صحیفہ امام حسن علیہ السلام
  امام حسن کے خطبات
1۔ لوگوں کو جنگِ جمل کی ترغیب دلانے کے متعلق آنحضرت کا خطبہ
تعریف صرف اُس خدا کیلئے ہے جو قہر و غضب والا ہے۔ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، ہمیشہ مسلط رہنے والا ہے۔ بڑا اور بلند ہے۔ اس کیلئے برابر ہے کہ آرام سے بات کرویا بلند آواز سے۔ وہ جو رات کی تاریکی میں پوشیدہ ہے، اور دن کے اجالے میں چلتا ہے، اس کی تعریف کرتاہوں۔اچھے امتحان پر، اور یکے بعد دیگرے نعمتوں پر، اور اس پر جسے میں سختی اور آرام میں سے اچھا جانتا ہوں یا برا، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ خدا نے اس کی نبوت کے ذریعے ہم پر احسان کیا ہے، اور اسے اپنی پیغمبری کے ساتھ خاص فرمایا اور اپنی وحی کو اس پر نازل فرمایا، اور اس کو تمام چیزوں پر افضل بنایا۔ اس کو جنوں اور انسانوں کی طرف اس وقت بھیجا جب بتوں کی پوجا ہورہی تھی اور شیطان خدا کی اطاعت سے انکار کر چکے تھے۔ خدا کا درود ان پر اور ان کی آل پر ہو، اور انبیاء کی جزاء سے بہترین جزاء ان کو عطا فرمائے۔
اما بعد! میں اس کے علاوہ جو تم لوگ جانتے ہو، کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ مجھے امیرالموٴمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام ، جن کی خدا نے ہدایت اور مدد فرمائی ہے،نے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ وہ تمہیں اچھے راستے کی طرف کتاب کے ساتھ عمل اور راہِ خدا میں جہاد کرنے کی طرف بلاتا ہے۔ اگرچہ ابھی تک اسے ناپسند کرتے ہو، لیکن اگر خدانے چاہا تو بعد میں اسے پسند کروگے اور عنقریب تمہارا محبوب ہوگا، اور تم جانتے ہو کہ علی نے اکیلے نماز پڑھی ہے، اور اس دن رسولِ خدا کی تصدیق کی ہے جب وہ ابھی دس سال کے تھے، اور تمام جنگوں میں ان کے ساتھ شریک رہے۔ خدا کی خوشنودی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کی خوبیوں کو حاصل کرنے میں اس کی کوششوں کو تم جانتے ہو، اور ہمیشہ خدا کا رسول اس سے راضی تھا۔ یہاں تک کہ ان کی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں کے ساتھ بند کیا اور اکیلے ان کو غسل دیا، جبکہ فرشتے ان کی مدد کررہے تھے، اور ان کے چچا کا بیٹا فضل پانی لارہا تھا، اور پھر خود ان کو قبر میں داخل کیا، اور پیغمبر خدا نے قرض کو اداکرنے، وعدہ پورا کرنے اور دوسرے معاملات میں جن میں خدا نے ان پر احسان کیاتھا، اس کو وصیت کی ۔ خدا کی قسم! اس وقت تو لوگوں کو نہیں بلایا تھا اپنی طرف بلکہ لوگ خود اس کی طرف ،اس کے اونٹ کی طرف لوٹ آئے تھے۔ جو پانی کے پاس آتے وقت غصے کی حالت میں جلدی آتا ہے۔ انہوں نے اپنی مرضی کے ساتھ اور آزادی کے وقت ان کی بیعت کی تھی۔ اس کے بعد ایک گروہ نے اپنے وعدے کو توڑ دیا جبکہ اس نے کوئی بدعت ایجاد نہ کی تھی، اور خلافِ شرع کوئی کام نہیں کیا تھا بلکہ صرف اس کے ساتھ حسد کی وجہ سے اور اس پر زیادتی کرنے کی خاطر۔
پس اے خدا کے بندو! تم پر واجب و ضروری ہے کہ خدا سے ڈرو اور کوشش اور صبر میں خدا سے مددلو، اور اس طرف جاؤ جدھر امیرالموٴمنین علیہ السلام تمہیں بلا رہے ہوں۔ خدا اس چیز کے ساتھ ہماری اور تمہاری حفاظت فرمائے جس کے ساتھ اپنے اولیاء کی حفاظت کی تھی، اور ہمیں اور تمہیں اپنے تقویٰ کا انعام کرے، اور ہمیں اور تمہیں اپنے دشمنوں کے ساتھ جہاد میں مدد فرمائے۔ اپنے اور تمہارے لئے خدا سے بخشش طلب کرتاہوں۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۴، ص۲۹۸)۔

2 ۔ آنحضرت کا جنگِ جمل کیطرف اہل کوفہ کو ترغیب دینے کیلئے خطبہ
روایت میں ہے کہ امیرالموٴمنین علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور اپنے اصحاب میں سے کچھ دوسرے لوگوں کو خط دے کر کوفہ کی طرف مدد طلب کرنے کیلئے بھیجا۔ جب امام حسن علیہ السلام عمار کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوئے تو لوگ ان کے اردگرد جمع ہوگئے۔امام علیہ السلام ان کے درمیان آئے اور خدا کی حمدو ثناء کے بعد فرمایا:"اے لوگو! ہم آئے ہیں تاکہ تمہیں بلائیں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی سنت کی طرف، اور مسلمانوں کی فقیہ ترین شخصیت کی طرف جس کو تم عادل کہتے ہو اور ان میں سے عادل ترین کی طرف اور افضل ترین ان میں سے جن کو تم افضل کہتے ہو اور جن کی تم بیعت کرتے ہو، ان میں سے باوفا ترین کی طرف۔ وہ شخص جس کو قرآن کا سمجھنا عاجز نہیں کرتا اور سنت سے اس پر کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے، اور اس سے کوئی آگے بڑھ نہیں سکتا۔ اس کی طرف بلائیں جس کو خدا نے دوجہت سے اپنے پیغمبر کے نزدیک کیا ہے! دین کے لحاظ سے ، رشتہ داری کے لحاظ سے۔ وہ ایسا شخص ہے جس کے ذریعے خدا نے اپنے پیغمبر کا خیال رکھا جبکہ لوگ اسے رسوا اور ذلیل کرنے کیلئے تلے ہوئے تھے۔ وہ پیغمبر کے قریب ہوا جب لوگ دور تھے، اور اُس نے اُن کے ساتھ نماز پڑھی جب لوگ مشرک تھے۔ پیغمبر کے ساتھ مل کر جنگ کی جب لوگ بھاگ رہے تھے۔ ان کے ساتھ مل کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جب لوگ مقابلے سے نظر چُرا رہے تھے۔ اس نے پیغمبر کی تصدیق کی جب لوگ اسے جھٹلا رہے تھے۔ اس کی طرف بلانے آئے ہیں جس نے پرچم کو واپس نہیں پلٹایا اور اس سے کسی نے سبقت نہیں لی۔
وہ تمہیں مدد کیلئے بلا رہا ہے، اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہے، اور تم سے چاہتا ہے کہ خدا کی طرف جاؤ تاکہ تم اس کی ان لوگوں کے مقابلے میں مددکرسکو جنہوں نے اس کی بیعت کو توڑدیا، اور ا سکے نیک اصحاب کو قتل کردیا، اور اس کے کارندوں کو ایک طرف کردیا ، اور بیت المال کو لوٹ لیا۔ پس تم اس کی طرف جاؤ ، خدا تمہاری مدد کرے اور تم پر رحمت کرے۔پس نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو، اور خدا کی بارگاہ میں نیک بندوں کی طرح حاضر ہوجاؤ۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۹۲)۔

3۔ آنحضرت کا خطبہ جمل میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلانے کی خاطر
اے لوگو!اپنے امیر کی دعوت کو سنو، اور اپنے بھائیوں کی طرف جاؤ، اور بہت جلد حکومت اس کے ہاتھ میں ہوگی، جس کی طرف تم کوچ کرکے جاؤ گے۔ خدا کی قسم! اگر حکومت دانا اور عقلمند لوگوں کے ہاتھ آجائے تو یہ اس دنیا میں بہتر اور آخرت میں اچھا ہوگا۔ پس ہماری دعوت کو قبول کرو اور ہماری مدد کرو، اس چیز میں جس کے ساتھ ہم اور تم مبتلا ہوئے ہو۔(طبری، ایڈیشن ۲، ص۲۷)۔

4۔ اہل کوفہ کو جنگِ جمل کی طرف ترغیب کی خاطر آنحضرت کا خطبہ
اے لوگو! امیرالموٴمنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں اس راہ کی خاطر بطور ظالم یا بطور مظلوم نکل پڑا ہوں، اور میں خداکو اس شخص کی خاطر یاد کرتا ہوں جو صرف خدا کی خاطر اپنے حق کا قائل ہے، ورنہ وہ چلاجائے۔ اگر میں مظلوم ہوں تومیری مدد کرے۔ اگر میں ظالم ہوں تو میرا حق مجھ سے لے لے۔ خدا کی قسم! طلحہ اور زبیر وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے میری بیعت کی، اور یہی لوگ سب سے پہلے میرے ساتھ دھوکہ کرنے والے ہیں۔ آیا کوئی مال میں نے اٹھا لیا ہے یا کسی حکم کو تبدیل کردیا ہے۔ پس نکلو اور اچھے کام کا حکم اور بُرے کام سے منع کرو۔(طبری، ایڈیشن ۲، ص۳۶)۔

5۔ آنحضرت کا خطبہ اہل کوفہ کو جنگِ جمل کی ترغیب دلانے کیلئے
اے لوگو! امیرالموٴمنین علیہ السلام نے ہر مقام پر پہلے تمہاری مدد کی۔ اب ہم آئے ہیں کہ تمہیں ان کی خاطر بلائیں کیونکہ تم شہروں کے پیشوا اور عربوں کے رئیس ہو۔ تمہیں طلحہ ، زبیر اور عائشہ کے ساتھ مل کر خرو ج اور بیعت کو توڑنے کی اطلاع مل چکی ہے۔ یہ عورتوں کی کمزوری اور عقیدہ کی کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد عورتوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر کوئی بھی اس کی مدد کیلئے نہ آئے تو مہاجرین اور انصار جو اس کی مدد کیلئے آئیں گے، اور خدا پاک انسانوں میں سے جو اس کی مدد کیلئے بھیجے گا، وہ اس کیلئے کافی ہیں۔ خدا کی مددکرو تاکہ وہ تمہاری مدد کرے۔(امالی، شیخ طوسی، ج۲، ص۸۷)۔

6۔ اپنے والد بزرگوار کی مدد کی ترغیب دلانے کی خاطر آنحضرت کا خطبہ
جب حضرت علی علیہ السلام کو اطلاع ملکی کہ ابوموسیٰ اشعری نے لوگوں کو امام کی مدد کرنے سے روکاتو آپ نے امام حسن علیہ السلام ،مالک اشتر اور عمارِیاسر کو ان کی طرف بھیجا۔ جب یہ حضرات مسجد میں داخل ہوئے تو امام حسن علیہ السلام منبر پر گئے اور اس طرح فرمایا:
"اے لوگو! بے شک علی علیہ السلام ہدایت کا دروازہ ہے، جو بھی اس میں داخل ہوا، وہ ہدایت پاگیا، اور جس نے بھی مخالفت کی، وہ ہلاک ہوگیا۔(الجمل شیخ مفید، ص۲۵۳)۔

7۔ اپنے والد گرامی کی مدد کی ترغیب کیلئے آنحضرت کا خطبہ
روایت ہے کہ جب امیرالموٴمنین علیہ السلام مدینہ سے کوفہ کے شہر کے نزدیک پہنچے تو آپ نے امام حسن علیہ السلام کو عماراور ابن عباس کے ساتھ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بھیجا۔ جب یہ حضرات مسجد میں داخل ہوئے تو امام حسن علیہ السلام منبر پر گئے اور خدا کی حمد وثناء کی،اس کے بعد نانا کا نام لیا اور ان پر درود بھیجا، اور اپنے والد کی فضیلت ، اسلام پر ان کی سبقت اور پیغمبر اسلام کے ساتھ ان کی رشتہ داری کو یاد دلایا، اور یہ بھی یاددلایا کہ وہ خلافت کیلئے سب سے زیادہ مستحق اور موزوں ہیں۔ اس کے بعد فرمایا:اے لوگو! طلحہ اور زبیر نے آزادی کے ساتھ اور بغیر کسی مجبوری کے بیعت کی تھی۔ پھر وہ چلے گئے اور بیعت کو توڑ دیا۔ خوشخبری ہے ان لوگوں کیلئے جو بلند پرواز ہوکر ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے ، جو امیرالموٴمنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کر رہے تھے،جہاد کرتے ہیں، ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنا ایسے ہے جیسے پیغمبر اسلام کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے۔(الجمل، شیخ مفید، ص۲۶۴)۔

8۔ آنحضرت کا خطبہ لوگوں کو اپنے والد کی مدد کی طرف ترغیب دلانے کیلئے
جب عبداللہ بن زبیر کی گفتگو(جو اس نے عثمان کے قتل کی نسبت امام کی طرف دینے کے بارے میں کی تھی)حضرت علی علیہ السلام تک پہنچی تو حضرت امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ اے بیٹے! اٹھو اور خطبہ پڑھو۔امام نے خدا کی حمدوثناء کے بعد فرمایا: اے لوگو! عبداللہ بن زبیر کی گفتگو تم تک پہنچ چکی ہے۔ خدا کی قسم! جب عثمان سے تمام رعایاتنگ ہوچکی تھی تو عبداللہ بن زبیر کا باپ بلاوجہ اس کی طرف گناہوں کی نسبت دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ عثمان قتل ہوگیا جبکہ طلحہ عثمان کے زمانے میں اس کے پرچم کو اس کے بیت المال میں رکھے ہوئے تھا۔رہی بات یہ کہ وہ کہتا ہے کہ علی علیہ السلام نے لوگوں کے امورِ زندگی کو بکھیر کے رکھ دیا ہے تو یہ معاملہ اس کے باپ پراس سے بڑھ کر ثابت ہے۔وہ خیال کرتا ہے کہ ہاتھ کے ساتھ بیعت کی ہے، دل کے ساتھ بیعت نہیں کی، حالانکہ اپنی بیعت کا اس نے اقرار کیا ہے اور دوستی کا دعویٰ کیا ہے۔ اپنی بات کیلئے دلیل لائے۔ وہ اس کام پر قدرت نہیں رکھتا۔ رہی بات اس کے تعجب کی کہ اہل کوفہ اہل بصرہ پر غالب آجائیں گے، تو اس میں کون سی تعجب کی بات ہے۔ اہلِ حق اہلِ باطل پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ خدا کی قسم! حساب کا دن وہ ہے جب ہم خدا کے دربار میں ان کو فیصلہ کیلئے لے کر آئیں گے اور خدا حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا، اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(الجمل، شیخ مفید، ص۳۲۸)۔

9۔ آنحضرت کا اہلبےت کی فضیلت میں خطبہ
روایت ہے کہ جب امام علی علیہ السلام جنگ ِجمل سے فارغ ہوئے تو بیمار ہوگئے۔ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ بجالانے کا وقت آگیا۔اس لئے امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن سے فرمایا کہ بیٹے !لوگوں کے ساتھ نمازِ جمعہ بجالاؤ۔ امام حسن علیہ السلام مسجد میں گئے، منبر پر خدا کی حمدوثناء کی اور گواہی دی اور رسولِ خداپر درود بھیجا اور فرمایا: اے لوگو! خدا نے ہمیں اپنے لئے چنا ہے، اور اپنے دین کیلئے ہمارے ساتھ راضی ہوا ہے، اور اپنی تمام مخلوق پر ہمیں برتری بخشی ہے۔ کتاب اور اپنی وحی ہم پر نازل فرمائی ہے۔ خدا کی قسم! کوئی شخص بھی ہمارے حق میں سے کوئی چیز کم نہ کرے گا۔مگر یہ کہ خدا اس کے حق کو اس دنیا میں اور آخرت میں کم کردے گا، اور کوئی حکومت بھی ہم پر حکمرانی نہیں کرے گی مگر یہ کہ آخرکار ہمارے فائدہ میں ہوگی، اور عنقریب تمہیں اس کمی کی خبر ہوجائے گی۔ اس کے بعد نمازِ جمعہ پڑھی۔ ان کی گفتگو ان کے والد بزرگوار کے کانوں تک پہنچی۔ جب نماز سے واپس آئے اور والد کی نگاہ ان پر پڑی تو اپنے اوپر قابو نہ پاسکے۔ آنکھیں آنسوؤں سے پُر ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے سینے سے لگایا اور آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوجائیں اور ایسی اولاد کہ جن میں سے بعض دوسرے سے بعض ہیں۔ خدا سننے اور جاننے والا ہے۔(امالی، شیخ طوسی، ج۳، حدیث ۳۰)۔

10۔ جنگ صفین میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دینے کیلئے آنحضرت کا خطبہ
تعریف صرف اُس خدا کیلئے ہے جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کی اس طرح تعریف کرتا ہوں جیسے وہ تعریف کا حقدار ہے۔ یہ کہ اس نے اپنے حق سے تم پر عظمت حاصل کی ہے، اور اپنی نعمتوں کو تم پر پھیلایا ہے، یہ کہ اس کے ذکر کوشمار نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کاشکر ادا کیا جاسکتا ہے اور نہ کوئی صفت اور نہ کوئی بات اس تک پہنچ سکتی ہے، اور ہم راہِ خدا میں تمہارے لئے غضبناک ہوئے کیونکہ خدا نے ہم پر اس طرح احسان فرمایا جس کا وہ اہل تھا تاکہ اس کی نعمتوں، عطیات اور ہدیوں کا شکر ادا کیا جاسکے۔
ایسی بات کہ جس میں رضاو خوشنودی خدا کی طرف بلند ہوتی ہے، اور جس میں سچائی اور صداقت روشن ہوتی ہے تاکہ ہماری بات کی تصدیق ہوسکے، اور اپنے رب کی طرف سے مزید توفیقات کے حق دار ہوسکیں۔ ایسی بات کہ جو طولانی ہو اورکبھی ختم نہ ہو، ہر ایسا اجتماع جو شیٴِ واحد پر ہو، اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے، اور ان کے وعدے محکم ہوتے ہیں۔ پس معاویہ اور ان کے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے تیار ہوجاؤ۔ جو تمہاری طرف آئے ہیں، رسوائی کی طرف نہ جانا کیونکہ رسوائی دل کی رگوں کو کاٹ دیتی ہے، اور جنگ کی طرف بڑھنا بلندی اور شکست و ذلت سے دوری کا سبب بنتا ہے کیونکہ جس قوم نے بھی ذلت و رسوائی سے دوری اختیار کی تو خدا نے تکالیف اور ناکامیاں ان سے دور کردیں، اور ذلت و رسوائی کو ان سے دور کردیتا ہے، اور ان کو حقیقت اور حق کی طرف رہنمائی فرماتاہے۔ اس کے بعد اس شعر کو پڑھا:
صلح سے تم جو چاہتے ہو حاصل کرسکتے ہو لیکن جنگ کے سانسوں میں سے ایک گھونٹ بھی تیرے لئے کافی ہے۔(صفین، منقری، ص۱۱۴)۔