11۔ ابوموسیٰ کے فیصلے کے بعد آنحضرت کا صفین میں خطبہ
اے لوگو! تم نے عبداللہ بن قیس اور عمروبن عاص کے انتخاب کے بارے میں بڑی باتیں کیں۔ یہ دو اشخاص اس لئے منتخب ہوئے تھے تاکہ کتاب کے مطابق فیصلہ کریں۔ لیکن انہوں نے اپنی خواہشات کو قرآن پر فوقیت دی، اور جو بھی ایسا کرے وہ حکم نہیں کہلا سکتا بلکہ اسے محکوم علیہ ہونا چاہئے ( یعنی وہ فیصلہ کرنے کے لائق نہیں بلکہ اس کے خلاف فیصلہ ہونا چاہئے)۔ عبداللہ بن قیس نے عبداللہ بن عمر کی خلافت کے معاملہ میں انتخاب میں غلطی کی اور تین چیزوں میں اس نے اشتباہ کیا۔ یہ کہ عبداللہ کے باپ عمر نے اسے خلافت کیلئے مناسب نہ جانا اور معین نہ کیا اور خلیفہ نہ بنایا، اور اس لئے عمر نے عبداللہ کو کسی گورنری پر مقرر نہ کیا، اور اس میں بھی کہ مہاجرین اور انصار عبداللہ بن عمر کیلئے کسی خصوصیت کے قائل نہ تھے، اور جو لوگ فیصلے کیا کرتے تھے وہ اسے کوئی کام سپرد نہ کرتے تھے، اور سوائے اس کے نہیں کہ حکومت تو خدا کی طرف سے واجب ہے۔(یہ کسی آدمی کا کام تو نہیں ہے کہ جس کو چاہے مقرر کرے)۔ پیغمبر اسلام نے سعد بن معاذ کو بنی قریظہ کے معاملے میں حاکم (فیصلہ کرنے والا) مقرر کیا اور اس نے خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا اور پیغمبر اسلام نے اس کے فیصلے کو نافذ فرمایا، اور اگر وہ خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرتا تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسے لاگو نہ کرتے۔(بحار، ج۳۳، ص۳۹۳)۔
12۔ آنحضرت کا خطبہ خدا کی تعریف اور اپنے والد کی شان میں
روایت ہے کہ امام علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ اے بیٹے! اٹھو اور خطبہ پڑھو تاکہ تمہاری آواز سنوں۔ آنحضرت اٹھے اور اس طرح گفتگو فرمائی:
تمام تعریفیں اس خدا کیلئے ہیں جو ایک ہے بغیر تشبیہ کے، اور جو ہمیشہ ہے بنے بغیر، جو مضبوط ہے سختی کے بغیر، جو بغیر رنج و تکلیف کے پید اکرنے والا ہے۔ اس کا وصف بیان ہوا ہے بغیر اس کے کہ اس کی کوئی انتہا ہو۔ وہ پہچانا ہوا ہے حد بندی کے بغیر۔ وہ غالب ہے اور یہ چیزیں اس کے ساتھ ازل سے ہیں۔ دل اس کی ہیبت سے پریشان ہیں۔ عقلیں اس کی عزت سے حیران ہیں، اور گردنیں اس کی قدرت سے جھکی ہوئی ہیں۔ اس کی قدرت کی انتہا بشری ذہن میں نہیں آسکتی، اور اس کی عظمت کی حقیقت کو لوگ پا نہیں سکتے۔وصف بیان کرنے والے اس کی عظمت کی انتہا کو بیان کرنے سے عاجزہیں۔ صاحبانِ علم کا علم اس تک پہنچ ہی نہیں سکتا، اور فکر کرنے والوں کی فکریں اس کی تدبیروں میں راستہ تلاش نہیں کر سکتیں۔ زیادہ علم رکھنے والا شخص وہ ہے جو اس کے وصف بیان کرتے وقت انتہائے وصف بیان نہ کرے۔ وہ ہرچیز دیکھتا ہے لیکن آنکھیں اسے نہیں پاسکتیں۔ وہ جاننے والا ہے اور باخبر ہے۔
اما بعد! علی علیہ السلام ایسا دروازہ بنے کہ جو بھی اس میں داخل ہو گیا وہ مومن ہے، اور جو بھی اس سے خارج ہوگیا، وہ کافر ہے۔ میں یہ بات کرتاہوں اور عظیم خدا سے تمہاری بخشش طلب کرتا ہوں۔(تفسیر فرات بن ابراہیم، ص۱۷)۔
13۔ آنحضرت کا خطبہ خدا کی تعریف اور اپنے والد گرامی کی شان میں
روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ اٹھو اور خطبہ پڑھو تاکہ میں تمہاری آواز سنوں۔ آنحضرت اٹھے اور فرمایا:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔ ایسا خدا جو ہر کہنے والے کی سنتا ہے اور چپ رہنے والے کے دل میں ہرچیز سے واقف ہے۔جو بھی زندہ ہے ،اس کو رزق دینا اسی کا کام ہے۔ ہر مرنے والے کا لوٹنا اسی کی طرف ہے۔
اما بعد! قبریں ہمارا ٹھکانا اور قیامت ہمارے وعد ہ کی جگہ ہیں ، اور خدا ہمارا محاسبہ کرنے والا ہے۔ علی علیہ السلام ایسا دروازہ ہیں کہ جو اس میں داخل ہوگیا وہ مومن اور جو اس سے خارج ہوگیا، وہ کافر ہے۔(کشف الغمہ، اردبیلی، ج۱،ص۵۷۲)۔
14۔ آنحضرت کا خطبہ اہلبےت کی فضیلت میں
روایت ہے کہ کوفہ کے لوگوں میں سے ایک گروہ نے امام حسن علیہ السلام کے بارے
میں بُرابھلا کہا،اور طعنہ دیا کہ وہ قدرت نہیں رکھتے گفتگو کرنے میں۔ یہ بات امیرالموٴمنین علیہ السلام تک پہنچی۔ امام حسن علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا کہ اے پیغمبر خدا کے بیٹے! کوفہ کے لوگ تیرے بارے میں ایسی باتیں کررہے ہیں جو مجھے بُری لگی ہیں۔ لوگوں کو اپنے متعلق بتاؤ۔ امام حسن علیہ السلام نے عرض کی کہ جب آپ میرے سامنے ہوتے ہیں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔آپ نے فرمایا کہ میں ایک طرف چلاجاتا ہوں۔ اعلان کرکے لوگوں کو جمع کیا گیا۔ امام علیہ السلام منبر پر گئے اور ایک چھوٹا سامگر فصیح اور بلیغ خطبہ دیا۔ یہاں تک کہ لوگ رونے لگے۔ تب امام نے فرمایا :اے لوگو! خداکے ا س قول میں غوروفکر کرو جس میں فرمایا ہے کہ خدا نے آدم، نوح اور خاندانِ ابراہیم علیہ السلام اور خاندانِ عمران کو ان تمام کائنات والوں میں سے چن لیا ہے کہ بعض ان میں سے دوسرے کی اولاد ہیں، اور خداسننے والا اور جاننے والا ہے۔ پس ہم آدم کی اولاد ، نوح کے خاندان سے، ابراہیم کی چنی ہوئی اولاد سے، نسلِ اسماعیل اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل سے ہیں۔پس ہم تمہارے درمیان بلند آسمان ، بچھی ہوئی زمین، چمکتا ہوا سورج اور زیتون کے درخت کی مثل ہیں کہ جو مشرق کی طرف مائل تھا اور نہ ہی مغرب کی طرف اور اس کے زیتون کو برکت دی گئی ہے۔
پیغمبر اس درخت کی جڑ اور علی اس کا تنا ہیں، اور خدا کی قسم! ہم اس درخت کا پھل ہیں۔ پس جو بھی اس درخت کی شاخ کو پکڑے، وہ نجات پاجائیگا، اور جو بھی اس سے پیچھے رہ گیا، وہ آگ میں گر جائے گا۔۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام مجمع کے آخر سے اٹھے ، اس حال میں کہ ان کی چادر نیچے سے پیچھے لگ رہی تھی۔یہاں تک کہ منبر پر امام حسن علیہ السلام کے پاس آگئے ۔ ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا:اے پیغمبر کے بیٹے! تو نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کو ثابت کردیا ہے اور اپنی اطاعت کو واجب کردیا ہے۔ پس ہلاکت ہے اس کیلئے جو تیری مخالفت کرے۔(عددالقویہ، ص۳۸)۔
15۔ والد بزرگوار کی شہادت کے بعد فضیلت اہل بیت کے متعلق آنحضرت کا خطبہ
روایت ہے کہ جب امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو امام حسن علیہ السلام منبر پر گئے اور کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن گریہ ان پر تاری ہوگیا۔ تھوڑی دیر کیلئے بیٹھے اور پھر اٹھے،پھر فرمایا:تمام تعریفیں اس خداوحدہ لاشریک کیلئے ہیں جو اپنی ابتداء میں ایک تھا اور ازل سے خدائی کے ساتھ عظمت والا ہے۔ وہ بلندی اور طاقت کے ساتھ افضل ہے۔ شروع کیا اس کو جس کو اس نے ایجاد کیا اور ظاہر کیا جس کو اس نے پیدا کیا، اس حال میں کہ اس سے پہلے اس کی مثال موجود نہ تھی۔
مہربان خدا نے اپنے خدائی لطف کے ساتھ اور اپنے کثیر علم کے ذریعے موجودات کوظاہر کیا اور اپنی قدرت کے احکام کے ذریعے مخلوقات کو پیدا کیا۔ پس اسی وجہ سے کسی کو حق نہیں ہے کہ اس کی خلقت میں تبدیلی کرسکے، اور اس کی بنائی ہوئی چیزوں میں ردوبدل کرسکے، اور کوئی اس کے سامنے مواخذہ کا حق نہیں رکھتا۔اس کے حکم کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے، اور اس کے بلائے ہوئے کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ تمام موجودات کو پیدا کیا جبکہ اس کی حکومت کو زوال نہ تھا، اور اس کی مدت ختم ہونے والی نہ تھی۔ ہرچیز کے اوپر ہے اور ہرچیز کے قریب ہے۔ ہرچیز کیلئے دیکھے بغیر ظاہر ہے اور وہ بلند و بالا مقام میں اپنے نور کے ساتھ پوشیدہ ہے اور اپنی بلندی میں اونچا ہے۔اسی وجہ سے اپنی مخلوق سے خفیہ ہے۔ اسی لئے ان کی طرف گواہی دینے والے کو بھیجا اور پیغمبروں کو بھیجا اور خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے ہیں تاکہ جو ہلاک ہو اور جو ہدایت پائے، وہ دلیل اور حجت کے ساتھ ہوتاکہ لوگ ایسے خدا کے متعلق ، جس چیز میں جاہل ہیں، اس کو جان لیں، اور انکار کے بعد ان کو پہچان لیں۔ تمام تعریفیں فقط اس خدا کیلئے ہیں جس نے خلافت کو ہمارے لئے اچھا جانااور ہم اپنے بہترین باپ پیغمبر خدا کی مصیبت کو حساب میں لاتے ہیں، اور بیان کرتے ہیں اور امیرالموٴمنین علیہ السلام کی مصیبت کو خدا کے نزدیک بیان کرتے ہیں۔ مشرق و مغرب ان کی شہادت کی مصیبت میں گرفتار ہے۔
خدا کی قسم! چار سو درہم کے علاوہ جس کے ذریعے وہ اپنے اہلِ خانہ کیلئے ایک کنیز خریدنا چاہتے تھے، کوئی درہم و دینار پیچھے چھوڑ کر نہیں گئے۔
میرے دوست اور میرے نانا نے مجھے خبر دی تھی کہ خلافت اس کے خاندان کے افضل ترین بارہ اماموں کو ملے گے۔ ہم تمام کے تمام یا تو قتل کئے جائیں گے یا زہر دی جائے گی۔
ا س کے بعد آنحضرت منبر سے نیچے آئے اور ابن ملجم کو بلوایا۔لوگ اسے حضرت کے پاس لائے۔ اس نے کہا :اے رسولِ خدا کے بیٹے! مجھے چھوڑ دو۔ تمہارے کام آؤں گا اور تمہارے دشمن کے بارے میں تمہاری شام میں مدد کروں گا۔امام علیہ السلام نے اس پر تلوار ماری ۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے کرلیا۔ اس کی انگلیاں کٹ گئیں۔ دوسری ضرب اس پر ماری اور اسے قتل کردیا۔خدا کی لعنت ہو اس ملعون پر۔(کفایت الاثر، ص۱۶۰)۔
16۔ اپنی اولاد اور اپنے والد بزرگوار کی شان میں آنحضرت کا خطبہ
روایت ہے کہ آنحضرت اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے درمیان آئے اور اپنے والد گرامی کو یاد کیا اور فرمایا: وہ خدا کے اوصیاء میں سے آخری وصی اور آخری پیغمبر خدا کے وصی اور نیک لوگوں، شہداء اور سچے لوگوں کے امیر تھے، پھر فرمایا:
اے لوگو! کل رات تم میں سے وہ شخص گیا ہے جس سے نہ تو پہلے والوں نے سبقت لی ہے اور نہ ہی بعد والے اسے پاسکے۔ پیغمبر ہمیشہ پرچمِ جہاد اس کو دیا کرتے تھے۔جبرائیل اس کے دائیں طرف اور میکائیل اس کے بائیں طرف جنگ کیا کرتے تھے، اور کامیابی کے علاوہ واپس نہیں لوٹتے تھے، اور خدا اس کے ہاتھ پر مسلمانوں کو کامیابی عطا فرماتا تھا۔اس نے شہادت کے وقت سونے اور چاندی میں سے کوئی چیز پیچھے نہیں چھوڑی۔ سوائے اس چیز کے جو اس کے بچوں میں سے ایک کے پاس تھی اور بیت المال میں کوئی چیز نہ چھوڑی، سوائے سات سو درہم کے۔ ان کے عطیات میں سے جس کے ذریعے وہ اپنی بیٹی اُمِ کلثوم کیلئے کنیز خریدنا چاہتے تھے۔ اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے، وہ تو جانتا ہے ،جو نہیں جانتا، وہ جان لے کہ میں علی علیہ السلام کا بیٹا
حسن ہوں۔
پھر اس آیت کو پڑھا جو حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کی حکایت ہے۔ اپنے آباء و اجداد ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی ہے۔ میں بشارت دینے والے، میں ڈرانے والے اور خدا کی طرف بلانے والے کا بیٹا ہوں ۔ میں اس کا بیٹا ہوں جو روشن چراغ ہے اور اس کا بیٹا ہوں جس کو خدا نے سب جہانوں کیلئے رحمت بنا کربھیجا ہے۔ میں اس اہل بیت سے ہوں جس کو خدا نے رجس سے دور رکھا ہے،اور پاک و پاکیزہ کردیا۔ میں اس خاندان سے ہوں کہ جبرائیل جن کے گھر نازل ہوتا تھا، اور ان کے گھر سے آسمان کی طرف جاتا تھا۔ میں اس خاندان سے ہوں کہ جس کی دوستی اور ولایت کو خدا نے واجب کیا ہے، اور جو پیغمبرپر نازل کیا ہے۔ اس میں فرمایا ہے(ان سے کہہ دو کہ میں رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریبیوں سے محبت کے۔ اور جوکوئی بھی نیک کام انجام دے تو ہم اس کا بدلہ زیادہ کرکے دیں گے)۔ اور نیکی کرنا ہم اہل بیت کی دوستی ہے۔
ایک روایت میں اس طرح آیا ہے:
اے لوگو! اس رات قرآن نازل ہوا ہے اور اس رات عیسیٰ بن مریم آسمان پر گئے۔ اس رات یوشع بن نون شہید ہوئے ، اور اس رات میرے والد امیرالموٴمنین علیہ السلام نے رحلت فرمائی۔ خدا کی قسم! خدا کے وصیّوں میں سے کوئی بھی ان سے پہلے جنت میں نہ جائے گا، اور ان کے بعد کوئی بھی ان جیسا نہ ہوگا۔
اگر پیغمبران کو کسی جنگ کیلئے بھیجتے تھے تو جبرائیل ان کے دائیں اور میکائیل ان کے بائیں طرف جنگ کرتے تھے، اور سونے اور چاندی کے سکوں میں سے کوئی پیچھے نہیں چھوڑا، سوائے ان سات سو درہم کے جوان کے حصے کے باقی تھے۔ ان کو جمع کیا تھا تاکہ اپنے اہلِ خانہ کیلئے خدمت گار خریدیں۔(امالی، شیخ طوسی، ص۱۶۲)۔
17۔ آنحضرت کا خطبہ جب آپ کے والد گرامی نے وفات پائی
اے لوگو! اللہ سے ڈرو۔ ہم تمہارے امیر اور ولی ہیں، اور ہم وہ اہل بیت ہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے (خدا چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے رجس کو دور دکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ کردے)۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص۲۲)
18۔ آنحضرت کا خطبہ جب آپ کے والد گرامی نے وفات پائی
اے لوگو! دنیا مصیبت اور آزمائش کا گھر ہے، اور جو کچھ بھی اس میں ہے،زائل اور ختم ہونے والا ہے۔ پھر فرمایا:
اور میں تمہارے ساتھ بیعت کرتا ہوں کہ میں جس کے ساتھ جنگ کروں، تم اس کے ساتھ جنگ کرو، اور میں جس کے ساتھ صلح کروں، تم اس کے ساتھ صلح کرو۔
لوگوں نے کہا: ہم نے سنا اور ہم اطاعت کرتے ہیں۔ اے امیرالموٴمنین ! اپنا حکم صادر فرمائیں۔(مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب، ج۳، ص۱۹۳)۔
19۔ آنحضرت کا خطبہ ان کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد
ہم خدا کا گروہ ہیں جو غالب ہونے والے ہیں۔ ہم پیغمبر اسلام کے قریبی اور ان کا خاندان ہیں۔ ہم رسولِ خدا کے اہل بیت ہیں، اور ان دووزنی چیزوں میں سے ایک جس کو اپنے بعد چھوڑ گئے، ہم کتابِ خدا کے بعد رسولِ خدا کی نشانی ہیں، کہ جس میں ہر چیز کا بیان ہے، اور باطل نہ آگے سے اورنہ پشت سے اس میں داخل ہوا۔
پس قرآن کی تفسیر ہمارے اختیار میں ہے ، ہم قرآن کے مفاہیم و مطالب کے بیان کرنے میں کبھی غلطی نہیں کرتے بلکہ قرآن کے حقائق کو ہم واضح کرتے ہیں۔ پس ہماری اطاعت کرو کیونکہ ہماری اطاعت واجب ہے کیونکہ ہماری اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
اور خدا فرماتا ہےاے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول اور صاحبانِ امر جو تم سے ہیں، ان کی اطاعت کرو۔ اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے خدا اور اس کے رسول کی طرف پلٹا دو) اور(اگر پیغمبر اور تم میں سے صاحبانِ امر کی طرف رجوع کریں تو جو قرآن کی حقیقتوں کا قرآن سے استنباط اور استفادہ کرتے ہیں، وہ انہیں بتادیں گے)۔
تمہیں میں شیطان کی آواز سننے سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ تمہارا واضح دشمن ہے، اور شیطان کے دوست نہ بنو کیونکہ خدا ان کے متعلق فرماتا ہےشیطان نے ان کے عمل کو ان کیلئے زینت بنادیا ہے)اور وہ انہیں کہتا ہے:آج تم پر کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا اور میں تمہیں پناہ دوں گا۔ مگر جب دوگروہ آپس میں آمنے سامنے ہوئے تو شیطان پشت کرکے بھاگ نکلا اور کہا کہ میں تم سے بیزار ہوں اور میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ۔
اب تم اپنی پشتوں کو نیزوں سے سجاؤ گے، اور اپنے بدنوں کو تلواروں اور تیروں کے سامنے کروگے، اور بنیادوں کو توڑوگے۔ پس جو پہلے ایمان نہیں لایا، اب ایمان اسے کوئی فائدہ نہ دے گا اور اس کے کردار سے اچھائی نہ دیکھو گے، اور خدا سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔(امالی، شیخ طوسی، ص۱۲۱)۔
20۔ آنحضرت کا خطبہ اپنے اصحاب کو جنگ کی ترغیب دلانے کے متعلق
روایت ہوئی ہے کہ جب معاویہ عراق کی طرف آیا اور پل منبج کے پاس پہنچا تو امام نے اعلان کروایا ، اور سب کو اکٹھا ہونے کو کہا۔ جب لوگ جمع ہوگئے تو امام منبر پر تشریف لے گئے اور خد اکی حمدوثناء کے بعد فرمایا:
اما بعد! خدا نے جہاد لوگوں پر فرض کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس سے ناخوش ہوں اور مومن مجاہدین سے فرمایاصبر کرو، خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)۔اے لوگو! اپنے ارمان اور اپنی خواہشوں کو نہیں پاسکتے مگر یہ کہ ناخوش کرنے والی چیزوں پر صبر کرو۔
مجھے اطلاع ملی ہے کہ معاویہ کو معلوم ہوگیا ہے کہ ہم اس کی طرف چل پڑے ہیں۔ وہ بھی ہماری طرف آیا ہے۔ خدا تمہیں معاف فرمائے۔ تمام کے تمام فوجی چھاؤنی نخیلہ کی طرف چل پڑوتاکہ سوچیں کہ کیا کیا جائے۔
راوی کہتا ہے کہ امام علیہ السلام یہ کلمات فرمارہے تھے اور ساتھ لوگوں سے دھوکہ کی بھی فکر تھی کیونکہ انہوں نے جہاد سے سستی کی تھی۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص۳۸)۔
21۔ آنحضرت کا خطبہ اپنے اصحاب کی مذمت میں
خدا کی قسم!ہم نے کبھی بھی شام والوں کے ساتھ جنگ کرنے میں پشیمانی یا شک نہیں کیا۔ اب ہم اپنے دشمن کے ساتھ صبر اور سلامتی کے ساتھ جنگ کریں گے۔ پس سلامتی دشمنی کیساتھ اور صبر مصیبت کے ساتھ مل گئے ہیں، اور جب تم (جنگ ِ صفین میں) ہمارے ساتھ تھے تو اس وقت تمہارا دین تمہاری دنیا کے آگے آگے تھا۔لیکن اب تمہاری دنیا تمہارے دین کو پیچھے چھوڑے جارہی ہے۔ اس وقت تم ہماے اور ہم تمہارے تھے لیکن اب ہمارے دشمن بن گئے ہو۔
قتل ہونے والے دو گروہوں کے برابر کھڑے ہو۔ ایک صفین میں قتل ہونے والے کہ جن پر گریہ کرتے تھے اور ایک نہروان میں قتل ہونے والے کہ جن کے انتقام کیلئے طالب ہو۔گریہ کرنے والا ذلیل اور انتقام لینے والا انتقام کا طالب ہے۔
معاویہ ہمیں اس کام کی طرف بلا رہا ہے جس میں عزت نہیں ہے۔ اب اگر تم موت کیلئے تیار ہو تو اس پر حملہ کردیتے ہیں، اور تلوار کی ضربوں کے ساتھ اس پر حکم چلاتے ہیں، اور اگر زندگی چاہتے ہو تو اس کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیں، اور اس کی درخواست پر راضی ہوجاتے ہیں۔
ابھی امام کی گفتگو ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہرطرف سے آوازیں آنے لگیں کہ ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں، ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں۔(i۔ اعلام الدین، دیلمی۔ii۔بحار، ج۴۴، ص۵۰)۔
|