(دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید)
 

۲۔ کیا دعائے ندبہ فرقہٴ کیسانیہ کے عقیدوں کو بیان کر رہی ہے ؟
کیسانیہ فرقہ کا تاریخچہ
”کیسانیہ“ ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جو پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے درمیان پیدا ہوا اور تقریباً ایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔
یہ گروہ جناب ”محمد حنفیہ “ کی امامت کا عقیدہ رکھتا تھا اور انہیں امیر المومنین ،امام حسن اور امام حسین کے بعد چوتھا امام گمان کرتا تھا۔
_________________________
۱۔ شفاء الصدور ،مرزا ابو الفضل تہرانی ،ج۱،ص ۲۳۷۔
۲۔ شرح دعائے ندبہ ،سید صدر الدین حسنی طباطبائی ،ص۱۱۶۔
”محمد حنفیہ “حضرت امیر المومنین کے فرزند ارجمند تھے اور حضرت کی ان پر خاص توجہ ہوا کرتی تھی ان کی شہرت ”حنفیہ“اس جہت سے ہے کہ ان کی ماں کا تعلق ”خولہ“ ”بنی حنیفہ“ کے قبیلہ سے تھا امیر المومنین نے انہیں آزاد کیا تھا پھر اپنے ساتھ عقد نکاح پڑھا۔(۱)
حضرت امیر المومنین اپنے اس فرزند ارجمند سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کے متعلق تحسین آمیز کلمات فرمائے کہ منجملہ ان میں سے حضرت کی یہ تعبیر مشہور ہے کہ فرمایا:
”انّ المحامدة تاٴبی ان یعصی اللّہ “
”محمد لوگ اجازت نہیں دیتے کہ خدا کی نا فرمانی ہو“۔
راوی نے دریافت کیا :”یہ محمد لوگ کون ہیں ؟“ فرمایا:
محمد بن جعفر ، محمد بن ابی بکر ،محمد بن ابی حذیفہ اور محمد بن امیر المومنین ۔ (۲)
علامہ مامقانی معتقد ہیں کہ حضرت امیر المومنین کا یہ قول محمد حنفیہ کی وثاقت و عدالت پر دلالت کرتا ہے ،اس لیے کہ جب تک وہ اجازت نہ دیں تب تک دوسرا شخص خدا کی نا فرمانی نہیں کرسکتا تو پھر وہ خود بغیر کسی شک و شبہ کے خدا کی نا فرمانی نہیں کریں گے ۔(۳)
________________________
۱۔ شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ج۱،ص ۲۴۵۔
۲۔ اختیار معرفة الرجال ،شیخ طوسی ،ص۷۰۔
۳۔ تنقیح المقال ،عبد اللہ مامقانی ،ج۳،ص۱۱۱۔
جنگ جمل میں جناب محمد حنفیہ ،بہت ممتاز موقعیت و منصب کے حامل تھے ، فتح و ظفر کا پرچم ان کے با وفا ہاتھوں میں تھا ،بے مثال شجاعت و صلابت کے ساتھ دشمن کو پیچھے بھگایا ، صفوں کو درہم برہم کیااور بہترین امتحان دیا۔
جب حضرت امیر المومنین نے سپاہِ اسلام کے پرافتخار پرچم کو محمد حنفیہ کے ہاتھ میں دیا تو انہیں خطاب کر کے ایک قابل توجہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فنون جنگ کے گراں قدر نکات کی یاد آوری کی ۔(۱)
خزیمہ بن ثابت ، محمد حنفیہ کی حمد و ثنا کی غرض سے امیر المومنین کی خدمت میںحاضر ہوئے اور عرض کی:
”اگر آج پرچم اسلام دوسرے شخص کے ہاتھ میں ہوتا ،تو رسوائی نصیب ہوتی۔“(۲)
اسی جنگ میں محمد حنفیہ سے دریافت کیا گیا تھا۔
”کیسے سخت اور ہولناک حالات میں تمہارے باپ تمہیں خطرے کے منھ میں ڈال رہے ہیں اور تمہارے بھائی حسن و حسین علیہما السلام کو ہرگز ان موقعوں پر میدان جنگ میں نہیں بھیجتے؟“
محمد حنفیہ نے بہت لطیف تعبیر کے ساتھ جواب دیا تھا:
_______________________
۱۔ نہج البلاغہ ،شریف رضی ،صبحی صالح، خطبہ ۱۱، ص۵۵۔
۲۔ شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ۔
”حسن و حسین علیہما السلام میرے والد گرامی کی آنکھوں کے تارے ہیں اور میں ان کا قوی ترین بازو ہوں میرے باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کے تاروں کی حفاظت کرتے ہیں ۔“ (۱)
اس بیان کی بنا پر کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ جناب محمد حنفیہ دقیق طور پر اپنے بھائیوں کی قدر و منزلت سے واقف تھے اور کوئی نہ تھا جو نا حق امامت کا دعویٰ کرے۔
امام حسین کی شہادت کے بعد ،ایک گروہ ان کی امامت کا معتقد ہوا اور سب سے پہلے ”امیر مختار “ کی مرکزیت پراعتماد کرتا تھا اور لوگوں سے ان کے نام پر بیعت لیتا تھا۔ لیکن محمد حنفیہ ان کے اس کام سے راضی نہیں تھے اور ان کے اس کام کی کبھی بھی تصدیق و تائید نہیں کی ۔
جب امیر مختار نے اپنی کارکردگی کی رپورٹ محمد حنفیہکی خدمت میں تحریر کی تو جناب محمد حنفیہ نے جواب نامہ میں یوں اظہار کیا:
”رحم اللّہ من کفّ یدہ و لسانہ و جلس فی بیتہ ،فانّ ذنوب بنی امیة اسرع الیہم من سیوف المسلمین “۔
”خدا اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو اپنے ہاتھ اور زبان کو محفوظ رکھے اور اپنے گھر میں بیٹھے، اس لیے کہ بنی امیہ کے تمام گناہ مسلمانوں
________________________
۱۔ وفیات الاعیان ،شمس الدین احمد بن خلکان ابن خلّکان ،ج۴،ص۱۷۲۔
کی تلواروں سے پہلے اس کی طرف تیزی سے آتے ہیں“۔(۱)
جو افراد کوفہ سے آتے تھے اور کوفہ کے حالات کی تفصیل ان کے لیے بیان کرتے تھے تو کہتے تھے:
”میں خوش حال ہوں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں سے ہمارا انتقام لے ،لیکن میں راضی نہیں ہوں کہ تمام دنیا کا حاکم رہوں اور ایک بے گناہ انسان کا خون میری وجہ سے بہایا جائے“ ۔(۲)
جس وقت ”ابو خالد کابلی “نے جناب محمد حنفیہ سے دریافت کیا :”کیا آپ ہی واجب الاتباع امام ہیں ؟“ تو نہایت صراحت کے ساتھ جواب دیا:
”میرا تمہارا اور تمام مسلمانوں کا امام علی بن الحسین ہے“ ۔(۳)
اس وقت امر امامت تمام لوگوں کے لیے روشن کرنے کے لیے حضرت علی بن الحسین کے ساتھ گفتگو کے لیے بیٹھے اور حجر اسود کو حَکَم قرار دیا، حجر اسود نے حضرت امام سجاد کی امامت کی گواہی دی اور انہوں نے بھی تسلیم کیا۔ (۴)
محمد حنفیہ نے اس سلسلہ میں ابو خالد کابلی سے کہا:
امام زین العابدین نے حجر اسود کو حَکَم قرار دیا ،حجر اسود نے مجھ سے کہا:
________________________
۱۔ مختصر تاریخ دمشق ، ج۲۳،ص ۱۰۳۔
۲۔ سیر اعلام النبلاء ،محمد ابن احمد ابن عثمان ذہبی،ج۴،ص۱۲۱۔
۳۔ اختیار معرفة الرجال ،شیخ طوسی ،ص۱۲۱، مناقب آل ابی طالب ،ابو جعفر محمد ابن شہر آشوب ،ج۴،ص ۱۲۱۔
۴۔ الامامة والتبصرة ،شیخ صدوق، ص۱۹۵ الکافی ،الکلینی ،ج۱،ص ۳۴۸، کتاب الغیبہ ،شیخ طوسی ،ص۱۸۔
”تم اپنے بھائی کے بیٹے کے مقابل تسلیم ہو جاؤ کہ وہی (امامت کا) زیادہ حق دار ہے“۔(۱)
وہ محققین جنہوں نے حوصلہ اور دقت کے ساتھ کیسانیہ فرقہ کے تاریخچہ کی تحقیق کی ہے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ امیرمختار کو محمد حنفیہ کی طرف سے قیام کے لیے رغبت و شوق نہیں دلایا گیا،
آخری نتیجہ یہ ہے کہ محمد حنفیہ نے امیر مختار کو اس کام سے صریحی طور پر منع نہیں کیا ہے۔(۲) لیکن کمال صراحت کے ساتھ ان سے کہا:
”میں ہرگز جنگ اور خون ریزی کا حکم نہیں دیتا “۔ (۳)
اور جب اس بات سے با خبر ہوئے کہ امیر مختار نے یہ اظہار کیا ہے کہ ان کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تو ان سے نفرت و بیزاری اختیار کی۔(۴) یہاں تک کہ بعض نقل تاریخ کی بنا پر ان پر لعنت بھیجنے کے لیے زبان کھولی ۔(۵) ظ
لیکن جب محمد حنفیہ عبد اللہ ابن زبیر کی طرف سے زمزم کے کنویں پر مقید تھے تو
_________________________
۱۔ اعلام الوریٰ باعلام الھدی ،ابو علی فضل بن الحسن الطبرسی ، ج۱،ص ۴۸۶۔
۲۔ الکیسانیہ فی التاریخ و الادب ،وداد قاضی ،ص۹۱۔
۳۔ انساب الاشراف، احمد بن یحییٰ بلاذری ،ج۵،ص۲۱۸۔
۴۔ الملل و النحل ،شہرستانی ،ابو الفتح محمد بن عبد الکریم ج۱،ص ۱۴۹۔
۵۔ المقدمة ،عبد الرحمن ابن خلدون ،ص۱۹۸۔
ظ۔ ہمارے شیعہ مذہب میں ایسی تاریخ کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ جس کا ناقل معلوم نہ ہو دوسری بات یہ کہ ممکن ہے ایسی تاریخی روایت بنی امیہ کے کارندوں کی خود ساختہ ہو۔ (مترجم)
امیر مختار کو پیغام دیا،اور امیر مختار نے چار ہزار لوگوں کو ان کی مدد کے لیے بھیجا اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو قید سے آزاد کرایا ۔ (۱)
محمد حنفیہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تحقیق سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ امامت کے مدعی نہ تھے بلکہ اس سے گریزاں تھے ،جیسا کہ زہری کا بیان ہے :
”محمد لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند ، بہادر اور فتنوں سے دور تھے نیز جن چیزوں سے لوگ دل لگائے ہوئے تھے وہ ان سے پرہیز کرتے تھے ۔(۲)
جس وقت ان کے کسی چاہنے والے نے ان کو ”یا مہدی“ کے عنوان سے خطاب کیا تو وہ اس عنوان سے خوش نہیں ہوئے اور اس سے کہا:
”ہاں! میں ہدایت یافتہ ہوں اور نیکیوں کی طرف ہدایت کرتا ہوں ،لیکن میرا نام محمد اور کنیت ابو القاسم ہے ،جب مجھے آواز دو تو مجھے ان دوناموں سے پکارا کرو۔“ (۳)
محمد بن حنفیہ کے مختصر کلمات اور بہت سے خطبات جو کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ، ان میں ہمیں کوئی ایسی بات نہیں ملتی کہ جس میں انہوں نے اپنی طر ف لوگوں کو دعوت دی ہو، بلکہ اس کے برعکس مطلقاً خاندان عصمت و طہارت کی طرف مکمل احتیاط کے
_________________________
۱۔ مختصر تاریخ دمشق ، ابن منظور ،ج۲۳، ص۹۹۔
۲۔ تذکرة الخواص ،سبط ابن جوزی ،ص۲۶۳۔
۳۔ الکیسانیة فی التاریخ و الادب ،وداد قاضی ،ص۱۲۳۔
ساتھ دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ،جیسے ایک خطبے کے ضمن میں فرماتے ہیں:
”الا انّ لاٴھل الحق دولة یاتی بھا اللّٰہ اذا شاء“
”اہل حق کے لیے ایک حکومت ہے کہ خداوند متعال جس وقت چاہے گا اسے فراہم کرے گا ،ہم میں سے جو شخص بھی اس حکومت کو درک کرے گا وہ سعادت کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہو گا“۔ (۱)
جب ان سے اصرار کے ساتھ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی دعوت کو بیان کریں تو انہیں اس بات سے شدّت کے ساتھ منع کرتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں:
”و لاٴمر آل محمد اٴبین من طلوع الشمس“
” امر آل محمد طلوع آفتاب سے زیادہ واضح و روشن ہے ۔“(۲)
قابل توجہ یہ ہے کہ ”امرنا“ یعنی ”ہمارے امر“ سے تعبیر نہیں کیا بلکہ ”امر آل محمد “ سے تعبیر کیا ہے ،اور ہم جانتے ہیں وہ پیغمبر اکرم (ص) کی نسل سے نہیں ہیں،اور ”آل محمد “ کی تعبیر خصوصی ترین معنی میں ان کے شامل حال نہیں ہوتی۔
ان کی عقل و درایت اور ہوش و ذکاوت کے لیے یہی کافی ہے کہ بادشاہ روم نے عبد الملک کو تہدید آمیز اورخوفناک خط لکھا،عبد الملک نے حجاج سے کہا کہ اس طرح کا ایک تہدید آمیز خط محمد حنفیہ کو لکھو اور اس کا جواب میرے پاس لے آؤ۔
_________________________
۱۔ الطبقات الکبریٰ ،محمد ابن سعد کاتب ،ج۵،ص ۹۷۔
۲۔سیر اعلام النبلاء ، محمد احمد ابن عثمان ذہبی،ج۴،ص ۱۲۲۔
جب محمد حنفیہ کا جواب عبد الملک کے ہاتھ میں پہنچا تو حکم دیا کہ عین اسی جیسا جواب بادشاہ روم کے پاس لکھو:
بادشاہ روم نے عبدالملک کے جواب میں لکھا:
یہ بات تمہاری اور تمہارے خاندان کی طرف سے صادر نہیں ہوئی ہے، یہ کلام تو خاندان نبوت سے صادر ہوا ہے ۔(۱)
یہی گفتار کی متانت و لطافت ،نیک رفتار و کردار میں اعتدال پسندی،اس کے علاوہ علم سے سر شار،پُر بار عقل اور دوسری اخلاقی نیکیاں باعث ہوئیں کہ لوگوں کے دل ان کی محبت سے لبریز ہوجائیں اور سب ان کے بہترین معتقد ہو جائیں نیز یہی وجہ تھی کہ امیر مختار خود کو ان سے منسوب کرتے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف موڑ سکےں ۔ لیکن جب وہ مختار کی دسیسہ کاریوں سے آگاہ ہو ئے تو ان سے نفرت کا اظہار کیا۔(۲) ظ
محمد حنفیہ اگر چہ امام حسین کی شہادت کے بعدبہت سی مشکلوں سے روبرو ہوئے، اور حجّاج ،عبد الملک اور عبد اللہ ابن زبیر کی طرف سے انہیں بیعت کی دعوت کے لیے بہت سی تہدید(دہمکی) اور طمع دی گئی انہیں خو ف دلایا ،لیکن اپنی نیک تدبیر سے کسی حد
_________________________
۱۔ الطبقات الکبریٰ، محمد ابن سعد، ص۱۱۰۔
۲۔ الملل و النحل، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی ۔
ظ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ناروا باتوں کو امیر مختارٴ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کو کم کرنے کے لیے بنی امیہ کے چاہنے والوں نے اپنی خود ساختہ تاریخوں میں جگہ دی ہے جس کا ہمارے شیعہ عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (مترجم)
تک ان کے شر سے محفوظ رہے ،یہاں تک کہ آخر میں محرم ۸۱ھئق میں ۶۵ سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں دنیا سے رخصت ہوئے اور قبرستان بقیع میں دفن ہوئے ۔(۱)
محمد حنفیہ کے انتقال کی جگہ کے لیے تین اقوال ہیں:
۱۔ مدینہ
۲۔ طائف
۳۔ ایلہ (مکہ و مدینہ کے درمیان )(۲)
اور چوتھا قول بھی نقل ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ :ان کا انتقال ”رضوی“ کے مقام میں ہوا اور بقیع میں دفن کیا گیا۔ (۳)
”رضوی“ایک بلند پہاڑ کا نام ہے مدینہ کے قریب جو ”یَنبُع“سے ایک منزل اور مدینہ سے سات منزل کا فاصلہ ہے ،جہاں اونچی اونچی پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں، کثرت سے درّے، درخت اور بہت سے صاف و شفاف چشمے پائے جاتے ہیں۔ (۴)
محمد حنفیہ کی رحلت کے بعد،کیسانیہ فرقہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گیا کہ ان میں سے منجملہ یہ ہےں :
۱۔ سرّاجیّہ”حسّان سرّاج“ کے ماننے والوں نے کہا: محمد حنفیہ وفات پا
________________________
۱۔ سیر اعلام النبلاء ،محمد ابن عثمان ذہبی، ص۱۲۸۔
۲۔ تذکرة الخواص ،سبط ابن جوزی ،ص۲۶۸۔
۳۔ تنقیح المقال ،عبد اللہ مامقانی،ص۱۲۲۔
۴۔ معجم البلدان ،یاقوت حموی ،ج۳،ص۵۱۔
چکے ہیںکوہ رضوی میں مدفون ہیں ،لیکن ایک دن رجعت کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔(۱)
۲۔ کرنبیّہ”ابن کرنب“ کے ماننے والوں نے کہا: محمد حنفیہ زندہ ہیں اور کوہ رضوی میں سکونت پذیر ہیں اور بغیر ظہور کیے دنیا سے نہیں جائیں گے ،دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے پُر ہوگی۔ (۲)
ان کو اکثر منابع میں ”کربیّہ“ یا ”کریبّیہ“ ذکر کیا گیا ہے ۔(۳)
۳۔ ہاشمیہ ،”ابو ہاشم عبد اللہ “ کے ماننے والے جو محمد حنفیہ کے بعد ان کے فرزند ”عبد اللہ“ کی امامت کے معتقد ہوئے ۔(۴)
ہاشمیہ فرقہ بھی ابو ہاشم کی وفات کے بعد مختلف فرقوں میں جیسے :”مختاریّہ“ ”حارثیّہ“”روندیّہ“”بیانیّہ“ وغیرہ میں تقسیم ہو گیا۔(۵)
کیسانیہ کی اکثریت اس بات کی معتقد ہے کہ محمد حنفیہ کی وفات نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ کوہ رضوی میں مخفی ہیں ایک مدت کی غیبت کے بعد آخر میں ظہور کریں گے اور دنیا کو
عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
___________________________
۱۔ البدء و التاریخ ،المطھّر بن طاہر مقدسی ،ج۵،ص ۱۲۹۔
۲۔ البدء والتاریخ ،المطھّر بن طاہر مقدسی،ج۵،ص ۱۲۸۔
۳۔ الکیسانیہ فی التاریخ و الادب، وداد قاضی ، ص۱۷۲۔
۴۔ الملل و النحل ، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی ،ج۱،ص ۱۵۰۔
۵۔ المقالات و الفرق،سعد ابن عبد اللہ اشعری ،ص۲۶۔۴۰۔
وہ لوگ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ محمد حنفیہ وہی مہدی موعود ہیں اور مکہ معظمہ سے ظہور کریں گے ۔(۱)
وہ لوگ کہتے ہیں:ہر دن صبح و شام محمد حنفیہ کی خدمت میں اونٹ آتے ہیں وہ ان کے دودھ اور گوشت کو کھاتے پیتے ہیں۔(۲)
سید اسماعیل حمیری ،خاندان اہل بیت کے مشہور شاعر پہلے ان کا تعلق فرقہٴ کیسانیہ سے تھا اور بہت سے اشعار محمد حنفیہ کی مدح میں کیسانیہ کے عقائد کی بنیاد پرنظم کیے وہ انہیں اشعار کے ضمن میں کہتے ہیں :
یا شعب رضوی ما لمن بک لا یری
و بنا الیہ من الصّبابة اٴولق
حتی متیٰ، و الیٰ متیٰ و کم المدیٰ
یا بن الوصیّ واٴنت حیّ ترزق
اے غار رضوی! تمہارے اندر قیام کرنے والا کیسا ہے جو دکھائی نہیں دیتا،جب کہ ہم اس کے عشق میں دیوانے ہو گئے ہیں۔اے فرزند وصی! کب تک اور کس زمانہ تک اور کتنی مدت تک زندہ رہیں گے اور رزق کھاتے رہیں گے؟ (۳)
کیسانیہ کے دوسرے مشہور شاعر، ”کُثیّر عَزّہ“ بھی اس سلسلہ میں کہتے ہیں :
__________________________
۱۔المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ اشعری ،ص۳۱۔
۲۔ فرقہ الشیعہ ،حسن بن موسیٰ نو بختی ، ص۲۹۔
۳۔ مروج الذہب، علی ابن حسین مسعودی، ج۲،ص۹۶۔
تغیّب لا یری عنھم زمانا
برضوی عندہ عسل و ماء
ایک مدت سے رضوی میں ان لوگوں سے مخفی ہوگئے ہیں لہذا دکھائی نہیں دیتے ان کے پاس پانی اور شہد ہے ۔(۱)
حمیری بعد میں محمد حنفیہ کے مہدی ہونے کے عقیدے سے برگشتہ ہو گئے اور حضرت امام جعفر صادق کی امامت کے معتقد ہو گئے اور مشہور شعر ”تجعفرت باسم اللّہ و اللّٰہ اکبر “ ”میں نام خدا پر جعفر میں سے ہوگیا اور اللہ بزرگ و برتر ہے“ کو اسی سلسلہ میں کہا ہے ۔ (۲)
”کثیّر“ اہل بیت کے دل باختہ عاشقوں میں سے تھے، خود کو مرنے کے لیے آمادہ کیا ،کسی شخص کو تلاش کیا کہ ان کے اہل و عیال کی کفالت کرے ، اس وقت ایّام حج کے موقع پر اہل بیت سے دفاع کے سلسلے میں ولولہٴ خیز بیانات جاری کیے جس وقت چاہا کہ غاصبین فدک سے اظہار برائت کریں تو ان کے طرف دار لوگ کھڑے ہوئے اور ان کی طرف پتھر برسائے اور بہت بری طرح سے درجہٴ شہادت پر فائز کیا۔ (۳)
___________________________
۱۔ الدیوان ،الکُثَیر عزّہ، ج۲،ص ۱۸۶۔
۲۔ الدیوان ،سید اسماعیل حمیری ،ص۲۹۵۔طبقات الشعراء ،ابن المعتزّ،ص۳۳۔ الفصول المختارہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ، ج۲،ص ۲۹۹۔
۳۔ الاغانی ،ابو الفرج اصفہانی ،ج۱۱،ص ۴۶۔
امیر مختار کے بعد جو کیسانیہ فرقے کے بانی کہلاتے تھے ،ان دونوں نے رزمیہ شاعری کے با معنی اور بہترین اشعار پیش کر کے کیسانیہ فرقہ کی ترقی میں بہت زیادہ موثر کردار ادا کیا۔
اس فرقہ کے ”کیسانیہ “نام کی وجہ تسمیہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:
۱۔ کیسان امیر مختار کا لقب تھا۔(۱)
۲۔ کیسان امیر مختار کی فوج کے سردار کا نام تھا۔(۲)
۳۔ کیسان حضرت امیر المومنین کے غلاموں میں سے ایک غلام کا نام تھا کہ جس نے امیر مختار کو امام حسین کے خون کا انتقام لینے کے لیے شوق اور رغبت دلائی تھی۔(۳)
تیسراقول ضعیف ہے، کیوں کہ کیسان امیر المومنین کے غلام تھے جو جنگ صفین میں شہید ہوچکے تھے۔ (۴)
پہلا نظریہ تاریخی لحاظ سے پایہٴ ثبوت تک نہیں پہونچا ہے ۔
لیکن دوسرا نظریہ معتبر ہے ،اس لیے کہ تاریخی لحاظ سے اس بات میں شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ مختار کی فوج کا سردار ایک کیسان نامی شخص تھا جو ”ابو عمرہ“ کے نام
__________________________
۱۔ البدء و التاریخ ،المطھّر بن طاہر مقدسی ،ص۱۳۱۔
۲۔ المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ اشعری ،ص۲۱۔
۳۔ الملل و النحل ، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی ،ص۱۴۷۔
۴۔ الکامل فی التاریخ ،عز الدین علی ابن اثیر،ج۳،ص ۲۹۹۔
سے مشہور تھا قبیلہٴ ”بجیلہ“ (۱) سے جو قبیلہٴ ”عرینہ“کہ وہ بجیلہ کے گروہوں میں سے ایک ہے ۔(۲)
یہ کیسانیہ کے اعتقادات کے مختصر تاریخچہ کی طرف اشارہ تھا جو ۶۰ھء کے بعد پیدا ہوا اور تیسری صدی ہجری میں ختم ہو گیا اور اس کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا۔
سید مرتضیٰ علم الہدی نے اپنی گراں قدر کتاب الفصول المختارہ میں جو کتاب العیون و المحاسن شیخ مفید سے منتخب شدہ ہے ،اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ روئے زمین پر کیسانیہ فرقہ میں سے ایک شخص بھی باقی نہیں ہے ۔ (۳)
اس سے پہلے اشعری اور نوبختی نے بھی دوسری صدی ہجری کے اواخر میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ کیسانیہ کے فرقوں میں سے سوائے انگشت شمار افراد کے کوئی باقی نہیں ہے ۔(۴)
لیکن ”محمد حنفیہ “ کا ”کوہ رضوی “ سے ارتباط یہ ہے کہ ”عبد اللہ ابن زبیر “ نے جب بنی ہاشم کے مقابل میں اپنے ضعیف اور نابود ہونے کا خطرہ احساس کیا تو ”عبد اللہ ابن عباس “ کو ”طائف “ اور ”محمد حنفیہ “”کوہ رضوی“ کی طرف شہر بدر کیا۔ (۵)
_________________________
۱۔ انساب الاشراف ،احمد بن یحییٰ بلاذری ،ص۲۲۹۔
۲۔ جمہرة انساب العرب ،ابن حزم اندلسی ، ص۳۸۷۔
۳۔ الفصول المختار ہ ،سید مرتضیٰ علم الہدی ، ج۲،ص ۳۰۵۔
۴۔ المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ اشعری ،ص۳۶، فرق الشیعہ ،حسن بن موسیٰ نوبختی ۔
۵۔ التاریخ یعقوبی ،ابن واضح یعقوبی ،ج۳،ص ۹۔
اس بیان کی بنا پر ”محمد حنفیہ “ نے اپنی عمر کا آخری حصّہ اسی سمت میں بسر کیا ہے بعض مورخین نے کہا ہے کہ ان کا اسی جگہ انتقال ہوا ہے ۔(۱)
لیکن اکثر مورخین معتقد ہیں کہ محمد حنفیہ کی وفات مدینہ میں ہوئی اور بقیع میں مدفون ہیں۔(۲)
”عبد اللہ ابن عطا“ نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”میں نے اپنے چچا محمد حنفیہ کو خود اپنے ہاتھ سے سپرد خاک کیا “۔(۳)
مذکورہ مطالب کی تحقیق سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ فرقہٴ کیسانیہ پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد پیدا ہوا اور جناب محمد حنفیہ کی امامت کا معتقد ہوا اور دوسری صدی ہجری کے اواخر میں بالکل ختم ہو گیا۔
اس بات کے پیش نظر کہ ”رضوی“ چونکہ محمد حنفیہ کے شہر بدر کی جگہ تھی،کیسانیہ کے ایک گروہ نے اس مقام کو محمد حنفیہ کی غیبت کی جگہ جانا ہے ، اس بات کا منتظر تھا کہ ایک دن وہ کوہ رضوی سے ظاہر ہوں گے اور سر زمین مکہ سے قیام کریں گے اور دنیا کو عدل و انصا ف سے بھر دیں گے ۔
اس بیان کی بنا پر ”رضوی “ کا ”مہدی موعود“ کے ساتھ اور شیعہ اثنا عشری کا حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ پر اعتقاد رکھنے سے کوئی ربط نہیں ہے ۔
__________________________
۱۔ غایة النہایة ،شمس الدین ابن الجزری ،ج۲،ص۲۰۴۔
۲۔ الطبقات الکبریٰ ،محمد ابن سعد، ج۵،ص ۱۱۶۔
۳۔ الفصول المختارہ ،سید مرتضیٰ علم الہدی ، ج۲،ص ۲۹۸۔
لہٰذا ”دعائے ندبہ “ کے ایک فقرہ میں لفظ”رضوی “ استعمال ہوا ہے اور حضرت ولی عصر کی قیام گاہ کے ساتھ ایک مخصوص رابطہ پایا جاتا ہے ؟!
اور اب دعائے ندبہ کا متن ملاحظہ فرمائیں:
”لیت شعری اٴین استقرّ ت بک النّوی؟بل اٴیّ اٴرض تقلّک اٴو ثری؟ اٴبرضوی او غیرھا اٴم ذی طوی؟ عزیز علیّ ان اٴریٰ الخلق و لا تری“
”اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تیری قیام گاہ کہاں ہے اور کس سر زمین نے تجھے بسا رکھا ہے ؟ مقام رضوی ہے ؟یا مقام طوی ہے ؟میرے لیے یہ بہت سخت ہے کہ ساری دنیا کو دیکھوں اور تو نظر نہ آئے “(۱)
اس سوال کا جواب ہر ایک فرد کی نظر میں واضح و روشن کرنے کے لیے ”رضوی“ اور ”ذی طوی“ کی حیثیت کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے کلمات کی روشنی میں تحقیق کرتے ہیں تاکہ ان دونوں مقام کا ارتباط حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے وجود اقدس سے اور ان دونوں کاجناب محمد حنفیہ کے ساتھ عدم ارتباط کا مسئلہ واضح ہو سکے ۔
۱۔”کوہ رضویٰ“
”رضویٰ “”تہامہ “ کے پہاڑوں میں سے پہلا پہاڑ ہے جو ”ینبع“ سے ایک منزل اور ”مدینہ “ سے سات منزل ہے کہ بہت سی حدیثوں میں اس کا ذکر ہوا ہے
_________________________
۱۔ مصباح الزائر ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۵۱۔
منجملہ ان میں سے :
۱۔ رسول اکرم نے فرمایا:
”رضوی، رضی اللّہ عنہ “۔
”رضویٰ ،خدا اس سے خوش ہے !“۔(۱)
۲۔ دوسری حدیث میں فرمایا:
”رضویٰ جنت کے پہاڑوں میں سے ہے“ ۔(۲)
۳۔ امام جعفر صادق ،جب سر زمین “رَوْحا “ پر وارد ہوئے تو ایک نظر اس پہاڑ پر ڈالی جو دشت روحا سے نزدیک تھا ،عبد الاعلی غلام آل سام جو حضرت کی خدمت میں تشریف فرماتھے فرمایا:
”اس پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ اس کو ”رضویٰ“ پہاڑ کہا جاتا ہے جو فارس کی پہاڑیوں میں سے تھا، چونکہ اس نے ہمیں دوست رکھا تو خدا نے اس کو ہماری طرف منتقل کر دیا۔ اس میں ہر قسم کے میوے کے درخت موجود ہیں حیران اور خوف زدہ شخص کے لیے کتنی بہترین پناہ گاہ ہے ۔ “
اس جملہ کی دو مرتبہ تکرار کی پھر فرمایا:
”اٴما انّ لصاحب ھذا الاٴمر فیہ غیبتین ،واحدة قصیرة ،و
___________________________
۱۔ معجم البلدان ،یاقوت حموی ،ج۳،ص ۵۱۔
۲۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین سمہودی،ج۴،ص ۱۲۱۹۔
الاخریٰ طویلة “
”اس صاحب الامر کے لیے اس پہاڑ میں دو غیبت ہے ،ایک مختصر اور دوسری طولانی ۔“(۱)
۴۔ امام زین العابدین نے ایک طولانی حدیث کے ضمن میں ظہور کے وقت جبرئیل امین کا حضرت کی خدمت میں آنے کے متعلق بیان کیا ہے ،اس کے آخر میں فرماتے ہیں:
”و یجیئہ بفرس یقال لہ البُراق، فیرکبہ ،ثم یاٴتی الی جبل رضوی“
”اس وقت وہ گھوڑا کہ جسے براق کے نام سے جانا جاتا ہے ان کی خدمت میں لایا جائے گا۔ حضرت قائم اس پر سوار ہو ں گے پھر کوہ رضویٰ کی طرف حرکت کریں گے “۔
اس وقت حضرت کے ۳۱۳ اصحاب کی آمد، ظہور کے اعلان اور دعوت اسلام کے آغاز کے متعلق تفصیلی گفتگو فرماتے ہیں۔(۲)
۵۔ امام جعفر صادق نے ایک طولانی حدیث کے ضمن میں ارواح مومنین کا گلستان ”رضویٰ “ میں جمع ہونے کے متعلق بیان کیا ہے ،اور آخر میں فرماتے ہیں:
_________________________
۱۔ کتاب الغیبة ،شیخ طوسی ،ص۱۶۳۔
۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۵۲،ص ۳۰۶۔
”ثمّ یزور آل محمد فی جنان رضوی ، فیاٴکل معھم من طعامھم ، و یشرب معھم من شرابھم ، و یتحدّث معھم فی مجالسھم ،حتی یقوم قائمنا اٴھل البیت ، فاذا قام قائمنا بعثھم اللّہ فاقبلوا یُلبّون زمَراً زمراً“
”پھر وہ مومن جنت رضوی میں آل محمد کی زیارت کرتا ،کھاتا پیتا اور ان کے ساتھ ان کی مجالس میں بیٹھ کر ان حضرات سے گفتگو کرتا رہے گایہاں تک کہ ہم اہل بیت کا قائم ظہور کرے گا اور جب وہ ظہور کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان مومنین کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجے گا پس وہ گروہ درگروہ لبیک کہتے ہوئے ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے“ ۔ (۱)
پہلی اور دوسری حدیث سے رضوی پہاڑ کی فضیلت و قداست کا استفادہ ہوتا ہے۔
تیسری حدیث صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ ،غیبت صغریٰ اور کبریٰ میں اپنی مبارک عمر کا ایک حصّہ کوہ رضویٰ میں بسر کریں گے ۔
چوتھی حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ عالمی مصلح ظہور کے موقع پر بھی رضویٰ پہاڑ سے گزریں گے اور وہاں سے مکہٴ معظمہ کی طرف جانے کا قصد کریںگے ۔
__________________________
۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۶،ص ۱۹۸، ج۵۳،ص۹۷۔
پانچویں حدیث سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت کے بعض اصحاب اس پہاڑ میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تاکہ حضرت کے ظہور کے وقت رجعت کریں اور حضرت کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوں اور ان کے تمام فرمان کو ہوبہ ہو نافذ کریں۔
۲۔ ”ذی طُویٰ“
”طوی“ لغت میں سمٹنے اور لپٹنے کے ہیں اور اس کے بعض مشتقات جیسے ”طایہ“ ہموار سر زمین، چھت، چبوترہ اور وہ بڑے بڑے پتھر جو وسیع ریگ زاروں میں پائے جاتے ہیں ان پر اطلاق ہوتا ہے ۔(۱)
”ذی طوی“ مکہ کے ایک فرسخ کے درمیان ،حرم کے اندر واقع ہے اور وہاں سے مکہ کے گھروں کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔(۲)
جو شخص یہ چاہتا ہے ”مَسفَلَہ “ (مکہ کی نیچی سطح) کی طرف سے مکہٴ معظمہ میں وارد ہو ،مستحب ہے کی ”ذی طوی “ کہ جگہ غسل کرے پھر شہر مکہ میں وارد ہو۔ (۳)
یہ علاقہ ”حجون “اور ”فخّ“ کے درمیان واقع ہے ۔جو شخص مسجد تنعیم میں احرام باندھ کر مسجد الحرام کی طرف جانے کا قصد کرتا ہے ،علاقہٴ فخّ (شہید فخ
_________________________
۱۔ معجم مقاییس اللغة ،ج۳،ص ۴۳۰۔
۲۔ مجمع البحرین ،فخر الدین الطریحی،ج۱،ص ۲۷۹۔
۳۔ النھایہ فی غریب الحدیث و الاثر،المبارک بن محمد ابن الاثیر ، ج۳،ص ۱۴۷۔
حسین کی شہادت کی جگہ ) کو عبور کرنے کے بعد ”ذی طوی “ کے مقام میں وارد ہوتا ہے، اس وقت قبرستان معلّیٰ (قبرستان حضرت ابو طالب علیہ السلام) کی طرف سے مکہٴ معظمہ میں وارد ہوتا ہے ۔(۱)
رسول اکرم نے ”حجة الوداع “ میں چوتھی ذی الحجة الحرام کو وہاں رات گزاری، وہاں نماز صبح ادا کی ،غسل کیا پھر ”ذی طوی“ کی سنگلاخ وادی سے جو حجون کے نزدیک ہے مکہٴ معظمہ میں وارد ہوئے ۔ (۲)
”طوی“شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے ”ذی طُوا“ الف ممدودہ کے ساتھ طائف کے راستہ میں ایک مقام ہے اور ”ذی طوی“ الف مقصورہ کے ساتھ مکہ کے مغربی علاقہ میں ایک جگہ کا نام ہے اور اس کے صدر دروازہ میں واقع ہے ۔(۳)
اب ”ذی طوی“ کے متعلق بعض روایات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ امام جعفر صادق سے دریافت کیا گیا: جس شخص نے عمرہٴ مفردہ کے لیے احرام باندھا اسے تلبیہ کو کہاں قطع کرنا چاہیے ؟فرمایا:
”اذا راٴیتَ بیوت ذی طوی فاقطع التلبیة“
”جب ذی طوی کے گھروں کا مشاہدہ کرو تو تلبیہ کو قطع کرو“۔ (۴)
___________________________
۱۔ اخبار مکہ ،ابو الولید محمد بن عبد اللہ الازرقی ،ج۲،ص ۲۹۷۔
۲۔ مرآة الحرمین ،پاشا ابراہیم رفعت ،ج۱،ص ۸۱۔
۳۔ لسان العرب ،ابن منظور ،ج۸،ص۲۳۸۔
۴۔ الاستبصار ،شیخ طوسی ،ج۲،ص۱۷۶۔
۲۔ امام رضا سے دریافت کیا گیا کہ عمرہٴ تمتع میں تلبیہ کو کہاں قطع کرنا چاہیے ؟ فرمایا:
”اذا نظر الی عراش مکّة ،عَقَبةَ ذی طوی “
”جب مکہ کے سائبانوں کو ذی طوی کے ابتدائی حصے میں مشاہدہ کرو“۔
راوی نے دریافت کیا:”مکہ کے گھروں کے متعلق فرمارہے ہیں؟“ جواب دیا: ہاں۔(۱)
۳۔ امام جعفر صادق نے رسول اکرم کے حج کی کیفیت کی وضاحت میں فرمایا:
”فلمّا دخل مکة دخل من اٴعلاھا من العقبة ،و خرج حین خرج من ذی طوی “
”جب مکہ میں داخل ہوئے تو مکہ کی بالائی جگہ کے ابتدائی حصہ سے وارد ہوئے اور جب مکہ سے باہر نکلے تو ذی طوی سے نکلے ۔“(۲)
۴۔ امام جعفر صادق نے ،خانہٴ کعبہ کی ساخت و ساز کی وضاحت کے وقت فرمایا:
”فبنی ابراھیم البیت و نقل اسماعیل الحجر من ذی طوی“
_________________________
۱۔ تہذیب الاحکام ، شیخ طوسی ،ج۵،ص ۹۵۔
۲۔ الکافی ،محمد بن یعقوب الکلینی ،ج۴،ص ۲۵۰۔
”حضرت ابراہیم نے خانہٴ خدا کی تعمیر کی اور حضرت اسماعیل نے ذی طوی سے پتھر لا کر دیے“ ۔(۱)
۵۔ امام محمد باقر نے اپنے دست مبارک سے ”ذی طوی“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
”یکون لصاحب ھذا الاٴمر غیبة فی بعض ھذہ الشّعاب“
”اس صاحب الامر کے لیے ان بعض درّوں میں غیبت واقع ہوگی ۔“ (۲)
۶۔ امام محمد باقر حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے ظہور کی جگہ کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”انّ القائم علیہ السلام ینتظر من یومہ فی ذی طوی ،فی عدّة اھل بدر، ثلاثماة عشر رجلاً حتی یسند ظھرہ الی الحجر و یھزّ الرایة المعلّقة“
”اس دن سے حضرت قائم اپنے تین سو تیرہ (اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ) اصحاب کے ساتھ مقام ذی طوی میں انتظار کریں گے پھر حجر اسود کی طرف اپنی پشت کر کے کھڑے ہوں گے اور اپنا پرچم لہرائیں گے ۔“(۳)
_________________________
۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۲،ص۹۹، ج۹۹، ص۳۸۔
۲۔ تفسیر عیاشی ،محمد مسعود بن عیاش سلمی سمرقندی (عیاشی) ،ج۲،ص ۵۶۔
۳۔ اثبات الھداة ،محمد بن حسن حر عاملی ،ج۳،ص ۵۸۲۔
۷۔ امام جعفر صادق بھی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
”کاٴنّی بالقائم علیہ السلام علی ذی طوی ،قائما علی رجلیہ حافیا یرتقب بسنّة موسیٰ حتی یاٴتی المقام فیدعو فیہ“
”گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ امام قائم مقام ذی طوی سے پا پیادہ حضرت موسیٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آرہے ہیں اور جب مقام (ابراہیم ) پر پہونچیں گے تو وہاں لوگوں کو دعوت دیں گے ۔ “ (۱)
۸۔ امام محمد باقر ظہور کے عظیم الشان دن کو یوں بیان فرماتے ہیں :
”انّ القائم یھبط من ثنیّة ذی طوی ،فی عدّة اٴھل بدر، ثلاثمائة و ثلا ثة عشر رجلاً، حتی یسند ظھرہ الی الحجر الاٴسود، یھزّ الرّایة الغالبة“
”یقینا حضرت قائم ”ذی طوی“ کے ٹیلوں سے اپنے تین سو تیرہ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ان کے ساتھ نازل ہوں گے پھر حجر اسود کی طرف اپنی پشت کر کے کھڑے ہوں گے اور اپنا پرچم لہرائیں گے ۔(۲)
۹۔ دوسری حدیث میں شہادت نفس زکیہ کی وضاحت فرمائی اس مصلح غیبی کے عالمی قیام کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
__________________________
۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۵۲،ص ۳۸۵۔
۲۔ کتاب الغیبة ، ابن ابی زینب نعمانی ،ص۳۱۵۔
”فیھبط من عقبة طوی فی ثلاثمائة و ثلاثة عشر رجلاً ، عدّة اھل بدر،حتی یاٴتی المسجد الحرام ،فیصلّی فیہ عند مقام ابراہیم اربع رکعات “
”پھر آپ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق تین سو تیرہ افراد کو لے کر عقبہ طوی سے اتر کر مسجد الحرام میں تشریف لائیں گے اور مقام ابراہیم پر چار رکعت نماز پڑھیں گے “ ۔(۱)
پانچویں حدیث سے نویں حدیث تک کی تحقیق کے بعد کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ ”ذی طوی“ کے علاقے کا حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور حضرت اپنی غیبت کے کچھ زمانے تک وہاں زندگی بسر کریں گے اور ظہور کے وقت اس مقدس مکان میں حکم الٰہی کے منتظر رہیں گے اور وہاں اپنے ملک اور فوج کے ۳۱۳ افراد کو ترتیب دیں گے اور اپنے آخری قیام کو اسی مقام سے شروع کریں گے اور حرم امن الٰہی کی طرف قدم بڑھائیں گے ۔
ہر با انصاف شخص جو”رضویٰ“ اور ”ذی طوی“ سے متعلق حدیثوں کی تحقیق کرے، تو اسے اطمینان کامل حاصل ہو جائے گا کہ یہ دونوں مقدس مکان ایک مقدس مقامات میں سے ہیں کہ کعبہٴ مقصود او رقبلہٴ موعود کی عمر مبارک کے زمانہٴ غیبت کا ایک حصہ اس جگہ بسر ہو گااور نتیجہ میں بہت بجا اور مناسب ہے کہ منتظرین
_________________________
۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۵۲، ص۳۰۷۔
ظہور اور عاشقین حضور حضرت نظروں سے غائب رہنے والے اس امام کی خدمت میں اپنی اشکبار آنکھوں سے نذرانہٴ عقیدت پیش کرنے کے لیے اس کا طولانی انتظار کرتے ہوئے عرض کریں:
اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تیری جائے سکونت کس سر زمین میں ہے؟! کیا مقام رضوی ہے یا مقام ذی طوی یا دوسری جگہ ۔
اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ کا یہ فقرہ جو امام صادق سے معتبر سند کے ساتھ صادر ہوا ہے کیسانیہ کے عقائد سے اس کا کوئی ربط نہیں پایا جاتا بلکہ دقیق طور پر شیعوں کے اعتقادات کے مطابق ہے اور ہم ائمہ معصومین علیہم السلام کے نورانی کلمات کی روشنی میں اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت بقیةاللہ ارواحنا فداہ زمانہٴ غیبت میں کبھی مکہٴ معظمہ ،کبھی مدینہ منورہ ،کبھی کوہ رضوی ، کبھی ذی طوی کے صحرا میں ،کبھی دور دراز سر زمینوں میں ،کبھی بیت الحرام وغیرہ میں تشریف فرماہوتے ہیں اور دعائے ندبہ کا مزکورہ فقرہ بطور دقیق اس عقیدہ سے ساز گار ہے اور کیسانیہ کے عقائد کے ساتھ کسی صورت میں سازگار نہیں ہے ۔اور اب ہم دعائے ندبہ کی کیسانیہ کے عقائد سے ناسازگاری کے دلائل کو فہرست وار نقل کر رہے ہیں:
۱۔ دعائے ندبہ میں سر زمین ”ذی طوی“ بھی ”رضو ی“ کے ساتھ ذکر ہوئی ہے ،جب کہ فرقہٴ کیسانیہ کا کوئی بھی شخص محمد حنفیہ کے قیام گاہ کا سر زمین ذی طوی میں معتقد نہیں ہے ۔
۲۔ دعائے ندبہ میں ،ان دونوں مقامات کے ساتھ ”اوغیرھا“ یا ”دوسری جگہ“ ،ذکر ہوا ہے جب کہ کیسانیہ فرقے والے افراد محمد حنفیہ کی قیام گاہ ”کوی رضوی“ کے معتقد ہیں اور وہ کسی دوسری جگہ کا عقیدہ نہیں رکھتے ۔
۳۔ دعائے ندبہ کے اس فقرہ کے بعد یہ جملہ نقل ہوا ہے :
”بنفسی انت من مغیّب لم یخل منّا “
”میری جان قربان! تو ایسا غائب ہے جو کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوا۔“
جب کہ فرقہٴ کیسانیہ میں سے کسی بھی شخص نے محمد حنفیہ کے سلسلے میں اس قسم کے عقیدہ کا اظہار نہیں کیا ہے ۔
۴۔ دعائے ندبہ میں امام غائب کے متعلق نقل ہوا ہے :
”این ابن النّبیّ المصطفیٰ ؟
”رسول مصطفی ٰ کا فرزند کہاں ہے ؟“
جب کہ محمد حنفیہ رسول اکرم کی نسل سے نہیں ہیں۔
۵۔ دعائے ندبہ میں حضرت مہدی کے متعلق ذکر ہوا ہے :
”و ابن خدیجة الغرّاء“
”اور خدیجہ کا نور نظر “
جب کہ جناب محمد حنفیہ حضرت خدیجہ علیہا السلام کے خاندان میں سے نہیں ہیں ۔
۶۔ مزید اس کے بعد نقل ہوا ہے :
”و ابن فاطمة الکبریٰ “
”اور فاطمہ کبریٰ کا لخت جگر ۔“
جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ محمد حنفیہ ”خَوْلہ“ کے فرزند ہیں نہ حضرت فاطمہ زہرا کے۔
۷۔ دعائے ندبہ میں دسیوں روشن تعبیر کے ساتھ جیسے ”یابن الحجج البالغة “ ”اے کامل حجتوں کے فرزند“ لوگوں کی نظروں سے امام غائب ،ائمہ اطہار علیہم السلام کی نسل سے مخاطب کیا ہے ،جب کہ محمد حنفیہ ایک امام کے فرزند ہیں نہ کہ اماموں کے فرزند ہیں ،ایک حجت کے فرزند ہیں نہ کہ مختلف حجتوں کے ۔
۸۔ دعائے ندبہ میں مکمل یقین اور صریحی تعبیر کے ساتھ امام غائب کو رسول اسلام کی نسل سے متعارف کرایا گیا ہے اور یہ ذکر ہوا ہے :
”ھل الیک یابن احمد سبیل فتلقی “
”کیا فرزند رسول کوئی راستہ ہے جو تیری منزل تک پہنچا سکے؟ “
اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ کے تمام فقرات ،کیسانیہ کے اعتقادات کو درہم برہم کرتے ہیں اور کسی بھی صورت میں ذرہ برابر ان کے عقائد سے سازگار نہیں ہیں۔ اور یہ کہ ”اٴبِرضوی “ کی تعبیر اس مبارک دعا میں ذکر ہوئی ہے وہ اس جہت سے ہے کہ کوہ رضوی حضرت کی زمانہٴ غیبت میں دسیوں قیام گاہوں میں سے ایک ہے ۔ اور عقائد کیسانیہ کے ساتھ موافقت کے معنی میں نہیں ہے ۔
دوسری تعبیر میں : دعائے ندبہ کیسانیہ عقائد سے نشاٴة نہیں پائی ہے بلکہ ”عقائدِ کیسانیہ “ کو مہدویت (حضرت مہدی ) کے متعلقہ مسائل پر محمد حنفیہ کے سلسلے میں بے جا تطبیق دیا ہے ۔ لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیسانیہ کے تمام عقائد، شیعہ عقائد سے ناقص طور پر نسخہ برداری ہے ،مثلاً کیسانیہ کہتے ہیں:
۱۔ محمد حنفیہ مکہٴ معظمہ سے ظاہر ہوں گے۔(۱)
۲۔ حجر اسود کے گوشے سے قیام کریں گے۔(۲)
۳۔ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۳۱۳ افراد ان کی بیعت کریں گے۔ (۳)
۴۔جو فرشتے بدر میں حاضر تھے ان کی مدد کے لیے تیزی سے پہنچیں گے۔ (۴)
۵۔ ان کے ذریعہ شہر مکہ کو مسخّر کریں گے ۔(۵)
۶۔ محمد حنفیہ پیغمبر اکرم کے ہم نام اور ہم کنیت ہوں گے ۔(۶)
۷۔ پیغمبر کی شمشیر ان کے ہاتھ میں ہوگی ۔(۷)
۸۔ چالیس اصحاب ان کے ہمراہ ہیں ۔(۸)
_________________________
۱۔ المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ الاشعری ،ص۳۱۔ ۲۔ گزشتہ حوالہ ۔
۳۔ اصول النحل ،اکبر الناشی ء، ص۲۷۔
۴۔ اصول النحل ،اکبر الناشیء، ص۲۷۔
۵۔ المقالات و الفرق،اٴشعری ، سعد بن عبد اللہ ص۳۱۔
۶۔ تذکرة الخواص ،سبط ابن جوزی ،ص۲۶۳۔
۷۔ الطبقات الکبری ، محمد ابن سعد، ج۵،ص۱۱۲۔
۸۔ وفیات الاٴعیان ،شمس الدین احمد ابن محمد ابن خلّکان ،ج۴،ص ۱۷۳۔
۹۔ وہ حضرت سلیمان اور ذوالقرنین کی طرح تمام زمین پر حکومت کریں گے ۔ (۱)
۱۰۔ وہ رحلت نہیں کیے ہیں اور نہ رحلت کریں گے یہاں تک کہ ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔ (۲)
یہ سب دقیق طور پر شیعہ اثنا عشری کے عقائد ہیں وہ محکم دلائل ، معتبر روایات ، رسول اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے مستند حدیثوں کے ذریعہ کعبہٴ مقصود اور قبلہٴ موعود حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے متعلق معتقد ہیں ۔
اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ عقائد کیسانیہ سے نشاٴة نہیں پائی ہے بلکہ کیسانیہ شیعوں کے اعتقادات کے معتقد ہیں اورانہوں نے امام منتظر کو اپنے خیالی امام (جناب محمد حنفیہ ) پر تطبیق کیا ہے ۔
کیسانیہ اور ان کے عقائد کی رد میں بعض بزرگ قدیم علماء نے کتابیں تحریر کی ہیں جیسے :
۱۔ شیخ صدوق (متوفیٰ ۳۸۱ھئق) نے کمال الدین و تمام النعمة میں ۔
۲۔ شیخ مفید (متوفیٰ ۴۱۳ھئق) نے العیون و المحاسن میں ۔
__________________________
۱۔ المقالات و الفرق ،سعد بن عبد اللہ الاٴشعری ،ص۳۱۔
۲۔ البدء و التاریخ ،مطھّر ابن طاہر المقدسی ،ج۵،ص ۱۲۸۔
۳۔ سید مرتضیٰ علم الہدی (متوفیٰ ۴۳۶ھئق) نے الفصول المختارہ میں ۔
۴۔ شیخ طوسی (متوفی ۴۶۰ھئق) نے کتاب الغیبة میں ۔
اور دسیوں عالم تشیع کی ممتاز شخصیتوں نے مختلف زمانے اور صدیوں کے دوران تفصیلی گفتگو کی ہے اور دوسری صدی ہجری کے اواخر میں ان کے تمام فرقے ختم ہو گئے اور ایک ہزار سال سے زائد ہو چکا ہے کہ ایک شخص بھی آسمان کے نیچے ان کا عقیدہ رکھنے والا نہیں پایا جاتا ہے ،لہذا اب اس سلسلہ میں ہمیں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور یہ کہ ہم نے اس کے متعلق نسبتاً بحث کو طولانی کر دیا تو اس کی دو جہت تھی:
۱۔ ابھی آخر میں کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جو ائمہ علیہم معصومین السلام کی اولاد کے متعلق غلط پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ،تاکہ اس طرح معصومین علیہم السلام کے بلند مقام کو کم کریں ۔ اس گروہ نے زید شہید کے بعد اپنی شمشیر کی تیز دھار کا رخ جناب محمد حنفیہ کی طرف کر دیا ہے ،تاکہ انہیں اپنے خیالِ خام میں امامت کا دعوے دار متعارف کرائیں۔
گزشتہ مطالب کی تحقیق سے بھی اس نتیجہ تک پہونچیں گے کہ کیسانیہ فرقہ کا معاملہ جناب محمد حنفیہ سے جدا کرنا چاہیے اور ہم حضرت امیر المومنین کے اس فرزند کی پاکیزگی ِ نفس اور شائستگی میں کسی قسم کے شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔
۲۔ تیس سال قبل بیمار دل افراد کے ایک گروہ کو دعائے ندبہ کی باعظمت مجالس، جمعہ کے دنوں میں بر قرار کرنے سے نہایت تکلیف پہنچی اور پہنچ رہی ہے نیز ان کی یہ کوشش ہے کہ انتظار کرنے والوں کے دلوں میں شک و شبہ ایجاد کریں اور عاشق شیعوں کی متحد صفوں میں رخنہ اندازی کریں ۔
کبھی یہی گروہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ دعائے ندبہ کی سند کا انکار کرے اور کبھی ان کی سعی یہ ہوتی ہے کہ دعائے ندبہ کے فقرات کو شیعہ عقائد کے برخلاف شمار کریں۔
ان وجوہات کی بنا پر جناب محمد حنفیہ اور عقائد کیسانیہ کے متعلق تفصیلی گفتگو کی ۔
مولفین میں سے ایک شخص کا اصرار اس بات پر ہے کہ دعائے ندبہ ”کیسانیہ “ عقائد سے نشاٴة پائی ہے وہ اپنے آخری کلام میں کہتا ہے :
”دعائے ندبہ کے متن کے دقیق مطالعہ سے کہ جس میں ہمارے ائمہ علیہم السلام کے نام کی ترتیب و تصریح نہیں ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت امیر علیہ السلام کے تفصیلی فضائل و مناقب کے بعد فوراً اور بغیر واسطہ کے امام غائب کو خطاب کرتے ہیں ،اور یہی سوال بار بار ذہن میں آتا ہے ۔ “ (۱)
دعائے ندبہ کے متن کے بعض فقرات پر ایک مختصر نگاہ کرتے ہوئے مذکورہ کلام کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے روشنی ڈالتے ہیں، دعائے ندبہ کے فقرات میں ہم پڑھتے ہیں:
_________________________
۱۔ انتظار مذہب اعتراض، علی شریعتی، ص ۱۴۔
۱۔ این الحسن این الحسین ؟
”کہاں ہیں حسن اور کہاں ہیں حسین علیہما السلام ؟“
۲۔ این ابناء الحسین ؟
”کہاں ہیں اولاد حسین علیہم السلام ۔ “
۳۔ صالح بعد صالح
”نیک کردار کے بعد نیک کردار “
۴۔ وصادق بعد صادق ؟
”اور صادق کے بعد صادق کہاں ہیں؟ “
۵۔ این السبیل بعد السبیل ؟
”را ہ ہدایت کے بعد دوسرا راہ ہدایت کہاں ہے ؟ “
۶۔ این الخیرة بعد الخیرة ؟
”ایک منتخب کے بعد دوسرا منتخب ِروزگار کہاں ہے ؟ “
۷۔ این الشموس الطّالعة ؟
”کہاں ہیں طلوع کرتے ہوئے آفتاب؟“
۸۔ این الاٴقمار المنیرة ؟
”کہاں ہیں چمکتے ہوئے ماہتاب ؟ “
۹۔این الاٴنجم الزاہرة ؟
”کہاں ہیں روشن ستارے؟“
۱۰۔ اٴین اٴعلام الدین و قواعد العلم ؟
”کہاں ہیں دین کے لہراتے ہوئے پرچم اور علم کے مستحکم ستون ؟ “
یہ نورانی جملے صراحت کے ساتھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مکتب دعائے ندبہ کی نورانی ثقافت میں یہ بے مثال نغمے ، شیعہ دستور اور معارف حقّہ کے مطابق ہیں ،امام حسین کے بعد ائمہ نور سچے پیشوا ہیں جنہوں نے یکے بعد دیگرے اپنے تابناک انوار مقدسہ سے جہان ہستی کو معرفت کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب کیا،وادی ضلالت کے گم گشتہٴ راہ افراد کو گمراہی سے نجات دے کر شاہراہ ِ ہدایت اور اللہ تعالیٰ کے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائی۔
وہ صفات جو ان مذکورہ دس فقرات میں ائمہ نور علیہم السلام کے لیے بیان ہوئے ہیں وہ بہ ترتیب مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ امام حسین کی اولاد ہیں ۔
۲۔ امت کے نیک افراد ہیں ۔
۳۔ سچے لوگ ہیں ۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کے برحق راستے ہیں ۔
۵۔ منتخب بندے ہیں ۔
۶۔ روشن آفتاب ہیں ۔
۷۔ تابناک ماہتاب ہیں ۔
۸۔درخشاں ستارے ہیں۔
۹۔دین کی روشن قندیلیں ہیں ۔
۱۰۔ علم کے مستحکم ستون ہیں ۔
کیا انصاف سے دور اور تحقیق سے خالی یہ بات نہیں ہے کہ اگر کوئی یہ کہے : دعائے ندبہ میں حضرت امیر علیہ السلام کے بعد دوسرے اماموں کا نام نہیں لیا گیا ہے لہذا یہ دعا کیسانیہ عقائد سے ساز گار ہے اور شیعہ اعتقادات کے موافق نہیں ہے ؟!
جیسا کہ آپ سب نے ملاحظہ فرمایا دعائے ندبہ میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے نام کے بعد دس فقرے ذکر ہوئے ہیں کہ ان کے ضمن میں ائمہٴ نور علیہم السلام کی دس صفتیں بیان ہوئی ہیں ،پھر پروردگار کی آخری حجت جو ذخیرہٴ الٰہی ، حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ ہیں ان کے متعلق اوصاف بیان ہوئے ہیں مزید فرماتے ہیں :
”این بقیة اللّٰہ التی لا تخلو من العترة الھادیة “(۱)
”کہاں ہے وہ بقیة اللہ جس سے ہدایت کرنے والی عترتِ پیغمبر دنیا سے خالی نہیں ہو سکتی ۔ “
پھر اس وقت حضرت کے ظہور موفور السرور اور قبلہٴ موعود کے بعض حیات بخش پروگرام کی تعداد کو بیان کرتے ہیں اور حضرت کو خطاب کر کے کہتے ہیں:
”یابن السادة المقرّبین ،یابن النُّجباء الاٴکرمینَ “(۲)
___________________________
۱۔ مصباح الزائر ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۹۔
۲۔ مصباح الزائر ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۹۔
”اے مقرب سرداروں کے فرزند! اے مکرّم اشراف کے فرزند!“ ۔
اگر ”فی الھادین بعد الھادین “کے بعد کے فقرات کو ”یابن النّعم السابغات “ کے جملہ تک جو امام حسین کے بعد والے ائمہ علیہم السلام سے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ تک کے لیے استعمال ہوا ہے انہیں شمار کریں ان جملوں میں ائمہٴ نور علیہم السلام اور ائمہٴ معصومین علیہم السلام کے تیس اوصاف بیان ہوئے ہیں ۔
کیا تیس جملے آٹھ اماموں (امام زین العابدین سے امام حسن عسکری تک ) کے لیے کافی نہیں ہیں جو یہ ثابت کریں کہ دعائے ندبہ میں ان کا ذکر ہوا ہے اور اچانک بغیر واسطہ کے امام غائب کو نہیں بیان کیا ہے ۔