قرآن مجید اور احادیث میں بیان شدہ دوسرے حقوق۔
حقوق کے سلسلہ میں سب سے کامل اور بہترین کتاب؛ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا ”رسالہ حقوق“ ھے؛ چنانچہ اگر انسان اس رسالہ کا مطالعہ کرے تو حقوق کے سلسلہ میں بہترین معلومات حاصل ھوجائیں گی، جس کے بعد انسان ان حقوق کے ادا کرنے کی ذمہ داری محسوس کرتا ھے۔
ان حقوق سے تجاوز کرنا ایک مسلم گناہ اور یقینی معصیت ھے، اور اگر انسان ان کو ادا نہ کرے تو پھر عذاب و بلا ضروری اور یقینی ھیں۔
بندگان خدا کا مذاق اڑانا
بندگان خدا کا مذاق اڑانا ؛چاھے اس کی شکل و صورت کا مذاق بنائے یا اس کے فقر و غربت کا ، خواہ دینداری اور ایمان کے لحاظ سے ھو یا اس کے کام اور کاروبار کی وجہ سے یا کسی بھی دوسرے موقع و محل کی بنا پر؛ حقیقت میں ایک بہت بڑا گناہ اور عظیم معصیت ھے جس کی بنا پر دنیاوی اور اُخروی عذاب نازل ھوتا ھے۔
کسی کا مذاق اڑانا درحقیقت اس کی شخصیت کی توھین اور اس کو ذلیل و خوار کرنا ھے۔
قرآن مجید نے مذاق اڑانے والوں کو منافق، ستمگر اور مفسد کے نام سے یاد کیا ھے اور ان کو دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ھے:
” وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِہِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ“[56]
”جب یہ صاحبان ایمان سے ملتے ھیں تو کہتے ھیں کہ ایمان لے آئے اور جب اپنے شیاطین کی خلوتوں میں جاتے ھیں تو کہتے ھیں کہ ھم تمھاری ھی پارٹی میں ھیں ھم تو صرف صاحبان ایمان کا مذاق اڑاتے ھیں۔ “
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ خداوندعالم فرماتا ھے:
” مَن اٴَہَانَ لِی وَلِیّاً فَقَد اٴَرْصَدَ لِمُحَارَبَتِی “[57]
”جو شخص میرے دوستوں کی توھین کرے تو اس نے میرے ساتھ جنگ کی تیاری کی ھے!!“
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
جس وقت قیامت برپا ھوگی، ایک آواز آئے گی: میرے دوستوں سے منھ پھیرنے والے کھاں ھیں؟ اس آواز کو سن کر کچھ لوگوں کا گروہ ظاھر ھوگا جن کے چھروں پر گوشت نھیں ھوگا۔ اس وقت کھا جائے گا : یہ وہ لوگ ھیں جنھوں نے اھل ایمان کو تکلیف پھنچائی ھے ،ان سے دشمنی کی ھے، ان سے بغض و عناد کیا ھے اور ان کے سامنے سختی اور شدت کے ساتھ ان کے دین میں سرزنش و ملامت کی ھے۔ اور اس کے بعدان کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ خداوندعالم کا فرمان ھے:
” قَد نَابَذَنِی مَن اٴَذَلَّ عَبدِی المُوٴْمِنَ “ [58]
جو شخص میرے مومن بندہ کو ذلیل کرے وہ کھلم کھلا مجھ سے جنگ کے لئے میدان میں نکل آیا ھے!!“
جی ھاں، لوگوں کا مذاق اڑانا، ان کا مسخرہ کرنا ؛ در حقیقت ان کی توھین کرنا اور ان کو روحی تکلیف دینا اور ذلیل کرنا ھے۔
قرآن مجید نے عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا مسخرہ کرنے سے منع کیا ھے، اور اگر مسخرہ کرنے والے اپنے اس برے کام سے توبہ نہ کریں تو ان کو ستمگر شمار کیا ھے[59]
عھد و پیمان توڑنا
عھد و پیمان اور ان کو وفاکرنا ، واقعاً دو اخلاقی اور انسانی صفات ھیں، قرآن مجید اور روایات معصومین علیھم السلام میں جن پر توجہ دی ھے، اور عھد وپیمان کو توڑنا گناہ و معصیت شمار کیا گیا ھے۔
عھد و پیمان اور ان کو وفا کرنے کے سلسلہ میں کوئی فرق نھیں ھے کہ وہ عھد و پیمان خدا یا پیغمبر یا امام(ع) کے ساتھ ھو یا عوام الناس کے ساتھ، اور وہ عھد و پیمان جو راہ عبادت، خدمت عوام، یا کاروبار و تجارت یا دوسرے کاموں میں کیا گیا ھو، تو اس پر وفا کرنا واجب شرعی اور اخلاقی ھے، اور ان کا توڑنا حرام اور عذاب خدا کا باعث ھے۔
ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:
”وَاٴَوْفُو ا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِٴذَا عَاھَدتُمْ۔۔۔“[60]
”اور جب کوئی عھد کرو تو اللہ کے عھد کو پورا کرو“۔
” الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْخَاسِرُونَ“[61]
”جو خدا کے ساتھ مضبوط عھد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ھیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ھے اسے کاٹ دیتے ھیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ھیں یھی وہ لوگ ھیں جو حقیقتاً خسارہ والے ھیں “۔
”وَاٴَوْفُوا بِالْعَھْدِ اٴِنَّ الْعَھْدَ کاَنَ مَسْئُولاً “[62]
”اور اپنے عھدوں کو پورا کرنا کہ عھد کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔
”یَااٴَ یُّھَا الَّذِیْنَ ء امَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ۔۔۔“[63]
”ایمان لانے والو!اپنے عھدو پیمان اور معاملات کی پابندی کرو“۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
” ثَلٰثٌ مَن کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقاً وَاِٴنْ صَامَ وَصَلَّی وَزَعَمَ اٴَنَّہُ مُسْلِمٌ :مَنْ إِذَا ائْتُمِنَ خَانَ،وَإِذَا حَدَّثَ کَذِبَ ، وَإِذَاوَعَدَ اٴَخْلَفَ۔“[64]
جس شخص میں تین صفات پائے جائیں وہ منافق ھے،(اگرچہ وہ نماز پڑھتا ھو روزہ رکھتا ھو اور خود کو مسلمان جانتا ھو): اگر اس کو کوئی امانت دی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے، اور جب کوئی گفتگو کرے تو اس میں جھوٹ بولے، اور جب کوئی وعدہ کرے تو وفا نہ کرے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
” مَن عَامَلَ النَّاسَ وَلَمْ یَظْلِمْہُم ،وَحَدَّثَہُم فَلَمْ یَکْذِبْہُمْ وََوَعَدَھُمْ فَلَمْ یُخْلِفْہُمْ ،فَہُوَ مِمَّن کَمُلَتْ مُرُوءَ تُہُ وَحُرِّمَتْ غِیْبَتُہُ وَظَہَرَ عَدْلُہُ وَوَجَبَتْ اٴُخُوَّتُہُ “[65]
”جو کوئی شخص اپنی رفتار میں لوگوں پر ستم نہ کرے اور گفتگو کے وقت جھوٹ نہ بولے، اور اپنے کئے ھوئے وعدوں کی خلاف ورزی نہ کرے، (تو وہ) ان لوگوں میں سے ھے جس کی مروّت کامل ھے اور جس کی غیبت حرام اور جس کی عدالت واضح ھے اور ایسے شخص کو اپنا دینی برادر سمجھنا چاہئے“۔
کھلم کھلا گناہ کرنا
قرآن مجید نے لوگوں کو برے کاموں اور آشکار و مخفی طریقہ سے گناہ کرنے سے منع کیا ھے۔[66]
کھلم کھلا سب کے سامنے معصیت و گناہ کرنا ، گناھگار کی انتھائی بے شرمی و بے حیائی کی دلیل ھے نیز قوانین اور اسلامی معاشرہ کی بے احترامی و بے ادبی ھے۔
اسلام معاشرہ کے ماحول کا آلودہ ھونا پسند نھیں کرتا، اور جو لوگ اسلامی معاشرہ کو گناہ و فساد سے آلودہ کرتے ھیں ، اسلام نے ان کے لئے سزا اور تعزیرات معین کی ھیں۔
دلسوز و آگاہ مومنین خصوصاً اسلامی حکومت کے کار گزاروں پر واجب ھے کہ ھر بدکار کی بدکاری، ھر خطا کار کی خطا اور بے شرمی کی ممکن صورت میں روک تھام کریں، تاکہ گناہ کے خطرناک جراثیم عوام الناس خصوصاً جوانوںمیں نہ پھیلنے پائیں۔امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا وجوب اسی وجہ سے ھے کہ معاشرہ سے گناہ کی خطرناک برائیاں ختم ھوجائیں۔
اگر مدارس اور گھر دونوں مل کر جوان طبقہ کی اسلامی طریقہ سے پرورش کریں ، تاکہ وہ ان کے لئے ایک ثابت اور قائم صفت بن جائے، تاکہ خلوت اور جلوت (ظاھر و مخفی جگہ میں)انسان برائیوں سے پاک رھے۔
حیا ، خدا پر توجہ اور گناہ کے سر انجام پر غور و فکر کرنا، گناہ و معصیت سے بہترین روکنے والی چیزیں ھیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے :
” اَلْحَیَاءُ مِنَ الإِیمَانِ وَالإِیمَانُ فِی الجَنَّةِ “[67]
”حیا ایمان سے ھے اورایمان جنت میں ھے“۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے کہ خدا سے حیا کرو اور حق حیا کی رعایت کرو۔ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کس طرح؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص شب نہ بسر کرے ، مگر یہ کہ اپنی موت کو اپنی دو آنکھوں کے سامنے دیکھے؛ اپنی آنکھ، کان اور زبان کو حرام سے محفوظ رکھے، اور اپنے پیٹ کو مال حرام سے محفوظ رکھے؛ قبر اور اس میں اپنے بدن کے خاک میں ملنے کو یاد رکھے۔ اور جو شخص آخرت کو چاہتا ھے اس کو چاہئے کہ فریب کار دنیاوی زرو زینت سے پرھیز کرے۔[68]
ایک شخص نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
” إِسْتَحْیِ مِنَ اللَّہِ کَمَا تَسْتَحْیِی مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ مِن قَوْمِکَ “[69]
”خدا سے حیا (و شرم) کرو جیسا کہ اپنی قوم کے شائستہ اور صالح انسان سے حیا کرتے ھو“۔
ایک با ایمان عورت کی حیا اور خوف
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ دریا کا سفر کررھا تھا۔ اتفاق سے کشتی ڈوبنے لگی اور اس شخص کی زوجہ کے علاوہ تمام لوگ دریا میں ڈوب گئے۔ اور وہ بھی ایسے کہ وہ عورت ایک تختہ پر بیٹھ گئی اور اس دریا کے ایک جزیرہ پر پھنچ گئی۔
اس جزیرہ میں ایک چور رہتا تھاجس نے حرمت خدا کے تمام پردوں کو چاک کررکھا تھا، ناگاہ اس نے دیکھا کہ وہ عورت اس کے پاس کھڑی ھے، اس نے سوال کیا کہ توانسان ھے یا جن؟ اس نے کھا انسان ھوں۔ چنانچہ وہ چور بغیر کچھ بولے ھی اس عورت کی بغل میںاس طرح بیٹھا کہ جس طرح مرد اپنی زوجہ کے پاس بیٹھتا ھے، اور جب اس نے اس عورت کی عزت پر ھاتھ ڈالنا چاھا تو وہ عورت لرز گئی۔ اس چور نے کھا تو ڈر کیوں گئی پریشان کیوں ھوگئی؟ وہ عورت بولی کہ اس سے ڈرتی ھوں، اور آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ اس چور نے کھا کہ کبھی اس طرح کا کام انجام دیا ھے تو اس عورت نے کھا: نھیں، بخدا ھرگز نھیں۔اس شخص نے کھا: تو خدا سے اس قدر خوف زدہ ھے حالانکہ تو نے ایسا کام نھیں کیا ھے اور میں جب کہ تم کو اس کام پر مجبور کررھا ھوں، خدا کی قسم، مجھے تو تجھ سے کھیں زیادہ خدا سے ڈرنا چاہئے۔ اس کے بعد وھاں سے اٹھا اور اپنے گھر چلا گیا، اور ھمیشہ توبہ و استغفار کی فکر میں رھنے لگا۔
ایک روز راستہ میں ایک راھب سے ملاقات ھوئی ، دو پھر کا وقت تھا ، چنانچہ اس راھب نے اس شخص سے کھا: دعا کرو کہ خدا ھمارے اوپر بادلوں کے ذریعہ سایہ کردے کیونکہ شدت کی گرمی پڑرھی ھے، تو اس جوان نے کھا کہ میں نے کوئی نیکی نھیں کی ھے اور خدا کی بارگاہ میں میری کوئی عزت و آبرو نھیں کہ میں اس سے اس طرح کا سوال کروں۔ اس وقت راھب نے کھا: تو پھر میں دعا کرتا ھوں اور تم آمین کھنا۔ اس جوان نے کھا: یہ ٹھیک ھے۔ چنانچہ راھب نے دعا کی اور اس جوان نے آمین کھی، اور دیکھتے ھی دیکھتے بادلوں نے ان دونوں پر سایہ کردیا، دونوں راستہ چلتے رھے یھاں تک کہ ان کا راستہ الگ الگ ھونے لگا،دونوں نے اپنے اپنے راستہ کو اختیار کیا، تو بادل اس جوان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا!
چنانچہ یہ دیکھ کر اس راھب نے کھا: تو تو مجھ سے بہتر ھے، تیری ھی وجہ سے دعا قبول ھوئی ھے، نہ کہ میری وجہ سے، اور کھا کہ تم اپنے حالات بتاؤ۔ چنانچہ اس نے اس عورت کا واقعہ بیان کیا۔ تب راھب نے کھا: چونکہ خوف خدا تیرے دل میں پیدا ھوگیا تو خدا نے تیرے گناہ بخش دئے، لہٰذا آئندہ گناھوں سے پرھیز کرنا۔[70]
جھوٹ:
حضرت رسول خدا ، امام صادق و امام رضا علیھم السلام نے جھوٹ کو گناھان کبیرہ بلکہ بزرگترین گناھان کبیرہ میں شمار کیا ھے[71]
سب سے بڑا جھوٹ انسان کا؛ خدا و رسول اور ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوں پر جھوٹ باندھنا ھے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہ ھوجاتے ھیں۔
ھمیشہ دنیائے کفر و شرک کے حکمراںاپنے سفید جھوٹ اور تھمتوں کو علم اور فلسفہ کے عنوان سے بیان کرکے بہت سے لوگوں کو دین، ایمان اور انبیاء و روز قیامت سے گمراہ کرتے رہتے ھیں۔
یہ خناس اور بھانہ باز شیاطین، ایک نیا دین بنانے والے نیز وسوسہ ایجاد کرنے والے مکار یا حق و حقیقت سے دور امور کو ایک دوسرے سے ملاکر بہت سے لوگوں کی ھدایت ایمان اور صراط مستقیم میں مانع ھوتے تھے۔
یہ لوگ اپنے جھوٹ اور تھمتوں کے ذریعہ عوام الناس کے سامنے ھر باطل کو حق اور ھر حق و حقیقت کو باطل کی صورت میں پیش کیا کرتے تھے۔
انھوں نے ھمیشہ آسمانی کتابوں کی تکذیب کی ھے اور آسمانی کتابوں کو خدا کی طرف سے ھونے کو انکار کیا ھے، اور الٰھی نشانیوں کا ھر ممکن صورت میں مقابلہ کیا ھے اور لوگوں میں اس بات کا پروپیگنڈا کیا ھے کہ کوئی بھی چیز خدا کی طرف سے نازل نھیں ھوئی ھے۔!![72]
ان لوگوں نے انسانوں کو فیض ھدایت سے دور کرنے اور آخرت کی سعادت و خوشبختی سے دور کرنے کے لئے تمام انبیاء علیھم السلام پر تھمتیں لگائیں اور ان سچے لوگوں پر جھوٹ و افترا باندھا ھے، وہ ان صاحبان عقل و بصیرت کو جادوگر شمار کیا کرتے تھے، اور ان انبیاء کرام (جو ھر لحاظ سے صحیح و سالم ھوتے تھے)؛ کو دیوانہ اور مجنون کہہ دیتے تھے!!
یہ لوگ کسی بھی طرح کے جھوٹ بولنے سے پرھیز نھیں کرتے تھے اور اپنی کارستانیوں کے ذریعہ حق و حقیقت کے معنی میں تحریف کیا کرتے تھے،یھاں تک کہ توریت و انجیل اور زبور میں بھی تحریف کر ڈالی، اور ان ھدایت کی کتابوں کو کفر و شرک اور گمراھی میں تبدیل کرڈالا، اور اگر ان میں اس قدر طاقت ھوتی اور خداوندعالم محافظ و نگھبان نہ ھوتا تو یہ لوگ دوسری آسمانی کتابوں کی طرح قرآن کریم میں بھی تحریف کرڈالتے۔
ان لوگوں نے عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لئے آیات کی تحریف میں ذرا بھی شرم و حیا سے کام نہ لیا، اور نہ ھی اس کے خطرناک انجام سے خوف زدہ ھوئے، اور نہ ھی روز قیامت کے درد ناک عذاب سے ھراساں ھوئے۔
ان لوگوں نے سقیفہ کی حکومت کی بنیاد مستحکم کرنے ، عوام الناس پر بنی امیہ و بنی عباس کی حکمرانی قائم کرنے ، ان کو حق کے راستہ کو منحرف کرنے اور اھل بیت علیھم السلام کو خانہ نشین کرکے لوگوں کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حقیقی خلفاء کی راھنمائی و ھدایت سے دور کرنے کے لئے حدیث گھڑنے کا ایک بہت بڑا کارخانہ بنایا اور تقریباً دس لاکھ جھوٹی حدیثیں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف منسوب کردیں، اور بنی امیہ و بنی عباس کے مال و زر اور طاقت کی بنا پر ان تمام جھوٹی حدیثوں کو اسلامی ثقافت کے عنوان سے امت اسلامی کے سامنے پیش کیا ھے، کہ اگر ائمہ علیھم السلام خصوصاً حضرت امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھما السلام نے اپنے علم کا مظاھرہ نہ کیا ھوتا نیز ائمہ علیھم السلام کے تربیت یافتہ شاگرد اور علماء کرام فقھاء عظام نہ ھوتے تو واقعاً آج شیعہ بھی بنی امیہ و بنی عباس کے کارخانہ کی جعلی احادیث کو قبول کرنے پر مجبور ھوجاتے۔
لیکن حق و باطل کی تمیز کرنے کے لئے ائمہ معصومین علیھم السلام نے اصحاب و فقھاء کرام کو تعلیم کردہ مسائل کے ذریعہ رسول اکرم کی طرف منسوب جھوٹی احادیث سے محفوظ رکھا،جس کے نتیجہ میں حقیقی اسلام ؛ائمہ معصومین علیھم السلام کے ذریعہ اور شیعہ علماء کی زحمت و مشقت کے ذریعہ خیانت کاروں کی خیانت سے محفوظ رھا تاکہ تا قیام قیامت لوگوں پر خدا کی حجت تمام ھوجائے اورکل روز قیامت یہ نہ کہہ سکےں کہ ھمیں تو حقیقی اسلام کا پتہ ھی نھیں چل سکا۔
ان جھوٹے اور خیانت کار لوگوںچاھے جس روپ میں بھی ھوں تقریباً ان دو صدیوں میں ایشیاء، یورپ اور امریکہ میں مختلف علوم، سیاست اور دوسرے مادی و معنوی مسائل میں ہزار وں دلفریب جھوٹ مختلف معاشروں میں رائج کردئے۔ اور اپنے اس کام سے لاکھوں انسانوں کو مختلف مسائل میں دھوکے میں ڈال دیا، اور جھوٹے و دلفریب اور جوانوں کی من پسند نعروں کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کر ڈالااور لاکھوں لوگوں کو کیمونسٹ "communiste" اور بے دین بنادیا ھے، نیز دوسرے سبھی لوگوں کو حیران و پریشان کرڈالا ھے، ان لوگوں کے نعرے کچھ اس طرح ھیں: دین ملتوں کا افیون ھے، متمدن انسان کی حکومت کامیاب اور غالب ھے، سائنس تمام مشکلات کا حل کرنے والا ھے، جمھوریت، آزادی، نیک او رصالحین کی حکومت کے بجائے جمھوری حکومت، مدنی اور لیبرل معاشرہ وجود میں آیا۔
خلاصہ یہ ھے کہ اکثر لوگوں کو حق و حقیقت کے راستہ سے بھٹکادیا ھے، اور ھر ملک میں رھنے والے مومنین پر ظلم وستم کرایا جارھا ھے، جس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں فسادات اور ظلم وستم کا دور دورہ ھے۔
قارئین کرام! یہ قرآن مجید جو حق و حقیقت، نور و ھدایت اور شفا وروشنی کی بہترین کتاب ھے ذرا درج ذیل آیات پر توجہ کیجئے:
ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
”فَنَجْعَل لَعْنَةَ اللّہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ“[73]
”اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں“۔
نیز ارشاد ھوتا ھے:
”اٴِنَّ اللّہَ لا یَھْدِی مَنْ ھُوَ کاَذِبٌ کُفَّارٌ “[74]
”بیشک اللہ کسی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ھدایت نھیں دیتا “۔
قارئین کرام! پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) و اھل بیت علیھم السلام کی اعلیٰ تعلیمات میں جھوٹ سے پرھیز پر کس قدر زور دیا گیا ھے جھوٹ چاھے چھوٹا ھو یا بڑا، مادی مسائل میں ھو یا معنوی مسائل میں۔ چنانچہ درج ذیل کو ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتے ھیں:
” اٴَلاَاٴُنَبِّئُکُمْ بِاٴَکْبَرِالکَبَائِرِ؟ قُلْنَا :بَلَی یَارَسُوْلَ اللهِ۔ قَال :الإشْرَاکُ بِاللهِ،وَعُقُوقُ الوَالِدَیْنِ وَکَانَ مُتَّکِئاً فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ:اٴَلاَوَقَوْلُ الزّور۔۔۔ “[75]
”کیا تم لوگوں کو گناھان کبیرہ میں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ھم نے کھا: جی ھاں یا رسول اللہ، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: خدا کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کے ساتھ بُرا سلوک کرنا ( یہ اس وقت فرمایا جب )آنحضرت اس وقت تکیہ لگائے تھے اس کے بعد بیٹھ جاتے ھیں اور فرماتے ھیں: اے لوگو! جھوٹ سے پرھیز کرو۔۔۔“۔
نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:
” شَرُّ الرِّوَایَةِ روایَةُ الکِذبِ “[76]
” جھوٹ پر مبنی بدترین گفتگو ھے“۔
” اٴَقَلُّ النَّاسِ مُرُوَّةً مَن کاَنَ کاَذِباً “[77]
”جھوٹے انسان کی مروت تمام لوگوں سے کم ھے“۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کیا گیا کہ کیا ڈرنے والا مومن ھوسکتا ھے؟ آپ نے فرمایا: جی، کھا کیا بخیل مومن ھوسکتا ھے؟ ک |