۳۔ کیا دعائے ندبہ نشہ آور حالت کی حامل ہے؟
اسلام کے سخت ترین دشمن کہتے ہیں:”دعا ئے ندبہ نشہ آور حالت کی حامل ہے! وہ لوگ کہتے ہیں:
اسلام مسلمانوں کو ہر شبِ جمعہ میں مجالسِ دعائے کمیل اور جمعہ کے دنوں میں مجالس دعائے ندبہ میں مشغول رکھتا ہے تاکہ ایک مجلس میں جمع ہو کر ”یابن الحسن “ کہیں اپنا سر و سینہ پیٹیں اور وہ اس بات کی طرف متوجہ نہ ہوں کہ ان کے متعلق دنیا میں کیسے حالات گزر رہے ہیں۔
یہ ناروا تہمتیں مارکیسزم (MARXISM) کی طرف سے گڑھی گئی ہیں اور ان کے مکتب فکر کے فریب کھانے والوں نے آسمانی ادیان کے ماننے والوں کے درمیان پھیلائیں۔
کارل مارکس (CARL MARXS) نے اپنے مشہور جملے:”دین اقوام عالم کے لیے تریاک (نشہ آور شے) ہے “کو منتشر کر کے تمام الٰہی ادیان کو مورد سوال قرار دیا ۔ وہ کہتا تھا:” تمام ادیان طاقت وروں کے خدمت گزار ہیں ، اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ اسلامی محکمہ کے مقابل تسلیم نہ ہوں ،اور کبھی بھی ان کی نافرمانی اور مخالفت کے در پے نہ ہوں۔اور اگر ان کی طرف سے مشکل میں گرفتار ہوں تو صبر و ضبط سے کام لیں تاکہ اخروی ثواب مل سکے ۔ “
اگر یہ تعبیر کلیسا (CHURCH) کے متعلق اور صاحبان کلیسا کی تعلیمات کے لیے کہی گئی ہوتی تو وہ وجود خارجی رکھتی اس لیے کہ تحریف شدہ انجیلوں میں نقل ہوا ہے :
”شریر شخص کے مقابل میں صلابت و مقاومت اور پائداری نہ اختیار کرو بلکہ اگر کوئی شخص تمہارے داہنے رخسار پر طمانچہ مارے تو دوسرے رخسار کو بھی اس کی طرف پھیر دو۔ اور اگر کوئی شخص تم سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے اور تمہاری قبا کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اپنی عبا کو بھی اس کے حوالے کردو۔ اور اگر کوئی شخص تم کو ایک میل لے جانے پر مجبور کرے تو تم دو میل اس کے ہمراہ جاؤ۔“ (۱)
___________________________
۱۔ کتاب مقدس، انجیل متّی ،باب۴، بندنمبر ۳۹۔۴۱۔
لیکن ان تہمتوں سے اسلام کی جنگی بہادری کی روح اور اصول کی طرف توجہ کے بعد اسلام کے روشن چہرے کو مورد سوال نہیں قرار دیا جا سکتا۔ وہ اسلام جس نے خدا کی راہ میں جہاد کو اپنے ایک اصلی فرائض میں سے قرار دیا، میدان کارزار سے فرار کرنے کو بڑے گناہوں میں شمار کیا جو افراد ہجرت کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود ہجرت اختیار نہ کرتے ہوئے ظالموں کے ماتحت زندگی بسر کر کے ظلم کا نشانہ قرار پائے ان سے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے۔(۱) اور جو شخص اپنے مال سے دفاع کرنے کی راہ میں قتل ہو جائے اسے شہید جانا ہے اور اعلان کر رہا ہے :” من قتل دون مالہ فھو شہید“ (۲) (جو شخص اپنے مال کے دفاع میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے ) ایسا دین ہرگز تریاک جیسی تہمت سے متہم نہیں ہو سکتا۔
قرآن کریم میں جہاد کی آیات کے پیش نظر خطبات رسول اکرم ،خطبات امیر المومنین ،خطبات امام حسین اور دوسرے ائمہ معصومین کے گہر بار اور انمول کلمات میں نمایاں نکات نظر آئیں گے دشمن سے جہاد کرنے کے متعلق شہید ہونے کا ثواب جہاد کی خلاف ورزی اور میدان جنگ سے فرار کرنے کا عذاب بھی مدّنظر قرار دیتے ہوئے جو شخص بھی اسلام کے مقدس قانون کو ”اقوام کے لیے تریاک ہونے سے“ متہم کرے وہ خود ذلیل و رسوا ہو گااور وہ کبھی بھی اسلام کے درخشاں چہرے کو مورد
_________________________
۱۔ سورہٴ نساء ،(۴) ،آیت۹۷۔
۲۔ عیون اخبار الرضا، محمد ابن علی ابن الحسین الصدوق(شیخ صدوق) ،ج۲،ص۱۲۲۔
سوال نہیں قرار دے سکتا۔
لیکن دعائے ندبہ کے متعلق جو ایک مشہور ترین ، شجاعت آفرین اور ولولہ انگیز ترین اسلامی دعاؤں میں سے ہے ،ایسی ناروا تہمت کبھی بھی کار گر نہیں ہو سکتی۔
اس دعا میں ایک قابل توجہ تحقیق اور طولانی بحث کے بعد جنگ بدر،حنین ،خیبر، جمل ،صفین اور نہروان کے نتائج سامنے آتے ہیں وہ خاند ان عصمت و طہارت کے مظلوموں کی مدد کرنے والے کو بیان کرتے ہوئے فریاد کرتے ہیں:
ظلم و استبداد کے قصروں کو ویران کرنے والا کہاں ہے؟
فسق و معصیت اور سرکشی کرنے والوں کو تباہ کرنے والا کہاں ہے؟
پھر کلمہ ٴ ”این “ ”کہاں ہے ؟“کی ۳۸ مرتبہ تکرار ہوئی ہے اور ۳۸ فقروں میں سے ایک ایک فقرہ میں طول تاریخ میں ناحق بہائے گئے خون کا انتقام لینے والے کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔
یہ کتنی جواں مردی اور انصاف سے دور کی بات ہے کہ اس دعا کو اس کے مشہور اور شجاعت آفرین مضامین کے باوجود اسے نشہ آور اور لوگوں کے لیے تریاک سے متعارف کرائیں!
کتنا مناسب اور بہتر ہے کہ شب جمعہ دعائے کمیل سے مخصوص اور جمعہ کی صبح دعائے ندبہ سے کہ شب جمعہ ،شب رحمت ،شب استغفار ،شب انابہ و توبہ ہے۔ اور دعائے کمیل کے بہترین مناجات و استغفار کے الفاظ جو دل کے سیاہ نقطہ اور اصلاح طلب روح انسان کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے ہیں،اور جمعہ کا دن جو روز موعود ،روز انتظار ، تمام منتظرین کی آمادگی کا دن اور عاشقین کو دعوت دینے کا بھی دن ہے صاف و شفّاف تعبیروں میں کہا جائے : ولولہ خیز ،آگاہی بخش ،حرکت آفرین ،الہام بخش اور بہترین سیاسی و اعتقادی نکات سے آغاز ہوا اور پورے دن کے لمحات لحظہ بہ لحظہ تحرّک و نشاط سے نشاٴة پائے ہیں وہ اسی دعائے پُر فیض کی برکت میں مزید اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔
۴۔ کیا دعائے ندبہ بدعت ہے؟
معترض کہتا ہے: دعائے ندبہ بدعت ہے ،اس لیے کہ بدعت ان اعمال اور عقائد کو کہا جاتا ہے جو اسلام میں نہیں تھے ،زمانہٴ پیغمبر اور ائمہ کے بعد پیدا ہوئے ہوں اور انہیں ان کی طرف منسوب کیا جائے ،جیسے یہی دعائے ندبہ جو رسول اکرم اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے زمانہ میں نہیں تھی ،اور کسی بھی شخص نے اس زمانے میں اس دعا کو نہیں پڑھا اور کسی بھی منبع میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے ۔
بدعت کا معنی ایک چیز کا دینی احکام میں داخل کرنا جو پیغمبر اکرم اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام سے خصوصی طور پر اس چیز کے متعلق کوئی حکم بیان نہ ہوا ہو اور عمومات میں بھی وہ شامل نہ ہوں۔
بعض منحرف جماعتوں نے بدعت کے معنی کو بہت وسیع کر دیا ہے اور بہت سے سنت کے مصادیق کو بدعت کا نام دے دیا ہے ،جیسے وہابیوں نے زیارت اہل قبور ، عزیزوں کے سوگ میں گریہ کرنا، قبر کی تعمیر ، اولیائے الٰہی کی قبروں کی بارگاہ کے اوپر گنبد بنانا، مجالس عزا برپا کرنا اور اس طرح کے دوسرے امور کو بدعت شمار کیا ہے جب کہ ان میں سے ہر ایک معتبر دلائل اور مورد اعتماد اسناد کے ساتھ خود رسول اکرم سے ہمیں ملے ہیں اور عمومات شرعی میں بھی وہ شامل ہیں اس سلسلے میں مربوطہ کتابوں میں تفصیلی بحث موجود ہے ۔
لیکن دعائے ندبہ کے متعلق :سب سے پہلے یہ کہ: بالخصوص یہ امام معصوم سے صادر ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے کتاب کے دوسرے حصے میں تفصیلی گفتگو کی ۔
دوسرے یہ کہ: اگر کوئی خاص دلیل بھی ہمارے پاس نہ ہوتی تو وہ عمومات میں شامل ہوتی اس لیے کہ اس دعا کا متن حمدوثنائے الٰہی ، رسول اکرم اور اہل بیت عصمت و طہارت پردرود و سلام نیز ذکر فضائل و مناقب اہل بیت علیہم السلام پر مشتمل ہے جو سب کچھ شریعت مقدسہ کی نظر میں مطلوب ہے اور ہمارے پاس اور بھی بہت سے عمومات ہیں کہ ان کا ہمیں حکم دیا ہے اور اسے سب کو انجام دینے کا شوق و جذبہ فراہم کیا ہے ۔
تیسرے یہ کہ: اگر بالفرض کوئی شخص اس متن کو اس کے ذاتی خصوصیات کے ساتھ اسے انشاء کرتا پھر بھی اس میں کوئی اعتراض نہیں تھا، کیونکہ خطبہ کا انشاء کرنا، قصیدہ ،دعا،مناجات اور ہر وہ دوسرا متن جو صحیح مطالب اور عقائد پر مشتمل ہو تو شرعاً اس میں کوئی مانع نہیں ہے جیسا کہ مختلف روایات میں امام جعفر صادق سے یہ روایت ذکر ہوئی ہے کہ فرمایا:
”انّ افضل الدّعاء ماجری علی لسانک “
”بہترین دعاؤں میں سے وہ دعا ہے جو تمہاری زبان پر جاری ہوئی ہے۔“ (۱)
وہ چیز جو قابل اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دعا کو انشا کرے تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے معصوم کی طرف منسوب کرے اور وہ اس کے پڑھنے کا کسی خاص وقت یا جگہ میں مستحب ہونے کا فتویٰ بھی نہیں دے سکتا۔ اور اگر ایک دعا معصوم سے صادر ہوئی ہو تو اس میں تصرف نہیں کر سکتا کہ اس میں کسی چیز کا اضافہ کرے ۔لہذا علماء و محدثین کبار نے دعاؤں اور زیارتوں کی کتابوں میں بہت زیادہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ نسخہ ٴ بدل کو تحریر کریں تاکہ خطی نسخوں کے درمیان موجودہ (لفظی) اختلافات ختم نہ ہوں ،اور آئندہ نسلیں مزید تحقیق و تلاش کے ساتھ زیادہ قابل اعتماد متن کو حاصل کر سکیں۔
اس لحاظ سے اگر مفاتیح الجنان کے متعلق دقت و تحقیق کریں ،تو آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کے صفحات میں سے ہر صفحہ میں مختلف نسخہ ٴبدل اس کے اطراف میں تحریر شدہ مل جائیں گے ،تاکہ صحیح متن اور ماثور عبارت ضایع نہ ہو۔
محدث قمی نے زیارت وارثہ کے بعد ایک مفصل بحث کی ہے کہ ایک کتاب میں زیارت وارثہ کے متن میں ایک جملہ کا اضافہ کیا گیا ہے اور اس سے شدید منع کیا ہے
_______________________
۱۔ الامان من اٴخطار الاٴسفار، سید علی بن موسیٰ ابن طاووس، ص۱۹۔
نیز ہوشیار کیا ہے ۔(۱)
محدث نوری نے اس سلسلے میں ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے ،اس میں تمام طبقے کے لوگوں کو بالخصوص صاحبان منبر کو معصوم کے ماثورہ کلمات سے کم و بیش کرنے سے منع کیا ہے ۔(۲(
۵۔ کیا دعائے ندبہ عقل کے منافی ہے؟
معترض کہتا ہے : اس دعا کو لوگ ہزاروں جگہ ،مساجد،امام بارگاہوں ،مشاہد مشرفہ ،مقامات مقدسہ اور اپنے اپنے گھروں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر پڑھتے ہیں ،کیا امام زمانہ ان تمام جگہوں پر حاضر و ناظر ہیں؟
پھر مزید کہتا ہے : کتاب کافی میں باب زیارة النبی میں منقول ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:
”میں اپنی امت کے سلام کو دور کی مسافت سے نہیں سنتا بلکہ ملائکہ ٴ الٰہی اسے مجھ تک پہنچاتے ہیں!“
اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ سب سے پہلے یہ : معترض صاحب! کتاب کافی کی حدیث کو آپ نے تحریف کر دیا ہے الکافی میں دو حدیث اس سلسلے میں موجود ہے کہ ان کے متن کو ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں:
________________________
۱۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی ،ص۵۲۴۔
۲۔ لوٴ لوٴ و مرجان ،حسین بن محمد تقی نوری ۔
۱۔ امام جعفر صادق نے اپنے اصحاب کو خطاب کر کے فرمایا:
”مرّوا بالمدینة فسلّموا علی رسول اللّٰہ (صلّی اللّٰہ علیہ واٰلہ) من قریب ،و ان کانت الصلاة تبلغہ من بعید“
”اپنا راستہ مدینہ کی طرف سے قرار دو اور رسول اکرم کو نزدیک سے سلام کرو، اگر چہ دور سے بھی درود وسلام آنحضرت تک پہنچتا ہے۔“(۱(
۲۔ دوسری حدیث میں فرمایا:
”صلّوا الی جانب قبر النّبی (صلّی اللّٰہ علیہ و آلہ) و ان کانت صلاة الموٴمنین تبلغہ اٴینما کانوا“
”قبر پیغمبر کے کنارے درود و سلام بھیجو، اگر چہ مومنین جہاں کہیں بھی ہوں ان کا درود و سلام آنحضرت کی خدمت میں پہنچتا ہے۔“(۲(
معترض کے نقل کے برخلاف ،دونوں مبارک حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دنیا کے جس گوشہ و کنار میں حضرت رسول اکرم پر درود و سلام بھیجا جائے آنحضرت تک پہنچتا ہے،اگر چہ بہتر یہ ہے کہ مومنین رخت سفر باندھیں اور سر زمین
________________________
۱۔ الکافی ، محمد بن یعقوب الکلینی ،ج۴،ص۵۵۲۔
۲۔ الکافی ،محمد بن یعقوب الکلینی ،ج۴،ص۵۵۲۔
مدینہ ٴ منورہ میں زیارت سے شرف یاب ہوں اور نزدیک سے اظہار عقیدت کریں۔
دوسرے یہ کہ :بہت سی حدیثوں کے مطابق تمام دنیا امام کے مقابل میں ان کی ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح نمایاں ہے اور دنیا کے مشرق و مغرب کی کوئی بھی شئے ایسی نہیں ہے جو امام سے پوشیدہ ہو، جیسا کہ امام جعفر صادق اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
”انّ الدنیا لتمثّل للامام فی مثل فلقة الجوز، فلا یعزب منھا شئی ،و انّہ لیتنا و لھامن اٴطرافھا کما یتناول احدکم من فوق مائد تہ ما یشاء “
”تمام دنیا امام کے مقابل میں ایک اخروٹ کے ٹکڑے کی طرح جلوہ نما ہوتی ہے ،اس کی کوئی شئے امام سے پوشیدہ نہیں،امام اس کے جس گوشہ میں چاہیں تصرف کریں جس طرح تم میں سے کوئی بھی شخص اپنے دسترخوان سے جو چاہتا ہے اٹھالیتا ہے ۔“(۱(
دوسری حدیث میں فرمایا:
”انّہ اذا تناھت الاٴمور الی صاحب ھذا الاٴمر رفع اللّٰہ تبارک و تعالیٰ لہ کلّ منخفض من الاٴرض ،و خفض لہ کلّ مرتفع ،حتیٰ تکون الدنیا عندہ بمنزلة راحتہ ، فایّکم لو کانت فی راحتہ شعرة لم یبصرھا“۔
_________________________
۱۔ الاختصاص ،محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید) ص۲۱۷۔
”جب صاحب الامر کی حکومت ہو گی تو اللہ صاحب برکت و برتر زمین کی ہر پست جگہ کو بلند اور ہر بلند جگہ کو پست کر دے گا تاکہ آپ کے سامنے یہ دنیا ایک ہتھیلی کے مانند ہوجائے اور تم میں سے کون ایسا شخص ہے جس کی ہتھیلی پر بال رکھا ہوا ہو اور وہ اسے نہ دیکھ سکے؟!(۱(
مجھے نہیں معلوم کہ ہم امام ،حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے احاطہٴ علمی کو کس پیرایے میں بیان کریں تاکہ معترض صاحب کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ حضرت بقیة اللہ دنیا کے اطراف و اکناف میں تمام مجالس دعائے ندبہ کا مشاہدہ فرماتے ہےں اور ان کی ”یابن الحسن “ کی صداؤں کو سنتے ہےں اور شرکاء میں سے ہر ایک کے خلوص کی مقدار اوران کے ایک ایک حاضر ہونے والے کی نیت و جذبہ سے آگاہ ہےں اور ان میں سے ہر ایک کے خلوص کی مقدار بھر اپنی معرفت عنایت فرماتے ہےں ۔
مگر معترض صاحب نے آیہٴ مبارکہ:
< وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ >
”اور پیغمبر کہہ دیجیے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو اللہ، اس کا رسول ، اور صاحبان ایمان دیکھ رہے ہیں۔“ (۲(
_________________________
۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۵۲،ص۳۲۸۔
۲۔ سورہٴ توبہ (۹) آیت ۱۰۵۔
نہیں پڑھی ہے اور عرض اعمال کے معتقد نہیں ہیں اور انہیں اتنا علم نہیں ہے کہ بہت سی روایتوں کی بنیاد پر اس آیت میں مومنون سے مراد ائمہٴ معصوم علیہم السلام ہیں۔(۱(
مگر اس نے رسول اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے گواہ ہونے سے متعلقہ آیات کو قرآن کریم میںنہیں پڑھا ہے (۲) اور نہیں جانتا کہ گواہوں سے مراد،ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں؟(۳) مگر کیا ایسا ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام جس چیز کو نہ دیکھے ہوں اس کی گواہی دیں؟!
ایک مقام پر رسول اکرم عام مُردوں کے متعلق فرماتے ہیں:
”حتّی انّہ لیسمع قرع نعالھم“
”مردے راستہ چلنے والوں کے جوتے چپل کی آواز تک سنتے ہیں“۔ (۴(
لہٰذا وہ کیسے اس بات کو کہنے کی جراٴت کرتا ہے کہ رسول اکرم دور سے لوگوں کے درود و سلام کو نہیں سنتے!!
کس قدر حماقت کی بات ہے کہ انسان تصور کرے کہ روزانہ دنیا کے گوشہ و کنار میں تمام بسنے والے ایک ارب سے زیادہ مسلمان اپنی واجب اور مستحب نمازوں میں کہیں:
”السّلام علیک اٴیّھا النّبی و رحمة اللّہ و برکاتہ “
_________________________
۱۔ الکافی ،محمد بن یعقوب الکلینی،ج۱،ص۲۱۹۔
۲۔ سورہٴ نساء(۴) آیت ۴۵، سورہٴ بقرہ (۲) آیت ۱۳۸، سورہٴ حج(۲۲) آیت ۷۸۔
۳۔ الکافی ،محمد بن یعوب الکلینی ،ج۱،ص ۱۹۰۔
۴۔ صحیح بخاری ،محمد بن اسماعیل بخاری ج۲،ص ۱۱۳۔
اور رسول اسلام ان میں سے کسی کے سلام کو نہ سنیں اور تمام مسلمان ان سلاموں کو جو حکم الٰہی کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں ،لغو اور عبث انجام دیے ہوں!
وہ احکام جو دور سے رسول اکرم کی زیارت کے لیے وارد ہوئے ہیں اور دور سے پیغمبر اکرم کا بہت طولانی زیارت نامہ امام صادق سے نقل ہوا ہے (۱) کیا (نعوذ باللہ ) یہ سب لغو اور عبث ہے؟
اس شخص کے لیے کہ جس کی مسافت طولانی ہے اس قدر روایات ائمہ علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں ؟اور جو شخص حضرت سید الشہداء کی زیارت کی شرف یابی کی طاقت نہیں رکھتا ،وہ صحرا میں یا چھت پر جا کر کربلا کی طرف رخ کر کے حضرت کی دور سے زیارت کرے(۲) کیا یہ سب عبث اور بے کار ہے؟
جوافراد ان مسائل میں شک و شبہ رکھتے ہیں اور اہل کینہ و عداوت نہیں ہیں انہیں چاہیے کہ امام شناسی کے درس کا ایک مکمل کورس پڑھیں اور اپنے عقائد کو اپنے امام زمانہ کے متعلق صحیح کریں تا کہ یہ مبارک حدیث ان کے شامل حال نہ ہو:
”من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة“
”جو شخص امام زمانہ کی معرفت کے بغیر دنیا سے چلا جائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔“ (۳(
_______________________
۱۔ مصباح الزائر، سید علی ابن موسیٰ ابن طاوٴوس، ص ۶۶۔
۲۔ کامل الزیارات،ابو القاسم جعفر بن محمد ابن قولویہ ،ص۳۰۱۔
۳۔ کتاب او خواھد آمد میں اس مبارک حدیث کے دسیوں شیعہ و سنی منابع کو ہم نے ذکر کیا ہے ۔ (ص۷۳ ،۹۲ ) ۔
جو بہت بڑا خسارہ ہے اور ہرگز اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔
تیسرے یہ کہ: دعائے ندبہ کی شرط حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا مجالس دعائے ندبہ میں حاضر رہنے کی نہیں ہے ،جو شخص یہ کہتا ہے کہ امام عصر کو ان مجالس میں ضرور حاضر رہنا چاہیے ورنہ دعائے ندبہ کا پڑھنا عقل کے خلاف ہے ،وہ ایسا ہی ہے کہ کہے چونکہ کروڑوں مسلمان اپنی نمازوں میں کہتے ہیں ”السّلام علیک ایّھا النبی و رحمة اللّٰہ و برکاتہ “ لہذا پیغمبر اکرم (ص) کو ایک ہی لمحہ میں کروڑوں جگہ حاضر رہنا چاہیے اور یہ غیر ممکن ہے ، لہذا یہ نمازیں بھی غیر معقول ہیں!۔
چوتھے یہ کہ : دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں:
” بنفسی اٴنت من مغیّب لم یخل منّا“
”میری جان قربان! تو ایسا غائب ہے جو کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوا“۔
اس بیان کی بنا پر اور ہمارے ضروری اعتقاد کے مطابق ،ہم ہمیشہ اور ہر مقام پر حضرت حجت کے زیر نظر اور ان کے لطف و عنایت کے ماتحت ہیں اور ہماری کوئی چیز حضرت کے لیے پوشیدہ نہیں ہے اور ہمیشہ ہر حال میں ہم ان کے احاطہٴ علمی میں ہوتے ہیں یعنی وہ ہمارے حالات سے باخبر ہیں۔اور اتنی ہی بات دعائے ندبہ کے معقول ہونے اور ”یابن الحسن- “ سے لوگوں کا انہیں خطاب کرنا صحیح ہونے کے لیے کافی ہے۔ اور اگر فرشتے رسول اسلام یا ائمہٴ نور کی خدمت میں سلام پہنچانے کے لیے معین ہوئے ہیں تو یہ ان کے استقبال اور خدمت کرنے کے آداب و رسوم کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے ہے بالکل جیسے فرشتے بندوں کے اعمال تحریر کرنے کے لیے معین ہوئے ہیں،حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام مخفی اور آشکار اعمال سے باخبر ہے۔
۶۔ کیا دعائے ندبہ بارہ ائمہ کی امامت کے عقیدے سے ناسازگار ہے؟
جن دنوں میں دعائے ندبہ پر اعتراض کرنے کا بازار گرم تھا مولفین میں سے ایک مشہور مولف نے یوں لکھا:
دعائے ندبہ کے متن کے دقیق مطالعہ سے کہ جس میں ہمارے ائمہ کے نام کی ترتیب و ار تصریح نہیں ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت امیر علیہ السلام کے تفصیلی فضائل و مناقب کے فوراًبعد اور بغیر واسطہ کے امام غائب کو خطاب کرتے ہیں،اور یہی سوال بار بار ذہن میں آتا ہے۔(۱(
مولف مذکور نے ”رضویٰ“ اور ”ذی طویٰ“ جیسے الفاظ کا دعاء ندبہ میں استعمال ہونے سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دعائے ندبہ کیسانیہ عقائد سے نشاٴة پائی ہے اور دعائے ندبہ کے مخاطب کو مہدی منتظر ارواحنا فداہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو تصور کیا ہے،اس وقت مذکورہ فقرہ کو اپنے دعوی کی دوسری دلیل گمان کیا ہے ۔
ہم نے اس بات کا واضح جواب چوتھے سوال کے ذیل میں تفصیلی طور پر بیان کر دیا ہے لہذا یہاں اس کے تکرار کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ۔
________________________
۱۔انتظار مذہب اعتراض ،علی شریعتی ، ص۱۰۔
۷۔ کیا دعائے ندبہ کا معصوم سے صادر ہونا معقول ہے؟
معترض کہتا ہے :دعائے ندبہ کا ائمہ معصومین علیہم السلام میں سے کسی ایک معصوم سے صادر ہونا ہرگز ممکن نہیں ہے ، کیونکہ سب سے پہلے یہ کہ: حضرت مہدی بھی اس زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے ،وہ امام جو مکمل عقل کی طاقت رکھتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے فرد کو مورد خطاب قرار دے اور اس کے فراق میں آنسو بہائے ؟
دوسرے یہ کہ :اس کی جائے سکونت کے متعلق ”لیت شعری“ ”یعنی اے کاش، مجھے معلوم ہوتا!“ امام معصوم کے مقام و منزلت سے سازگار نہیں ہے ۔
ہم پہلے سوال کے جواب میں کتاب کے پہلے حصے میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں، اور ائمہٴ معصومین علیہم السلام کے فقرات منجملہ حضرت امام صادق کے قول کو نقل کیا کہ حضرت کی ولادت سے ایک صدی پہلے انہوں نے حضرت کو مخاطب کر کے فرمایا:
” سیّدی! غیبتک نفت رقادی و ضیّقت علیّ مھادی ،و ابتزّت منّی راحة فوٴادی “
”اے میرے سید و سردار ! آپ کی غیبت نے میری آنکھوں سے نیند اڑا دی، عرصہٴ حیات مجھ پر تنگ کر دیا ہے میرے دل کا سکون جاتا رہا ہے “۔(۱(
اس بیان کی بنا پر اگر مورد نظر شخص ایک معمولی فرد نہ ہو، بلکہ سب سے خوشنما، دل کش اور ہر دل عزیز شخصیت کا مالک ہو، تو مناسب ہے کہ اس کی ولادت سے
_________________________
۱۔ کتاب الغیبة ، محمد بن حسن شیخ طوسی ، ص۱۶۷۔
صدیوں پہلے ہی اس کے لیے عقل مند افراد اور امام معصوم گریہ و زاری کریں۔
اور یہ معنی حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ حضرت کے جدّ بزرگوار سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین کے لیے بھی واقع ہوا ہے اور تمام انبیاء الٰہی حضرت آدم سے حضرت قائم تک ،سب نے حضرت کے مصائب پر حسرت آمیز آنسو بہائے ہیں ۔(۱(
اس بیان کی بنا پر اس شخص کو مخاطب قرار دینا جو ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے اس کے فراق میں گریہ وزاری کرنا یا اس کے مصائب پر رونا کسی بھی عقل سلیم کے نزدیک کوئی تضاد نہیں رکھتا، اگر چہ اسے بیمار دل افراد اپنے ذوق کی بنا پر ساز گار نہ پائیں۔
لیکن سوال کے دوسرے حصہ کے متعلق ہم یہ ضرور کہیں گے کہ جملہٴ ”لیت شعری“ ”اے کاش مجھے معلوم ہوتا !“ بعنوان سوال حقیقی نہیں ہے ،بلکہ ایک ادبی
_________________________
۱۔ ہم اس مقام پر گزشتہ انبیاء کے گریہ وزاری کو جنہوں نے حضرت کی ولادت کے دسیوں سال پہلے امام حسین کے مصائب پر اشک بہائے اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ حضرت آدم (بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۴۴، ص۲۴۵)۔
۲۔ حضرت نوح (بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۴۴،ص ۲۴۳)۔
۳۔حضرت ابراہیم (معانی الاخبار ،شیخ صدوق ،ص۲۰۱)۔
۴۔حضرت سلیمان ،بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۴۴،ص ۲۴۴۔
۵۔ حضرت خضر ،تفسیر قمی ،ابو الحسن علی بن ابراہیم قمی ، ج۲، ص۳۸۔
۶۔ حضرت موسیٰ ،امالی شیخ صدوق، شیخ صدوق ،ص۷۹۔
۷۔ حضرت عیسیٰ ،امالی شیخ صدوق ،شیخ صدوق ، ص۵۹۸۔
ظریف جملہ ہے جو اپنے اندر بہت سے ادبی ظریف نکات کا حامل ہے اور اسی جیسی عبارت اس زیارت نامہ میں بھی نقل ہوئی ہے جیسے سید ابن طاووس اور علامہ مجلسی نے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے لیے نقل کیا ہے جس میں ذکر ہوا ہے:
” لیت شعری این استقرّت بک النّوی“
”اے کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ تیری قیام گاہ کہاں ہے ؟“(۱(
اس بیان کی بنا پر یہ جملہ صرف دعائے ندبہ سے مخصوص ہے اور سرداب مقدس کے زیارت نامہ میں بھی ذکر ہوا ہے اور اس قسم کا ظاہری سوال مقام عصمت و امامت سے تضاد نہیں رکھتا۔
|