صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کےاقوال دعائیں اور مناجات
زندگی نامہ جناب زھرا سلام اللہ علیھا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فاطمہ، وہ کوثر ہے جو خدا نے انہیں عطا کی ہے۔
فاطمہ، شجرہ طوبیٰ سے اٹھنے والی وہ خوشبو میں ہیں جسے شب معراج رسالتمآب ہمراہ لائے تھے۔
فاطمہ، شجرہ طوبیٰ کا وہ پھل ہے جسے شب معراج رسالتمآب نے تناول فرمایا۔
فاطمہ، وہ الھیات سے مانوس ہستی ہیں جو اپنی ولادت سے پہلے اپنی والدہ ماجدہسے ہم کلام ہوتی تھی۔
فاطمہ، ذبح عظیم کی مادر گرامی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ام ابیھا بولا جاتا ہے۔
فاطمہ، جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین کی مادر گرامی ہیں۔
فاطمہ، مباھلہ نجران میں مرکزی نقطہ ہیں۔
فاطمہ، باپ، شوہر اور بیٹوں کے درمیان حدیث کسآ میں محور ہیں۔
فاطمہ، بل ھی ام الکلمات المحکۃ فی غیب داتھا فکانت مبھمۃ فی افق المسجد ھی الزھراء للشمس من زھرتہا الضیاء بل ہی نور عالم الانوار ومطلع الشموس ولا قمار
فاطمہ، محراب عبادت میں ملکوت کو منور کرنے والی ہیں۔
فاطمہ، بہشتی اور حوروں سے مانوس مخلوق ہے جس کے بازوں پر تازیانوں کے زخم ہیں۔
فاطمہ، ایسی معصومہ ہیں جس کا غضب و رضا اللہ کا غضب اور رضا ہے۔
فاطمہ، مرضیہ، محدثہ، طاہرہ، بتول اور منصورہ سماوات ہے۔
فاطمہ، امام وقت کی غم گسار ہیں۔ سخت ترین حالات میں بھی حتی کہ حضرت محسن کی شہادت کے وقت بھی حضرت فضہ سے امیر المومنین کے متعلق پوچھا ۔
فاطمہ، اس مہدی، برحق کی والدہ ہیں جو ا ہلبیت اطہار کے انتقام لینے والے ہیں۔
فاطمہ، تسبیح و تہلیل کی صداؤں میں اونٹ پر سوار ہو کر محشر میں نمودار ہوں گی۔
فاطمہ، اپنے حسین کی قمیض لئے اپنے چاہنے والوں کی شفاعت کی خاطر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوں گی۔
امام جواد علیہ السلام نے فرمایااے آزمائشوں سے گزرنے والی خاتون! خداوند تبارک و تعالیٰ نے آپ کی خلقت سے پہلے آپ کو آزمایا، امتحان لیا، اور اس امتحان میں آپ کو صابر پایا، اور ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم آپ کی تصدیق کرنے والے اور آپ سے خصوصی ارادت رکھنے والے لوگ ہیں، اور جو کچھ آپ کے والد گرامی اور ان کے جانشین لائے ہیں اس پرصابر ہیں،پس اگر ہمارا یہ عقیدہ درست ہے تو ان دونوں کی تصدیق کے بدلے ہمیں اپنے ساتھ متصل فرماتا کہ اپنے آپ کو بشارت دے سکیں کہ آپ سے مودت اور دوستی کی وجہ سے پاک ہو گئے ہیں۔
التھذیب ۶:۹جمال الاسبوع ۶۸بحار الانوار ۱۰۰:۱۹۴
مقدمہ مؤلف
اے زھراء عزیز آپ کی عظیم الشان بارگاہ میں ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ اے محبوبہ خدا، اے خاتم الانبیاء کے دل و جان سکون، اے دختر نبوت اور مادر ولایت، اے زوجہ اور شریک حیات علی ، اے عطاء خدا سبحان اور قیمتی ترین کوثر قرآن، اور اے جھان خلقت میں عظیم المرتبہ خاتون اے ہم سب کے دل و جان سے پیاری، اگر اس دن آپ پر ظلم کیا گیا ، اور پیغمبر اسلام(ص) کے پڑے جنازے سے بھی شرم نہیں کی گئی، اور وحی اترنے والے گھر کی حرمت کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا، اور آپ کی زندگی کو انتہائی بے رحمی کے انداز میں بند دروازوں میں محصور کیا گیا، تو اب اپنی نگاہیں اٹھائیں اور دیکھیں کہ کس طرح لوگ آپ کے دکھوں میں سینے پیٹتے ہیں، اگر اس دن آپ نے انہتائی دکھی دل سے فریاد بلند کی تھی، کیسی فریاد تھی گویا آپ کے غم میں ہمارے دل سے اٹھی، اور اے خدا اور اس کے رسول کی محبوبہ، اگر اس دن آپ سے یوں رویہ رکھا گیا تھا، تو معجزہ خداوندی یہ ہوا کہ تمام ان پردہ پوشیوں کے باوجود زمانے کے گہرے بادلوں سے آپ کے چہرے کو نمایاں کیا اور لوگوں کو آپ سے آگاہ کیا، حضرت فاطمہ (س) سے معرفت درحقیقت کتاب رسالت کے ایک باب سے معرفت ہوجانا ہے۔ جس کا مطالعہ معرفت روح اسلام کی راہ میں ایک کوشش ہے اور دنیا کا گرانقدر ذخیرہ ہے کیونکہ وہ وحی خدا کی گود میں پروان چڑھی اور پیغمبر اسلام(ص) نے انہیں ام ابیھا کہہ کر افتخار بخشا۔ وہ اسلام کا ایک حصہ ہیں جو رسول اکرم(ص) کے وجود پاک سے روشن ہوا۔ اور ان کی زندگی ہر مسلمان عورت بلکہ ہردور کے صاحب ایمان انسان کیلئے نمونہ عمل ہے۔ کیونکہ حضرت فاطمہ زھرا آسمان معرفت کا آفتاب اور پرہیزگاری اور خدا پرستی کا روشن باب ہیں، اور یہ روشنی کچھ گھنٹوں اور دنوں سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ اپنی ذمہ داریوں کے آغاز سے آج تک اور پھر رہتی دنیا تک اسلامی تربیت کے ساحل پر گوہر کی ماند چمکتی رہیں گی۔ وہ انسانی صورت میں فرشتہ ہیں جو عالم وجود میں بہترین انداز میں جڑا ہوا ہے، وہ تمام جہانوں کی عورتوں سے عظیم ہیں کہ اس کے نور کی شعائیں قیامت کے دن ہر جگہ پڑیں گیں اور آخر کار یہ وہی فاطمہ ہیں، کہ جن کی ناراضگی سے خداوند تبارک و تعالیٰ بھی ناراض اور رضاعت کے ساتھ راضی ہے، وہ گناہگاروں کی شفاعت کرکے انہیں ہمیشہ کے لئے جنت کا سزا وار بنائیں گی، وہ قیامت میں ہمارے لئے وسیلہ ہیں، یہ ساری باتیں ان کے فضائل و مناقب کی دنیا سے ایک جزکو بھی نمایاں نہیں کرتیں۔
آپ کی ولادت:
کسی بھی شخصیت کا زیادہ تعلق خاندان، والدین اور معاشرے سے ہوتا ہے۔ والدین اپنی گود سے ہی اولاد کی اساس اور بنیاد تشکیل دیتے ہیں اور اس کو اپنے روحانی اور اخلاقی سانچے میں ڈھال کر معاشرے کے حوالے کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام(ص) جیسی عظیم الشان شخصیت جو روحانی برتری، اخلاق حسنہ، بلند ہمتی اور فدا کاری اور شجاعت جیسے اوصاف سے مزین ہے سے ہر مسلمان بلکہ کسی بھی صاحب دانا وبینا سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان کی عظمت و بزرگی کیلئے یہی کافی ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، اے محمد آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ آپ کی مادر گرامی خدیجہ نامی خاتون تھیں، جو سرمایہ دار عورت تھیں اور تجارت کرتی تھیں، بہت سے لوگ خدیجہ کیلئے تجارت کرتے تھے، جبسے انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کو تجارت کی غرض سے منتخب کیا، تو انکی ایمانتداری اور صداقت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، لہذا انہیں شادی کا پیغام بھجوایا، کیونکہ حضرت خدیجہ نے بعض دانشمندوں سے سن رکھا تھا کہ یہ آخرالزمان نبی ہیں۔
وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور اپنی تمام تر دولت بغیر کسی شرائط کے ان کے اختیار میں دے دی، عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) ہر وقت خدیجہ کو خوبیوں کے ساتھ یاد کرتے تھے، تو ایک دن میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ خدیجہ ایک بوڑھی عورت تھی، جبکہ خدا نے اس سے بہتر آپ کو عطا کیں ہیں، تو پیغبر اسلام غضبناک ہوئے اور فرمایا، خدا کی قسم، اس سے بہتر خدا نے مجھے نہیں دیں، خدیجہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب دوسرے انکار کر رہے تھے، اس وقت میری تصدیق کی جب دوسرے مجھے جھٹلا رہے تھے، اور اس وقت اپنی تمام دولت میرے اختیار میں دی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا، اور میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا۔
روایات میں ہے، کہ جب جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوتے تو عرض کرتے کہ بارگاہ ایزدی سے خدیجہ کو سلام پہنچادیں اور انہیں کہیں خداوند تبارک و تعالیٰ نے بہشت میں ان کے لئے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا ہے۔ ایک روز جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ چالیس دن اور چالیس راتیں خدیجہ سے الگ ہو کر عبادت اور تہجد میں مشغول رہیں اور پھر پیغمبر اسلام(ص) خداوند حکیم کے حکم کے مطابق چالیس دن تک خدیجہ کے گھر نہیں گئے، اس عرصے میں پیغمبر اسلام(ص) راتوں کو نماز اور عبادت میں مصروف ہو تے اور دن میں روزے رکھتے۔ جیسے ہی چالیس دن پورے ہوئے فرشتہ آیا اور جنت سے لائی ہوئی غذا پیش کرتے ہوئے عرض کی آج رات اس بہشتی غذا سے تناول فرمانا، رسول خدا نے ان ہی جنتی اور روحانی غذاؤں سے روزہ افطار کیا، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نماز کیلئے اٹھے، جبرئیل آئے اور عرض کی، کہ اے رسول خدا آج رات مستجی نمازوں کو چھوڑ کر حضرت خدیجہ کے گھر جائیں، کیونکہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی صلب سے ایک پاکیزہ اولاد پیدا کرے۔
امام جعفرصادق فرماتے ہیں جب سے خدیجہ نے رسول خدا سے عقد کیا، مکہ کی عورتوں نے آپ سے قطع تعلق کر لیا تھا اور آپ کے گھر آنا جانا بند کردیا تھا، وہ اس وجہ سے غمگین رہتی تھیں، لیکن جیسے ہی حضرت فاطمہ سے حاملہ ہوئیں تو تنہائی کے غم سے نجات پاگئیں اور اپنے شکم میں موجود بچے سے مانوس ہوگئیں اور اس سے باتیں کرتی رہتیں۔ جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) اور حضرت خدیجہ کو خوشخبری سنانے کیلئے آئے اور کہا کہ اے پیغمبر اسلام(ص) خدیجہ کے رحم میں ایک ایسی بیٹی ہے جس سے تیری نسل چلے گی، وہ پیغمبر دین کے پیشواؤں اور اماموں کی ماں ہوگی جو وحی کے منقطع ہوجانے سے تیرے جانشین ہوں گے، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نے پروردگار جہاں کا پیام خدیجہ کو پہنچایا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔
جی ہاں!پروردگار جہاں نے کچھ اس طرح کا ارادہ کر رکھاتھا کہ پاک و پاکیزہ نسل نبوی فقط فاطمہ سے ہی چلے اور یہ پاکیزہ زمین اس شرف و عزت والے درخت کو اپنے دامن میں پروان چڑھائے، نسل پیغمبر ہی اولاد فاطمہ ہیں اور پیغمبر کی ان پر خصوصی توجہ اس کی بہترین دلیل ہے۔
نام
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ کے نو نام ہیں، فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، ذکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا۔
آپ کے نام مختلف مناسبتوں سے رکھے گئے ہیں، اسم اور مسمی کے درمیان مطابقت توجہ طلب ہے اور یہاں پر فقط دو ناموں (فاطمہ، محدثہ) کے متعلق عرض کرنا ہے۔
نام اور شخصیت
اس بات کی تائید بہت سی روایت سے ملتی ہے۔
(الف) لغت میں فطم کے معنی کاٹنے والا، جدا کرنے والا کے ہیں، اور فاطم اور فاطمہ بمعنی کٹا ہوا کے ہیں، امام رضا علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) کیلئے فاطمہ نام دکھنے کی علت یہ ہے کہ وہ اور ان کے شیعہ جہنم کی آگ سے الگ ہیں۔
امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ کے نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے آپ نے علم دودھ کے ذریعہ سے اخذ کیا ہے یعنی وہ علم و دانش کا مرکز ہیں۔
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ آپ کا نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے کہ شر اور برائی آپ کے وجود اقدس سے جدا ہیں۔
(ب) ان کے ناموں سے ایک نام محدثہ ہے، محدث وہ ہوتا ہے جس پر فرشتہ نازل ہو، جس طرح بارہ امام محدث تھے اسی طرح فاطمہ بھی محدثہ ہیں۔
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا محدثہ تھیں البتہ پیغمبر نہ تھیں، اسی وجہ سے انکو محدثہ کہتے ہیں، کیونکہ فرشتے آسمان سے اتر کر آپ سے ہمکلام ہوتے جس طرح مریم بنت عمران سے ہمکلام ہوتے تھے۔
روایات میں واضح طور پر اس موضوع کے متعلق آیا ہے پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد خداوند تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت(ص) کی تسلی اور تشفی کیلئے فرشتوں کو آپ سے مانوس کردیا، حضرت جبرئیل آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آنحضرت(ص) کی زندگی کے بعد ہونے والے واقعات سے خبر دیتے، حضرت امام علی ان کو تحریری طور پر محفوظ کر لیتے، ان آثار کو مصحف فاطمہ کہتے ہیں، جو آئمہ سے ہوتے ہوئے اب امام زمان (عجل) کی خدمت میں ہیں۔
آپ کی تاریخ تولد اور اس کا تعین
فاطمہ زھرا انتہائی عظیم المرتبت والدین سے پیدا ہوئیں، لیکن تاریخ والادت بلکہ سال ولادت بھی صحیح طور پر واضح نہیں ہے۔ مورخین نے فقط آپ کے بارے میں ہی متفق نہیں ہیں بلکہ ھادیان اور آئمہ معصومین کی تاریخوں اور مزید یہ کہ انکی تاریخ تولد بلکہ پیغمبر اسلام(ص) کی تاریخ وفات جیسے اہم ترین موضوع پر بھی متفق نہیں ہیں۔ بہرحال جو کچھ آسمانی ستارے کی تاریخ تولد کے بارے میں کہا گیا ہے، اس میں تین مشہور قول ہیں۔ الف۔ بعشت سے پانچ سال قبل، ب۔ بعشت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔ البتہ تمام راویوں اور علماء و محدثین کی باتوں میں ایک قوی اور قابل توجہ قرینہ پایا جاتا ہے، جو واضح کرتا ہے کہ آنحضرت(ص) کی ولادت بعثت کے بعد میں ہوتی ے اور وہ قرینہ آپ کی ولادت اور معراج النبی کے درمیان ارتباط سے ہے کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا ہے کہ شب معراج مجھے جنت سے سیب دیا گیاجس سے میری بیٹی زہرا کا وجود اقدس اسی سبب سے تشکیل پایا۔ علاوہ ازیں علماء شیعہ معراج کو بعشت سے دو سال بعد سے لیکر ہجرت سے چھ ماہ قبل تک لکھتے ہیں۔
دوسری طرف سے کتاب شریف امالی میں شیخ صدوق علیہ الرحمة سے روایت ہے کہ جناب سیدہ کی ولادت کے موقع پر قریش اور بنی ہاشم کی خواتین سے کوئی بھی حضرت خدیجہ کی مدد کیلئے نہیں آئیں۔ بلکہ کہنے لگیں کہ اے خدیجہ اس وقت ہماری بات نہیں سنی اور ابو طالب کے یتیم بھتیجی سے شادی کرلی۔
مسلمہ بات ہے کہ اگر تاریخ تولد کو بعثت سے پانچ سال بعد قبول کرلیں، تو اس مدت میں تو یقینا پیغمبر مددگار رکھتے تھے بلکہ ایک طبقہ ایسا تھا جو دل و جان سے پیغمبر کا شیدائی تھا اور حضرت خدیجہ غیر مسلموں سے امداد کی نیاز مند ہی نہ تھیں، اور یتیم ابوطالب کے طعنے بھی بے بنیاد تھے۔ دوسری طرف سے چند شیعہ اور سنی روایات جناب فاطمہ کی ولادت کو خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، یہ تعمیر نو والی داستان، اور حجر اسود کے نصب کرنے میں پیغمبر کوقاضی قرار دینے والی باتیں مسلماً بعثت سے پہلے یا اوائل بعثت میں تھیں، کیونکہ بعثت کے پانچویں سال میں قریش پیغمبر سے دشمنی رکھتے تھے، لہذا اس حکم کی قضا پیغمبر کو نہ دیتے۔
شیعہ روایت میں اس طرح ہے کہ سیدہ بعثت سے پانچ یا دو سال بعد پیدا ہوئیں۔ جبکہ اہل سنت کی روایات بعثت سے پانچ سال پہلے والے قول کی تائید کرتی ہیں۔
حقیقی بات یہ ہے کہ بزرگ و عظیم المرتبت شخصیات کی تاریخ ولادت یا شہادت یا رحلت اتنی اہم نہیں ہوتی بلکہ جو چیز ایسے برجستہ اور عظیم المرتبت شخصیات کی زندگیوں سے آئندہ نسلوں کیلئے قابل توجہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ بے نظیر لوگ کون تھے، کیسے زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے دور میں اور آئندہ کیلئے معاشرے میں کیا اثر چھوڑ گئے ہیں۔
حضرت فاطمۃ الزہرا کا بچپن
حضرت فاطمہ علیھا السلام نے اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ علیھا السلام کی گود میں پرورش پائی اورپاکیزہ دودھ جو شرافت، نجابت، بردبادی اور توحید پرستی جیسے صاف شفاف چشمہ اور مرکز سے ملا ہوا تھا سیراب ہوتی رہیں۔ جناب سیدہ کی شیرخوارگی کے ایام اور بچپن صدر اسلام کے انتہائی خطرناک اور بحرانی ایام پر محیط ہیں۔ زندگی کا کچھ حصہ شعب ابی طالب میں گذرا، تقریباً تین سال تک آپ نے سوائے شعب ابی طالب کے کچھ نہیں دیکھا۔
جب آپ اور بنی ہاشم شعب ابی طالب کی تنگ گھاٹی سے نجات پاتے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں، تو زندگی کے مناظر اور آزادی جیسی نعمتیں آپ کیلئے خوش کن تھیں لیکن افسوس کہ خوشی کے ایام دوام پیدا نہ کرسکے، کیونکہ اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ کے سایہ سے محروم ہوجاتی ہیں، جس سے ان کی حساس روح افسردہ ہوجاتی ہے۔ ماں کی شفقت سے محرومی کے بعد پیغمبر اسلام(ص) کی محبت آپ سے بڑھ گی۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا جب تک آپ کو پیار نہیں کرلیتے سوتے نہیں تھے۔ اس قسم کے حادثات اور مسلسل مشکلات ممتاز اور عظیم لوگوں کیلئے فقط روح کی تقویت کا سبب ہوتے ہیں بلکہ ان کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں اور مشکلات کے مقابلے میں پائیداری کا سبب بنتے ہیں۔
جی ہاں حضرت فاطمہ کی زندگی میں موجود بحرانوں اور سختیوں نے نہ فقط ان کی روح کو متاثر کیا بلکہ ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی، اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد دی۔
آپ کے وجود اقدس میں انسانیت، جوانمردی، عفت و بزرگواری جیسے خواص جو کسی خاتون میں ممکن نہیں ہو سکتے تھے موجود تھے، وہ خود فخر و مباہات کرتے ہوئے کہتی کہ میں نے مدرسہ نبوت میں تربیت پائی ہے اور رسالت کی درس گاہ میں کمال پایا ہے۔ اس گھر میں جو فرشتوں کے اترنے کا محل اور وحی کے نزول کی جگہ تھی پرورش پائی، اور اپنے باپ اور شوہر جو مجسمہ انسان کامل تھے ان سے استفادہ کیا۔ حضرت ابو بکر سے گفتگو کے دوران جس انداز میں آیات قرآنی سے استفادہ کیا یہ ایک حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ آپ قرآن کی آیات پر مکمل عبور رکھتیں تھیں، ایسے کیونکر نہ ہو جبکہ رسول خدا کی زبان اقدس سے قرآن سنتی تھیں، اور پیغمبر اور علی کے وجود میں اس کی تجلیاں دیکھتی تھیں اپنی روح کو قرآن کے مفاہیم کے ساتھ منطبق کرتے ہوئے احکام اور اپنے وظائف اس سے استخراج کرتی تھیں کیونکہ آپ بھی اہل بیت کی طرح فصاحت و بلاغت سے بہرہ مند تھیں۔ اپنی گفتار کی قوت سے دلوں پر حکمرانی کرتی تھیں، زورِ بیان سے جانوں کو اپنے اختیار میں لے لیتی تھیں اور بہترین انداز میں بات کرتی تھیں، یہ ساری باتیں ابو بکر سے فدک اور امر خلافت میں بحث کرتے ہوئے واضح کی تھیں۔
جناب فاطمۃ الزہرا کی شادی
جب سے آسمان رسالت سے خورشید رخ "زہرا" نمودار ہوا اور پھر جلالت و عظمت کے افق پر کامل ہوا، تو تمام لوگوں کی فکریں اور نگاہیں آپ کی طرف تھیں۔
اصحاب پیغمبر چونکہ آپ کی اہمیت سے واقف تھے اور جانتے تھے اس لئے دروازہ رسالت پر شادی کے پیغام بھیجے، لیکن پیغمبر ہر بار ٹال جاتے تھے۔کفو کی تشخیص کوئی معمولی کام نہیں بلکہ انسان اس کو سمجھنے سے عاجز ہے فقط وہ ذات جو لوگوں کے ضمیروں سے آگاہ ہے جانتا ہے کہ کون کس کا کفو ہے اور موجودات عالم میں کون کس کے برابر ہے۔ اس حوالے سے حضرت فاطمہ کا انتخاب امیر المومنین کے لئے ایک الٰہی انتخاب ہے، زہرا کیلئے شوہر اور کفو خود ذات احدیث نے چنا، اس آسمانی نکاح کاخطبہ خود پروردگار نے پڑھا، اور اس ازدواج مقدس کے گواہ ذات پیغمبر گرامی اور حضرت جبرئیل اور خود فرشتے ہیں۔
آپ کے مقام و مرتبہ سے جہالت اور ناواقفی کی وجہ سے عمر اور ابوبکر جیسے لوگ رشتے کے پیغام بھیجتے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام(ص) سب کے جواب میں یوں فرماتے کہ فاطمہ کنیز خدا ہے۔ لہذا میں اس میں کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا، تنہا خداوند قدوس جانتا ہے کہ زہرا کیلئے کفو اور ہمسر کون ہے۔ چھٹے امام فرماتے ہیں۔ لو لا ان امیر المومنین تروجھا لھا کاان لہا کفو الی یوم القیامۃ علی وجہ الار ض ادم فمن دونہ
ترجمہ: اگر حضرت علی علیہ السلام حضرت زہرا سے عقد نہ کرتے تو حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آنحضرت(ص)(ص) کے لئے کفو پیدا نہ ہوتا۔
جناب فاطمہ کی ازدواجی زندگی
جس طرح آنحضرت(ص)(ص) کی پوری زندگی نمونہ ہے شوہر کے گھر میں بھی بے نظیر زندگی گزاری۔ بعینہ اسی طرح ان کے شوہر باپ، اور فرزند نمونہ تھے۔
حضرت امام علی اور حضرت زہرا کی باہمی زندگی پیغمبراسلام کے ارشادات کے سائے میں گزری۔ وہ دونوں زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ معمولاً معاشی مشکلات ان کے دامن گیر رہیں۔ حتی کہ خدمت گذار اور نوکر رکھنے کے لئے مالی وسائل نہ تھے۔ جو حضرت امام علی کو مشکل اور سخت کاموں میں مدد دے، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ یہ شفیق اور مہربان میاں بیوی خنک اور چھوٹے بستر پر سردی کی وجہ سے چین سے سو سکے، اگر اوڑھنی کو پاؤں پر ڈالیں تو سر خالی اور اگر سر کو چادر میں کریں تو پاؤں ننگے ہو جاتے، حضرت زہرا طبیعتاً بے نیاز اور پرسکون تھیں۔ انہوں نے اپنے والد گرامی سے سن رکھاتھا کہ حقیقت میں بے نیازی ثروت سے نہیں ہوتی بلکہ بے نیازی انسان کی طبیعت اور نفس کے غنی ہونے میں مضمر ہے۔
اسی طرح اپنے والد گرامی سے سن رکھا تھاکہ خداوند قدوس چاہتا تھا کہ مکہ کے بیابانوں کو سونے سے بھر کر مجھے دے، لیکن میں نے عرض کیا، پروردگار میں پسند کرتا ہوں کہ ایک دن خالی پیٹ رہوں تو دوسرے دن سیر ہو کر کھاؤں، تاکہ جس دن خالی پیٹ رہوں تیری بارگاہ میں تضرع اور عرض نیاز کروں اور جس دن سیر ہوں تیری حمد و ثنا اور نعمتوں پر شکر بجالاؤں۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص) نے ہم سے پوچھا؟ کہ عورتوں کیلئے سب سے اچھی چیز کیاہے؟ کوئی بھی اس کا جواب نہیں جانتا تھا، حضرت علی علیہ السلام فوراً حضرت فاطمہ کے پاس آئے، اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا، آنحضرت(ص)(ص) نے فرمایا کہہ کیوں نہیں دیا عورتوں کے لئے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ نامحرم کو نہ دیکھے اور نامحرم اس کو نہ دیکھ سکیں۔
حضرت امام علی نے واپس آکر پیغمبر اسلام(ص) کے سوال کا جواب عرض کردیا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا کہ اے علی کس نے آپ کو اس کا جواب بتلایا ہے؟ فرمایا حضرت فاطمہ نے، اس وقت پیغمبر نے فرمایا حقیقتاً فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے۔
کچھ ہی عرصے بعد ا س معمولی سے گھر کو انتہائی پیارے اور روح افزا بچوں نے روشن کردیا، لہذا یہ نیک میاں بیوی حسن، حسین اور محسن اور زینب و ام کلثوم جیسی اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں۔
تینوں بیٹوں کے نام پیغمبر اسلام(ص) نے رکھے جبکہ دونوں صابزادیوں کے نام حضرت زہرا نے رکھے۔
سایہ پدری سے محروم ہونا
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ابھی زندگی سے کچھ ہی بہاریں گذاریں تھیں کہ وقوع پذیر ہونے والے واقعہ نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ واقعہ پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت ہے۔
حضرت زہرا پیغمبر اسلام(ص) کی بیماری کے دوران ہمیشہ ان کی خدمت میں رہیں، جیسے ہی دھن مبارک پیغمبر سے یہ فرماتے ہوئے سنا، تمہارے غم و دکھ، تو دکھ بھرے لہجے میں فریاد بلند کی کیسے غم و دکھ؟
پیغمبر اسلام(ص) حضرت فاطمہ کی حالت زار پر پریشان ہوئے، تو اپنی بیٹی کے دل کو آرام پہنچانے کیلئے فرمایا، اے بیٹی آج کے بعد باپ کیلئے پریشان نہ ہونا۔
حضرت فاطمہ زہرا کو یاد آنے لگا کہ باپ نے بڑے رازدارانہ اندا زمیں فرمایا تھا کہ بیٹی تیری موت کا وقت بھی نزدیک ہے، اور اہل بیت علیھم السلام سے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرے گی، اور مزید یاد آیا کہ پیغمبر نے مجھے بشارت دی تھی کہ اے فاطمہ جان کیا اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ سید النساء العالمین ہیں، حضرت زہر اباپ کی وفات کے بعد کبھی ہنسی نہیں، بلکہ اس قدر زیادہ ہوئی کہ تاریخ کے ان زیادہ چھ رونے والے افراد میں شمار ہونے لگیں، اور اس قدر زیادہ روتیں کہ اہل مدینہ تنگ آکر مطالبہ کرتے ہیں کہ یا دن میں روئیں یا رات میں روئیں، آخر کار جناب سیدہ رونے کیلئے جنت البقیع جاتیں، ایک مرتبہ اپنے باپ کے غم میں یوں اشعار پڑھے۔
ماذا علی من شم تربۃ احمد
ان لا یشم مدی الزمان غوالینا
قل للمغیب تحت اطباق الشری
ان کنت تسمع صرختی ندائیٰا
صبت علی مصائب لوانھا
صبت علی الایام صرن لیالیٰا
قد کنت ذات رحمی بظل محمد
لا اخش من ضیم و کان حما لیٰا
فا لیوم اخضع للذلیل واتقی
ضیمی، وادفع ظالمی بردائیٰا
فاذا بکت قمریۃ فی لیلھا
شجنا علی غصنٍ بکیت صباحیٰا
فلا جعلن الحزن بعدک مونسی
ولا جعلن الدمع فیک و شاحیٰا
ترجمہ:۔
کیا پرواہ ہے اس کو جو پیغمبر کی مٹی سے ایسی خوشبو سونگھے
گویا تمام عمر میں ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔
اے خاک کے نیچے اپنے رخ کوچھپانے والے
بولو کیا میرے نالہ فریاد کی آوازیں سن رہے ہو
مجھ پر ایسی مصیبتیں آئیں اگراگریہ مصیبتیں روشن دنوں پرآتیں تووہ اندھیری راتوں میں بدل جاتےمیں جب تک پیغمبر کے سایہ اور ان کی حمائیت و تائید میں تھی کسی دشمن اور کینہ پرور سے نہیں ڈرتی تھی لیکن آج ذلیل لوگوں کے سامنے عاجز ہوں اور ڈر رہی ہوں کہ مجھ پر ظلم کیا جائے جبکہ اکیلی خود دفاع کررہی ہوں
جب پرندے ہنگامہ رات میں اپنے اپنے آشیانوں سے گریہ و نالہ بلند کرتے ہیں، تو میں بھی بار بار آہ و فغاں کرتی ہوں اے پدر جان تیرے غموں کو اپنے لئے مونس قرار دیا ہےاور تیرے سوگ میں غم میرے دامن سے متصل ہو گیاہے۔
فاطمہ زہرا اپنے شفیق اور مہربان والد کی وفات پر بہت زیادہ روتی تھیں، دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی حسرتیں اور آہیں کھلی فضا میں بکھر جاتیں ۔ جب پیغمبر اسلام(ص) کے جنازے کو قبر میں اتار چکے تو کسی ایک صحابی سے یوں کہا، کہ کس طرح تیرا دل پیغمبر اسلام(ص) کو منوں مٹی تلے اتارنے کے لئے راضی ہوا۔ اور ایک دم اس طرح فریاد بلند کی۔
اغیرآفاق السماء و کورت
شمس النھار والظلم العصران
والارض من بعدی النبی
اسفاعلیہ کثیرة الرجفان
ترجمہ:۔
آسمان کے کنارے بکھر سے گئے ہیں، اور سورج دن کو تاریکی میں ڈوب گیا ہے اور دنوں نے اندھیری راتوں کا سماں ڈھال لیا ہے۔ اور زمین ان کی وفات کے بعد ان پر اظہار تاسف کے لئے غمگین تھی اور لرز رہی تھی۔
جناب سیدہ کی شھادت
حضرت فاطمہ علیھا السلام پیغمبر اسلام(ص) کے بعد نوے دن یا پچھتر دن زندہ رہ سکیں۔ اور اس عرصے میں کسی نے ان کو خوش نہیں دیکھا، کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری روز اپنے معمولی سے بستر پر دراز ہوئیں تو کئی گھنٹوں تک سوتی رہیں، اس دوران میں اپنے والد گرامی کو خواب میں فرماتے سنا، اے پیاری بیٹی میری طرف آؤ میں تجھ سے ملنے کا مشتاق ہوں۔ تو میں نے عرض کی کہ میں آپ کے دیدار کیلئے بہت زیادہ مشتاق ہوں، تو پھر پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا تو آج رات میرے پاس ہو گی، حضرت زہرا جب نیند سے بیدار ہوئیں، اور آنکھیں کھولیں تو طبیعت میں تازگی لوٹ آئی، گویا آپ کیلئے بہترین زندگی موت سے کچھ دیر پہلے تھی، وہ اس وجہ سے کہ بہت جلد غموں اور دنیا کے دکھوں سے نجات پا کر اپنے والد گرامی سے ملاقات میں خوشی کا احساس کر رہی تھی، تو دوسری جانب ان کے دل کو آگ لگی تھی کہ انتہائی مہربان اور شفیق شوہر کو چھوڑنے والی ہیں۔ وہ شوہر جو دشمنوں اور قسادتوں سے بھری دنیا میں سوائے خدا کے اور حضرت زہرا کے کوئی ہمدم و غمگسار نہیں رکھتا تھا، ان سنگین حالات میں حضرت زہرا مرضیہ ان کی حامی و ناصر اور دفاع کرنے والی تھیں، آج اگر وہ دنیا سے چلی جائیں تو ان کی جگہ کون لے گا؟ اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد کا مسئلہ ذہن میں تھا، آپ کے ناموں میں ایک نام "حانیہ" ہے کیونکہ آپ اپنے شوہر اور اولاد کے متعلق بہت مہربان اور شفیق ہے اور وہ بہت جلدی اپنے دل کے ٹکڑوں سے علیحدہ ہونے والی ہیں۔ اور اس کی رضاعت کے ساتھ راضی تھیں۔
وہ اب قریب المرگ تھیں لیکن کینہ پرور لوگوں کے کینے، حسد، قسادتوں اور سنگدلیوں سے خصوصاً وہ لوگ جو منافقانہ انداز میں کہ دائرہ ایمان میں داخل ہوئے اور اسلام پر پشت سے خنجر گھونپنے والوں سے دل پارہ پارہ ہو چکا تھا۔
وہ زہرا جو صبر و بردباری کا مجسمہ ہیں آج موت کی آرزو کر رہی ہیں، اور لقاء اللہ کی امید لئے بیٹھی ہیں، انہوں نے اپنے باپ کی رحلت کے بعد ایک بھی خوشی کا لمحہ نہیں دیکھا، بلکہ جب سے پیغمبر اسلام(ص) بستر بیماری پر تھے، آنحضرت(ص) نے دیو سیرت انسان نما چہروں کو دیکھا تھا جن کے خیالات سے خیانت جھلک رہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق وصیتوں کو روندتے ہوئے اسلام کو اپنے صحیح راستے سے منحرف کردیں گے۔ ان کا دل اس بات سے بوجھل تھا کہ مسلمانوں نے اپنی بیٹی اور داماد کی حمایت میں آواز بلند نہیں کی، وہ بستر بیماری پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں جو اپنے وقت کے امام اور شوہر اور بیٹیوں کی حمایت میں آرہی ہے۔ اور وہ ایسی موت کا استقبال کر رہی ہیں جو پیغمبر اسلام(ص) کی فریاد قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی کے مقابل میں مسلمان اپنے ربہر اور مقتداء کو کیسے جواب دتیے ہیں، ہاں وہ وراثت جو پیغمبر اپنے بدن کے ٹکڑے کے لئے چھوڑتے ہیں غصب کر لیتے ہیں، اور اہل بیت کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں اور حضر ت زہرا کو دروازے اور دیوار کے درمیان دبا دیتے ہیں، حتی کہ چھ ماہ کے محسن کی موت کا سبب بنتے ہیں، اس بے کسی کی حالت میں اپنی کنیز حضرت فضہ کو اپنی پناہ گاہ سمجھ کر کہتی ہیں اے فضہ مجھے اٹھاؤ میرا محسن شہید ہو گیا ہے۔
وہ بستر پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں، جو ایسے لوگوں کی طرف سے آرہی تھی جنہوں نے اپنے دونوں کانوں سے پیغمبر کی زبانی سن رکھا تھا جس نے فاطمہ کو اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی اور حضرت زہرا کی ناراضگی گویا خدا کی ناراضگی ہے۔
وہ لوگ جن کی آنکھوں کو دنیا کی چند روزہ زندگی نے پر کر رکھا تھا اور دنیاوی مقام و منصب سے عشق نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھ، گویا اپنے رب کو بھی بھول گئے، وہ لوگ اپنے آپ کو مسلمانوں کے امور کا ناخدا سمجھ بیٹھے ہیں حقیقت میں ابھی تک کفر کی زنجیر ان کی گردونوں میں آویزاں ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین الہی کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا جائے جو کفر و بت کی پرستی کے گرداب میں غوطہ زن رہے ہوں، اور پتھروں اور لکڑی سے بنے بتوں کے سامنے سر بسجود رہے ہوں، اور ان کا اعمال نامہ ہر قسم کی نجاست اور غلط کاریوں سے پر ہو؟
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین خدا کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا جائے جن کی پوری زندگی میں روشنی کا نشان تک نہ ہو؟ پردے کے پیچھے تو عورتیں بھی اپنے آپ کو دانا سمجھتی ہیں، جنگوں میں انتہائی ذلت کے ساتھ فرار کرتے تھے اور اپنے پیغمبر پر انتہائی ناروا کاموں کی وجہ سے الزام لگاتے تھے اور معارف قرآن سے ناواقف تھے گویا قرآن پڑھا ہی نہیں ہے۔
وہ ایسی موت کے استقبال میں ہیں کہ گویا اپنے شوہر نامدار اور اپنی پیاری اولاد سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ جیسے ہی اٹھنے کی سکت ختم ہوتی نظر آئی، تو اپنے بستر بیماری سے اٹھتی ہیں اور گھر کے کام کاج میں مشغول ہوجاتی ہیں، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام گھر میں آتے ہیں اور کام کرنے کی وجہ پوچھتے ہیں۔ بی بی اپنا خواب نقل کردیتی ہیں۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بی بی تمام مدت سے دل میں رکھے ان تمام واقعات سے اپنے شوہر نامدار کو آگاہ کریں اور اپنی وصیتیں کریں۔ حضرت امام علی سب کو کمرے سے باہر بھیج دیتے ہیں اور خود اپنی شفیق رفیقہ حیات کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں۔ اے چچا کے بیٹے پوری زندگی میں مجھ سے جھوٹ اور خیات نہیں دیکھی ہو گی اور مزید یہ کہ اس عرصے میں کسی بھی وقت آپ کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا آپ اس سے کہیں زیادہ دانا، متقی اور عزت دار ہیں کہ میں آپ کو اپنی مخالفت کرنے پر سرزنش کروں۔ آپ سے جدائی میرے لئے بہت سخت اور دشوار ہو گی لیکن کیاکریں کہ موت سے کسی کو گریز نہیں۔ خدا کی قسم آپ کے جانے سے رسول خدا کی مصیبت دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ اس مصیبت میں کوئی مددگار نہیں ہے اور ایسا غم ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا، میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے جنازے میں جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا شریک نہ ہوں۔ ہرگز ایسے لوگوں میں سے کوئی مجھ پر نماز جنازہ نہ پڑھے۔ مجھے آدھی رات میں جب آنکھیں بند ہوجائیں اور لوگ سو جائیں دفن کرنا۔
بعض روایات سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ وقت احتضار میں امیر المومنین گھر میں نہیں تھے۔ فقط حضرت اسماء گھر میں تھیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد امام حسن اور امام حسین علیھما السلام گھر میں آئے۔ اور حضرت اسماء سے کہتے ہیں کہ ہماری ماں پہلے تو اس وقت میں نہیں سوتی تھیں۔ وہ جواب دیتی ہیں اے فرزندان رسول خدا آپ کی ماں سوئی نہیں بلکہ دنیا سے جا چکی ہیں۔
یہ بات سنتے ہی بچوں نے فریاد بلندکی اور ماں کے جنازے پر گر پڑے۔ اور اپنی ماں سے گفتگو کی۔ اتنے میں حضرت اسماء بچوں سے امیر المومنین کو مسجد سے بلانے کے لئے کہتی ہیں۔ حضرت امام علی اپنی وفادار رفیقہ حیات کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں کہ آج کے بعد کس سے دل کی بات کروں گا؟ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کی طرح آج پھر مدینہ کے لوگوں نے رونے اور بینوں کی آوازیں سنیں، لوگ اس انتظار مییں تھے کہ تشیع جنازہ میں شریک ہوکر نماز جنازہ پڑھیں گے۔ لیکن امیر المومنین نے تشیع جنازہ میں تاخیر کردی تاکہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔
جب مدینے والے سو گئے اور خاموشی چھا گئی۔ امام علیہ السلام نے اس نحیف سے بدن کو جو چاند کی طرح کمرخمیدہ تھیں غسل و کفن دیا۔ اور پیغمبر اسلام(ص) کے دیئے ہوئے بہشتی حنوط سے حنوط کیا۔ ان مراحل کے بعد امیر المومنین نے اپنی اولاد کو آواز دی اے حسن، حسین، اے زینب، اے کلثوم، آؤ اور اپنی ماں سے الوداع کر لو کیونکہ جدائی کا وقت آن پہنچا ہے پھر اس کے بعد جنت میں ان سے ملاقات کرو گے۔ بچے گویا اسی انتظار میں تھے جلدی سے آئے اور خود کو ماں کے جنازے پر گرادیا۔ پھر آہستہ آہستہ رونا شروع کیا یہاں تک کہ ماں کے کفن کو آنسوؤں سے تر کردیا۔
بہرحال حضرت زہرا کے لئے قبر تیار کی گئی جس کی جگہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اور ایسے ہی امام زمانہ عجل اللہ کے ظہور تک مخفی رہے گی۔ فضائل و مناقب کے مجموعہ کو دفنانے کے بعد امیر المومنین یوں گویا ہوئے۔ اے زمین اپنی امانت تیرے حوالے کی۔ یہ رسول خدا کی بیٹی ہے۔ اے فاطمہ تجھے اس کے حوالے کرتا ہوں جو مجھ سے زیادہ شائستہ اور حق دار ہے۔ اور جس سے خدا راضی ہوتا ہے۔ میں بھی اسی سے راضی ہوں۔
امیر المومنین اپنی زندگی کے سخت ترین دور سے گذر رہے تھے۔ کیونکہ اپنی زندگی کی شروعات میں ہی قیمتی ترین متاع اپنے ہاتھ سے دے چکے تھے۔ ان دکھ بھرے لمحات میں حضرت امام علی قبر سے مٹی کو ہاتھ میں اس انداز میں مسل رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور کہہ رہے ہیں۔
السلام علیک یا رسول اللّٰہ عنی، السلام علیک عن ابتک وزائرتک ولبائتة فی الثری یقعتک، والمختارہ اللّٰہ لھا سرعة اللحاق بک، قل یا رسول اللّٰہ عن صفیتک صبری، وعفا عن سیدہ نساء العالمین تجلدی……،
بلی و فی کتاب اللّٰہ یی انعم القبول، ان للّٰہ وانا الیہ راجعون، قد استرجعت الودیعۃ واخذت الرھینۃ واختلست الزہراء، فمااقبح الخضراء والغبراء یا رسول اللّٰہ اما حزنی فسرمد، اما یسلی فمسھد وھم لا یبرح من قلبی، اویختار اللّٰہ لی دارک التی انت فیھا مقیم کمد مقیح و ھم مھیح، سرعان مافزق اللّٰہ بیننا، الی اللّٰہ اشکو وستنبئک ابنتک بتضافر امتک علی، وعلی ھضمھا حقھا، فاحفھا السؤال واستخبرھا الحال فکم عن غلیل متعلج بصدرھا لم تجد الی بثہ سبیلاً، وستقول و یحکم اللّٰہ وھو خیر الحاکمین، والسلام علیکما یا رسول اللّٰہ سلام مودع لا ولا قال، فان انصرف فلا عن ملالۃ، وان اقم فلا عن سوء ظن بما وعند اللّٰہ الصابرین، واھا واھا، والصبر ایمن واجمل، ولو لا غلبۃ المستولین علینا لجعلت المقام عند قبرک الزاماً، والتلبت عندہ عکونا ولا عولت اعوال الثکلی علی جلیل الرزیۃ، فبعین اللّٰہ تدفن ابنتک سرا، ویھتضم حقھا قھراً بیمنع ارثھا جھراً، ولم یطل منک العھد، ولم یخلق منک الذکر فالی اللّٰہ یا رسول اللّٰہ المشتکی، وفیک یا رسول اللّٰہ اجمل العزاء فصلوات اللّٰہ علیہا وعلیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
ترجمہ: کلام امیر المومنین علیہ السلام
اے رسول خدا آپ پر سلام، آپ کی بیٹی اور آپ کی زیارت کرنے والی کی طرف سے سلام، جو آپ کی مقدس بارگاہ میں منوں مٹی تلے پر سکون سو رہی ہے۔ وہ جس کو خدا نے آپ سے ملاقات کے لئے سب سے پہلے چن لیا، ہم اس بات پر صابر ہیں کہ آپ کی محبوبہ حضرت زہرا کی آپ سے جدائی کم ہوگئی ہے لیکن سیدہ نساء العالمین کے فراق میں ہماری قوت برداشت ختم ہو رہی ہے۔
جی ہاں تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کئے بغیر چارہ نہیں جب ہی تو کہہ رہے ہیں، ان لللّٰہ وانا الیہ راجعون، پس امانت لوٹالی گئی اور گروی شدہ چیز واپس لے لی گئی اور حضرت زہرا ان دکھوں سے نجات پا گئی۔
اے رسول خدا مجھے نیلا آسمان اور خاکی زمین بہت پست نظر آرہے ہیں میرے دکھ ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور میری راتیں بیداری میں گزریں گی، اور غموں نے میرے دل میں آشیانہ بنا لیا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے وہ گھر منتخب کر لے جس میں آپ مقیم ہیں گہرے دکھوں نے دل خون کردیا، اور ایسے غموں میں مبتلا ہوں جو ابل رہے ہیں، کتنی جلدی خدا نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی اور میں بارگاہ ایزدی میں اس کی شکایت کرتا ہوں۔
عنقریب آپ کی بیٹی آپ کو بتائیں گی کہ آپ کی امت میرے خلاف جمع ہو گئی ہے، اور فدک کے غصب ہونے کے متعلق پوچھنا، اور اپنی بیٹی سے بار بار پوچھنا کہ حالات سے پردہ اٹھائے۔
کیونکہ بعض دکھ ان کے سینے میں آگ کی طرح بھڑک رہے تھے جنہیں دنیا میں کسی سے بیان نہیں کر سکیں لیکن وہ جلد کہیں گی اور خدا فیصلہ کرے گا کیونکہ وہ بہترین قضاوت کرنے والا ہے،
اے رسول خدا آپ دونوں پر سلام، اس الوداع کہنے والے کو سلام جو نہ پریشان ہے اور نہ ناراض ہے، اور اگر یہاں سے چلاجاؤں تو یہ پریشانی کی وجہ سے نہیں، یا یہاں پر رک جاؤں تو اس وجہ سے نہیں کہ خدا کے صبر کرنے والوں سے کئے گئے وعدے سے بدگمان ہوں۔
صبر اور بردبادی مبارک اور سب سے پسندیدہ ہیں، اور اگر دشمنوں کے مخالف آجانے کا خوف نہ ہوتا تو آپ کی قبر کے پاس ہی اپنی قیام گاہ بنا لیتا اور بڑے سکون سے اعتکاف بیٹھنے والوں کی طرح یہی رک جاتا، اور اس ماں کی طرح بین کرتا رہت اجو اپنے جوان بیٹے کی موت پر بین کرتی ہے،
جی ہاں، پیغمبر آپ کی بیٹی خدا کے حضور میں رات کی تاریکی میں دفن کی گئی، جبراً اس کا حق چھینا گیا، واضح طور پر اس کو اپنی وراثت سے محروم کردیا گیا، حالانکہ آپ کے دنیا سے چلے جانے سے زیادہ عرصہ بھی نہ گذرا تھا، اور آپ کا نام بھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا،
پس رسول خدا میری شکایت فقط بارگاہ ایزدی سے ہے اور آپ بہترین دل جوئی کرنے والے ہیں، پس خداوند تبارک و تعالیٰ کا درود و سلام ہو رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ پر اور حضرت فاطمہ پر۔
اس کتاب کے بار ے میں
جہاں ہستی کے بحربے کراں کی وسعتوں میں انسان ایک کمزور اور بھٹکا ہوا قطرہ ہے، روشن راہ کے باوجود بھٹکا ہوا اور حادثات اور ناکامیوں کے مقابل میں کمزور، لیکن فقط زندگی کے بحر بیکراں سے اتصال اور واقع اور حقیقی منبع فیض پر توکل اور تمسک اور فقر و ناتوانی کو توڑنا ہے جس کی وجہ سے انسان اطمینان قلب کے ساتھ پر اعتماد انداز میں بہتر مستقبل کے لئے کوشش کرتا چلا جا رہا ہے، یا قدم بڑھاتا جارہا ہے، جب انسان ہر طرف سے ناکام ہو کر تھک ہارجائے، جب امید کی کرنیں دم توڑ جائیں تو پھر بھی آرزوؤں کی پرواز کسی منزل کی جستجو میں ہے، جب انسان تمام عادی اور مادی ذرائع اور اسباب سے مایوس ہوجائے تو لاشعوری طور پر دست نیاز بارگاہ کی طرف اٹھتا ہے جو تمام قدرتوں کا منبع ہے، ہاں، اگر دعا نہ ہو، اور اگر بشر خدا کو نہ پکارے تو کس طرح حالات پر قابو پا سکتا ہے اور مشکلات اور سختیوں میں اس کے علاوہ کون سی پناہ گاہ رکھتا ہے، جی ہاں، دعا کی شمعیں لوگوں کے ضمیروں کو روشن، اور دل پر چھپائی گھٹاؤں کو برطرف کرتی ہیں اور بدن سے سختیوں کو دور کردیتی ہیں، اور مصائب و آلام کے بوجھ کو کم کرتیں ہیں، انسان جب سختیوں اور مشکلات سے گھرے معاشرے میں قدم رکھتا ہے جبکہ دنیا تو ہمیشہ مصیبتوں کی موجوں کی لپیٹ میں اور بڑے بڑے حادثات کے گرداب میں پھنسی رہتی ہے تو ایسی صور ت میں رحمت الہی کا بحر بیکر ان تقاضا کو پورا کرتا ہے کہ مضبوط پناہ گاہ رکھتا ہو، جب سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور حضرت جبرئیل کے ذریعے سے دعاکے قبول ہونے اور رفع مشکلات پنجتن پاک علیہم السلام کو وسیلہ اور بارگاہ ایزدی میں شفیع قرار دینے کی تعلیم دی گئی تو اس سے بنی آدم کی ذمہ داری واضح ہوجاتی ہے۔
اس کتاب سے دعائیں اور اہل بیت اطہار سے منقول آنحضرت(ص) کے راز ونیاز و خطبے اور احادیث پیش خدمت ہیں، ان منقولات کے مضامین خود بہترین گواہ ہیں کیونکہ ایک تو ان کی سطح علمی بہت بلند ہے اور آنحضرت(ص) کے افکار کی روشنی ہر مطالعہ کرنے والے کو حیران کردیتی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ ان کا علم اور دانائی علم الہی کے بحر بیکراں سے حاصل شدہ ہے، اے زہرا یہ آپ کا صحیفہ ہے، یہ نور کا صحیفہ ہے۔
اے زہرا!اے جہانوں کے خدا کی برگزیدہ، اے رسولوں کے سردار کے بدن کا ٹکڑا، اے امیر المومنین کی رفیقہ حیات، معصومین کی پرورش کرنے والی، اے مظلومہ دوراں، اے ظالموں کے ظلم کے کا نشانہ بننے والی، اے دشمنوں کے ستم اٹھانے والی، اس معمولی سی کاوش کو آپ کی بارگاہ میں پش کرتا ہوں، تاکہ اپنی عنایات میں شامل قرار دے دیں اور ہمارے سلام اور آداب کو قبول فرمائیں، اب خلوص بھرے دل کے ساتھ بارگاہ ایزدی سے امیدوار ہوں اور آپ کے مقدس اور عزت دار وجود مسعود کو شفیع اور واسطہ فیض قرار دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ آپ کی شفاعت کے طلبگار ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں دعائیں اور حاجتیں
(۱) اللہ سبحانہ کی تسبیح و تقدیس میں
پاک ہے وہ ذات جو صاحب عزت اور سر بلند و سرفراز ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو جلالت اور بزرگی کی مالک ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس کی بادشاہی ہمیشہ رہنے والی ہے۔
پاک ہے وہ ہستی جس نے خود کو خوبصورت ترین لباس پہنا رکھا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس نے خود کو نور اور وقار کے ساتھ چھپا رکھا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو چیونٹی کے قدموں کے نشان سخت پتھر پر دیکھتی ہے۔
پاک ہے وہ ذات گرامی جو ہوا میں تیرنے والے پرندوں کو دیکھتی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو اس طرح ہے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں۔
دوسری روایت میں نقل ہے
پاک ہے وہ ذات جس کی حکومت تمام تر افتخارات کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو جلالت و عظمت کی مالک ہے۔
پاک ہے وہ ذت جو خوبصورتی اور زیبائی کی مالک ہے۔
پاک ہے وہ ہستی جس نے خود کو نور اور وقار کے پردے میں چھپا رکھا ہے۔
پاک ہے وہ ذات گرامی جو چیونٹی کے قدوں کے نشان صاف پتھرپر اور ہوا میں محو پرواز پرندوں کو دیکھتی ہے۔
(۲) ہر مہینے کے تیسرے دن میں تسبیح و تقدیس
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی قوت و قدرت کے ساتھ جہاں کو منور کیا۔
پاک ہے وہ ذات جو سات آسمانوں میں مخفی ہے اور اس طرف سے کہ کوئی آنکھ اس کو نہیں دیکھ سکتی۔
پاک ہے وہ ذات جس نے بندوں کو موت کے ساتھ ذلیل کیا اور خود کو زندہ جاوید کی صفت سے عزیز و گرامی بنایا۔
پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ زندہ رہے گی اور بقیہ سب کچھ فنا ہوجائے گا۔
پاک ہے وہ ذات جس نے حمد و ستائش کو اپنے ساتھ مخصوص قرار دیا۔ اور اس پر راضی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو زندہ اور دانا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو بردباد اور بزرگوار ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو حقیقی بادشاہ اور برائیوں سے مبرا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو بزرگ و برتر ہے۔
پاک ہے وہ ذات کہ حمد و ستائش اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔
3۔ اچھے اخلاق اور پسندیدہ کاموں کے حصول میں آنحضرت(ص) کی دعا
پروردگارا!آپ غیب سے بھی واقف ہیں اور تمام موجودات پر قادر و توانا۔ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لئے مفید ہے اور مجھے اس وقت موت دے جب خیرو نیکی کو میری موت میں دیکھے۔
خداوند! خوشی و غمی میں اخلاص اور تجھ سے ڈرتے رہنے اور فقر و ثروت مندی سے میانہ روی کی خواستگاہوں اور تجھ سے ایسی نعمت مانگتی ہوں جو ختم نہ ہو۔ اور تم سے ایسی چیز کی طلبگار ہوں جو مجھے خوش کرے اور ختم نہ ہو۔
اے اللہ میں تیری بارگاہ میں دعا کرتی ہوں کہ اس دنیا میں تیری رضا پر راضی رہنے کی توفیق عنایت فرما اور مرنے کے بعد اجھی زندگی عطا فرما اور ملاقات کے شیدائی کو اپنا دیدار نصیب فرما۔ ایسا دیدار جس میں کسی قسم کا رنج و الم نہ ہو۔
اے پروردگارا!ہمیں ایمان کی زینت سے مزین فرما اور ہمیں ہدایت دینے والا قرار دے اور صحیح ہدایت کرنے والا قرار دے تاکہ تیری ہدایت ہمارے شامل حال ہو۔ اے دونوں جہاں کے پالنے والے۔
4۔ دنیا و آخرت کی حاجات کے متعلق دعا
اے پالنے والے:جو کچھ تو نے دیا ہے اس پر قناعت کرنے کی توفیق عطا فرما اور میرے عیوب کو چھپا، اورمجھے سلامتی عطا فرما، اور میری موت سے پہلے مجھے بخش دے۔ میرے گناہ معاف فرما اور اپنی رحمت میرے شامل حال فرما۔
بارالھا: جو کچھ میرے لئے مقدر کر رکھا ہے اس میں مجھے آزمائش میں نہ ڈال اور جو کچھ میرے مقدر میں ہے اسے میرے لئے آسان کردے۔
پروردگار: والدین اور جو بھی مجھ پر حق رکھتا ہے اس کو بہترین جزا خیرسے نواز۔
بارالھا: جس مقصد کے لئے مجھے پیدا کیا ہے فقط اسی جانب مجھے مشغول رکھ اور وہ امور جن کی کفالت کی ذمہ داری خود تو نے لی ہے ان میں مشغول نہ فرما۔ مجھے عذاب نہ دے میں بخشش کی طلبگار ہوں۔ میں تجھ سے سوال کرتی ہوں مجھے محروم نہ رکھ۔
پروردگار: میرے نفس کو ذلیل و خوار، اپنے مقام و مرتبہ کو میرے نفس میں زیادہ فرما اور مزید یہ کہ اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال جو تیرے پسندیدہ ہیں کرنے کی توفیق عطا فرما اور وہ اعمال جو تیرے لئے ناپسند ہیں ان سے مجھے دور رکھ، اے بہترین رحم کرنے والے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی نماز اور اس کے متعلق دعائیں
5۔ نماز وتر کے بعد آنحضرت(ص) کی
روایت ہے کہ پیغمبر نے اپنے اصحاب کو جہاد کی جانب رغبت دلائی۔ تو حضرت فاطمہ نے جہاد میں شرکت کے لئے پیغمبر سے پوچھا تو پیغمبر نے ارشاد فرمایا کہ تجھے ایک ایسی چیز کی طرف راہنمائی کرتا ہوں جو بظاہر چھوٹی ہے لیکن اس کے انجام دینے میں اجر و ثواب بہت زیادہ ہیں۔ ہر مومن مرد و عورت اگر نماز کے بعد دو سجدے انجام دے اور ہر سجدے میں پانچ مرتبہ درج ذیل دعا پڑھے۔
"سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح"
پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات ہے جو فرشتوں اور روح کا پرورگار ہے۔
تو اللہ سبحانہ سجدہ سے سر اٹھانے سے پہلے ہی اس کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے اور اس کی دعاؤں کوقبول کرتا ہے اور اگر اس رات مر جائے تو وہ شہید قرار پاتا ہے۔
6۔ تعقیبات نماز ظہر
پاک ہے وہ ذات جو صاحب عزت و عظمت ہے جو جلالت و بزرگی پر فائز ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو بہت زیادہ عزتوں کی مالک اور ہمیشہ سربلند اور سرفراز ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس کا ملک تمام تر شان و شوکت کے ساتھ قائم و دائم رہنے والا ہے۔
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس کی نعمتوں کی وجہ سے علم و عمل میں اس کی ذات کی طرف سے توجہ میں اور اور تمام تعریفیں اسی کی ہیں جس نے اپنی کتاب کی کسی چیز کا انکار کرنے والا نہیں بنایا۔ نہ کسی حکم کے بارے میں پریشان رکھا۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے مجھے اپنے دین کی راہنمائی کی اور اس کی توفیق سے اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی۔
بارالھا: میں تجھ سے توبہ قبول ہوجانے والوں کی التجا اور ان کا عمل، نجات پانے والے اور ان کا ثواب، مومنین کی تصدیق اور ان کا توکل جان کنی کے وقت آرام و راحت حساب کے وقت امن و سلامتی کی خواستگار ہوں۔ موت کو میرے لئے بہترین غائب قرار دے کہ میں اس کی منتظر ہوں اور اس چیز کو کہ جس سے میں مطلع ہوجاؤں کو میرے لئے مفید قرار دے۔
اور جب میری موت کا وقت قریب ہو اور اس وقت جب موت مجھے آدبوچے اور میری جان سینے کی ہڈیوں میں پہنچے، اور ااس وقت جب میری جان حلق میں پہنچے اور اس وقت جب میں دنیا سے رخصت ہو رہی ہوں اور اس گھڑی جب مجھے نفع و نقصان سختی اور آسانی کے فراہم کرنے کا اختیار نہ ہو، تو اے بارالھا اس وقت مجھے اپنی رحمت سے نواز اور اپنی عنایات سے بہرہ مند فرما اور اپنی کرامت و بزرگواری کی بشارت عطا فرما۔
اور میری موت سے پہلے اور میری روح قبض کرنے سے قبل اور جب ملک الموت کو میری جان لینے کیلئے مسلط کرے تو مجھے اپنی کرامت کی بشارت سے نواز، اپنی بشارت جو فقط تیری جانب سے ہو جو میرے قلب کو اطمینان بخش دے اور میری جان کو شادمان کردے اور میری آنکھوں کو نورانی کردے اور میرے چہرے کو مسرور بنا دے اور میرے رخساروں کو تازگی عطا کرے جو میرے قلب و جان کیلئے آرام بخش ہو بلکہ ایسی بشارت جو میرے بدن کے تمام اعضاء کو آرام اور آسودگی عطا کرے۔
تاکہ تیری مخلوقات میں سے جو بھی مجھے دیکھے اور تیرے بندوں میں سے جو بھی میری باتیں سنے ان پر رشک طاری ہو جائے، مجھ پر موت کی سختیوں کو آسان فرما اور اسکی تکالیف کو مجھ سے دور رکھ اور اس کی شدت سے محفوظ رکھ اور اس کی بیماری کو مجھ سے برطرف فرما اور اس کے ہم و غم کو مجھ سے دور رکھ اور مجھے اس کے فتنوں اور غموں سے محفوظ فرما اور مجھے اس کے شر اور جو وہاں موجود ہوں ان کے شر سے پناہ دے، اس کی نیکی اور ان کی اچھائیاں جو اس زمانے میں موجود ہیں اور وہ اچھائیاں جو بعد میں واقع ہوں ان سے بہرہ مند فرما۔
بارالھا: جب مجھے موت آجائے اور میری روح میرے بدن سے پرواز کرجائے تو میری روح کو پاکیزہ ارواح قرار دینا اور میری جان کو صالحین کے ساتھ اور میرے جسم کو پاک بدنوں کے ساتھ اور میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دینا۔
پھر مجھے قبر کی جگہ عطا فرما۔ جو میرے بدن کوچھپائے اور وہ جگہ جہاں میرے گوشت کو ریزہ ریزہ کیا جائے اور میری ہڈیوں کو دفن کیا جائے اور جہاں میں تنہا اور بے سہارہ چھوڑ دی جاؤں جہاں میں کسی قسم کی قدرت نہ رکھتی ہوں۔
بارالھا: شہر والوں نے مجھے تنہا کردیا ہے اور لوگوں نے مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے، ایسی صورت میں اپنے صالح اعمال اور تیری رحمت کی محتاج ہوں اور جس چیزکو اپنے لئے تیار کیا اور دنیا کی زندگی میں جو کچھ انجام دیاہے اور اپنی آخرت کے سفر کیلئے بھیج چکی ہوں آج اس کا ھفہ پا رہی ہوں تو اب، اپنی رحمت اور نورانیت سے روشنی عطا فرما اور مزید یہ کہ اپنی کرامت سے دنیا اور آخرت کی زندگی میں سچائی کے عوض ثابت قدم فرما، تحقیق تو ظالموں کو گمراہ کرتاہے اور ہر چیز کے کرنے پر قادر ہے۔
بارالھا: قیامت میں اور حساب و کتاب کے وقت اور جب میری قبر کو دولخت کیا جائے اور لوگ مجھ سے دور بھاگیں اور جب حکم آسمانی مجھے اپنی گرفت میں لے لے اور جب صور اسرافیل مجھے وحشت زدہ کردے اور جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کریں اور حساب کیلئے آمادہ کریں تو مجھے متبرک قرار دینا۔
پس اے پالنے والے اپنی رحمت سے میرے ساتھ ایک نور پیدا کر، جو میرے آگے اور دائیں (حرکت کرے) چلے، مجھے امن و سلامتی عطا کرے اور میرے قلب کے لئے اطمینان کا باعث ہو اور عاجزی کو ظاہر کرے، جو میرے چہرے کو روشنی عطا کرے اور میری باتوں کی تصدیق کرے اور میری دلیلوں کو درجہ اثبات تک پہنچائے اورمجھے تیری رحمت کے آخری مرتبہ پر فائز کردے اور بہترین درجہ بہشت تک پہنچا دے۔
بارالھا: جنت کے اعلیٰ ترین رتبوں میں سے اپنے بندے اور سول کی ہم نشینی عطا فرما اور مزید یہ کہ بافضیلت ترین، نیک ترین اور قیمتی ترین درجہ جنت ایسے لوگوں کی ہمراہ عطا کر جن پر تیرا انعام ہے جیسے انبیاء، صدیقین، شھداء اور صالحین۔ یہ بہترین دوست ہیں، پروردگار حضرت محمد خاتم النبیین اور تمام انبیاء اور مرسلین پر تمام ملائکہ پر ہو، اور محمد اور ان کی اولاد اطہار پر اور تمام آئمہ ھدیٰ پر درود و سلام بھیج۔ اے جہانوں کے مالک اور پروردگار ہماری التجاؤں کو قبول فرما۔
پرورگارا: محمد پر درود بھیج جس طرح سے ان کے وسیلے سے ہدایت فرمائی ہے اور اس پر درود بھیج جس طرح ہمیں اس کے وسیلے سے اپنی رحمت سے نوازا، اس پر درود بھیج جس طرح ہمیں اس کے وسیلے سے عزت دار بنایا اور اس پر درود بھیج جس طرح ہمیں اس کے وسیلے سے بافضیلت بنایا اور اس پر درود بھیج جس طرح ہمیں اس کے وسیلے سے باشرف بنایا اور اس پر درود بھیج جس طرح اس کے وسیلے سے ہماری نصرت فرمائی اور اس پر درود بھیج جس طرح ہمیں اس کے وسیلے سے آگ کے شعلوں سے نجات دی۔
پروردگارا: ان کے چہرے کو نورانیت، ان کے مقام و مرتبہ کو بلند تر ان کی دلیل کو محبت، ان کے نور کو کامل اور ان کے نامہ اعمال کو وزنی ان کی برہان کو برتر، ان کے لئے نعمتوں کی وسعت عطا فرما یہاں تک وہ راضی ہو جائیں ، اور ان کو بہترین مقام بہشت میں پہنچا اور ان کو مقام محمود تک پہنچا جس کا ان سے وعدہ فرمایا ہے اور مقام ومنزلت کے اعتبار سے افضل ترین انبیاء اور رسولوں میں قرار دے۔
اور ہمیں ان کی راہ پر گامزن فرما اور ان کے ہاتھوں سیراب فرما اور ہمیں ان کے حضور میں حوض کوثر اور ان کے گروہ میں محشور فرما، اور ان کے دین پر موت دے اور ہمیں ان کی راہ پر چلنے والا قرار دے اور ان کے فرامین پر چلنے والا بنا، بجائے اس کے کہ ہم احساس کمتری میں مبتلا ہو کر پشیمان ہوجائیں یا شک میں پڑ کر ان سے رستہ جدا کر لیں۔
اور وہ ذات ہے، جس کا دروازہ آواز دینے والوں کے لئے کھلا ہے اور جو شمع امید تھامے ہوئے ہیں ان کے لئے حجاب ہٹا ہوا ہے، اے قبیح اور گھٹیا کاموں پر پردہ ڈالنے والے، مجروح دلوں کا مداوا کرنے والے قیامت کے دن گناہگاروں کے ساتھ رُسوا نہ کرنا اور مجھ سے رخ نہ موڑنا۔
اے بے کس و فقیر کی امید، اے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو پھر سے جوڑنے والے، میرے بڑے گناہ معاف فرما اور میرے گھٹیا اور پست کاموں سے درگذر فرما اور میرے دل سے خطاؤں کی سیاہی کو دھو دے اور موت کے لئے اچھے انداز میں آمادہ ہونے کی توفیق عطا فرما۔
اے بہترین بخشنے والے، اے مانگنے والوں کی آخری پناہ گاہ تو میرا مولا ہے، اے وہ ذات جس نے مجھ پر دعا اور التجا کا دروازہ کھولا، پس مجھ پر اجابت اور قبولیت کی راہ کو بند نہ کرنااور تو مجھے اپنی رحمت کے طفیل آگ سے نجات دے اور بہشت کے گھروں میں جگہ دے اور مجھے مضبوط اور اسی چیز کے ساتھ متمسک فرما اور مجھے سعادت مند بنا اور میرا خاتمہ بالخیر فرما۔
اے عزت و جلال اور فضل و کمال کے مالک مجھے سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور میری حالت زار پر میرے دشمنوں اور حاسدوں کو خوش نہ فرما، بغض و کینہ رکھنے والے بادشاہ اور اپنی درگاہ سے راندہ شدہ شیطان کو مجھ پر مسلط نہ کر، تجھے تیری رحمتوں کا واسطہ اے بہترین رحمت کرنے والے کوئی قوت و قدرت والا نہیں مگر خداوند کی ذات کے سوا جو برتر اور عظیم ہے اور خدا کی جانب سے محمد و آل محمد پر درود و سلام ہو۔
تعقبات نماز عصر
پاک ہے وہ ذات جو دل کی دھڑکنوں سے واقف ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو گناہوں کی تعداد کو جانتی ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور تمام تعریفیں اس ہستی کے لیے سزا وار ہیں جس نے مجھے اپنی نعمتوں کو جھٹلانے والا اور اپنے فضل سے انکار کرنے والا نہیں بنایا۔ پس خیر و برکت اسی کے لئے ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔
تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس کی دلیل اور برہان تمام انسانوں کے لئے ہے خواہ فرماں بردار ہوں یا گناہگار۔ اگر کسی کو اپنی رحمت سے نوازے تو یہ اس کی جود و بخشش ہے اور اگر کسی کو سزا دے تو یہ انسان کے لئے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ستم روا نہیں رکھتا۔
تمام تعریفیں اس ذات کے ساتھ مخصوص ہیں جس کا مکان عالی ترین ہے، جس کی بنیادیں مضبوط ہیں، جس کا مقام و منزلت بلند تر، جس کی دلیل روشن ہے جو عظیم الشان، بخشنے والا‘ مہربان اور انعام کرنے والا، احسان کرنے والا ہے۔
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو ہر مخلوق سے پوشیدہ ہے جو حقیقت ربوبیت اور طاقت وحدانیت سے مشاہدہ کرتا ہے۔ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔ اطلاعات و مشاہدات اس کا احاطہ نہیں کر سکتے کوئی پیمانہ اسے معین نہیں کر سکتا۔ گمان اس کو نہیں پاسکتا کیونکہ وہ طاقتور بادشاہ ہے۔
پروردگارا: تو میرے مکان اور جگہ کو دیکھ رہا ہے اور میرے کلام کو سن رہا ہے اور میرے امور پر مطلع رکھتا ہے۔ میرے دل کی ہر چیز سے آگاہ ہے اور میرا کوئی کام تجھ سے مخفی نہیں ہے۔ میں مجبور ہو کر تیری طرف آئی ہوں ، اپنی حاجات کی تجھ سے طلب گار ہوں اور اپنے تمام مسائل میں تیری طرف عاجزی سے متوجہ ہوں، اور فقر و نیاز مندی اور عزت اور ذلت، تنگدستی و محتاجی میں تجھ سے مدد چاہتی ہوں۔
تو بخشنے والا اور معاف کرنے والا بے نیاز رب ہے، لہذا تو میرے غیر کو عذاب دے گا مگر میرے لئے تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ملتا جبکہ تومجھے عذاب دینے سے بے نیاز ہے اور میں تیری رحمت کی محتاج ہوں،
پس اس وجہ سے کہ میں تیری بارگاہ میں نیاز مند ہوں اور تو مجھ سے بے نیاز، اور تو مجھ پر مکمل طور پر تسلط اور قدرت رکھتا ہے، لہذا میری اس دعا کو ایسی دعا قرار دے جو تیری بارگاہ میں قابل قبول ہو اور میرے لئے ایسی جگہ قرار دے جو تیری رحمت کے اترنے کی جگہ سے متصل ہو، اور میری اس حاجت کو ایسی حاجت قرار دے جو کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہو۔
اور وہ کام جن کے سخت ہونے کے متعلق میں پریشان ہوں ان کوآسان فرما اور وہ کام جن کے انجام دینے سے عاجز ہوں مجھے طاقت و قوت سے نواز اور تیرے بندوں میں سے جو بھی میرے بارے برے ارادے رکھتا ہے اس کو مغلوب کر، اے بہترین رحمت کرنے والے میری دعا کو قبول فرما۔
اور ہر وہ چیز جس کے سخت ہونے کے متعلق پریشان ہوں آسان فرما، اور جن چیزوں کے بارے میں غمگین ہوں اس کی پریشانی مجھ سے دور فرما اور جن کاموں میں تنگدست ہوں وسعت عطا فرما، اے جہانوں کے پروردگار میری دعا قبول فرما۔
اے اللہ: خودپسندی، ریا کاری، تکبر، بغاوت، حسد، کمزروی، شک، سستی، ضرر اور مختلف قسم کی بیماریوں سے جیسے مکر و حیلہ اور دھوکہ، فریب کاری اور دنگا فساد کو میری سماعت و بصارت اور تمام اعضاء و جوارح سے دور رکھ اور ہر وہ چیز جس کو تو دوست رکھتا ہے اور پسند کرتا ہے مجھے اس کی طرف راہنمائی فرما۔ اے بہترین رحم کرنے والے۔
پروردگارا: محمد و آل محمد پر درود بھیج اور میرے گناہ بخش دے، اور میرے عیوب پر پردہ ڈال دے اور میرے خوف کو امن و سلامتی میں بدل دے، میرے گناہوں کو معاف فرما اور میرے فقر کو غنا میں بدل دے اور میری حاجتوں کو پورا فرما، اور میری لغزشوں سے درگذر فرما اور میرے بکھرے ہوئے امور کو یکجا فرمایا اور ہر وہ چیز کہ جس کے میں درپے ہوں مجھے عطا فرما۔ مزید برآں ہر وہ چیز جو مجھ سے مخفی و آشکار ہے اور وہ امور جن میں تیری بارگاہ سے خوف زدہ ہوں کفایت فرمایا ان سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
بارالھا: میں اپنے کاموں کو تم پر چھوڑتی ہوں، اور خود کو تیری پناہگاہ میں دیتی ہوں اور ان گناہوں کے سبب جوانجام دے چکی ہوں کے بارے میں تم سے خوف زدہ اور امیدوار ہوں خود کو تمہارے حوالے کرتی ہوں جبکہ تو ایسا کریم ہے جو امیدوں کو ختم نہیں ہونے دیتا اور دعاؤں کے مستحاب کرنے میں مایوس نہیں کرتا۔
اب رب کریم حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ کلیم اللہ، حضرت عیسیٰ روح اللہ اور اپنے برگزیدہ نبی اور بندے حضرت محمد کے صدقے میں مجھ سے اپنا رخ نہ موڑنا، یہاں تک کہ میری توبہ قبول فرما اور میرے آنسوؤں پر رحم فرما اور مری خطاؤں کو درگذر فرما۔ اے بہترین رحم کرنے والے اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے۔
بارالھا: مجھ پر ظلم کرنے والے سے انتقام لے اور دشمنوں کے مقابل میں میری مدد فرما۔
بارالھا: دین پر عمل پیرا ہونے میں کسی امتحان میں نہ ڈال، اور دنیا کو میرا اہم مقصد قرار نہ دے۔
بارالھا: دین میرا اہم مقصد حیات ہے۔ اس کی اصلاح فرما اور دنیا میں میرا معاش ہے اور اسے درست فرما، میری آخرت کو سنوار کہ جن کی طرف لوٹ کر جاتا ہے۔ میری زندگی میں اضافہ فرما اور میری موت کو ہر برائی سے نجات کا وسیلہ بنا۔
بارالھا: تو بخشنے والا اور بخشش کو دوست رکھتا ہے پس مجھ سے درگذر فرما۔
بارالھا: مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لئے خیرو برکت رکھتی ہے اور مجھے اس وقت موت آئے جب موت میں بہتری ہو، اور ظاہر و باطن اور غضب و رضا میں انصاف کی توفیق دے۔
بارالھا: فقر و بے نیازی میں میانہ روی اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کا سوال کرتی ہوں اور موت کے بعد تیری رضا اور لذت دیدار کا سوال کرتی ہوں۔
بارالھا: اپنے کاموں میں تجھ سے ہدایت کی طلبگار ہوں اور اپنے نفس کے شر سے تجھ سے پناہ مانگتی ہوں۔
بارالھا: خود پر ظلم کرتے ہوئے برے کام انجام دیئے، پس تو مجھے معاف فرما کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔
بارالھا: سلامتی میں تعجیل، آزمائش میں صبر اور دنیا سے تیری رحمت کی طرف گامزن ہونے کا سوال کرتی ہوں۔
بارالھا: تجھے اور تیرے ملائکہ اور حاملان عرش اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے گواہ بناتی ہوں کہ تو ہی خدا ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد تیرا بندہ اور رسول ہے اور تجھ سے ہی سوال کرتی ہوں تو یکتا ہے کیونکہ تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور تو زمین و آسمان پیدا کرنے والا ہے، اے وہ ذات جو ہر چیز سے پہلے موجود تھی اور ہر چیز کو پیدا کیا اور جب کوئی چیز بھی نہیں ہوگی تو تیری ذات موجود ہوگی۔
بارالھا: میری چشم انتظار تیری رحمت کی طرف لگی ہے اور اپنے ہاتھوں کو تیری بخشش کی طرف پھیلائے ہوئے ہوں پس جب تم سے سوال کروں تو مجھے محروم نہ فرمانا اور جب استغفار کروں تو مجھے عذاب نہ فرمانا۔
بارالھا: مجھے معاف فرما جبکہ تو میرے کاموں سے آگاہ ہے اور مجھے عذاب نہ فرما جبکہ تو مجھ پر قادر ہے تجھے اپنی رحمتوں کا واسطہ اے بہترین رحم کرنے والے۔
بارالھا: اے وسیع رحمت والے، اے بلند و بالا اور نافع درود و سلام والے‘ اپنی تمام مخلوقات میں سے بہترین بندے اور اپنے محبوب اور تیری بارگاہ میں سب سے پیارے بندے اور رسول محمد پر درود بھیج، وہ اور اس پر جس کو بہترین وسائل کے ساتھ آراستہ کیا ہے درود بھیج، شریف ترین، کامل ترین، بزرگ ترین، گرامی ترین درود، محمد پر وہ درود بھیج جو اپنے مبلغین اور اپنی وحی کے امانت داروں پر بھیجتا ہے۔
بارالھا: جس طرح محمد کے ذریعے جہالت کی تاریک رات کو ہٹایا ہے، اور ہدایت کے چشموں کو جاری کیا ہے ہمیں اس کی ہدایت کی راہوں کا مسافر قرار دے اور اس کی روشن دلیلوں کو اپنی بارگاہ میں پہنچنے کا سبب قرار دے۔
پروردگارا: سات آسمانوں کی وسعت اور اس کے طبقات کے برابر اور سات زمینوں کی وسعت اور جو کچھ ان میں ہے اور اپنے رب کریم کے عرش کے برابر اور بخشنے والے رب کے میزان کے برابر اور تمام مخلوقات کے برابر، جنت و جہنم کی تعداد کے مطابق، پانی اور مٹی کی تعداد کے برابر، اور دیکھی جانے والی اشیاء اور مخفی چیزوں کی تعداد کے مطابق تیری حمد بجا لاتی ہوں۔
بارالھا: اپنے درود اور برکتیں، احسان اور بخشش اور رحمت رضوان اور فضیلت و سلامتی اور اپنے ذکر و نور و شرف اور نعمات و خیرات کو محمد و آل محمد کے لئے قرار دے، جس طرح اپنے درود،برکت، رحمت کو حضرت ابراہیم اور ان کی آل پر قرار دیا، تحقیق تو حمد والا بزرگوار ہے۔
بارالھا: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کو قیامت میں عظیم وسیلہ اور بہترین اجر عطا فرما، یہاں تک کہ قیامت کے دن ان کو عزت سے نواز اے ہدایت کرنے والے پروردگار۔
بارالھا: محمد و آل محمد پر اور تمام انبیاء، ملائکہ اور رسولوں پر درود بھیج، جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و حاملان عرش اور اپنے مقرب فرشتوں کراماً کاتبین اور تمام ملائکہ پر سلام ہو۔
اور اپنے باپ آدم اور ماں حوا پر سلام ہو اور تمام نبیوں پر سلام ہو اور صدیقین، شہداء، اور صالحین پر سلام ہو۔ تمام رسولوں پر سلام ہو۔ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کاپالنے والا ہے اور نہیں ہے قوت و قدرت مگر خدائے بزرگ و برتر کے، اور میرے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین وکیل ہے پس محمد و آل محمد پر خدا کی جانب سے بہت زیادہ درود اور سلام ہوں۔
8۔تقعبات مغرب
تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس کی حمد و ستائش کو شمار کرنے والے شمار نہیں کرسکتے اور اس کی نعمتوں کا گننے والے احاطہ نہیں کر سکتے، اور کوشش کرنے والے اس کا حق ادا نہیں کر سکتے، اس کے علاوہ کوئی نہیں وہ اول و آخر ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ ظاہر و باطن ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ زندگی اور موت دینے والا، اللہ سب سے بڑا اور صاحب فضل ہے، اللہ سب سے بڑا اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔
اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس کے علم کا ادراک عالم نہیں کر سکتے۔ اس کے حلم کو جاہل خفیف نہیں کرسکتے اور ثنا خواں کماحقہ ستائش نہیں کر سکتے۔ صفت بیان کرنے والے اس کی صفات بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ مخلوقات اس کی نعمتوں کے کمالات جاننے سے قاصر ہے۔
تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جو صاحب ملک و ملکوت، عظمت، قدرت، عزت و کبریائی کمال و جلال، بزرگی و جمال، عزت و قدرت، قوت و طاقت، احسان و غلبہ، فضل و نعمت، عدل و حق، پیدا کرنے والا‘ مرتبہ، بلندی و عزت، فضیلت و حکمت، بے نیازی و وسعت، وسعت و اختیار، حلم و علم ہے، روشن دلیل والا، وسیع نعمتوں والا، خوبصورت توصیف والا، گرامی قدر نعمتوں والا، دنیا و آخرت اور جنت و جہنم اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک ہے، بابرکت عظمت والا ہے۔
تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جو رازوں کو جاننے والا، اور دلوں کے بھیدوں سے آگاہ ہے، پس اس سے راہ فرار ممکن نہیں، تمام تعریفں اس ذات کے لئے ہیں جسے اپنی بادشاہی میں تکبر سزاوار ہے۔ جو اپنی جگہ میں محکم، اپنی بادشاہت میں مختار کل ہے، سزا وجزا کرنے میں قوی، جو عرش سے بھی بلند تر ہے، اور لوگوں کے اعمال سے آگاہ ہے، اور جو چاہے اس کے کرنے پر قادر ہے۔
تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس کی قدرت سے آسمان محکم انداز میں کھڑے ہیں اور زمین گہوارہ کی طرح اپنی جگہ پر ثابت ہے، اور پہاڑ جو زمین کے ثبات کا باعث ہیں محکم کھڑے ہیں اور وہ جس نے بارش برسانے والی ہواؤں کو جاری کیا اور بادلوں کو آسمانوں میں متحرک رکھا، اور دریاؤں کو اپنی حدود میں رکھا، اور وہ ذات کہ دل اس کے خوف سے لرز جاتے ہیں، اور جس کی ربوبیت کے سامنے خیالی خداؤں کی بنیادیں منہدم ہوجاتی ہیں، پاک ہے وہ ذات جو بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں کو بھی شمار میں رکھتا ہے اور حشر کیلئے مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جو صاحب جلال و کرم ہے۔
بارالھا: جب غریب اور فقیر تجھ سے پناہ مانگتا ہے اور مدد کا طلبگار ہوتا ہے اس کے ساتھ کیا کرے گا؟ اور جو تری چوکھٹ پر آئے اور تیری خوشنودی کا طلبگار ہو اس کے ساتھ کیا کرے گا؟ اور اگر کوئی تیرے حضور میں اپنی پیشانی زمین پر رکھ کر تجھ سے کسی چیز کے متعلق شکایت کرے تو اس کو کیا جواب دے گا؟
پروردگارا: دعاؤں سے میرا حصہ محرومی و ناامیدی کی صورت میں نہ دے، اور اپنی بارگاہ سے لگی امیدوں میں سے میرا حصہ نا امیدی کی صورت میں نہ دے۔
اے وہ ذات جو ہمیشہ تھی اور رہے گی، اور جوبندوں کے اعمال سے باخبر ہے، اے وہ ذات جو دنیا کے ایام کوگذارنے والا، اور مہینوں کو تبدیل کرنے والا، اور سالوں کو گردش میں رکھنے والا ہے، تو ہمیشہ ہے اور گردش ایام تجھ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
اے وہ ذات جس کے لئے ہر دن نیا ہے اور ہر ضعیف، قوی اور مضبوط شخص کے لئے آپ کی بارگاہ سے روزی میسر ہے جو اپنی مخلوقات کے درمیان رزق تقسیم کرتا ہے اور اپنی مخلوقات کو عدالت پر قائم کرتا ہے۔
پروردگارا: جب لوگوں کے درمیان رہنا مشکل ہوجائے تو اس مشکل گھڑی میں تمہاری بارگاہ میں پناہ لیتی ہوں۔
پروردگارا: جب گناہگاروں کے لئے قیامت کا دن طولانی ہوگا تو اس دن کوہمارے لئے مختصر کرکے دو نمازوں کے درمیان فاصلے کے برابر قرار دینا۔
بارالھا: جب قیامت کے دن سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکے گا اور لوگوں کے قریب تر ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان فاصلہ ایک میل کے برابر رہ جائے، اور اس دن دس سال کی گرمی کے برابر اس کی گرمی میں اضافہ ہوجائے گا تو اس وقت اپنی رحمت کے بادل میں جگہ عطا فرمانا اور جب لوگ حساب و کتاب کے لئے بلائے جائیں تو ہمارے لئے منبر اور کرسی سمجھنے کیلئے مقرر فرما، اے عالمین کے پروردگار ہماری دعا قبول فرما۔
اے میرے رب: اس حمد وثنا کے طفیل ہم سے درگذر فرما، اور اپنی مغفرت کو میرے شامل حال فرما، اور میرے دین میں سلامتی بدن میں عافیت عطا فرما۔ دولت سے مالا مال فرما۔
پروردگارا: میں تیری بارگاہ میں امید واثق رکھتی ہوں کہ میری حاجتوں کو ضرور پورا کرتا ہے اور کرے گا اور میں تمہیں پکارتی ہوں اور جبکہ جانتی ہوں کہ تو میری پکار سنتا ہے، پس میری دعاؤں کو سننے کے بعد میری امیدوں کو ختم نہ کرنا اور میری کی ہوئی حمد و ثناء کو رد نہ کرنا، اور مجھے نا امید نہ لوٹانا میں تیری رضا و خوشنودی اور بخشش کی محتاج ہوں، اور میں تم سے سوال کرتی ہوں جبکہ تمہاری رحمت سے مایوس نہیں ہوں، اور تم ہی کو پکارتی ہوں جبکہ تیرے غضب سے خائف ہوں۔
بارالھا: میری دعاؤں کو قبول فرما اور اپنی مغفرت سے مجھ پر احسان فرما، اور مجھے حالت ایمان میں موت دے اور مجھے صالحین سے ملحق فرما، اے میرے رب اپنے فضل و کرم سے مجھے محروم نہ فرمانا اور مجھے اپنی حالت زار پر نہ چھوڑنا اے مہربان۔
بارالھا: فشار قبر اور دوستوں سے جدائی کے وقت اور اس تنہائی میں جب مجھے قبر میں اتاریں اور قیامت میں میری غربت پر اور میری نیاز مندی میں جب تمہاری بارگاہ میں حساب و کتاب کے لئے کھڑی ہوں تو رحم فرمانا۔
اے میرے مالک: آگ سے تیری پناہ کی طلب گار ہوں مجھے پناہ دے۔
پروردگارا: آگ سے نجات کی طلب گار ہوں مجھے نجات دے۔
اے پروردگارا: آگ کے ڈر سے تیری طرف آئی ہوں مجھے جہنم کی آگ سے دور رکھ۔
بارالھا: انتہائی محرومی کی حالت میں تیری رحمت کی طلب گار ہوں مجھے اپنی رحمت سے محروم نہ کرنا۔
اے پروردگار: اے درگزر کرنے والے، اے عزت والے اور نعمتوں والے اور احسان کرنے والے۔
پروردگار: میں نے اپنی دعاؤں کو طلب حاجات کے لئے ظاہر کردیا ہے پس مجھے مایوس نہ فرمانا۔
اے میرے مولا: اے نیکی کرنے والے، اور رحم کرنے والے آہ و زاری کرنے والوں میں سے میری دعاؤں کو قبول فرما اور فریاد کرنے والی عورتوں میں سے میرے اشکوں کو اپنی رحمت سے نواز، اور جب اس دنیا سے جاؤں تو اپنی ملاقات اور دیدار کو میرے لئے آسان فرما، اور اے امیدوں کی آخری پناہ گاہ مردوں کے بیچ میرے عیبوں کو چھپانا اور جب قبر میں تنہا ہوں تو مجھے اپنے لطف و مہربانی سے نوازنا، یقینا تو میری امید ہے، اور میری حاجات کے ظاہر کرنے کی جگہ ہے، اور تو میری حاجات سے آگاہ ہے۔
اے حاجتوں کو پورا کرنے والے میری حاجات کوپورا فرما، پس تمہاری طرف شکایت لے کر آئی ہوں کیونکہ تو مددگار اور امیدوں کا مرکز ہے، اور گناہوں سے فرار کرکے تیری پناہ گاہ میں آئی ہوں پس مجھے قبول فرما او رتیری عدالت کے ڈر سے اپنے گناہوں کی بخشش کی التجا کرتی ہوں میری مدد فرما، اور تیرے غضب سے ڈر کر تیری مغفرت کی جستجو میں ہوں مجھے پناہ دے اور تیرے عذاب کے ڈر سے تیری رحمتوں کی طلبگار ہوں مجھے نجات دے۔
اور اسلام کے ذریعے سے تمہاری قربت کی طلبگار ہوں مجھے اپنے قریب فرما، اور قیامت کے دن کے خوف سے مجھے محفوظ فرما، اور اپنے عرش کے سائے میں مجھے جگہ عنایت فرما، اور مجھے اپنی رحمت سے شامل حال فرما، اور سلامتی کے ساتھ دنیا سے نجات دے، اور اندھیروں سے روشنی کی طرف نکلنے کی توفیق عطا فرما۔
قیامت کے دن میرے چہرے کو روشنی عطا فرمانا اور آسان طریقہ سے میرا محاسبہ فرمانا اور مجھے اپنے عیبوں کے مقابلے میں شرمندہ نہ فرمانا، اور مصیبتوں کے مقابلے میں صبر کی دولت سے نوازنا، اور جس طرح حضرت یوسف سے بدی اور پستیوں کو دور کیا تھا مجھ سے بھی دور فرما، اور جس چیز کی طاقت نہیں رکھتی مجھ پر مسلط نہ فرمانا۔
مجھے جنت کی طرف ہدایت فرما، اور معارت قرآن سے مجھے مستفید فرما، اور صحیح بات کے ساتھ مجھے ثابت قدم رکھ، اور شیطان مردود سے محفوظ فرما، پس مجھے اپنی قوت، قدرت اور جبروت سے جہنم سے محفوظ رکھ اور اپنے حلم اور علم اور رحمت واسع کے ذریعے سے جہنم سے نجات دے اور اپنی جنت الفردودس میں جگہ عطا فرما، اور مجھے اپنے دیدار کی زیارت نصیب فرما اور اپنے نبی حضرت محمد سے ملحق فرما، شیاطین اور ان کے دوست اور ہر شریر کے شر سے میری حفاظت فرما۔
اے پروردگار: تمام وہ لوگ جو مجھ سے ہمیشہ کینہ رکھتے ہیں اور جو میرے کھلے دشمن ہیں تو ان کے دلیروں کو بزدل، ان کے لشکروں کو متفرق اور اسلحوں کو ناکارہ، اور ان کے حیوانوں کو کمزور اور ناتوان، اور انہیں سخت قسم کی ہواؤں اور طوفانوں سے دوچار فرما۔ یہاں تک کہ ان کو جہنم میں داخل کردے۔ ان کی پناہ گاہوں کو منہدم ، اور ہمیں ان کے تباہ کرنے پر توفیق عطا فرما اے عالمین کا رب قبول فرما۔
اے خداوند متعال محمد و آل محمد پر ایسا درود بھیج، جس پر گذشتہ لوگ، صالحین کے ساتھ گواہ ہوں اور اسی طرح سید المرسلین ، خاتم النبیین اور امام المتقین اور رحمت العالمین بھی گواہ ہوں۔
اے پروردگار: اے مقدس گھر خانہ کعبہ اور مقدس مہینے ذی الحجہ کے رب‘ شعر الحرام کے رب، رکن و مقام کے رب، حال و حرال کے رب، پیغمبر اسلام(ص) کی پاکیزہ روح پر ہماری جانب سے درود و سلام پہنچا۔
اے اللہ کے رسول آپ پر سلام، اے خدا کی امانت آپ پر سلام، اے محمد بن عبداللہ آپ پر سلام، سلام ہو آپ پر اے اللہ کے رسول، سلام ہو آپ پر اے اللہ کے امین، آپ پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں جیسے ان کا تعارف کرایا گیا ہے وہ ایسے ہی مومنین کے لئے مہربان اورباعث رحمت ہیں۔
اے اللہ: پیغمبر اسلام(ص) کے لئے جو کچھ طلب کیا ہے اور جو کچھ ان کے لئے مانگا گیا ہے اور جو کچھ قیامت کے تک ان کے لئے مانگا جائے گا، ان سے بہتر ان کو عطا فرما، اے عالمین کے پروردگار ہماری دعاؤں کو قبول فرما۔
9۔تعقبات نماز عشاء
پاک ہے وہ ذات جس کی عظمتوں کے سامنے تمام مخلوقات کا سرِ تسلیم خم ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس کی عزت کے سامنے سب ذلیل و خوار ہیں۔
پاک ہے وہ ذات جس کے حکم اوربادشاہی کے سامنے ہر چیز تابع ہے۔
پاک ہے وہ ذات کہ جوہر چیز پر قدرت کاملہ رکھتی ہے۔
تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے ہیں جو اپنا ذکر کرنے والوں کو فراموش نہیں کرتا۔ تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے ہیں جو پکارنے والوں کو ناامید نہیں کرتا، تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے ہیں جو توکل کرنے والوں کے لئے حاجت روا ہے۔
تمام تعریفیں اس پروردگار کے لئے مخصوص ہیں جس نے آسمان کا سائبان بنایا اور زمین کو پھیلایا، اور دریاؤں کوجاری کیا اور پہاڑوں کو مربوط انداز میں کھڑا کیا جس نے حیوانات اور نباتات کو پیدا کیا، اور زمین میں چشمے جاری کئے اور وہ امور میں تدبیر کرنے والا ہے، اور جس نے بادلوں کو متحرک کیا، اور زمین کی گہرائیوں سے بخارات پانی اورآگ کوآسمان کی طرف جاری کیا، اور سردی اور گرمی کو زمین میں قرار دیا، وہ ذات جس کی نعمتوں کے سبب نیک کام مکمل ہوئے اور اس کا شکر نعمتوں میں اضافے کے باعث بنتا ہے اور اس کے حکم سے آسمان کھڑے ہیں اور اس کی عظمت و بزرگواری سے پہاڑ محکم انداز میں کھڑے ہیں، درندے بیابانوں میں اور پرندے آشیانوں میں اس کی تسبیح میں مشغول ہیں۔
تمام تعریفیں اس ذات کے لئے مخصوص ہیں ، جو درجات کو بلند کرنے والا، آیات کو نازل کرنے وال، برکتوں کو پھیلانے والا، عیبوں پر پردہ ڈالنے والا، نیکیوں کو قبول کرنے والا، لغزشوں سے درگزر کرنے والا، دکھوں کو برطرف کرنے والا، برکتوں کو نازل کرنے والا، دعاؤں کو قبول کرنے والا، اور مردوں کو زندہ کرنے والا ہے جو زمین اور آسمانوں کے باشندوں کا معبود ہے۔
ہر حمد پر اور ذکرپر، شکر و صبر پر، نماز و زکوٰة، پر، قیام و عبادت پر، سعادت و برکت پر، اضافے اور رحمت پر، نعمت اور کرامت پر، فریضہ پر، خوشی اور غمی پر، اور نرمی پر، مصیبت اور دکھ پر، تنگی اور وسعت پر، بے نیازی اور محتاجی میں ، اور ہر حال میں، اور ہر جگہ میں، اور ہرزمانے میں، توقف کی جگہ میں اور کوچ کی حالت میں تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔
اے پروردگار: میں تیری پناہ کی طلب گار ہوں مجھے پناہ دے، تجھ سے مدد کی طلب گار ہوں مدد فرما، تیری بارگاہ میں فریاد کرتی ہوں میری فریاد کو پہنچ اور تجھے پکارتی ہوں پس مجھے قبول فرما اور تجھے پکارتی ہوں جواب دو، تجھ سے مغفرت کی طلبگار ہوں، پس مجھے بخش دے، اور تجھ سے مدد کی طلب گار ہوں، میری مدد فرما، تجھ سے ہدایت کی طلبگار ہوں مجھے ہدایت فرما تجھ سے کفایت کرنے کی خواستگار ہوں میری حاجت روائی فرما اور تیری جانب پناہ گزین ہوئی ہوں مجھے پناہ دے، اور تیری رسی سے منسلک ہوئی ہوں میری حفاظت فرما، اور تجھ پر توکل کیا ہے میری کفایت فرما۔
بارالھا: مجھے اپنی پناہ میں، اپنے جوار میں، اپنی حفاظت میں، اپنی پناہگاہ میں، اور اپنے حفظ و امان میں، اپنی حرمت میں، اور اپنی حفاظت میں، اور اپنی رحمتوں کے سایہ میں قرار دے۔
اے پروردگار: میرے لئے اپنی طرف سے محکم سپر قرار دے، اور سامنے سے، اور پیچھے سے دائیں طرف سے، اور بائیں طرف سے، اوپر سے، اور نیچے سے مجھے اپنے حفظ و امان میں رکھ، تاکہ تیری مخلوقات میں سے مجھے کوئی صدمہ اور اذیت نہ پہنچا سکے، اس حق کے ساتھ کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو احسان کرنے والا ہے، آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا، صاحب جلالت اور عزت والا ہے۔
پروردگار: حاسدوں کے حسد سے ، زیادتی کرنے والوں کی زیادتی سے، دھوکہ دینے والوں کے دھوکے سے، فراڈ کرنے والوں کے فراڈ سے، بہانہ گروں کے بہانہ سے، ظالموں کے ظلم سے، ستمگاروں کے ستم سے، دشمنوں کی دشمنی سے، جبر کرنے والوں کے جبر سے، تہمت لگانے والوں کی تہمت سے، جادوگروں کے سحر سے، تیری بارگاہ سے نکالے گئے اور شیاطین سے، بادشاہوں کے ظلم سے، اور تمام جہانوں کے برے کاموں سے مجھے دور رکھ۔
اے پروردگار: تیرے چھپے ہوئے اور پاک و پاکیزہ اس نام کے ذریعے سے سوال کرتی ہوں کہ جس کے سبب سے آسمان و زمین کھڑے ہیں، اور تاریکیوں میں روشنی ہے، اور ملائکہ تیرے ذکر اور تسبیح میں مشغول ہیں، اور دلوں میں اسی کا خوف و دبدبہ ہے، اور گردنیں اس کے سامنے سرنگوں ہیں اور مردوں کو اس کے ساتھ زندہ کرتا ہے، میرے تمام گناہوں کو خواہ رات کی تاریکی میں انجام دیئے ہوں یا دن کے اجالوں میں، جانتے ہوئے، یا بھول کر، چھپ کر، یا اعلانیہ طور پر انجام دیئے معاف فرما۔
اے پروردگار: مجھے یقین اور ہدایت، نور و علم اور سمجھداری عطا فرما، تاکہ تیری کتاب پر عمل کر سکوں، اور تیرے حلال کو حلال، اور تیرے حرام کو حرام، اور تیرے واجبات کو ادا، اور تیرے نبی حضرت محمد کی سنت کو قائم کروں۔
بارالھا: مجھے صالحین ما سلف سے ملحق فرما، اور مجھے حاضر صالحین کے زمرہ میں قرار دے، اور میرے اعمال کا خاتمہ بالخیر فرما، یقینا تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اے پروردگار: جب میری عمر گزر جائے، اور میری زندگی اختتام پذیر ہوجائے اور تیری بارگاہ میں حاضر ہوجائے، تو اے مہربان، تو اس وقت جنت میں میرے لئے ایسا گھر قرار دے، جس پر تمام اولین و آخرین رشک کریں۔
اے بارالھا: مجھ سے اپنی حمد و ثنا اور میری فریاد قبول فرما، اور میرے اقرار اور اعتراف پر رحم فرما، اور جبکہ تجھے پکارنے والوں کے ہمراہ اپنی صدا، اور آہ و پکارکرنے والوں کے ہمراہ اپنا خضوع و خشوع، مدحت کرنے والوں کے ساتھ اپنی مدحت، اور تسبیح بجا لانے والوں کے ساتھ اپنی تسبیح تمہاری بارگاہ تک پہنچا چکی ہوں، جب کہ تو بیچارے اور مضطر لوگوں سے قبول کرنے والا، اور فریاد گروں کی فریاد رسی کرنے والا، اور پناہ گزینوں کیلئے پناہ گاہ ہے، اور مجبوری کے ہاتھوں فرار کرنے والوں کے لئے ملجا و ماوا ہے جبکہ مومنین کی فریاد رسی کرنے والے، اور گنہگاروں کے گناہ سے درگذر کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دینے اور ڈرانے والے روشن نور حضرت محمد اور ملائکہ اور انبیاء پر درود و سلام ہو۔
اے پروردگار: اے زمینوں کے پھیلانے والے ، آسمانوں کے پیدا کرنے والے جو کہ نیک و بد فطرت کے مطابق پیدا کرنے والے، حضرت محمد جگہ تیرے بندے اور رسول ہیں اور تیری وحی کے امین اور تیری حجت قائم کرنے والے، اورحرمت کے نگہان، اور تیرے فرامین پرعمل کرنے والے، اور تیری نشانیوں کو محکم کرنے والے، اور تیرے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے والے بہترین درود و سلام اور برکتیں بھیج۔
اے پروردگار: اپنے فضائل میں سے فضیلت، اور مناقب میں سے منقبت، اور تمام حالات سے حالت اور تمام درجات سے درجہ حضرت محمد جس کو آپ نے تمام منزلوں میں اپنا مددگار پایا ہے عطا فرما، جومصیبتوں پر صبر کرنے والے، تیرے دشمنوں کے دشمن اور تیرے دوستوں کے دوست ہیں اور تیرے مکروہات سے دور، اور تو جسے چاہتا ہے اسے دعوت دینے والے ہیں ان کو اپنے فضائل میں سے اجر اور اپنی خصوصی عطاؤں میں سے عطا فرما، اور ان کے امر کو برتری اور ان کے درجات کو بلندی، اپنے عدل کو قائم کرنے والوں کے ہمراہ، اپنے حریم سے دفاع کرنے والوں کے ہمراہ یہاں تک کہ کوئی برتری، اقدار، رحمت اور کرامت باقی نہ رہ جائے جو حضرت محمد کے ساتھ خاص نہ ہو اور اپنی جانب سے ان کو درجات عالیہ عطا فرما، اور ان کو بلند ترین مقام پر پہنچا دے، اے عالمین کے پالنے والے۔
اے پروردگار: اپنی جان، دین اور تیری دی ہوئی نعمتوں کو تیرے حوالے کرتی ہوں، پس تو مجھے اپنے حفظ و امان اور اپنی سرپرستی میں قرار دے، کیونکہ تیری حفاظت پائیدار، تیری مدح و ستائش عظیم المرتبہ ہے۔ اور تیرے نام مقدس ہیں اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو خوش حالی میں اور پریشانی میں، سختی میں اور آرام میں بہترین سرپرست ہے۔
اے پروردگار: ہم تجھ پر ہی توکل کرتے ہیں، اور تیری بارگاہ میں آہ و زاری کرتے ہیں، اور ہم نے تیری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، بارالھا، ہم کو کافروں کے ذریعہ آزمائش قرار نہ دے اور ہمیں بخش دے۔ اے رب بیشک تو غالب حکمت والا ہے۔
اے پروردگار: عذاب جہنم کو ہم سے دور رکھ، کیونکہ جہنم کا عذاب ہمیشہ رہنے والا ہے۔ مزید براں جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے، اور ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما کیونکہ تو بہترین فیصلے کرنے واا ہے۔
اے پروردگار: ہم ایمان لاچکے، ہمارے گناہ بخش دے، اور ہماری خطاؤں پر پردہ ڈال، اور ہمیں نیکوکاروں کے ساتھ موت دے اور جس چیز کا اپنے رسولوں سے وعدہ کیا ہے ہمیں عطا فرما، قیامت کے دن ہمیں ذلیل و رسوا نہ فرمانا، بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
اے بارالھا: اگر ہم نے بھول کی ہے یا خطا کی ہے تو ہمارا مواخذہ نہ فرما، پروردگار اور ہم پر زیادہ بوجھ نہ ڈال جس طرح پہلی امتوں پر ڈالا تھا۔
اے پروردگار: ہماری طاقت سے زیادہ ہمیں تکلیف نہ دے، ہمیں معاف فرما، اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مولا ہے، پس قوم کافرین کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
اے پروردگار: ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی عطا فرما، اور اپنی رحمت کے سبب سے ہمیں جہنم کی آگ سے بچا، ہمارے سردار حضرت محمد اور ان کی پاک آل پر درود سلام بھیج۔
10۔ ہر نماز ے بعد
سبحان اللہ دس مرتبہ
الحمد اللہ دس مرتبہ
اللہ اکبر دس مرتبہ
11۔ تسبیح جناب سیدہ
اللہ اکبر چونتیس بار
الحمد اللہ تینتیس بار
سبحان اللہ تینتیس بار
لا الہ الا اللہ ایک مرتبہ
دعائے حریق
صبح کے وقت پڑھی جانے والی دعا
پروردگار: صبح کے اس وقت میں تمہیں گواہ قرار دیتی ہوں، کیونکہ تو شھادت اور گواہی کیلئے کافی ہے، اور تیرے ملائکہ اور حاملان عرش ، اور آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں کو، اور تیرے پیغمبروں اور رسولوں کو، اور تیرے بندوں میں سے صالحین کو، اور تمام بندوں کو گواہ قرار دیتی ہوں، کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور تو واحدہ لا شریک ہے، اور یقینا تیرے عرش سے نیچے ساتوں زمینوں کے قرار تک سوائے تیری ذات عظیم کے تمام معبود باطل ہیں کیونکہ تیری توصیف اس قدر بلند ہے کہ کوئی صفات بیان کرنے والا اس کی تہہ تک پہنچ سکے اور کوئی دل اس کی عظت تک رسائی کر سکے۔ اے وہ ذات جس کی توصیف حمد و ستائش کرنے والوں کی دسترس سے باہر ہے اور اس کی تعریف کرنے کے اسباب، تعریف کرنے والوں کی تعریف کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، اور اس کی عظمت و کبریائی بولنے والوں کی گفتار سے بالاترہے۔ (تین بار دعا کے اس حصے کو تلاوت کیا کرتی تھیں۔ )
گیارہ مرتبہ اس حصے کو تلاوت فرماتی تھیں
اس کے علاوہ کوئی معبود نیں وہ وحدہ لاشریک ہے، بادشاہی اور حمد اس کے لئے ہے، زندگی اور موت دیتا ہے، وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، اسی کے ہاتھ میں اچھائی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
دعا کے اس حصے کو گیارہ بار پڑھیں
پاک ہے اللہ سبحانہ، اور تمام تعریفیں اس کے لئے مخصوص ہیں اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور وہ سب سے بڑا ہے، جو وہ چاہتا ہے انجام دیتا ہے، اور خداوند حلیم و بزرگ و برتر کے ارادے کے علاوہ کوئی قدرت و قوت نہیں ہے، بردباد اورکریم ہے، جو بلند اور عظیم ہے، جو رحمان اور رحیم ہے، جو مالک اور واضح حق ہے۔ مخلوقات الہی کی تعداد کے برابر، عرش الہی کے وزن کے برابر، زمینوں اور آسمانوں کی وسعت کے برابر، اور جس پر اس کی قلم خلقت جاری ہوتی ہے، اور کتاب الہی نے اس کو شمار کیا ہے، اور خداوند تبارک و تعالیٰ کے راضی ہونے کی تعداد کے برابر۔
پھر یوں کہے۔
اے پروردگار: محمد و آل محمد پر دورد بھیج، اور جبرائیل و میکائیل و اسرافیل، اور تیرے عرش کے حامل اور اپنے مقرب فرشتوں پر درود بھیج۔
اے پروردگا: ان پر درود بھیج تاکہ وہ خوش ہوں اور خوشی کے بعد اس میں اضافہ فرما، اے بہترین رحم کرنے والے تو ان سب کا اہل ہے۔
اے پروردگار: ملک الموت اور اس کے مددگاروں پر، رضوان اور جنت کے نگہبانوں پر، اور جہنم کے مالک اور نگہبانوں پر درود بھیج۔
اے پروردگار: ان پر دورد بھیج تاکہ وہ خوش ہوں ، اور پھر اس میں اضافہ فرما، اے بہترین رحم کرنے والے تو اس پر قادر ہے۔
اے پروردگار: کراما الکاتبین اور انسانوں کے محافظ فرشتوں پر درود بھیج، اور سات آسمانوں اور زمینوں کے محافظ فرشتوں پر درود بھیج، دن رات کے فرشتوں، اور زمینوں اور تمام جگہوں کے فرشتوں، دریاؤں، نہروں، بیابانوں اور صحراوں کے فرشتوں پر درود بھیج اور ان فرشتوں پر درود بھیج جو تمام وقت تیری تسبیح و تقدیس میں مشغول ہیں جنہیں کھانے پینے سے بے نیاز رکھا ہے۔
اے پروردگار: ان پر درود بھیج تاکہ وہ خوش ہوں اور خوشی کے بعد اس میں اضافہ فرما، جب کہ تو اس کا اہل ہے اے بہترین رحم کرنے والے۔
اے پروردگار: میرے والد حضرت آدم اور ماں حضرت حوا پر ، اور جو انبیاء اور صدیقین، شہداء، صالحین، ان دونوں کی اولاد سے اس دنیا میں آئے ہیں درود بھیج، اور ان پر درود بھیج تاکہ وہ خوش ہوں، اور خوشی کے بعد اس میں اضافہ فرما، جبکہ تو اس کا اہل ہے، اے بہترین رحم کرنے والے۔
اے پروردگار: محمد اور اس کی پاک آل اولاد پر درود بھیج، اور اس کے برگزیدہ اصحاب اور پاکیزہ ازواج پر، اور حضرت محمد کی آل پر، ان تمام انبیاء پر جنہوں نے حضرت محمد کے متعلق بشارت دی، ان انبیاء پر جن کی نسل سے حضرت محمددنیا میں آئے ان تمام عورتوں پر جنہوں نے حضرت محمد کی کفالت کی، اور ہر اس پر درود بھیج، جو تیرے اور حضرت محمد کے راضی ہونے کا سبب بنتا ہے۔
اے پروردگار: ان پر درود بھیج تاکہ خوش ہوں اور پھر اس خوشی میں اضافہ فرما، اے رحم کرنے والے کو اس کا اہل ہے۔
اے پرورداگار: محمد و آل محمد پر درود بھیج، محمد و آل محمد پر برکتیں نازل فرما، اور محمد و آل محمد پر رحمت فرما، جس طرح حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود، برکتیں اور رحمتیں بھیجی ہیں، بے شک تو تعریف والا، بخشنے والا ہے۔ حضرت محمد کو وسیلہ، فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما۔
اے پروردگار: ایسے حضرت محمد و آل محمد پر درود بھیج جیسے درود بھیجنے کا ہمیں حکم دیا ہے۔
اے پروردگار: محمد و آل محمد پر ہردرود بھیجنے والوں کی تعداد کے مطابق درود بھیج، پروردگارا! محمد و آل محمد پر ہر بھیجے گئے درود کی تعداد کے مطابق درود بھیج۔
اے پروردگار: محمد و آل محمد پر تیرے اپنے درودوں میں موجود لفظوں کی تعداد کے مطابق درود بھیج، بارالھا! محمد و آل محمد پر درود بھیجنے والوں کے بالوں کی تعداد کے مطابق درود بھیج۔
اے بارالھا: محمد و آل محمد پر درود نہ بھیجنے والوں کے بالوں کی تعداد کے مطابق درود بھیج۔
ے بارالھا: محمد و آل محمد پر درود بھیجنے والے کی سانسوں کی تعداد کے مطابق درود بھیج۔
اے بارالھا: محمد و آل محمد پر درود بھیجنے والوں کی سانسوں کے مطابق درود بھیج۔
اے بارالھا: محمد و آل محمد پر درود بھیجنے والوں کے سکون کی تعداد کے مطابق درود بھیج۔
اے بارالھا: محمد و آل محمد پر درود نہ بھیجنے والوں کے سکون کی تعداد کے مطابق درود بھیج۔
اے بارالھا: محمد و آل محمد پر درود بھیجنے والوں کی حرکت کی تعداد کے مطابق درودبھیج۔
اے بارالھا: محمد و آل محمد پر درود بھیجنے والوں کی صفات، منٹ، گھنٹے، اور ان ذرات کے وزنوں کی تعداد کے مطابق جن پر انہوں نے عمل کیا ہے یا عمل نہیں کیا، یا وہ اعمال ان سے انجام پائے ہیں یا صادر نہیں ہوئے درود بھیج۔
اے پروردگار: حمد، شکر، فضیلت، احسان، نعمت، بخشش، عظمت، جبر، ملک الملکوت، قہر، افتخار ہیبت، سلطنت، احسان و کرم، جلالت، جبر، توحید، تمجید، تہلیل، تکبیر، تنزیہ، رحمت، مغفرت و کبریائی وغیرہ۔ تیرے لئے ہی خالص ہیں۔ پاکیزہ ثناہ مدح، فخر، حسین و جمیل قول، جس کے رکھنے والے سے تو راضی ہوجائے اور راضی ہوجائے تو جس قول سے جو کہا گیا ہے اور وہی تیری رضا کے لئے ہے۔
اپنے پہلے حمد کرنے والے کے ساتھ میری حمدقبول فرما، اور پہلے ثنا خوان کے ساتھ میری تعریف قبول فرما، اور پہلے ذکر کرنے والے کے ساتھ میرا ذکر قبول فرما، اور پہلے تکبیر کہنے والے کے ساتھ میری تکبیر قبول فرما، اور عالمین کے پالنے والے میری اچھی بات کو پہلے سے اچھی بات کرنے والوں کے ہمراہ اور تعریف کرنے والوں کے ہمراہ قبول فرما، اس حال میں کہ دنیا کے آغاز سے لیکر قیامت تک متصل ہو۔
بارالھا: رات کے ذروں کی تعداد کے برابر، ٹیلوں کے ذرات کی تعداد کے برابر، پہاڑوں کے ذرات کی تعداد اور وزن کے برابر، مٹی، دانے اور سنگریزوں کے برابر، آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ ان کے نیچے ہے اور جو کچھ ان سے آگے ہے اور جو کچھ ان سے اوپر ہے جو کچھ ان کے پیچھے ہے، عرش سے ساتویں زمین کی گہرائیوں تک ذروں کی تعداد کے برابر، اور سات زمینوں کے رہنے والوں کے الفاظ کے حروف کی تعداد کے برابر، اور ان کے زمانوں کی تعداد کے برابر، اور ان کے سیکنڈوں، حرکات اور سکون اور ان کے بالوں اور چمڑوں کے برابر اور ان اعمال کے برابر جن پر انہوں نے عمل کیا ہے اور جن پر انہوں نے عمل نہیں کیا، یا وہ اعمال جو انجام دے چکے ہیں، یا قیامت تک انجام دیں گے کی تعداد کے برابر۔
بارالھا: میں اہل بیت کو، اور اپنے نفس اور حال، رشتہ داروں، قرابت داروں، او ربیٹوں اور اپنے خاندان کو اور تمام ان رشتہ داروں کو جو دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اپنے ہمسائیوں بھائیوں اور تمام مردوں اور عورتوں سے جنہوں نے میرے لئے دعا کی ہے یا میرے حق میں کار خیر انجام دیا ہے، یا مجھے ہدیہ دیا ہے کہ خدائے عزوجل اور اس کے کامل و برتر اور متبرک، پاکیزہ، شریف و کریم، بزرگوار، پوشیدہ و پنہان ناموں کے ساتھ، اس بارگاہ میں جس میں کوئی نیک و بد تجاوز نہیں کر سکتا ہے پناہ میں دیتی ہوں، قرآن اور اس کے اختتام، جو کچھ اس میں ہے سورتوں اور محکم آیات سے، شفاء و رحمت، پناہ، برکت، توراة، انجیل و زبور اور صحف ابراہیم اور موسیٰ ، اور تمام نازل شدہ کتابوں اور تمام بھیجے گئے رسولوں، اور تمام اللہ کی قائم کردہ حجتوں، اور ظاہر شدہ برہانوں اور اللہ کے روشن انوار ، اور اللہ کی تمام عظیم الشان نعمتوں کے ساتھ پناہ مانگتی ہوں۔
بارالھا: میں پناہ مانگتی ہوں ہر شر بپا کرنے والے کے شر سے، اور ا سکے شر سے جس سے میں خوف و ہراس میں ہوں، اور اس کے شر سے جس سے میرا پروردگار برتر اور عظیم ہے، اور جن و انس کے شر سے، شیاطین، بادشاہوں، ابلیس اور اس کے شر سے اور اس کے پیروکار لشکر اور اس کا اتباع کرنے والوں کے شر سے، اور نو ر وظلمت میں موجود شر سے
اور حملہ کے شر سے، ہر غم و اندوہ اور آفت اور پریشانی کے شر سے، اور آسمان سے نازل ہونے والے یا اس کی طرف بلند ہونے والے شر سے، زمین میں داخل ہونے والے اور اسی سے نکلنے والے شر سے، اور ہر چلنے والے کے شر سے تمام امور کی باگ ڈور میرے رب کے پاس ہے، تحقیق میرا رب صراط مستقیم پر ہے، پس اگر کوئی مجھ سے منہ پھیر لے، تو اس کو کہہ دیجیے کہ میرا رب میرے لئے کافی ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس پر توکل کیا ہے اور وہ ہی عرش عظیم کا مالک ہے۔
۱۳۔ صبح و شام میں جناب سیدہ کی دعا
اے زندہ و پائندہ تیری رحمت کی پناہ کی طلب گار ہوں، کہ میرے تمام کاموں کی اصلاح فرما، اور مجھے میرے نفس کے حوالہ نہ کر۔
دوسری روایت میں یوں ہے۔
اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے، تیری رحمت کی پناہ کی طلب گار ہوں، مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تنہا نہ چھوڑ اور میرے تمام کاموں میں اصلاح فرما۔
جناب سیدہ کی دعائیں حاجتوں کی برآوری میں
۱۴۔ حاجات کو بر لانے کے لئے دعا
اے عزیز ترین یاد شدہ نام اور عزت وجبروت میں سب سے پرانا نام، اور اے رحمت کے طلب گار پر رحمت کرنے والے، اور ہر پناہ گزین کیلئے پناہ گاہ، اور ہر غمگین پر رحم کرنے والے جو اس کی بارگاہ میں اپنے دکھ درد کی شکایت لے کر آئے اور اے وہ ذات جس سے نیکیاں بجا لانے کی توفیق طلب کی گئی اور اس نے فوراً ہی عطا فرمائی، اے وہ ذات جس سے نورانی مخلوق فرشتے خوف زدہ ہیں۔
میں سوال کرتی ہوں، تیرے حاملان عرش، اور عرش کے اطراف میں رہنے والوں، اور تیرے عذاب کے ڈر سے تیری تسبیح و تقدیس کرنے والوں کے نام سے، اور تجھے ان ناموں کا واسطہ دے کر پکارتی ہوں جن کے ذریعے سے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل نے پکارا، میری دعاؤں کو قبول فرما، اور میری مشکلات دور فرما، اور میرے گناہوں پر پردہ ڈال۔
اے وہ ذات جس نے مخلوقات میں صور پھونکنے کا حکم دیا، تاکہ مخلوق قیامت کے بڑے اجتماع میں اکٹھی ہوں، اور اس نام کے طفیل سے جس کے ساتھ تو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرتا ہے، چاہتی ہوں کہ میرے دل کو زندہ، سینے کو کشادہ، اور میرے امور کی اصلاح فرما۔
اے وہ ذات جس نے بقا اور ہمیشگی کو اپنے لئے مخصوص رکھا، جبکہ مخلوقات کیلئے موت، زندگی، اور فنا کو رکھا، اے وہ ذات جس کا عمل اس کی گفتار کے مطابق اور جس کی گفتار اسکے فرمان کے مطابق، اور اس کافر ماں جس پر چاہے جاری ہوتا ہے۔
بارالھا: تجھے اس نام کا واسطہ دے کر پکارتی ہوں، جس نام سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے آتش نمرود میں گرتے ہوئے پکارا تھا، تو نے ان کی دعا کو قبول کرتے ہوئے فرمایا یَا نَارُ لحُوْنِیْ بَرْداً و سَلَاماً عَلٰی اِبْرَاہِیْم اور اس کے نام کے ذریعے سے جس نام سے حضرت موسیٰ نے کوہ طور کے کنارے سے تیری امان چاہی تھی اور تو نے ان کی دعا کو قبول فرمایا تھا، اس نام کے ساتھ جس سے حضرت عیسیٰ کو روح القدس سے پیدا کیا۔
اور اس نام کے ساتھ جس سے حضرت زکریا کو حضرت یحییٰ سے نوازا، اور حضرت ایوب سے دکھوں کو دور کیا، اور حضرت داؤد کی توبہ قبول فرمائی تھی، اور ہواؤں کو حضرت سلیمان کے لئے مسخر کیاتھا تاکہ وہ ان کے حکم سے گردش میں آئیں، اور اسی طرح شیاطین کو ان کے زیر اثر کیا، اور ان کو پرندوں کی زبانوں سے آشنا کیا۔
اور اس نام کے ساتھ جس سے عرش کو پیدا کیا، او رجہان کو پیدا کیا اور اس نام کے ساتھ جس سے فرشتوں کو پیدا کیا، اور اس نام کے ساتھ جس سے جن و انس کو پیدا کیا، اور اس نام کے ساتھ جس سے تمام مخلوقات کو پیدا کیا۔
اور اس نام کے ساتھ جس سے جو چاہتاہے پیدا کرتا ہے اور اس نام کے ذریعے سے جس نام سے تو ہر چیز پر قادر ہیے، ان تمام ناموں کا واسطہ دے کر سوال کرتی ہوں اے بخشنے والے! میری حاجات کو پورا فرما اور میری درخواستوں کو قبول فرما۔
۱۵۔ حاجات کی برآوری کے لئے دعا
اے اولین و آخرین کے پروردگار، اے اولین و آخرین سے بہتر، اے مضبوط ترین قدرت والے، اے بیچاروں اور بیکسوں پر رحم کرنے والے، اے بہترین رحم کرنے والے۔
دوسری روایت میں یوں ہے۔
ہر آغاز سے پہلے، اور ہر آخر کی انتہا، اور اے مضبوط ترین قدرت والے، اور اے بہترین رحم کرنے والے مجھے بے نیاز کردے، میری حاجات کو پورا کرتے ہوئے مجھے دوسروں سے بے نیا ز کردے۔
۱۶۔ حاجات کے پورا ہونے کیلئے جناب سیدہ کی دعا
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو اپنے ذکر کرنے والوں کو فراموش نہیں کرتا، اور پکارنے والوں کو اپنے سے مایوس نہیں کرتا، اور اپنے سے امید رکھنے والوں کو نا امید نہیں کرتا۔
پھر اللہ کی بارگاہ میں جو چاہتے ہیں سوال کریں۔
۱۷۔ قرض کی ادائیگی اور کاموں میں آسانی کے لئے جناب سیدہ کی دعا
اے پروردگار: ہمارے اور ہر جیز کے رب، تورات، انجیل اور قرآن کے نازل کرنے والے، شگوفوں کو دانے سے شگافتہ کرنے والے، ہر چوپائے کے شر سے کہ اس کی زندگی تیرے اختیار میں ہے، تیری پناہ کی طلب گار ہوں۔
تو وہ اول ہے جس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، اور تو وہ آخر ہے جس کے بعد بھی کوئی چیز نہیں ہو گی، اور تو وہ ظاہر ہے جس سے بالاتر کوئی چیز نہیں، اور تو وہ باطن ہے جس کے علاوہ کوئی دوسرا باطن نہیں۔
محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور ان پر اور ان کے اہل بیت پر سلام ہو، اور میرے قرض کو ادا فرما، اور مجھے محتاجی سے رہائی عطافرما، اور تمام کاموں کو میرے لئے آسان فرما، اے بہترین رحم کرنے والے۔
اس طرح بھی نقل ہوا ہے۔
اے آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب، ہمارے اور ہر چیز کے رب، اے تورات و انجیل اور قرآن کے نازل کرنے والے، اور گھٹلیوں سے دانے نکالنے والے اے ساتوں آسمانوں کے رب، ہر چیز سے جس کی زھام قدرت تیرے ہاتھوں میں ہے پناہ مانگتی ہوں، تو وہ اول ہے جس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا، اور تو وہ آخر ہے جس کے بعد بھی کوئی چیز نہیں ہے، اور تو وہ ظاہر ہے جس سے باہر کوئی چیز نہیں، اور تو وہ باطن ہے جس کے علاوہ کوئی چیز نہیں، میرے قرض کو ادا فرما اور فقر و محتاجی سے رہائی عطا فرما۔
ایک اور روایت میں یوں ہے۔
اے پروردگار: اے آسمانوں اور زمینوں کے رب، اور ہر چیز کے رب، دانوں کوگھٹلیوں سے نکالنے والے، اے تورات، انجیل، اور قرآن کے نازل کرنے والے، ہر اس کے شر سے جس کی زندگی تیرے اختیار میں ہے پناہ مانگتی ہوں، تو وہ اول ہے جس سے پہلے کچھ نہ تھا، تو وہ آخر ہے جس کے بعد کچھ نہیں ہو گا، تو وہ ظاہر ہے جس سے باہر کوئی چیز نہیں اور تو وہ باطن ہے جسکے علاوہ کوئی چیز نہیں میرا قرض ادا فرما، اور مجھے محتاجی سے رہائی عطا فرما۔
۱۸۔ مشکلات کی دوری کیلئے جناب سیدہ کی دعا
روایت میں ہے کہ پیغمبر نے یہ دعا حضرت امام علی اور حضرت فاطمہ علیھما السلام کو تعلیم دی اور ان دونوں کے لئے فرمایا جب بھی کوئی مصیبت آئے یا ظالم بادشاہ ڈرائے، یا کوئی چیز گم ہو جائے، تو وضو کرو اور خشوع و خضوع کے ساتھ دو رکعت نماز بجا لاؤ، اور پھر آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرتے ہوئے یوں پکارو۔
اے غیب اور رازوں کے جاننے والے، اے میرے دانا معبود، یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ اے پیغمبر اکرم کے دشمنوں کو متفرق کرنے والے، اے موسیٰ کے لئے فرعون کو فریب دینے والے، اور عیسیٰ کو تاریکی سے نجات دینے والے، اے قوم نوع کو غرق ہونے سے بچانے والے، اے اپنے بندے یعقوب پر رحم کرنے والے، اے ایوب سے مشکلات دور کرنے والے، اے حضرت یونس کو تاریکیوں سے نجات دینے والے، اے ہر نیکی کرنے والے، اور ہر اچھائی کی طرف ہدایت کرنے والے اور تمام اچھائیوں پر راہنمائی کرنے والے، اے ہر نیکی کا حکم دینے والے، اے ہر اچھائی کے پیدا کرنے والے، اے نیکیوں والے، تو میرا معبود ہے، جس سے میں تیری طرف راغب ہوں یقینا تو جانتا ہے اور تو ہے رازوں سے آگاہ، تجھ سے سوال کرتی ہوں کہ تو محمد و آل پر درود بھیج۔
(اس دعا کے بعد کوئی بھی حاجت طلب کریں خدا پوری کرے گا۔)
۱۹۔ اہم کاموں کی انجام دیہی کیلئے آنحضرت(ص) کی دعا
قرآن مجید اور سورہ یسیٰن کے صدقے، قرآن عظیم اور سورہ طہٰ کے صدقے، اے وہ ذات جو نیاز مندوں کی حاجت روائی پر قادر ہے، اے رازوں کے جاننے والے، اے مشکلات میں گھرے لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے والے، اے غم و اندوہ میں پھنسے لوگوں کو غم سے نجات دینے والے، اے بوڑھے اور عمر رسیدہ لوگوں پر رحم کرنے والے، اے چھوٹے بچے کو کاشم مادر میں روزی دینے والے، اے وہ جو کسی تفسیر کا محتاج نہیں ہے، محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور (فلاں) کام میرے لئے انجام دے۔
(فلاں کی جگہ اپنی حاجت بیان کریں)
۲۰۔ قضاء حاجت کیلئے جناب سیدہ کی دعا
روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) حضرت امام علی اور حضرت فاطمہ علیھما السلام کو نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں، دو رکعت نماز پڑھیں، ہر رکعت میں ایک بار سورہ حمد، تین بار آیت الکرسی، اور تین بار سورہ توحید تلاوت کریں۔ سورہ حشر لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل سے لے کر اختتام سورہ تک تین بارپڑھیں۔ پھر بیٹھیں اور تشہد بجا لائیں، حمد خداوندی کریں اور پیغمبر اسلام(ص) پر درود بھیجیں اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے دعا کریں۔
پھر یہ دعا پڑھیں۔
اے پروردگار: تیرے حضور خاص ناموں کے صدقے سے سوال کرتی ہوں، کیونکہ جب بھی ان ناموں کے ساتھ دعا کرتی ہوں تو وہ پوری ہوجاتی ہیں، اور تیری بارگاہ سے حق دار کے حق کے صدقے میں سوال کرتی ہوں، اور تیرے اس حق کے صدقے میں جو ان سب پر ہے جو تیرے علاوہ ہیں سوال کرتی ہیں کہ میرے فلاں فلاں کام انجام دے۔ (یہاں پر اپنی دلی حاجت طلب کریں۔)
۲۱۔ غم و اندوہ کے برطرف ہونے کیلئے دعا
امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے، میری مادر گرامی حضرت فاطمہ علیھا السلام ایک نماز پڑھتی تھیں جو انہیں حضرت جبرائیل نے تعلیم دی تھی دو رکعت نماز ہے جو اس طرح ہے، پہلی رکعت میں حمد اور سورہ انا انزلنا ایک مرتبہ اور دوسری رکعت میں ایک بار سورہ الحمد اور سورہ اخلاص کرتیں۔ پس جب سلام پھیر لیتیں تو تسبیحات حضرت زہرا پڑھتیں، اور پھر جانماز پر دو زانو بیٹھ کر اپنی حاجات کے لئے یوں دعا مانگتیں، پیغمبر اسلام(ص) پر درود بھیجنے کے بعد دعا کیلئے ہاتھ بلند کرتیں۔
اے پروردگار: آئمہ معصومین کے (متبرک) ناموں کو وسیلہ قرار دے کر تیری طرف آئی ہوں، اور ان (پاکیزہ) ہستیوں کے صدقے میں جن کی گہرائیوں سے سوائے تیرے کوئی آگاہ نہیں متوسل ہوئی ہوں، اور اس کے حق کے ساتھ جس کا حق تیرے نزدیک عظیم ہے، اور تیرے پاکیزہ ناموں کے ساتھ، اور تیری کامل موجودات کے ساتھ کہ جن کے متعلق تو نے مجھے امر کیا کہ تجھے ان ناموں کے ساتھ پکاروں، متوسل ہوئی ہوں۔
اور میں تیرے اس بزرگ اور عظیم الشان نام کے ساتھ جس کے متعلق حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ پرندوں کو آواز دیں اور پرندوں نے ان کو جواب دیا اور اس عظیم الشان نام کے ساتھ کہ جس کے ساتھ آتش نمرود کو حضرت ابراہیم پر ٹھنڈا ہونے کا حکم دیا تھا اور وہ ٹھنڈی ہوگئی، اور تیرے پسندیدہ ناموں کے ساتھ سوال کرتی ہوں اور تیری بارگاہ میں سب سے اچھے ناموں کے ساتھ، اور تیرے حضور میں سب سے عظیم الشان ناموں کے ساتھ، اور ان ناموں کے ساتھ جس سے دعاؤں کو جلدی قبول کرتا ہے، اور حاجت مند بہتر انداز میں اپنے مقصود کو حاصل کرتے ہیں، اور ہر اس چیز کے ذریعہ سے جس کا تو اہل ہے، تجھے پکارتی ہوں۔
اور میں تجھ سے توسل کرتی ہوں، اور تیری طرف متوجہ ہوں، اور تجھ سے مدد کی طلب گار ہوں، اور تجھ سے بخشش، احسان اور فضل کی طلب گار ہوں، اور تیری بارگاہ میں التجا کرتی ہوں، اور تیرے حضور میں خضوع و خشوع کرتی ہوں، اور اپنے افعال کا اقرار کرتی ہوں اور تیری بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتی ہوں۔
تیرے رسولوں اور پیغمبروں پر نازل شدہ کتابوں کے طفیل سے سوال کرتی ہوں، کہ ان سب پر درود بھیج، جیسے تورات، انجیل اور اول سے آخر تک عظیم الشان کتاب قرآن مجید کیونکہ تیر ااسم اعظم ان میں ہے، اور میں ان کتابوں میں موجود تیرے عظیم الشان ناموں کے طفیل سے تیری قربت کی طلب گار ہوں۔
بارالھا میں سوال کرتی ہوں کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج اور ان پر رحمتیں فرما، اور میرے کام میں وسعت کو ان کے امور کی وسعتوں کے ساتھ متصل فرما، اور ہر نیک کام میں انہیں مقدم فرما اور انہی سے کام کا آغاز فرما اور ان ایام میں آسمان کے دروازے میری دعاؤں کے لئے کھول دے اور اس دن اور رات میں میرے کام میں وسعت اور دنیا و آخرت میں میری حاجات کو پورا کرنے کیلئے اجازت صادر فرما۔
پس تحقیق، محتاجی اور بیچارگی نے مجھے روند ڈالا ہے، اور پریشان حالی مجھ پر مسلط ہو گئی ہے، نیاز مندی اور ضرورت نے تیری بارگاہ میں پناہ گزین بنا دیا ہے، ذلت و رسوائی میرے چہرے سے آشکار ہے، درماندگی مجھ پر غالب آگئی ہے گناہوں نے مجھے گھیر لیا ہے پس رافت و رحمت مجھ پر واجب ہو گئی ہے۔
یہ وہ وقت ہے جس میں تو نے اپنے اولیاء کی دعاؤں کو قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے، پس محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور اپنی قدرت سے فقر اور بیچارگی کو ہم سے دور فرما، اور اپنی نگاہ رحمت سے مجھے مشرف فرما اور مجھے اپنی وسیع رحمتوں میں داخل فرما۔
میری طرف توجہ فرما، ایسی توجہ کہ اگر کسی اسیر پر پڑے تو اس کو آزاد کردے، اور اگر کسی گمراہ پر پڑے تو وہ ہدایت یافتہ ہوجائے، اور اگر کسی بھٹکے ہوئے پر پڑے تو وہ اپنی منزل کو پا جائے، اور جب کسی محتاج پر پڑے تو اسے بے نیاز کردے، اور اگر کسی ضعیف پر پڑے تو اسے قوی بنا دے، اور جب کسی خوفزدہ پر پڑے تو ا س کو محفوظ کردے پس اے عظمت وبزرگواری والے! مجھے میرے اور اپنے دشمنوں کے درمیان نہ چھوڑنا قرار نہ دینا۔
ا ے وہ ذات جس کی کیفیت، جگہ اور قدرت سے سوائے اس کے کوئی واقف نہیں، اے وہ ذات جس نے ہواؤں کو آسمان سے روکا اور زمین کو پانی پر پھیلا دیا، اور بہترین ناموں کو اپنے لئے منتخب کیا، پاک ہے وہ ذات جس نے خود کو ایسے نام سے موسوم کیا کہ جوبھی اس نام سے پکارے اس کی حاجات پوری ہوجاتی ہیں۔
اے پروردگار میں نے تجھے اس نام کے ساتھ پکارا ہے کہ میرے لئے اس سے بہتر شفیع کوئی نہیں، اور محمد و آل محمد کے وسیلے سے سوال کرتی ہوں کہ محمد پر درود بھیج اور میری حاجات کو پورا فرما، اور میری التجاؤں کو سن، محمد، علی، فاطمہ، حسن، حسین، محمد، جعفر، موسیٰ، علی، محمد، علی، حسن اور حجۃ صلوة اللہ علیم اجمعین تک اپنی برکتیں اور رحمتیں پہنچا تاکہ وہ تیری بارگاہ میں میری شفاعت کریں اور تو انہیں میرے لئے شفیع قرار دے، اور مجھے ناامید نہ کرنا، اس صدقے میں تیرے سوا کوئی معبود نہیں، اور تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں، اے کریم محمد و ال محمد کے صدقے اے کریم میری فلاں فلاں حاجت کو پورا فرما،
۲۲۔ مصیبتوں سے نجات کیلئے جناب سیدہ کی دعا
روایت ہے کہ شام میں ایک قیدی عرصہ سے قیدس تھا۔ ایک رات خواب میں حضرت زہرا کو دیکھتا ہے جو اس کے پاس آکر فرماتی ہیں کہ اس دعا کو پڑھو، اس مرد نے وہ دعا جناب سیدہ سے سیکھی اور دعا مانگی اور پھر وہ آزاد ہو کر گھر لوٹ آیا، اور وہ دعا یہ ہے۔
اے پروردگار: عرش اور اس کے بلند کرنے والے کا واسطہ، وحی اور اس کے نازل کرنے والے کا واسطہ نبی اور نبوت دینے والے کا واسطہ، بیت اللہ اور س کے تعمیر کرنے والے کا واسطہ ۔
اے ہر آواز کے سننے والے، اور ہر گمشدہ کو دریافت کرنے والے ، اے مرنے کے بعد جانوں کے زندہ کرنے والے، محمد و آل محمد پر درود بھیج، مجھے اور مشرق و مغرب میں تمام مومن مردوں اور عورتوں کو جلدی سے اپنی بارگاہ سے رہائی فرما۔
اس گواہی کے ساتھ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد تیرے بندے اور رسول ہیں، ان پر اور ان کی طیب و طاہر اولاد پر درود و سلام ہو۔
خطرات اور بیماریوں سے دور رہنے کیلئے دعا
خطرات سے محفوظ رہنے کی دعا
اللہ کے بابرکت نام سے جو بڑا مہربان ہے، اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے، تیری رحمت کی محتاج ہوں، میری فریاد رسی فرما، اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی مجھے میرے حال پر نہ چھوڑ اور میرے تمام امور کی اصلاح فرما۔
دوسری روایت یوں ہے۔
اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! تیری رحمت کے سایہ میں پناہ گزین ہوں، مجھے ایک لخط بھی میرے حال پر نہ چھوڑ، اور میرے تمام امور کی اصلاح فرما۔
۲۴۔ بخار سے نجار کے لئی دعا
خدا کے بابرکت نام سے جو بخشنے والا مہربان ہے، اللہ کے نام کے سے جو سراسر نور ہے، جو نور ہی نور ہے، اللہ کے نام کے ساتھ جو نورِ علی نور ہے، اس ذات کے نام سے جو تمام امورکی تدبیر کرنے والا ہے، اس ذات کے نام سے جس نے نور سے نور کو پیدا کیا ہے، تمام تعریفیں اس ذات کے ساتھ مخصوص ہیں، جس نے نور کو پیدا کیا، اور نور کو کوہ طور پر نازل کیا، کتاب میں لکھا ہوا ہے، کاغذ پر پھیلا ہوا ہے، ایک معین اندازے کے مطابق ایک بزرگ و جلیل القدر نبی پر۔
تمام تعریفیں اللہ کے ساتھ ہیں جو مذکورہ عزتوں والا ، اور مشہور و معروف افتخارات والا، تلخ و شیریں حالات میں شکر کو قبول کرنے والا، اور ہمارے آقا و سردار محمد وآل محمد پر درود و سلام بھیجنے والا۔
یہی دعا دوسری روایت میں یوں ہے۔
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا، رحم کرنے والاہے ، نور کے پروردگار کے نام سے، اس پروردگار کے نام سے جو جب بھی کسی شے کا ارادہ کرے اور کہے ہوجا تو ہوجاتی ہے۔ اس پروردگار کے نام کے ساتھ جو آنکھوں میں چھپی خیانتوں اور دل کے مخفی رازوں سے بھی آگاہ ہے۔
اس ذات کے نام کے ساتھ جس نے نور کو نور سے پیدا کیا، اس ذات کے نام کے ساتھ جو نیکیوں کے ساتھ معروف ہے، اس ذات کے نام کے ساتھ کہ جس نے نور کو کوہ طور پر بمطابق معین اندازے کے جلیل القدر اور بزرگ نبی پر کوہ طور پر نازل کیا جیسا کہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
۲۵۔ بخار کے لئے دعا
اے پروردگار تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو بلند اور عظیم المرتبہ ہے، ہمیشہ سے قائم بادشاہی والا ہے، اور عظیم احسان والا، اور بہت زیادہ باکرامت ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو بلند اور عظیم المرتبہ ہے، مکمل کلمات کے مالک اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے، فلاں (مشکل میں پھنسے شخص کا نام لیں) کی مشکلات کو حل فرما۔
۲۶۔ بخار کیلئے دعا
شب و روز میں آرام کرنے والے اسی کے دم سے ہیں، جو سننے والا اور جاننے والا ہے، اے بخار اگر تو خدا کے بزرگ اور اس کے گرامی قدر رسول پر ایمان رکھتا ہے تو پھر ہڈیوں کو چور چور نہ کر، اور گوشت کو نہ کھا، اورخون نہ پی۔
اس تعویذ کے حامل کو چھوڑ کر کسی ایسے کی طرف جا، جو خدائی بزرگ، اور گرامی قدر پیغمبر اکرم اور ان کے خاندان، یعنی محمد، علی، فاطمہ، حسن، حسین، پر ایمان نہ رکھتا ہو۔
دنوں اور مہینوں میں جناب سیدہ کی دعائیں
۲۷۔ ہفتہ کے دن کی دعا
اے پروردگار: اپنی رحمتوں کے خزانے ہم پر کھول دے، اور اے پروردگار ہمیں اس رحمت سے سرفراز فرما کہ جس کے بعد دنیا و آخرت میں ہمیں عذاب نہ آئے، اور اپنے وسیع و عریض فضل سے پاک اور حلال رزق عطا فرما، اور ہمیں سوائے اپنی ذات کے کسی کا محتاج نہ کرنا۔ ے پروردگار: ہمیں شکر بجا لانے کی توفیق عطا فرما اور ہماری محتاجی اور نیاز مندی اور غیر سے بے نیازی اور عزت نفس میں اضافہ فرما۔
اے پروردگار: دنیا میں ہمارے لئے وسعت قرار دے۔ اے پروردگار: اس حال میں کہ ہم تیرے دیدار کے طالب ہیں، ہم پناہ مانگتے ہیں کہ تو ہم سے رخ موڑے جبکہ ہم تیرے دیدار کے طالب ہیں۔
محمد وآل محمد پر درود بھیج، اور اپنی پسندیدہ چیز ہمیں عطا فرما، اور اس کو ہمارے لئے قوت بنا جس طرح ہم چاہتے ہیں، اے بہترین رحم کرنے والے۔
۲۸۔ اتوار کے دن کی دعا
اے پروردگار: میرے آج کے دن کے آغاز میں فلاح، اور اس کے اختتام پر کامیابی اور اس کے درمیان میں سعادت مندی عطا فرما۔ اے پروردگار: محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور ہمیں ان لوگوں سے قرار دے جو تیری بارگاہ میں آئے اور تو نے انہیں قبول کر لیا ہے، پاس انہوں نے تجھ پرتوکل کیا ور تو ہی ان کی کفایت کرتا ہے، اور وہ تیری بارگاہ آہ و زاری سے التجا کرتے ہیں اور تو نے انہیں اپنی رحمت سے نوازا ہے۔
۲۹۔ پیر کے دن کی دعا
اے پروردگار: عبادت و بندگی میں قوت، آیات قرآنی کے سمجھنے میں شعور، اور تیرے احکامات کے جاننے میں سمجھداری کا سوال کرتی ہوں۔ اے پروردگار: محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور قرآن کو ہمارے شعور کی دسترس سے دور اور صراط مستقیم کوگم شدہ اور حضرت محمد کو ہم سے رخ موڑنے والا قرار نہ دے۔
۳۰۔ منگل کے دن کی دعا
اے پروردگار: ہمیں لوگوں کی غفلت کے مقابلے میں ذکر کرنے والا اور لوگوں کے ذکر کو ہمارے لئے شکر قرار دے۔ اور ہماری زبان سے اچھی اور بہترین چیزوں کے جاری ہونے کو ہماری دلی نیتوں سے متصل فرما۔
اے پروردگار: ہمارے گناہوں سے تیری بخشش وسیع تر، اور ہمارے اعمال سے تیری رحمت زیادہ امید دلانے والی ہے، محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور ہمیں نیک اور اعمالِ صالح بجا لانے کی توفیق عطا فرما۔
۳۱۔ بدھ کے دن کی دعا
اے پروردگار: ہمیں اپنی ہمیشہ بیدار نگاہوں سے، اور ان سے کہ جس پر کبھی حملہ نہیں کیا جا سکتا اور اپنے بزرگ ناموں سے حفاظت فرما، اور محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور ہمارے ایمانوں کی حفاظت فرما، اگر تیرے علاوہ کوئی اور محافظ ہوتا تو میں ختم ہوچکا ہوتا، اور ہماری کوتاہیوں پر پردے ڈال دے، اگر تیرے علاوہ کوئی اور پردے ڈالنے والا ہوتا تو ہمارے عیب کب کے ظاہر ہو چکے ہوتے، اور ان تمام مذکورہ چیزوں کو ہمارے لئے مطیع قرار دے، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا اور جلدی قبول کرنے والا ہے۔
۳۲۔ جمعرات کے دن کی دعا
اے پروردگار: میں ہدایت اور تقویٰ، عفت و بے نیازی، اور آپ کے پسندیدہ اعمال کے بجا لانے کی طلب گار ہوں۔
اے پروردگار: اپنی کوتاہ ہمتوں کے مقابل میں قوت اور اپنی محتاجی کے مقابل میں بے نیازی اور اپنی جہالت کے مقابل میں تیرے حلم کا سوال کرتی ہوں۔
اے پروردگار: محمد و آل محمد پر درود بھیج اور اپنا شکر، ذکر، اطاعت اور عبادت بجا لانے میں ہماری مدد فرما، تجھے اپنی رحمتوں کا واسطہ، اے بہترین رحم کرنے والے۔
۳۳۔ جمعۃ المبارک کی دعا
اے پروردگار: ہمیں ایسے لوگوں کی قرابت نصیب فرما جنہوں نے تیری قربت حاصل کی، اور ایسے عزت داروں سے قرار دے جو تیری بارگاہ میں عقرب ہوئے ہیں، اور ہمیں ان کامیاب لوگوں سے قرار دے جو تیرے حضور درخواست کرتے ہیں اور گریہ کرتے ہیں۔
اے پروردگار: ہمیں ایسے لوگوں سے قرار دے جو قیامت کے دن (جو تیرے دیدار کا دن ہے) تیرا دیدار کریں گے ، اور ہمیں اس وقت تک موت نہ دے جب تک تیری ذات راضی نہ ہوجائے۔ اے پروردگار: ہمیں ایسے لوگوں سے قرار دے جو عمل میں مخلص اور تیری تمام مخلوقات سے زیادہ تجھے دوست رکھتے ہوں۔
اے پروردگار: محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور ہمیں ایسی حتمی اور قطعی بخشش سے نواز جس کے بعد نہ ہم گناہ انجام دیں اور نہ ہی خطا اور اشتباہ کا ارتکاب کریں۔
اے پروردگار: محمد و آل محمد پر درود بھیج، ایسا درود جو رشد و ہدایت کرنے والا، ہمیشہ رہنے والاہو، پاکیزہ اور پے در پے ہو، اور برابر ہو، تجھے اپنی رحمتوں کا واسطہ اے رحم کرنے والے۔
۳۴۔ جمعۃ المبارک کی دعا
حضرت صفوان امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ محمد بن علی الحلبی جمعہ کے دن میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آج کے دن میرے لئے بہترین کام تعلیم دیں جو انجام دوں تو امام نے فرمایا میں نہیں جانتا پیغمبر اسلام(ص) کے نزدیک حضرت فاطمہ زہرا سے زیادہ گرامی اور عزیز کوئی دوسرا ہو اور نہ ہی اس چیز سے بہتر چیز ہے جو زہرا کو تعلیم دی اور وہ یوں ہے۔
جمعہ کے دن غسل کرو، اور چار رکعت نماز بجا لاؤ، دو رکعت کرکے، پہلی رکعت میں سورہ حمد اور پچاس مرتبہ سورہ اخلاص، دوسری رکعت میں سورہ حمد اور پچاس مرتبہ سورہ العادیات، تیسری رکعت میں سورہ حمد اور پچاس مرتبہ سورہ اذا زلزلت، چوتھی رکعت میں سورہ حمد اور پچاس مرتبہ سورہ اذا جاء نصر اللہ والفتح، یہ وہ آخری سورہ ہے جو پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوئی، پس جب نماز سے فارغ ہوجائیں تو یہ دعاپڑھیں۔
اے میرے پروردگار اور میرے آقا، ہر کوئی آمادہ، تیار اور زادراہ لیے ہے تاکہ صلہ، عطا، حصہ، عطیہ، بخشش اور انعام حاصل کرنے کے لئے مخلوق کے سامنے جائے، پس اے میرے پروردگار میرا تیار ہونا، آمادہ ہونا، زادراہ لینا، اور تیری عنایات سے امید رکھنا، اور تیری نیکیوں کی ساتھ معروف ہونا، اور تیرا پسندیدہ عطیہ اور تیرے انعام کے حصول کی خاطر تیری طرف آیا ہوں۔
پس تو مجھے ان چیزوں سے محروم نہ فرما، اے وہ ذات جس کی بارگاہ سے کوئی درخواست گزار محروم نہیں ہوا، اور عطیہ اور بخشش کے طلب گار کے لئے بخشش اور عطیہ میں کمی نہیں ہوئی۔ تحقیق میں سابقہ عمل صالح لے کر تیری بارگاہ میں حاضر نہیں ہوئی، نہ کسی مخلوق کی سفارش کی امیدوار ہوں بلکہ تیری بارگاہ میں محمد اور اہل بیت محمدپر تیرا درود و سلام ہو شفیع بنا کر حاضر ہوئی ہوں۔ اور تیری عظیم عفو و درگذر سے امید رکھتی ہوں، وہ عفو و درگذر جس کا ان گناہگاروں کو جو تیرے محرمات کو انجام دیتے ہیں وعدہ دیا ہے، جس طرح کہ مسلسل فعل حرام انجام دینے والوں کو بھی بخشش اور درگذر سے محروم نہیں رکھا۔
اے میرے آقا بہت زیادہ نعمت دینے والا ہے اور میں بہت زیادہ خطا کار ہوں۔ محمد و آل محمد کے توسل سے سوال کرتی ہوں کہ میرے گناہان کبیرہ کو بخش دے۔ کیونکہ بڑے گناہوں کو بڑا ہی معاف کرتا ہے۔ اے عظیم، اے عظیم، اے عظیم، اے عظیم۔
۳۵۔ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر جناب سیدہ کی دعا
امام رضا سے روایت ہے کہ ایک حدیث میں فرماتے ہیں، اے میرے شیعوں، جیسے ہی رمضان کا چاند نظر آئے، تو اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہ کرو بلکہ قبلہ رو کھڑے ہوکر، ہاتھ آسمان کی طرف بلند کریں اور یہ دعا پڑھیں۔
ہمارا اور آپ کا پروردگار تو عالمین کا پالنے والا ہے، پروردگار اس مہینے کے چاند کوہمارے لئے مبارک قرار دے، اور ہمیں اس مہینے کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں اس میں سلامتی عطا فرما، اور اس مہینے کو ہماری طرف سے سلامتی، آرام اور سکون میں رکھ اور ہمیں اس مہینے اپنی اطاعت اور عبادات میں مشغول رکھ، بیشک تو ہر کام پر قادر ہے۔
پس امام نے فرمایا، حضرت فاطمہ اس دعا کو پڑھتی تھیں، جب بھی ماہ رمضان کا مہینہ ظاہر ہوتا تو حضرت زہرا کا نور جاند کے نور پر غالب آجاتا، چاند چھپ جاتا اور جب بھی حضرت زہرا منظر سے ہٹ جاتیں تو چاند ظاہر ہوجاتا۔
سونے کے آداب میں جناب سیدہ کی دعائیں
۳۶۔ سونے کے آداب میں
تمام تعریفیں اس ذات کے ساتھ مخصوص ہیں جو کفایت کرنے والا ہے، پاک ہے وہ ذات جو بلند تر ہے، میرے لئے خدا کافی ہے، وہی انجام پائے گا جو خدا چاہے گا، پکارنے والے کی آواز خدا سنتا ہے، خدا کے علاوہ نہ پناہگاہ ہے اور نہ کوئی ملجاء ماویٰ ہے، میں نے اپنے اور تمہارے خدائے وحدہ لاشریک پر توکل کیا ہے، تمام چوپایوں کی لگام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
تمام تعریفیں اس ذات سے مخصوص ہیں، جس کی کوئی اولاد نہیں ہے، اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے، اور وہ کبھی کسی کی سرپرستی میں نہ تھا اور اس کی بارگاہ میں اس کی بڑھائی زیادہ بیان کرو۔
۳۷۔ سوتے وقت
حضرت فاطمہ زہرا سے روایت ہے کہ میں نے سونے کیلئے بستر بچھا چکی تھی کہ پیغمبر اسلام(ص) ہمارے گھر تشریف لائے میرے قریب تشریف لائے اور فرمایا، اے جان سے پیاری فاطمہ، سونے سے پہلے چار کام ضرور انجام دیا کرو۔
1۔ ختم قرآن کرو 2۔ پیغمبروں کو اپنے لئے شفیع قرار دیں 3۔ مومنین کو خود سے راضی کرو 4۔ حج و عمرہ کو انجام دو
یہاں تک پہنچنے کے بعد پیغمبر اسلام(ص) فرماتے ہیں، جب آپ تین مرتبہ سورہ اخلاص تلاوت کریں تو پورے ختم قرآن کا ثواب ہے۔ 2۔ اور جب مجھ پر اور انبیاء ما سلف پر درود بھیجیں تو قیامت تک آپ شفیع ہیں۔ 3۔ اور جب مومنین کیلئے استغفار کریں گی تو وہ آپ سے راضی ہوجائیں گے۔ 4۔ اور جب مذکورہ دعا تلاوت کریں گی تو گویا حج و عمرہ انجام دیا ہے۔
سبحان اللّٰہ والحمدللہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر
پاک ہے پروردگار تمام تعریفیں اس سے مخصوص ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔
۳۸۔ سوتے وقت کی دعا
1۔ اللہ اکبر 34مرتبہ
2۔ الحمد لللّٰہ 33مرتبہ
3۔ سبحان اللہ 33مرتبہ
۳۹۔ بر ے خوابوں سے بچنے کیلئے دعا
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ نے برے اور پریشان کرنے والے خوابوں کے متعلق پیغمبر اسلام(ص) سے شکایت کی تو پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا، جب بھی ایسے خواب دیکھیں تو کہیں، ایسے میں اس کی بارگاہ میں پناہ لیتی ہوں جس کی بارگاہ میں اس کے مقرب فرشتوں، اور اس کے نبیوں اور رسولوں اور صالح بندوں نے پناہ لی۔ اس ڈراؤنے خواب سے میرے دین اور میری دنیا کو کوئی نقصان نہ ہو اور پھر تین مرتبہ اپنی بائیں جانب تھوک دیں۔
۴۰۔ بے خوابی سے بچنے کیلئے دعا
امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت فاطمہ زہرا نے کم خوابی اور بے خوابی کے متعلق شکایت کی، تو پیغمبر نے فرمایا، بیٹی یوں پڑھیں۔
اے بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھلانے والے، اے عریاں بدنوں کو لباس پہننانے والے اور چھپانے والے، اے زخمی رگوں کو آرام دینے والے، اے بیدار آنکھوں کو نیند دینے والے، بے تاب رگوں کو آرام دے، اور جلدی سے میری آنکھوں کو نیند عطا فرما۔
لوگوں کی تعریف یا مذمت میں جناب سیدہ کی دعائیں
۴۱۔ اپنے شوہر نامدار کیلئے
اپنی وصیت میں جناب سیدہ نے جناب امیر سے کہا، جب میں دنیا سے چلی جاؤں تو اپنے ہاتھوں سے مجھے غسل دینا، حنوط کرنا، کفن دینا اور رات کی تاریکی میں مجھے دفن کرنا، اور فلاں اور فلاں میرے جنازے میں شریک نہ ہوں، اور میرے وصیت نامے میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرنا۔ دوبارہ ملاقات تک آپ کو خدا کے حوالے کرتی ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو بہشت میں اپنے جوار میں ملائے۔
۴۲۔ اسماء بنت عمیس کیلئے
روایت ہے کہ حضرت زہرا نے اسماء بنت عمیس سے کہا، میں کمزور ہو گئی ہوں اور میرا گوشت ختم ہو گیا ہے کیامجھے کوئی ایسی چیز نہیں دیں گی جو مجھے ڈھانپ لے، کہاجاتا ہے کہ اسماء لکڑیوں سے بنا ہوا تختہ لائیں اور زمین پر رکھ دیا اور پھر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو میخوں سے تختہ کے اطراف میں کھڑا کردیا اور ایک کپڑے سے اس کو ڈھانپ دیا۔ جناب زہرا نے اس تختے کو دیکھا تو فرمایا کہ یونہی میرے لئے درست کرو اور مجھے چھپا دو، خداوند تجھے آتش جہنم سے چھپائے۔
۴۳۔ اپنے اوپر ستم کرنے والوں کے متعلق فرمایا
اے پروردگار: میں تیری بارگاہ میں شکایت کرتی ہوں، تیرے برگزیدہ رسول اور پیغمبر کے چلے جانے پر اور اس کی امت کے پلٹ جانے پر اور ہمارے حق کے غضب کرنے پر، وہ حق جو ہمارے لئے اپنے نبی پر نازل شدہ کتاب میں ہمارے لئے قرار دیا ہے۔
قیامت کے متعلق جناب سیدہ کی دعائیں
۴۷۔ روز قیامت اپنے پیروکاروں سے عذاب کی برطرفی کیلئے
محمد بن مسلم ثقفی روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر کو فرماتے سنا کہ فرما رہے تھے، کہ فاطمہ زہرا جہنم کے پاس کچھ دیر توقف کریں گی جبکہ اس دن ہر ایک کی پیشانی پر کفر و ایمان نقش ہوں گے، تو اس وقت حکم دیا جائے گا کہ وہ محب جس نے زیادہ گناہ انجام دیئے ہیں اور اس کو جہنم میں ڈالو، جیسے ہی جناب زہرا اس کی پیشانی پر محمد و آل محمد کے خاندان سے محبت لکھی دیکھیں گی۔ تو یوں فرمائیں گی۔
اے میرے پروردگار،اے میرے مولا تو نے میرا نام فاطمہ رکھا ہے، تو نے میرے محبوں اور میرے فرزند کے محبوں کو جہنم کی آگ سے نجات دی ہے جبکہ تیرا وعدہ ہے اور تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ تو اس وقت اللہ عزوجل فرمائیں گے۔ اے فاطمہ سچ کہا ہے۔ میں نے تیرا نام فاطمہ رکھا، اور جو بھی تجھ سے عقیدت رکھتا ہو اور تیری پیروی کرے اور تیرے فرزندوں کو دوست رکھتا ہو اور ان کی پیروی کرے ، وہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا اور میرا وعدہ حق ہے اور میں اپنے وعدہ کے خلاف بھی نہیں کرتا۔
پھر فرمایا۔ جس کے چہرے پر ایمان دیکھو، اس کو بازو سے پکڑ کر بہشت میں داخل کردو۔
۴۸۔ محشر میں اپنے محبین کی شفاعت کیلئے دعا
روایت ہے کہ روز قیامت میں ایک فرشتہ جناب زہرا کی خدت میں آئے گا، جو اس سے پہلے کسی کے پاس نہیں گیا ہو گا اور بعد میں بھی کسی کے پاس نہیں جائے گا اور آکر کہے گا، آپ کے پروردگار نے آپ کو سلام بھیجا ہے، فرمایا ہے مجھ سے مانگو تاکہ تجھے عطا کروں، تو پھر جناب زہرا نے یوں فرمایا۔
اپنی نعمتوں کومجھ پر تمام کیا، اورکرامت و عزت کو میرے لئے متبرک کیا، اوراپنی جنت سے مجھے نوازا میں اپنے فرزندان اور انکی اولادوں اور ان سے محبت کرنے والوں کی لئے جنت کی طلب گار ہوں۔
ایک اور روایت میں ہے۔
اپنی نعمتوں کو مجھ پر تمام کیا ،اور اپنی بہشت سے مجھے نوازا، اور مجھے اپنی کرامت سے عزت بخشی، اور تمام عورتوں پر مجھے فضیلت دی، لہذا آپ سے سوال کرتی ہوں کہ اپنے فرزندوں اور ان کی نسل اور ان سے محبت کرنے والوں کیلئے مجھے شفیع قرار دے۔
پھر اللہ تعالیٰ عزوجل نے آپ کے فرزندان اور ان کی اولادوں اور ان سے محبت کرنے والوں کی حفاظت حضرت زہرا کے سپرد کردی،
تو پھرحضرت زہرا نے فرمایا تمام تعریفیں اس ذات کیلئے خاص ہیں جس نے ہم سے دکھ، درد کو روکا اورمیری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کی۔
۴۹۔ اپنے محبین کی شفاعت کرتے ہوئے
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص) حضرت زہرا کے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ حضرت زہرا مفموم اور غمزوہ تھیں، پیغمبر نے فرمایا، بیٹی کس چیز سے پریشان ہو؟ آپ نے کہا اے میرے بابا، محشر اور اس میں لوگوں کی بے بسی سے پریشان ہوں، تو پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا، اے بیٹی وہ دن بہت عظیم ہے۔
اس وقت فرمایا پھر جبرائیل کہیں گے کہ اے فاطمہ اپنی حاجت کہو تو اس وقت کہنا۔
پروردگار، مجھے حسن وحسین کو دکھاؤ،
تو اس وقت وہ دونوں آپ کے پاس لائے جائیں گے، اس حال میں کہ سید الشہداء کے گلہ مبارک سے خون بہہ رہاہو گا۔
پھر جبرئیل بولیں گے، اے زہرا اپنی حاجت بیان کرو تو اس وقت کہنا، "اے پروردگار، میرے شیعہ تو اس وقت ارشاد قدرت ہو گا ان کو بخش دیا ہے، پھر کہنا میرے فرزندوں کے شیعہ، پروردگار عالم کہے گا، ان کو بھی بخش دیا، پھر کہنا پروردگار، میرے شیعوں کے شیعہ تو ارشاد پروردگار ہوگا کہ انہیں آزاد کیا، جو بھی آپ سے عقیدت رکھتا ہوگا وہ جنت میں آپ کے ساتھ ہو گا۔
۵۰۔ محشر مین اپنے شیعوں کے گناہ بخشوانے کیلئے جناب سیدہ کی دعا
امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ قیامت کے دن منادی ندا دے گا، آج آپ پر غم اور ملال نہیں، پھر ندا دے گا، یہ فاطمہ پیغمبر اسلام(ص) کی بیٹی ہیں، وہ اور جو بھی ان کے ساتھ ہے جنت میں جائے گا، -پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتے کو بیھجے گا، کہ اے فاطمہ اپنی حاجت کو بیان کرو، تو وہ یوں فرمائیں گی۔
اے پروردگار: میری حاجت یہ ہے کہ مجھے اور میری اولاد کی مدد کرنے والوں کو بخشش دے۔
۵۱۔ قیامت کے دن میں اپنے پیروکاروں کی شفاعت کیلئے اور سید الشہداء کے قاتلوں کی مذمت میں
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا ہے کہہ رہے تھے، کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت فاطمہ عرش الہی کے سامنے آکر یوں فرمائیں گی۔ اے میرے پروردگار اے میرے مولا، میرے اورمجھ پر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ فرما۔ پروردگار، میرے اور میرے حسین کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، اتنے میں خداوند تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی، اے میری حبیبہ، اور میرے حبیب کی حبیبہ، مجھ سے مانگو تاکہ میں تجھے عطا کروں، تم شفاعت کرو تاکہ میں قبول کروں، مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم، ظلم کرنے والے میری نگاہوں سے مخفی نہیں رہیں گے، تو پھر حضرت زہرا یوں فرمائیں گی، اے میرے پروردگار اور میرے آقا و مولا، میرے بیٹوں اور میرے پیروکاروں اور میرے فرزندوں کے پیروکاروں اور میرے محبین اور میرں فرزندوں کے محبین کو بخش دے۔
پس اسی دوران اللہ تعالیٰ کی جانب سے ندا آئے گی، کہاں ہیں فرزندان فاطمہ اور ان کے پیروکار اور محبین اور ان کے فرزندوں کے محبین، اتنے میں وہ فرشتگانِ رحمت الہی جو ان کے اطراف میں کھڑے ہوں گے حرکت میں آئیں گے، جبکہ فاطمہّ ان کے آگے آگے چلیں گی، یہاں تک وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔
۵۲۔ محشر میں سید الشہداء کے قاتلوں کے بارے میں
حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) سے روایت کرتے ہیں، کہ قیامت کے دن عرش الہیٰ سے منادی ندا کرے گا، اے اہل محشر، اپنی آنکھیں بند کر لو کیونکہ فاطمہ بنت محمد اپنے حسین کی خون آلود قمیض لے کر گذر رہی ہیں۔ پھر فاطمہ عرش الہی کا پایا پکڑ کر کہیں گی۔
تو قدرت والا اور عادل ہے، میرے اور میرے بیٹے کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما،
رب کعبہ کی قسم، اللہ تعالیٰ میری بیٹی کے حق میں فیصلہ دیں گے، پھر حضرت زہرا یوں فرمائیں گی، اے پروردگارمجھے ان لوگوں کے لئے شفیع قرار دے جو میرے فرزند کے غم میں روتے تھے، پس اللہ تعالیٰ انہیں شفیع قرار دیں گے۔
۵۳۔ محشر میں امام حسین کے قاتلوں کے بار ے میں
امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اول سے آخر تک تمام مخلوقات کو ایک اونچی جگہ جمع کریں گے، اتنے میں فاطمہ زہرا امام حسین کا خون آلود قمیض لے کر کہیں گی۔
اے پروردگار یہ میرے فرزند کی قمیض ہے، اور تو جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا کیا ظلم کئے گئے،اتنے میں خدائے بزرگ کی جانب سے ندا آئے گی، اے فاطمہ میری رضا تیرے لئے ہے تو پس حضرت زہرا عرض کریں گے، پروردگار، اس کے قاتلوں سے انتقام لینے میں میری مددد فرما، تو پھر بارگاہ ایزدی سے حکم آئے گا، کہ ایک گروہ جہنم سے باہر نکالو، پس امام حسین کے قاتلوں کو جہنم سے اس طرح باہر لایا جائے گا، جس طرح پرندے، دانے کو اٹھاتے ہیں پھر انہیں جہنم کی طرف لوٹا دیا جائے گا اور اس میں انہیں طرح طرح کے عذاب دیئے جائیں گے۔
۵۴۔ محشر میں اپنے بیٹے کے قاتلوں کے متعلق فرمایا
پیغمبر اسلام(ص) سے روایت ہے۔ میری بیٹی فاطمہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ خون آلود قمیض ہاتھ میں ہو گی، عرش الہی ایک ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر کہیں گیں، اے عادل، میرے اور میرے فرزند کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما۔
ایک اور روایت میں یوں ہے اے عادل، قادر میرے اور میرے فرزند کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما۔
اسی طرح ایک اور روایت میں یوں ہے۔
اے حاکم، میرے اور میرے فرزند کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما، ربِ کعبہ کی قسم، خدا میری بیٹی کے حق میں فیصلہ کریں گے۔
۵۵۔ قیامت کے دن میں اپنے حق کی پہچان کیلئے
روایت میں ہے کہ حضرت جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا، اے فرزند رسول آپ پر فدا اپنی جدہ حضرت فاطمہ زہرا کے فضائل کے بارے میں کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں کہ اگر اسے میں شیعوں میں بیان کروں، تو وہ خوش ہوجائیں، پھر امام علیہ السلام نے فرمایا، خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے اے اہل محشر میں نے محمد، علی، حسن، حسین اور فاطمہ کو کیسے باعزت قرار دیا ہے اے اہل بہشت اپنے سروں کو جھکالو اور آنکھیں بند کرلو، یہ فاطمہ ہے جو بہشت کی طرف جارہی ہیں پھر وہ جنت کے کنارے پہنچ کر توقف کریں گی، آواز پروردگار آئے گی اے میرے حبیب کی بیٹی کیوں رک گئی ہو جبکہ میں نے حکم دیا ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ، اتنے میں حضرت زہرا عرض کریں گی، پروردگار میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن میری قدر و قیمت پہچانی جائے، پھر بارگاہ ایزدی سے آواز آئے گی، اے میرے حبیب کی بیٹی، واپس آؤ اور جس جس دل میں تیری محبت یا تیرے فرزندوں میں سے کسی کی بھی محبت ہو، اس کو بازو سے پکڑو اور بہشت میں داخل کرو۔
۵۶۔ اپنے والد کی امت کی شفاعت کرتے ہوئے فرمایا
روایت ہے کہ حضرت زہرا نے جو وصیتیں اپنے شوہر نامدار سے کیں ان میں سے ایک ہے کہ جب مجھے دفن کریں، تو فلاں برتن میں رکھے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے کو میرے ہمراہ دفن کرنا، پھر جب حضرت جبرئیل اس کاغذ کے ٹکڑے کو لے آئے، جس میں حضرت فاطمہ کا (حق مہر) پیغمبر اسلام(ص) کی امت کی شفاعت لکھا پس قیامت کے دن میں کہوں گی۔
الہی یہ پیغمبر اسلام(ص) کی امت کی شفاعت کی قرار داد ہے۔
مختلف امور میں جناب سیدہ کی دعائیں
۵۷۔ جنت میں داخل ہوتے وقت
روایت ہے جب حضرت زہرا بہشت میں جائیں گی، تو وہاں پراللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے لئے تیار شدہ کرامات کا مشاہدہ کریں گی فرمائیں گی، اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام کے ساتھ جو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے، تمام تعریفیں اس ذات کے ساتھ مخصوص ہیں، جس نے غم و اندوہ کو ہم سے دور کیا، بیشک ہمارا پروردگار بخشنے والا، شکر قبول کرنے والا ہے، وہ ذات جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے بہشت میں جگہ دی، جس میں ہمیں نہ غم پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی دکھ اس اثناء میں اللہ تعالیٰ حضرت زہرا پر وحی کریں گے کہ اے فاطمہ مجھ سے سوال کرو تاکہ تمہیں عطا کروں، اپنی آرزو بیان کرو تاکہ میں تمہیں خوشحال کروں، پس پھر حضرت زہرا یوں عرض کریں گی، پروردگار، تو ہی میری سب سے بڑی آرزو ہے، میں تجھ سے سوال کتی ہوں کہ میرے محبین اور میرے فرزندوں کے محبین کو عذاب جہنم سے بچا، اس وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آئے گی۔ اے فاطمہ مجھے اپنی عزت و جلال اور بلند مقام کی قسم زمین و آسمان کی خلقت میں دو ہزار سال قبل اپنی ذات کی قسم کھائی ہے۔ میں تیرے اور تیرے خاندان کے دوستوں کو جہنم کا عذاب نہیں دوں گا۔
۵۸۔ آسمان سے مائدہ طلب کرتے ہوئے
ابن عباس نے ایک طویل حدیث میں روایت کی ہے۔
ایک دن نبی اکرم حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لائے تودیکھا کہ آپ کا چہرہ زرد ہے۔ آنحضرت(ص) نے سبب دریافت کیا تو عرض کیا کہ تین دنوں سے کوئی غذا نہیں کھائی۔ اس وقت ایک کمرے میں گئیں اور جائے نماز بچھائی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی اور ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو آسمان کی طرف بلند کیا، اور عرض کیا۔
اے پروردگار ، اے میرے مولا، یہ آپ کے نبی محمد ہیں اور یہ علی آپ کے نبی کے چچا زاد بھائی ہیں یہ حسن اور حسین ہیں جو آپ کے نبی کے نواسے ہیں۔
پروردگار ہم پر مائدہ نازل فرما جس طرح بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا ان لوگوں نے اسے کھایا اور کفران نعمت کی۔ پیروردگار تو اسے ہم پر نازل فرما ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
دوسری روایت میں ہے۔
پروردگار بیشک فاطمہ تیرے نبی کی بیٹی بھوک سے پریشان ہے۔ یہ علی تیرے نبی کے چچا زاد بھائی بھوک سے نڈھال ہے۔ پس ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما۔ جس طرح بنی اسرائیل پر فرمایا تو انہوں نے انکار کیا اور ہم اقرار کرنے والے ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! ابھی جناب زہرا کی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ بہشت سے ان کے لئے خوان نازل ہوا۔ تا آخر خدمت۔
۵۹۔ خدا اور رسول کے غضب سے خدا کی پناہ مانگتے ہوئے
اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں
۶۰۔ دوستوں کی کمی سے پناہ مانگتے ہوئے
پروردگار میں دوستوں کی کثرت و فراوانی کے بعد ان کی قلت سے تیری پناہ مانگتی ہوں۔
۶۱۔ آپ کی دعا طلب مغفرت کیلئے
جناب فاطمہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول اکرم(ص) نے مجھے بدھ کی رات نماز کی تعلیم فرمائی اور فرمایا جو چھ رکعت نماز اس طرح پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورہ الحمد کے ساتھ قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء بغیر حساب۔ تک پڑھے جب نماز سے فارغ ہو تو کہے۔
اے اللہ حضرت محمد کو اس کی اتنی جزا دے جس کا وہ حقدار ہیں تو خداوند عالم اس کے ستر سال کے گناہ معاف فرمائے گا اور بے حساب ثواب عطا کرے گا۔
۶۲ ۔ بیماری کے وقت رحمت الہی طلب کرتے ہوئے
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے ساٹھ دن بعد بیمار ہوئیں۔ اور بیماری شدت اختیارکر گئی ۔ تو اس وقت یہ دعا مانگی۔
اے زندہ اے ہمیشہ رہنے والے میں تیری رحمت کی پناہ ہوں، پس مجھے پناہ میں لے لو، پروردگار مجھے آگ سے دور رکھ۔ مجھے جنت میں داخل فرما مجھے اپنے پدر بزرگوار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملحق فرما۔
۶۳۔ اپنی وفات کی رات میں طلب رحمت کرتے ہوئے
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے جس رات میں حضرت زہرا رحلت فرماتی ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف بلالی لی جاتی ہیں۔ فرمایاآپ پر سلام ہو، اور پھر مجھے کہا، اے میرے چچا زاد جبرئیل سلام کے انداز میں میرے پاس آئے ہیں، یہاں تک کہ ہم نے سنا کہ کہہ رہی تھی اے روحوں کے قبض کرنے والے آپ پر سلام، جلدی سے میری روح قبض کرو، اور مجھے اذیت نہ دو، پھر ہم نے سنا تو کہہ رہی تھیں۔
اے میرے پروردگار، تیری طرف آرہی ہوں نہ کہ جہنم کی طرف پھر آنکھیں بند کرلیں اور ہاتھوں اور پاؤں کو پھیلا دیا، گویا کبھی بھی زندہ نہ تھیں۔
۶۴۔ شیعوں کے گناہوں کی بخشش کیلئے
اسماء بنت عمیس سے روایت ہے، کہ میں نے دیکھا، حضرت زہرا بیماری کی حالت میں، رو بقبلہ بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہہ رہی ہیں، پروردگار میرے مولا و آقا تجھے اپنی برگزیدہ ہستیوں کی قسم دے کے کہتی ہوں، اور اپنے فراق میں اپنی اولاد کے رونے کا واسطہ دیتی ہوں کہ میرے شیعوں کے گناہوں، اور میرے فرزندوں کے شیعوں کے گناہوں سے درگذر فرما۔
۶۵۔ اپنے اوپر واقع شدہ مظالم سے تنگ آکر موت کی تمنا کرتے ہوئے فرمایا
پروردگار: زندگی سے تنگ آچکی ہوں، اور میں دنیا والوں سے بیزار ہوچکی ہوں، پس مجھے اپنے والد گرامی سے ملحق فرما۔
۶۶۔ اپنی وفات میں تعجیل کیلئے دعا
پروردگار: میری وفات میں جلدی فرما، کیونکہ زندگی میرے لئے تنگ اور مشکل ہو گئی ہے۔
۶۷۔ وفات کے وقت
پروردگار: محمد مصطفےٰ اور ان کے مجھ سے اشتیاق اور پیار کے واسطے اورمیرے شوہر علی المرتضےٰ اور ان کے غم کھانے کا واسطہ حسن مجتبیٰ کے مجھ پر گریہ کرنے کا واسطہ،حسین شہید اور ان کے غمگین ہونے کا واسطہ اور میرے فرزندوں اور ان کے مجھ پر حسرت کرنے کا واسطہ کہ پیغمبر اسلام(ص) کی امت کے گناہوں سے درگذر فرما، اور ان پر رحم فرما، اور ان کو داخل بہشت فرما، اور میری بیٹیوں کا واسطہ اور ان کے پرحسرت ہونے کا واسطہ کہ پیغمبر اسلام(ص) کی امت کے گناہگاروں کی مغفرت فرما اور ان پر رحم کر اور ان کو جنت میں داخل فرما، کیونکہ توسب سے بڑا مسئول اور بہترین رحم کرنے والا ہے۔
۶۸۔ وقت وفات میں رحمت الہی کے حصول کیلئے
عبداللہ بن حسن، اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہنگام وفات جناب زہرا نے ایک جانب توجہ کرتے ہوئے یوں فرمایا، حضرت جبرئیل پر سلام، رسول خدا پر سلام، اے پروردگار، مجھے اپنے پیغمبر کی ہمراہی نصیب فرما، اے پروردگار تیرے رضوان میں، تیرے جوار میں، اور اپنے پرامن بہشتی گھر میں ساکن قرار دے۔ پھر فرمایا کیا جو میں دیکھ رہی ہوں آپ بھی دیکھ رہے ہیں؟ پوچھا کیا دیکھ رہی ہیں، فرمایا یہ اہل آسمان کے دستے ہیں، یہ جبرئیل اور یہ پیغمبر ہیں جو فرما رہے ہیں اے میری بیٹی آؤ جو کچھ تیرے لئے آگے ہے تیرے لئے بہتر ہے۔
جناب سیدہ کے خطبات
۱۔ فدک کے غصب ہونی کے بعد
روایت ہے جب ابو بکر، اور عمر نے فدک غصب کر لینے کا فیصلہ کیا، اور یہ خبر جناب زہرا کے پاس پہنچی، تو آپ نے برقعہ سر پر لیا اور اپنی رشتہ دار اور گھرمیں کام کرنے والی خواتین کے ہمراہ اس انداز میں مسجد نبوی کی جانب بڑھیں کہ آپ کا برقعہ زمین پر کھنچا جا رہا تھا اور پیغمبر اسلام(ص) کی طرح چلتی ہوئی ابو بکر کے پاس گئیں جو مہاجرین، و انصار اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے، اس دوران لوگوں اور آپ کے درمیان پردہ لگا دیا گیا، آپ نے دلخراش آہ بھری جس پر لوگ رونے لگے اور مسجد اور محفل میں ہیجان پیدا ہو گیا، کچھ دیر خاموش رہیں، یہاں تک کہ دوبارہ ولوگوں پر سکوت طاری ہوا، تو تب حمد باری تعالیٰ سے اپنے کلام کا آغاز ہو گیا، اور رسول خدا پر درود و سلام بھیجا، دوبارہ رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، پھر جب سکوت طاری ہوا تو اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا۔
نعمتیں عطا کرنے پر اس کی حمد وثنا کرتی ہوں، اور الہام کرنے پر اس کی شکر گذار ہوں، مخلوق پر نعمتوں کی کثرت اور وسیع و عریض عطاؤں پر اس کی ثنا گواہوں، ان گنت احسانات جن کو شمار کرنے سے عاجز ہیں اور اجر و ثواب دینے کی حد اور انتہا کہیں زیادہ ہے اور ہمیشہ کے لئے ادراک اور شعور سے وسیع تر ہے اس نے لوگوں کو دعوت دی کہ اس سے زیادہ شکر گذار کریں تاکہ وہ نعمتوں میں اضافہ فرمائے، اور اس طرح نعمتوں میں وسعت سے لوگوں کو اپنی شکر گذاری کی طرف متوجہ کیا اور شکر گذار ہونے پر ان نعمتوں میں دوگنا اضافہ فرمایا۔
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں، یہ بہت بڑی بات ہے کہ اخلاص کو لوگوں کی عاقبت بخیر ہونے اور دلوں کو اپنے سے ملنے کا ظرف قرار دیا ہے اور تفکر اور سوچنے کے لئے اپنی پہچان کو آسان بنایا، وہ ذات جسے آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں، زبانیں اس کی توصیف کرنے سے ناتواں ہیں، خیالات اس کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔
بغیر کسی پیشگی چیزوں کے موجودات کو خلق کیا، اور پہلے سے کسی سانچے کی اتباع کیے بغیر موجودات کو پیدا کیا، بلکہ انہیں اپنی قدرت اور ارادے سے وجود بخشا، ان کے بنانے اور پیدا کرنے میں اسے کوئی حاجت نہیں اور نہ ہی اس کیلئے تصویر کشی میں کوئی فائدہ ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی حکمت ثابت ہوجائے اور اس کی اطاعت پر آگاہی ہوجائے اور اپنی قدرت پر اظہار کے لئے اور اپنی عبودیت سے آگاہی اور اپنی دعوت کو گرامی بنانے کے لئے پھر اپنی اطاعت کرنے پر ثواب اور معصیت انجام دینے پر عذاب مقرر کیا تاکہ بندوں کو پستیوں سے محفوظ بنا کر بہشت کی جانب رہنمائی کرے۔
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے باپ حضرت محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ان کو بھیجنے سے پہلے منتخب کیا اور انتخاب سے پہلے نام پیغمبر ہی رکھا، اور مبعوث کرنے سے پہلے چن لیا، انہیں اس وقت چنا جب مخلوقات پردہ غیب میں تھیں، انتہائی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھیں، بلکہ عدم نیستی کی سرحد پر کھڑی تھیں، اس کے کاموں کے انجام سے آگاہی کی خاطر اور حادثات زمانہ پر محیط ہونے کی وجہ سے قضا و قدر کے واقع ہونے پر مکمل پہچان کیلئے حضرت محمد کوبھیجا تاکہ اس کا امر کامل، حکم قطعی اور فضا و قدر عملی صورت پیدا کریں، انہوں نے مختلف امتوں کو دیکھا جو ادیان کی پیروکار تھیں، کچھ آتش پرست تھیں اور کچھ تراشے گئے بتوں کی پرستش کرنے والی تھیں جبکہ خداوند قدوس کی طرف سے فطرت میں رکھی گئی شناخت کے باوجود اس کے منکر تھے۔
پس میرے باپ حضرت محمد کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے تاریکیوں کوروشن کیا اور دلوں سے مشکلات کو برطرف کیا، اور دیدار کرنے والوں کی نگاہوں سے پردے اٹھادیئے، اور انہوں نے ہدایت کے لئے لوگوں میں قیام کیا، اور انہیں گمراہی سے رہائی عطا کی۔ اور لوگوں کوبینائی عطا کی، اور انہیں دین پر مضبوطی اور محکم انداز میں کھڑے رہنے کی راہنمائی کی اور راہ راست کی طرف دعوت دی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جانب بلا لیا۔ البتہ یہ بلانا ازروئے مہربانی آزادی اور ذاتی رغبت اور میلان سے تھا،پس حضرت محمد اس دنیا کے رنج والم سے نجات پا گئے جبکہ پاکیزہ فرشتوں نے اطراف سے انہیں گھیر رکھا ہے اور بخشش والے پروردگار کی خوشنودی ان کے شامل حال ہے اور جوار رحمت حق میں داخل ہوئے ہیں پس میرے باپ پر خدا کے درود و سلام ہوں۔ ان پر سلام، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
پھر حضرت زہرا لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا۔
اے بندگان خدا ہم اس کے امر و نہی کے علمبردار ہیں اور اس کے دین اور وحی کے حامل اور ایک دوسرے پر خدا کے امین ہیں اور دوسری امتوں کے لئے اس کے مبلغ ہیں حق کا رہنما آپ کے درمیان تھا اور وہ عہد جو سب سے پہلے آپ نے باندھا تھا اس میں سے کچھ باقی ہے جو آپ نے انجام دینا ہے اور سچا قرآن جو کتاب ناطق خدا ہے، جو واضح نور اور روشن چراغ ہے، اس کا بیان اور اس کی دلیلیں روشن اور اس کے اسرار باطنی آشکار اور اسکے ظاہر بہت واضح ہیں۔ اس پر عمل کرنے والے دوسروں کے لئے قابل رشک اور حضرت محمد کا اتباع خوشنودی الہی کا سبب بنتا ہے اس کے فرامین کی سماعت راہ نجات ہے۔
اسی کے ذریعے سے اللہ کی نورانی دلیلوں کو، اور بیان کردہ واجبات کو ادا کیا اور محرمات سے بچا جا سکتا ہے اور مزید بڑی واضح گواہیوں اور کفالت کرنے والے براہین کو، اور پسندیدہ فضائل کو، بخشے گئے امور اور واجب قوانین کو پایا جاسکتا ہے۔
پس خدائے عزوجل نے ایمان کو شرک سے پاکیزگی کا سبب، اور تکبر سے بچنے کے لئے نماز، اور تزکیہ نفس اور فراوانی رزق کے لئے زکوٰة، تثبیت اخلاص کے لئے روزہ، اور دین حنیف اسلام کے استحکام کے لئے حج، اور دلوں کے مرہم کے لئے عدالت اور ملتوں کی تنظیم سازی کے لئے ہمارے خاندان کی اطاعت اور تفرقہ سے رہائی کے لئے ہماری امامت اور جہاد کو عزت اسلام کے لئے اور صبر کو اجر و ثواب کے لئے مدد کے طور پر قرار دیاہے۔
اور امر بالمعروف کو معاشرہ کی مصلحت کے لئے قرار دیا، اور والدین سے اچھے انداز میں پیش آنے کو غضب الہی سے نجات کا ذریعہ بنایا، صلہ رحمی، درازی عمر اور کثرت اولاد کا سبب ہے جبکہ قصاص سے زندگیوں کی حفاظت فرمائی، منت و نذر کی بجا آوری مغفرت الہی کا ذریعہ ہے، اور ناپ تول کے اوزاروں کو کم فروشی سے بچنے کے لئے قرار دیا ہے۔
شراب خوری سے بچنے کو پلیدی سے پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا اور کسی طرف ناروا نسبت نہ دینا تعصب سے بچنے کا سبب ہے، جبکہ چوری نہ کرنے کو پاک دامنی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور شرک کو حرام قرار دیا تاکہ توحید پرستی خالص ہو۔
پس جس طرح ڈرنے کا حق ہے اللہ سے ڈرو، اور دنیا سے مسلمان ہو کر مرو اور خدائے کریم نے جن چیزوں کا حکم دیا اور جن چیزوں سے اللہ نے روکا ہے ایسے ہی اطاعت کرو، سوائے اس کے کہ فقط علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر کہا۔
اے لوگو !جان لو کہ میں فاطمہ ہوں اور میرے باپ حضرت محمد ہیں۔ جو چیز ابتدا میں بیان کروں گی آخر میں بھی وہی کہوں گی۔ میں نے غلط نہیں کہا تھا میں نے کوئی ظلم نہیں کیا آپ کے درمیان سے پیغمبر مبعوث ہوئے۔ آپ کے رنج ان پر گراں ہوئے وہ آپ سے دلسوز تھے اور وہ مومنین پر مہربان اور لطف کرنے والے تھے۔
پس اگر ان کو جانتے ہو تو جان لو کہ وہ تمہاری عورتوں میں سے فقط میرے باپ ہیں اور اور تمہارے مردوں میں سے صرف میرے شوہر کے چچا زاد بھائی ہیں، یہ کتنی اچھی تکریم اور عزت ہے کہ میں ان سے نسبت رکھتی ہوں۔ انہوں نے اپنی رسالت کا آغاز ڈرانے سے کیا، اور مشرکین سے دوری اختیار کی اور ان کے سروں پر تلوار چلائی اور ان کو گردن سے پکڑا اور حکمت اور موعظ حسنہ سے اپنے پروردگار کی طرف دعوت دی۔ بتوں کو نابود کیا، کینہ سے کام لینے والوں کے سر کچل دیئے، یہاں تک کہ ان کی جمعیت پرگندہ ہو کر میدان سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔
پھر رات کے پردوں سے صبح کی روشنی نمودار ہوئی اور حق کے چہرے پر پڑی نقاب کھینچ لی گئی پھر حکومت اسلامی کے سربراہ سخن طراز ہوئے جبکہ شیاطین کی فریادیں دب کر رہ گئیں۔ منافقت کے کانٹے راست سے ہٹا دیئے گئے، کفر و الحاد کی گرہیں کھل گئیں، اور آپ کے منہ کلمہ اخلاص سے گنگنا اٹھے۔ ایسے گروہ کہ جن کے چہرے روشن اور شکم پشت کے ساتھ لگے تھے۔
آپ لوگ بڑھکتی ہوئی آگ کے گھڑے سے بہت قریب تھے اور تعداد میں ایک گھونٹ کی مانند تھے اور بیرونی خطروں کی زد میں تھے، آپ آگ کی اس چنگاری کی طرح تھے جو فوراً بجھ جاتی ہے، گذرنے والوں کے قدموں میں کچلے جارہے تھے، اونٹوں کے آلودہ کئے ہوئے پانی کو پیتے تھے، درختوں کے پتوں کو بطور غذا استعمال کرتے تھے تم ذلیل و خوار مسترد شدہ لوگ تھے تم ڈرتے تھے کہ اطراف کے لوگ تمہیں اپنا غلام نہ بنا لیں۔ جب تم بھیڑیا نما عربوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے حزیمت اٹھا چکے تو تب اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں حضرت محمد کے ذریعے سے نجات دی۔
جب کبھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے اللہ تعالیٰ خاموش کردیتا، یا جب بھی شیطان نے سر اٹھایا یا مشرکین کے اژدھاؤں نے منہ کھولے تو پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے بھائی کو آگے کیا۔ اور وہ بھی جب تک ان کے سر زمین پر نہ پٹختے، اور اپنی تلوار سے ان کی آگ گل نہ کردیتے واپس نہ آتے، وہ راہ خدا میں ہمیشہ کام کرنے والے، اور اس کے امور میں کوشش کرنے والے، پیغمبر اسلام(ص) کے قریبی اولیاء کے سردار، ہمہ وقت آمادہ ، نصیحت کرنے والے، محنت کرنے والے، جدوجہد کرنے والے اور راہ خدامیں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنے والے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب تم پر سکون زندگی گذار رہے تھے، امن کے گہوارے میں نعمتوں سے محفوظ ہو رہے تھے، اس انتظار میں رہتے تھے کہ مشکلات تمہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں، تم ہر روز نئی خبر سننے کے چکر میں رہتے تھے اور جنگ کے وقت منہ موڑ لیتے تھے، اور میدان جنگ سے فرار اختیار کر لیتے تھے، پھر جب اللہ نے اپنے پیغمبر کیلئے انبیاء کاگھر اور اوصیاء کی آرام گاہ منتخب کرلی، تو تم میں نفاق کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں، اور دین کالباس کہنہ نظر آنے لگا، اور گمراہوں کی خاموشیاں ٹوٹ گئیں، کمینے لوگ عزت دار بنے اور اہل باطل کا نازوں پلا اونٹ تمہارے دروازں تک پہنچ گیا، اور شیطان نے کمین گاہ سے اپنا سر باہر نکال کر تمہیں دعوت دی جب اس نے دیکھا کہ اس کی دعوت پر مثبت جواب دینے والے ہو، اور دھوکہ کھانے کیلئے آمادہ ہو تو اس وقت اس نے آپ سے چاہا کہ قیام کرو، ور جب دیکھا کہ آپ آسانی سے یہ کام انجام دینگے، تو آپ کو غصے میں لے آیا، اور جب دیکھا کہ آپ غضبناک ہیں تو آپ نے غیروں کے اونٹوں پر پلان لگائے اور ایسے پانی میں داخل ہوئے جو آپ کا حصہ نہ تھا۔
یہ سب کچھ ماضی قریب کی باتیں ہیں، اور ابھی تک زخموں کے نشان واضح تھے اور زخم بھرے نہیں تھے اورپیغمبر اسلام(ص) دفن نہیں ہوئے تھے، تم نے بہانہ کیا کہ فتنہ سے ڈرتے ہو، آگاہ رہو کہ اب فتنہ میں پڑے ہو، حقیقت ہے کہ جہنم نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے۔
تم سے یہ کام بعید تھا کس طرح یہ کام انجام دیا، کہاں جارہے ہو حالانکہ کتاب خدا تمہارے پاس ہے، جس کے امور روشن، اور احکام واضح، اور ہدایت کی علامتیں ظاہر اور محرمات ہویدا اور اس کے امور اظہر من الشمس ہیں، لیکن اس کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا، بغیر توجہ کیے اس کو پڑھتے ہو، یا بغیر قرآن کے حکم کرتے ہو؟ اور یہ ظالموں کے لئے بہت برا بدلہ ہے، اور اگرکوئی اسلام کے علاوہ دین کو چاہتا ہو تو وہ اسے قابل قبول نہیں ہے، اور ایسے لوگ قیامت میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔
پھر تم نے اتنا بھی خیال نہیں کیا کہ یہ پریشان دل آرام پاجائے، تاکہ ان کا نکالنا آسان ہوجائے بلکہ تم نے بھی جلتی آگ پرتیل چھڑکا، آگ کے قریب ہو گئے تاکہ اس کو مزید بھڑکا سکو، اور شیطان کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار، اور خدا کے دین کے نور کو خاموش کرنے کے لئے اور برگزدیدہ پیغمبر کی سنتوں کو تباہ کرنے کیلئے آمادہ تھے، کف شیر پینے کے بہانے زیر لب چھپ کر پیتے ہو، اور پیغمبر اسلام(ص) کے خاندان اور بیٹوں کیلئے ٹیلے کے پیچھے اور درختوں میں کمین لگا کر راہ چل رہے تھے، اب ہمیں چاہیے کہ خنجر سے کٹے ہوئے کی طرح اورپیٹ میں لگے نیزے کے ساتھ، صبر کریں۔
اب تم گمان کرتے ہو کہ ہمارے لئے کوئی وراثت نہیں ہے کیا جاہلیت کے طریقوں کے خواہش مندہو؟ اہل یقین کے لئے خدا کے حکم سے بڑھ کر کیا حکم ہے، کیاتم نہیں جانتے؟ حالانکہ آپ کیلئے اظہر من الشمن ہے کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔
اے مسلمانو!کیا یہ درست ہے کہ مجھ سے اپنے باپ کی میراث چھین لیں، اے ابی قحافہ کے بیٹے کیا کتاب خدا میں ہے کہ تم تو اپنے باپ سے وراثت لو لیکن میں اپنے باپ کی وراثت سے محروم کردی جاؤں؟ نئی بات اور بڑی گھٹیا چیز لائے ہو، کیا شعوری طور پر کتاب خدا کو ترک کرکے پس پشت نہیں ڈال رہے ہو، کیا قرآن نہیں کہتا کہ حضرت سلیمان نے حضرت داؤد سے وراثت پائی اور حضرت زکریا کے واقعہ میں جب انہوں نے کہا، پروردگار!مجھے فرزند عطا فرما جو مجھ سے اور خاندان یعقوب سے وراثت پائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ قرابت دار اور دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں اور اولیت رکھتے ہیں۔ (الاحزاب ۶)
ارشاد خداوندی ہے اللہ آپ کو وصیت کرتا ہے کہ بیٹوں کو بیٹی سے دوگنا دو۔ (النساء:۱۱)
مزید ارشاد ہے اگر تم سے کوئی مال چھوڑ کر مرے تو تم پر لازم ہے کہ اپنے والدین اور رشتے داروں کیلئے وصیت کرو اور یہ حکم ہے پرہیزگاروں کیلئے۔ (البقرہ : ۱۸۰)
اور آپ گمان کرتے ہیں کہ میرے لئے کوئی حصہ نہیں اور باپ کی میراث سے کوئی حق نہیں رکھتی، کیا خداوند عالم نے کوئی آیت نازل کی ہے جس سے میرے باپ کو خارج کردیا گیا ہے؟ تم یہ کہتے ہو کہ دو الگ الگ ادیان والے ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے؟ کیا مجھے اور میرے باپ کو ایک دین پر نہیں سمجھتے، یا میرے باپ اور میرے چچا کے بیٹے سے زیادہ قرآن کے عام و خاص سے واقف ہو؟ تم یہ مہار زدہ پلان والا اونٹ پکڑو اور لے چلو، روز حساب تم سے ملاقات کروں گی۔
خداوند کریم کیا اچھا داورہے اور اچھے فریاد رس حضرت محمد ہیں اور قیامت کتنی اچھی وعدہ گاہ ہے، اس گھڑی میں اور اس دن میں اہل باطن ہی نقصان اٹھانے والے ہیں، تو اس وقت کی پشیمانی تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی، ہر بات کا اپنا محل ہوتا ہے، پس ضرور جان لو گے کہ ذلیل و خوار کرنے والا عذاب اور ہمیشہ رہنے والا عذاب کس کے شامل حال ہوتا ہے۔
پھر انصار کی طرف رخ کرکے یوں ارشاد فرمایا اے نقیبوں کے گروہ اور ملت کے دست و بازوو اے اسلام کے محافظو، میرے حق کے بارے میں یوں کمزوری اور غفلت اور میری داد رسی کرنے میں اس طرح سہل انگاری سے کیوں کام لے رہے ہو؟ کیا میرے باپ حضرت محمد نے فرمایا نہیں ہے کہ ہر ایک کا احترام اس کے فرزندوں سے محفوظ ہوتا ہے کتنی جلدی ان اعمال کے مرتکب ہوئے ہو، اور کتنی جلدی اس لاغر بکرے کے منہ اور دماغ سے پانی بہہ گیا، جبکہ تمہارے پاس میری مدد کرنے کی قوت اور طاقت ہے۔
اب تم کہتے ہو کہ محمد وفات پا چکے ہیں، یہ بہت بڑی اور بہت زیادہ مصیبت ہے اس کا شگاف بہت گہرا ہے اور اس کے سلے ہوئے دھاگے پھٹ گئے ہیں اور زمین اس کی غیبت میں تاریک ہو گئی ہے سورج اور چاند گھنا گئے ہیں اور ستارے بکھر چکے ہیں اور آرزوئیں ناامیدی میں بدل گئی ہیں اور پہاڑوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی ہے حرمتیں پائمال ہو گئی ہیں اور ان کی وفات کے بعد کسی کیلئے احترام باقی نہیں رہا۔
خدا کی قسم یہ مصیبت بہت زیادہ اور بہت بڑی آفت ہے کہ آج تک اس جیسی مصیبت نہ تھی اوردنیا میں کوئی بھی آفت اس کے برابر نہیں ہے۔ کتاب خدا نے اس کو آشکار کیا ہے ، وہ کتاب خدا جسے اپنے گھروں میں اپنی شب و روز کی محفلوں میں آہستہ اور بلند آواز میں تلاوت اور ہمہمے کے ساتھ پڑھتے ہو۔ یہ ایسی بلا اور مصیبت ہے جو انبیاء ما سلف اور رسولوں پر گذر چکی ہے یہ ایک حتمی حکم ہے اور قضاء قطعی ہے، ارشاد خداوندی ہے۔
اور محمد فقط رسول ہیں، ان سے پہلے بھی پیغمبر گذر چکے ہیں، پس اگر وہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو واپس پلٹ جاؤ گے اور جو واپس لوٹ جائے خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور خدا کا شکر کرنے والوں کو اجر اور صلہ دے گا۔ (آل عمران:۱۴۴)
اے قبلہ کے فرزندو یعنی گروہ انصار، کیا میں اپنے والد کی میراث کے حوالے سے ظلم برداشت کروں جبکہ تم مجھے دیکھ رہے ہو او میری باتیں سن رہے ہو۔ تم ایک انجمن اور جماعت رکھتے ہو میری دعوت کی آواز سب نے سنی، اور میرے حالات سے آگاہی بھی رکھتے ہو اور پھر تمہاری افرادی قوت اور اجتماعی حیثیت بھی ہے، وسائل اور طاقت بھی رکھتے ہو۔ تمہارے پاس اسلحہ، ذرہ اور ڈھال بھی ہے، میری دعوت کی آواز تم تک پہنچ رہی ہے، لیکن تم جواب نہیں دے رہے، میری حق طلبی کی داد وفریاد کو سن رہے ہو، لیکن میری فریاد رسی نہیں کر رہے جبکہ تم شجاع اور معروف بہادر ہو اور اچھائی سے تمہیں یاد کیا جاتا ہے، تم برگزیدہ تھے جو انتخاب ہوئے اور تم ہمارے اہل بیت کیلئے منتخب ہوئے ہو۔
عرب سے جنگ و جدال میں تم نے مصیبتیں اور سختیاں برداشت کی ہیں، امتوں سے جنگیں کی ہیں ،اور پہلوانوں سے مقابلہ کیلئے اٹھے ہو، ہم ہمیشہ فرماں روا تھے اور تم فرمانبردار، یہاں تک اسلام کی چکی گھومنے لگی اور روزمرہ کے حالات درست ہونا شروع ہوئے، اور شرک آمیز نعرے خاموش ہوئے، اور طمع اور تہمت کی دیگیں ٹھنڈی ہوئیں، اور ہرج و مرج اور بد نظمی کی دعوتیں آرام پا گئیں اور پھردین کانظام مکمل طور پر مربوط ہو گیا، پھر کیوں اپنے اقرار کے بعد اپنے ایمان میں حیران و پریشان ہوئے ہو، اور ظاہر ہونے کے بعد خود کو کیوں مخفی کرتے ہو، اور پیش قدمی کے بعد پیچھے کیوں ہٹتے ہو، اور ایمان کے بعد شرک کرتے ہو؟
افسوس ایسے گروہ پر جو قول دینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پیغمبر کو عملی میدان سے باہر کردیں، اسی لئے انہوں نے جنگ کا آغاز کیا، کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ خدا سزاوار ہے کہ اس سے ڈرو اگر مومن ہو تو۔
آگاہ رہو میں دیکھ رہی ہوں کہ ہمیشہ رہنے والی تن آسانی سے دل لگا رکھا ہے اورجو سربراہی کا حق دار تھا اس کو دور کر رکھا ہے، راحت طلبی کے عادی ہوگئے ہو۔ زندگی کی تلخیوں سے گذر کر آسائشوں تک پہنچ گئے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جس کو یاد کیا تھا بھلا دیا ہے جن کو بھلا دیا ہے ان کو پھر سے یاد کیا ہے (یعنی ایمان کو بھلایا اور شرک کو یاد کیا ہے) پس جان لو کہ اگر تم اور تمام اہل زمین کافر بھی ہوجائیں تو پھر بھی خدائے بزرگ سب سے بے نیاز ہے۔
آگاہ رہو جو کچھ کہا مکمل آگاہی سے کہا تمہارے اخلاق میں سستی پیدا ہو گئی ہے، تمہارے دلوں میں بے فائی اور دھوکہ پیدا ہو گیا ہے، لیکن یہ سب کچھ غمگین دل کا ابال اور غم و غصہ کا ہلکا کرتا ہے اور جو چیز میرے لئے قابل تحمل نہیں ہے، وہ میرے سینے کا ابال اور دلیل برہان کا بیان ہے، پس خلافت کو لے لو،لیکن جان لوکہ اس شتر خلافت کی پشت پر زخم ہے اور اس کے پاؤں میں سوراخ ہے، جلد آبلہ دار ہے، جس پر ننگ و عار کے نشان باقی ہیں اور غضب خدا اور ہمیشہ کی بدنامی نمایں ہیں۔ جہنم کی آگ کے شعلوں سے جو دلوں پر احاطہ کئے ہیں متصل ہے۔
جو کچھ کرو گے وہ اللہ شانہ کے سامنے ہے اور جنہوں نے ستم کئے ہیں بہت جلد جان جائیں گے۔ کہ کس عدالت میں بلا لئے گئے ہیں اور میں اس کی بیٹی ہوں جس نے تمہیں دردناک عذاب کی خبر دی، پس اب جو چاہتے ہو انجام دو اور ہم بھی اپنا کام کرتے ہیں تم بھی منتظر رہو اور ہم بھی انتظار میں ہیں۔ پھر ابو بکر جواب دیتے ہیں۔
اے دختر رسول آپ کے باپ مومنین پر مہربان اورکرم کرنے والے شفیق اور رحیم تھے، اور کافروں کیلئے دردناک عذاب اور عقاب تھے، اگر نبی کو رشتوں کے حوالے سے دیکھیں تو وہ ہماری عورتوں میں آپ کے باپ، اور مردوں اور دوستوں میں آپ کے شوہر کے بھائی تھے، جس کی وجہ سے وہ ہم سب سے برتری رکھتے ہیں اور وہ بھی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ہر بڑے کام میں شریک رہے ہیں، آپ کو دوست نہیں رکھتے مگر نیک لوگ، اور دشمن نہیں رکھتے مگر بدکار لوگ۔
پس آپ خاندان پیغمبر ہیں پاک اور برگزیدہ ہیں اور ہمیں بھلائی کی طرف اور بہشت کی طرف راہنمائی فرماتی ہیں اور آپ تمام عورتوں سے اور تمام انبیاء کی بیٹیوں سے افضل ہیں پیغمبر اپنے کردار و گفتار میں سچے اور دانائی میں بہت آگے تھے اور آپ کو آپ کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا اور آپ کی سچی باتوں سے کوئی مانع نہیں ہے۔
خدا کی قسم، ہم پیغمبر اسلام(ص) کی رائے سے ایک قدم بھی آگے نہیں گئے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کیا، اور قوم کا حاکم ان سے جھوٹ نہیں بولتا اور میں خدا کوگواہ قرار دیتا ہوں اور جو بہترین گواہ ہے، میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے سنا ہے جو فرما رہے تھے۔
ہم گروہ پیغمبر دینار و درہم اورگھر اور زمین ارث کے طور پر نہیں چھوڑتے، فقط کتاب، حکمت، علم اور نبوت کو وراثت کے طور پر چھوڑتے ہیں اور جو چیز ہم سے باقی رہ جائے ہم سے بعد والے ولی امر کے اختیار میں ہے۔ جسے وہ جس طرح چاہے انجام دے۔
اور ہم چاہتے ہیں کہ گھوڑے اور اسلحہ خریدیں تاکہ مسلمان خود کو آمادہ کرکے کفار سے جہاد کریں اور بدکار سرکشوں سے مقابلہ کریں اور یہ فیصلہ تمام مسلمانوں کی مرضی اور اتفاق رائے سے ہوا اور میں نے الگ سے یہ فیصلہ نہیں کیا اور اپنی شخصی رائے پر عمل نہیں کیا، اب یہ میرا حال ہے اور یہ میرا مال ہے، جو آپ کیلئے اور آپ کے اختیار میں ہے، آپ سے کسی چیز سے دریغ نہیں کیا، اور آپ کا حق کسی اور کو نہیں دیا گیا اور آپ اپنے باپ کی امت کی عورتوں کی سردار ہیں، اور اپنی اولاد کیلئے پاکیزہ ثمرآور درخت ہیں، آپ کے فضائل سے انکار نہیں کیا اور آپ کی بنیادوں اور شاخوں سے چشم پوشی نہیں برتی گئی، جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں آپ کا حکم نافذ ہے، کیا آپ پسند کرتی ہیں کہ آپ کے باپ کی فرمائش کے مطابق عمل نہ کروں؟
جناب فاطمہ نے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ پاک ومنزہ ہے، میرے باپ نے کتاب خدا سے منہ نہیں موڑا اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کی، بلکہ وہ اس کے پیروکار اور اس کی آیات پر عمل کرتے تھے، کیا چاہتے ہو کہ دھوکہ اور مکرو فریب سے جبراً ان کو ان کی وفات کے بعد ایسے لگتا ہے کہ یہ چال ان کی زندگی میں ہی تیار کر لی گئی تھی، یہ کتاب خدا ہے جو ایک عادل حاکم ہے اور بولنے والا حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالنے والا ہے، جو فرما رہا ہے۔
ارشاد رب العزت ہے۔ پروردگار!مجھے فرزند دے جو مجھ سے اور یعقوب کے خاندان سے وارث قرار پائے۔ حضرت سلیمان نے حضرت داؤد سے وراثت پائی۔ خداوند کریم نے جو حصے مقرر کیے ہیں اور جو مقدار میراث میں معین فرمائی ہے اور مردوں اور عورتوں کے لئے حصے قرار دیئے ہیں سب کچھ واضح طور پر بیان فرمادیئے ہیں۔ لہذا اہل باطل کے بہانوں اور وہم و گمان کو روز قیامت تک زائل کردیا ہے، اس طرح نہیں ہے کہ بلکہ تمہاری خواہشات نفسانیہ نے تمہیں ایک راہ پر لگا دیا ہے اور مجھے صبر زیبا کے علاوہ چارہ بھی نہیں ہے، اور جو کچھ تم ہمارے ساتھ کر رہے ہو۔ اس میں خدا ہمارا مددگار ہے۔
ابوبکرنے کہا، خدا اور اس کے رسول نے سچ کہاہے اور ان کی بیٹی بھی جو حکمت کی کان اور ہدایت و رحمت کی جگہ اور دین کا رکن اور حجت و دلیل کا سرچشمہ ہیں، سچ فرما رہی ہیں اور آپ کی حق بات کو دور نہیں پھینکا، اور آپ کے ارشادات سے انکار نہیں کیا، یہ مسلمان میرے اور آپ کے درمیان منصف ہیں، انہوں نے یہ حکومت اور خلافت مجھے دی ہے، ان کے فیصلے کے مطابق میں نے یہ منصب قبول کیا ہے ، میں نہ متکبر ہوں اور نہ ہی اپنی رائے ٹھونس رہا ہوں اور نہ کسی چیز کو اپنے لئے اٹھایا ہے، یہ سب لوگ گواہ ہیں۔
پھر جناب زہرا نے عورتوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا
اے مسلمانو!بے ہودہ باتیں سننے کیلئے بڑے بے قرار ہو، جبکہ پست اور گھٹیا کردار سے چشم پوشی کر رہے ہو، کیا قرآن میں غور و خوض نہیں کرتے یا دلوں پر مہریں لگادی گئی ہیں، یہ ایسے نہیں ہے بلکہ تمہارے برے اعمال نے تمہارے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے، جس نے تمہارے کانوں اور آنکھوں کو گھیر رکھا ہے، اور بہت برے انداز میں آیات قرآن کی تاویل کرتے ہو اس کو بری راہ دکھائی ہے اور بری چیز کا معاوضہ کیا ہے؟ خدا کی قسم اس کا وزن اٹھانا تمہارے لئے سنگین ہوگا اور اس کا انجام اور بوجھ تمہارے لئے وبال جان ہے۔ جب صحاب ہٹائے جائیں گے تو اس کے نقصانات واضح ہوں گے اور جس کی توقع نہیں رکھتے تمہارے لئے آشکار ہو گئی، وہ ایسی جگہ ہے جہاں اہل باطل نقصان اٹھانے والے ہیں۔
پھر جناب سیدہ پیغمبر اسلام(ص) کی قبر کی طرف متوجہ ہوئیں اور چند اشعار فرمائے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
آپ کے بعد ایسے ایسے مسائل پیدا ہوئے کہ اگر آپ ہوتے تو اتنے بڑے دکھائی نہ دیتے۔
ہم آپ کے بعد گویا بارش سے محروم زمین کی طرح ہیں اور آپ کی امت متفرق ہو گئی ہے آئیں اور دیکھیں کہ کس طرح منحرف ہو گئی ہے۔
ہر وہ خاندان جو بارگاہ احدیت میں عزیز و محترم ہو وہ دوسروں کے نزدیک بھی محترم و مکرم ہوتا ہے سوائے ہمارے۔
آپ کی امت سے چند لوگوں نے آپ کے جاتے ہی اور تدفین کے بعد سینے اندر چھپے رازوں کو آشکار کر دیا ہے۔
آپ کے جانے بعد مزید لوگوں نے ہم سے منہ موڑ لیا ہے، اور ہمیں اہمیت نہیں دی اور ہماری میراث چھین لی ہے۔
آپ چودہویں کے چاند اور نور پھیلانے والے چراغ تھے، خدا کی جانب سے آپ پر کتاب نازل ہوتی تھی۔
حضرت جبرئیل آیات الہی کے ساتھ ہمارے مونس تھے، اور آپ کے جانے کے بعد تمام اچھائیاں بھی پوشیدہ ہو گئیں۔
اے کاش ہم آپ سے پہلے مر چکے ہوتے آپ کو تو مٹی نے اپنے اندر چھپا لیا ہے۔
پھر حضرت زہرا اپنے گھر لوٹ آئیں، حضرت امام علی ان کے انتظار میں تھے جناب سیدہ جب گھر آکر ذرا پرسکون ہوئیں تو فرمانے لگیں۔ اے ابو طالب کے بیٹے، جس طرح جنین ماں کے پیٹ میں چھپ جاتا ہے چھپ گئے ہو اور تہمتوں کی کثرت کی وجہ سے زمین گیر ہوگئے ہو۔ ہاں! شاہیں کے پر ٹوٹ گئے جبکہ چھوٹے پر بھی آپ کے ساتھ پرواز کے دوران خیانت کریں گے۔ یہ پسرابی قصافہ ہے، جس نے میرے باپ کا ہدیہ اور میرے دو بچوں کی زندگی کا تمام سرمایہ مجھ سے چھین لیا ہے، واضح طور پر مجھ سے دشمنی کی ہے، گفتگو کے دوران میں اس کو بہت جھگڑالو پایاہے، انصار نے میری حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا جبکہ مہاجرین نے بھی میری مدد نہیں کی اور لوگوں نے بھی میری مدد سے چشم پوشی کی ہے، نہ کوئی دفاع کرنے والا رکھتی ہوں اور نہ کوئی ایسا آدمی جوان کو یہ کام کرنے سے روکے، میں اس حال میں گھر سے نکلی کہ بہت پریشان تھی اور یونہی خالی ہاتھ واپس آگئی۔
جس دن سے آپ نے اپنی تلوار زمین پر رکھی اس دن سے خود کو خانہ نشین کر لیا ہے، آپ وہ بہادر تھے جو گیدڑوں کو قتل کرتے تھے، لیکن آج زمین پر آرام کر رہے ہیں، مجھ سے بولنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا اور باطل کو بھی مجھ سے دور نہیں کیا جبکہ میں خود سے اختیار نہیں رکھتی، کاش اس کام سے پہلے اور اس طرح ذلیل و خوار ہونے سے قبل ہی مر چکی ہوتی، یہ جو اس طرح گفتگو کر رہی ہوں۔ پروردگار مغفرت چاہتی ہوں جبکہ مدد اور کمک آپ کی جانب سے ہے۔
اس کے بعد ہر صبح و شام میں مجھ پر افسوس ہو، میری پناہ دنیا سے چلی گئی ہے اور میرے بازو بے سکت ہوگئے ہیں، میری شکایت اپنے باپ سے تھی اور خدا سے مدد کی طلب گار ہوں۔
اے پروردگار: تیری قدرت اور توانائی سب سے بڑھ کر تیرا عقاب اور عذاب دردناک ہے۔
پھر حضرت امام علی نے فرمایا۔
افسوس آپ کے لئے نہیں، بلک آپ کا سمتگار دشمن افسوس کا حقدار ہے اے خدا کی برگزیدہ اورنبوت کی نشانی، ظلم اور پریشانی سے چشم پوشی فرمائیں، میں اپنے دین میں سست نہیں ہوا، اور جو کچھ میری طاقت میں ہے اس میں دریغ نہیں برتوں گا، اگر آپ روزی اور رزق سے پریشان ہیں، تو جان لو کہ روزی خدا کے پاس محفوظ ہے اور وہ بہترین امین ہے، جو چیز آپ سے لی گئی ہے اس سے جو چیز آگے آپ کیلئے تیار ہے وہ اس سے بہتر ہے۔ پس خدا کیلئے صبر کریں۔
پھر حضرت زہرا نے کہا ،میرے لئے خدا کافی ہے، پھر خاموش ہوگئیں۔
۲۔ مہاجرین و انصار کی خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب
سوید بن غفلہ کہتے ہیں۔ جب جناب فاطمہ بیمار ہوئیں اور اسی بیماری میں دنیا سے کُوچ کرگئیں‘ مہاجرین و انصار کی عورتیں آپ کی عیادت کیلئے آئیں اور کہنے لگیں اے دختر پیغمبر آپ کی حالت کیسی ہے تو حضرت زہرا نے حمد باری تعالیٰ بجا لائی، پھر اپنے باپ پر درود بھیجا اور کہا خدا کی قسم اس حال میں صبح کی ہے کہ تمہاری دنیا سے کوئی سروکار نہیں اور تمہارے مردوں سے ناراض ہوں، ان کو خود سے دور کردیا اور ان کو پہچان لینے کے بعد ان سے ناراض ہوں، پس کس قدر پست ہے تلواروں کا کندہونا اور کوشش کے بعد سست ہوجانا اور نوک دار پتھر پر اپنا سر پٹخنا اور اپنی صفوں میں شگاف پیدا ہونا، غلط آراء دینا اور اغراض میں منحرف ہونا، کس قدر گھٹیا زادِ راہ کو اپنے لئے آگے روانہ کیا ہے، خداوند کریم ان سے ناراض ہے اور ہمیشگی عذاب میں ہوں گے۔ اس عمل کی مسئولیت اور ذمہ داری انہی کی گردن پر ہے اور اس کا وزن ان کے کندھوں پر ہے اورننگ و عار ان کے دامن گیر ہو گی، یہ اونٹ ناک کٹا اور زخم خوردہ ہے اور ستم کار لوگ رحمت الہی سے دور ہیں۔
ان پر افسوس، ان لوگوں نے خلافت کو اس کے مضبوط مرکز سے جدا کیوں کیا، ان لوگوں نے نبوت اور راہنمائی کی اساس سے خلافت کو کیوں دور کیا؟ ان لوگوں نے خلافت کو اس گھر سے کیوں نکالا جہاں روح الامین اترا کرتے تھے۔ ان لوگوں پر افسوس!جنہوں نے دنیا و آخرت کے امور جاننے والوں کو خلافت سے علیحدہ کیا آگاہ رہنا یہ سراسرگھاٹے کا سودا ہے۔ علی علیہ السلام میں کون سا عیب دیکھا ہے؟ خدا کی قسم فقط ان میں یہ عیب ہے کہ ان کی تلوار کاٹنے والی ہے، وہ موت سے ڈرنے والے نہیں۔ معاملات میں سخت گیر ہیں اور ان کا محاسبہ سخت ہے اور ان کا غضبناک ہونا رضائے الہی کے لئے ہے۔
خدا کی قسم جن امور کی باگ ڈور رسول خدانے علی کے حوالے کی تھی اگر لوگ ان امور کے سنبھالنے سے باز رہتے تو علی ان کو اچھی طرح سنبھال سکتے تھے۔ علی انہیں بڑی ملائمت سے لیکر چلتے۔ علی خلافت کے شتر کو زخمی کئے بغیر صیح و سالم منزل پر پہنچا دیتے۔ اس کا سوار رنج وعلم نہ اٹھاتا۔ علی لوگوں کو ایسے صاف ستھرے ٹھنڈے میٹھے پانی کے تالاب پر لاکھڑا کرتے جس کا پانی دونوں کناروں سے چھلک رہا ہوتا اور اس کے دونوں اطراف رنگِ کدورت سے گدلے نہ ہوتے۔ اور حضرت امام علی لوگوں کو اس شیریں چشمہ سے سیراب کرکے لوٹاتے۔ علی ظاہر و باطن میں لوگوں کی خیر خواہی کرتے۔ اگر زمام اقدار حضرت امام علی کے پاس ہوتی توبیت المال سے زیادہ دولت نہ لیتے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ ہرگز نہ لیتے اگر علی احتیاج بھی محسوس کرتے تو بیت المال سے بس اتنا ہی حصہ لیتے جتنا کہ پیاسے کو اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اتنے ہی لقموں پر قناعت کرتے جو کسی بھوکے کی زندگی کا سہارا بن سکیں تب لوگوں کو معلوم ہوتا کہ زاہد کون ہے؟ اور مال دنیا کا حریص کون ہے دنیا جان لیتی کہ سچا کون ہے اور جھوٹاکون ہے۔
اگر آبادیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے لئے آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی اور ہم نے ان کے کردار کی وجہ سے انہیں پکڑلیا۔
اگر قریہ والے ایمان اور تقویٰ کو اپنا لیتے تو زمین و آسمان کی برکتیں ان پر اتاری جاتیں، لیکن آیات الہی کو جھٹلاتے ہیں، "لہذا اہم نے انہیں اپنے اعمال کی زد میں جکڑ لیا ہے اور اس گروہ میں سے زیادتی کرنے والوں کو اپنے کاموں کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور وہ کسی صورت میں ہم پر غالب نہیں آسکتے۔"
آگاہ رہو، آؤاور سنو جب تک زندہ رہوں گی حالات نئی نئی چیزیں تمہیں دکھائیں گے اگر تعجب کرو تو ان کی گفتار تعجب آمیز ہے، اے کاش جان لیتی، انہوں نے کس پناہ گاہ میں پناہ لی ہے اور کس ستون پر تکیہ کیا ہے؟ کس رسی کو تھاما ہے؟ کن فرزندوں پر تجاوز کیا ہے اور کس پر ناجائز قبضہ کیا ہے؟ کس قدر برے انسان کو رہبر اور دوست منتخب کیا ہے، اور ستم کاروں کیلئے بہت برا بدلا ہے۔
خدا کی قسم، بڑے پروں کی بجائے دم کے بالوں کا انتخاب کیا ہے، اور پشت کے بجائے دم کو چن لیا ہے، وہ قوم ذلیل و خوار ہوجاتی ہے جو یہ خیال نہیں کرتی کہ اس طرح کے کام اچھے کام ہیں۔ جان لو کہ یہ فاسد ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں، افسوس ہے ان پر، کیا جو ہدایت یافتہ ہے وہ پیروی کا مستحق ہے یا وہ جو ہدایت یافتہ نہیں ہے بلکہ ہدایت کا محتاج ہے، وہ پیروی کے مستحق ہیں؟ افسوس ہو تم پر کہ کس طرح فیصلے کرتے ہو۔
مجھے میری جان کی قسم، اس فتنہ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اس انتظار میں رہو کہ اس مرض کا فساد معاشرے میں پھیل جائے، تو اس وقت دودھ والی جگہوں سے تازہ خون اور ہلاک کرنے والی زہر دوھیا کرو گے، یہی وہ جگہ ہے جب باطل کی راہ چلنے والے نقصان اٹھاتے ہیں، اور آنے والی نسلیں ان کے اعمال کے نقصانات دیکھیں گے، اس وقت آپ کی دنیا ہی آپ کی جان ہو گی اور فتنوں سے آپ کے دلوں کو آرام آئے گا، اور میں خبر دیتی ہوں کہ ہمیشہ تلواروں اور ظلم کرنے والے حملہ آوروں کی زد میں رہو گے اور عمومی طور پر بد نظمی اور طاقتوروں کے استبداد کا شکار رہو گے اور وہ لوگ بہت کم حقوق تمہیں دیں گے اور تلواروں کے زور پر تمہارے اتحاد کو پارا پارا کریں گے، اس وقت تم کف افسوس ملو گے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں، آیا جس کام سے صرف نظر کر چکے ہو کیا میں اس کام پر تم کو آمادہ کر سکتی ہوں؟
سوید بن غفلہ کہتے ہیں، پس عورتوں نے یہ باتیں اپنے شوہروں کو بتائیں تو مہاجرین و انصار میں سے بعض لوگ معذرت خواہی کیلئے آکر کہتے تھے، اے سیدة النساء اگر حضرت امام علی ابوبکر کی بیعت کرنے سے پہلے ہمیں بتا دیتے تو ہم ان پر کسی اور کو ترجیح نہ دیتے۔ پھر حضرت زہرانے فرمایا۔ مجھ سے دوررہو، ارتکاب گناہ اور اس سہل انگاری کے بعد بہانہ سازی کا تو کوئی مطلب نہیں بنتا۔
۳۔ خلافت کے غصب کرنے والوں کے بار ے میں
روایت ہے پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد امیر المومنین سے خلافت غصب کر لینے کے بعد عمر ہمیشہ تلوار اپنی کمر سے لگا کر مدینہ میں چکر لگاتا تھا کہ ابو بکر سے بیعت کرو، اس سے بیعت کرنے میں جلدی کرو، ہر طرف سے لوگ اس کی بیعت کرنے کیلئے آتے تھے، چند دن گذرنے کے بعد عمر کچھ لوگوں کے ہمراہ حضرت امام علی کے دروازے پر آکر کہتا ہے کہ علی باہر آئیں۔ جب علی باہر نہیں آئے تو عمر نے لکڑیاں اور آگ منگوا کر کہا اس کی قسم جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے، یا گھر سے باہر آؤ یا تمام اہل خانہ کو آگ لگا دوں گا، اس کے بعد حضرت فاطمہ دروازے کے پاس آئیں اور کہا تمہاری طرح کی ملت میں نے نہیں دیکھی جو بے وفا اور معاملات میں بری ہو، رسول خدا کا جنازہ ہمارے ہاتھوں میں چھوڑ کر اپنے قول و قرار اور وعدوں کو پھاڑ دیا ہے اور بھول گئے ہو ہمیں خلافت سے تو محروم کرہی دیا کیا ہمارے لئے کسی قسم کے حق کے بھی قائل نہیں ہو گویا غدیرخم والے واقعہ سے آگاہی نہیں رکھتے۔
خدا کی قسم اس دن پیغمبر اسلام(ص) نے امیر المومنین کی ولایت کو نہ فقط بتایا بلکہ لوگوں سے بیعت بھی لی تاکہ تم جیسے موقع پرست لوگوں کی امیدوں کو ختم کریں لیکن تم نے پیغمبر اسلام(ص) سے تعلقات کے رشتوں کو پارہ پارہ کردیا، تو جان لو کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے گا۔
ارشادات جناب سیدہ علیہ السلام
۱۔ اللّٰہ جل جلالہ کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا
بغیر کسی مادے کے موجودات کو پیدا کیا، اور ان کو بغیر کسی مشابہت سے پیدا کیا، اپنی قدرت سے ان کو پیدا کیا اور اپنے ارادے سے ایجاد کیا، البتہ بغیر اس کے کہ ایجاد اور پیدا کرنے میں کسی کا محتاج ہو اور ان کی تصویریں بنانے میں اسے کوئی فائدہ نہیں ہے، مگر یہ کہ اس کی حکمت ثابت ہو جائے اور اس کی اطاعت کرنے پر آگاہی حاصل ہوجائے اور اپنی قدرت کے اظہار کیلئے اور اپنی عبودیت کی راہ کی شناخت کیلئے اور اپنی دعوت کو متبرک بنانے کے لئے۔
۲۔ قرآن کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا
قرآن کے ذریعے سے اللہ کی روشن دلیلوں کو پایا جاتا ہے اور بیان کردہ واجبات کو سمجھا جاتا ہے اور مزید یہ کہ ڈرائے گئے محرمات، براہین، واضح اور دلائل قاطعہ وساطعہ اور بھرپور فضائل اور بخشے گئے جائز امور اور لکھے گئے قوانین روشن ہوتے ہیں۔
۳۔ قرآن کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا
آپ کے پاس قرآن، کتاب ناطق ہے اور وہ سچ بولنے والا ہے اور نمایاں نور والا ہے اور اس کے نور کی شعائیں ہر اس جگہ پر پڑتی ہیں کہ جس کی وجہ سے دلائل و براہین روشن اور اس کے راز آشکار ہیں اور اس کے ظواہر نمایاں ہیں، جس میں اس کی پیروی کرنے والے حیرت زدہ ہیں اور وہ پیروی کرنے والوں کی بہشت کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے اور اس کی سماعت راہ نجات ہے۔ یعنی قرآن کی تلاوت سننا باعث نجات ہے۔
۴۔ قرآن کی توصیف میں فرمایا
قرآن کے امور ظاہر ہیں اور اس کے احکام نمایاں اور نورانی ہیں اور اس کی علامتیں روشن ہیں، اور اس کے محرکات واضح ہیں اور اس کے احکام روشن ہیں۔
۵۔ اپنے والد گرامی کی توصیف میں فرمایا
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام(ص) کو اپنے دین کی تکمیل کیلئے اور اپنے فرامین کو اختتام تک پہنچانے کیلئے اور اپنی رحمت بے کراں کو مرحلہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے مبعوث کیا۔
۶۔ اپنے والد گرامی کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا
پیغمبر اسلام(ص) نے اپنی رسالت کا آغاز ڈرانے سے کیا، مشرکین کے طریقے سے دوری اختیار کی، مشرکین کے سرداروں سے دشمنی اور جھگڑے سر لئے اور پھر انہیں حکمت اور پند و نصیحت کے انداز میں اپنے پروردگار کی طرف ہدایت کی، بتوں کو سرنگوں کیا اور طاقتوروں کی گردنیں جھکا دیں۔
۷۔ اپنے والد اور شوہر نامدار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا
محمد و علی اس امت کے باپ ہیں اگر ان کی پیروی کرو گے، تو مشکلات برطرف اور دردناک عذاب سے نجات ملے گی اور اگر ان کا اتباع کرو گے تو ہمیشہ رہنے والی نعمتیں عطا ہوں گی۔
۸۔ اپنے والد محترم اور شوہر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا
ہمارے نسبی والدین کی ناراضگی کے باوجود اپنے دینی والدین، محمد وعلی کو ہم سے راضی فرما، اور محمد و علی کی ناراضگی سے انہیں راضی نہ فرما، کیونکہ اگر نسبی والدین ناراض ہوجائیں تو محمد وعلی ہزار، ہزار ثواب سے ایک جزا ایک گھنٹہ کی اطاعت کے بدلے میں راضی کردیتی ہے لیکن اگر تیرے دینی باپ ناراض ہوجائیں تو یہ نسبی باپ انہیں راضی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کیونکہ تمام دنیا کا اجر و ثواب ان کی (محمد و علی) ناراضگی کے برابر نہیں ہے۔
۹۔ اپنے شوہر کی فضیلت میں فرمایا
تحقیق حقیقی سعادت اور نیک بختی بلکہ تمام نیکیوں کا سرچشمہ یہ ہے کہ علی علیہ السلام کو زندگی اور ان کی شہادت کے بعد بھی دوست رکھتا ہو۔
۱۰۔ اپنی خلقت کے بار ے میں
خداوند عالم نے میرا نور خلق کیا، اور میرا نور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بجا لاتا تھا، پھر میرے نور کو بہشتی درختوں میں سے ایک درخت میں ودیعت کیا اور وہ درخت اس نور کی وجہ سے روشن ہوا، جب میرے والد گرامی جنت میں داخل ہوئے تو خداوند عالم نے انہیں الہام کیا کہ اس درخت سے پھل توڑکر کھائیں اور میرے والد گرامی نے یہ کام انجام دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو میرے باپ کے صلب میں ودیعت رکھا۔ پھر اسے میری والدہ خدیجہ بنت خویلد کے رحم میں منتقل کیا، یہاں تک کہ میں دنیا میں آئی۔ میں اسی نور سے ہوں جو کچھ ہو چکا ہے اور آئندہ جو ہو گا جانتی ہوں۔
۱۱۔ اہل بیت کی تعریف میں فرمایا
ہم اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوقات کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہیں۔ اس کے خاص بندے ، اس کی تسبیح کرنے والے، اس کی حجتیں اور اس کے پیغمبروں کے وارث ہیں۔
۱۲۔ شیعہ کی توصیف میں فرمایا
اگر ہمارے فرامین کے مطابق عمل کریں اور ہمارے منع کردہ افعال سے رکیں، تب تو ہمارے شیعہ ہیں ورنہ ہمارے شیعوں میں شمار نہیں ہوسکتے۔
۱۳۔ شیعہ کی توصیف میں فرمایا
بیشک ہمارے شیعہ اہل بہشت کے بہترین لوگوں سے ہیں، ہمارے محب اور ہمارے محبوں کے محب بھی (شیعہ شمار ہوتے ہیں) اور ہمارے دشمنوں کے دشمن اور ہمیں دل و جان اور زبان سے چاہتے ہیں لیکن وہ ہمارے شیعوں میں شمار نہیں ہوتے۔ پر جو ہمارے فرامین کی مخالفت کرتے ہیں اور ہمارے نواہی سے نہیں بچتے، ایسے لوگ اگر جنت میں ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام تر مشکلات و تکالیف دیکھنے کے بعدپاک ہو کر آئے ہیں، یا قیامت کے مختلف مراحل میں، درد، یا جہنم کے پہلے طبقہ میں عذاب الہی میں مبتلا رہے ہوں گے لیکن وہ ہماری محبت کے سبب نجات پا کر ہم تک پہنچ جائیں گے۔
۱۴۔ علماء شیعہ کی فضیلت میں فرمایا
ایک عورت صدیقہ طاہرہ، فاطمة الزہرا علیھا السلام کے پاس آئی اور عرض کیا، کہ میری ضعیفہ ماں جسے نماز کے متعلق کچھ سوالات کے جوابات درکار ہیں، انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ سے سوالات کروں۔ پھر جناب سیدہ نے اس کے سوال کا جواب دیا، پھر دوبارہ سوال کیا، اور جواب دیا، پھر تیسری مرتبہ سوال کیا ،پھر جواب دیا یہاں تک کہ دس مرتبہ سوال کیا اور ہر مرتبہ جواب دیا۔ وہ عورت کثرت سوال کیوجہ سے شرمندہ ہوئی اور بولی، اے رسول خدا کی بیٹی مشکل میں مبتلا ہو گئی ہے، حضرت فاطمہ نے فرمایا، اپنے سوالات بیان کرو، پھر فرمایا میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جو فرما رہے تھے، جب علماء شیعہ قیامت کے دن میں محشور ہوں گے، تو علوم کی کثرت اور بندگان خدا کیلئے وعظ و ارشاد میں ان کی سنجیدگی کے پیش نظر انہیں کرامت کی خلعت پہنائی جائیں گی بلکہ بعض علماء پر ہزاروں خلعتیں نور سے ڈالی جائیں گی، پھر فرمایا، اے کنیز خدا اور ان کے خلعتوں کا ایک دھاگہ ان تمام چیزوں سے افضل ہے جس پر سورج کی روشنی جاتی ہے۔ یہ فضیلت اس لئے دی گئی ہے کہ انہیں زندگی میں آسودگی میسر نہیں آئی۔
۱۵۔ امت محمدی کی محبت کے بارے میں فرمایا
روایت ہے کہ جب حضرت زہرا نے سنا کہ ان کے با پ نے ان کا عقد کردیا ہے اور حق مہر کچھ (پیسے) قرار دیئے ہیں، اپنے باپ سے چاہا کہ اس کے لئے مہر، اپنی امت کے گناہگاروں کی شفاعت قرار دیں اتنے میں جبرئیل ہاتھ میں ایک کپڑا تھامے ہوئے آئے، جس پر لکھا تھا، کہ خداوند کریم نے فاطمہ کا حق مہر اس کے باپ کی امت کے گنہگاروں کی شفاعت قرار دیا ہے پھر جب جناب سیدہ کی وفات کا وقت نزدیک آیا، تو وصیت کی کہ وہ کپڑا میرے کفن میں، میرے سینہ پر رکھیں، پھر یوں فرمایا جب قیامت کے دن میں محشور ہوں گی تو اس کپڑے کو بلند کرکے اپنے باپ کی امت کے گناہگاروں کی شفاعت کروں گی۔
۱۶۔ امام حسین کے قاتلوں کے بار ے میں فرمایا
امام حسین کے قاتل جہنمی ہیں۔
۱۷۔ اپنے بیٹے کے قاتلوں کے بار ے میں فرمایا
وہ امت زیاں کار ہے جس نے اپنے نبی کی بیٹی کے فرزند کو قتل کیا۔ حسین کے قاتل جہنمی ہیں۔
۱۸۔ اہل بیت پر درود بھیجنے کے بار ے میں فرمایا
یزید بن عبدالمالک نوفلی، اپنے باپ سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ، حضرت فاطمہ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے سلام سے ابتدا کی اور پھر فرمایا، میرے باپ اپنی زندگی میں فرما رہے تھے کہ جو بھی مجھ پر اور آپ پر تین دن سلام بھیجے وہ جنت میں داخل ہو گا، میں نے عرض کیا، اے بنت رسول اللہ کیا یہ بات آپ کی اور آپ کے والد کی زندگی سے مربوط ہے یا بعد از وفات بھی تعلق رکھتی ہے تو آپ نے فرمایا، ہماری زندگی اور موت کے بعد بھی۔
۱۹۔ اپنی پسندیدہ چیزوں کے متعلق فرمایا
تمہاری دنیا سے تین چیزیں مجھے پسند ہیں۔
الف۔ کتاب خدا کی تلاوت کرنا ب۔ پیغمبر اسلام(ص) کے چہرے کی زیارت کرنا ج۔ راہ حق میں خرچ کرنا
۲۰۔ بعض سورتوں کی فضیلت میں فرمایا
سورہ حدید، سورہ واقعہ اور سورہ رحمن کی تلاوت کرنے والے کو آسمانوں کے ملکوت سے ندا دی جائے گی کہ تو جنت الفردوس کا مکین ہے۔
منتخب اقوال
کھانے کے آداب میں
کھانا کھانے میں بارہ آداب ہیں، جنہیں جاننا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ان میں سے چار آداب واجب ہیں، چار مستحب اور چار آداب خوراک ہیں۔
واجب آداب:۔ ۱۔ معرفت۔ ۲۔ خوشنودی ۳۔ بسم اللہ پڑھنا ۴۔ اور اس پر شکر کرنا
مستحب آداب:۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، بائیں طرف ہو کر بیٹھنا، تین انگلیوں سے کھانا۔
آداب خوراک:۔ ۱۔ اپنے سامنے والے برتن سے غذا کھانا، ۲۔ چھوٹے چھوٹے لقمے لینا، ۳۔ زیادہ دیر لقموں کو چبانا، ۴۔ اورلوگوں کے چہروں کی طرف کم نگاہ کرنا۔
۲۲۔ عذاب جہنم کی شدت کے بار ے میں فرمایا
اس پر بہت افسوس ہے جو جہنم کی آگ میں داخل ہو گا۔
۲۳۔ میت کیلئے دعا کی ترغیب دلاتے ہوئے
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرما رہے تھے، اپنے خاندانوں کو حکم دو کہ اپنے مردوں کے متعلق اچھی باتیں کہیں کیونکہ وفات کے وقت پیغمبر اکرم خاندان بنی ہاشم کی بیٹیاں، حضرت فاطمہ کی مدد کر رہی تھی، تو جناب زہرا نے فرمایا فضائل اور افتخارات چھوڑیں بلکہ دعا فرمائیں۔
۲۴۔ قرآن پاک کی تلاوت اور دفن کی رات میں دعا کرنے کے متعلق
روایت ہے کہ جناب سیدہ وقت احتضار میں، حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتی ہیں، جب دنیا سے چلی جاؤں تو میرے غسل کی ذمہ داری خود لینا، پھر فرمایا، میرے چہرے کی طرف منہ کرکے میرے سرہانے بیٹھ کر، زیادہ دیر قرآن پڑھنا اور دعا کرنا کیونکہ اس گھڑی میں، مردہ زندوں کی محبت کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔
۲۵۔ لیلة القدر کی فضیلت میں
روایت میں ہے کہ حضرت زہرا اپنے اہل خانہ کو شب قدر میں سونے نہیں دیتی تھیں، تھوڑی غذا فراہم کرکے ان کو بیدار رکھتی تھیں، لہذا شب بیداری کیلئے دن ہی سے تمام معاملات طے کر لیتی تھیں اور فرماتی تھیں محروم اور نقصان اٹھانے والا ہے وہ انسان جو شب قدر سے محروم رہا۔
۲۶۔ مہمان کے احترام میں فرمایا
رویات ہے کہ ایک آدمی پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں پہنچا، اور بھوک اور تنگدستی کے متعلق شکایت کی، تو رسول خدا نے فرمایا، آج رات کون اس آدمی کو کھانا کھلائے گا، امیر المومنین علی نے کہا، اے رسول خدا یہ سعادت میں لینا چاہتا ہوں، پھر امیر المومنین علی، حضرت فاطمہ کے پاس آئے او رکہا اے رسول خدا کی بیٹی کھانے کیلئے کوئی چیز ہے، تو انہوں نے جواباً کہا کہ ہمارے پاس بچوں کی غذا کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے، لیکن ہم اپنے مہمانوں کو اپنے سے مقدم رکھتے ہیں۔
۲۷۔ ہمسائے کو خود پر مقدم رکھنا
امام حسن علیہ السلام سے روایت ہے کہ میری ماں حضرت فاطمہ شب جمعہ کو مسلسل عبادت میں مشغول اور رکوع و سجود بجا لا رہیں تھیں، یہاں تک طلوع فجر ہوگئی اور میں نے سنا کہ مردوں اور عورتوں کے نام لے لے کر بہت زیادہ ان کے لئے دعا مانگ رہی تھیں لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگی۔ میں نے عرض کیا، امی جان، جس طرح دوسرے لوگوں کیلئے دعا فرما رہی ہیں، اپنے لئے کیوں نہیں کرتیں، تو فرمایا، میرے فرزند پہلے ہمسایہ، پھر اپنا خاندان۔
۲۸۔ ماں کی فضیلت میں
ہمیشہ اپنی ماں کی خدمت میں رہو، کیونکہ بہشت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
۲۹۔ میاں، بیوی کے وظائف کی تعین میں فرمایا
امیر المومنین علی علیہ السلالم اور حضرت زہرا اپنے گھریلو معاملات میں اپنے اپنے وظائف کے تعین میں پیغمبر اسلام(ص) سے تقاضا کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلام(ص) گھر کے اندرونی معاملات اور کاموں کو جناب سیدہ کے سپرد کرتے ہیں اور گھر کے باہر کام امیر المومنین کے سپرد کرتے ہیں، حضرت فاطمہ فرماتی ہیں میری خوش حالی اور مسرت سے سوائے ذات خدا کے کوئی واقف نہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے مردوں کے معاملات سے مجھے معاف رکھا۔
۳۰۔ بہترین مردوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا
تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق بہتر ہو، اور اپنی بیوی سے مہربانی و شفقت سے پیش آئے۔
۳۱۔ بہترین عورتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا
روایت میں ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام حضرت فاطمہ سے سوال کرتے ہیں کہ اچھی عورتیں کون سی ہوتی ہیں، تو فرمایا جو غیر مردوں کو نہ دیکھیں، اور نامحرم مردوں کی نگاہیں ان پر نہ پڑیں یا دوسری روایت میں یوں ہے کہ لوگ انہیں نہ دیکھیں۔
۳۲۔ عورتوں کیلئے بہتیرین چیز کے متعلق فرمایا
روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے پوچھا، عورتوں کیلئے بہترین چیز کیا ہے، تو فرمایا کہ عورت نامحروم کو نہ دیکھے اور نامحرم اس کو نہ دیکھے۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ وہ کسی نامحرم کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی نامحرم اسے دیکھے۔
۳۳۔ پرد ے کی اہمیت کے متعلق فرمایا
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخض نے حضرت زہرا سے اندر آنے کی اجازت چاہی، تو جناب سیدہ نے پردہ کیا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا، آپ پردہ کیوں کر رہی ہیں جبکہ وہ آپ کو نہیں دیکھ سکتا تو حضرت فاطمہ نے فرمایا، اگر وہ مجھے نہیں دیکھ رہا، میں تو اس کو دیکھ رہی ہوں، اور وہ خوشبو سونگھ سکتا ہے۔
۳۴۔ پرودگار کے قریب تر عورت کی حالت کے بار ے میں فرمایا
پیغمبر اسلام(ص) نے سوال کیا، عورت کے لئے اپنے پروردگار سے قریب ترین کون سا وقت ہے؟ تو کہا اپنے پروردگار کے نزدیک عورت کا وہ وقت ہے جب وہ اپنے گھر میں بیٹھی ہوتی ہے۔
۳۵۔ قبولیت دعا کا و قت
حضرت فاطمہ جمعہ کے دن اپنی کنیز کو فرماتیں ہیں، بلندی پرکھڑی ہوجاؤ اور جیسے ہی سورج غروب ہونے لگے، مجھے اطلاع دینا تاکہ دعا مانگوں۔
۳۶۔ عمل خالص کی فضیلت میں
جو بھی خلوص دل سے اعمال صالح بارگاہ ایزدی میں بھیجے گا تو خدا بھی اس کے مقدر میں بہترین مصلحت لکھے گا۔
۳۷۔ مومنین کی کامیابی پر فرشتوں کا اظہار مسرت
دو عورتیں مسائل دینیہ میں کسی مسئلہ پر آپس میں بحث کر رہی تھیں، جن میں ایک دشمن تھی اور دوسری مومنہ تھی، مومنہ عورت کی دلیل غالب ہو تی، تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتی۔ تو حضرت زہرا نے ارشاد فرمایا، کہ فرشتوں کی خوشی آپ کی خوشی سے کہیں زیادہ ہے اور شیطان اور اس کے حواری تمہارے دشمنوں سے زیادہ پریشان ہیں۔
۳۸۔ مومن کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا
مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
۳۹۔ اچھے انداز میں پیش آنے کے متعلق فرمایا
مومن کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اس کو جنت کی طرف لے جائے گی، اور دشمن کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اسے عذاب دوزخ کا نظارہ دکھاتی ہے۔
۴۰۔ روزہ دار کے وظائف میں
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی خدمت میں استغاثے
۱۔ دعا اور نماز کے لئے استغاثہ
امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ میں سے کوئی اگر بارگاہ ایزدی میں استغاثہ کرنا چاہتا ہو، تو اسے چاہیے کہ دو رکعت نماز پڑھے، پھر سجدہ میں جا کر کہے، اے محمد، اے رسول اللہ، اے علی اے مومن مرد اور عورتوں کے آقا اور سردار، آپ کے توسل سے، بارگاہ ایزدی میں مددکا طلبگار ہوں، اے محمد، اے علی، آپ کے توسل سے، بارگاہ ایزدی میں فریاد کرتا ہوں، اے فریاد رسی کرنے والے ، خدا، محمد، علی، فاطمہ اور تمام آئمہ کے توسل سے آپ کی بارگاہ میں استغاثہ کرتاہوں، اسی لخطہ میں انشاء اللہ آپ کی حاجات پوری ہوں گی۔
۲۔ نماز، دعا کے ذریعے سے استغاثہ
امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت ہے، جب بھی حاجت رکھتے ہو، اور اس حاجت میں سخت محتاج ہو، تو دو رکعت نماز، بجا لاؤ، نماز کے بعد تین بار تکبیرپڑھو، پھر سجدہ میں جا کر سو مرتبہ یوں کہو،
اے میری مولا و آقا فاطمہ میری فریاد رسی فرمائیں۔
پھر دائیں طرف سے رخسار کو زمین پر رکھیں اور مذکورہ ذکر سو مرتبہ تکرار کریں۔ پھر دوبارہ سجدہ میں جا کر ایک سو دس (۱۱۰) مرتبہ وہی ذکر پڑھیں پھر اپنی حاجات کا ذکر کریں خداوند متعال آپ کی حاجت کو برلائے گا۔
۳۔ نماز کے ساتھ استغاثہ
اولاً دو رکعت نماز بجا لائیں، پھر سجدہ میں جائیں اور سو مرتبہ پڑھیں، یا فاطمہ ، یا فاطمہ پھر دائیں رخسار کو زمین پر رکھ کر سو مرتبہ اسی ذکر کو دہرائیں، پھر بائیں رخسار کو زمین پر رکھ کر سو مرتبہ وہی ذکر دہرائیں، پھر سجدہ میں جا کر مذکورہ، ذکر ایک سو دس مرتبہ پڑھیں اور پھر کہیں اے وہ ذات جو ہر چیز سے محفوظ ہے اور ہر چیز آپ سے خوف و ہراس میں ہے، میں سوال کرتا ہوں تیرے ہر چیز سے محفوظ ہونے اور ہر چیز کو تیری ذات سے خوف و ہرا س کے لاحق ہونے کے ذریعے سے کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج، اور مجھے میرے خاندان سے میرے اموال، اور میرے فرزندوں کی جانوں کی حفاظت فرما، میں نہ کسی سے ڈروں نہ خوف کھاؤں کیونکہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
۴۔ دعا کے ساتھ استغاثہ
پانچ سو مرتبہ کہیں اللہ تعالیٰ، فاطمہ اور اس کے باپ ، شوہر اور اس کے فرزندوں پر اپنے علم کے محیط کے مطابق درود بھیج۔
۵۔ دعا کے ساتھ استغاثہ
بارالھا: فاطمہ اور اس کے باپ اور شوہر، اور بیٹوں اور ان میں امانت رکھے گئے حق کی وساطت سے التجا کرتا ہوں۔
|