(دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید)
 

تیسری فصل
دعائے ندبہ کے متعلق چند نکات
پہلا نکتہ :
دعائے ندبہ کے بعض نکات سے چند عظیم شیعہ فقہا کا استناد کرنا ۔
عالم تشیّع کے بزرگ فقہاء نے اپنی استدلالی کتابوں میں دعائے ندبہ کے بعض حصے کو بطور شاہد و استناد پیش کیا ہے کہ جس میں سرِ فہرست استاد الفقہا و المجتہدین آیت اللہ شیخ مرتضیٰ انصاری رحمة اللہ علیہ (متوفی۱۲۸۱ھئق) ہیں ۔
انہوں نے کتاب المکاسب میں جو حوزہ علمیہ کی درسی کتاب ہے ،اس سلسلے میں کہ کیا ابتدائی التزامات (معاہدوں) پر شرط ، صادق آتی ہے یا نہیں دعائے ندبہ کے ایک حصہ کو جس کی عبارت یہ ہے :
”قولہ علیہ السلام فی اوّل دعاء الندبہ “بطور شاہد پیش کیا ہے۔ (۱(
________________________
۱۔ المکاسب ،شیخ مرتضیٰ انصاری، ص۲۱۶۔
اور یہ اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ شیخ انصاری دعائے ندبہ کو امام معصوم علیہم السلام سے ماثور جانتے ہوئے اس سے استناد کرتے ہیں اور اسے ”قولہ علیہ السلام“ ”امام علیہ السلام “ کے قول سے تعبیر کرتے ہیں ۔
شیخ انصاری کے بعد ،کتاب المکاسب کی شرح اور حاشیہ تحریر کرنے والوں نے جو سبھی اپنے زمانے کے مراجع کرام میں سے تھے ،مکاسب کے اس مذکورہ حصہ کی شرح میں انہوں نے دعائے ندبہ سے استناد کیا ہے اور دعائے ندبہ کو امام معصوم سے استناد کرنے کے موقع پر شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا ہے کہ ہم ان میں سے بعض افراد کے اسماء کو اپنے صفحات کی زینت قرار دے رہے ہیں:
۱۔ آیت اللہ الحاج شیخ محمد حسن مامقانی ،(متوفی ۳۲۳اھئق) ۔(۱(
۲۔ آیت اللہ الحاج ملّا محمد کاظم خراسانی ،صاحب کفایہ (متوفی ۱۳۲۹ء ھ ق)۔
۳۔ آیت اللہ الحاج سید محمد کاظم یزدی صاحب عروة الوثقیٰ (متوفی ۱۳۳۷ ھئق)۔
۴۔ آیت اللہ الحاج مرزا علی ایروانی (متوفی ۱۳۵۴ھئق)۔(۲(
۵۔ آیت اللہ الحاج شیخ محمد حسین اصفہانی ،(متوفی ۱۳۶۱ھئق) ۔
۶۔ آیت اللہ الحاج مرزا فتّاح شہیدی (متوفی ۱۳۷۲ھئق)۔(۳(
________________________
۱۔ غایة الآمال ،الشیخ حسن مامقانی ،ج۲،ص ۲۔
۲۔ التعلیقةعلی المکاسب ،ایروانی ،ج۲،ص ۵۔
۳۔ ھدایة الطالب الی اسرار المکاسب ،مرزا فتّاح شہیدی ، ص۴۱۰۔
۷۔ آیت اللہ الحاج سید محمد شیرازی (ہم عصر)۔(۱(
اس بیان کی بنا پر ان تمام بڑے فقہا کہ جنہوں نے کتاب المکاسب پر شرح یا حاشیہ تحریر کیا ہے ان سب نے شیخ انصاری کی بات کا یقین اور اسے صحیح تسلیم کیا ہے اور جملہٴ ”قولہ علیہ السلام“ ”قول امام علیہ السلام“ ،پر اعتراض نہیں کیا ہے ۔ نتیجے کے طور پر دعائے ندبہ کے ماثور و منقول ہونے کی سب نے امضاء و تائید کی ہے۔

دوسرا نکتہ :
کیا یہ بات ممکن ہے کہ دعائے ندبہ بزرگ علماء میں سے کسی ایک کی خود ساختہ ہو؟
ہم جواب میں عرض کریں گے کہ یہ احتمال بہت سی دلیلوں سے بعید ہے :
۱۔دعائے ندبہ کی سند کو تفصیل کے ساتھ ہم نے بیان کیا۔
۲۔ اس کی قوّت سند اور اعتبار کو علامہ مجلسی سے ہم نے نقل کیا۔
۳۔ امام معصوم سے اس کے ماثور و منقول ہونے کے شواہد و دلائل کو ہم نے بیان کیا۔
۴۔ امام جعفر صادق سے اس کے منقول ہونے کے شواہد و دلائل کو ہم نے بیان کیا۔
۵۔ شیخ انصاری کے استناد اور ان کا دعائے ندبہ کی پیروی کرنے کو نیز اس کے ماثور ہونے کے سلسلے میں دوسرے عظیم فقہا کے اقوال کو ہم نے نقل کیا۔
_______________________
۱۔ ایصال الطالب الی المکاسب ،سید محمد حسینی شیرازی ،ج۱۱،ص۴۳۔
۶۔ سب سے پہلے جس نے دعائے ندبہ کو اپنی تحریر و تالیف میں ذکر کیا وہ ”بزوفری“ شیخ مفید کے استاد ہیں ،کہ جنہوں نے چار عظیم عیدوں میں دعائے ندبہ پڑھنے کے مستحب ہونے کا فتوی دیا ہے ۔(۱) لہذا اگر بزوفری کو اس دعا کے متعلق امام معصوم سے صادر ہونے کا اطمیان نہ ہوتا تو کبھی بھی اس کے مستحب ہونے کا فتوی نہ دیتے ،کیونکہ کسی شئے کے مستحب ہونے کا فتوی دینے کے لیے شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔
۷۔ ابن ابی قرّہ ،ابن مشہدی ، سید ابن طاووس ، محدث نوری ،محمدث قمی اور بہت سے فقہاء و محدثین نے بزوفری کے اس فتوی کو نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کو تسلیم کیا ہے ۔(۲(
۸۔ علامہ مجلسی نے اس کی سند کو معتبر قرار دینے کی تصریح کرنے کے بعد خود دعائے ندبہ کا چار عظیم عیدوں میں پڑھنے کے مستحب ہونے کا فتویٰ دیا ہے ۔ (۳(
_______________________
۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۵۷۳۔
۲۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۵۷۳۔ مصباح الزائر، سید علی بن موسیٰ ابن طاووس، ص ۴۴۶، حسین بن محمد تقی نوری، ص ۶۴۸، مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، طبع رسالت، ص ۶۵۰۔
۳۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ،ص۴۸۶۔
۹۔ اگر یہ دعا علماء میں سے کسی ایک کے ذریعہ انشاء ہوئی ہوتی تو یقینا اس کی تصریح کرتے ، اس لیے کہ علمائے شیعہ کا یہ شیوہ رہا ہے کہ اگر کوئی دعا یا زیارت نامہ کو انشاء کرے تو اس کی تصریح کرتے ہیں ۔
اور اب ہم چند چیزوں کی طرف بعنوان مثال اشارہ کرتے ہیں :
۱۔ شیخ صدوق نے ، حضرت فاطمہ زہرا کے زیارت نامہ کے متعلق ۔(۱(
۲۔ سید ابن طاووس نے روٴیت ہلال کی دعا کے متعلق ۔ (۲(
۳۔ فخر المحققین نے ، محدّث نوری کے نقل کے مطابق ”دعائے عدیلہ“ کے متعلق ۔ (۳(
۴۔ آقا جمال خوانساری نے ، حضرت عبد العظیم کے زیارت نامہ کے متعلق۔(۴(
۵۔ محدث قمّی نے ،حکیمہ خاتون سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ کے متعلق۔(۵(
________________________
۱۔ من لایحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق ،ج۳،ص ۵۷۳۔
۲۔ اقبال الاعمال ،سید ابن طاووس ،ص۳۰۷۔
۳۔ مستدرک الوسائل ،حسین بن محمد تقی نوری ،طبع سنگی ،ج۱،ص ۹۳ ۔
۴۔ المزار ،جمال خوانساری ،ص۱۰۹۔
۵۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی ،طبع رسالت ،ص۶۳۴۔
تیسرا نکتہ :
اعتراض کرنے والا کون ہے ؟
ابتدائی دنوں میں کہ جب دعائے ندبہ قابل توجہ منابع میں جیسے المزار الکبیر ، المزار القدیم ،الاقبال ،مصباح الزائر اور بحار الانوار وغیرہ میں نقل ہوئی اور عاشقین و قارئین کی دست رس میں قرار پائی تو خاندان عصمت و طہارت کے عقیدت مندوں نے بغیر کسی خوف کے جمعہ کے دنوں میں صبح کے وقت اور دوسری اسلامی عیدوں میں اس کے پڑھنے کی طرف سبقت حاصل کی اور سبقت کرتے رہتے ہیں ،کوئی شک و شبہ بھی نہیں رکھے کہ اس کا متن امام معصوم سے صادر ہوا ہے ، اس کا زمانہ ٴغیبت میں پڑھنا شیعہ منتظر کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی خاص عنایت و توجہ کا مرکز ہے ۔ اس طریقے سے ،علمائے اعلام اور اسلام کے پاسبانوں نے اس کی سند کے متعلق بحث و تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔یہاں تک کہ تقریباً تیس سال پہلے ایک کتابچہ بغیر کسی نام و نشان کے ”بررسی دعائے ندبہ “ (یعنی دعائے ندبہ کی تحقیق) کے نام سے ایک نامعلوم مولف جس کا مستعار (دوسرے سے مانگاہوا) نام ”علی احمد موسوی“ ہے تہران میں نشر ہوا کہ جس نے اس کی سند میں شک و شبہ کا اظہار کیا ،اس کے مطالب پر ناجواں مردانہ دھاوا بول دیا تھا۔ اس لحاظ سے عہد کیے ہوئے علماء اور درد آشنا پاسبانوں نے خود کو ذمہ دار سمجھا کہ اس ناجواں مردانہ دھاوا بولنے والے کو بغیر جواب دیے خاموش نہیں بیٹھیں گے ،لہٰذا دعائے ندبہ کی سند، متن اور دوسرے مختلف پہلوؤوں سے دفاع سے متعلق بہت سی گراں قدر کتابیں تحریر کیں اور اس کے کھوکھلے اعتراضات کا جواب دیا کہ اس کے بعض عناوین سے آپ اس کتاب میں آشنا ہوں گے ۔

چوتھا نکتہ :
کیا دعائے ندبہ ناحیہٴ مقدسہ (امام زمانہ ) کی طرف سے صادر ہوئی ہے؟
جیسا کہ ہم نے کتاب کے دوسرے حصہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا، دعائے ندبہ کو حضرت امام جعفر صادق سے صادر ہونے کا شرف حاصل ہے ،جیسا کہ علامہ مجلسی اور بعض بزرگوں نے اس بات کی تصریح کی ہے ۔(۱) اور سید ابن طاووس کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔(۲) لیکن ”محمد بن ابی قرّہ“ کی تعبیر کہ جس نے کہا ہے :
”کتاب”بزوفری“ میں ذکر ہوا ہے کہ یہ دعا صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ کے لیے ہے ۔“(۳(
_______________________
۱۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ،ص۳۹۴، مکیال المکارم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۳ ،شرح دعائے ندبہ ، سید صدر الدین مدرس ،ص۱۔
۲۔ اقبال الاعمال ، سید ابن طاووس ،ص۲۹۵۔
۳۔ المزار الکبیر ، ابن مشہدی ،ص۵۷۳، مصباح الزائر ،سید ابن طاووس،ص۴۴۶، زوائد الفوائد ، سید علی بن علی بن موسیٰ ابن طاووس (فرزند ابن طاووس ) خطی نسخہ ،ص۴۹۳۔
بعض ہم عصرلوگوں نے یہ تصور کیا ہے کہ یہ دعا ناحیہ مقدسہ (حضرت بقیة اللہ(
کی طرف سے صادر ہوئی ہے ۔(۱(

پانچواں نکتہ:
دعائے ندبہ اور وہ زیارت جو ”ندبہ “ کے نام سے مشہور ہے ۔
دعائے ندبہ کے علاوہ سرداب مقدس کے زیارت ناموں میں سے ایک زیارت نامہ ”ندبہ “ کے نام سے بھی موجود ہے اور وہ زیارت ”زیارت آل یٰسین “ کے نام سے مشہور ہے ۔
سید ابن طاوٴوس اپنی مبارک کتاب مصباح الزائر میں سرداب مقدس کی زیارتوں کو شمار کرتے ہوئے ”زیارت آل یٰسین “ کو اس عنوان سے بیان کرتے ہیں:
”ہمارے مولا حضرت صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ کی دوسری زیارت جو زیارت ”ندبہ “ کے نام سے مشہور ہے جو قداست ”ناحیہ مقدسہ“ کے عنوان سے مالا مال ہے اس نے ابو جعفر محمد ابن عبد اللہ حمیری کے لیے صدور کا شرف حاصل کیا، اور حکم دیا گیا ہے کہ سرداب مقدس میں پڑھی جائے: ”بسم اللّٰہ الرّحمن الرحیم ،لا لاٴمر ہ تعقلون، ولا من اولیائہ تقبلونسلام علی آل یاسین “(۲(

________________________
۱۔ہفدہ رسالہ ،محمد تقی شوشتری ،ص۳۴۳، دہ رسالہ ،رضا استادی ،ص۲۸۴، ۳۱۰۔
۲۔مصباح الزائر ،سید ابن طاوٴوس ،ص۴۳۰۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲،ص۹۲۔
مولف کہتے ہیں:”زیارت آل یٰسین “ کی شہرت قدماء کے درمیان ”زیارت ندبہ“ اور اس کا شرف صدور ناحیہٴ مقدسہ سے تھا ،جو احتمالاً اس بات کا باعث ہوا کہ بعض متاخرین یہ تصور کریں کہ مشہور دعائے ندبہ بھی ناحیہٴ مقدسہ سے صادر ہوئی ہے۔

چھٹا نکتہ :
کیوں دعائے ندبہ چار عظیم عیدوں میں پڑھی جاتی ہے؟
مستحب ہے کہ دعائے ندبہ چار عظیم عیدوں ،عید غدیر ،عید الفطر ،عید قربان اور جمعہ میں پڑھی جائے ۔اس دعا کے چار عظیم عیدوں سے مخصوص ہونے کی دلیل قول امام ہے اور شاید اس کا ان چار دنوں سے مخصوص ہونے کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہو کہ یہ چار دن سال بھر کی عظیم ترین اسلامی عیدوں میں سے ہے ،اور روایات کی بنیاد پر،ہر ایک عید کے دن خاندان عصمت و طہارت کا غم و اندوہ تازہ ہوتا ہے جیسا کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں:
”کسی عید کا دن مسلمانوں کے لیے نہیں آتاہے ،نہ عید الفطر ،نہ عید قرباں، مگر یہ کہ آل محمد کا غم و اندوہ اس میں تازہ ہوتا ہے “۔
راوی نے اس کی وجہ دریافت کی:تو امام نے فرمایا: ”کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا حق دوسروں کے ہاتھوں میں ہے ۔(۱(
۱۔علل الشرائع ،شیخ صدوق ، ج۲،ص ۳۸۹۔
امام سجاد ان اشعار میں جو حضرت سے منسوب ہیں اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
یفرح ھذا الوری بعیدھم ونحن اعیادنا مَآ تمنا
یہ لوگ ایام عید میں اپنی عید آنے کی وجہ سے خوشی مناتے ہیں لیکن ہم خاندان اہل بیت کی عیدوں کا دن ہمارا گریہ و ماتم ہے۔(۱(
چار عظیم عیدوں میں سے جمعہ کا دن مخصوص حیثیت رکھتا ہے ،اس لیے کہ یہ حضرت صاحب الزمان سے مخصوص ہے ۔(۲) اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کا ظہور اسی دن واقع ہو گا۔
”علی بن فاضل “کی روایت میں ”جزیرة خضراء “ کے متعلق ذکر ہوا ہے کہ جزیرہٴ خضراء میں حضرت کے لشکر اور فوج کے تمام کمانڈر ہر مہینے کے وسط میں جمعہ کے دنوں میں اپنے اسلحے کو حمائل کر کے اپنی سواریوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں اور صاحب الامر علیہ السلام کے ظہور کا انتظا ر کرتے ہیں۔(۳)
اس طریقے سے ہر آنے والا جمعہ کا دن کہ جس میں امر ظہور پر امضا اور تائید نہ ہو اہل بیت عصمت و طہارت اور ان کے عاشق دل باختہ کے لیے غم و اندوہ کا دن ہے اور مناسب ترین متن کہ جس کے پڑھنے سے ان کے دلوں پر مرہم رکھا جا سکے تاکہ ان کے پریشان دلوں کی تسلی کا باعث ہو سکے وہ دعائے ندبہ ہے ۔اس لحاظ سے ان
_________________________
۱۔ مناقب آل ابی طالب ،ابو جعفر محمد بن علی ابن شہر آشوب ،ج۴،ص ۱۶۹۔
۲۔ جما ل الاسبوع ،سید ابن طاوٴوس ،ص۳۷۔
۳۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۵۲،ص ۱۷۱۔
کے ظہور کے منتظر اور عاشق شیعہ ہر جمعہ کی صبح میں،اپنے آقا ،مولا ،منجی،سید و سردار اور اپنے امام کی یاد منانے کے لیے دعائے ندبہ برقرار ہونے والے مراکز کی طرف سرنگوں ہوتے ہیں،فراق یار میں اشک بہاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ اپنے حجت کو ظہور کی اجازت دے تاکہ حضرت کے فرج سے بے سروسامانی کو دور کرے ، جرائم اور خیانتوں کا خاتمہ کرے ، مشکلات ،تمام گرانی اور نگرانی کو دور کرے ، عدل و انصاف کے پر افتخار پرچم کو اپنے ولی کے ہاتھ میں بلند کرے ، ایک عالمی حکومت کو عدالت و آزادی کی بنیاد پر قائم کرے ، وسیع دنیا کو ظلم وستم کی آلودگی ،جہل ،بے جا برتری ،تجاوز ،قتل ،فقر و فاقہ سے پاک و پاکیزہ کرے ،نور علم ،عدالت اور حق و حقیقت سے زینت بخشے اس دن کے انتظار کی امید میں
انشاء اللہ