شرح دعاء کمیل
  دعاء کمیل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنام خدائے رحمن و رحیم
اٴَللّٰھُمَّ اِنّيِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ،وَ بِقُوَّتِکَ الَّتي قَھَرْتَ
خدایا میراسوال اس رحمت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر محیط ھے۔ اس قوت کے واسطہ سے ھے جو ھر چیز پر حاوی ھے
بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ،وَخَضَعَ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،وَذَلَّ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ، وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتي غَلَبْتَ
اور اس کے لئے ھر شے خاضع اور متواضع ھے۔ اس جبروت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر غالب ھے اور اس عزت کے واسطہ سے ھے
بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ، وَ بِعِزَّتِکَ الَّتي لاٰ یَقُومُ لَھٰا شَيْءٌ، وَبِعَظَمَتِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ کُلَّ
جس کے مقابلہ میں کسی میں تاب مقاومت نھیں ھے۔اس عظمت کے واسطہ سے ھے جس نے ھر چیز کو پر کردیا ھے
شَيْءٍ، وَ بِسُلْطٰانِکَ الَّذي عَلاٰ کُلَّ شَيْءٍ، وَبِوَجْھِکَ الْبٰاقي بَعْدَ فَنٰاءِ کُلِّ شَيْءٍ،
اور اس سلطنت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے سے بلند تر ھے۔اس ذات کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کی فنا کے بعد بھی باقی رھنے والی ھے
وَبِاٴَسْمٰائِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ اَرْکٰانَ کُلِّ شَيْءٍ،وَبِعِلْمِکَ الَّذي اٴَحٰاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ،
اور ان اسماء مبارکہ کے واسطہ سے ھے جن سے ھر شے کے ارکان معمور ھیں ۔اس علم کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کا احاطہ کئے ھوئے ھے
وَبِنُورِ وَجْھِکَ الَّذي اٴَضٰاءَ لَہُ کُلُّ شَيْءٍ، یٰا نُورُ یٰا قُدُّوسُ،یٰا اٴَوَّلَ الْاٴَوَّلینَ،
اور اس نور ذات کے واسطہ سے ھے جس سے ھر شے روشن ھے۔اے نور ،اے پاکیزہ صفات،اے اوّلین سے اوّل اور آخرین سے آخر۔
وَیٰا آخِرَالْآخِرینَ۔
اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَھْتِکُ الْعِصَمَ ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ۔
خدایا میرے گناھوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ھیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ھوتے ھیں۔
اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَیِّرُالنِّعَمَ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ
ا ن گناھوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتے ھیں ۔ان گناھوں کو بخش دے جو دعاوٴں کو تیری بارگاہ تک پھنچنے سے روک دیتے ھیں ۔
الدُّعٰآءَ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلي کُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ، وَکُلَّ خَطٓیئَةٍ اٴَخْطٰاٴْتُھٰا۔
ان گناھوں کو بخش دے جو امیدوں کو منقطع کر دیتے ھیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ھوتے ھیں۔ خدایا میرے تمام گناھوں اور میری تمام خطاوٴں کو بخش دے۔
اٴَللّٰھُمَّ إِنِّي اٴَتَقَرَّبُ إِلَیْکَ بِذِکْرِکَ،وَاٴَسْتَشْفِعُ بِکَ إِلٰی نَفْسِکَ،وَاٴَسْاٴَلُکَ
خدایامیں تیری یاد کے ذریعہ تجھ سے قریب ھو رھاھوں اور تیری ذات ھی کو تیری بارگاہ میں شفیع بنا رھا ھوں تیرے کرم کے سھارے میرا سوال ھے
بِجُودِکَ اٴَنْ تُدْنِیَني مِنْ قُرْبِکَ،وَاَنْ تُوزِعَنِي شُکْرَکَ،وَاَنْ تُلْھِمَنِي ذِکْرَکَ،اٴَللّٰھُمَّ إِنّي اٴَسْاٴَلُکَ
کہ مجھے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الھام کرامت فرما۔خدایامیں نھایت درجہ
سُوٴٰالَ خٰاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خٰاشِعٍ اٴَنْ تُسٰامِحَنيوَتَرْحَمَنِي وَتَجْعَلَنِي بِقِسْمِکَ رٰاضِیاً
خشوع ،خضوع اور ذلت کے ساتھ یہ سوال کرر ھاھوں کہ میرے ساتھ مھربانی فرما۔مجھ پر رحم کر اور جو کچھ مقدر میںھے مجھے
قٰانِعاً،وَفي جَمیعِ الْاٴَحْوٰالِ مُتَوٰاضِعاً۔
اسی پر قانع بنادے۔مجھے ھر حال میں تواضع اور فروتنی کی توفیق عطا فرما۔
اٴَللّٰھُمَّ وَاٴَسْاٴَ لُکَ سُوٴٰالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فٰاقَتُہُ،وَاٴَنْزَلَ بِکَ عِنْدَ الشَّدٰائِدِ
خدایا میرا سوال اس بے نوا جیسا ھے جس کے فاقے شدید ھوں اور جس نے اپنی حاجتیں تیرے سامنے رکھ دی ھوں
حٰاجَتَہُ،وَعَظُمَ فیمٰا عِنْدَکَ رَغْبَتُہُ۔اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ سُلْطٰانُکَ،وَعَلٰا مَکٰانُکَ،وَخَفِيَ
اور جس کی رغبت تیری بارگاہ میں عظیم ھو۔خدایا تیری سلطنت عظیم۔ تیری منزلت بلند۔تیری تدبیر مخفی ۔
مَکْرُکَ،وَظَہَرَ اٴَمْرُکَ،وَغَلَبَ قَہْرُکَ،وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ،وَلٰا یُمْکِنُ الْفِرٰارُمِنْ حُکُومَتِکَ۔
تیرا امر ظاھر۔تیرا قھر غالب اور تیری قدرت نافذ ھے اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ھے۔
اٴَللّٰھُمَّ لاٰاٴَجِدُ لِذُنِوبيغٰافِراً،وَلاٰ لِقَبٰائِحيسٰاتِراً،وَلاٰلِشَيْءٍ مِنْ عَمَلِيَ الْقَبیحِ
خدایا میرے گناھوں کے لئے بخشنے والا۔میرے عیوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا،میرے قبیح اعمال
بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَکَ،لاٰإِلٰہَ إِلاَّ اٴَنْتَ سُبْحٰانَکَ وَبِحَمْدِکَ،ظَلَمْتُ نَفْسِي،ُ
کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والا تیرے علاوہ کوئی نھیں ھے۔ تو وحدہ لا شریک، پاکیزہ صفات اور قابل حمد ھے۔خدایا میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ھے۔
وَتَجَرَّاٴْت بِجَھْلي،وَسَکَنْتُ إِلٰی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لي،وَمَنِّکَ عَلَيَّ۔
اپنی جھالت سے جسارت کی ھے اور اس بات پر مطمئن بیٹھا ھوں کہ تونے مجھے ھمیشہ یا د رکھا ھے اور ھمیشہ احسان فرمایا ھے۔
اٴَللّٰھُمَّ مَوْلاٰيَ کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَہُ،وَکَمْ مِنْ فٰادِحٍ مِنَ الْبَلآٰءِ اٴَقَلْتَہُ،وَکَمْ مِنْ
خدایا میرے کتنے ھی عیب ھیںجنھیں تونے چھپا دیا ھے اور کتنی ھی عظیم بلائیں ھیں جن سے تونے بچایا ھے۔کتنی ٹھوکریں ھیں
عِثٰارٍوَقَیْتَہُ،وَکَمْ مِنْ مَکْرُوہٍ دَفَعْتَہُ،وَکَمْ مِنْ ثَنٰاءٍ جَمیلٍ لَسْتُ اٴَھْلاً لَہُ نَشَرْتَہُ۔
جن سے تونے سنبھالا ھے اور کتنی برائیاں ھیں جنھیں تونے ٹالا ھے۔کتنی ھی اچھی تعریفیں ھیں جن کا میں اھل نھیں تھا اور تونے میرے بارے میں انھیں نشر کیا ھے ۔
اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَاٴَفْرَطَ بيسُوٓءُ حٰالي،وَقَصُرَتْ بياٴَعْمٰالِي،وَقَعَدَتْ
خدایا میری مصیبت عظیم ھے ۔میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ھوئی ھے ۔میرے اعمال میں کوتاھی ھے۔مجھے کمزوریوں
بِياٴَغْلاٰلِي،وَحَبَسَنِي عَنْ نَفْعِي بُعْدُ اٴَمَلِي وَخَدَعَتْنِي الدُّنِّیٰا بِغُرُورِھٰاوَنَفْسي بِجِنٰایَتِھٰا
کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ھے اور مجھے دور دراز امیدوں نے فوائد سے روک دیا ھے،دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ھے اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ھے ۔
وَمِطٰالي یٰاسَیِّدِي،فَاٴَسْاٴَلُکَ بِعِزَّتِکَ اٴَنْ لاٰیَحْجُبَ عَنْکَ دُعٰائِي سُوٓءُ عَمَلِي و َفِعٰالِي،
میرے آقا و مولا! تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاوٴں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں اور میں
وَلاٰتَفْضَحْنِي بِخَفِيِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّي،وَلاٰ تُعٰاجِلْني بِالْعُقُوبَةِ عَلٰی مٰا عَمِلْتُہُ
اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ھونے پاوٴں۔میں نے تنھا ئیوں میں جو غلطیاں کی ھیں ان کی سزا فی الفور نہ
فيخَلَوٰاتي مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَإِسٰائَتِي،وَدَوٰامِ تَفْریطي وَجَھٰالَتِي، وَکَثْرَةِ شَھَوٰاتي وَ غَفْلَتِي۔
ملنے پائے، چاھے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ھو ں یا بے ادبی کی شکل میں،مسلسل کوتاھی ھو یا جھالت یا کثرت خواھشات و غفلت۔
وَکْنِ اللّٰھُمَّ بِعِزَّتِکَ لي فی کُلِّ الْاٴَحْوٰالِ رَؤُوفاً،وَعَلَيَّ في جَمیعِ الْاُمُورِ
خدایا مجھ پرھر حال میں مھربانی فرما اور میرے اوپر تمام معاملات میں کرم فرما۔خدایا۔پروردگار۔میرے پاس
عَطُوفاً،إِلٰھيوَرَبّيمَنْ لي غَیْرُکَ،اٴَسْاٴَلُہُ کَشْفَ ضُرّي، وَالنَّظَرَ فياٴَمْرِي۔
تیرے علاوہ کون ھے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے۔
إِلٰھي وَمَوْلاٰيَ اٴَجْرَیْتَ عَلَيّحُکْماً اتَّبَعْتُ فیہِ ھَویٰ نَفْسي،وَلَمْ اٴَحْتَرِسْ فیہِ مِنْ
خدایا مولایا۔تونے مجھ پر احکام نافذ کئے اور میں نے خواھش نفس کا اتباع کیا اور اس با ت کی پرواہ نہ کی کہ دشمن
تَزْیینِ عَدُوِّي،فَغَرَّنِي بِمٰااٴَھْویٰ وَاٴَسْعَدَہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْقَضٰٓاءُ فَتَجٰاوَزْتُ بِمٰاجَریٰ عَلَيَّ مِنْ
(شیطان) مجھے فریب دے رھا ھے۔ نتیجہ یہ ھوا کہ اس نے خواھش کے سھارے مجھے دھوکہ دیا اور میرے مقدر نے بھی اس کا سا تھ دےدیا
ذٰلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخٰالَفْتُ بَعْضَ اٴَوٰامِرِکَ۔
اور میں نے تیرے احکام کے معاملہ میں حدود سے تجاوز کیا اور تیرے بہت سے احکام کی خلاف ورزی کر بیٹھا ۔
فَلَکَ الْحَمْدُ عَلَيَّ فيجَمیعِ ذٰلِکَ،وَلاٰحُجَّةَ لِي فِیمٰاجَریٰ عَلَيَّ فیہِ قَضٰاوُٴکَ،
بھر حال اس معاملہ میں میرے ذمہ تیری حمد بجالانا ضروری ھے اور اب تیری حجت ھر مسئلہ میں میرے اوپر تمام ھے اور میرے پاس
وَاٴَلْزَمَنِيحُکْمُکَ وَبَلٰاوٴُکَ،وَقَدْ اٴَتَیْتُکَ یٰاإِلٰھِي بَعْدَ تَقْصیرِي وَإِسْرٰافِيعَلٰی نَفْسِي،
تیرے فیصلہ کے مقابلہ میں اور تیرے حکم و آزمائش کے سامنے کوئی حجت و دلیل نھیں ھے۔اب میں ان تمام کوتاھیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں
مُعْتَذِراًنٰادِماً مُنْکَسِراًمُسْتِقیلًا مُسْتَغْفِراً مُنیباًمُقِرّاً مُذْعِناًمُعْتَرِفاً، لاٰ اٴَجِدُ مَفَرّاًمِمّٰا کٰانَ مِنّي،
کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکسار، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضر ھو رھاھوں کہ میرے پاس ان گناھوں سے بھاگنے کے لئے کوئی
وَلاٰمَفْزَعاًاٴَتَوَجَّہُ إِلَیْہِ فياٴَمْرِي غَیْرَ قَبُولِکَ عُذْرِي،وَإِدخٰالِکَ إِیّٰايَ في سَعَةِ رَحْمَتِکَ۔
جائے فرار نھیں ھے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نھیں ھے۔صرف ایک ھی راستہ ھے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے۔
اٴَللّٰھُمَّ فَاقْبَلْ عُذْري،وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّي،وَفُکَّنِيمِنْ شَدِّ وَثٰاقِي،یٰارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِي،
لہٰذا پروردگار میرے عذر کو قبول فرما ۔میری شدت مصیبت پر رحم فرما۔مجھے شدید قید وبند سے نجات عطا فرما۔پروردگار میرے بدن کی کمزوری،
وَرِقَّةَ جِلْدي،وَدِقَّةَ عَظْمي،یٰامَنْ بَدَاٴَخَلْقِي وَذِکْرِي وَتَرْبِیَتِي وَبِرِّي وَتَغْذِیَتي ھَبْني لِابْتِدٰاءِ
میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما۔اے میرے پیداکرنے والے ۔اے میرے تربیت دینے والے۔
کَرَمِکَ وَسٰالِفِ بِرِّکَ بي۔
اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے۔
یٰاإِلٰھِيوَسَیِّدِي وَرَبِّي،اٴَتُرٰاکَ مُعَذِّبِي بِنٰارِکَ بَعْدَ تَوْحیدِکَ،وَبَعْدَمَاانْطَویٰ
پروردگار!کیا یہ ممکن ھے کہ میرے عقیدہٴ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے
عَلَیْہِ قَلْبِيمِنْ مَعْرِفَتِکَ،وَلَھِجَ بِہِ لِسٰانِيمِنْ ذِکْرِکَ،وَاعْتَقَدَہُ ضَمیرِي مِنْ
دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابراسے برباد بھی کردے ،
حُبِّکَ،وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرٰافِيوَدُعٰائِيخٰاضِعاً لِرُبُوبِیَّتِکَ،ھَیْھٰاتَ،اٴَنْتَ اٴَکْرَمُ مِنْ اٴَنْ تُضَیِّعَ
تیری محبت جاگزیں رھی ھے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ھوں۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ جسے تونے پالا ھے
مَنْ رَبَّیْتَہُ،اٴَوْ تُبْعِدَ مَنْ اٴَدْنَیْتَہُ،اٴَوْتُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَہُ،اٴَوْتُسَلِّمَ إِلَی الْبَلاٰءِ مَنْ کَفَیْتَہُ وَرَحِمْتَہُ۔
جسے تونے قریب کیا ھے اسے دور کردے۔جسے تونے پناہ دی ھے اسے راندہٴ درگاہ بنادے اور جس پر تونے مھربانی کی ھے اسے بلاوٴں کے حوالے کردے۔
وَلَیْتَ شِعْري یٰاسَیِّدي وَإِلٰھي وَمَوْلٰايَاٴَتُسَلِّطُ النّٰارَعَلٰی وُجُوہٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ
میرے سردار ۔میرے خدامیرے مولا ! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چھرے تیرے سامنے سجدہ ریز رھے ھیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گا
سٰاجِدَةً،وَعَلٰی اٴَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحیدِکَ صٰادِقَةً،وَبِشُکْرِکَ مٰادِحَةً،وَعَلٰی قُلُوبٍ
اور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رھی ھیں اور تیری حمد وثنا کرتی رھی ھیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی
اعْتَرَفَتْ بِإِلٰھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً،وَعَلٰی ضَمٰائِرَحَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّٰی صٰارَتْ خٰاشِعَةً،وَ
کا اقرار ھے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ھیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ھیں یا جواعضاء و جوارح تیر ے مراکز
عَلٰی جَوٰارِحَ سَعَتْ إِلٰی اٴَوْطٰانِ تَعَبُّدِکَ طٰائِعَةً،وَاٴَشٰارَتْ بِاسْتِغْفٰارِکَ مُذْعِنَةً۔
عبادت کی طرف ھنسی خوشی سبقت کرنے والے ھیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ھیں ؛ان پر بھی تو عذاب کرے گا۔
مٰاھٰکَذَا الظَّنُّ بِکَ،وَلاٰاُخْبِرْنٰابِفَضْلِکَ عَنْکَ یٰاکَریمُ یٰارَبِّ،وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ
ھر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نھیں ھے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ھے ۔
ضَعْفيعَنْ قَلیلٍ مِنْ بَلاٰءِ الدُّنْیٰا وَ عُقُوبٰاتِھٰا، وَمٰا یَجْرِي فیھٰامِنَ الْمَکٰارِہِ عَلٰی اٴَھْلِھٰا،
پروردگار اتو جانتا ھے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نھیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں
عَلٰی اٴَنَّ ذٰلِکَ بَلاٰءٌ وَمَکْرُوہٌ قَلیلٌمَکْثُہُ،یَسیرٌ بَقٰائُہُ، قَصِیرٌ مُدَّتُہُ، فَکَیْفَ احْتِمٰالِي لِبَلاٰءِ الْآخِرَةِ،
قابل تحمل ھیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ھے۔تو میں ان آخرت کی بلاوٴں کو کس طرح برداشت کروں گا
وَجَلیلِ وُقُوعِ الْمَکٰارِہِ فیھٰا،وَھُوَبَلاٰءٌ تَطُولُ مُدَّتُہُ،وَیَدُومُ مَقٰامَہُ،وَلاٰیُخَفَّفُ عَنْ
جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ھے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نھیں ھے اس لئے کہ یہ بلائیں
اٴَھْلِہِ،لِاٴَنَّہُ لاٰیَکُونُ إِلاّٰ عَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقٰامِکَ وَسَخَطِکَ،وَھٰذٰا مٰالاٰتَقُومُ لَہُ السَّمٰاوٰاتُ
تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ھیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نھیں لاسکتے ،تو میں ایک بندہٴ ضعیف و ذلیل
وَالْاَرْضُ، یا سَیِّدِي،فَکَیْفَ لِي وَاٴَنٰاعَبْدُکَ الضَّعیفُ الذَّلیلُ الْحَقیرُ الْمِسْکینُ الْمُسْتَکینُ۔
و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ھوں؟!
یٰاإِلٰھي وَرَبّي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ،لِاٴَيِّ الْاُمُورِإِلَیْکَ اٴَشْکُو،وَلِمٰامِنْھٰااٴَضِجُّ
خدایا۔ پروردگارا۔ میرے سردار۔میرے مولا! میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور
وَاٴَبْکي،لِاٴَلیمِ الْعَذٰابِ وَشِدَّتِہِ،اٴَمْ لِطُولِ الْبَلاٰءِ وَ مُدَّتِہِ،فَلَئِنْ صَیَّرْتَنيلِلْعُقُوبٰاتِ مَعَ
گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے کہ اگر تونے
اٴَعْدَائِکَ،وَجَمَعْتَ بَیْني وَ بَیْنَ اٴَہْلِ بَلاٰئِکَ،وَفَرَّقْتَ بَیْنِي وَبَیْنَ اٴَحِبّٰائِکَ
ان سزاوٴں میں مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ ملادیا اور مجھے اھل معصیت کے ساتھ جمع کردیا اور میرے اوراپنے احباء اور
وَاٴَوْلِیٰائِکَ،فَھَبْنِِي یٰاإِلٰھي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ وَرَبِّي،صَبَرْتُ عَلٰی عَذٰابِکَ فَکَیْفَ
ولیاء کے درمیان جدائی ڈال دی ۔تو اے میرے خدا۔میرے پروردگار ۔میرے آقا۔میرے سردار! پھر یہ بھی طے ھے کہ اگر میں
اٴَصْبِرُعَلٰی فِرٰاقِکَ،وَھَبْنِي صَبَرْتُ عَلٰی حَرِّ نٰارِکَ فَکَیْفَ اٴَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِإِلٰی
تیرے عذاب پر صبر بھی کر لوں تو تیرے فراق پر صبر نھیںکر سکتا۔اگر آتش جھنم کی گرمی برداشت بھی کر لوں تو تیری کرامت نہ دیکھنے کو
کَرٰامَتِکَ،اٴَمْ کَیْفَ اٴَسْکُنُ فِی النّٰارِ وَرَجٰائِي عَفْوُکَ۔
برداشت نھیں کر سکتا ۔بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ میں تیری معافی کی امید رکھوں اور پھر میں آتش جھنم میں جلادیا جاوٴں ۔
فَبِعِزَّتِکَ یٰا سَیِّدي وَمَوْلٰايَ اُقْسِمُ صٰادِقاًلَئِنْ تَرَکْتَنينٰاطِقاً،لَاٴَضِجَّنَّ إِلَیْکَ بَیْنَ
تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اھل جھنم کے درمیان بھی
اٴَھْلِھٰا ضَجیجَ الْآمِلینَ،وَلَاٴَصْرُخَنَّ إِلَیْکَ صُرٰاخَ الْمُسْتَصْرِخینَ،وَلَاٴَبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکٰاءَ
امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ”عزیز گم کردہ “کی طرح تیری دوری
الْفٰاقِدینَ،وَلَاُنٰادِیَنَّکَ اٴَیْنَ کُنْتَ یٰاوَلِيَّ الْمُوْٴمِنینَ،یٰاغٰایَةَ آمٰالِ الْعٰارِفینَ،یٰا غِیٰاثَ
پر آہ وبکا کروں گا اور تو جھاں بھی ھوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس۔
الْمُسْتَغیثینَ،یٰاحَبیبَ قُلُوبِ الصّٰادِقینَ،وَیٰا إِلٰہَ الْعٰالَمینَ۔
صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ھے۔
اٴَفَتُرٰاکَ سُبْحٰانَکَ یٰاإِلٰھي وَ بِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فیھٰاصَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فیھٰا
اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ھے کہ تواپنے بندہٴ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جھنم میں
بِمُخٰالَفَتِہِ،وَذٰاقَ طَعْمَ عَذٰابِھٰا بِمَعْصِیَتِہِ ،وَحُبِسَ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا بِجُرْمِہِ وَجَریرَتِہِ وَھُوَ یَضِجُّ
گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جھنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے
إِلَیْکَ ضَجیجَ مُوٴَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ،وَیُنٰادیکَ بِلِسٰانِ اٴَھْلِ تَوْحیدِکَ،وَ یَتَوَسَّلُ
اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اھل توحید کی طرح پکارنے والا ،ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ھے اور تو اس کی آواز
إِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ۔
نھیں سنتا ھے۔
یٰامَوْلاٰيَ،فَکَیْفَ یَبْقٰی فِي الْعَذٰابِ وَھُوَیَرْجُوْمٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ،اٴَمْ کَیْفَ تُوْٴلِمُہُ
خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رھے گا اور تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ
النّٰارُوَھُوَیَاٴْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،اٴَمْ کَیْفَ یُحْرِقُہُ لَھیبُھٰاوَاٴَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَرٰی
کرنے والا کسطرح جھنم کے الم ورنج کا شکار ھوگا۔جھنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رھا ھو
مَکٰانَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْہِ زَفیرُھٰاوَاٴَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا
ور اس کی منزل کو دیکھ رھا ھو،جھنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رھا ھوگا۔
وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ،اٴَمْ کَیْفَ تَزْجُرُہُ زَبٰانِیَتُھٰاوَھُوَ یُنٰادیکَ یٰارَبَّہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَرْجُوفَضْلَکَ
وہ جھنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ھے ۔ جھنم کے فرشتے اسے کس طرحجھڑکیں گے
فيعِتْقِہِ مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فیھٰا،ھَیْھَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ مِنْ
جبکہ وہ تجھے آواز دے رھا ھوگا اور تو اسے جھنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ھوگا ،ھر گزتیرے بارے
فَضْلِکَ،وَلامُشْبِہٌ لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاٴِحْسٰانِکَ۔
میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نھیں ھے ۔تونے جس طرح اھل توحید کے ساتھ نیک برتاوٴ کیا ھے اس کی کوئی مثال نھیں ھے۔
فَبِا لْیَقینِ اٴَقْطَعُ لَوْلاٰمٰاحَکَمْتَ بِہِ مِنْ تَعْذیبِ جٰاحِدیکَ،وَقَضَیْتَ بِہِ مِنْ إِخْلاٰدِ
میں تویقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق میں عذاب کا فیصلہ نہ کردیا ھوتا اور اپنے دشمنوں کوھمیشہ جھنم
مُعٰانِدیکَ لَجَعَلْتَ النّٰارَکُلَّھٰابَرْداًوَ سَلاٰماً،وَمٰاکٰانَ لِاٴَحَدٍ فیھٰا مَقَرّاً وَلاٰ مُقٰاماً، لٰکِنَّکَ
میں رکھنے کا حکم نہ دے دیا ھوتا تو ساری آتش جھنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس میں کسی کا ٹھکانا اور مقام نہ ھوتا۔
تَقَدَّسَتْ اٴَسْمٰاوٴُکَ اٴَقْسَمْتَ اٴَنْ تَمْلَاٴَھٰا مِنَ الْکٰافِرینَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنّٰاسِ اٴَجْمَعینَ،وَ اٴَنْ
لیکن تونے اپنے پاکیزہ اسماء کی قسم کھائی ھے کہ جھنم کو انسان و جنات کے کافروں سے پُر کرے گا اور معاندین کو اس میں
تُخَلِّدَ فیھٰاالْمُعٰانِدینَ،وَاٴَنْتَ جَلَّ ثَنٰاوٴُکَ قُلْتَ مُبْتَدِئاً،وَتَطَوَّلْتَ بِالْإِنْعٰامِ مُتَکَرِّماً،اٴَفَمَنْ
ھمیشہ ھمیشہ رکھے گا۔اور تونے ابتداھی سے یہ کہہ دیا ھے اور اپنے لطف و کرم سے یہ اعلان کر دیا ھے کہ ”مومن
کٰانَ مُوٴْمِناًکَمَنْ کٰانَ فٰاسِقاً لاٰیَسْتَوُوْنَ۔
اور فاسق برابر نھیں ھوسکتے“۔
إِلٰھي وَسَیِّدِي،فَاٴَسْاٴَلُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي قَدَّرْتَھٰا، وَ بِالْقَضِیَّةِ الَّتي
تو خدایا ۔مولایا۔میں تیری مقدر کردہ قدرت اور تیری حتمی حکمت و قضاوت اور ھر محفل نفاذ پر غالب آنے والی عظمت کا حوالہ دے کر
حَتَمْتَھٰا وَ حَکَمْتَھٰا، وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْہِ اٴَجْرَیْتَھٰا،اٴَنْ تَھَبَ لِي فِي ھٰذِہِ اللَّیْلَةِ وَفي ھٰذِہِ السّٰاعَةِ
تجھ سے سوال کرتاھوں کہ مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری
کُلَّ جُرْمٍ اٴَجْرَمْتُہُ،وَکُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ،وَکُلَّ قَبیحٍ اٴَسْرَرْتُہُ،وَکُلَّ جَھَلٍ عَمِلْتُہُ،کَتَمْتُہُ
ظاھری اور باطنی برائیاں اور ساری جھالتیں جن پر میں نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان ،چھپا کر یا ظاھر کر کے عمل کیا ھے اور میری
اٴَوْاٴَعْلَنْتُہُ،اٴَخْفَیْتُہُ اٴَوْ اٴَظْھَرْتُہُ،وَکُلَّ سَیِّئَةٍ اٴَمَرْتَ بِإِثْبٰاتِھاَ الْکِرٰامَ الْکٰاتِبینَ،اَلَّذینَ وَکَّلْتَھُمْ
تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ھے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ھے اور میرے
بِحِفْظِ مٰایَکُونُ مِنِّي،وَجَعَلْتَھُمْ شُھُوداًعَلَيَّمَعَ جَوٰارِحِي،وَکُنْتَ اٴَنْتَ الرَّقیبَ عَلَيَّ
اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ھے اور پھر تو خود بھی ان سب کی نگرانی کررھا ھے اور جوان سے مخفی
مِنْ وَرٰائِھِمْ، وَالشّٰاھِدَ لِمٰاخَفِيَ عَنْھُمْ، وَبِرَحْمَتِکَ اٴَخْفَیْتَہُ، وَبِفَضْلِکَ سَتَرْتَہُ،وَاٴَنْ تُوَفِّرَ حَظِّي
رہ جائے اس کا گواہ ھے سب کو معاف فرمادے۔یہ تو تیری رحمت ھے کہ تونے انھیں چھپا دیا ھے اور اپنے فضل وکرم سے ان عیوب پر پر
مِنْ کُلِّ خَیْرٍاٴَنْزَلْتَہُ ،اٴَوْإِحْسٰانٍ فَضَّلْتَہُ،اٴَوْ بِرٍّ نَشَرْتَہُ،اٴَوْرِزْقٍ بَسَطْتَہُ،اٴَوْذَنْبٍ
دہ ڈال دیا ھے۔میرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ھونے والے ھر خیر و احسان اور نشر ھونے والی ھرنیکی ۔ھر وسیع رزق۔
تَغْفِرُہُ،اٴَوْخَطَاءٍ تَسْتُرُہُ۔
ھر بخشے ھوئے گناہ۔عیوب کی ھر پردہ پوشی میں سے میرا وافر حصہ قرار دے۔
یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ، یٰاإِلٰھي وَسَیِّدِي وَمَوْلٰايَ وَمٰالَکَ رِقّي، یٰامَنْ بِیَدِہِ
اے میرے رب ۔اے میرے رب۔اے میرے رب۔اے میرے مولا اور آقا! اے میری بندگی کے مالک۔اے
نٰاصِیَتِي،یٰاعَلیماً بِضُرِّي وَمَسْکَنَتي،یٰاخَبیراً بِفَقْرِي وَ فٰاقَتِي۔
میرے مقدر کے صاحب اختیار۔ اے میری پریشانی اور بے نوائی کے جاننے والے ۔اے میرے فقر و فاقہ کی اطلاع رکھنے والے!
یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ،اٴَسْاٴَلُکَ بِحَقِّکَ وَقُدْسِکَ،وَاٴَعْظَمِ صِفٰاتِکَ
اے میرے پروردگار ۔اے میرے رب۔اے میرے رب! تجھے تیری قدوسیت ۔تیرے حق اور تیرے عظیم ترین اسماء
وَاٴَسْمٰائِکَ،اٴَنْ تَجْعَلَ اٴَوْقٰاتِي مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّھٰارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُورَةً،وَبِخِدْمَتِکَ
وصفات کا واسطہ دے کر یہ سوال کرتاھوں کہ دن اور رات میں جملہ اوقات اپنی یاد سے معمور کردے۔اپنی خدمت کی مسلسل توفیق عطا
مَوْصُولَةً،وَاٴَعْمٰاليعِنْدَکَ مَقْبُولَةً،حَتّٰی تَکُونَ اٴَعْمٰاليوَاٴَوْرٰادِي کُلُّھٰاوِرْداً
فرما۔میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دے تاکہ میرے جملہ اعمال اور جملہ اوراد (یعنی ورد کی جمع) سب تیرے لئے
وَاحِداً،وَحٰالِي في خِدْمَتِکَ سَرْمَداً۔
ھوں۔ اور میرے حالات ھمیشہ تیری خدمت کے لئے وقف رھیں۔
یٰاسَیِّدِي یَامَنْ عَلَیْہِ مُعَوَّلِي،یٰا مَنْ إِلَیْہِ شَکَوْتُ اٴَحْوٰالي،یٰارَبِّ یٰارَبِّ
میرے مولا۔میرے مالک! جس پر میرا اعتماد ھے اور جس سے میں اپنے حالات کی فریاد کرتا ھوں۔
یٰارَبِّ،قَوِّعَلٰی خِدْمَتِکَ جَوٰارِحِي،وَاشْدُدْ عَلَی الْعَزیمَةِ جَوٰانِحِي،وَھَبْ لِيَ الْجِدَّ في
۔اے رب۔ اے رب۔ اے رب! اپنی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے میرے ارادہٴ دل کو
خَشْیَتِکَ،وَالدَّوٰامَ فِي الْإِتِّصٰالِ بِخِدْمَتِکَ،حَتّٰی اٴَسْرَحَ إِلَیْکَ فيمَیٰادینِ السّٰابِقینَ،وَ
مستحکم بنادے۔اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے
اٴُسْرِعَ إِلَیْکَ فِي الْبٰارِزینَ،وَاٴَشْتٰاقَ إِلٰی قُرْبِکَ فِي الْمُشْتٰاقینَ،وَاٴَدْنُوَ مِنْکَ
بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ھوں اور مخلصین کی طرح تیری
دُنُوَّالْمُخْلِصینَ،وَاٴَخٰافَکَ مَخٰافَةَ الْمُو قِنینَ،وَ اٴَجْتَمِعَ فِي جِوٰارِکَ مَعَ الْمُوٴْمِنینَ۔
قربت اختیار کروں۔صاحبان یقین کی طرح تیرا خوف پیدا کروں اور مومنین کے ساتھ تیرے جوار میں حاضری دوں۔
اٴَللّٰھُمَّ وَمَنْ اٴَرٰادَنِي بِسُوءٍ فَاٴَرِدْہُ وَمَنْ کٰادَنِيفَکِدْہُ،وَاجْعَلْنِيمِنْ اٴَحْسَنِ عَبیدِکَ
خدایا جو بھی کوئی میرے لئے برائی چاھے یا میرے ساتھ کوئی چال چلے تو اسے ویساھی بدلہ دینا اور مجھے بہترین حصہ پانے
نَصِیباً عِنْدَکَ،وَاٴَقْرَبِھِمْ مَنْزِلَةً مِنْکَ،وَاٴَخَصِّھِمْ زُلْفَةً لَدَیْکَ،فَإِنَّہُ لاٰیُنٰالُ ذٰلِکَ
والا ،قریب ترین منزلت رکھنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تیرے جود وکرم کے بغیر نھیں ھو سکتا۔
إِلاّٰبِفَضْلِکَ،وَجُدْ لِي بِجُودِکَ،وَاعْطِفْ عَلَيَّ بِمَجْدِکَ،وَاحْفَظْنِي بِرَحْمَتِکَ،وَاجْعَلْ
خدایا میرے اوپرکرم فرما۔اپنی بزرگی سے، رحمت نازل فرما اپنی رحمت سے میرا تحفظ فرمااورمیری زبا ن کو اپنے ذکر سے گویا فرما۔
لِسٰانِي بِذِکْرِکَ لَھِجاً،وَقَلْبِي بِحُبِّکَ مُتَیَّماً،وَمُنَّ عَلَيَّ بِحُسْنِ إِجٰابَتِکَ،وَاٴَقِلْنِي
میرے دل کو اپنی محبت کا عاشق بنادے اور مجھ پر بہترین قبولیت کے ساتھ احسان فرما۔
عَثْرَتِي،وَاغْفِرْ زَلَّتِي،فَإِنَّکَ قَضَیْتَ عَلٰی عِبٰادِکَ بِعِبٰادَتِکَ،وَاٴَمَرْتَھُمْ
میری لغزشوں سے در گذرفرما۔تو نے اپنے بندوں پر عبادت فرض کی ھے ۔انھیں دعا کا حکم دیا ھے
بِدُعٰائِکَ،وَضَمِنْتَ لَھُمُ الْإِجٰابَةَ۔
اوران سے قبولیت کا وعدہ فرمایا ھے۔
فَإِلَیْکَ یٰارَبِّ نَصَبْتُ وَجْھِي،وَإِلَیْکَ یٰارَبِّ مَدَدْتُ یَدِي،
اب میں تیری طرف رخ کئے ھوئے ھوں اور تیری بارگاہ میں ھاتھ پھیلائے ھوں ۔تیری عزت کا واسطہ میری
فَبِعِزَّتِکَ اسْتَجِبْ لِيدُعٰائِي،وَبَلِّغْنِي مُنٰايَ،وَلاٰتَقْطَعْ مِنْ فَضْلِکَ رَجٰائِي،
دعا قبول فرما، مجھے میری مراد تک پھنچادے۔ اپنے فضل وکرم سے میری امیدوں کو منقطع نہ فرمانا۔مجھے تمام
وَاکْفِنِي شَرَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ اٴَعْدٰائِي۔
دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا۔
یٰا سَریعَ الرِّضٰا،إِغْفِرْ لِمَنْ لاٰیَمْلِکُ إِلَّا الدُّعٰاءَ،فَإِنَّکَ فَعّٰالٌ لِمٰا تَشٰاءُ،یٰا مَنِ
اے بہت جلد راضی ھوجانے والے ! اس بندہ کو بخش دے جس کے اختیار میں سوائے دعا کے کچھ نھیں ھے کہ توھی ھر شے کا
اسْمُہُ دَوٰاءٌ،وَذِکْرُہُ شِفٰاءٌ،وَطٰاعَتُہُ غِنیً،إِرْحَمْ مَنْ رَاٴْسُ مٰالِہِ الرَّجٰاءُ،وَسِلاٰحُہ الْبُکٰاءُ،
صاحب اختیار ھے۔اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا اور جس کی اطاعت مالداری ھے، اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط
یٰاسٰابِغَ النِّعَمِ،یٰادٰافِعَ النِّقَمِ،یٰا نُورَ الْمُسْتَوْحِشینَ فِي الظُّلَمِ ،یٰا عٰالِماً لاٰ یُعَلَّمُ،صَلِّ عَلٰی
امیداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ھے، اے کامل نعمتیں دینے والے ۔ اے مصیبتوں کو رفع کرنے والے اور تاریکیوں میں وحشت زدوں کو
مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ،وَافْعَلْ بِي مٰااٴَنْتَ اٴَھْلُہُ،وَ صَلَّی اللّٰہ عَلٰی رَسُولِہِ وَالْاٴَئِمَّةِ الْمَیٰامینَ مِنْ
روشنی دینے والے ۔محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور میرے ساتھ وہ برتاوٴ کر جس کا تواھل ھے۔اپنے رسول اور ان کی مبارک ”آل
آلِہِ ،وَسَلَّمَ تَسْلیماً کَثیراً۔
آئمہ معصومین(ع)“پر صلوات و سلام فراوان نازل فرما۔

دعا کی اھمیت
دعا؛ خداوندعالم کی بارگاہ میں احتیاج اور ضرورت کے اظھار کا نام ھے۔
دعا؛ کائنات کے مالک اور ھر شئے سے بے نیازکی بارگاہ میں فقر وناداری کے بیان کا نام ھے۔
دعا؛ کریم باوفا کے دروازہ پر بے نوا فقیر کی التجا اور قادر مطلق کی بارگاہ میںکمزوروناتواںکے جھولی پھیلانے کا نام ھے۔
دعا؛ رحمن ورحیم ،حکیم وکریم ،سمیع وبصیرپروردگارکی بارگاہ میں ؛ضعیف و ناتواں، فقیر و مسکین اور ذلیل و مستکین بندہ کی امداد طلب کرنے کا نام ھے۔
دعا؛ خداوندکریم ، مالک الملک ، غفور وودود ،علیم وقدیرخدائے یگانہ اور بے عیب حکمراںکی بارگاہ میں تواضع وانکساری خشوع اور خضوع سے پیش ھونے کا نام ھے۔
دعا؛ محبوب خدا، معشوق زاھدین، نور چشم عارفین،راز ونیاز مشتاقین، مصیبت کے ماروں کی رات کا اجالا،غریبوں کی تکیہ گاہ اور محتاجوں کے دل کا چراغ ھے۔

دعا ،قرآن کی روشنی میں
فیض بے نھایت کا مرکز، جود وکرم کا موجیں مارتا ھوا سمندر، ھدایت ورھبری کا انتظام کرنے والا، علم ودانش کو نازل کرنے والاخداوندرب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
” قُلْ مَا یَعْبَاٴُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَدُعَاؤُکُمْ۔۔۔“[2]
”(اے پیغمبر ! ) کہہ دو اگر تمھاری دعائیں نہ ھوتیں تو پروردگار تمھاری پروا بھی نہ کرتا“۔
دعا؛ خدا وندعالم کی توجہ کا وسیلہ اور دعا کرنے والے پر رحمت الٰھی کے نزول کا سبب ھے، جس کے ذریعہ انسانی زندگی سے شقاوت اور بدبختی کا خاتمہ ھوجاتا ھے، اور دعا کرنے والے کی زندگی میں سعادت او رخوش بختی آجاتی ھے۔
محبت کرنے والوں کا محبوب، عشق کرنے والوں کا معشوق، یاد کرنے والوں کا مونس و غنموا اور شکر گزاروں کا ھمنشین،نیز بندوںکا ناصر ومدد گار اور اھل دل حضرات کا معتمد قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
” وَإِذَا سَاٴَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ اٴُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِی إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ۔“[3]
”اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ھوں، پکارنے والے کی آواز سنتا ھوں، جب بھی پکارتا ھے ،لہٰذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ پر ھی ایمان و اعتماد رکھیں شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں“۔
جی ھاں! خدا کے علاوہ کوئی بھی بندوں سے قریب نھیں ھے، وہ ایسا قریب ھے جس کی وجہ سے انسان وجود میں آیا ھے، اسی نے شکم مادر میں اس کی پرورش کی ھے، رحم مادر سے اس دنیا میں بھیجا ھے، اپنے اس مھمان کے لئے دنیا کی تمام مادی اور معنوی نعمتیں فراھم کی ھےں، اس کی ھدایت اور دنیا وآخرت میں اس کی سعادت اور خوشبختی کے لئے انبیاء کرام کو بھیجا ھے، اور قرآن کریم اور ائمہ معصومین علیھم السلام جیسی بے مثال نعمت سے نوازا ھے، اس کی پیاس کے وقت صاف اور شفاف پانی پیدا کیا ، اس کے کھانے کے لئے مناسب ترین لذیذ غذائیں فراھم کی ھیں اور اس کی بیماریوں کے علاج کا بندوبست کیا۔تنھائی کو دور کرنے کے لئے بیوی بچے اور دوست مھیا کئے۔بدن چھپانے کے لئے مختلف قسم کے کپڑے پھنائے۔لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈالی، اس کی سخت سے سخت مشکلات کو آسان کیا اس کی صحت و سلامتی کو باقی رکھا ،اس کے مرتبہ اور وقار میں اضافہ کیا۔
یہ تمام نعمتیں خدا کے علاوہ اور کون دے سکتا ھے، اور خدا کے علاوہ کون ھے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور حاجتوں کو جانتا ھو؟ یقینا صرف خدا ھی ھے جو انسان کے سب سے زیادہ نزدیک ھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
”وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ۔“[4]
” اور ھم نے انسان کو پیدا کیا اور ھمیں معلوم ھے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ھے اور ھم اس سے رگِ گردن سے زیادہ قریب ھیں“۔
انبیائے کرام جو عقل ودرایت ، بصیرت اور کرامت کے لحاظ سے تمام انسانوں سے افضل ھیں اور ان کے دل ودماغ دوسروں سے زیادہ نورانی ھیں، ان کا علم غیب و شھود دونوں کی بہ نسبت کامل اور ایک جیسا ھے، اور تمام چیزوں کی حقیقت کو اسی طرح جانتے ھیں جس طرح سے ھیں، وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے ساتھ وابستگی قائم کئے رکھتے تھے اور ان کی زندگی میں کوئی دن ایسا نہ آتا تھا جس میں اپنی عمر کا کچھ حصہ دعا میں بسر نہ کرتے ھوں، اور دعا کے ذریعہ اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضر نہ ھوتے ھوں۔
کیوں نہ ھو یہ حضرات دعا کو اپنی ترقی کا ذریعہ ،روح کے لئے رشد ، دل کی پاکیزگی اور باطن سے مادیت کا غبار ہٹانے کا ذریعہ اور زندگی کی راہ میں خداوندعالم کے فراق سے پیدا ھونے والی تمام مشکلات کا حل سمجھتے تھے،انھیں اس بات کا یقین تھا کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے والا کوئی بھی انسان اپنی حاجت لئے بغیر واپس نھیں پلٹتا۔ اسی وجہ سے دعا کے قبول ھونے پر ایمان رکھتے تھے اور ذرہ برابر بھی شک وترد ید کا شکار نھیں ھوتے تھے، وہ اپنی تمام دعاؤں کے قبول ھونے کے لئے نھایت خضوع کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں درخواست کرتے تھے اور انھیں سوفیصد اطمینان ھوتا تھا کہ ایک محتاج اور نیازمند کی دعا بے نیاز کی بارگاہ میں قبول ھوگی۔
قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح طور پر حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زبان سے اس طرح بیان کیا ھے:
” الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَہَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّی لَسَمِیعُ الدُّعَاءِ ۔“[5]
”شکر ھے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسی اولاد عطا کی، بے شک میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا ھے“۔
دعااس طاقت کا نام ھے کہ جس کے ذریعہ حضرت زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں خداوند رحمن کی بارگاہ میں بیٹے کی درخواست کی اور خداوندعالم نے آپ کی دعا کو مستجاب فرمایا اور آپ اور آپ کی بیوی (جو دونوں ھی بوڑھے تھے) کو حضرت یحییٰ جیسا فرزند عطا کیا۔[6]
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے اصحاب کی خواھش اور اصرار پر خداوندعالم کی بارگاہ میں آسمان سے دسترخوان نازل ھونے کی دعا فرمائی، جس کو خداوندعالم نے مستجاب فرمایا اور ان کے اصحاب ودوستوں کے لئے آسمان سے بہترین غدا نازل فرمائی۔[7]
خداوندعالم نے اپنے بندوں کو ھر حال میں دعا کرنے ، ھرخوشی اورغم میں اپنی بارگاہ میں سرِ تسلیم خم کرنے کا حکم دیاھے، اور اس کی بارگاہ رحمت میں اپنے ھاتھوں کو اٹھا کر دعا کریں اور ٹوٹے ھوئے دل کی وجہ سے آنکھوں سے نکلے ھوئے آنسو وؤں کے ساتھ اپنی حاجتوں کو خدا کے سامنے پیش کریں اوراس کے حتمی وعدے کے پیش نظر اپنی دعا کے قبول ھونے کی امید رکھےں، اس کا واضح اعلان ھے :”جو شخص دعا سے منھ موڑے گا، ذلیل وخوار ھوگا، اور آخر کار جھنم میں داخل کردیا جائے گا، جیسا کہ سورہ مومن (غافر) میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
” وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ۔“[8]
”اور تمھارے پروردگار کا ارشاد ھے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا، اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ھیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جھنم میں داخل ھوں گے“۔

دعا کی اھمیت احادیث کی روشنی میں
خداوندعالم کا تمام مخلوقات پربہت بڑا احسان ھے خصوصاً انسان پرکہ اس نے اپنی بے انتھا رحمت کا دسترخوان بچھایا اور اس کا لطف و کرم سبھی کے لئے عام ھے۔
اس کی بارگاہ سے کوئی ناامید نھیں ھوتا، اس کی بارگاہ سے کسی کو دھتکارا نھیں جاتااور اس کی بارگاہ میں کسی طرح کا کوئی بخل روا نھیں ھے۔
اس کا جود وکرم اور اس کی بخشش دائمی ھے، اور اس کی عطا سبھی تک پھنچے والی ھے، اور وہ خود منتظر ھے کہ اس کے بندے اس کی درگاہ میں پیش ھوں۔
حضرت داؤد علیہ السلام سے خطاب ھوا:
اھل زمین سے کھو: کیوں مجھ سے دوستی نھیں کرتے؟ کیا میں اس کا اھل نھیں ھوں، میں ایسا خدا ھوں جس کے یھاں بخل نھیں ھے، اورمیرے علم میں جھل کا تصور نھیں، میرے صبر میں کمزوری کا دخل نھیں،میری صفت میں تبدیلی کا کوئی تصور نھیں، میرا وعدہ کبھی خلاف نھیں ھوتا، میری رحمت بے کراں ھے، اور اپنے فضل وکرم سے واپس نھیں پلٹتا، روز ازل سے میں نے عھد کیا ھے، اور محبت کی خوشبومیں جل رھا ھوں، میں نے اپنے بندوں کے دل میں نور معرفت روشن کیا ھے، جو مجھے دوست رکھتا ھے میں بھی اس کو دوست رکھتا ھوں، اور جو میرا رفیق (اور ھمدم)ھے میں بھی اس کا رفیق (اور ھمدم )ھوں، اس کا ھم نشین ھوں جو شخص خلوت میں میرا ذکر کرتا ھے، اور اس کا مونس ھوں جو میری یاد سے مانوس ھوتاھے۔
اے داؤد ! جو شخص مجھے تلاش کرے گا میں اسے مل جاؤں گا، اور جس شخص کو میں مل جاؤں پھراس کو مجھے گم نھیں کرنا چاہئے۔ اے داوٴد ! (تمام) نعمتیں ھماری طرف سے ھیں(تو پھر) دوسروں کا شکر کیوں ادا کیا جاتا ھے، ھم ھی تو بلاؤں کو دور کرتے ھیں، (پھر کیوں) دوسرے سے امید رکھی جاتی ھے، ھم ھی سب کو پناہ دینے والے ھیں تو پھر کیوں دوسروں کی پناہ تلاش کی جاتی ھے، مجھ سے دور بھاگتے ھیں لیکن آخر کار میری طرف آناھی پڑے گا۔!!
قارئین کرام ! ایسی خوبصورت اور معنی سے لبریز عبارتیں اسلامی کتب میں بہت زیادہ ملتے ھیں، اور ایسے کلمات، قرآن کریم کی آیات کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی طرف سے ایک عظیم خوشخبری ھے، جن کے ذریعہ خداکے بندے اس کے فضل وکرم کے امیدوار ھوسکتے ھیں، اور اپنی حاجت روائی کے لئے اس کی عظیم باگارہ میں دست دعا پھیلاسکتے ھیں، اور اس یقین کے ساتھ کہ اپنے مقاصد کو دعا ھی کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ھے، اور ایسا کم ھوتا ھے کہ انسان بغیر دعا کے اپنے کسی اھم مقصد تک پھونچ جائے۔ اسی وجہ سے اسلامی روایات خصوصاً اھل بیت وعصمت وطھارت علیھم السلام کے کلمات میں دعا کی عظمت اوراھمیت بیان کی گئی ھے۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:
”إنَّ الدُّعاءَ ھُو العِبادَة“[9]
”یقینا دعا ھی عبادت ھے“۔
اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے یہ بھی نقل ھوا ھے:
”الدُّعاءُ مُخُّ العِِبادَةِ “[10]
”دعا مغز عبادت ھے“۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے:
”اٴَفضَلُ العِبادَةِ الدُّعاءُ “[11]
”دعا بہترین عبادت ھے“۔
اسی طرح آپ نے ارشاد فرمایا:
”۔۔۔مَا مِن شیءٍ اٴفضَلُ عِندَاللّہِ عزَّوجلَّ مِن اٴن یُسئَلَ ویُطْلَبَ مِمّا عِندَہ ،ومااٴَحَدٌ اٴَبغضُ إِلی الله مِمّن یَستَکبِرُعَن عِبادَتِہِ وَلا یَسئَلُ ماعِندَہُ“ [12]
”خدا کے نزدیک کوئی بھی چیز اس سے بہتر نھیں ھے کہ اس سے ان فیوض و برکات کی درخواست کی جائے جن کا وہ مالک ھے، اور کوئی شخص خدا کے نزدیک اس شخص سے زیادہ مبغوض نھیں ھے جو خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے سے منھ موڑے، اور خدا کی بارگاہ سے فضل وکرم کا طلب گار نہ ھو“۔
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ھے :
”اَحَبُّ الاٴعْمَالِ إلَی اللهِ تَعَالیٰ فِی الْاٴَرْضِ اَلدُّعَاءُ“۔[13]
”روئے زمین پر خدا کے نزدیک سب سے محبوب عمل دعا ھے“۔
اسی طرح آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
”الدُّعاءُ مَفاتِیحُ النِّجَاحِ،ومَقالیدُ الفَلاحِ،وَخَیْرُ الدُّعاءِ مَاصَدَرَ عَن صَدْرٍ نَقِیٍّ وَقَلْبٍ تَقِیٍّ، وَفِی المُناجاةِ سََبَبُ النَّجاةِ وَبِالإخلاصِ یَکُوْنُ الْخَلاٰصُ،فَاذا اشتَدَّ الفَزَعُ فَإلَی اللّہِ المَفزَعُ“[14]
”دعاکامیابی کی کلیداورکامرانی کا خزانہ ھے۔ اور بہترین دعا وہ ھے جو پاک وپاکیزہ سینہ اور پرھیزگار قلب سے نکلے، مناجات، نجات کا وسیلہ اور چھٹکارے کا ذریعہ ھے، اور جب انسان مشکلات میں گھر جائے تو اس کو چاہئے کہخدا کی بارگاہ کو اپنی پناہ گاہ قرار دے“۔
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
” ۔۔۔ فَإذا نَزَلَ البَلاءُ فَعَلَیکُم بِالدُّعاءِ وَالتَّضَرُّعِ إلَی اللّہِ“[15]
”جس وقت بلائیں نازل ھوں تو تمھیں چاہئے کہ دعا کرو اور بارگاہ رب العزت میں گریہ وزاری کے ساتھ حاضر ھو“۔
اسی طرح آپ کا ارشاد ھے:
”عَلَیکَ بِالدُّعاءِ؛فَإنَّ فیہِ شِفاءً مِن کُلِّ داءٍ“[16]
”تم لوگوں کو دعا کرنا چاہئے کیونکہ یھی ھر درد کی دوا ھے“۔

ایک ساتھ مل کر دعا کرنے کی اھمیت
جس وقت مومنین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دعا کرتے ھیں اور اجتماعی شکل میں خداوندعالم کی بارگاہ میں راز ونیاز ،توبہ اور گریہ وزاری کرتے ھیں اور تمام لوگ اس کی بارگاہ میں دست گدائی پھیلاتے ھیں حقیقت میں ان کی دعا باب اجابت سے نزدیک ھوجاتی ھے، کیونکہ دعا کرنے والے اس مجمع میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ھوتا ھے جس کا دل ٹوٹا ھوا ھو یا جو حقیر و بے نواھو یا کوئی خدا کا عاشق یا کوئی عارف ھوگا یا کوئی باایمان مخلص ھوگاجس کے اخلاص ،گریہ وزاری اور اضطرار اور نالہ وفریاد کی وجہ سے سب لوگ رحمت الٰھی کے مستحق قرار پائیںاور سب کی دعا مستجاب ھوجائے اور خداوندعالم کی مغفرفت کی بوچھار ھوجائے،جیسا کہ اسلامی روایات میں وارد ھواھے کہ ھوسکتا ھے خداوندعالم اپنے اس ایک بندہ کی وجہ سے سب لوگوں کی دعا قبول کرلے اور اس کی گریہ وزاری کی وجہ سے تمام لوگوں پر رحمت نازل کردے، سب کی حاجتیں پوری کردے اور ان سب کو معاف کردے، اور ان کی خالی جھولیوں کواپنے مخصوص فیض و کرم سے بھر دے۔
اس سلسلے میں وحی الٰھی کے منبع علم الٰھی کی منزل معرفت کے خزانہ ، رحمتوں کے باب یعنی ائمہ معصومین علیھم السلام سے روایات وارد ھوئی ھیںجن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:
” عَن اٴبی عَبدِاللّہِ(ع)قال:مَااجتَمَعَ اٴَربَعَةٌ قَطُّ عَلی اٴمرٍواحِدٍ فَدَعَوا إلّا تَفَرَّقواعَن إجَابَةٍ“[17]
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: جب چار افراد مل کر کسی ایک چیز کے بارے میں دعا کرتے ھیں ، جب وہ ایک دوسرے سے الگ ھوتے ھیں ان کی دعا قبول ھوچکی ھوتی ھے،(یعنی ان کے جدا ھونے سے پھلے پھلے ان کی دعا قبول ھوجاتی ھے)
”قَال النَّبِیُّ(ص) :لا یَجتَمِعُ اٴربَعونَ رَجُلاً فی اٴمرٍ واحِدٍ إلّااسْتَجابَ الّلہُ تَعالی لَہُم حَتّی لَو دَعَوْا عَلی جَبَلٍ لَاٴزالُوہُ۔ “[18]
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: کوئی چالیس افراد مل کر کسی کام کے لئے دعا نھیں کرتے مگر یہ کہ خدا ان کی دعا قبول کرلیتا ھے یھاں تک کہ اگر یہ لوگ کسی پھاڑ کے بارے میں دعا کرےں تو وہ بھی اپنے جگہ سے ہٹ جائے گا۔
عالم ربانی ، عارف عاشق ”ابن فھد حلّی“ اپنی عظیم الشان کتاب ”عدّة الداعی“ میں روایت نقل کرتے ھیں (جیسا کہ صاحب وسائل الشیعہ نے اس روایت کو نقل کیا ھے):
”إن الله اٴوحَی إلی عیسَی علیہ ا لسلام : یا عِیسَی! تَقَرَّبْ إلَی المُومِنینَ،وَمُرْھُم اٴَن یَدعُونِی مَعَکَ“[19]
”خدا وندعالم نے جناب عیسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ اے عیسیٰ! مومنین کے مجمع کے قریب ھوجاؤ اور ان کو حکم دو کہ میری بارگاہ میں تمھارے ساتھ دعا کریں“۔
”عَن اٴَبی عَبدَاللهِعلیہ ا لسلام قالَ:کانَ اٴبی علیہ ا لسلام إذا اٴحْزَنَہُ اٴمرٌجَمَعَ النِساءَ وَالصِّبیانَ ثُم دَعا وَاٴمَّنُوا“[20]
”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ھمارے والد بزرگوار ھمیشہ اس طرح کیا کرتے تھے کہ جب کسی کام کی وجہ سے غمگین اور پریشان ھوتے تھے تو عورتوں او ربچوں کو جمع کیا کرتے تھے اوراس وقت آپ دعا فرماتے تھے اور وہ سب آمین کہتے تھے“۔

ناامیدی اور مایوسی کفار سے مخصوص ھے
دعا کرنے والے کو اس کا علم ھونا چاہئے کہ خداوندعالم نے خود اس کو دعا کا حکم دیا ھے اور اس کے قبول ھونے کی ضمانت بھی لی ھے،نیز دعا کا قبول کرنا خداوند عالم کے لئے بہت ھی آسان ھے، کیونکہ اس کائنات کی تمام چیزیں اس کی حکمرانی کے تحت گردش کرتی ھیں اور وہ صرف ایک اشارہ سے دعا کرنے والوںکی دعا قبول ھونے کے سارے اسباب فراھم کرسکتا ھے۔
لہٰذا کسی بھی شخص کے لئے یہ مناسب نھیں ھے کہ خدائے رحمن جس کی قدرت، بصیرت، کرم، لطف، فیض اور اس کی رحمت بے انتھا ھے؛ اس سے مایوس اور نا امید ھو چونکہ خداوندعالم اپنے بندوں سے محبت کرتا ھے خصوصاً جب کوئی بندہ اس سے راز ونیاز اور دعا میں مشغول ھوتا ھے، اورمایوسی او رناامیدی قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفار سے مخصوص ھے:
” وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّہُ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ۔“[21]
”اور رحمت خدا سے مایوس نہ ھونااس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نھیں ھوتا“۔
قرآن مجید نے واضح طور پر اس بات پر زور دیا ھے کہ رحمت خدا سے ناامید اور مایوس نہ ھوں:
”۔۔۔لاٰ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ ۔۔۔“ [22]
نیز اس سلسلہ میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:
”الفَاجِرُ الرَّاجِی لِرَحْمَةِ اللهِ تَعالَی اٴقْرْبُ مِنْھا مِنَ العَابِدِ الْمُقَنَّطِ“[23]
”رحمت الٰھی سے مایوس عبادت گزار کے مقابلہ میں رحمت الٰھی کا امیدوار بدکار ، رحمت الٰھی سے زیادہ نزدیک تر ھے“۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”الیَاٴسُ مِن رَوحِ اللهِ اٴشدُّ بَرداً مِنَ الزَّمہَریرِ“۔ [24]
”رحمت خدا سے ناامیدی کی ٹھنڈک ، تیز سردی کی ٹھنڈک سے بھی زیادہ ھے“۔
معارف اسلامی اور روایات معصومین(ع) میں رحمت خدا سے مایوسی اور ناامیدی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ھے،اور رحمت خدا سے مایوسی کے لئے عذاب کا حتمی وعدہ دیا گیا ھے۔
اگر دعا کرنے والے شخص کی دعا جلدی قبول نہ ھو تو اس کو مایوس نھیں ھونا چاہئے کیونکہ دعا کا قبول ھونا اس کے لئے مفید نہ ھوجیسا کہ قرآن کریم اور روایات معصومین(ع)سے معلوم ھوتا ھے، شاید دعا قبول ھونے کا موقع اور محل نہ ھو، اور شاید اس کی ایک وجہ یہ ھوکہ خدا چاہتا ھو کہ دعا کرنے والا اور مناجات کرنے والا اپنی دعا اور مناجات میں لگا رھے اس وجہ سے اس کی دعا قبول نہ ھوئی ھو، یا ھوسکتا ھے کہ اس کی وجہ یہ ھو کہ دعا کرنے والے کو ا اس دعا کے بدلے میں آخرت میں ایک عظیم مرتبہ ملنے والا ھو، اور قیامت کے روز اس کی دعا قبول ھونے والی ھو، بھر حال رحمت خدا سے مایوسی کسی بھی صورت میں عقلی، شرعی، اخلاقی اور انسانی فعل نھیں کھا جاسکتا، اور ایک مومن کبھی بھی رحمت الٰھی سے مایوس نھیں ھوتا۔
چنانچہ دعاسے مربوط مسائل کے سلسلہ میں اسلامی کتب میں بہت اھم روایات بیان ھوئی ھیں، لہٰذا ھم یھاں پر اپنے موضوع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کا تذکرہ مناسب سمجھتے ھےں:
۱۔ ”عَنْ اٴبِی عَبْدِ اللهِ عَلَیْہِ السَّلاٰمُ قَالَ : إِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمَلَکَیْنِ قَدِاُسْتَجَبتُ لَہُ، َولٰکِنِ اْْحْبِسُوہُ بِحاجَتِِہِ، فَاِنِّی اٴُحِبُّ اٴنْ اٴسمَعَ صَوْتَہُ واِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : عَجِّلُوْا لَہُ حَاجَتَہُ، فَاِنِّی اُبْغِضُ صَوْتَہُ!![25] “
”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بے شک جب بند ہ اپنے خدا کی بارگاہ میںدعا کرتا ھے، تو خداوندعالم اپنے دو فرشتوں سے فرماتا ھے: میں نے اس کی دعا قبول کرلی ھے، لیکن تم اس کی حاجت براری کوفی الحال روک لو، تاکہ وہ دعا کرتا رھے: کیونکہ میں اس کے گڑگڑانے کی آواز (بار بار)سننا چاہتا ھوں۔ اور کبھی بندہ کے دعا کرتے ھی خدااپنے فرشتوں سے فرماتا ھے: اس کی حاجت کوبہت جلد پورا کردو کیونکہ مجھے اس کی آواز اچھی نھیں لگ رھی ھے“۔
۲۔”عن منصور الصیقل قال: قُلتُ لِاٴبِی عَبدِاللهِعلیہ السلام:رُبَّما دَعا الرَّجُلُ بِالدّعاءِ فَاستُجیبُ لَہ ثُمّ اٴُخِّرَ ذَلکَ اِلی حینٍ قالَ فقالَ :نَعَمْ۔قُلتُ:وَلِمَ ذَاکَ
لِیَزدَادَ مِنَ الدُّعاءِ؟قالَ نَعَمْ“۔[26]
”منصور صیقل کہتے ھیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت مبارک میں عرض کیا: کبھی کوئی شخص دعا کرتا ھے اور(دعا کرتے ھی) اس کی دعا قبول ھوجاتی ھے ، اور ایک زمانہ تک اس کی حاجت پوری نھیں ھوتی ھے۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاںایسا ھی ھے، تو میں نے عرض کیا: ایسا کیوںتاکہ وہ اس سے بار بار مانگے ؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں (ایسا ھی ھے)“۔

دعا کے شرائط
دعا کرنے والا اگریہ چاھے کہ اس کی دعا قبول ھوتواس کے لئے ضروری ھے کہ دعا سے پھلے دعا کے شرائط کا لحاظ کرے، اور یہ شرائط اھل بیت علیھم السلام سے مروی رویات کی صورت میں مختلف معتبر کتابوں جیسے کتاب”اصول کافی“ ،”محجة البیضاء“ ، ”وسائل الشیعہ“ اور ”جامع احادیث الشیعہ “وغیرہ میں بیان ھوئے ھیں۔
دعا کے شرائط بغیر کسی تفسیر ووضاحت کے اس طرح ھیں:
طھارت جیسے وضو، غسل اور تیمم ، حق الناس کی ادائیگی، اخلاص، دعا کو صحیح طریقہ سے پڑھنا، حلال روزی، صلہٴ رحم، دعا سے پھلے صدقہ دینا، خدا کی اطاعت کرنا، گناھوں سے پرھیز، اپنے عمل کی اصلاح، سحر کے وقت دعا، نماز وتر میں، فجر صادق کے وقت، طلوع آفتاب کے وقت اللہ سے گڑگڑا کر اپنی حاجت پوری ھونے کی دعا کرنا، بدھ کے روز ظھر وعصر کی نماز کے درمیان دعا کرنا دعاسے پھلے صلوات پڑھنا۔[27]

شب جمعہ
اھل بیت عصمت وطھارت علیھم السلام کی روایات میں شب جمعہ کو دعاکابہترین اور مناسب وقت قرار دیا گیا ھے، اور شب جمعہ کو عظمت کے لحاظ سے شب قدر کی طرح قرار دیا گیا ھے۔
بزرگ علماء کرام، اھل بصیرت اوراولیاء اللہ کہتے ھیں:
اگر ھوسکے تم لوگ شب جمعہ کو دعا،ذکراور استغفار میںبسر کرو اور اس کے انجام سے غفلت نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنین پر رحم وکرم کرتے ھوئے اعمال کے اجرمیں اضافہ کے لئے فرشتوں کو آسمان اول پر بھیجتا ھے تاکہ تمھاری نیکیوں میں اضافہ کریں اور تمھارے گناھوں کو مٹادیں۔
ایک معتبر حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوا ھے:
ھوسکتا ھے کہ کوئی مومن کسی چیز کے لئے دعا کرے، اور خداوندعالم اس کی حاجت پوری کرنے میں دیر کرے، یھاں تک کہ جمعہ کا روز آجائے اور اس دن اس کی حاجت پوری کی جائے۔[28]
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوا ھے کہ جس وقت برادران یوسف(ع) نے اپنے باپ سے یہ درخواست کی کہ وہ خدا کی بارگاہ میں ان کے گناھوں کی بخشش کی دعا فرمائیں توجناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: میں عنقریب تم لوگوںکی مغفرت کے لئے خداوندعالم سے استغفار کروں گا، اور اس دعا اور طلب مغفرت کو شب جمعہ کی سحر تک روکے رکھا تاکہ ان کی دعا (شب جمعہ کی سحر میں) قبول ھوجائے[29]
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
خداوندعالم ھر شب جمعہ اپنے فرشتوں کوحکم دیتا ھے کہ اے فرشتو! اپنے رب اعلیٰ کی طرف سے شب جمعہ کی ابتداء سے آخر تک یہ آواز دیتے رھو کہ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ھے جو طلوع فجر سے پھلے پھلے دنیا وآخرت کی حاجت کے لئے اپنے پروردگار کوپکارے، تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ھے جو طلوع فجر سے پھلے پھلے اپنے گناھوں کی توبہ کرے تاکہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ھے جس کی روزی میں نے کم کردی ھواور وہ مجھ سے روزی زیادہ کراناچاہتا ھو تاکہ میں طلوع فجر سے پھلے پھلے اس کی روزی زیادہ کردوں؟ تاکہ اس کی روزی میں وسعت کردوں۔کیا کوئی مومن مریض ھے اور طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے صحت وسلامتی چاہتاھے تاکہ میں اس کو شفا اور عافیت عطا کردوں؟کیا کوئی بندہ مومن غمگین اور قیدی ھے،اوروہ طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے زندان سے رھائی چاھے تاکہ میں اس کی دعا کو مستجاب کرلوں؟ کیا کوئی مظلوم مومن بندہ ھے جو طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے ظالم سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرے کہ میں ظالم سے بدلہ لوں اور اس کا حق اس کو دلوادوں؟ چنانچہ فرشتہ صبح تک اس طرح کی آواز لگاتا رہتا ھے۔[30]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
شب جمعہ گناھوں سے پرھیز کرو کیونکہ اس شب میں گناھوں کی سزا کئی گُنا ھوجاتی ھے، جیسا کہ نیکیوں کا ثواب بھی چند برابر ھوتا ھے، اور جو شخص شب جمعہ میں معصیت خدا کو ترک کرے خداوند عالم اس کے گزشتہ گناھوں کو اس شب کی برکت سے معاف کردیتا ھے، اور اگر کوئی شخص شب جمعہ علی الاعلان گناہ کا مرتکب ھو تو خداوندعالم اس کی عمر کے برابر اس کوعذاب میں مبتلا کردیتا ھے، اور شب جمعہ علی الاعلان گناہ کرنے کا عذاب اس وجہ سے چند برابر ھوجاتا ھے کیونکہ اس نے ”شب جمعہ کی حرمت“ کو پامال کیا ھے۔[31]
قارئین کرام ! شب جمعہ کے لئے بہت سی دعائیں ، ذکر اور ورد بیان ھوئے ھیں جن میں سے دعاء کمیل خاص اھمیت کی حامل ھے۔

کمیل بن زیاد نخعی
شیعہ سنی بزرگ علماء نے کمیل بن زیاد کی قوت ایمان، قدرت روح، پاک وپاکیزہ فکر، خلوص نیت، اخلاق حسنہ اور بہترین اعمال سے آراستہ ھونے کے لحاظ سے تعریف وتوصیف کی ھے۔
دونوں فرقوں کے علماء کمیل بن زیاد کی عدالت، جلالت، عظمت اور ان کی کرامت کے سلسلہ میں متفق ھےں۔
کمیل بن زیاد حضرت امیر المومنین اور حضرت امام حسن مجتبیٰ علیھما السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے [32]
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنے دس قابل اطمینان اصحاب میں شمار کیا ھے۔[33]
جناب کمیل بن زیاد حضرت علی علیہ السلام کے بہترین شیعہ، عاشق ، محب اور دوستدار تھے۔[34]
جو وصیتیں اور نصیحتیں حضرت علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو فرمائی ھیں ، وہ کمیل بن زیاد کے بہترین ایمان اور معرفت پر دلالت کرتی ھیں۔
اھل سنت حضرات جو حق وعدالت اور انصاف ومروت سے دوری کی وجہ سے اھل بیت علیھم السلام کے چاھنے والوں کے سلسلہ میں مثبت نظریہ نھیں رکھتے ھیں؛ لیکن پھر بھی کمیل بن زیاد کو تمام امور میں مورد اطمینان قرار دیتے ھیں۔[35]
عرفاء ،صاحبان سیر وسلوک اور دیدار محبوب کے مشتاق افراد کمیل بن زیاد کو حضرت علی علیہ السلام کا ھمراز اور آپ کے معنوی معارف کا خزانہ سمجھتے ھیں۔
کمیل بن زیاد نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حیات طبیہ میں۱۸ سال زندگی گزاری اور شمع رسالت کے نور سے بھرہ مند رھے۔
جناب کمیل ؛ایک عظیم انسان اور طیب وطاھر وجود کے مالک تھے، جو اپنی لیاقت کی بنا پر حجاج بن یوسف ثقفی کے ھاتھوں شھادت کے عظیم درجہ پر فائز ھوئے، جیسا کہ آپ کے محبوب (حضرت علی علیہ السلام) نے ان کی شھادت کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی تھی۔
جب خونخوار حجاج بن یوسف ظالم اموی حکمراںکی طرف سے عراق کا گورنربنایا گیا، اس وقت اس نے کمیل بن زیاد کو تلاش کرنا شروع کردیاتاکہ ان کو محبت اھل بیت علیھم السلام کے جرم میں اور شیعہ ھونے کے جرم میں جو بڑا جرم تھا قتل کرے۔
کمیل بن زیاد ؛ حجاج کی نگاھوں سے چھپے ھوئے تھے ، جس کی بنا پر حجاج نے کمیل بن زیاد کے رشتہ داروں کا وظیفہ بیت المال سے بند کردیا ، جس وقت جناب کمیل کو اس چیز کی خبر پھنچی کہ میرے رشتہ داروں کا وظیفہ
میری وجہ سے بند کردیا گیا ھے، تو آپ نے فرمایا:
”اب میرا آخری وقت ھے میری وجہ سے میرے رشتہ داروں کا وظیفہ اور رزق بند ھونا مناسب نھیں ھے“۔
یہ کہہ کر اپنی مخفی گاہ سے باھر نکلے اور حجاج کے پاس خود چلے گئے، حجاج نے کھا:میں تجھے سزا دینے کے لئے تلاش کررھا تھا۔
جناب کمیل بن زیاد نے کھا: جو تو کرسکتا ھے کر گزر، یہ میری آخری عمر ھے، اور عنقریب ھی ھم اورتم خدا کی بارگاہ میں جانے والے ھیں، میرے مولا (علی بن ابی طالب علیہ السلام) نے مجھے پھلے ھی یہ خبر دے دی ھے کہ تو میرا قاتل ھے۔
حجاج نے حکم دیا کہ کمیل بن زیاد کا سر قلم کردیا جائے اس وقت اس مرد الٰھی اور نورانی شخصیت کی عمر ۹۰ سال تھی، چنانچہ حجاج کے ھاتھوں آپ کی شھادت واقع ھوگئی، آپ کامرقد مطھر ”ثویّہ“ نامی علاقے میں ھے جو نجف اور کوفہ کے درمیان ھے جھاں پر ھر روز عام وخاص سیکڑوں افرادیارت کے لئے جاتے ھیں۔

دعاء کمیل
عارفین عاشق اور عاشقین عارف، بیدار دل اور حقائق سے آشنا حضرات کی نظر میں دعاء کمیل کی وھی اھمیت ھے جو تمام مخلوقات میں انسان کی ھے، جس طرح انسان کو اشرف المخلوقات شمار کیا جاتاھے اسی طرح دعاء کمیل کواشرف دعا شمار کیا جاتا ھے، اور اس کو ”انسان الادعیہ“ (دعاؤں کا انسان) کھا جاتا ھے۔
علامہ کم نظیر ، محقق خبیر اور محدث بصیر حضرت علامہ مجلسی نے اس دعا کو دو سری اور دعاؤ ں میں سب سے بہتر قرار دیا ھے۔
چنانچہ علامہ موصوف اپنی کتاب ”زاد المعاد“ میں سید بن طاووس کی کتاب ”اقبال“ سے نقل کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
”جناب کمیل نے فرمایا: ایک روز میں شھر بصرہ میں اپنے مولا وآقا حضرت علی علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں حاضر تھا، اس وقت ۱۵ شعبان المعظم کے سلسلہ میں گفتگو ھونے لگی، آپ نے فرمایا: جو شخص اس رات کو جاگ کر گزارے اور حضرت خضر علیہ السلام کی دعا پڑھے، تو اس کی دعا ضرور قبول ھوگی۔ جس وقت آپ وھاں سے گھر تشریف لائے تومیں بھی آپ کے پیچھے پیچھے پھونچا، جب امام علیہ السلام نے مجھے دیکھا تو فرمایا: کیا کوئی کام ھے؟ میں نے عرض کیا:
مولا! دعائے حضرت خضر(ع)کی خاطر آپ کی خدمت میں آیا ھوں۔
آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا:
اے کمیل! جب اس دعا کو یاد کرلو تو اس کو ھر شب جمعہ یا مھینہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یا (کم سے کم) اپنی زندگی میں ایک بار (ضرور) پڑھ لینا، اس دعا کے پڑھنے سے دشمن کے شر سے محفوظ رھوگے، اور تمھاری غیبی مدد ھوگی، روزی زیادہ کردی جائے گی، اور تمھارے گناہ بخش دئے جائیں گے۔
اے کمیل ! (یاد رکھو) تمھارا ھمارے ساتھ زیادہ رھنا اور ھماری زیادہ تعریف کرنا اس بات کا سبب بنا کہ اس عظیم الشان دعاسے تمھیں سرفراز کروں۔
اور اس کے بعد آپ نے پوری دعا تلقین فرمائی۔
با معرفت مناجات کرنے والے عالم ربّانی مرحوم کفعمی اپنی عظیم الشان کتاب ”مصباح“ میں تحریر کرتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس دعا کو سجدہ کی حالت میں پڑھتے تھے۔[36]
اس دعا کو پڑھنے والے کو چاہئے کہ شب جمعہ کو تمام شرائط کا لحاظ کرنے کے ساتھ روبقبلہ ھو اور خشوع وخضوع کے ساتھ آنسووٴں سے بھری آنکھیں اور لرزتی ھوئی آواز میں اس دعا کو پڑھے ، کہ اس طرح دعا پڑھنا باب اجابت سے نزدیک ھے اور اس کے آثار جلدی ظاھر ھوتے ھیں۔ [37]
آنسو بھر ی آنکھیں خداوندعالم کی نظر میں بہت اھمیت رکھتی ھیںاور آنسو بھری آنکھیں اور سوز دل سے رونااور گڑ گڑانا گناھوں کی بخشش اور خدا وندعالم کے غضب کو خاموش کرنے نیز رحمت الٰھی نا زل ھونے کا سبب ھوتی ھیں۔[38]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:
”گریہ ونالہ اورفریاد کے علاوہ کوئی چیز ایسی نھیں ھے جس کے لئے کوئی پیمانہ نہ ھو، کیونکہ گریہ کا ایک قطرہ دریامیں لگی آگ کو خاموش کردیتا ھے، جب آنکھیں آنسوٴوں سے نم ھوجائیں، جب چھرہ پر ذلت و خواری کے آثار ظاھر ھوں اور جب انسان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں تو خداوندعالم اس پر آتش جھنم کوحرام کردیتا ھے، بےشک اگر امت میں کوئی ایک بھی رونے والا موجود ھو تو تمام امت شامل رحمت الٰھی ھوجاتی ھے۔[39]
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ بھی ارشاد ھے کہ قیامت کے دن تین آنکھوں کے علاوہ سب آنکھیں گریاں کناں نظر آئیں گی:
۱۔ وہ آنکھ جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو نہ دیکھے۔
۲۔ وہ آنکھ جو راہ خدا میں جاگے۔
۳۔ وہ آنکھ جو راتوں کو خوف خدا سے روتی رھے۔[40]

” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“
”شروع کرتا ھوں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ھے۔“
دعاء شریف کمیل کا آغاز بے نھایت نورانی مرکز ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ سے ھونے کی چند دلیلیں ھوسکتی ھیں:
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ؛ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: پرودگار عالم کاارشاد ھے:
۱۔” کُلّ اٴَمرٍ ذِی بالٍ لا یُذکَر بِسمِ اللهِ فِیہِ فَہُوَ اٴَبتَرُ “[41]
”ھر وہ اھم کام جو خدا کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ بے فائدہ ھے یعنی وہ مقصد تک نھیں پھونچ سکتا“
۲۔ مرحوم طبرسی نے اپنی عظیم الشان کتاب ”مکارم الاخلاق“ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ھے:
” مَا مِن اٴَحدٍ دَہَمَہُ اٴَمرٌ یَغُمُّہُ اٴَوکَرَّبَتہُ کُرْبَةٌ فَرَفَعَ رَاٴْسَہُ اِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ قالَ ثَلاثَ مَرّاتٍ بِسمِ اللهِ الرَّحمَنِ الَّرحِیمِ اِلّا فَرَّجَ اللهُ کُربَتَہُ وَاٴَذْہَبَ غََمَّہُ اِن شآءَ اللهُ تَعالی“[42]
” کوئی پریشان اور غمگین شخص ایسا نھیں جو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاکر تین بار ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ پڑھے ، اور خدا اس کی پریشانی اور غم واندوہ کودور نہ کرے، اگر خداوندمتعال کا ارادہ شامل حال ھو “۔
۳۔ ”لایُرَدُّ دُعاءٌ اٴوَّلُہُ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“[43]
”جس دعا کی ابتداء ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ سے کی جائے وہ بارگاہ الٰھی میں ردّ نھیں ھوگی“۔
۴۔حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جھنم کے شعلوں کو ۱۹ شمار کیا ھے اور فرمایا جو شخص ان ۱۹ شعلوں سے محفوظ رھنا چاھے اس کو ھمیشہ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کا ورد کرتے رھنا چاہئے ، جس کے ۱۹ حرف ھیں تاکہ خداوندعالم اس کے ھر حرف کو جھنم کے ایک شعلہ کے لئے سپر قرار دے۔
۵۔ نیز حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ھے کہ جب کوئی استاد اپنے شاگرد کو ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کی تعلیم دے تو خداوندعالم اس بچے ، اس کے ماں اور اس استاد کے لئے آتش جھنم سے نجات کا پروانہ لکھ دیتا ھے۔
۶۔ اسی طرح پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ھے کہ میری امت کو روز قیامت حساب وکتاب کے میدان میں روک لیا جائے گا، اور ان کے اعمال کا حساب وکتاب کیا جائے گا ، اور ان کے اعمال کو ایک ترازو میں رکھا جائے گا ان کی نیکیاں ؛ برائیوں پر بھاری ھیں، یہ دیکھ کر دوسری امتیں چلائیں گی کہ اس امت کی تھوڑی سی نیکیوں کی وجہ سے کیوں ان کا پلہ بھاری ھے؟ تو اس وقت ان کے نبی جواب دیں گے: کیونکہ یہ امت اپنے ھر کام کا آغاز خداوندعالم کے تین ناموں سے کیا کرتی تھی: ”اللّٰہِ“”الرَّحْمٰنِ“”الرَّحِیْمِ“ کہ اگر ان ناموں کو ترازوکے ایک پلہ میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں تمام انسانوں کی نیکیاں اور برائیاںرکھ دیں جائیں تو ان تینوں ناموں کا پلڑا بھاری رھے گا۔
۷۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ھے کہ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ اسم اعظم سے اتنا نزدیک ھے جتنی آنکھ کی سیاھی سے سفیدی نزدیک ھوتی ھے۔[44]
بے شک جب کوئی دعا (خصوصاً دعاء کمیل)حضرت حق کے اسم اعظم سے شروع ھو تو یقیناً باب اجابت سے ٹکرائے گی، اور پڑھنے والے کی مرادیں پوری ھوںگی۔
”بسم الله“ وہ شراب طھور ھے کہ اسے جس وقت ساقی عشق کے ھاتھوں سے دل وجان نوش کریں تو ایسا وجد اور نشاط طاری ھوتا ھے جس کی توصیف کرنا مشکل ھے، اور وہ معشوق کے عشق میں کھوجائے اور اپنے محبوب کے وصال کے لئے بغیر کسی خستگی اور تھکن کے راستہ کو طے کرتا چلا جاتا ھے۔

”بِسْمِ اللّٰہِ“ کے کچھ دل چسپ نکات
لفظ”اسم“ علم صرف ونحو کے لحاظ سے ”سمّو“ سے نکلا ھے جس کے معنی رفعت، بلندی، بزرگی اور برتری کے ھیں۔
خداوندمھربان نے اپنے اس نورانی اور اثر بخش کلام میں لفظ”اسم“ سے حرف ”با“ کو متصل کیا ھے، تاکہ انسان اس لفظ کو جاری کرتے وقت یہ توجہ کرے کہ محبوب کے نام سے محبوب کی بارگاہ میں متوسل ھونا چاہتا ھے اور اس محبوب سے متوسل ھونا صرف زبان سے اس کا نام لینا کافی نھیں ھے بلکہ جب تک اپنے دل سے اخلاقی اور معنوی گندگی کو دور نہ کرے اور اپنی زبان کو اور بے ھودہ باتوں نیز غیر خدا کے ذکر سے استغفار کے پانی سے پاک نہ کرے اس وقت تک اپنے اندر محبوب سے متوسل ھونے اور اس کے جلوہ کے نظارہکا امکان پیدا نھیں ھوسکتا، نیز اس اھم بات کی طرف بھی توجہ رھے کہ دل و جان کی طھارت، اخلاص نیت، اور اپنی نیازمندی اور حضرت حق کی بے نیازی کے اقرار کے بغیر ، خداوندمنان کا نام زبان پر جاری کرنا اس کی شان میں بے ادبی اور گستاخی ھے:

ہزار بار بشویم دھان بہ مشک وگلاب
ھنوز نام تو بردن کمال بی ادبی است
(اگر ہزار بار بھی مشک وگلاب سے اپنا منھ دھوکر بھی تیرا نام لیا جائے تو بھی انتھائی بے ادبی ھے)
خداوندمتعال چونکہ مصدرپاکیزگی، طھارت اور تقدس ھے اور یہ خاکی انسان بالکل بے بضاعت اور ھیچ ھے، لہٰذا یہ ادنیٰ درجہ والا انسان بغیر کسی واسطہ کے عزت وجلالت کی طرف عروج نھیں کرسکتا، اس لئے خداوندعالم نے ”بسم اللہ“ کو اپنے اور اس کے درمیان واسطہ قرار دیاتاکہ انسان اس عظیم المرتبت اور آسمانی کلام کے ذریعہ اپنے دل وجان میں اس کے اثرات مرتب کرکے رفعت وبلندی کی سیڑھی پر قدم رکھے اورغیبی طور پر جمال وجلال کا مشاھدہ کرنے کی صلاحیت کا راستہ ھموار کرے۔
ایک عارف عاشق اور صاحب دل فرماتے ھیں: حرف ”ب“ حرکت اور سلوک کی ابتداء پر اشارہ کرتاھے اور حرف ”ب“ سے حرف ”س“ تک معرفت کا ایک عظیم مید ان ھے، حرف”ب“ اور” اسم“کے درمیان سے لفظ ”اسم“ کے الف کا نہ پڑھا جانا اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ جب تک اس راستہ پر چلنے والے کی انانیت اور غرور؛ نور توحید میں غرق نہ ھوجائے اور وہ اپنے کو دوست کی محبت کے عشق کی آگ میں نہ جلادے اس طرح کہ وہ تسلیم اور بندگی کا پتلا بن جائے ، اس وقت تک وہ رازِ معرفت تک رسائی حاصل نھیں کرسکتا ھے، اور اس نورانی سلسلہ میں ”میم“ تک نھیں پھونچ پائے گا۔
بعض حضرات کا کھنا ھے کہ ”ب“ اس کی نیکی واحسان کی طرف اشارہ ھے جو سب کے لئے ھے، اور اکثر اوقات عام لوگوں سے تعلق رکھتا ھے، اور ”سین“ سے مراد خداوندعالم کے اسراران خاص افراد کے لئے ھیں جو دل والے ھیں، اور ”میم“ اس محبت کی نشانی ھے جو خاص الخاص اور اصحاب اسرار کے لئے مخصوص ھے۔
عظیم الشان کتاب ”اصول کافی“ ، ”توحید صدوق“، ”معانی الاخبار“ اور ”تفسیر عیاشی“ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ ان تینوں حروف سے خدا کے ایک ایک اسماء حسنیٰ کی طرف اشارہ ھے، ”با“ سے بھای الٰھی ، ”سین“ سے سناء الٰھی (جس کے معنی بلندی اور رفعت نور کے ھیں) اور ”میم“ سے خداوندعالم کی مجد اور عظمت مرادھے۔
بعض عرفاء کا کھنا ھے : ”با“ سے بصیر کی طرف اشارہ ھے اور سین سے سمیع کی طرف اور میم سے”مُحصی“ (شمار کرنے والے) کی طرف اشارہ ھے۔
گویا” بسم اللہ“ پڑھنے والے کو درج ذیل معنی کی طرف متوجہ کیا جاتا ھے:
میں بصیر ھوں؛ لہٰذا(اے انسان) تیرے ظاھری اور باطنی تمام اعمال کو جانتا ھوں، اورمیں سمیع ھوں جس کے نتیجہ میں تیری تمام باتوں اور دعاؤں کو سنتا ھوں، اور مُحصی ھوں جس کے نتیجہ میںتیرے ھر سانس کوشمار کرتا ھوں۔ اس بنا پر اپنے عمل میں ریاکاری اور خود نمائی سے اجتناب کر، تاکہ اس کی جزا میں تجھے دائمی ثواب عنایت کردوں، اور میرے سمیع ھونے کے سایہ میں باطل اور بے ھودہ باتوں سے پرھیز کر، تاکہ تجھے فیض وصفا اور غفران وصلاح کی خلعت پھناؤں، اور چونکہ میں مُحصی ھوں لہٰذا ایک لمحہ کے لئے بھی مجھ سے غافل نہ ھو تاکہ اس کے بدلے میں اپنی بارگاہ میں ملاقات کے لئے بلالوں۔
محبوب کے عشق میں مجذوب اور اس کی راہ میں آگے بڑھنے والے اس کی محبت میںجلنے والے عرفاء کہتے ھیں:
”بسم اللہ“ کے آسمانی اور عرفانی معنی سے وھی شخص واقف ھوسکتا ھے جو محبوب (خدا) کی بلاؤں پر صبر کرے، اور اپنے باطن کو صراط مستقیم پر قائم رکھے تاکہ ”میم“ کی نورانی فضا کا مشاھدہ کرسکے۔
لفظ مبارک ”الله“ اس ذات مقدس کا نام کامل اور اسم جامع ھے جس میں تمام صفات کمال وجمال اور جلال سبھی جمع ھیں۔
بعض علماء نے کلمہ ”الله“ میں تین معنی پوشیدہ بتائے ھیں:
۱۔دائم ازلی، قائم ابدی اور ذات سرمدی۔
۲۔ وھم وخیال اور عقل اس کی معرفت میں حیران اور سرگرداں ھے،اور روح ودرک اس کی طلب میں پریشان اور ناتواں ھے۔
۳۔ خدا کی ذات تمام مخلوقات اور موجودات کے پلٹنے کی آخری منزل اور سب کا مرجع ھے۔
علماء عرفان نے کھا ھے کہ لفظ ”الله“ اسم اعظم ھے اور توحید کی بنیاد اسی پر ھے ، اور یھی کلمہ اگر کافر اپنی زبان سے جاری کرے تو ایمان کے دائرے میں داخل ھوجاتا ھے (بشرطیکہ اس کا دل اس کی زبان کی تصدیق کرے)
کافر اسی کلمہ کے زبان پر لانے سے غفلت ، کثافت اوروحشت کی دنیا سے نکل کرے ھوشیاری، پاکیزگی و محبت اور امن کی دنیا میں داخل ھوجاتا ھے، لیکن اگر کوئی کافر ”لا الہ الا الله“ کے بجائے ”لا الہ الا الرحمن“ کھے تو وہ اپنے کفر سے نھیں نکل سکتا اور اسلام کے دائرہ میں داخل نھیں ھوسکتا۔ بندگان الٰھی کی فلاح ونجات اسی نوارانی اور طیب وطاھر کلمہ کے زیر سایہ ھے۔
ذکرکرنے والوں کا کمالِ منقبت اسی شریف اور کامل اسم کی وجہ سے ھے، ھر کام کی ابتداء اسی نام سے ھوتی ھے اور اس کا اختتام اسی کے انتظام میں ھے۔ رسالت کی بنیاد کا استحکام اسی نام سے ھے کہ ”محمد رسول الله“ اور بنیادی ولایت کی پائیداری اسی کے ذریعہ ھے جو ” علی ولی الله“ ھے۔
کلمہ ”الله“ کی ایک خاصیت یہ ھے کہ اگر اس کے شروع سے ”الف“ کوہٹا دیا جائے تو ”لله“ باقی بچتا ھے،: ۔۔۔”لِلّٰہِ الاٴَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ۔۔۔“[45] اور اگر اس کے شروع سے ”لام“ ہٹا دیا جائے تو ”لہ“ باقی بچتا ھے: ”۔۔۔لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ۔۔۔“ [46]اور اگر دوسرے ”لام“ کو بھی ہٹا دیا جائے تو ”ھو“ باقی بچتا ھے جو ذات حق پر دلالت کرتا ھے: ”قُلْ ہُوَ اللهُ اَحَدٌ“[47]لہٰذا جو نام اس قدر خصوصیت رکھتا ھے وہ اسم اعظم ھے۔
لفظ ”رحمن“ رحمت سے نکلا ھے، اور علماء صرف ونحو اور لغوی حضرات کے لحاظ سے یہ کلمہ مبالغہ کا صیغہ ھے، جو کثرت (رحمت) پر دلالت کرتا ھے، لیکن علماء اسلام اور الہٰیات کے ماھر علماء کے نزدیک ”رحمن“ کے معنی ”تمام موجودات اور مخلوقات پر عام رحمت کرنے والے کے ھےں جس میں عبادت اور خدمت کو نھیں دیکھا جاتا“ (یعنی چاھے کوئی عبادت خدا کرتا ھو یا نہ کرتا ھو اس کی رحمت عام سب کو شامل ھوتی ھے)
لیکن صاحبان کشف ویقین کے نزدیک ”رحمن“ کے معنی تمام ذرات کو اپنی قابلیت اور استعدادکے مطابق وجود او رکمالات سے نوازتا ھے“ کیونکہ اگر یہ عطا نہ ھوتا تو نہ کوئی وجود ھوتا اور نہ کوئی کمال !۔
بعض اھل بصیرت نے کھا ھے کہ ”رحمن“ کے معنی :”حضرت حق کا تمام موجودات کو خیر اور احسان پھونچانے کا ارادہ، اور ان سے شر کو دور کرنے کے ھیں“
تمام ظاھری اور باطنی نعمتیں اس ذات حق کے رحمانیت کے جلوے ھی ھیں جس کے بعض پھلو سورہ مبارکہ ”الرحمن“ میں بیان ھوئے ھیں۔
لفظ ”رحیم“ علماء لغت کے نزدیک صفت مشبہ ھے اور ثبات اور دوام (ھمیشگی) پر دلالت کرتا ھے، یعنی وہ خدا جس کی رحمت اور مھربانی ھمیشگی اور ثابت ھے۔
اس سلسلہ میں علماء اسلام نے کھا ھے: خداوندعالم کی رحمت رحیمیہ (رحیم ھونے کے لحاظ سے) مومنین اور صاحبان یقین سے مخصوص ھے، کیونکہ ان افراد نے ھدایت کوقبول کیا ھے اور خداوندعالم کے حلال وحرام کو مانا ھے، اور اخلاق حسنہ سے مزین ھیں نیز اس کی نعمتوں پر شکر گزار ھیں۔
اسلامی کتب میں بیان ھوا ھے : خدا وندعالم کی رحمت رحمانیہ کے معنی یہ ھیں: ”وہ تمام موجودات اور تمام انسانوں چاھے وہ مومن ھوںیاکافر، صالح ھوں یا بدکار ، کو روزی پھونچاتا ھے“ ،اور رحمت رحیمیہ کے معنی : ”نوع بشریت میں معنوی کمالات کا ودیعت فرمانا“ اور ”دنیا وآخرت میں مومنین کی بخشش کرنا ھے“۔
”رحمانیت “ اور ”رحیمیت“ میں عافیت کے معنی درج ھیں: ایک دنیاوی عافیت اور دوسری اُخروی عافیت۔ اور رحمت رحیمیہ صرف اطاعت گزاروں کے لئے ھے جن کی نیکیاں اور عبادات قبول ھیں، اور ان گناھگاروں کے لئے بھی ھے جو اھل ایمان ھیں جن کی وجہ سے ان کے لئے بخشش اور برائیوں کو مٹانے کے اسباب ھیں، نیک افراد اپنی عبادتوں کے سبب رحمت کے منتظر رہتے ھیں، اور برے اور بدکار لوگ اپنی نیاز مندی، مفلسی، بے چارگی اور شرمندگی کی وجہ سے اس عطا کے امیدوار رہتے ھیں۔
ابن مبارک کہتے ھیں کہ ”رحمن“ اسے کہتے ھیں کہ اگر اس سے کوئی چیز طلب کی جائے تو وہ عطا کردے اور ”رحیم“ وہ ھے جس سے کوئی چیز طلب نہ کی جائے تو ناراض ھوجائے!
ایک عارف نے فرمایا: خداوندعالم تمام جاندارووں کو روزی دینے کی وجہ سے رحمن ھے اور صرف اھل ایمان کی برائیوں کو معاف کرنے میں رحیم ھے۔ روزی روٹی کے بارے میں خدا کی رحمانیت پر بھروسہ کر اپنے کاروبار اور تجارت پر نھیں، لیکن اپنے کاروبار اور تجارت کو بھی نہ چھوڑدینا کہ ایسا کرنا عقل وشرع کے خلاف ھے، لیکن گناھوں کی بخشش کے لئے اس کی رحیمیت پر بھروسہ کر اپنے عمل پر نھیں، لیکن اپنے عمل کوبھی ترک نہ کر، کیونکہ ایسا کرنا خداوندعالم کی مرضی کے خلاف ھے اورایسا کرنے میں شیطان کی ھمراھی ھے۔
بعض علماء عرفان کا کھنا ھے : بندہ کی تین حالتیں ھوتی ھیں:
۱۔ حالت عدم جس میں وہ ہستی کا محتاج تھا۔
۲۔ حالت ھستی ، جس میں وہ باقی رھنے کے اسباب کا محتاج تھا۔
۳۔ قیامت میں حاضر ھونے اورمغفرت کی ضرورت کی حالت، اور یہ تین حالتیں ان تینوں ناموں میں درج ھیں:
”اللہ“ یعنی اس کی ذات تمام صفات وکمال کے جمع ھونے کا مرکز ھے، غور کر کہ اس نے کس طرح تجھے نیستی اور عدم سے خلعت وجود دے کر اس دنیامیں بھیج دیا۔
وھی”رحمن“ ھے ، سوچ کہ کس طرح تیری زندگی کی بقاء کے اسباب ووسائل فراھم کئے ھیں۔
وھی ”رحیم“ ھے کل روز قیامت دیکھنا کہ کس طرح تجھے اپنی رحمت رحیمیت میں شامل کرتا ھے اور کس طرح تیرے گناھوں کی پردہ پوشی کرتا ھے۔
اھل بصیرت، صاحبان درایت اورعاشقان حقیقت کہتے ھیں: انسان کے دل میں، نفس اور روح ھوتی ھے، نفس کو رزق اور احسان کی ھوس ھوتی ھے، دل کو تمنائے معرفت و ایمان ھوتی ھے، روح کو رحمت ورضوان کی آرزو ھوتی ھے، اور ان میں سے ھر ایک ان اسماء کی برکت سے کسب فیض کرتے ھیں:
دل ”اللہ“ کے نام سے ذوق معرفت اور ایمان حاصل کرتا ھے، اور نفس اسم ”رحمن“ سے رزق واحسان حاصل کرتا ھے، اور روح اسم ”رحیم“ کے نام سے رحمت ورضوان سے مالا مال ھوتی ھے۔
اگر کسی شخص کی روح ان تین مبارک ناموں سے انس پیدا کرلے تو پھر وہ خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی بھی معبود کے سامنے سجدہ ریز نھیں ھوگا ، اور دوسرے بندگان خدا کی نسبت بخشنے والا اور لطف ومھربانی کرنے والا ھوگا۔
لہٰذا اس کلام نورانی اورخزانہ فیض ربانی (یعنی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )کا ذکر ھر موقع ومحل اور ھر کام کی ابتداء میں بہترین اورمحبوب ھے؛ اور اس بسم اللہ کا پڑھنے والا اس کے معنی اور مفھوم پر توجہ اور خلوص نیت سے خداوندعالم سے توسل کرنا چاہتا ھے اور روح کی پاکیزگی اور مادیت سے طھارت اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے اس بسم اللہ کو پڑھے تاکہ اس کے عظیم فوائد اورمھم آثار سے بھرہ مند ھوجائے۔
حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ھے کہ جو شخص دن میں دس بار ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “)اور ”لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم“ پڑھے تو وہ تمام گناھوں سے پاک ھوجاتا ھے، اور خداوندعالم اس کو ۷۰ بلاؤں جن میں سے برص، جذام اورفلج ھے؛ سے محفوظ رکھتا ھے
نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ھے کہ جو شخص بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھے تو حق تعالیٰ اس کے ھر بسم اللہ کے بدلے چار ہزار نیکیاں لکھ دیتا ھے اور چار ہزار برائیاں مٹا دیتا ھے۔
ایک روایت میں اس طرح بیان ھوا ھے کہ جو شخص کھانا کھانے سے پھلے ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کھے تو اس کی برکت کی وجہ سے شیطان اس کا ساتھی نھیں ھوگا، لیکن اگر کوئی شخص بسم اللہ کھنا بھول جائے اور کھانا کھانا شروع کردے تو شیطان اس کا رفیق بن جاتا ھے۔

”اٴَللّٰھُمَّ اِنّيِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ“
”خدایا میراسوال اس رحمت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر محیط ھے۔“
اس آسمانی جملے اور ملکوتی فقرہ میں اور اس عرشی خزانہ کے ھر لفظ کے رموز واشارات اور اسرار موجود ھیں، لیکن ھم اپنے لحاظ سے ان کی شرح اور تفسیر کررھے ھیں:
”اٴَللّٰھُمَّ“ کی اصل ”یا اللہ“ تھی جس میں سے ”یا“ کو حذف کردیا گیا اور جس کے بدلے آخر میں ”میم“ مشدد قرار دیدیا تاکہ خداوندعالم کی عظمت اور بزرگی کا اظھار ھوسکے، جس طرح اس کا وجود تمام موجودات اور مخلوقات سے مقدم اور پھلے ھے، اور تقدم ازلی رکھتا ھے یعنی کوئی چیز اس پر مقدم نہ تھی، لہٰذا کلمہ ”اللہ“ میں اس حقیقت کا لحاظ رکھا گیا ھے اور اس کو تمام حرف پر مقدم رکھا گیا ھے، تاکہ وجود حقیقی اور وجود لفظی کے درمیان ایک رابطہ برقرار رھے، اور حقیقی اور لفظی شان میں ذرہ برابر بھی فرق نہ رہ جائے۔
دعا کرنے والا جو خداوندعالم کی طرف توجہ کرتا ھے اور اسی کی ذات اقدس کو پکارتا ھے اور اپنی زبان حال و مقال سے ”اٴَللّٰھُمَّ“ کہتا ھے اس کو معلوم ھونا چاہئے کہ اگر خود خداوند منان کی طرف سے اس کی اذن واجازت اور کشش اور جاذبہ نہ ھوتا تو پھر یہ بندہ حقیر اپنے معشوق سے ایک حرف بھی نھیں کہہ سکتا تھا اوراسے اس کی بارگاہ میں دعا کرنے کی طاقت ھی نہ ھوتی، اس کا ناطقہ بند رہتا اور اپنے دل کی بات کو معبود کے سامنے رکھنا محال ھوتا۔
خدا وندعالم کو پکارنے والی زبان؛ حضرت حق سے متصل ھونے کے بعد ”اٴَللّٰھُمَّ“ کہتی ھے اور دعا کرنے والے کی زبان حال اس کے لطف وکرم سے گویا ھوتی ھے، دعا پڑھنے والے کو اس حقیقت سے باخبر ھونا چاہئے کہ جب تک خدا نہ چاھے اس وقت تک اپنی درخواست کو بیان نھیں کیا جاسکتا، اور جب تک حضرت حق کا ارادہ بندہ میں تجلی نہ کرے تو اس وقت تک بندہ دعا اور اپنی حاجت کو طلب کرنے کے لئے حاضر نھیں ھوسکتا۔
جی ھاں! دعا اس کی تعلیم کردہ شئے ھے، دعا پڑھنے والے کی حیات اس کے امر کی وجہ سے ھے، دعا پڑھنے والے کی زبان حال و مقال اسی کے ارادہ پر موقوف ھے، لہٰذا حقیقت میں انسان کی تمام چیزیں اس مالک الملک کے قبضہ اور قدرت میں ھےں۔
”إِنّیِ اٴَسْاٴَ لُکَ “ إِنّیِ”میں“ کے معنی میں ھے لیکن یھاں پر اس ”میں“ سے جس میں فرعونیت کی بو آتی ھے؛ مراد نھیں ھے ، اور نہ ھی اس فقرہ اورباقی دعا کے تمام ھی فقروں میں طبیعی، عقلانی، عالی، وجودی اور استقلالی ”میں“ مراد نھیں ھے ، بلکہ اس معنوی سلسلہ (دعا) میں ذاتی فقر ، خالی ھاتھ ھونا اور نیازمندی اور خاکساری کے معنی میں ھے۔
دعا پڑھنے والا اس مقام پر ”میں“ کہہ کر اپنی ذات میں فقر وناداری، ذلت اور بے چارگی، تضرع و زاری ، خشوع وخضوع اور ذلت وخواری، فقر و ناداری کے علاوہ کچھ نھیں دیکھتا ھے، اور خداوند رحمن سے رحمت، کرامت، لطف ومحبت، احسان وعدالت، عفو ومغفرت کے علاوہ کسی دوسری چیز کا مشاھدہ نھیں کرتا ھے، اسی وجہ سے اپنی جھولی پھیلادیتا ھے تاکہ اس معبود کریم سے لطف وکرم کی بھیک لے اور ایک بے نیاز سے ایک نیازمند،اور ایک ناچیز و خاک نشین فقیر ایک بلند مرتبہ اور غنی بالذات کی طرف دست سوال پھیلادیتا ھے اور اپنی درخواست اور سوال کو اس کی رحمت کے پیش نظر ظاھر کرتا ھے۔
”بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ“ محبوب کی رحمت تمام چیزوں کے شامل حال ھے اور ظاھر وباطن تمام چیزوںپر احاطہ کئے ھوئے ھے۔
یہ خدا کی و سیع رحمت اور فیض عام ھے جس کی برکت سے تمام چیزیں نِیستی کے اندھیرے سے نکل کر نورانی وجودکی طرف رواں دواں ھیں جس کی بنا پر ھر چیز اپنے محل پر مستقر ھے، اور رشد ونمواور بلندی کے تمام تر وسائل، مادی او رمعنوی تربیت اپنی اپنی لیاقت، قابلیت اور استعداد کے لحاظ سے بغیر کسی بخل کے ان کو عطا کردی گئی ھے۔
عظیم الشان کتاب ”انیس اللیل“[48]میں بیان ھوا ھے کہ خداوندعالم کے فیض عام کی داستان او رمثال روز روشن کی طرح ھے جو افق سے طلوع ھوکر تمام چیزوں پر نور ا فشانی میں ذرہ برابر بھی بخل نھیں کرتا اور اپنی شعاووٴں سے مستفید ھونے میں ذرہ برابر بھی دریغ نھیں کرتا،اور جب اس کا نور تمام مخلوقات پر پڑتا ھے تو ھر چیز اپنی اپنی استعداد او رقابلیت کے لحاظ سے بھرہ مندھوکر کسب فیض کرتی ھے۔
اسی طرح تمام غیبی اور شھودی (ظاھری) مخلوقات چاھے وہ بڑی سے بڑی ھوں یا چھوٹی سے چھوٹی یہ تمام رحمت الٰھی کے زیر سایہ ھیں، اگر چھوٹی سے چھوٹی چیز بڑے میکرواسکوپ"Maicroscope"کے ذریعہ دیکھی نہ جاسکتی ھوں تب بھی وہ چیزیں خداوندرحمن کے دائرہ رحمت سے باھر نھیں ھیں، اور وہ تمام اپنی استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے خدا کی رحمت سے فیضیاب ھوتی رہتی ھیں، اور اسی کے زیر سایہ پروان چڑھ کر اپنے مادی اور معنوی کمال تک پھنچتی رہتی ھیں۔
کائنات کے اس کنارے سے اس کنارے تک اور اس کے غیب وشھود ،اس کے ظاھر وباطن غرض اس کے تمام نشیب و فراز اپنے وجود کے لحاظ سے خداوندعالم کے فیض بے نھایت اور رحمت واسعہ کے زیر سایہ زندہ ھیں، اور ایک لحظہ کے لئے بھی خدا کی رحمت اور اس کے فیض سے الگ نھیں ھیں، اور یھی نھیں بلکہ جدا ھونے کی قدرت بھی نھیں رکھتی ھیں، اور اگر بالفرض جدا بھی ھوجائیں تو ان کا وجود صفحہ ھستی سے مٹ جائے گا اوران کا نام ونشان تک باقی نہ رھے گا۔
ایجاد موجودات، رزق مخلوقات، رشد ونمو نباتات، کمالِ جمادات، نزول آیات، ظھور بینات، بعثت انبیاء ھدایت گمراھان، بھٹکے ھووںکی راھنمائی، جانداروں کی زندگی، فرشتوں کا خلقت وجود پھننا، مردوں کا زندہ ھوجانا، نیکو کاروں کا ثواب حاصل کرنا، بدکاروں کو عذاب ملنا، مومنین کی شائستگی، کافروں کی ذلت، قیامت کا برپا ھونا، بھشت و دوزخ کا ظاھر ھونا، خطاکار مومنین کا بخشا جانا اوردنیا بھر کی وہ تمام چیزیں جن میں خیر ھے وہ تمام کی تمام خداوندعالم کے فیض عام اور رحمت واسعہ کی ایک شعاع اور اس کی ایک جھلک ھیں۔
خداوندعالم کی رحمت واسعہ اور اس کا فیض عام نیز بے کراں عنایت؛ ھم لوگوں کی سمجھ سے باھر ھے، طائر فکر اس فضا میں پرواز نھیں کرسکتا اور شاھباز عقل اس کی حقیقت کو معلوم کرنے سے قاصر ھے۔
”کل شیٴٍ“ کا شمار کرنا یا ان تمام مخلوقات کا گننا جو خدا کی رحمت کے زیر سایہ اپنا وجود رکھتے ھیں، سب پر اسی کا احاطہ ھے، اگرچہ تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا روشنائی بن جائیںاور جن وانس اور ملائکہ اس کو لکھنا شروع کردیں تو اس کے موجودات کا شمار کرنا ممکن نھیں ھے بلکہ ان میں سے ایک حصہ کو بھی نھیں لکھ سکتے۔
قارئین کرام ! ھم یھاں پر خداوندعالم کی رحمت واسعہ کو کسی حد تک سمجھنے کے لئے ضروری سمجھتے ھیں کہ بعض مخلوقات کی حقیقت کے بارے میں بیان کریں تاکہ ان کے مادی یا معنوی حقائق سے باخبر ھوں، شاید ھماری تشنہ روح اس دریائے عظیم سے ایک قطرہ آب حاصل کرکے اپنی پیاس بجھانے کا سامان فراھم کرسکے، اور روحانی آفتاب کے طلوع ھونے کا نظارہ کریں جو آھستہ آھستہ افق وجود پر طلوع ھوتا ھے۔

جھان ھستی
خداوندعالم کی رحمت واسعہ کے زیر سایہ زندگی گزارنے والی موجودات کو شمار کرنا طول وعرض اور حجم کی شمارش کسی کے بس کی بات نھیں ھے۔
لیکن اس جھان ھستی کا ایک حصہ جس میںیہ انسان چند دنوں کا مھمان ھے اور اس کے لئے جو نعمتیں قرار دی گئی ھیں یا آسمان سے نازل ھونے والی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرتا ھے اگر ان کو دانش وعلم کی نگاہ سے دیکھا جائے تاکہ اس کے ایک معمولی سا نظارہ کرسکیںگے اور پھر سمجھ میں آئے گاکہ خدا کی رحمت واسعہ کے کیا معنی ھیں اور یہ معلوم ھوجائے گا کہ واقعاً یہ کتنی عظیم حقیقت اور حیران کن حقیقت ھے؟!
جھان ھستی کی تمام چیزیں باریک باریک بکٹری"Bacteria" اور چھوٹے چھوٹے وائرس "Virus" جو ایک ہزارم ملی میٹر سے بھی چھوٹے ھیں؛ سے لے کر بڑے بڑے کہکشانوں او رستاروں تک جو کروڑوں کلو میڑ سے بھی دور ھیں؛ تمام کی تمام چیزیں ذرہ "Itome"سے بنی ھیں۔
ذرہ اتنا باریک ھوتا ھے کہ بڑی سے بڑی خوردبین میکرو اسکوپ "Maicroscope"کے ذریعہ بھی نھیں دیکھا جاسکتاھے، ایک سر کے بال میں ۵۵ملین در ملین در ملین(55,000,000,000,000,000,000.) جوھری ذرات ھوتے ھیںاگر مثال کے طور پر اس بال کے سرے کو ایک بہت بڑی عمارت کے برابر بڑا کریں تو اس کا ھرذرہ اس کے ھر ستون پر مکھی کی طرح چلتا دکھائی دیگا۔
اور یہ ذرہ ”رحمت الٰھی “ کی بنا پر درج ذیل تین ذروں سے تشکیل پاتا ھے:
۱۔الکٹرن"E'lectron"
۲۔پروٹان "Proton"
۳۔نیوٹران "Neutron"
اور الکٹرون الکٹریسیٹ"Electricity"کا ایک منفی واحد ھے ، اسی طرح پروٹان "Electricity"کا ایک مثبت واحد ھے جبکہ نیوٹران برقی رو کے لحاظ سے خثنیٰ "Neturan" ھے۔
پروٹان اورنیوٹران مل کر اٹم کے مرکز کو تشکیل دیتے ھیں اور الکٹران ایک مرکز کے اردگردگھومتے ھیںجس طرح سے چاند زمین کے مدار میں گھومتا ھے۔ [49]
تو جب اس جھان ھستی کی عمارت میں موجود ذرہ کو کوئی شمار نھیں کرسکتا تو ان کی خلقت اور اس عمارت میں لگی دوسری چیزوں اور ان کی پیدائش کی کیفیت کے بارے میں خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی کو معلوم نھیں ھے:
” مَا اٴَشْہَدْتُہُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَلاَخَلْقَ اٴَنفُسِہِمْ ۔۔۔“[50]
”ھم نے ان شیاطین کو نہ زمین و آسمان کا گواہ بنایا ھے، اور نہ خود انھیں کی خلقت کا۔۔“۔۔
قارئین کرام ! جس کی تائید قرآن کریم بھی کرتا ھے اور بڑے بڑے دانشوروں نے بھی اپنی اپنی تحقیق کے اعتبارسے اپنی کتابوں میں لکھا ھے وہ یہ ھے کہ اس جھان ھستی کی عمارت میں کام آنے والے ساز وسامان یہ تھے: ذرات، دھواں اور گیس ، جو فضامیں بھٹک رھے تھے، لیکن ایک دوسرے سے اتنے دور تھے کہ کبھی کبھی ایک دوسرے سے مل پاتے تھے:جیسا کہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
” ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَان۔۔۔“[51]
”اس کے بعد ھم نے آسمان کا رخ کیا جو بالکل دھواں تھا۔۔“۔
اس آسمان کو اس نے ستاروں کے ذریعہ سجایااس طرح سے کہ کروڑوں ذرات اور گیس بادلوں کی شکل میں پیدا ھوگئے، اور بادلوں کے ٹکڑے ان ذروں کو ایک مرکز کی طرف جذب کرنے لگے، اور آخر کار بادل ایک جگہ جمع ھوگئے، اور وہ ذرات ایک دوسرے کے نزدیک ھوگئے، اور جب ان ذروں میں رگڑ پیدا ھوتی ھے تو گرمی ھونے لگتی ھے، اور کبھی کبھی ان بادلوں میں اس قدر گرمی پیدا ھوتی ھے کہ جن سے تاریک فضا میں روشنی ھونے لگتی ھے، آخر کارکروڑوں بادل ستاروں کی شکل اختیار کرلیتے ھیں جس کی وجہ سے تاریک فضا میںروشنی پھیل جاتی ھے اور آسمان؛ ستاروں سے جگمگااٹھتا ھے۔
ادھر وسیع وعریض جنگل اور بیابانوں میں بادلوں کے جھرمٹ سبھی جگہ پر ھوتے ھیں، مادہ کے ذرات ٹکراکرپھر آپس میں مل جاتے ھیں،اور بادل متلاطم دریا کی مانند منڈلاتے ھوئے گیس میں تبدیل ھوجاتے ھیں اور ادھر اُدھر دوڑنے لگتے ھیں، اور یہ دھویں اور گیس کا دریا اس طرح گھومتے ھیں اور گڑگڑاتے ھیں ، اور یہ موج کا مخفی تلاطم اور ان مخفی امواج کا ٹوٹنا جو کہ ان میں سے ھر ایک بہت بڑا اقلیم ھوتا ھے، اس دریاکے اندر ایک طوفان برپا کردیتا ھے، موجیں آپس میں ٹکراتی ھیں اور پھر مل جاتی ھیں۔
اس متلاطم دریا کے درمیان جوار بھاٹا کی طرح ایک دائرہ پیدا ھوا جس کے درمیان ایک ابھار تھا اس سے آھستہ آھستہ روشنی نکلی یہ سانپ کی چال جیسا راستہ جس کا نام ”کہکشان راہ شیری“ ھے اس کے ایک حصہ میں منظومہ شمسی پایا جاتا ھے۔ (تو آپ حضرات اس مخلوق کا اندازہ لگاسکتے ھیں)
خدا کی رحمت کے زیر سایہ اور اس کی قدرت کی وجہ سے آفتاب اور منظومہ (شمسی) کی خلقت کچھ اس طرح سے تھی کہ کہکشاں کے ایک حصہ میں پر آشوب طوفان پیدا ھوا، اور گیس کے تیز دوڑنے کی وجہ سے وہ گھومنے لگا، جس سے ایک بڑے گول پہئے کی طرح بن گیا اور اس کے اطراف سے روشنی نکلنے لگی۔
یہ بڑا گول دائرہ اس تعجب آور کہکشاں میںاسی طرح گھومتا رھا، یھاں تک کہ آھستہ آھستہ اس کی گیس اس کے مرکز تک پھنچ گئی، اس وقت اس بڑے دائرہ کی شگل بن گئی اور آخر کار آفتاب کی شکل میں ظاھر ھوگیا:
” وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیہِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۔“[52]
”اور قمر کو ان میں روشنی اور سورج کو روشن چراغ بنادیا“۔
اس کے بعد سورج کے اردگرد موجود گیس اور غبار نے ایک کنڈل کی شکل اختیار کرلی وہ اس سے جدا ھوگئے جس کا ھر ایک حصہ ایک گرداب (گڑھا) کی شکل بن گیا، جن میں سے ھر ایک گڑھے کا راستہ الگ الگ تھا اور وہ سب خورشید کے ارد گرد گھومتے رہتے تھے جن میں سے بعض نزدیک اور خورشید سے دورتھے۔
سورج کے نزدیک والی بھنورمیں گرمی اور دور والی میں سردی ھوتی تھی۔
اور ھر بھنور میں گیس اور غبار کے ذرات گھومتے رہتے تھے جن میں سے گیس کے ذرات سے بخار بنتا تھا اور شبنم کی طرح غبار کے ذرات پر گرتا تھا اور جب ذرات غبار پر گرتے تھے تو شبنم کی تری سے وہ ایک دوسرے سے چپک جاتے تھے، اور بعض اوقات پانی اور مٹی برف کی صورت اختیار کرلیتے تھے۔
ھر بھنور میں اس طرح کے ملیونوں حصے تھے ، قوت جاذبہ ان کو اپنی طرف کھینچتی تھی جس کی وجہ سے یہ حصہ ایک دوسرے سے مل جاتے تھے اور اس سے زیادہ بڑے بڑے ٹیلہ بن جاتے تھے جس سے ایک گھومتی ھوئی گیندبن جاتی تھی، اور یہ عظیم گینداپنی جاذبہ قوت کی بنا پر اپنے حصوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی جس کی بنا پر ھر روز بڑی سے بڑی ھوتی چلی جاتی تھی، آخر کار خدا کی قدرت اور اس کی رحمت سے یہ گیند زمین کی شکل میں بن گئی۔
اس کے بعد دوسرے سیاروں نے بھی گرداب سے نکلنا شروع کیا اور اپنے راستہ پر سورج کے اطراف گھومنا شروع کیا، عطارد سورج سے سب سے زیادہ قریب تھا اور اس کے بعد زھرہ، زمین اور مریخ تھے، اور مریخ کے اس طرف مشتری ،زحل اورانوس اور نیٹون جیسے عظیم سیارے سورج کے چاروں طرف گھومتے تھے اور نپٹون سے تھوڑے فاصلہ پر پلوٹو نامی سیارہ تھا۔[53]
قارئین کرام ! یہ دنیا اتنی ھی بڑی ھے جتنا چھوٹا ایک ذرہ ھوتا ھے جس طرح انسان ایک ذرہ کی حدتک نھیں پھنچ سکتا اسی طرح وہ دنیا کی سرحد تک نھیں پھنچ سکتاھے، اس کی حد کو معین کرنا نوع بشر کے بس کی بات نھیں ھے۔ نور حیرت انگیز تیزی کے ساتھ ھر سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیڑ کی رفتار سے دوڑتا ھے ، اور اس رفتار کے پیش نظر ھمارے نزدیک والے ستارے کی روشنی چار سال کی مدت میں ھم تک پھنچ سکتی ھے۔!!
”کالی فورنیا “کی ایک ٹیلی اسکوپ "Telescop"جس کے شیشہ کا حجم پانچ میٹر ھے ، اس کے ذریعہ ایسے ستاروں کا پتہ لگایا گیا ھے جو ھم سے اتنی دور ھیں کہ ایک ہزار ملین سال کے بعد اس کا نور ھم تک پھونچتا ھے!!
ستاروں کی تعداد ان ٹیلی اسکوپوں کے ذریعہ دیکھا جائے تو ان ستاروں کی تعداد اس سے زیادہ ھے کہ اگر سو سال بھی دن رات ان کو شمار کریں اور ھر سیکنڈ میں ایک ستارہ کو شمار کریں تو بھی اس مدت میں تمام ستاروں کو شمار نھیں کیا جاسکتا۔
کہکشاں ایک بہت بڑا دائرہ ھے جس کا مرکزی حصہ موٹا ھے جس میںہزار ملین ستارے ھوتے ھیں ، جس کی لمبائی ایک لاکھ نوری سال کے برابر ھے اور اس کے مرکز کی چوڑائی بیس ہزار نوری سال کے برابر ھے!!
اگر ھم آج کل کی بڑی سے بڑی نجومی دوربین کے ذریعہ آسمان پر موجود کہکشانوں کو دیکھ سکیں تو ایک احتمال کی بنا پر اس کائنات میں ۱۵۰ ملین کہکشاں پائے جاتی ھیں،اور ھر کہکشاں کا فاصلہ ایک دوسرے سے دو ملین نوری سال کے برابر ھے۔[54]
قارئین کرام ! یہ سب کچھ اس ناشناختہ دنیا کا ایک حصہ ھے جو آج کل کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ھے، لیکن اس عالم ھستی کی اکثر چیزیں ٹیلی اسکوپ وغیرہ کے ذریعہ بھی نھیں دیکھی جاسکتیں، لہٰذا اس دنیاکی حدود کو معین کرنا انسانی علم کے بس میں نھیں ھے، اور ان کے خالق کے علاوہ کوئی دوسرا ن کی حقیقت سے باخبر نھیں ھوسکتا۔
بصیر بے نظیر، آیت کبیر ، صالح خبیر حضرت امیر علیہ السلام کے قول کے مطابق: تمام مخلوقات، خدا کی رحمت کے زیر سایہ ھےں، وہ رحمت جس کی وجہ سے ان تمام مخلوقات کی خلقت ھوئی اور ان میں رشد ونمو ھوئی اور ان تک ان کے لئے ضروری غدا پھنچائی گئی اور نقصان دہ چیزوں کو دور کیا گیا۔

انسان کائنات کاسب سے شریف مھمان
جب خداوندعالم نے اس کائنات کو آراستہ کیا ،اس کے لئے نظام معین کیا ،ضروری اشیاء وسامان فراھم کیا،نیز اپنی کامل نعمتوں کا دسترخوان بچھایا، اس وقت خداوندمنان نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنی رحمت ومھربانی کی بنا پر ایک شریف مھمان، ایک محترم موجود جو جسم ، جان، روح، مغز، دل، فطرت اور کرامت سے مرکب ایک مخلوق کو اپنے معنوی خلیفہ کے عنوان سے اس قلیل مدت کے لئے ایک مھمان سرا میں ذمہ داریوں کے ساتھ بھیجاتاکہ اس کائنات کی تمام تر نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اپنے جسم میں قدرت اور طاقت جمع کرے اور اس قدرت کو کتاب آسمانی ،انبیاء علیھم السلام اور ائمہ علیھم السلام کے حکم کے مطابق خدا کی عبادت وبندگی اور مخلوق کی خدمت میں بروئے کار لائے،اور اس کے بعد موت کے راستہ سے دوسری دنیا میں پھنچ جائے اور وھاں پر ھمیشہ کے لئے اپنے کئے ھوئے اعمال کی جزا پائے، اور ھمیشہ حضرت حق کی رحمت کے زیر سایہ ایک مثالی زندگی بسر کرے۔
قارئین کرام ! ھم یھاں پر خداوندعالم کی وسیع رحمت جو ھر طرف سے انسان کو گھیرے ھوئے ھے اس کا ایک نظاھر کرتے ھیں،لہٰذا چند نکات کی طرف اشارہ کررھے ھیں:

انسانی زندگی کے مراحل:
قرآن مجید نے انسانی زندگی کے مراحل کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا ھے، ارشاد رب العزت ھورھا ھے:
” وَقَدْ خَلَقَکُمْ اٴَطْوَارًا ۔“[55]
”جب کہ اسی نے تمھیں مختلف انداز میں پیدا کیا ھے“۔

پھلا مرحلہ : خاک
ارشاد قدرت ھوتا ھے:
” وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِینٍ۔“[56]
”اور ھم ھی نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ھے“۔
اس انسانی نطفہ کی مختلف غذا ئیںھےں جو گھاس ، گوشت، دودھ وغیرہ سے تشکیل پاتی ھیں، حیوانات بھی نباتات سے اپنی غذا حاصل کرتے ھیں اور نباتات خاک او رمٹی سے اپنی غذا حاصل کرتے ھیں۔
لہٰذا یہ نطفہ جو بعد میں انسان کی شکل میںظاھر ھوا، یہ بھی خاک سے پیدا ھوا ھے، آج کل کی ھوئی ریسرچ نے اس بات کو ثابت کیا ھے کہ زمین میں پائے جانے والے عناصر جیسے آئیرن، مس کیلشم او راجزائے نمک وغیرہ ، یہ تمام چیزیں انسان کے اندر بھی پائی جاتی ھیں، اور یہ انسان ھمیشہ نباتات اور حیوانات کے ذریعہ مٹی کے عناصر سے فائدہ حاصل کرتا ھے، اور پھر اسی طرح اس کی نسل آگے بڑھتی ھے۔

دوسرا مرحلہ: پانی
خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
” وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا ۔۔۔۔“[57]
”اور وھی وہ ھے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ھے“۔
ماھرین زمین نے انسان کو ایک سوختہ کی مانند بتایا ھے جس میں پانی بھرا ھوا ھے ۔ ۷۰ کلو وزن والے انسان میں ۵۰ لیٹر پانی ھوتا ھے، اور ھمیشہ یھی نسبت باقی رہتی ھے۔
اور اگر کسی شخص کا ۲۰ فی صد پانی خشک ھوجائے تو پھر اس کی صحت وسلامتی خطرہ میں پڑجاتی ھے۔
انسان کے بدن کے خلیہ "Cellule"میں موجود پانی کے اندر کافی مقدار میں پوٹیشیم "Potassium"ھوتا ھے جس میں عملی طور پر نمک نھیں ھوتا اس کے برخلاف باھر کے پانی کے اجزاء میں "Potassium"نھیں ھوتا، بلکہ ایک مقدار میں نمک ھوتا ھے، باھر کے پانی کی یہ ترکیب بالکل دریا کے پانی سے مشابہ ھوتی ھے کیونکہ کروڑوں سال پھلے کسی جاندار کی زندگی دریا سے شروع ھوئی تھی اور جب دریائی موجودات نے زمین کی طرف رخ کیا اور دریا کے اندر کی اشیاء کو اپنے ساتھ لائے کیونکہ ان کے لئے بغیر ان کے خشکی میں زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا۔
جی ھاں! یہ ھے قرآن مجید کا تعجب خیز معجزہ کہ اس خشک وگرم صحراء میں بغیر کسی سائنسی آلات کے جاھل لوگوں میں یہ اعلان کیا: ”وھی (خدا) ھے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ھے“۔

تیسرا مرحلہ: علق
”خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ”[58]
”اس نے انسان کو جمے ھوئے خون سے خلق کیا ھے“۔
لغت میں ”علق“ کے معنی ایک کیڑے کے ھیں جو رحم مادر کے پردہ سے چپکا رہتا ھے؛ نیز خون میں موجود ایک خاص قسم کے جراثیم کو بھی ”علق“ کھا جاتا ھے، جو ”جونک“ کی مانند ھوتا ھے آج جب سائنس نے ترقی کی اور اسپرمیٹوزائیڈ "Spermatozoide" [59] کو مائیکرواسکوپ "Maicroscope" کے ذریعہ دیکھا تو اس میں بہت سے ایسے خلیے دیکھے گئے جو خون میں دوڑرتے ھیں اور جب یہ کیڑے عورت کے رحم میں جاتے ھےں تو وہ جوک مانند کیڑا رحم سے چمٹ جاتا ھے۔
اسپرمیٹوزائید"Spermatozoide" تقریباً چار سینٹی میٹر مکعب ھوتا ھے جس کے ایک سینٹی میٹر میں سو سے دوسو ملین تک کیڑے ھوتے ھیں اور یہ تعجب آور کیڑے سب کے سب عورت کے مادے بنام”اوول“ کی طرف دوڑتے ھیں۔
ایک جوان لڑکی کے رحم میں تقریباً تین لاکھ نارسیدہ تخم (کچے انڈے) ھوتے ھیں لیکن ان میں سے تقریباً چار رسیدہ (پکے) ھوتے ھیں۔
جس وقت عورت کو حیض آتا ھے اس وقت وہ تخم اپنی تھیلی سے نکل جاتے ھیں اور تخم دان اور بچہ دانی کے درمیان جو نالی ھوتی ھے ؛اس میں دوڑتے ھوئے بچہ دانی تک پھونچتے ھیں اور مرد کے نطفہ کو قبول کرنے کے لئے تیار ھوجاتے ھیں!۔

چوتھا مرحلہ: ناچیز پانی سے پیدائش
” ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ مَاءٍ مَہِینٍ ۔“[60]
”اس کے بعد اس کی نسل کو ایک ذلیل پانی سے قرار دیا ھے“۔
یہ منی کا خلیہ اور قرآن کے الفاظ میں ”علق“ اورمرد کی منی جب عورت کے رحم میںپھونچتی ھے تو پھر ان میں عجیب جنگ شروع ھوجاتی ھے۔
اس عجیب وغریب جنگ میں تقریباًبیس کروڑ "Sper" جنگ کرتے ھیں اور ۱۵کلومیٹر گھنٹہ کی رفتار سےعورت کی تخم دانی کی طرف دوڑتے ھوئے تھوڑی ھی دیر میں پھلی لائن میں موجود "Sper" تخم داں کے پردہ کی دیوار تک پھونچ جاتے ھیں۔
اور اچانک ہزاروں کیڑے عورت کے تخم داںکے چاروں طرف جمع ھوجاتے ھیں اور وہ کیڑے اپنی دُم ( پونچھ) ھلاتے رہتے ھیں ، اور اگر ان کو ذرہ بین کے ذریعہ دیکھا جائے تو ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملتا ھے جیسے کوئی چمن ھوا چلنے کی وجہ سے لھرارھا ھو، اور جب تک ایک کیڑا اس انڈے کے اندر داخل نہ ھوجائے تو یہ جنگ جاری رہتی ھے۔
ھر "Sper" یہ کوشش کرتا ھے کہ وہ سب سے پھلے اس انڈے کے اندر پھنچ جائے اور جب پھلا "Sper" انڈے میں سوراخ کرکے اس کے اندر جاتا ھے اور اس کی دم جو پھلے سے زخمی رہتی ھے اس کے داخل ھوتے ھی اس حصہ میں ورم آجاتا ھے ادھر انڈے کے درمیان موجود پروٹوپلازم "Protoplasm" ایک پانی چھوڑتا ھے جس کی وجہ سے کوئی دوسرا کیڑا س انڈے کے اندر داخل نہ ھوپائے۔
اس بنا پر بیس کروڑ "Sper"میں سے صرف ایک "Sper" اس انڈے میں داخل ھوتا ھے جس سے انسان بنتا ھے؛ اور اگر خدا کی رحمت واسعہ شامل حال ھوجائے تو دو یا تین "Sper"بھی داخل ھوسکتے ھیں جس کے بنا پر جڑوا ںبچے پیدا ھوتے ھیں۔

پانچواں مرحلہ: امشاج ”انڈے کا خلیہ“
” إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ اٴَمْشَاجٍ ۔۔۔“[61]
”یقینا ھم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ھے“۔
انسان کی پیدائش کے لئے پھلے (عورت کا)انڈایعنی عورت کے جنسی خلیہ جس میں مرد کا "Sper" داخل ھوچکا ھے؛ اس کو عورت کے رحم میں داخل ھونا چاہئے ، اور یہ انڈا مرد کے جنسی "Sper" سے ۲۵ لاکھ برابر بڑا ھوتا ھے ؛ اور جب اس پر مرد کے جنسی "Sper" کا حملہ ھوتا ھے تو ایک "Sper" کو اندر داخل کرلیتا ھے اور مرد کے کرموزوم "Chromosome"نامی خلیہ جن کی تعداد آدھی رہ جاتی ھے عورت کے انڈے کے کرموزوم"Chromosome" نامی خلیے سے مل جاتے ھیں جس کے نتیجہ میں ” تخمی خلیہ“ بنتا ھے جس کو قرآن کی زبان میں ”امشاج “کھا گیا ھے۔
اگر مرد اور عورت کے ان خلیوں کے لئے بہترین زندگی کا موقع فراھم کیا جائے تو پھر بھی یہ زندہ نھیں رہ سکتے اور جلد ھی ان کا خاتمہ ھوجاتا ھے۔
لیکن جب یہ ایک دوسرے سے مل جاتے ھیں تو پھر ان میں زندہ رھنے کی صلاحیت پیدا ھوجاتی ھے ان کو ”تخمی خلیہ“ یا قرآن کی اصطلاح میں ”امشاج“ کھا جاتا ھے۔
اور جب اس طریقہ سے نطفہ ٹھھر جاتا ھے تو ” تخمی خلیہ“ تقسیم کرنا شروع کردیتا ھے پھلے دوحصوں میں پھر چار حصوں میں اور اس کے بعد آٹھ حصوں میں تقسیم ھوتا اور اسی طرح تقسیم ھوتے ھوتے ان خلیوں کا ایک ڈھیر لگ جاتا ھے۔

چھٹا مرحلہ: جنین کی صورت اختیار کرنا
ہُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ ۔۔۔“[62]
”وہ ایسا خدا ھے جو پیدا کرنے والا ھے، ایجاد کرنے والااور صورتیں بنانے والا ھے، اس کے لئے بہترین نام ھیں“۔
جب یہ خلیے پورے ھوجاتے ھیں یعنی جنین کے جسم کے ضروری ساز وسامان مھیا ھوجاتے ھیں تو پھر انسانی جسم کو تیار کرنے کے بہت سے خلیے رحم مادر کو دئے جاتے ھیں اور اس طرح شکم مادر میں انسان رشد ونمو کرتا ھے:
خدا کی رحمت واسعہ کے زیر سایہ اور اس کی قدرت سے یہ بے شمار خلیے سب سے پھلے ایک دوسرے سے جدا ھوتے ھیں اور ھر خلیہ اپنی مخصوص جگہ چلا جاتا ھے، مغزی خلیہ، آنکھ کا خلیہ اور کان وغیرہ کے خلیے، اور ھر ذرہ اپنے مخصوص حصہ کو حاصل کرکے انسان کے اعضاء کو تشکیل دیتے ھیں جس کی بنا پر یہ خلیے آھستہ آھستہ انسان کی شکل پیدا کرلیتے ھیں۔
جنین کی بائیں طرف ایک چھوٹی سی گولی جیسی ایک چیزھوتی ھے جو جنین کا غذائی مرکز قرار پاتی ھے اور یہ گولی خون میں دوڑتی رہتی ھے ، اور غذا، پانی اور سانس جو نظام ھاضمہ اور اوکسجن"Oxygen"کے ذریعہ خون میں داخل ھوتی ھیں؛ سے حاصل کرکے ناف کے ذریعہ بچے کے بدن میں داخل ھوتی ھے!
قارئین کرام! یہ ھے خدا کی رحمت واسعہ ، جس کے آثار خلقت کے ذرہ ذرہ میں آفتاب سے بھی زیادہ روشن ھے۔

ساتواں مرحلہ: تین پردوں میں بچہ کا لپٹا ھونا:
” یَخْلُقُکُمْ فِی بُطُونِ اٴُمَّہَاتِکُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثَلاَثٍ۔۔۔“[63]
”وہ تم کو تمھاری ماؤں کے شکم میں تخلیق کی مختلف منزلوں سے گزارتا ھے، اور یہ سب تین تاریکیوں میں ھوتا ھے۔۔“۔
آھستہ آھستہ بچہ کے اوپر درح ذیل تین قسم کے پردے پیدا ھوتے ھیں :
۱۔Amnionic Membran،پردہ امینوس اس پردہ کو کہتے ھیں جو بچہ کے باھری رشد ونمو کی وجہ سے پیدا ھوتا ھے اور پھر وہ موٹا ھوتا رہتا ھے جس کی بنا پر بچہ کی پیٹھ پر امینوس نام کا گڈھا پیدا ھوجاتا ھے جس کی وجہ سے بچہ سانس لیتا ھے۔
۲۔chorion Membran،پردہ کوریون امینوس کے پردہ کے اوپر ھوتا ھے جس کی وجہ سے بچہ محفوظ رہتا ھے۔
۳۔Disidua Membran، یہ پردہ بچہ کے شکم کے پاس ھوتا ھے جو اس کے نظام ھاضمہ سے متعلق ھوتا ھے، جس کی وجہ سے بچہ کی غذا ہضم ھوتی ھے، اور یھی پردہ ھوا، نور، پانی اور (معمولی) چوٹ سے کوئی نقصان نھیں ھونے دیتا، نیز امینوس اور بچہ کے درمیان ایک پانی ھوتا ھے جو شکم مادر پر کوئی چوٹ لگنے پر سیال بن جاتا ھے جس کی وجہ سے بچے پر (معمولی) چوٹ کا کوئی ضرر نھیں پھونچتا۔
یہ ھے خدا کی رحمت واسعہ جو تمام چیزوں کے شامل حال ھے، اور جس کی ایک جھلک بچہ کے حالات میں دیکھی جاسکتی ھے۔

ٹھواں مرحلہ: روح کا پھونکا جانا
” ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔“[64]
”پھر ھم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ھے تو کس قدر بابرکت ھے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ھے“۔
بچہ کی صورت بننے کے بعد جو خود ایک تعجب خیز دنیا ھے اور خدا کی قدرت کا ایک مظھر ھے، اور جس کی بہت سی چیزیں ابھی پوشیدہ ھےں جس کو آج کی سائنس نے بھی کشف نھیں کیا ھے؛ روح پھونکنے کی باری آتی ھے جو خود بھی بہت حیرت انگیز چیز ھے۔
خداوندعالم اپنی رحمت او رارادہ کے ذریعہ جنین میں ایک اور تعجب خیز حالت پیدا کرتا ھے یعنی اس میں روح پیدا کردیتا ھے اور مردہ جنین کو زندگی عطا کردیتا ھے!!
اس کے بعد بچہ اپنی انگلی چوسنے لگتا ھے تاکہ پیدائش کے بعد فوراً ماں کا دودھ پی سکے!!

نواں مرحلہ: پیدائش
”وَاللهُ اٴَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ اٴُمَّہَاتِکُمْ۔۔۔“[65]
”اور اللہ ھی نے تمھیںشکم مادر سے اس طرح نکالا ھے کہ تم کچھ نھیں جانتے تھے“۔
بچہ کی پیدائش کا مرحلہ بھی ایک حیرت انگیزحقیقت ھے جو اس نظام خلقت میں رونما ھوتی ھے، وہ بچہ جو نو مھینہ تک شکم مادر کے اندھیرے میں زندگی بسر کرتا ھے ، اور اس کے بعد خدا کی رحمت واسعہ کے سایہ میں اس نئی دنیا میں قدم رکھتا ھے جو اس کی پھلی منزل سے بالکل مختلف ھے، لیکن خداوندعالم نے اپنی وسیع رحمت سے اس بچے میںوہ صلاحیت عطا کی ھے جس کی بنا پر اس دنیا کی فضا سے اپنے آپ کو ھم آھنگ کرسکے۔
شکم مادر میں بچہ ۳۷ درجہ گرمی میں رہتا ھے لیکن جب اس دنیا میں آتا ھے تو کھیں اس سے زیادہ گرمی ھوتی ھے اور کھیں سردی، لیکن پھر بھی اس نئی فضا سے اپنے کو ھم آھنگ کرلیتا ھے۔البتہ یہ کیسے ھوتاھے یہ علم طب کا ایک معمہ ھے، یہ بچہ جو اندھیرے سے روشنی میں قدم رکھتا ھے اور اس دنیا کی چکاچوندھ روشنی اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے برداشت کرتا ھے۔ مرطوب اور چپکی ھوئی جگہ سے خشک مکان میں قدم رکھتا ھے، لیکن پھر بھی اس دنیا کی فضا سے اپنے کو ھم آھنگ کرلیتا ھے۔ ولادت سے پھلے تک ناف کے ذریعہ اپنی غذا حاصل کرتا تھا لیکن اب منھ کے ذریعہ اپنی غذا حاصل کرنا شروع کردیتا ھے، اور براہ راست ھوا کے ذریعہ سانس لینے لگتاھے۔[66]
قارئین کرام ! یہ خداوندعالم کی رحمت واسعہ کے جلوے ھیں جو سب چیزوں پرسایہ فگن ھے، اور انسان اس مقام پر اپنے تمام وجود کے ساتھ خداوندعالم کی بے شمار نعمتوں پر شکر کرنے کے لئے قدم بڑھا دیتا ھے اور اپنے حال دل اور زبان سے روتے گڑگڑاتے ھوئے اپنے لئے مادی اور معنوی نعمتوں میں اضافہ کے لئے درخواست کرتا ھوا نظر آتا ھے:
”اٴَللّٰھُمَّ اِنّیِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ“

رحمت خدا کے عجیب وغریب جلوے
قارئین کرام ! یھاں پر انسان کے سلسلہ میں خداوندعالم کی عجیب وغریب رحمت کے بارے میں وضاحت کی جانامناسب ھے ،شاید اس کے بعد ھمارے دل کے آئینہ سے حجاب غفلت اٹھ جائے، ھماری روح اس کے نور سے روشن ھوجائے، ھماری عبادت اور خلوص میں اضافہ ھوجائے، اور حتی الامکان ھم گناھوں سے نفرت کرنے لگیں۔
انسان کا دماغ سائنس کے لحاظ سے ایک عجیب وغریب مشین ھے، اور ایسے ایسے کام انجام دیتا ھے جو آج کی ترقی یافتہ مشین بھی انجام دینے سے قاصر ھے۔
اس دماغ کا کام مختلف واقعات اور حادثات کو محفوظ رکھنا ھے، جس کو قوہ حافظہ کھا جاتا ھے۔ انسان کا حافظہ مغز کے صرف تھوڑے سے حصہ سے متعلق ھوتا ھے، حافظہ کی قدرت کو دکھانے کے لئے ایک مثال پیش کی جاتی ھے:
فرض کیجئے ایک ۵۰سال کا انسان ھواور اپنی سوانح حیات کو بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لکھنا چاھے، تو اس کو لکھنے کے لئے تقریباًبیس صفحات پر مشتمل ۱۶ کروڑ اخباروں کی ضرورت ھے جس میں باریک باریک لکھا جائے ۔ گزرے زمانہ کی یاداشت کو ذھن میں لاناٹیپ آڈیو کیسٹ کی طرح ھے ، بس فرق یہ ھے کہ انسان کے ذھن کی کیسٹ خود انسان کے ذھن سے چلتی ھے لیکن اس کو گھمانے کی ضرورت نھیں ھے۔
ایک دقیق حساب کے لحاظ سے اگر کوئی ایسی مشین بنائی جائے جو انسانی دماغ کے تمام کام انجام دے تو ایک ایسی بڑی مشین بنانے کی ضرورت ھوگی جو اس دنیا کی سب سے بڑی عمارت سے دگنی ھو، اور اس کے لئے بڑے سے بڑے جھرنوںکے ذریعہ بننے والی بجلی کی ضرورت ھے، اور چونکہ الکٹرونیک بلب اور تار وغیرہ اس میں اتنی گرمی پیدا کردیں گے جس سے اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس جھرنے کا سارا کا پانی درکار ھوگا، تو اس وقت بھی ایسی مشین نھیں بنا پائےںگے جو ایک معمولی انسان کے تمام خیال وفکر کا کام انجام دے سکے۔
پستان مادر سے دودھ پینے کا حکم بچہ کے ذھن سے ھونٹوں کے ذریعہ جاری ھوتا ھے اور بچہ بغیر کسی غلطی کے ماں کادودھ پینے لگتا ھے۔
ماں کے جسم میں ایک اٹومیٹک کیمیائی "chimie"کارخانہ ھوتا ھے جو خون کو بہترین اور مفید غذا (یعنی دودھ) میں تبدیل کردیتا ھے، اور بچہ کے نظام ھاضمہ کے لئے بھی مناسب ھوتا ھے۔
اس کارخانہ سے حاصل شدہ دودھ پستان مادر میں جمع ھوجاتا ھے اور بچہ کے پیٹ میں داخل ھوکر بچے کے بدن کا جز بن جاتا ھے۔
عجیب بات یہ ھے کہ اس پستان کی نوک بچہ کے منھ کے لحاظ سے ھوتی ھے اور اس میں باریک باریک سوراخ ھوتے ھیں کہ جب بچہ دودھ پینا شروع کرتا ھے تو وہ سوراخ کھل جاتے ھیں، اور پھر خود بخود بند ھوجاتے ھیں تاکہ بچہ کا دودھ برباد نہ ھونے پائے۔
جس وقت سے عورت حاملہ ھوتی ھے اسی وقت سے دودھ بنانے والا سسٹم اپنی کارکردگی شروع کردیتا ھے اور جتنا بچہ رشد ونمو کرتا ھے اسی لحاظ سے یہ سسٹم بھی اپنی فعالیت میں اضافہ کردیتا ھے، اور ولادت کے وقت تک بچہ کے مزاج کے مطابق دودھ آمادہ ھوجاتا ھے۔
ولادت کے بعد بچہ جس قدر بڑا ھوتاجاتا ھے اور اس کا نظام ھاضمہ طاقتور ھوتا رہتا ھے اسی لحاظ سے دودھ کے ویٹامن بڑھتے رہتے ھیں!

قارئین کرام!
یہ عجیب وغریب اور حیرت انگیز حقائق ، فعل وانفعالات اور تغیر وتبدیلی تمام کی تمام انسان کی رشد ونمو کے لئے ھے، اور یہ سب بے انتھا رحمت الٰھی اور اس کے لطف وکرم ھی کا نتیجہ ھے؟!!
لہٰذا انسان کوان تعجب آور چیزوں پر غور وفکر کرنا چاہئے تاکہ ان کو دیکھ کر خدا کی شکر گزاری اور اس کی عبادت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرے جس کے نتیجہ میں خدا کے لطف وکرم اور مادی ومعنوی نعمتوں میں اضافہ ھوسکے اور انھیں تمام چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے اس کے درِ رحمت پر کاسہ گدائی پھیلاتے ھوئے کھے:
”اٴَللّٰھُمَّ اِنّیِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ“

تنفسی نظام (Respiratoy System)
انسان کی عام زندگی میں پھیپھڑے کی فعالیت ۵۰۰ملین بار انجام پاتی ھے۔
تنفسی مشین میں لاکھوں غدّے ھوتے ھیں جن میں سے ایک چپکنے والا پانی نکلتا رہتا ھے، اور ان غدوں کا کام نقصان دہ ذرات کو اپنی طرف جذب کرلینا ھے تاکہ جب انسان کے منھ میں گرد وغبار جائے تو وہ اس کے بدن میں داخل نہ ھونے پائے۔
اگر ان غدوں میںیہ پانی نہ ھوتا تو انسان کے سانس کی نالی منٹوں میںبند ھوجاتی اور انسان مرجاتا۔
سانس کی نالی میں بہت باریک باریک بال ھوتے ھیں جو اس نالی کو صاف کرتے رہتے ھیں۔
یہ بال ایک سیکنڈ میں ۱۲ دفعہ تمام نالی کو جھاڑو دیتے ھیں اور نقصان دہ گرد وغبار کے ذرات کو ھاضمہ سسٹم میں پھنچادیتے ھیں جھاں پھونچ کر وہ نقصان نھیں کرتے۔
سانس کی نالی ،۷۵۰ ملین تھیلیوں کو صاف ھوا پھونچاتی ھے جھاںخون میں موجود کاربن "Carbon" آکسیڈ "oxide" زندگی بخش اوکسجن "Oxygen"میں تبدیل ھوجاتا ھے۔
یہ سانس والی نالی، کتنی چھوٹی ھے لیکن کتنے عظیم اور حیرت انگیزکام انجام دیتی ھے اور ”کل شیءٍ“کاایک مصداق ھے جس پر خداوندعالم کی بے انتھا رحمت سایہ فگن ھے۔

کھال:
انسانی بدن کی کھال بھی بہت مفید ھیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:
۱۔ کھال میں بہت ھی باریک باریک سوراخ ھوتے ھیں جن کے ذریعہ سانس کا کام بھی لیا جاتا ھے ؛ اور اگر یہ سوراخ بند ھوجائیں تو انسان موت کے گھاٹ اترجائے۔
۲۔ کھال میں بہت سے غدے ھوتے ھیں جن کی وجہ سے پسینہ باھر نکلتا ھے تاکہ جسم کی گرمی مناسب رھے اور زیادہ نہ ھونے پائے۔
۳۔ کھال میں چربی کے غدے بھی ھوتے ھےں جن کی وجہ سے بال نرم اور صحیح وسالم رہتے ھیں۔
۴۔ کھال کی وجہ سے بہت سے جراثیم بدن میں داخل نھیں ھوسکتے۔
۵۔ بدن میںپیدا ھوجانے والا زھر پسینہ بن کر اسی کھال سے باھر نکلتا ھے، اور اس سے انسان کے گردوں کو مدد ملتی ھے۔
۶۔ یہ غدّے بدن کے مفید پانی کو نکلنے سے روکتے ھیں۔
۷۔ حسّ لامسہ (چھونے والی قدرت) کا مرکز ھوتے ھیں جس کی وجہ سے سردی، گرمی، صاف، نرم ،سخت ، موٹا اور نازک وغیرہ جیسی چیزوں کا احساس ھوتا ھے۔
المختصر : انسان کی کھال بھی ان چیزوں میں سے جن پر خدا کی رحمت واسعہ سایہ فگن ھے اور اگر خدا کی رحمت نہ ھوتی تو پھر انسانی زندگی میں یہ فعل وانفعال اور مفید تبدیلیاں ممکن نھیں تھیں جن کی وجہ سے انسان زندہ ھے۔

بدن کا دفاعی نظام
جس وقت خداوندعالم نے انسان کے جسم کو پیدا کیا تو اپنے لطف وکرم اور محبت ورحمت کی بنا پر اس کے اندر ایسی قدرت عطا کی جس کی وجہ سے وہ حملہ آور دشمنوں سے مقابلہ کرسکتا ھے یعنی وہ ” میکروب “ "Microbe" اور بیماریاںاس سے (حتی الامکان) دور رہتی ھیں اور انسان کو اپنا دفاع کرنے کے لئے پانچ قدرت عطا فرمائیں:
۱۔ کھال، جس نے ھمارے پورے بدن کو ایک قلعہ کی طرح محفوظ بنایا ھے۔
۲۔ بافت ھای لنفی،"Lymphe"یہ انسان کے جسم کی کھال کے نیچے ھوتے ھیں جو کریم رنگ کے ھوتے ھیں اور کبھی کبھی ان کا رنگ بدل بھی جاتا ھے۔
اور یہ جسم کے بعض حصے میں موٹے موٹے ھوتے ھیں اور کبھی کبھی نازک ، اور جب ” میکروب “ "Microbe"اور بیماری کھال کے اندر داخل ھوجاتے ھیں تو یہ اس کا مقابلہ کرتے ھیں۔
۳۔ پردہ مخاط: یہ وہ پردہ ھوتا ھے جو جسم کے اعضاء پر ھوتا ھے اور اس کا رنگ اسی عضو کے لحاظ سے ھوتا ھے اور اس کا کام بھی اس عضو کی حفاظت کرنا ھوتا ھے۔
بعض اعضاء بدن جیسے دل پر دو پردے ھوتے ھیں ایک دل کے باھر ھوتا ھے جس کو ”مخاط خارجی“ کھا جاتا ھے اور دوسرا دل کے اندر ھوتا ھے جس ”مخاط داخلی“ کھا جاتا ھے۔
۴۔ معدہ کی ترشی: بالفرض اگر کوئی بیماری ان پردوں سے مقابلہ کرکے جسم کے اندر پھنچ جاتی ھے اور معدہ تک پھنچتی ھے تو معدہ کی ترشی (کھٹاس) اس کو نابود کردیتی ھے۔
۵۔ سفید گلوبل: یہ سفید گلوبل "Globule" ([67]جو گیند جیسے ھوتے ھیں اور جب گندے ” میکروب “ "Microbe"بدن میں داخل ھوکر خون میں وارد ھوجاتے ھیں، تو یھی سفید گلوبل ان سے جنگ کرتے ھیں یھاں تک ان کو نیست ونابود کردیتے ھیں۔
قارئین کرام! یھاں پر ایک قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ یہ سفید گلوبل؛ اگر بدن میں مفید میکروب داخل ھوتے ھیں تو ان سے مقابلہ نھیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ھیں۔[68]
قارئین کرام! یہ تمام نعمتیں انسان کو مختلف بیماریوں اور حوادث سے محفوظ رکھنے کے لئے ھےں اور یہ تمام رحمت الٰھی اور رحمت رحمانیہ کی وجہ سے ھیں جو تمام انسانوں کے شامل حال ھےں، جن کی وجہ سے انسان کو زندگی کے پیچ وخم سے گزرنے میں مدد ملتی ھے۔
قارئین کرام! کیا واقعاً ھم اندازاہ لگاسکتے ھیں کہ خداوندعالم کی رحمت کس قدر ھمارے ساتھ ھے؟! وہ رحمت خدا جس نے ھمارے ذرہ ذرہ کے ظاھر وباطن پر سایہ کیا ھوا ھے اور ایک لمحہ کے لئے بھی ھمیں تنھا نھیں چھوڑتی؟!!

گھاس اور ان کے تعجب خیز فوائد
گھاس اور نباتات کی تعداد اور ان کی کارکردگی نیز ان کے اندر موجود ویٹامن وغیرہ؛ انسانی زندگی کے لئے کس قدر مفید ھیں ان کو پیدا کرنے والے خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نھیں جانتا۔
اور جیسا کہ گھاس اور نباتات بھی ”کل شیءٍ“ میں شامل ھیں اور رحمت الٰھی ان کے شامل حال ھے لہٰذا ان کے بعض اھم فوائد کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:
ھوا کے اندر کافی مقدار میں گیس اور اوکسجن"Oxygen"ھوتا ھے ، اوکسجن وہ حیات بخش شئے ھے جس سے انسان او رتمام حیوانات کا فطری تعلق ھے اس کے بغیر انسان اور حیوان کی زندگی ناممکن ھے۔
انسان کے سانس لیتے وقت ایک مقدار اوکسجن پھیپھڑے میں داخل ھوکرخون میں وارد ھوجاتا ھے اور پھر وہ وھاں سے بدن کے مختلف حصوں میں پھنچا دیا جاتا ھے۔
اوکسجن کا کام انسان کی غذا کو بدن کے مختلف خلیوں میں آھستہ آھستہ اور کم حرارت سے جلادینااور جنسی شھوت کو پیدا کرنا ھے۔ اور اس جلانے کی وجہ سے ایک زھریلی گیس بنام کاربن "Carbon"پیدا ھوتی ھے ، جو پھیپھڑے اورخون میں داخل ھوکر سانس کے ذریعہ باھر نکلتی ھے۔
سبھی جاندار ھواسے اوکسیجن لیتے ھیں اور کاربن باھر نکالتے ھیں۔
یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے:
ھوا میں کس قدر اوکسیجن ھوتا ھے جوتمام ھی نھیں ھوتا، آخر ھوا میں موجود اوکسیجن کی ایک معین مقدار ھوگی ، اور اربوں انسانوں اور حیوانوں کے سانس لینے سے اس مقدار میں کمی کیوں نھیں آتی، اس کو ہزاروں سال پھلے ھی تمام ھوجانا چاہئے تھا۔!!
ھر انسان ۲۴گھنٹے میں تقریباً ۲۵۰ گرام خالص کاربن اپنے پھیپھڑے سے نکالتا ھے ۔ اگر بالفرض پوری دنیا کی آبادی کو تین ارب بھی مان لیں تو ایک سال میں تمام انسان ۲۷۳۷۵۰۰۰۰ٹن زھریلا کار بن ھوا میں چھوڑتے ھیں اور تقریباً اتنا ھی جانوروں کے ذریعہ کاربن ھوا میں آتا ھے۔
یہ زھریلا کاربن ھر سیکنڈ چند گنا بڑھتا رہتا ھے تو پھر یہ جاتا کھاں ھے؟ اگر ھوا میں اوکسیجن اور کاربن ھوتا ھے تو یہ کاربن زیادہ ھوجانا چاہئے تھا کیونکہ آکیسجن کے مقابلہ میں کاربن کی مقدار بڑھتی جارھی ھے، یہ انسان اور حیوانات کس طرح زندہ ھیں یہ مر کیوں نھیں جاتے؟!!
قارئین کرام! اس سوال کا جواب یہ ھے:
رحمت الٰھی کی وجہ سے یہ مشکل آسان ھوگئی ھے اوربہت ھی آسان طریقہ سے خداوندعالم نے اس کا انتظام کیا ھے اور ان کو مرنے سے بچالیا ھے۔
خداوندعالم نے اس دنیا میں بہت سی مخلوقات پیدا کی ھیں جن کی تعداد کوئی نھیں جانتا، اس نے بہت سی ایسی جاندار چیزیں پیدا کی ھیں جن کا سانس لینا اس کے برخلاف ھے۔
جب وہ سانس لیتی ھیں تو ھوا میں موجود کاربن حاصل کرتی ھیںاور اوکسیجن ھاھر نکالتی ھیں ، جس کی بنا پر ھوا صحیح وسالم باقی رہتی ھے ، اوراس دیرینہ خدمت گزار موجود کا نام ”نباتات“ او رگھاس ھے۔
نباتات اپنے پتوں کے ذریعہ کاربن حاصل کرتی ھےں اور اپنے تنے میں اس کاربن کو محفوظ کرلیتی ھےںاور اس کے بدلے اوکسیجن ھوا میں چھوڑتی ھے ، اسی وجہ سے اکثر نباتات میں کاربن پایا جاتا ھے۔
قرآن کریم کی آیات ،امام متقین امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے نورانی کلام اور دعاء کمیل کی روشنی میںخداوندعالم کی رحمت درختوں کے ھرھر پتے میں شامل ھے جس کی بنا پر انسان موت کے خطرہ سے محفوظ ھے ، لہٰذا انسان ان تمام چیزوں کے پیش نظر پتے پتے اور ڈالی ڈالی میں رحمت خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ھے۔ اور اگر ان تمام چیزوں کے واضح ھونے کے بعد بھی کسی کورحمت خدا دکھائی نہ دے تو وہ بیمار ھے جس کو جھل وغفلت کا کینسر ھے۔
انسان خدا داد عقل وشعور کے ذریعہ؛ سبزی، اناج اور پھلوں سے لذت اوراپنی سلامتی حاصل کرتا ھے اورانھیں کے ذریعہ اپنی بھوک مٹا تا ھے، یہ تمام چیزیں بدن کے عظیم کارخانے کے لئے ضروری اشیاء میںتبدیل ھوجاتی ھیں جیسے رنگ، ہڈی، کھال، رگ، خون، بال، ناخن، طاقت اور حرارت وغیرہ وغیرہ۔

زندگی میں حیوانات اور حشرات کا کردار
خشکی اور دریا میں بے شمار حیوانات ، حشرات (کیڑے مکوڑے) اور پرندہ نیز خزندے پائے جاتے ھیں جو عالم ھستی کو کتنے عظیم فائدے پھونچاتے ھیں، اور ان سبھی پر رحمت الٰھی سایہ فگن ھے ۔
خدا وندعالم کی بے انتھا رحمت کی وجہ سے ان کے اندر اتنے فوائد پائے جاتے ھیں جن کی وجہ سے انسان کو فائدہ پھنچتا ھے۔ لہٰذا ان میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱۔ بارور کرنے والے حشرات: پھل دار درختوں میں بھی بعض درخت نر ھوتے ھیں اور بعض مادہ، ان میں سے بعض گردہ دار ( نرخلیہ) ھوتے ھیں جس طرح مرد کا نطفہ ھوتا ھے اور بعض تخمہ دار جو مادہ ھونے کی نشانی ھوتی ھے، اگر درخت نرکا خلیہ مادہ کے تخم تک نہ پھنچے یا اس کے برعکس تو پھر اس درخت پر پھل نھیں لگتے ۔
خداوندعالم نے اپنی رحمت واسعہ کی بنا پراس کام کو انجام دینے کے لئے چھوٹے چھوٹے حشرات پیدا کئے جو اس کام کو آسانی اور بہترین طریقہ سے انجام دیتے ھیں اور وہ ایک درخت کے خلیے کو دوسرے درخت تک پھنچادیتے ھیں۔
قارئین کرام! تعجب کی بات تو یہ ھے کہ یہ حشرات اپنے اس کام میں کسی طرح کی کوئی غلطی نھیں کرتے، مثلاً سیب کے درخت کے خلیے آم کے درخت پر ڈالدیں یا آلو بخارہ کے خلیے کو خربوزہ کی بیل پر ڈال دیں بلکہ سیب کے خلیے کو سیب اور آلو بخارہ کو آلو بخارہ کے درخت ھی کے حوالے کرتے ھیں۔
اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ھے کہ درخت بھی ان حشرات کو بغیر انعام دئے واپس نھیں کرتے بلکہ یہ درخت اپنے اندر موجود مٹھاس کو ان کے حوالے کردیتے ھیں ، یہ حشرات اس مٹھائی کو کھاتے ھیں اور دولھا کو دلھن کے پاس پھنچادیتے ھیں تاکہ اپناثمر انسان کے حوالے کردیں، لیکن یہ حضرت انسان ھے جو تمام خدا داد نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنے کے بعد بھی شکر خدا سے غافل رہتا ھے!!
۲۔ بکری اور گائیں: ماھرین کا کھنا ھے کہ” دنیا میں ھر چیز موجودات کے لحاظ سے ھے“ یہ بات واقعاً بالکل صحیح ھے۔
جی ھاں، پستاندار (یعنی بچہ دینے والے ) حیوانات میں، ماں کے شکم میں بچے کو پلانے بھر کی مقدار میں دودھ ھوتا ھے، لیکن خداوندعالم نے اپنی رحمت کاملہ کی بنا پر گائے،بھینس اور بھیڑ بکری کو اس عام قانون سے الگ رکھا ھے، کیونکہ ان کا دودھ صرف ان کے بچوں ھی کے لئے نھیں ھے بلکہ ان کا دودھ انسان کے لئے بہترین غذا شمارھوتا ھے۔
گائے، بھینس اور بکری کا دودھ بچوں اور بڑوں کے لئے بہت زیادہ مفید ھے اور دودھ سے حاصل ھونے والی چیزیں انسان کی غذا میں ایک بڑی ضرورت ھے۔[69]
قارئین کرام! کیا ان تمام چیزوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد بھی خدا وندعالم کا لطف وکرم نظر نھیں آتااور رحمت خدا دکھائی نھیں دیتی؟!! خداوندمنان نے اپنی رحمت واسعہ کے ذریعہ ان حیوانات کو انسانی خدمت کے لئے خلق فرمایا ھے، ان حیوانات کے بے شمار فوائد ھےں اور احتمالی نقصانات بہت کم دیکھنے میں آتے ھیں۔
انسان؛ بھینس بکری کے تمام اعضاء سے فائدہ حاصل کرتا ھے اور یہ حیوانات ھر طرح سے انسانی خدمت کے لئے خلق کئے گئے ھیں۔
تعجب اور حیرت انگیز بات یہ ھے کہ گوسفند (بھیڑ) کی تین قسمیں ھیں: پشم رکھنے والے، گوشت رکھنے والے اور دودھ دینے والی، جبکہ ان سب کی غذا ایک ھی ھے، واقعاً یہ قدرت خدا ھی کا ایک جلوہ ھے جو ایک ھی حیوان سے ایک ھی غذا کو تین چیزوں میں تبدیل کردیتی ھے، اور انسان کی غذا او رلباس اس کے ذریعہ حاصل ھوتے ھیں۔
گائے، بھینس اور بھیڑ بکری ”کل شیءٍ“کا ایک حصہ ھے جن پر رحمت الٰھی سایہ فگن ھے ، خدا کی رحمت کاملہ کے جلوے اس قدر زیادہ ھیں کہ اس کتاب میں ان کو بیان نھیں کیا جاسکتا۔
۳۔ شھد کی مکھی : ماھرین کا کھنا ھے کہ اکثر پھول ھر وقت اپنا رس باھر نھیں نکالتے، بلکہ اس کا بھی ایک معین وقت ھے، اور اس کی مدت تین گھنٹے سے زیادہ نھیں ھوتی، اور سب پھولوں کے رس نکلنے کا وقت بھی ایک نھیں ھوتا بلکہ بعض میں سے صبح کے وقت اور بعض سے ظھر کے وقت اور بعض سے ظھر کے بعد رس نکلتا ھے، شھد کی مکھی گیاہ شناس (یعنی پھولوں کو پہچانتی ھے) اور وقت شناس بھی ھیں، یعنی پھولوں کو بھی پہچانتی ھے اور ان سے رس نکلنے کے وقت کو بھی، لہٰذا اسی وقت معینہ پر ان میں رس اخذ کرتی ھے۔[70]
اس کے بعد شھد کی مکھی پھولوں کے رس کو ایک بہترین ،لذیذ خوش رنگ اور طاقت بخش شئےمیں تبدیل کردیتی ھے جس کو شھد کھا جاتا ھے، جو تمام غذاؤں میں بے نظیر ھوتا ھے اور وہ خراب بھی نھیں ھوتا، نیز انسانوں کے لئے دواکا کام بھی کرتا ھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے:

”فِیْہِ شَفَاءٌ لِلنّٰاسِ“(۱)
”جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفاء کا سامان ھے“۔
شھد کی مکھی اور اس کی زندگی کے بارے میں سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ھیں جس کے ھر صفحہ پر خدا وندعالم کی رحمت واسعہ کے جلوے ھر پھلو سے ظاھر ھےں، اگرچہ یہ چھوٹی سی مخلوق ھے لیکن حقیقت میں بہت اھم مخلوق ھے۔

ھدایت ،بے مثل نعمت
جب خداوندعالم کے لطف کرم اور اس کی مھربانی نے یہ طے کرلیا کہ انسان کوکچھ دن کے لئے اس دنیا میں بھیجے، اور اس کو آفتاب ومہتاب اور زمین وآسمان جیسی مختلف نعمتوں سے نوازا ،تاکہ ان سے فائدہ حاصل کرے نیز سبزی، اناج اور پھل وغیرہ کے ذریعہ اس کی طاقت کو مکمل کیا اور دریائی، خشکی اور ھوائی جانوروں کے ذریعہ اس کے لئے حلال گوشت کا انتظام کیا، نیز اس کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف ساز وسامان مھیا کئے تاکہ وہ اپنی عقل وخرد اور اپنے ارادہ واختیار اور آزادی وحریت پر بھروسہ کرتے ھوئے ھدایت تشریعی کا انتخاب کرے جس کو صراط مستقیم کھا جاتا ھے جو تمام آسمانی کتابوں، انبیاء علیھم السلام کی نبوتوں اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی ولایت خصوصاً قرآن مجید میں بیان ھوئی ھے ، جس کا شمار خداوندعالم کی بے نظیر نعمتوں میں ھوتا ھے، تاکہ وہ خداوندعالم کی ان نعمتوں کے عوض میں جو ذمہ داری اور وظائف اس کے کاندھوں پر عائد ھوتے ھیں ان کو خلوص کے ساتھ صادقانہ طور پر انجام دے سکے، اور پھراپنے رشد وکمال کی منزلوں کو طے کرے، اس چند روزہ زندگی میں اپنی اُخروی اوردائمی زندگی کو سنوارے اورجنت الفردوس میںجانے کے بعد اپنے کو خدا وندعالم کی خوشنودی سے بھرہ مند ھونے کے لئے آمادہ کرے۔
انسان اگر خداوندعالم کی تمام مادی اور معنوی نعمتوں کو دیکھے اور ان پر غور وفکر کرے تو اس کو معلوم ھوجائے گا کہ خداوندمنان کی رحمت رحیمیہ اور اس کے فیضان خاص و عام نے اس کے ظاھر وباطن پر سایہ کررکھاھے، اور رحمت خدا زندگی کے ھر موڑ پر اس کے ساتھ ساتھ ھے ، خداوندعالم کی رحمت نے اس کو اس قدر چھپا رکھا ھے ، کہ اپنے مقرب ترین فرشتوں کو اس قدر اپنی رحمت ولطف وکرم عنایت نھیں کیا ھے!!
اور جب انسان معرفت کے ساتھ اپنے وظائف پر عمل کرتا ھے اور ایمانی طاقت کے بل بوتے پر خدا ئے محبوب سے ملاقات کے لئے قدم بڑھاتا ھے اور ایک منٹ کے لئے بھی عبادت خدا او رخدمت خلق سے غافل نھیں ھوتا اور اپنے تمام وجود اور اعضاء وجوارح کے ذریعہ مکمل خضوع وخشوع کے ساتھ شب وروز اپنے پروردگار کی بارگاہ میںاس کی رحمت کی بھیک مانگتا ھے۔ انسان صراط مستقیم اور ھدایت الٰھی کے انتخاب اور وظائف الٰھی پر عمل کرنے نیز حلال وحرام کی رعایت کرنے اور خلق خدا کی خدمت (جو قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اجر عظیم، اجر غیر ممنون، اجر کریم، اجر کبیر، رضاء حق او رھمیشہ کے لئے جنت الفردوس میں قیام، یہ تمام رحمت خدا کے جلوے ھیں) ؛کے ذریعہ رحمت الٰھی سے بھرہ مند ھوتا چلاجاتا ھے۔

رحمت خدا
انسان اگر اپنی زندگی میں جھل ونادانی یا غفلت ونسیان یا دوسرے اسباب کی بنا پر گناہ و معصیت میں ملوث ھوجائے تو انسان خدا کی بارگاہ میں توبہ اور گناھوں کی تلافی(جیسا کہ بیان ھوا ھے)؛کے ذریعہ اس کی بخشش ومغفرت اور رحمت کا حقدار ھوجاتا ھے، خصوصاً اگر اس کی توبہ اور استغفارشب جمعہ دعاء کمیل کے ذریعہ ھو، کیونکہ یہ شب؛ شب رحمت ھے ،یہ وہ رات ھے جس میں دعاء کمیل کے پڑھنے سے عفو بخشش اور رحمت خدا کی بارش ضرورھونے لگتی ھے:
”قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِہِمْ لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔“[71]
”اے پیغمبر آپ پیغام پھنچادیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ھے رحمت خدا سے مایوس نہ ھونا اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مھر بان ھے“۔
قرآن مجید میں درج ذیل آیات کے علاوہ بہت سی آیات ھیں جن میں رحمت خدا او راس کی عفو وبخشش کو بیان کیا گیا ھے:
” إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ “[72] ” وَاللهُ رَوٴوفٌ بِالْعِبَادِ“[73]”ِ وَاللهُ یَدْعُو إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ“([74] ”اٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ“ [75]”وَاللهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہِ مَنْ یَشَاء“”وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ“[76] ”إِنَّ اللهَ کَانَ عَفُوًّا غَفُورًا“[77]”إِنَّ اللهَ کَانَ تَوَّابًا رَحِیمًا“ [78]” وَہُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ“[79]”إِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَة“[80]
قارئین کرام ! اگر کوئی انسان ان آیات میں غور وفکر کرے تو پھر وہ خدا وندعالم کی طرف پلٹنے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کو واجب قرار دے گااور اس کی رحمت سے مایوسی او رناامیدی کو حرام او رگناہ کبیرہ مانے گا۔

رحمت کے سلسلہ میں احادیث
جناب ابوسعید خدری نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت کی ھے : جب گناھگار مومنین کو دوزخ کی آگ میں لے جایا جائے گا تو وہ ان کو نھیں جلائے گی، اس وقت خداوندعالم اپنے فرشتوں کو خطاب فرمائے گا: ان لوگوں کو میرے فضل وکرم اور رحمت کی بنا پر بھشت میں داخل کردو، چونکہ میرے لطف وکرم اور فضل واحسان کا دریا بے انتھا ھے۔
اھل بیت علیھم السلام سے روایت ھوئی ھے کہ جب روز قیامت آئے گا تو خداوندعالم مومنین کو ایک جگہ جمع کرکے فرمائے گا:
”تم پر جو میرے حقوق تھے میں ان کو معاف کرتا ھوں تم بھی ایک دوسرے کے حقوق کو معاف کردو تاکہ تم (سب) کو بھشت میں داخل کردیا جائے“۔
ایک روایت میں اس طرح وارد ھوا ھے کہ جب روز قیامت آئے گا ، اھل ایمان میں سے ایک بندہ کو حاضر کیا جائے گا اور اس سے خطاب ھوگا: اے میرے بندے ! تونے میری نعمتوں کو گناہ اور معصیت میں استعمال کیا، اور جیسے جیسے میں تجھ پر نعمتوں میں اضافہ کرتا گیا تو گناھوں میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ اس وقت اس بندہ کا سر شرم کی وجہ سے جھک جائے گا۔ بارگاہ رحمت سے ایک بار پھر خطاب ھوگا: اے میرے بندے اپنے سر کو اوپر اٹھالے، جس وقت تو گناہ کرتا تھا میں اسی وقت تیرے گناھوں کو معاف کرتا جاتا تھا۔
اسی طرح یہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں: جب روز محشر ایک بندہ کولایا جائے گا،تو گناھوں کی وجہ سے اس کا سر بہت زیادہ جھکا ھوگااور شرم کی وجہ سے رونے لگے گا، اس وقت بارگاہ رحمت سے خطاب ھوگا: جس وقت تو گناہ کرتا ھوا ھنستا تھا، میں نے اس وقت تجھے شرمندہ نہ کیا آج جب کہ تو میری بارگاہ میں شرم کی وجہ سے سر جھکائے ھوئے ھے اور گریہ وزاری کررھا ھے اور گناہ بھی نھیں کررھا ھے تو میں کس طرح تجھے عذاب دوں؟ اے میرے بندے میں نے تیرے گناھوں کو معاف کردیا اور تجھے جنت میں داخل ھونے کی اجازت دیتا ھوں۔
حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ھے کہ خدا کی سو رحمتیں ھیں، اور ان میں سے صرف ایک دنیا میں جلوہ فگن ھے جس کو اپنی تمام مخلوقات میں تقسیم کیا ھے، اور ۹۹ رحمت خداوندمنان کے خزانہ میں موجود ھے تاکہ روز قیامت اس ایک رحمت کو ۹۹گنا کرکے اپنے بندوں پر نثار کرے گا۔[81]
رئیس محدثین ، محدث کم نظیر حضرت شیخ صدوق علیہ الرحمة معصومین علیھم السلام سے روایت کرتے ھیں کہ جب قیامت برپا ھوگی، خدا کی رحمت واسعہ اس قدر جلوہ نما ھوگی اور گناھگاروں کی فوج کی فوج معاف کردی جائے گی، یھاں تک کہ بارگاہ الٰھی کا مردود شیطان خدا کی عفوو بخشش کی امید کرنے لگے!!
ایک بہت اھم روایت میں وارد ھوا : جب کسی مومن بندہ کو قبر میں رکھا جائے اور قبر کو ڈھک دیا جائے، اور رشتہ دار اور احباء وھاں سے جدا ھوجائیں، اور وہ قبر میں تنھا رہ جائے، اس وقت خداوندعالم اپنی رحمت ومحبت کی بنا پر
خطاب فرمائے گا: اے میرے بندے! تو قبر کی تاریکی میں تنھا رہ گیا ھے ،اور جن کی خوشی کے لئے تو نے میری معصیت کی ھے اور ان کی رضا کی خاطر میری ناراضگی اختیار کی ھے، وہ لوگ تجھ سے جدا ھوگئے اور تجھے تنھا چھوڑگئے ھیں ، آج تجھے اپنی اس رحمت سے نوازوں گا جس سے مخلوقات تعجب کرنے لگے ، اس وقت فرشتوں کو خطاب ھوگا: اے فرشتو! میرا بندہ غریب وبے کس اور بے یار ومددگار ھے اور اپنے وطن سے دور ھوگیا ھے اور اس قبر میں میرا مھمان ھے، جاؤ اس کی مدد کرو، اور جنت کا دروازہ اس کی طرف کھول دو، اور عطروغذا اس کے پاس لے کر جاؤ ، اور اس کے بعد میرے اوپر چھوڑ دو تاکہ میں قیامت تک اس کا مونس وھمدم رھوں۔[82]

رحمت کے بارے میں واقعات
ایک روایت میں منقول ھے کہ جب قیامت برپا ھوگی، ایک بندہ کو حساب و کتاب کے لئے حاضر کیا جائے گا، اور اس کے نامہ اعمال جو گناھوں سے سیاہ ھوچکا ھے؛ اس کے بائیں ھاتھ میں دیا جائے گا، وہ بندہ اپنے نامہ اعمال کو لیتے وقت دنیا کی عادت کی طرح ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کھے گا، اور جب رحمت خدا کے ذکر سے اس نامہ اعمال کو کھولے گا تو اس کو بالکل سفید پائے گا، جس میں کچھ بھی لکھا نہ ھوگا، یہ دیکھ کر کھے گا کہ اس میں تو کچھ بھی لکھا نھیں ھے میں کیسے پڑھوں، اس وقت فرشتے کھیں گے: اس نامہ اعمال میں تیری برائیاں اور خطائیں لکھی ھوئی تھیں لیکن اس بسم اللہ کی برکت سے تمام ختم ھوگئیں ھیں اور خداوندمنان نے تجھے معاف کردیا ھے۔[83]

جناب عیسیٰ (ع) اور گناھگار
روایات میں بیان ھوا ھے کہ ایک روز جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ ایک راستہ سے گزر رھے تھے ناگھاں ایک بہت گناھگار شخص جو فسق وفجور سے معروف تھا راستہ میں ملا ، آتش حسرت اس کے سینے میں جلنے لگی، اور اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بھنے لگے، اس نے اپنے اوپر ایک نظر کی ، افسوس کے ساتھ اس نے جگر سوز اور خون دل سے ایک آہ نکالی اور زبان حال سے کھا:

یارب کہ منم دست تھی چشم پر آشوب
جان خستہ ودل سوختہ وسینہ کباب
نامہ سیہ وعمر تبہ کار خراب
از روی کرم بہ فضل خویشم دریاب

”پالنے والے میرا ھاتھ خالی اور آنکھیں پُر آشوب ھیں،ذھن پراکندہ، دل جلا ھوا اور سینہ کباب ھے“۔
نامہ اعمال سیاہ ھے اور عمر برباد کار و کوشش بے ثمر ، لہٰذا اپنے فضل و کرم ھی سے میری مدد فرما“۔
اور اس نے یہ سوچا کہ میں نے عمر بھر کوئی کار خیر انجام نھیں دیا ھے لہٰذا میں کس طرح پاک افراد کے ساتھ چل پاؤں گا،لیکن چونکہ یہ خدا کے محبوب بندے ھیں اگر انھوں نے قبول کرلیا تو چند قدم ان کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج (بھی) نھیں ھے، لہٰذا ان اصحاب کے ساتھ کتے کی شکل میں فریاد کرتا ھوا چلنے لگا۔
ایک حواری نے جب اس مشھور ومعروف بدکار کو اپنے پیچھے پیچھے آتا ھوا دیکھا تو کھا: یا روح اللہ! یہ مردہ دل اور نجس آدمی ھم لوگوں کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نھیں رکھتا او راس ناپاک کے ساتھ چلنا کس مذھب میں جائز ھے؟ اس کو بھگادیجئے تاکہ یہ ھمارے پیچھے نہ آئے ایسا نہ ھو کہ اس کے گناھوںکا دھبہ ھمارے دامن پر بھی لگ جائے!!
اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کچھ سوچنے لگے کہ اس شخص سے کیا کھےں ، اور کس طرح اس شخص سے معذرت کرےں(کہ ھمارے ساتھ نہ چلے) ناگاہ خداوندعالم کی طرف سے وحی نازل ھوئی: اے روح اللہ! اپنے اس خود پسند دوست سے فرمادیجئے کہ اپنی زندگی( کے اعمال کو دوبارہ شروع کرو) کیونکہ آج تک جو اس نے نیک کام کئے تھے وہ سب نامہ اعمال سے محو کردئے گئے کیونکہ اس نے میرے بندہ کو حقارت کی نظر سے دیکھا ھے اور اس فاسق کو بشارت دیدو کہ میں نے اس کی شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے اس کے لئے اپنی توفیق کا راستہ کھول دیا ھے اور اس کی ھدایت کے اسباب مھیا کردئے ھےں۔[84]

ایک گناھگار جوان
مرحوم ملّا فتح اللہ کاشانی نے تفسیر ”منہج الصادقین“ میں اور آیت اللہ کلباسی نے کتاب ”انیس اللیل“ میں یہ واقعہ نقل کیا ھے :
”مالک دینار“ کے زمانہ میں ایک گناھگار او رنافرمان شخص کی موت ھوگئی، عوام الناس نے اس کے گناھوں کی وجہ سے اس کی تجھیز وتکفین نھیں کی، بلکہ ایک گندی جگہ کوڑے کے ڈھیر میں ڈال دیا۔
مالک دینار نے رات میں خواب دیکھا کہ خدا وندعالم کا حکم ھے : ھمارے اس بندہ کو وھاں سے اٹھاؤ اور اس کو غسل وکفن کے بعد صالح افراد کے قبرستان میں دفن کرو، اس نے عرض کی : خدایا! وہ تو بدکاروں اور فاسقوں میں سے تھا، کس طرح اور کس چیز کی وجہ سے درگاہ احدیت میں مقرب بن گیا؟ تو جواب آیا: اس نے آخری موقع پر گریہ کناں آنکھوں سے یہ جملہ پڑھا:
”یَامَنْ لَہُ الدُّنْیَا وَالآخِرَةُ إِرْحَمْ مَنْ لَیْسَ لَہُ الدُّنْیَا وَالآخِرَةُ“۔
(اے وہ جودنیا وآخرت کا مالک ھے، اس شخص کے او پر رحم کر جس کے پاس نہ دنیا ھے او رنہ آخرت۔)
اے مالک! کون ایسا درد مند ھے جس کے درد کا ھم نے علاج نہ کیا ھو اور کون ایسا حاجت مند ھے جو ھماری بارگاہ میں روئے اور ھم اس کی حاجت پوری نہ کریں؟[85]

مستجاب دعا
ایک بڑے عابد و زاھد منصور بن عمارکے زمانہ میں ایک مالدار شخص نے محفل معصیت سجائی اور اس نے اپنے غلام کو چار درھم دئے تاکہ وہ بازار سے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لائے۔
غلام راستہ میں چلا جارھا تھا کہ اس نے دیکھا منصور بن عمار کی نششت ھورھی ھے، سوچا کہ دیکھوں منصور بن عمار کیا کہہ رھے ھیں؟ تو اس نے سنا کہ عمار اپنے پاس بیٹھنے والوں سے کچھ طلب کررھے ھیں اور کہہ رھے ھیں کہ کون ھے جو مجھے چار درھم دے تاکہ میں اس کے لئے چار دعائیں کروں؟ غلام نے سوچا کہ ان معصیت کاروں کےلئے طعام وشراب خریدنے سے بہتر ھے کہ یہ چار درھم منصور بن عمار کو کو دیدوں تاکہ میرے حق میں چار دعائیں کردیں۔
یہ سوچ کر اس نے وہ چار درھم منصور کو دیتے ھوئے کھا: میرے حق میں چار دعائیں کردو، اس وقت منصور نے سوال کیا کہ تمھاری دعائیں کیا کیا ھیں بیان کرو، اس نے کھا: پھلی دعا یہ کرو کہ خدا مجھے غلامی کی زندگی سے آزاد کردے، دوسری دعا یہ ھے کہ میرے خواجہ (آقا) کو توبہ کی توفیق دے، اور تیسری دعا یہ کہ یہ چار درھم مجھے واپس مل جائیں، اور چوتھی دعا یہ کہ مجھے اور میرے خواجہ اور خواجہ کے اھل مجلس کو معاف کردے۔
چنانچہ منصور نے یہ چار دعائیں اس کے حق میں کیں اور وہ غلام خالی ھاتھ اپنے آقاکے پاس چلا گیا۔
اس کے آقا نے کھا: کھاں تھے؟ غلام نے کھا: میں نے چار درھم دے کر چار دعائیں خریدی ھیں، تو آقا نے سوال کیا وہ چار دعائیں کیا کیا ھیں؟ تو غلام نے کھا: پھلی دعا یہ میں آزاد ھوجاؤں، تو اس کے آقا نے کھا جاؤ تم راہ خدا میں آزاد ھو، اس نے کھا: دوسری دعا یہ تھی کہ میرے آقا کو توبہ کی توفیق ھو، اس وقت آقا نے کھا: میں توبہ کرتا ھوں، اس نے کھا: تیسری دعا یہ کہ ان چار درھم کے بدلے مجھے چار درھم مل جائیں، چنانچہ یہ سن کر اس کے آقا نے چار درھم عنایت کردئے ، ’اس نے کھا: چوتھی دعا یہ کہ خدا مجھے ،تجھے اور اھل محفل کو بخش دے ، یہ سن کر اس آقا نے کھا: جو کچھ میرے اختیار میں تھا میں نے اس کو انجام دیا، تیری ، میری اور اھل مجلس کی بخشش میرے ھاتھ میں نھیں ھے۔چنانچہ اسی رات اس آقا نے خواب میں دیکھا کہ ھاتف غیبی خدا کی طرف سے آوازدے رھا ھے کہ اے میرے بندے! تو نے اپنے فقر وناداری کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل کیا،کیا ھم اپنے بے انتھا کرم کے باوجود اپنے وظیفہ پر عمل نہ کریں، ھم نے تجھے، تیرے غلام اور تمام اھل مجلس کو بخش دیا۔

خدائے کریم کی بارگاہ میں حاضری
ایک مرد حکیم ایک راستہ سے چلا جارھا تھا راستہ میں اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جوان کو اس کے گناہ وفساد کی وجہ سے اس علاقہ سے باھر نکال رھے ھیں، اور ایک عورت اس کے پیچھے پیچھے بہت زیادہ روتی پیٹتی ھوئی جارھی ھے، میں نے سوال کیا کہ یہ عورت کون ھے؟ تو لوگوں نے جواب دیا اس کی ماں ھے، میرے دل میں رحم آیا لہٰذا میں نے ان لوگوں سے اس کے بارے میں سفارش کی اور کھا کہ اس دفعہ اس کو معاف کردو، اور اگر اس نے دوبارہ یھی کام کیا تو پھر اس کو شھر بدر کردینا۔
وہ مرد حکیم کہتا ھے: ایک زمانہ کے بعد اس قریہ سے دوبارہ گزر ھوا تو میں نے دیکھا کہ ایک دروازہ کے پیچھے سے نالہ و فریاد کی آوازیں بلند ھیں، میں نے دل میں سوچا شاید اس جوان کو گناھوں کی وجہ سے شھر بدر کردیا گیا ھے اور اس کی ماں اس کی جدائی میں نالہ وفریاد کررھی ھے، میں آگے بڑھا اور دروازہ پر دستک دی ، ماں نے دروازہ کھولاتو میں نے اس جوان کے حالات دریافت کئے تو ماں بولی: وہ تو مرگیا ھے لیکن کس طرح مرا ھے، جس وقت اس کا آخری وقت تھا تو اس نے کھا: اے ماں! پڑوسیوں کو میرے مرنے کی خبر نہ کرنا، میں نے ان کو بہت تکلیف دی ھے، اور ان لوگوں نے بھی میرے گناھوں کی وجہ سے میری سرزنش کی ھے ، میں یہ نھیں چاہتا کہ وہ لوگ میرے جنازے میں شریک ھوں، لہٰذا خود ھی میری تجھیز وتکفین کرنا ، اور ایک انگوٹھی نکال کر دی اور کھا کچھ دنوں پھلے میں نے اس کو خریدا ھے اور اس پر”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ لکھا ھوا ھے، اس کو بھی میرے ساتھ دفن کردینا او رقبر کے پاس خدا سے میری شفاعت کرنا تاکہ خدا میرے گناھوں کو بخش دے۔
چنانچہ میں نے اس کی وصیت پر عمل کیا اور جس وقت اس کی قبر کے پاس سے واپس آرھی تھی تو گویا مجھے ایک آواز سنائی دے:
”اے ماں! اطمینان سے چلی جاؤ، میں خدا وندکریم کے پاس پھنچ گیا ھوں“۔[86]

توبہ کے بعد توبہ
عطّار ”منطق الطیر“ میں روایت کرتے ھیں: ایک شخص مسلسل گناہ اور معصیت کے بعد توبہ کرنے کی توفیق حاصل کرتا ھے، اور توبہ کے بعد پھر ھوائے نفس کے غلبہ کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ھوجاتا ھے، ایک بار پھر اس نے توبہ کی ، لیکن پھر اپنی توبہ کو توڑ ڈالا اور گناھوں کا مرتکب ھوگیا، یھاں تک کہ اپنے بعض گناھوں کی سزا میں مبتلا ھوگیا، اور وہ اس نتیجہ پر پھنچ گیا کہ اس نے اپنی عمر کو تباہ کرڈالا ھے اور جب اس کا آخری وقت آگیا تو ایک بار پھر توبہ کے بارے میں سوچا، لیکن شرمندگی اور خجالت کی بنا پر توبہ نہ کرسکا، لیکن جلتے توے پر بھنتے دانہ کی طرح کرب وبے چینی میں کروٹیں بدلنے لگا، یھاںتک کہ سحر کا وقت ھوگیا، اس موقع پر ھاتف غیبی نے ندا دی : اے گناھگار خداوندعالم فرماتا ھے: جب تو نے پھلی دفعہ توبہ کی تو میں نے تجھے بخش دیا، لیکن تونے اپنی توبہ کوتوڑ ڈالا، حالانکہ میں تجھ سے انتقام لے سکتا تھا لیکن میں نے تجھے مھلت دی یھاں تک کہ تونے دوبارہ توبہ کی اور میں نے تیری توبہ قبول کرلی، لیکن تونے تیسری مر تبہ بھی اپنی توبہ کو توڑ ڈالا، اور گناہ ومعصیت میں غرق ھوگیا؛ اور اگر تو اب بھی توبہ کرنا چاہتا ھے تو توبہ کرلے میں تیری توبہ قبول کرلوں گا۔[87]

دعا کے ذریعہ گمراھی سے نجات
عطّار ”منطق الطیر“ میں روایت کرتے ھیں: ایک روز حضرت روح الامین ”سدرة المنتھیٰ“ پر تھے دیکھا کہ پروردگار عالم کی طرف سے لبیک لبیک کی آواز آرھی ھے، لیکن یہ معلوم نہ ھوسکا کہ یہ لبیک کس کے جواب میں کھی جارھی ھے، سوچا کہ اس شخص کو پہچانے جس کے جواب میں یہ لبیک کھی جارھی ھے، تمام زمین وآسمان میں نظر دوڑائی ، کوئی نظر نھیں آیا دیکھا اس وقت بھی بارگاہ رب العزت سے مسلسل لبیک لبیک کی آواز آرھی ھے۔
اس کے بعد پھر دیکھا کوئی ایسا شخص نظر نھیں آیا جو خداوندعالم کے لبیک کا مستحق ھو،عرض کیا: پالنے والے مجھے اس بندہ کو دکھادے جس کے گریہ وزاری کے جواب میں تو لبیک کہہ رھا ھے، اس وقت خطاب پروردگار ھوا: سر زمین روم پر دیکھ، دیکھا تو روم کے ایک بت کدہ میں ایک بت پرست ابر باراں کی طرح گریہ کر رھا ھے او راپنے بت کو پکارھا ھے۔
جناب جبرئیل نے اس واقعہ کو دیکھ کر جوش وخروش میں آکر عرض کی: پالنے والے میری آنکھوں سے حجاب اٹھالے کہ ایک بت پرست اپنے بت کو پکاررھا ھے اور اس کے سامنے رو رھا ھے اور توھے کہ اپنے لطف وکرم سے اس کے جواب میں لبیک کہہ رھا ھے!!
توآواز قدرت آئی: میرے بندہ کا دل سیاہ ھوچکا ھے اسی وجہ سے وہ راستہ بھٹک گیا ھے، لیکن چونکہ مجھے اس کا راز ونیاز اچھا لگا، لہٰذا اس کا جواب دے رھا ھوں،اوراس کی آواز پر لبیک کہہ رھا ھوں تاکہ اسی وجہ سے راہ ھدایت پر آسکے، چنانچہ اسی وقت اس کی زبان پر خداوند مھربان کا کلمہ جاری ھوگیا!!۔[88]

بد بختوں کی فھرست سے نام کاٹ کر نیک بختوں کے فھرست میں لکھا گیا
صاحب تفسیر ”فاتحة الکتاب“ (جو عرفانی اور علمی کتابوں میںسے ایک اھم کتاب ھے اور فیض کاشانی کے زمانہ کے بعد ایک دانشور نے لکھی ھے) کہتے ھیں: بنی اسرائیل میں ایک عابد وزاھد تھا ، جس نے تمام لوگوں کو چھوڑ کر ایک خلوت گاہ بنائی ، اور ایسی عبادت کیا کرتا تھا جس کی بنا پر وہ محبوب ملائکہ بن گیا تھا ، وحی پروردگار کے رازدارجناب جبرئیل نے اس کی زیارت کی تمنا کی اور آسمان سے زمین پر آنے کی اجازت طلب کی تو آواز قدرت آئی: اے جبرئیل لوح محفوظ میں دیکھو اس کا نام کھاں لکھا ھے۔؟
جبرئیل نے دیکھا کہ اس کا نام بد بختوں کی فھرست میں لکھا ھوا ھے، تعجب کیا ، اور اس کے دیدار کے ارادے کو ترک کردیا اور بارگاہ پروردگار میں عرض کیا: پالنے والے! تیرے حکم کے مقابلہ میں کوئی بھیتاب نھیں رکھتا ، مجھ میں اس عجیب وغریب نظارہ کو دیکھنے کی طاقت نھیں ھے۔
خطاب ھوا: چونکہ تمھارے دل میں اس کے دیدار کی تمنا تھی لہٰذا اس کے پاس جاؤ اور جو کچھ دیکھا ھے اس کو باخبر کرو۔
جناب جبرئیل اس عابد کی خانقاہ کی طرف روانہ ھوئے دیکھا تواس کا بدن بہت نحیف وکمزور ھے اس کے دل میں شوق ومحبت کی آگ لگی ھوئی ھے کبھی پروانہ کی طرح محراب عبادت میں سوزناک انداز میںعبادت کرنے میں مشغول ھوتا ھے اور کبھی سجدہ کی حالت میں گریہ وزاری اور تضرع کرتا ھے۔
جناب جبرئیل اس کو سلام کرتے ھیں اور کہتے ھیں: اے عابد! خود کو زحمت میں نہ ڈال، کیونکہ لوح محفوظ میں تیرا نام بدبختوں کی فھرست میں لکھا ھوا ھے۔
چنانچہ جب اس عابد نے یہ سنا تو نسیم سحر کی وجہ سے گلبرگ کے پھول کی طرح کھِل اٹھا ؛ ھنسا اوربلبل شیرین سخن کی طرح اپنی زبان پر ”الحمد لله“ جاری کیا۔
اس وقت جناب جبرئیل نے کھا: ا ے ناچار بوڑھے ! تجھے تو اس دلسوز درد ناک غم کی خبر سن کر ”انا لله“ کھنا چاہئے تھا او رتو ھے کہ ”الحمد لله“ کہتا ھے؟!! تیرے لئے تو تعزیت اور تسلیت کا مقام تھا تو خوشی اور مسرت کا اظھار کرتا ھے؟!!
یہ سن کر اس عابد نے کھا: ان باتوں کو چھوڑ، میں بندہ اور غلام ھوں اور وہ آقا ومولا، غلام کامولا کی باتوں سے کیا مقابلہ، اس کے مقابلہ میں کسی کی نھیں چلتی، وہ جو کچھ کرنا چاھے کرسکتا ھے، قدرت کی باگ ڈور اسی کے ھاتھ میں ھے، جھاں بھی ھمیں رکھنا چاھے رکھ سکتا ھے، سب کچھ اسی کی مشیت کے تحت ھے جو چاھے کرے، ”الحمد لله“ اگرمیں بھشت میں جانے کے لئے اس کی شایان شان نھیں ھوں تو کوئی بات نھیں میں دوزخ کا ایندھن بننے کے کام تو آسکتا ھوں۔
یہ سن کر جناب جبرئیل اس کی حالت پر رونے لگے، چنانچہ اسی حالت میں بارگاہ رب العزت میں پلٹ گئے، اس وقت حکم خدا ھوا اے جبرئیل دوبارہ لوح محفوظ کو دیکھو کہ ”یمحو الله ما یشاء ویثبت“[89] کے لکھنے والے نے کیا لکھا اور ”یفعل الله ما یشاء“ [90]کے مالک نے کیا کیا ھے؟
جبرئیل نے دیکھا تو اس کا نام نیک بختوں کی فھرست میں لکھا ھوا ھے، جناب جبرئیل کو بہت تعجب ھوا، عرض کیا: پالنے والے اس واقعہ کا راز کیا ھے ، کس طرح ایک مجرم ؛ مَحرم میں بدل جاتا ھے؟
جواب پروردگار آیا: اے امین اسرار وحی ! اور اے مھبط انوار امر ونھی، چونکہ وہ عابد اپنے لئے مقرر کی ھوئی جگہ کی خبر سن کر رویا نھیں اس نے نالہ وفریاد نھیں کیا بلکہ وادی صبر میں قدم رکھا اور حکم الٰھی پر راضی رھا نیز اپنی زبان پر ”الحمد لله“ جاری کیا اور مجھے میرے تمام صفات سے پکارا، میرے کرم اور رحمت کو جوش آگیا کہ ”الحمد لله“ کھنے والے کو بدبختوں کی فھرست سے نکال نیک بختوں کی فھرست میں لکھ دوں، لہٰذا میں نے اس کا نام نیک بختوں کی فھرست میں لکھ دیا ھے۔[91]
--------------------------------------------------------------------------------

[1] سوره غافر، آیت۶۰.
[2] سوہ فرقان آیت ۷۷۔
[3] سورہ بقرہ آیت ۱۸۶۔
[4] سورہ ق آیت۱۶۔
[5] سورہ ابراھیم آیت۳۹۔
[6] سورہ مریم ۵ تا ۷۔
[7] سورہ مائدہ آیت ۱۱۲تا ۱۱۵۔
[8] سورہ غافر(مومن)آیت۶۰۔
[9] محجّةالبیضاء، ج۲،ص۲۸۲،کتاب الاٴذکار و الدعوات ،باب۲۔
[10] محجّةالبیضاء، ج۲،ص۲۸۲،کتاب الاٴذکار و الدعوات ،باب۲۔
[11] محجّةالبیضاء ،ج۲،ص۲۸۳،کتاب الاٴذکار و الدعوات ،باب۲۔
[12] کافی ،ج۲ص۴۶۶،باب فضل الدعاء ۔۔۔،حدیث۲۔
[13] کافی ،ج۲ص۴۶۷،باب فضل الدعاء ۔۔۔،حدیث۸۔
[14] کافی ،ج۲ص۴۶۷،باب اٴن الدعا ء سلاح الموٴمن ،حدیث ۲ ؛ محجّةالبیضاء :۲۸۴۲،باب الثانی فی آداب الدعا ء۔۔۔۔
[15] کافی ،ج۲ص۴۷۱،باب ا لھام الدعا ء ،حدیث ۲ ؛محجّةالبیضاء :۲۸۴۲،باب الثانی فی آداب الدعا ء۔۔
[16] کافی ،ج۲ص۴۷۰،باب اٴن الدعا ء شفاء ، من کل داء ،حدیث ۱ ؛ محجّةالبیضاء :۲۸۵۲،باب الثانی فی آداب الدعا ء۔
[17] کافی ،ج۲ص۴۸۷،باب الاجتماع فی ا لدعا ء،حدیث ۲؛ جامع احادیث الشیعہ:۳۵۴۱۹۔
[18] مستدرک الوسائل :ج۵ص۲۳۹،باب ۳۶،حدیث ۵۷۷۲؛ جامع احادیث الشیعہ:۳۵۴۱۹۔
[19] وسائل الشیعہ :ج۷ص۱۰۴،باب ۳۹ حدیث۸۸۵۶۔
[20] وسائل الشیعہ :ج۷ص۱۰۵،باب ۳۹ حدیث۸۸۶۰۔
[21] سورہ یوسف آیت۸۷۔
[22] سورہ زمر آیت ۵۳۔ ”۔۔۔۔خدا کی رحمت سے مایوس نہ ھونا۔۔“
[23] کنز العمال :۵۸۶۹،میزان الحکمہ ج ۱۰ص۵۰۴۶،القنوط، حدیث۱۷۱۰۹۔
[24] مستدرک الوسائل :ج۱۲ص۵۰،باب ۶۴ حدیث۱۳۵۰۷۔
[25] کافی : ج۲ ص ۴۸۹ ،باب ابطاٴت علیہ الاجابة، حدیث ۲۔
[26] کافی : ج۲ ص۴۸۹ ،باب ابطاٴت علیہ الاجابة، حدیث ۳۔
[27] اصول کافی، ج۲ ص ۲۶۶، مختلف ابواب میں، محجة البیضاء ص ۲۴۹تا ۲۶۸۔
[28] دعوات راوندی ص ۳۵،حدیث ۸۳، بحار الانوار ج۸۶ص۲۷۴ باب ۲، ص ۱۷۔
[29] المقنعة ص ۱۵۵، بحار الانوار ج۸۶، ص ۲۷۱، باب ۲ حدیث ۱۳ و ۱۹۔
[30] بحار الانوار ج۸۶ص۲۸۲،باب ۲حدیث ۲۷۔
[31] بحار الانوار ج۸۶ص۲۸۳،باب ۲حدیث ۲۸(مضمون حدیث۔)
[32] مستدرکات علم الرجال ج۶ص ۳۱۴۔
[33] رسائل سید مرتضیٰ۔
[34] بحار الانوار ج ۳۳ص۳۹۹، باب ۲۳حدیث ۶۲۰۔
[35] مستدرکات علم الرجال ج۶ص ۳۱۴۔
[36] مصباح کفعمی ص ۵۵۵۔
[37] محجة البضاء ج۲ ص ۲۸۵، آداب دعا وھی عشرة۔
[38] محجة البضاء ج۲ ص ۲۸۵، آداب دعا وھی عشرة۔
[39] اصول کافی، ج۲ص۴۶۱ باب البکاء حدیث ۱۔
[40] اصول کافی، ج۲ص۸۰ باب اجتناب المحارم حدیث ۲۔
[41] تفسیرامام عسکری :۲۵ ،الافتتاح بالتسمیة۔۔۔ ؛وسائل الشیعہ :ج۷ص۱۷۰،باب ۱۷ حدیث ۹۰۳۲۔
[42] مکارم الاٴخلاق :۳۴۶،فی المھمات ؛بحارالانوار :ج۹۲ ص۱۵۹ ،باب۱۵۔
[43] مستدرک الوسائل :ج۵ص۳۰۴،باب ۱۶ حدیث ۵۹۲۹ ۔
[44] روایات ۴ تا ۷ تفسیر فاتحة الکتاب میں موجود ھے۔
[45] سورہ روم آیت ۴۔
[46] سورہ تغابن آیت ۱۔
[47] سورہ اخلاص آیت ۱۔
[48] انیس اللیل ص ۲۱۔
[49] افق دانش ص ۱۱۔
[50] سورہ کہف آیت۵۱۔
[51] سورہ فصلت آیت۱۱۔
[52] سورہ نوح آیت۱۶۔
[53] گزشتہ وآئندہ جھان ص ۲۰ تا ۲۷۔
[54] افق دانش ص ۸۹تا ۹۴۔
[55] سورہ نوح آیت۱۴۔
[56] سورہ مومنون آیت۱۲۔
[57] سورہ فرقان آیت۵۴۔
[58] سورہ علق آیت ۲۔
[59] بعض حیوانات اور انسان کے نطفہ میں موجود ایک خلیہ "Cellule"کا نام ھے۔(مترجم)
[60] سورہ سجدہ آیت۸۔
[61] سورہ دھر آیت۲۔
[62] سورہ حشر آیت۲۴۔
[63] سورہ زمر آیت ۶۔
[64] سورہ مومنون آیت۱۴۔
[65] سورہ نحل آیت ۷۸۔
[66] گزشتہ وآئندہ جھان، ص۵۱ تا ۷۰، تھوڑے دخل وتصرف اور اختصارکے ساتھ۔
[67] انسان کے خون میں دو طرح کے گلوبل ھوتے ھیں ایک سفید رنگ کے اور دوسرے سرخ رنگ کے اور سرخ رنگ کے گلوبل میں جب کمی آجاتی ھے تو انسان میں خون کم ھوجاتا ھے، ایک ملی میٹر خون میں سرخ گلوبل کی تعداد پانچ ملین ھوتی ھے، جبکہ سفید گلوبل کی تعداد ایک میلی میٹر مکعب خون میں چھ سے سات ہزار تک ھوتی ھے۔(مترجم)
[68] نشایہ ھای از او، ص ۸۸ تا ۱۳۳۔
[69] نشانہ ھای از او، ج۱ ص ۱۷۴۔
[70] نشانہ ھای از او ج ۲ ص ۹۲۔
[71] سورہ زمر آیت۵۳۔
[72] سورہ بقرہ آیات نمبر۱۷۳، ۱۸۲، ۱۹۲، ۱۹۹، اور سورہ مائدہ آیت ۳۹۔
[73] سورہ بقرہ آیت۲۰۷، آل عمران آیت ۳۰۔
[74] سورہ بقرہ آیت ۲۲۱۔
[75] سورہ بقرہ آیت ۲۳۵۔
[76] سورہ بقرہ آیت ۱۰۵۔
[77] سورہ نساء آیت ۴۳۔
[78] سورہ نساء آیت ۱۶۔
[79] سورہ یوسف آیت ۶۴۔
[80] سورہ نجم آیت ۳۲۔
[81] محجة البیضاء ج۸ص ۳۸۴، باب فی سعة رحمة اللہ۔
[82] روایات باب رحمت خدا مفصل طور پر کتاب بحار الانوار ج۷ص ۲۸۶ باب ۱۴ما یظھر من رحمتہ تعالی فی القیامة، میں نقل ھوئی ھوئی ھیں ، محجة البیضاء ج۸ ص ۳۸۳ باب فی سعة رحمة اللہ، وکتاب تفسیر فاتحة الکتاب وتفاسیر قرآن میں نقل ھوئی ھیں۔
[83] تفسیر فاتحة الکتاب، ص ۷۴۔
[84] تفسیر فاتحة الکتاب ص ۶۳۔
[85] انیس اللیل ص ۴۵۔
[86] تفسیر روح البیان جلد اول ص ۳۳۷۔
[87] انیس اللیل ص ۴۵۔
[88] انیس اللیل ص ۴۶۔
[89] سورہ رعد آیت۳۹۔ترجمہ:”اللہ جس چیز کو چاہتا ھے مٹا دیتا ھے یا برقرار رکھتا ھے“۔
[90] سورہ ابراھیم، آیت ۲۷۔ترجمہ:”اور وہ جو بھی چاہتا ھے انجا م دیتا ھے“۔
[91] تفسیر فاتحة الکتاب ص ۱۰۷۔