(دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید)
 
۸۔ کیا دعائے ندبہ کے فقرات قرآن کے مخالف ہیں؟
معترض کہتا ہے : دعائے ندبہ کے بعض فقرات قرآن کے ساتھ نا سازگار ہیں:
۱۔ دعائے ندبہ کا یہ جملہ جس میں کہا گیا ہے :
”وساٴلک لسان صدق فی الآخرین فاجبتہ و جعلت ذلک علیّاً“
”اور انہوں نے (حضرت ابراہیم علیہ السلام ) نے آخری دور میں صداقت کی زبان کا سوال کیا تو تو نے ان کی دعا قبول کر لی اور اسے
۱۔ مصباح الزائر ،سید علی بن موسیٰ ابن طاووس ، ص۴۲۳، بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲، ص۸۷۔
”علی “”بلند مرتبہ“ قرار دیا۔“
قرآن اور حضرت ابراہیم پر بہتان ہے ،اس لیے کہ قرآن کریم میں ”لسان صدق“ سے مراد نیک نام ہے نہ کہ حضرت علی علیہ السلام ۔
جواب میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ مطلب قرآن کریم کے دو سورو ں کی دو آیتوں کے ضمن میں بیان ہوا ہے :
۱۔ سورہٴ مبارکہٴ شعراء میں حضرت ابراہیم کی زبانی نقل ہوا ہے کہ:
<وَاجْعَلْ لِی لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِینَ >
”اور میرے لیے آئندہ نسلوں میں سچی زبان قرار دے ۔ “
۲۔ سورہٴ مبارکہٴ مریم میں حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کے دو افراد اسحاق و یعقوب کے متعلق فرماتا ہے :
< وَوَہَبْنَا لَہُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا >
”اور پھر انہیں اپنی رحمت کا ایک حصہ بھی عطا کیا اور ان کے لیے صداقت کی بلند ترین زبان بھی قرار دے دیں ۔“(۲)
اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ کا مذکورہ فقرہ جو قرآن کریم کی ان دونوں آیات کے
_________________________
۱۔ سورہٴ شعراء (۲۶) آیت ۸۴۔
۲۔ سورہٴ مریم ،(۱۹) ،آیت ۵۰۔
تناظر میں ہے اور ان سے بہت اچھا اقتباس ہے ،نہ صرف یہ کہ بہتان نہیں ہے ،بلکہ ان کا مطلوب و مقصود تھا جو قرآن کی تعبیر میں ”لسان صدق“ کے عنوان سے بیان ہوا،دعا میں بھی وہی تعبیر ذکر ہوئی ہے اور پروردگار کا مستجاب کرنا کہ جو قرآن کی تعبیر میں ”علیا“ کے عنوان سے بیان ہوا دعا میں بھی وہی تعبیر ذکر ہوئی ہے ۔
بہت سی روایات کے پیش نظر جو ائمہٴ نور علیہم السلام سے ان دونوں آیات کی تفسیر میں ذکر ہوئی ہے کہ آیہٴ مبارکہ میں لفظ ”علیاً“ سے مراد حضرت علی ہیں۔اب ہم بعض روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ شیخ صدوق طاب ثراہ نے ایک بہت طولانی حدیث کے ضمن میں امام صادق سے روایت کی ہے کہ اس آیہٴ مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔(۱(
۲۔ علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے ،انہوں نے امام حسن عسکری سے روایت کی ہے کہ اس آیہٴ مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد امیر المومنین ہیں ۔ (۲(
۳۔ ہاشم ،علی ابن ابراہیم کے جدّبزرگوار کہتے ہیں: میں نے امام حسن عسکری کی خدمت اقدس میںخط لکھا ،اور اس آیہٴ مبارکہ کی تفسیر کے متعلق حضرت سے سوال کیا ،انہوں نے خط لیا اور اس کے نیچے تحریر فرمایا:
_________________________
۱۔ کمال الدین وتمام النعمة ،شیخ صدوق ،ج۱،ص ۱۳۹۔
۲۔ تفسیر قمی ،ابو الحسن علی بن ابراہیم قمی ،ج۲،ص ۵۱۔
”خداوند متعال تجھے توفیق عطا فرمائے اور تجھے بخش دے ،اس سے مراد امیر المومنین علی ہیں ۔“(۱(
۴۔ یونس بن عبد الرحمن نے امام رضا کی خدمت اقدس میں عرض کیا: ایک گروہ نے مجھ سے سوال کیا کہ امیر المومنین کا مقدس نام قرآن میں کہاں ذکر ہوا ہے؟ میں نے ان سے کہا:آیہٴ مبارکہ <وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا > ‘ فرمایا: تم نے سچ کہا یہ مطلب اسی طرح ہے ۔“(۲(
۵۔ ابو بصیر، امام صادق سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیہٴ مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔ (۳(
۶۔ مفضّل نے بھی امام صادق سے ایک مفصل حدیث کے ضمن میںروایت کی ہے کہ اس آیہٴ کریمہ میں ”علیاً“ سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب ہیں۔(۴(
اس بیان اور بہت سی روایات کی بنا پر کہ ہم نے ان میں سے چند روایات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ آیہٴ کریمہ <وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا >میں (۵(
_________________________
۱۔ تاویل الآیات الظاہرہ ،سید شرف الدین علی نجفی ،ج۱،ص ۳۰۴۔
۲۔ البرہان فی تفسیر القرآن ،سید ہاشم بحرانی ،ج۳،ص ۷۱۷۔
۳۔ مناقب آل ابی طالب ،ابن شہر آشوب ،ج۳،ص۱۲۹۔
۴۔ معانی الاخبار ،شیخ صدوق ، ص۱۲۹۔
۵۔ سورہٴ مریم (۱۹) ،آیت ۵۰۔
”علیاً“ سے مراد امیر المومنین ہیں ،لہذا اگر دعائے ندبہ میں ”لسان صدق“ کو حضرت امیر المومنین کے وجود مقدس سے تفسیر کیا جائے تو یہ بالکل واقع کے مطابق ہے اورکسی قسم کے بہتان اور تہمت کی بات نہیں ہے ۔حالانکہ دعائے ندبہ میں آنحضرت کی تصریح نہیں ہوئی ہے، بلکہ آیہٴ کریمہ کی طرح ”وجعلتَ ذلک علیّاً“ ذکر ہوا ہے ۔لہذا اگر قرآن میں ”علیّاً“ سے مراد حضرت علی ہیں تو یہاں بھی وہی حضرت مراد ہیں ،اور اگر قرآن میںا س کا لغوی معنی استعمال ہوا ہوتا تو یہاں بھی وہی مراد ہوتا۔
اس حصہ کے آخر میں ہم مزید یہ کہتے ہیں کہ اس آیہٴ کریمہ میں ”علیّاً “ کی تفسیر حضرت علی ہیں ، یہ صرف شیعوں کی احادیث سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علامہ بحرانی نے عامّہ کے طرف سے بھی روایت نقل کی ہے کہ اس آیہٴ کریمہ میں ”لسان صدق“ سے مراد حضرت علی ہیں۔(۱(
قابل توجہ یہ ہے کہ حافظ حسکانی نے بھی ایک حدیث کے ذیل میں اسی معنی کا استفادہ کیا ہے ۔(۲(
۲۔ معترض کا دوسرا اعتراض اس جملہ پر ہے :
”و اوطاٴتہ مشارقک ومغاربک “
_____________________________
۱۔ رجوع کریں:اللّوامع النّورانیہ ،سید ہاشم بحرانی ،ص۲۶۹۔
۲۔ شواہد التنزیل ،عبید اللہ بن عبد اللہ حسکانی ،ج۱،ص ۴۶۳۔
”اور ان کے لیے تمام مشرق و مغرب کو ہموار کر دیا۔ “
وہ کہتا ہے : دعا کا یہ فقرہ بھی قرآن کریم کے ساتھ سازگار نہیں ہے ،اس لیے کہ:
سب سے پہلے یہ کہ : پیغمبر اکرم نے قرآن کریم کی نص کے مطابق مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک سفر کیا نہ کہ دنیا کے مشرق و مغرب میں ۔
دوسرے یہ کہ: زمین میں مشرق و مغرب ایک سے زیادہ نہیں ہیں۔
تیسرے یہ کہ:اگر زمین کے لیے بھی بہت سے مشرق و مغرب متصور ہوں تو لا مکان خدا کے لیے مشرق و مغرب کا کوئی تصور نہیں ہے تاکہ لفظ مشارق و مغارب کو اس سے منسوب کیا جائے ۔
پہلے حصہ کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ جو کچھ رسول اکرم کی رات کی سیر سورہٴ مبارکہ ”اسراء“ میں بیان ہوئی(۱) صرف اس رات کی سیر کا ایک حصہ ہے اور اس کا دوسرا حصہ کہ جسے معراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ضروری اعتقادات میں سے ہے سورہٴ مبارکہ ”نجم“ میں بیان ہوا ہے۔(۲)اور یہ رات کے وقت کی سیر مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ کے درمیان محدود نہیں ہے ،تاکہ معترض یہ کہے کہ یہ رات کے وقت کی سیر دنیا کے تمام مشرق و مغرب میں نہیں تھی۔
بلکہ یہ سیر نہ صرف یہ کہ نظام شمسی سے آگے ہوئی یہاں تک کہ ساتویں آسمان کی سیر کی(۱) بلکہ ساتویں آسمان سے بھی آگے سِدْرَةُ المنتہیٰ کی منزل تک ختم ہوئی۔ (۲(
________________________
۱۔ سورہٴ اسراء(۱۷) آیت ۱۔
۲۔ سورہٴ نجم (۵۳) آیت ۹۔ ۱۸۔
رسول اکرم کی معراج بلا شک وشبہ ، عنصری بدن کے ساتھ بیداری کی حالت میں ہوئی اصطلاحاً جسمانی معراج ہوئی ہے۔(۳) جیسا کہ کتاب کے دوسرے حصہ میں اس کے متعلق گفتگو کر چکے ہیں۔ (۴(
جب رسول اکرم نے ایک رات کے سفر میں نظام شمسی سے آگے آسمانوں کی طرف سفر کیا تو ”و اوطاٴتہ مشارقک و مغاربک “ کی تعبیر واضح طور پر محقق ہوئی ،اس لیے کہ سب سے پہلے یہ کہ : مشارق ومغارب تمام آسمانی کُر ے کا سفر کیا ہے ۔
دوسرے یہ کہ: جس شخص نے مکہ اور بیت المقدس کے درمیان تیس منزل کا ایک رات میں سفر طے کیا ہو، پھر کرہٴ خاکی کا آسمانی کُرے کے دیدار کے قصد سے سفر طے کیا ہو تو اس پر یہ بات صادق آتی ہے کہ اس نے زمین کے تمام مشارق و مغارب کا سفر طے کیا ہے ۔
تیسرے یہ کہ:اگر کوئی شخص ایک ملک کا سفر کرے اور اس کے بڑے شہروں کا
________________________
۱۔ السیرة النبویّہ،ابو محمد عبد الملک ابن ہشام ،ج۲،ص ۲۵۵۔
۲۔ مجمع البیان ، ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی ،ج۹،ص۲۶۵۔
۳۔ التبیان ،شیخ طوسی ،ج۹،ص۴۲۴،اعتقادات ،محمد باقر مجلسی ،ص۳۴۔
۴۔ معراج اور منحرف لوگوں کے اعتراضات کے جواب کے مسئلہ میں رجوع کریں: ہمہ می خواھند بدانند، ناصر مکارم شیرازی ۔ فروغ ابدیت ،جعفر سبحانی ،ج۱،ص ۳۰۵۔۳۲۰۔
مشاہدہ کرے ،تو اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں ملک کا سفر کیا اور اس کے شہروں کا دیدار کیا ہے ۔
چوتھے یہ کہ: خود رسول اکرم ،ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں:
”زُویتْ لی الارض، فاٴُریتُ مشارقھا و مغاربھا ،و سیبلغ ملک امّتی ما زُوِی لی منھا“ (۱(
”زمین میرے لیے سمیٹی گئی ،پھر اس کے مشارق و مغارب کو مجھے دکھایا گیا اور عنقریب میری امت کی وسعت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک مجھے لے جایا گیا ۔ “
دوسرے حصہ کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ زمین کی کرویّت کے پیش نظر جس جگہ بھی آفتاب چمکتا ہے ”مشرق “ اور بالکل اس کے مقابل میں ”مغرب “ شمار ہوتا ہے نتیجہ میں زمین سکیڑوں مشرق و مغرب کی حامل ہوگی،لہذا قرآن کریم میں لفظ مشرق و مغرب تین :واحد ،تثنیہ ،جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے ۔
۱۔ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ ۔(۲(
۲۔ رَبُّ الْمَشْرِقَینِ وَ الْمَغْرِبَیْنِ ۔(۳(
۳۔ فَلَا اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰارِقِ وَ الْمَغٰارِبِ ۔(۴(
________________________
۱۔ مناقب آل ابی طالب ،ابن شہر آشوب ،ج۱،ص ۱۵۲۔
۲۔ سورہٴ مزمل (۷۳) آیت ۹۔
۳۔سورہٴ رحمن ،(۵۵)،آیت ۱۷۔ ۴۔ سورہٴ معارج (۷۰) آیت ۴۰۔
اس بیان کی بنا پر معترض کے اعتراض کا دوسرا حصہ بھی قابل قبول نہیں ہے ۔
تیسرے حصہ کے جواب میں بھی ہم عرض کریں گے کہ مشارق و مغارب کا کاف خطاب کی ضمیر کی طرف اضافہ ہے کہ جس کا مخاطب خداوند منّان ہے لہٰذا کسی کے اعتراض کا محل باقی نہیں رہتا۔ اس لیے کہ مشارق و مغارب بھی تمام موجودات عالم کی طرح پروردگار کا خلق کیا ہوا ہے اور ہر ایک مخلوق کو اس کے خالق و مالک کی طرف اضافہ کیا جا سکتا ہے ،جیسا کہ قرآن کریم میں خداوند منّان لفظ”بیت “ کو اپنی طرف اضافہ کر کے فرماتا ہے:
<و طھّر بیتی للطائفین و القائمین و الرّکّع السجود>
”اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک و پاکیزہ بناؤ۔ “(۱(
معترض نے یہ خیال کیا ہے کہ اگر لفظ مشارق و مغارب کو خداوند منّان کی طرف اضافہ کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہے کہ خدا کرہٴ زمین کے ایک لفظ میں فرض کیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک مشرق و مغرب تصور کیا گیا ہے ،لہذا کہتا ہے کہ لا مکان خدا کے لیے مشرق ومغرب کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتا!
________________________
۱۔ سورہٴ حج (۲۲) آیت ۲۶۔
البتہ دشمنی اور ہٹ دھرمی، فہم سلیم اور کسی مسئلہ کو تشخیص دینے کی قدرت کوانسان سے سلب کر لیتی ہے ۔
معترض کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ جملہٴ:
<و اٴودعتہ علم ما کان و مایکون الی انقضاء خلقک >
”اور تمام ماضی اور مستقبل کے علوم کا اسے (یعنی پیغمبر اکرم کو) خزانہ دار بنایا۔ “
آیات قرآنی کے برخلاف ہے !
وہ کہتا ہے :یہ جملہ آیات قرآنی سے ناسازگار ہے ،اس لیے کہ اس جملہ کی بنیاد پر پیغمبر اکرم تمام دنیا کی گزشتہ ظاہری اشیاء سے اور دنیا کے ختم ہونے تک کی چیزوں سے باخبر ہیں، حالانکہ قرآن کریم نے علم قیامت کو خدا سے مخصوص کیا ہے (۱) بعض حوادث کو بھی اپنے مخصوص علوم میں شمار کیاہے ۔(۲) اور امیر المومنین نے اس علم کے مخصوص ہونے کی تاکید کی ہے (۳) اور بعض مقامات پر صریحاً فرمایا ہے کہ پیغمبر اسے نہیں جانتے (۴) اور بعض جگہوں پر صراحت کے ساتھ کہا:
________________________
۱۔ سورہٴ اعراف (۷) آیت ۱۸۷ ۔
۲۔ سورہٴ لقمان (۳۱) آیت ۳۴۔
۳۔ نہج البلاغہ ،شریف رضی ،خطبہ ۱۲۸۔
۴۔ سورہٴ احقاف،(۴۶)آیت ۹۔
<فلا یظھر علی غیبہ احداً>
”اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔“ (۱(
اس اعتراض کے جواب میں ہم کہیں گے: تعبیر ”ما کان و ما یکون “(یعنی جو ہوا ہے اور جو ہونے والا ہے)بہت سی حدیثوں میں ذکر ہوئی ہے اور یہ دعائے ندبہ سے مخصوص نہیں ہے ، یہاں تک کہ شیخ کلینی نے کتاب کافی میں اس عنوان سے ایک باب مخصوص کیا ہے اور وہاں بہت سی احادیث کو جمع کیا ہے ۔(۲(
انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے علم کے بارے میں بہت سے مسائل بیان ہوئے ہیں جو ان صفحات میں قلم بند نہیں کیے جا سکتے ہیں،ہم صرف اس کتاب کو اس اعتراض کے جواب سے خالی نہ ہونے کے لیے علامہ طباطبائی کی با برکت تحریر سے ایک فقرہ یہاں نقل کرتے ہیں آپ کہتے ہیں:
”امام عالم ہستی کے حقائق جن حالات کے تحت موجود ہوں ،اللہ تعالیٰ کی اجازت سے واقف ہیں ۔خواہ وہ حقائق محسوسات میں سے ہوں یا محسوسات کے دائرہ سے خارج ہوں ،جیسے آسمانی موجودات اور ماضی و مستقبل کے حادثات ۔
علم امام کو نقلی طور سے ثابت کرنے کے لیے ایسی متواتر روایات ہیں جو
________________________
۱۔ سورہٴ جن (۷۲) آیت ۲۶۔
۲۔ الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ج۱،ص ۲۶۰۔
شیعہ معتبر کتابوں میں جیسے : الکافی ،الوافی ،بصائرالدرجات ،کتب شیخ صدوق اور بحار الانواروغیرہ میں محفوظ ہیں۔
ان روایات کی بنا پر جن کی کوئی حد بندی نہیں ہے امام ،الٰہی وہبی راستے سے نہ اکتسابی طریقے سے تمام شئے سے آگاہ اور باخبر ہیں اور جو بھی چاہیں اذن ِخدا سے ایک ادنی توجہ سے جان لیتے ہیں۔
لیکن قرآن کریم میں ہمارے پاس ایسی آیات بھی ہیں جو علم غیب کو خداوند متعال کی ذات سے مخصوص اور حضرت احدیت ہی میں منحصر قرار دیتی ہیں،لیکن اس آیہٴ کریمہ : <عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَیُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ اٴَحَدًا إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ >(۱) ”وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے مگر جس رسول کو پسند کرلے“۔ میں ایک استثناء موجود ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہونے کا معنی یہ ہے کہ غیب کو بالذات اور مستقل طور پر سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا، لیکن ممکن ہے کہ منتخب انبیاء خدائی تعلیم سے جان لیں اور ممکن ہے کہ دوسرے برگزید ہ افراد بھی پیغمبر کی تعلیم کی بنا پر اس سے واقف ہو جائیں ،جیسا کہ بہت سی ان روایات میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اور ہر ایک امام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں
۱۔ سورہٴ جن(۷۲) آیت ۲۷۔
علم امامت کو اپنے بعد والے امام کے سپرد کرتے ہےں ۔ (۱(
اور عقلی لحاظ سے بھی ایسے ادلّہ و براہین موجود ہیں کہ ان کے باعث امام اپنی نورانیت کے مقام کے لحاظ سے نیز اپنے زمانے کے کامل ترین انسان ہونے ،اسماء و صفات الٰہی کا مکمل مظہر اور موجودہ طور پر دنیا کی تمام شئے اور ہر ذاتی واقعہ سے باخبر ہیں۔اور اپنے عنصری وجود کے لحاظ سے جس طرف بھی توجہ کریں ان کے لیے حقائق روشن ہو جاتے ہیں۔“(۲(
ائمہٴ نور علیہم السلام سے سیکڑوں حدیث جو علم امام کے بارے میں وارد ہوئی ہےں ہم ان میں سے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
”ایک دن عمر بن فرج رخجی نے ،دجلہ کے کنارے امام جواد کی خدمت میں عرض کیا: آپ کے شیعہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ آب دجلہ کی مقداراور اس کے وزن کو جانتے ہیں۔امام نے فرمایا:”کیا خدا وند متعال اس بات پر قادر ہے کہ اس کا علم ایک مچھر کو سکھائے ؟“
عمر نے کہا:ہاں اللہ تعالیٰ قادر ہے ۔
تو فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک مچھر سے اور بہت سی مخلوقات خدا سے زیادہ عزیز و محبوب ہوں۔“(۳(
_________________________
۱۔ الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ص۲۷۴۔
۲۔ بحث کوتاہی دربارہٴ علم امام ،سید محمد حسین طباطبائی ،ص۶۔۷۔
۳۔ الامام الجواد من المھدالی اللّحد،ص۲۸۳۔
حضرت علی نے بھی اس لیے کہ سبھی علم امام کو درک کر سکیں فرمایا:
”یا اخا کلب! لیس ھو بعلم غیب ،و انّما ھو تعلّم من ذی علم “
”اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے ،بلکہ وہ صاحب علم سے تعلیم حاصل کرنا ہے ۔“(۱(
جس طرح کہ ان دونوں بیان میں جو دو امام معصوم سے تعبیر کیا گیا اللہ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی علم ہے جو اس کی عین ذات اور قدیم ہے ،اور انبیاء و ائمہ علیہم السلام اور فرشتوں کا علم ،ایسا علم ہے جو الہام کے ذریعے یا اور بھی دوسرے ذرائع سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا ہوا ہے ،یہ علم ان کا عین ذات نہیں بلکہ حادث ہے ۔
اس بیان کی بنا پر رسول اکرم اور ائمہ ہدی ایک وہبی علم کے ذریعہ جو کچھ دنیا میں واقعات رونما ہوتے ہیں اور جو کچھ ماضی میں پہلے ہو چکے ہیں نیز جو کچھ آئندہ ظاہر ہو ں گے اللہ کے اذن سے آگاہ ہیں۔
پروردگار کے خصوصی علوم کے متعلق جو سورہٴ لقمان میں ذکر ہوا ہے ،سوائے قیامت کے علم کے کہ جس کے لیے مستقل بحث کی ضرورت ہے ،ان بہت سے موارد کے پیش نظر کہ جس کی خبر ائمہٴ معصومین علیہم السلام نے دی ہے(۲) معلوم ہوتا ہے کہ
__________________________
۱۔ نہج البلاغہ ،شریف رضی ،خطبہ ۱۲۸۔
۲۔ نوسو مقامات سے زائد غیب کے متعلق ایسی حدیثیں موجود ہیں جو ”الاحادیث الغیبة“ نامی کتاب کی تین جلدوں میں جمع کی گئیں ہیں ۔
ان کا علم بھی اللہ نے ذاتی طور پر اپنی ذات سے مخصوص قرار دیا ہے لیکن عرضی طور پر اپنی اجازت سے ائمہٴ اطہار علیہم السلام کے اختیار میں بھی قرار دیا ہے اور حضرت امیر المومنین کی اس کے مخصوص ہونے کی تاکید اسی پہلے معنی (ذاتی علم) کے تناظر میں ہے نہ کہ دوسرے معنی (وہبی علم) کے لیے ۔
لیکن اس قسم کی آیات جو رسول اکرم کی ذات سے غیب کی نفی کرتی ہیں جیسے آیہٴ:
<وَمِنْ اٴَہْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمُہُمْ>
”اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں ۔ “(۱(
ان مقامات پر بھی علم کی نفی کرنا مقصود نہیں ہے ،بلکہ علم ذاتی کا نفی کرنا مراد ہے، یعنی قبل اس کے کہ اللہ اس کی تمہیں خبر دے دل کی گہرائیوں سے اس سے مطلع نہیں تھے ،یا (اس آیت کا) مقصد یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان کے نفاق کی گہرائیوں سے باخبر ہے تمہیں اس حد تک آگاہی نہیں ہے ۔یا ان کے نفاق کی گہرائی و گیرائی اور وسعت مراد ہے کہ جسے اس طرح بیان کیا ہے ۔
لیکن وہ آیات کہ جن میں ”و ما ادریٰک“ (آپ کو کیا معلوم) کی تعبیر ذکر ہوئی ہے ،وہ سب ان موارد میں سے ہے ۔ کہ رسول اکرم ان کا علم رکھتے تھے ،خداوند
_______________________
۱۔ سورہٴ توبہ (۹) آیت ۱۰۱۔
منّان نے عظمت و منزلت بیان کرنے کے لیے مذکورہ مقامات میں ”و ما ادریٰک“ کی تعبیر استعما ل کی ہے ، شیخ طوسی اور شیخ طبرسی نے سفیان سے نقل کیا ہے کہ جس مقام پر مخاطب موضوع سے باخبر ہو وہاں اس کی شان و شوکت کو بیان کرنے کے لیے ”و ما ادریٰک “ استعمال کرتے ہیں،اس لیے کہ مخاطب صرف اس کی صفت کو جانتا ہے اور کسی بات کا سننااس کے دیکھنے کے مانند کہاں ہوتا ہے ۔(۱(
لیکن آیہٴ مبارکہ <عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احداً> اس کے بعد ذیل میں مزید یوں ذکر ہوا ہے :
<الّا من ارتضیٰ من رسول >(۲(
لہذا آیہٴ مبارکہ کے معنی یوں ہوں گے :
”وہ غیب کے راز کا علم رکھتا ہے کسی شخص کو اپنے راز سے آگاہ نہیں کرتا، صرف اس پیغمبر کے کہ جسے منتخب کیا ہو“۔
اس بیان کی بنا پر ، یہ آیت نہ صرف یہ کہ علم غیب کو پیغمبروں سے نفی نہیں کرتی ،بلکہ اسے منتخب پیغمبروں کے لیے ثابت کرتی ہے ۔
اس بات کی دلیل دوسری آیت ہے کہ جہاں فرماتا ہے :
<و ما کان اللّہ لیطلعکم علی الغیب ،و لکن منتخب کر لیتا ہے ۔“(۱(
لہٰذا دعائے ندبہ کا مذکورہ فقرہ ،مکمل طور پر آیات قرآن سے سازگار اور موافق ہے۔
۱۔ التبیان ،شیخ طوسی ،ج۱۰۔ص۹۴۔ مجمع البیان شیخ طبرسی ،ج۱۰،ص۵۱۶۔
۲۔ سورہٴ جن (۷۲) آیت ۲۶۔
اللّہ یجتبی من رسلہ من یشاء ‘>
”اور اللہ تعالیٰ تم کو غیب سے مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے
۴۔ معترض نے چوتھے جملہ پر اعتراض کا جو دعوی کیاہے کہ وہ قرآن کریم سے سازگار نہیں ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
”ثم جعلت اجر محمدٍ صلواتک علیہ و آلہ مودّتھم فی کتابک“
<قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی >
پھر تو نے مرکز رحمت محمد و آل محمد علیہم السلام کا اجر اپنی کتاب میں ان کی مودّت کو قرار دے کر اعلان کردیا اے پیغمبر! کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں سوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو۔“(۲(
_______________________
۱۔ سورہٴ آل عمران (۳) آیت۱۷۹۔
۲۔ سورہٴ شوریٰ (۴۲) آیت ۲۳۔
معترض کہتا ہے : دعائے ندبہ کا یہ فقرہ قرآن کے منافی ہے ،چونکہ:
سب سے پہلے یہ کہ :یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور اس وقت ابھی امام حسن اور امام حسین پیدا نہیں ہوئے تھے نیز اصولی طور پر اہل بیت اور آیہٴ تطھیر درکار نہیں تھی۔
دوسرے یہ کہ:خود مشرکین پیغمبر کو تسلیم نہیں کرتے تھے تاکہ پیغمبر ان سے اپنی خاندان والوں کی محبت کا مطالبہ کرتے۔
تیسرے یہ کہ: دوسری آیت میں فرمایا: ”میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا “(۱) لہٰذایہ آیت منسوخ ہو جائے گی ورنہ تناقض و تضاد لازم آئے گا۔
چوتھے یہ کہ:” قربیٰ “کا معنی پیغمبر کے رشتہ دار نہیں ہیں،بلکہ مندرجہ ذیل تین معانی میں سے کوئی ایک ہے :
۱۔ مطلقاً تمام رشتہ داریاں ،یعنی صلہٴ ارحام مراد ہے۔
۲۔ پیغمبر کی قریش کے ساتھ رشتہ داری ،یعنی اگر ایمان بھی نہیں لاتے پھر بھی تو میری رشتہ داری کے حقوق کی رعایت کرو۔
۳۔ پروردگار سے نزدیکی ،یعنی میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔
پہلے حصہ کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ معترض صاحب! آپ نے تفسیروں کی طرف رجوع کرنے سے پہلے اپنی بات کہی ہے ،ورنہ مفسرین نے تصریح
۱۔ سورہٴ ص(۳۸) آیت ۸۶۔
کی ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ۔ مثال کے طور پر علامہ طبرسی جو صف اول کے مفسرین میں سے ہیں انہوں نے سورہٴ شوریٰ کی ابتدا میں تحریر کیا ہے :
سورہٴ شوری مکہ میں نازل ہوئی سوائے چار آیتوں کے جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں منجملہ ان میں سے یہ آیہٴ مبارکہ:<قل لا اسئلکم علیہ اجراً الّا المودة فی القربیٰ>ہے۔(۱(
انہوں نے اس بات کو ابن عباس اور قتادہ سے نقل کیا ہے ۔(۲(
اگر شیعہ مفسرین کو نظر انداز کریں تو اہل سنت کے بہت سے مفسرین نے بھی تصریح کی ہے کہ یہ آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں منجملہ ان میں سے یہ ہیں:
۱۔ علامہ زمخشری (متوفیٰ ۵۲۸ھئق) سورہٴ شوری کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں ”یہ سورہ مکی ہے سوائے ان آیات ۲۳سے ۲۷ تک جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔“(۳(
۲۔علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ھئق)سورہٴ شوریٰ کے آغاز میں ابن عباس اور قتادہ سے نقل کرتے ہیں کہ سورہٴ شوریٰ مکہ میں نازل ہوئی ،سوائے چار آیتوں کے، کہ جس سے مراد<قل لا اسئلکم علیہ اجراً الّا المودّة فی القربیٰ > سے لے کر آخر تک کی آیات ہیں۔(۴(
_______________________
۱۔ سورہٴ شوریٰ(۴۲) آیت ۲۳۔ ۲۔ مجمع البیان ،شیخ طبرسی ،ج۹،ص۳۱۔
۳۔الکشّاف عن حقائق غوامض التنزیل ،محمود بن عمر زمخشری ،ج۴،ص ۲۰۸۔
۴۔ الجامع لاحکام القرآن ،محمد بن احمد قرطبی ،ج۱۶،ص۱۔
۳۔مصر کے عظیم مفسر ”شیخ احمد مصطفی المراغی (متوفی۱۳۷۱ھئق) سورہٴ شوری کے آغاز میں رقم طراز ہیں:
”یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ،سوائے ان آیات ۲۳ سے ۲۷ تک جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔“(۱(
۴۔ ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری (متوفی ۴۶۸ھئق) اس آیت کی شان نزول میں تحریر کرتے ہیں:
”جس وقت رسول اکرم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انصار کا ایک گروہ آپس میں جمع ہوا اور کہا:اللہ تعالیٰ نے اس پیغمبر کے ذریعہ ہماری ہدایت فرمائی، اور ان کا ہاتھ مالِ دنیا سے خالی ہے ،مناسب یہ ہے کہ اپنے مال و دولت کا ایک حصہ جمع کر کے ان کے اختیار میں دے دیں تاکہ مشکلات پیش آنے کے وقت ان کا ہاتھ کھلا رہے ۔
جب وہ لوگ آنحضرت کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے یہ پیش کش آنحضرت کے سامنے رکھی تو یہ آیت نازل ہوئی۔“(۲(
۵۔ امام فخر رازی (متوفی ۶۰۶ھئق) نے اس بات کو ابن عباس سے نقل کیا اور مزید تحریر کیا :
_______________________
۱۔ تفسیر المراغی ،احمد مصطفی المراغی ،ج۹،ص۱۳۔
۲۔ اسباب النزول ،ابو الحسن علی بن احمد نیشاپوری (واحدی) ،ص۲۵۱۔
” لہٰذا اپنے مال و دولت کی کچھ مقدار کو جمع کیا اور آنحضرت کی خدمت میں لائے، رسول اکرم نے ان کے اس مال و دولت کو انہیں واپس کر دیا پھر آیہٴ ”قل لا اسئلکم علیہ اجراً “نازل ہوئی ۔“(۱(
اس بیان کی بنا پر اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور معترض کے اعتراض کا پہلا حصہ ختم ہو جائے گا۔
اس کے اعتراض کا دوسرا حصہ بھی بنیادی طور پر جڑ سے ختم ہو جائے گا،اس لیے کہ اس آیت میں انصار کو خطاب کیا گیا ہے نہ کہ مشرکوں کو۔
لیکن معترض کے تیسرے حصےکے جواب میں ہم کہیں گے کہ قرآن کریم کے چھ سوروں میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی تبلیغ رسالت کے مقابل میں لوگوں سے اجر نہیں چاہتے اور وہ آیات یہ ہیں:
۱۔ < قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِنْ ہُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ >(2(
۲۔<قُلْ مَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ إِلاَّ مَنْ شَاءَ اٴَنْ یَتَّخِذَ إِلَی رَبِّہِ سَبِیلًا >(۲(
_______________________
۱۔ التفسیر الکبیر ،فخر رازی ،ج۲۷، ص۱۶۴۔
۲۔ سورہٴ انعام (۶) آیت ۹۰۔
۳۔ سورہٴ فرقان (۲۵) آیت ۵۷۔
۳۔ <قل ما ساٴلتکم من اجر فھو لکم ان اجری الّا علی اللہ > (۱(
۴۔<قُلْ مَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ >(۲(
۵۔ <اٴَمْ تَسْاٴَلُہُمْ اٴَجْرًا فَہُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ>(۳(
۶ ۔ <اٴَمْ تَسْاٴَلُہُمْ اٴَجْرًا فَہُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ>(۴)
ان چھ آیتوں کے مقابل میں قرآن کریم کے چھ سورے جو صراحت رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم تبلیغ رسالت کے بدلے لوگوں سے اجر و مزدوری نہیں طلب کرتے، سورہٴ مبارکہ شوری میں ذکر ہوا ہے :
”قل لا اسئلکم علیہ اجرا الّا المودّة فی القربی“(۱(
________________________
۱۔ سورہٴ سبا(۳۴) آیت۴۔
۲۔ سورہٴ ص(۳۸) آیت ۸۶۔
۳۔ سورہٴ طور(۵۲) آیت ۴۰۔
۴۔ سورہٴ قلم (۶۸) آیت ۴۶۔
۵۔ سورہٴ شوری (۴۲) آیت ۲۳۔
معترض کہتا ہے :قرآن اللہ کا کلام ہے اس کی آیات کے درمیان تناقض و تضاد نہیں پایا جانا چاہیے، لہذا یہ آیت گزشتہ آیات کے ذریعہ منسوخ ہوئی ہے ۔
جواب میں ہم یہ عرض کریں گے: جیسا کہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا کہ شیعہ مفسرین کے علاوہ عظیم سنی مفسرین نے بھی جیسے فخر رازی ،زمخشری ،قرطبی اور مراغی نے تصریح کی ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ چھ سوروں کے لیے تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئے ہیں،لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ مدنی آیات مکی آیات کے ذریعے منسوخ ہو؟!
علامہ قرطبی نے نسخ کے قول کو ضحّاک سے نقل کیا ہے ،پھر فرمایا ہے:
”ثعلبی نے کہا ہے :یہ بات بے بنیاد ہے ،کتنی بری بات ہے کہ کوئی یہ کہے :اللہ تعالیٰ سے اس کے پیغمبر اور اہل بیت پیغمبر کی اطاعت و مودت کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے؟! حالانکہ پیغمبر اکرم نے فرمایاہے: ”من مات علی حبّ آل محمد مات شھید“ (۱) جو شخص محبت آل محمد علیہم السلام پر مر جائے وہ شہید مرا ہے “۔
لیکن تناقض و تضاد کا مسئلہ ،تمام لوگوں کے لیے روشن ہے کہ اس آیت اور گزشتہ آیات میں کسی قسم کا کوئی تناقض و تضاد نہیں پایا جاتا ، اس لیے کہ اگر اس آیت میں مال دنیا سے کوئی چیز حکومت و سلطنت یا اسی طرح کی کوئی دوسری شئے طلب کی ہوتی تو اجر شمار کیا جاتا اور پہلی آیات کے ساتھ تضاد پیدا ہوتا۔ لیکن جو کچھ اس آیہٴ کریمہ میں طلب کیا ہے وہ خاندان پیغمبر کی محبت ہے جو اجر شمار نہیں ہوتی پھر یہ بھی ہے کہ قرآنی نص کے مطابق اس میں لوگوں ہی کا فائدہ ہے ۔((1
۱۔ الجامع لاحکام القرآن ،محمد بن احمد قرطبی ،ج۱۶،ص۲۲۔
طباطبائی نے اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی ہے ،لہذا ہم محترم قارئین کو تفسیر المیزان کے مطالعہ کی تاکید کرتے ہیں۔(۲(
لیکن معترض نے ”قربیٰ“ کے جو مختلف معانی بیان کیے ہیں انہیں بھی علامہ طباطبائی نے تفصیل سے درج کیا ہے ،قارئین کرام وہاں رجوع فرمائیں۔(۳(
نتیجے کے طور پر ”مودت قربی“ کا صحیح اور معقول معنی خاندان عصمت و طہارت سے صرف اظہار عقیدت و محبت ہے ۔
اس سلسلے میں اگر ہم ائمہٴ معصومین علیہم السلام سے منقولہ احادیث اور مفسرین کے اقوال نقل کریں تو اس مثنوی کے لیے بھی ستّر مَن کاغذ درکار ہوں گے ،لہذا صرف اہل سنت کی تفسیروں میں بعض موجودہ احادیث کو جو مولف کے اپنے ذاتی مخصوص کتاب خانہ میں موجود ہیں اسے نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱۔ طبرانی (متوفی ۳۶۰ھئق) اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ ابن عباس
_________________________
۱۔ سورہٴ سبا(۳۴) آیت ۴۷۔
۲۔ رجوع کریں ،المیزان فی تفسیر القرآن ،سید محمد حسین طباطبائی ،ج۱۸، ص۴۶۔
۳۔ رجوع کریں ،المیزان فی تفسیر القرآن ،سید محمد حسین طباطبائی ،ج۱۸، ص۴۶۔
سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
جب آیہٴ مبارکہ ”قل لا اسئلکم علیہ اجرا الّا المودّة فی القربیٰ“ نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا:
”یا رسول اللہ ! آپ کے وہ قرابت دار کون لوگ ہیں کہ جن کی مودت ومحبت ہمارے لیے واجب قرار دی گئی ہے؟ فرمایا: ”علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند ہیں“۔(۱(
۲۔ ابن مغازلی (متوفی ۴۸۳ھئق) اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
”مذکورہ آیت کے نازل ہوتے وقت لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں کہ جن کی مودت ومحبت ہمارے لیے واجب قرار دی ہے؟ فرمایا: ”علی فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند ہیں“۔(۲(
۳۔ حسکانی (جو پانچویں صدی ہجری کے بزرگوں میں سے ہیں) نے مذکورہ حدیث کو سات طریقوں سے اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ ابن عباس سے انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے ۔(۳(
۴۔ زمخشری (متوفی ۵۲۸ھئق) نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت
_______________________
۱۔ المعجم الکبیر ،ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،ج۱۱،ص ۳۵۱۔
۲۔ مناقب علی بن ابی طالب ،ابو الحسن علی بن محمد ابن مغازی ،ص۳۰۹۔
۳۔ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل ،عبید اللہ بن عبد اللہ حسکانی ،ج۲،ص ۱۸۹،۱۹۶۔
نازل ہوئی تو عرض کیا: یا رسول اللہ !آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں کہ جن کی مودت ومحبت ہمارے لیے واجب قرار دی گئی ہے؟ فرمایا: ”علی ، فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند ہیں“۔(۱(
۵۔ اخطب خوارزم (متوفی ۵۶۸ھئق) نے مذکورہ حدیث کو ابن عباس کے طریقہ سے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے ۔(۲(
۶۔ امام فخر رازی (متوفی ۶۰۶ھئق) نے مذکورہ احادیث کو تفسیر الکشّاف سے نقل کیا ہے ،پھر قرآنی آیات اور رسول اکرم کی روایات سے خاندان عصمت و طہارت کی محبت و مودت پر استنادو استدلال پیش کیا ہے ۔(۳(
۷۔ گنجی شافعی (متوفی ۶۵۸ھئق) نے مذکورہ حدیث کو اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے۔(۴(
۸۔ قرطبی (متوفی ۶۷۱ھئق) نے بھی اس حدیث کو سعید ابن جبیر کے طریقہ سے ابن عباس سے ،انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے۔ (۵(
__________________________
۱۔ الکشّاف عن حقائق غوامض التنزیل ،محمود بن عمر الزمخشری ،ج۴،ص ۲۲۰۔
۲۔ مقتل الحسین ،موفق بن احمد الخوارزمی ،ج۱،ص ۵۷۔
۳۔ التفسیر الکبیر ،فخر رازی ،ج۲۷،ص۱۶۶۔
۴۔ کفایة الطالب ،محمد بن یوسف گنجی ،شافعی ،ص۹۱۔
۵۔ الجامع لاحکام القرآن ،محمد بن احمد القرطبی ،ج۱۶،ص۲۲۔
۹۔ محب الدین طبری (متوفی ۶۹۴ھئق) نے بھی مذکورہ حدیث کو احمد ابن حنبل کے طریقہ سے ،ابن عباس سے ،انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے ۔(۱(
۱۰۔ نظام الدین نیشاپوری (متوفی ۷۲۸ھئق) نے بھی اپنی تفسیر میں جوتفسیر طبری کے حاشیہ کے ساتھ طبع ہوئی ،مذکورہ حدیث کو سعید ابن جبیر کے طریقہ سے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے ۔(۲(
۱۱۔ ہیثمی (متوفی ۸۰۷ھئق) نے اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ مذکورہ حدیث کو پیغمبر عظیم الشان سے روایت کی ہے ۔(۳(
۱۲۔ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھئق) نے بھی اس حدیث کو مختلف طرق کے ساتھ ابن عباس سے انہوں نے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے۔ (۴(
۱۳۔ ابن حجر (متوفی ۹۷۴ھئق) نے بھی مختلف طرق سے مذکورہ حدیث کو ابن عباس سے، انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے۔ (۵(
_________________________
۱۔ غرائب القرآن ورغائب الفرقان ،در حاشیہ تفسیر طبری ،نظام الدین حسن بن محمد نیشاپوری ،ج۱۱،ص۳۵۔
۲۔ مجمع الزوائد ،نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی ،ج۷،ص۱۰۳، ج۹،ص۱۶۸۔
۳۔ الدّر المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۷۔
۴۔ الصواعق المحرقہ ،احمد بن حجر الہیتمی ، ص۱۷۰۔
۵۔ ذخائر العقبیٰ ،محب الدین طبری ،ص۲۵۔
۱۴۔ ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ھئق) جابر ابن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ:
”ایک اعرابی پیغمبر اکرم کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور عرض کیا:” یا محمد! مجھے اسلام بتائیں“ فرمایا: گواہی دیتے ہو کہ سوائے خدائے وحدہ لاشریک کے کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں“ اس نے دریافت کیا:”تبلیغ رسالت کے مقابل میں آپ مجھ سے کون سا اجر چاہتے ہیں؟“ فرمایا: ”کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ قرابت داروں سے مودت و محبت کرو“ اس اعرابی نے سوال کیا:” اپنے قرابت داروں سے ،یاآپ کے قرابت داروں سے ؟“ فرمایا: میرے قرابت داروںسے “۔
اعرابی نے کہا:” اپنا ہاتھ مجھے دیجیے میں بیعت کروں گا ،جو شخص آپ کو اور آپ کے قرابت داروں کو دوست نہ رکھے اس پر خدا کی لعنت ہو“۔(۱(
۱۵۔ سیوطی(متوفی ۹۱۱ھئق) نے بھی مجاہد کے طریقے سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا:
”لا اسئلکم علیہ اجراً الّا المودّة فی القربی؛ان تحفظونی فی اھل بیتی و تودّوھم بی “
_______________________
۱۔ حلیة الاولیاء ،ابو نعیم اصفہانی،ج۳،ص ا۲۰۔
”یعنی یہ کہ سوائے اپنے قرابت داروں کی مودت و محبت کے تبلیغ رسالت کے بدلے تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور وہ یہ ہے کہ میرے اہل بیت کا احترام کر کے میرے احترام کو محفوظ رکھو اور ان سے میری وجہ سے دوستی و محبت رکھو“۔(۱(
۱۶۔ حاکم نیشاپوری (متوفی ۴۰۵ھئق) نے اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی کی شہادت کے دن ایک مفصل خطبہ کے ذیل میں فرمایا:
”میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مودت و محبت کو تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے پیغمبر سے فرمایا:” قل لا اسئلکم علیہ اجرا الّا المودّة فی القربیٰ“ (۲(
۱۷۔ محمد بن جریر طبری (متوفی ۳۱۰ھئق) اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ:
”جب امام زین العابدین کو اسیر کر کے شام میں داخل کیا گیا تو ان کو ایک چبوترہ پر روکا گیا ایک ضعیف العمر آپ کے پاس آیا اور کہا:”خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تمہارے مردوں کو ہلاک کیا اور فتنے کو جڑسے اکھاڑ
_______________________
۱۔ الدر المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۷۔
۲۔ المستدرک علی الصحیحین فی الحدیث ،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیشاپوری ،ج۳،ص ۱۷۲۔
پھینکا گیا“ امام سجاد نے دریافت فرمایا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟کہا : ہاں! ”کیا ”آل حامیم“ پڑھا ہے ؟“ کہا نہیں ،پھر دریافت فرمایا: کیا اس آیت کی تلاوت کی ہے ”قل لا اسئلکم علیہ اجرا الّا المودّة فی القربی“ ؟ کہا : ”کیا آپ وہی لوگ ہیں؟“ فرمایا: ”ہاں“۔(۱)
۱۸۔ احمد حنبل (متوفی ۲۴۱ھئق) مفسرین کے اقوال کو شمار کرتے وقت سعید بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
”قربیٰ آل محمد“
)مودت سے مراد) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ ) کے قرابت دار ہیں۔(۲(
۱۹۔بخاری (متوفی ۲۵۶ھئق) طبری ،قرطبی اور سیوطی نے بھی عین اسی عبارت کو سعید ابن جبیر سے نقل کیا ہے ۔(۳(
پھر فخر رازی نے اس کے اثبات کے لیے ایک لطیف تحقیق پیش کی ہے ۔(۴(
اس بیان کی بنا پر دوست اور دشمن کے لیے یہ بات روشن ہو جائے گی کہ قرابت
_______________________
۱۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن ،ابو جعفر محمد بن جریرطبری ،جزء ۲۵، ص۱۶۔
۲۔ المسند ، احمد ابن حنبل ، ج۱،ص ۲۸۶۔
۳۔ الصحیح ،اسماعیل ابن ابراہیم البخاری ،ج۶،ص۱۶۲،ابو جعفر محمد بن حریر طبری گزشتہ حوالہ ،ج۱۱،ص۱۷، تفسیر محمد ابن احمد قرطبی ،ج۱۶، ص۲۱، در منثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۵۔
4۔ تفسیر کبیر ،فخر رازی ،ج۲۷،ص۱۶۶۔
داروں کی مودت ومحبت سے مراد خاندان پیغمبر کی مودت و محبت ہے اور گزشتہ مصادر صرف اہل سنت کی تفسیروں کا ایک گوشہ تھا جو مولف کے ذاتی مخصوص کتاب خانہ میں موجود ہے ۔ اور اگر کوئی شخص اس سلسلے میں تحقیق کرے تو اسے اس کے دسیوں برابر مطالب دست یاب ہو جائیں گے۔
لیکن دوسرے معانی جو معترض نے بعض منحرف افکار کی پیروی کرتے ہوئے ذکر کیے ہیں وہ آیہٴ کریمہ کے مقصد اور ذوق سلیم سے دور ہےں ،جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفصیلی تحقیق پیش کی ہے ۔(۱(
نتیجے کے طور پر دعائے ندبہ کا یہ فقرہ بھی قرآن کے منافی و متضاد نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر آیات قرآن، مفسرین کے اقوال ،مفسرین کی روایات اور شریعت مقدسہ کے دوسرے معیاروں کے عین مطابق ہے ۔

۹۔ کیا دعائے ندبہ کے مضامین شرک آمیز ہیں؟
معترض کہتا ہے :خداوند متعال نے قرآن کریم کی سکیڑوں آیات میں فرمایا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کونہ پکارو ،اور غیر خدا کو پکارنا کفر و شرک ہے ۔ہمارے پاس اس کا کوئی منبع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم یا ائمہٴ معصومین علیہم السلام سے کسی امام نے یہ فرمایا ہو کہ اپنی حاجتوں کو ہم سے طلب کرو۔لہٰذا دعائے ندبہ جو کہتی ہے :امام زمانہ کو
________________________
۱۔ المیزان ،سید محمد حسین طباطبائی ،ج۱۸، ص۴۳۔
پکارو اورفریاد کرو ،یہ کفر و شرک ہے ۔
ہم جواب میں عرض کریں گے کہ سب سے پہلے یہ کہ:
اولیائے خدا سے توسل اختیار کرنا قرآن و سنت کی نظر میں کوئی اشکال نہیں رکھتا بلکہ قرآن کریم نے بہت سے سوروں میں اس کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے کہ ہم ایک نمونہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
<یا ایھا الذین آمنوا اتقواللّہ و ابتغوا الیہ الوسیلة و جاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون >
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جھاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہو جاؤ۔“ (۱(
اس آیہٴ کریمہ میں خداوند منان مومنین کو صراحت کے ساتھ حکم دیتا ہے کہ اللہ تک جانے کا وسیلہ تلاش کرو۔
بہت سی حدیثوں میں اولیائے الٰہی سے توسل کی کیفیت تعلیم دی گئی ہے کہ ہم ان میں سے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
عثمان بن حنیف روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص رسول اکرم کی خدمت اقدس میں شرف یاب ہوا اور ان سے دعا کرنے کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ اسے صحت و عافیت عنایت فرمائے ۔
________________________
۱۔ سورہٴ مائدہ (۵) آیت ۳۵۔
پیغمبر اکرم نے اسے تعلیم فرمایا کہ نئے سرے سے وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو پھر کہو:
”الّلّھم انّی اٴسئلک و اتوجہ الیک بنبیّک نبیّ الرّحمة ، یا محمد انّی اتوجّہ بک الی ربّی فی حاجتی لتقضی، اٴللّھم شفّعہ فیّ“
”خدایا ! میں تیرے پیغمبر رحمت کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہو رہا ہوں۔اے محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ پیدا کر رہا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ پروردگار! ان کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما۔“(۱(
رسول اکرم کی یہ حدیث ایک حاجت مند انسان کو اس بات کی تعلیم دے رہی ہے کہ وہ پیغمبراکرم کو کس طرح اپنا شفیع قرار دے اور آنحضرت کے وسیلہ سے خداوند منان سے اپنی حاجت کو طلب کرے ۔
اس حدیث کو حاکم نے مستدرک میں نقل کر کے یہ تصریح کی ہے کہ بخاری اورمسلم کی حدیث شناسی کے تمام معیار کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے ۔ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے ۔(۲(
________________________
۱۔ مستدرک ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،حاکم نیشاپوری ،ج۱،ص ۳۱۳۔
۲۔ تلخیص المستدرک ،شمس الدین احمد بن محمد ذہبی ،مستدرک کے ذیل میں ۔
ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے ۔(۱(
اس بیان کی بنا پر اولیائے الٰہی میں کسی ایک سے توسل اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ کفر و شرک نہیں ہے بلکہ قرآن کریم ،احادیث رسول (ص) سے ہم آہنگ اور اکابر محدثین کے نزدیک قابل قبول ہے ۔
ہم نے معترض کی غرض و مقصد کو واضح کرنے کے لیے دعائے ندبہ کو چھ مخصوص حصوں میں تقسیم کیا اور ان چھ حصوں کے مضامین پر ایک اجمالی نظر ڈالیں گے تاکہ معلوم ہو کہ دعائے ندبہ کے فقرات میں سے کسی بھی فقرہ میں حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے وجود اقدس سے حاجت نہیں طلب کی گئی ہے ۔
وہ دعائے ندبہ جو اس کتاب میں تحریر کی گئی ہے ۱۴۸ سطروں پر مشتمل ہے اور اس کا پہلا حصہ پہلی سطر سے ۱۹ سطر تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ پروردگار کی حمد و ثنا اس کی عظیم نعمتوں کے مقابلے میں جیسے ارسال رسل انزال کتب (رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے) کا حامل ہے اور جملہ ”الحمد للّٰہ ربّ العالمین“ سے آغاز ہوتا ہے ۔
دوسرا حصہ بیسویں سطر سے ۳۶ تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ نبوت خاصہ، بعثتِ رسول اکرم کی عظیم نعمت اور آنحضرت کے بعض فضائل و مناقب سے مخصوص ہے اور جملہٴ” الی ان انتھیت بالاٴمر الی حبیبک و نجیبک “سے آغازہوتا ہے۔
________________________
۱۔ السنن ،ابو عبد اللہ ابن ماجہ ،ج۱،ص ۴۴۱۔
اس کا تیسرا حصہ چھتیسویں سطر سے ۵۸ سطر تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ نصب امامت ،غدیر خم کے تاریخی واقعہ اور مولائے متقیان امیر المومنین علی بن ابی طالب کے فضائل و مناقب کے ذکر سے مخصوص ہے اور جملہٴ” فلمّا انقضت ایّامہ ،اقام ولیّہ علی بن ابی طالب علیہ السلام “سے آغاز ہوتا ہے ۔
اس کا چوتھا حصہ انسٹھویں سطرسے ۷۲ سطر تک اختتام پذیر ہوتا ہے ،یہ حصہ عترتِ طاہرہ پر کیے گئے مصائب پر مشتمل ہے اور ائمہٴ معصومین علیہم السلام کے آثار و برکات سے امت کی محرومیت کے اشک ِحسرت و ندامت سے مخصوص ہے اور جملہ”و لمّا قضیٰ نحبہ“ سے آغاز ہوتا ہے ۔
اس کا پانچواں حصہ بہترویں سطر سے ۱۲۱ سطر تک اختتام پذیر ہوتا ہے اور دوران غیبت کے طولانی ہونے کے تاثرات اور افسوس ناک ہونے کے اظہار پر مشتمل ہے ،درد ہجران اور دیدار یار کے اظہارِ شوق سے مخصوص ہے اور جملہٴ ”این بقیّة اللّٰہ الّتی لا تخلو من العترة الھادیة“ سے آغاز ہوتا ہے ۔
اس کا چھٹا حصہ ایک سو بائیسویں سطر سے ۱۴۸ سطر تک دعائے ندبہ کے آخری حصہ پر مشتمل ہے اور خداوند قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دعا و مناجات سے مخصوص ہے اور جملہ” الّلھمّ اٴنت کشّاف الکرب والبلوی“ سے آغاز ہوتا ہے ۔
دعائے ندبہ کے اس حصے میں اس بات کے پیش نظر کہ حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کو بارگاہ رب العزّت میں شفیع قرار دیا گیا ہے ،اس کے چند فقرات کو یہاں ذکر کر رہے ہیں تاکہ معترضین کا مقصد مزید واضح ہو جائے :

خدایا! ان کے ذریعہ حق کو قائم کر۔
باطل کو ان کے ذریعہ فنا کر دے ۔
اپنے دوستوں کو ان کے ذریعہ حاکم قرار دے ۔
اپنے دشمنوں کو ان کے ذریعہ ذلیل و رسوا کر ۔
ان کی برکت سے ہماری نماز کو مقبول بنا دے ۔
ان کی خاطر ہمارے گناہوں کو بخش دے ۔
ان کے احترام میں ہماری دعائیں مستجاب قرار دے ۔
ان کی برکت سے ہمارے رزق میں وسعت عطا فرما۔
ان کی خاطر ہمارے رنج و غم کو دور کر دے ۔
ان کے احترام میں ہماری حاجتوں کو پوری فرما۔
اس طرح خداوند منان سے حاجت طلب کرنا اور خالق دو جہاں کی بارگاہ میں حجت زمانہ کو شفیع قرار دینا کیا آیات قرآن اور رسول اسلام سے منقولہ احادیث سے ہم آہنگ نہیں ہے؟!تو پھر کیوں حسد و کینہ رکھنے والے اس کو کفر و شرک سے تعبیر کرتے ہیں؟!

۱۰۔ کیا مہدیّہ (نامی مقامات) کی تعمیر کرانا بدعت ہے ؟
معترضین دعائے ندبہ برقرار کرنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کی تعمیر کرانا حرام اور بدعت جانتے ہیں!
”مہدیّہ“”قائمیّہ“ ،”منتظریّہ“ یا اسی جیسے دوسرے نام سے کسی مقام کی تعمیر کرانا بالکل بارگاہ حضرت ابا عبد اللہ الحسین میں اظہار عقیدت اور مجلس کے لیے ”حسینیہ“ بنانے کی طرح ہے ۔
اسی طرح سے کہ ایک جگہ”دارالشفاء“ کے نام سے بیماروں کے علاج کے لیے بنائی جائے ،”دار الایتام“ یتیموں کی حفاظت کے لیے ”دار الحفّاظ“ حافظین قرآن کی تربیت کے لیے،”دار التجوید“ تجوید قرآ ن کی تعلیم کے لیے ”دار القرآن “ قرآن کی تعلیمات عام کرنے کے لیے ”دار الحدیث “ احادیث اہل بیت کو نشر کرنے کے لیے اور اسی طرح کی دوسری جگہ تعمیر کرانے میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے ۔دعائے کمیل ،دعائے ندبہ ،زیارت عاشورا وغیرہ کو برقرار کرنے کے لیے بھی کسی جگہ کے تعمیر کرانے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
اس بیان کی بنا پر، ”مہدیّہ“ ،”قائمیّہ“ ،”منتظریّہ“اور اسی طرح کی دوسری جگہوں کے تعمیر کرانے کی شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس آیہٴ مبارکہ کے ایک مصداق میں شامل ہے :
<تعاونوا علی البرّ و التقویٰ >
”نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ “ (۱(
لہٰذا طول تاریخ اسلام میں ہر وہ مرکز جو بہ عنوان ”دار الکتب“، ”دار الحکمة“ ، ”‘دار العلم‘ ، ”دار الشفا“، ”دار القرّاء“، ”دار الحفّاظ“ اور اسی جیسی کوئی اور جگہ بنائی گئی ہو تو وہ کبھی بھی قابل اعتراض واقع نہیں ہوئی ہے ۔
سب سے زیادہ قدیم مقام کی تاسیس جو گزشتہ زمانے میں ایک امام معصوم کے ذریعہ عمل میں آئی اور اس آخری زمانہ تک محفو ظ تھی ،”بیت الاحزان “ حضرت فاطمہ زہرا تھا جو حضرت امیر المومنین کے ذریعہ رحلت پیغمبر اکرم کے بعد تعمیر کرایا گیا۔
استاد توفیق ابو علم ،مشہور مصری رائٹر اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں:
”حضرت علی نے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے بقیع میں ایک گھر بنایا کہ جسے ”بیت الاحزان “کہا جاتا ہے ۔یہ گھر ہمارے زمانے تک باقی ہے“۔ (۲(
مجد الدین فیروزآبادی (متوفی ۸۱۶ھئق) صاحب قاموس اللغة ”بیت الاحزان “ کی وجہ تسمیہ میں رقم طراز ہیں:
”کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا اپنے پدربزرگوار حضرت سید المرسلین کی رحلت کے بعد وہاں پناہ حاصل کر تی تھیں اور گریہ و نالہ میں مشغول ہوتی تھیں۔“ (۳(
ابن جبیر، تاریخ اسلام کا مشہور سیّاح (متوفی۶۱۴ھئق) کہ جس نے چھٹی صدی
__________________________
۱۔ سورئہ مائدہ (۵)، آیت ۲۔
۲۔اہل البیت ،ابو علم ،ص۱۶۷۔
۳۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۱۸۔
ہجری میں مدینہ ٴ منورہ کا دیدار کیا تھا تحریر کرتا ہے :
”عباس بن عبد المطلب کے گنبد کے پیچھے ،دخترِ پیغمبر فاطمہ زہرا کا بیت الشرف واقع ہے جسے ”بیت الحزن “کہا جاتا ہے ،مشہور یہ ہے کہ:
یہ وہی جگہ ہے کہ پیغمبر کی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ زہرا وہاں جایا کرتی تھیں اور اس جگہ عزاداری اور گریہ و ماتم میں مشغول رہتی تھیں۔ (۱(
مرزا حسین فراہانی جنہوں نے چودہویں صدی ہجری کے آغاز میں مدینہٴ منورہ کا دیدار کیا تھا تحریر کرتے ہیں:
”ائمہٴٴ بقیع کے گنبد کے پیچھے ایک چھوٹا گنبد ہے جو حضرت فاطمہ زہرا کا ”بیت الاحزان “ ہے اور اس میں ایک آ ہنی چھوٹی ضریح ہے ۔“(۲(
فراہانی کے بعد رفعت پاشا کی فوج کا سردار (متوفی ۱۳۵۳ھئق) جس نے ۱۳۲۰ھئق سے ۱۳۲۵ھئق تک مصریوں کے امیر الحاج ہونے کی حیثیت سے مدینہٴ منورہ کا مشاہدہ کیا، تحریر کرتا ہے ۔
”وہاں ایک گنبد ہے جس کا نام ”قبّة الحزن“ ہے کہا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا اپنے پدربزرگوار کی رحلت کے بعد وہاں پناہ گزیں ہوتی تھیں اور وہاں گریہ و ماتم کرتی تھیں۔“(۳(
_________________________
۱۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۱۸۔ ۔
۲۔ سفر نامہ ،مرزا حسین فراہانی ،ص۲۸۶۔
۳۔ مرآة الحرمین ،ابراہیم رفعت پاشا، ج۱،ص ۴۲۶۔
سمہودی بھی غزالی سے نقل کرتے ہیں جو اعمال بقیع کے بیان کے ضمن میں رقم طراز ہیں:
”مسجد حضرت فاطمہ میں نماز پڑھو۔ “
پھر مزید تحریر کرتے ہیں:
اور وہ وہی ”بیت الحزن “ کی مشہور جگہ ہے جہاں حضرت فاطمہ زہرا پدربزرگوار کی رحلت کے غم و اندوہ کے دنوں میں وہاں قیام کرتی تھیں اور گریہ و ماتم میں مصروف رہتی تھیں۔(۱(
اس بیان کی بنا پر ”بیت الاحزان “ ۱۱ھئق میں مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کے دست ِ مبارک سے تعمیر ہوا، بعد میں اس کے اوپر ضریح اور گنبد بنایا گیا،اور تمام صدیوں اور زمانوں میں مدینہٴ منورہ کے زائرین کی زیارت گاہ اور محل عبادت بنا رہا اور کبھی بھی کسی کے مورد اعتراض نہیں قرار پایا، یہاں تک کہ ۸ شوال ۱۳۴۴ھئق میں وہابیوں کے شر پسند ہاتھوں سے منہدم اور برباد کیا گیا۔
اگر کوئی مقام بنام ”بیت المہدی“ ،”دار المہدی“، ”مہدیّہ“، ”قائمیّہ“، ”منتظریّہ“وغیرہ تعمیر کرایا جائے اور اس میں دعائے ندبہ برگزار ہو تو نہ صرف یہ کہ بدعت نہیں ہے بلکہ آیہٴ کریمہ ”تعاونوا علی البرّ و التّقوی“(۲) کے ایک مصداق میں شامل ہے ۔
_______________________
۱۔ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۰۷۔
۲۔ سورئہ مائدہ (۵) آیت ۲۔