(دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید)
 
دوسری فصل


اعتراضات اور اُس کے جوابات
۱۔ کیا دعائے ندبہ معراج جسمانی سے تضاد رکھتی ہے؟
اسلامی اعتقادات کے ضروریات میں سے ایک ضرورت رسول اسلام کی معراج ہے جس کا آغاز مکہ معظمہ سے مسجد اقصی اور وہاں سے آسمانوں کی طرف اختتام ہوا۔
رسول اکرم کی معراج قرآنی حیثیت کی حامل ہے ،اس رات کی معراج کا پہلا حصہ سورہٴ مبارکہ ”اسراء“ میں اور اس کا دوسرا حصہ سورہٴ مبارکہ ”نجم “ میں ذکر ہوا ہے۔
تمام مفسرین ،محدثین ،مورخین اور شیعہ متکلمین کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ سفر رات میں رسول اسلام کے خاکی بدن اور عنصری پیکر کے ساتھ انجام پذیر ہوا۔
شیخ طوسی اور علامہ طبرسی نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ تمام شیعہ علماء اور اکثر علمائے اہل سنت اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اکرم کی معراج بیداری اور مکمل صحت اور معتدل مزاج کی حالت میں پیکر خاکی اور عنصری بدن کے ساتھ انجام پذیر ہوئی ۔ (۱)
علامہ مجلسی اس سلسلہ میں کہتے ہیں:
”معراج جسمانی کا عقیدہ رکھنا واجب ہے ، یعنی یہ کہ رسول اکرم اپنے مبارک بدن کے ساتھ آسمانوں تک گئے۔ اس سلسلے میں فلسفیوں کی بات نہ سنو جو وہ لوگ کہتے ہیں:” اگر معراج جسمانی ہو، تو افلاک میں خرق اور التیام (پھٹ جانا اور مل جانا) لازم آئے گا“! یہ کھوکھلی اور بے بنیاد بات ہے اور عقیدہٴ معراج ضروریات دین میں سے ہے اس لیے اس کا انکار کفر آمیز ہے ۔“(۲)
”معراج جسمانی“ کے متعلق عقیدہ رکھنا جیسا کہ علامہ مجلسی نے تصریح کی ہے، جو من جملہ شیعہ عقیدے کی ضروریات میں سے ایک شمار ہوتا ہے ،اس کا انکار کرنے والا شیعیت کے دائرہ سے خارج ہو جاتا ہے ۔
اسی بنیاد پر بعض وہ فلاسفہ جو معراج جسمانی اور معاد جسمانی کا عقیدہ نہیں رکھتے انہیں کفر و فسق کا عنوان دیا گیا ہے ۔
بطور مثال : فرقہٴ شیخیہ کے بانی ”شیخ احمد احسائی “ جب افلاک کے خرق و التیام کے مسئلے کی وضاحت میں ایک ایسے مشکل مقام پر پہونچے اور معراج جسمانی کو
________________________
۱۔التبیان ،شیخ طوسی ،ج۶،ص۴۴۶، ج۹،ص۴۲۴۔ مجمع البیان ،طبرسی ،ج۶،ص۹، ج۹،ص۲۶۴ ۔
۱۲۔ اعتقادات ،محمد باقر مجلسی ،ص۳۴۔
ھیئت بطلیموس کی فکر کے دائرہ میں اس زمانے میں حل و فصل نہ کرسکے تو برزخی بدن کے معتقد ہوئے اور اسے ”ھور قلیا“ کا نام دیا تو علمائے شیعہ نے ان پر چاروں طرف سے اعتراض کیا اور کفر کی منزل پر پہنچا دیا۔ (۱)
انہوں نے لفظ”ھُوَر قلیا“ کو ایک سریانی لفظ سے متعارف کرایا(۲) لیکن تنکابنی نے آخوند ملا علی نوری سے نقل کیا ہے کہ لفظ ”ھورقلیا“یونانی ہے اور تعبیر ”ھُورقلیا“ غلطِ مشہور ہے صحیح ”ھُوَرقلیا “ ہے۔(۳)
جہاں تک ہمیں علم ہے ، سب سے پہلے جس نے اس لفظ کو اسلامی شہروں میں استعمال کیا ”شیخ شہاب الدین سہروردی“(متوفیٰ ۵۸۷ھئق) ہیں۔ (۴) اس وقت شیخ احمد احسائی نے اسے کثرت سے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔(۵)
جو کچھ احسائی ،کرمانی اور ہینری کاربن کی وضاحتوں سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ”ھور قلیا“ سے مرا دقالبی مثال ہے نہ کہ عنصری بدن۔(۶)
شیخ احمد اپنے عقیدے کی وضاحت ”معراج ھورقلیائی“ کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
_______________________
۱۔اجساد جاویدان ،علی اکبر مہدی پور،ص۲۲۰۔
۲۔ مجموعة الرسائل الحکمیّہ،رسالہٴ ۲۱،ص۳۰۹۔
۳۔ قصص العلماء ،محمد تنکابنی ،ص۴۶۔
۴۔ حکمة الاشراق ،شہاب الدین سہروردی،ص۲۵۴۔
۵۔ جوامع الکلم ،احمد احسائی ،ج۵،پہلا حصہ ،ص۲۲ا۹،ج۳،دوسرا حصہ ،ص۱۱۹۔ ۱۲،۱۳۴، ج۲، دوسر ا حصہ، ص ۱۰۳ ۔
۶۔ شرح الزیارة، احمد احسائی ،ص۳۶۵، شرح عرشیہ، احمد احسائی،ص۱۱۹ ۔ تنزیہ الاولیاء ،ابو القاسم کرمانی ، ص۷۰۲۔
”جسم جس قدر صعودود عروج کی حالت میں بلند ہوتا جائے ہر کرہ کے مربوط عناصر کو وہیں ترک کر کے اوپر جاتا ہے جیسے عنصر ہوا کو کرہٴ ہوا میں عنصر آگ کو کرہٴ آتش میں۔ او رواپسی کے وقت جو کچھ وہاں ترک کیا ہوتا ہے واپس لے لیتا ہے ۔“(۱)
اس بنا پر پیغمبر اکرم نے شب معراج بدن کے عناصر اربعہ میں سے ہر ایک کو اپنے کرہ میں ترک کیا، اور وہ بدن جس میں یہ عناصر اربعہ موجود نہیں تھے اس کے ساتھ معراج پر گئے ہیں۔
اس قسم کا بدن عنصری بدن نہیں ہو سکتا ، بلکہ ایک برزخی بدن اور ان کی اصطلاح کے مطابق ”ھور قلیا“ ہو گا۔ (۲)
جس وقت شیخ احمد احسائی نے قیامت اور معراج کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کیا اور اسے ”ھور قلیا“ سے تعبیر کیا تو ، ملا محمد تقی برغانی ،جو شہید ثالث کے نام سے بھی مشہور ہیں ان سے ملاقات کی اور قیامت، معراج اور شیخ احمد کے دوسرے عقائد کے متعلق ان سے گفتگو کی تو ان کے عقائد کو شیعہ عقیدے کی ضروریات کے ناموافق پایا اور ان کے قیامت و معراج ”ھور قلیا“ کے عقیدے کی وجہ سے نیز ان کے دوسرے انفرادی اعتقادات کی بنا پر ان کی تکفیر کی ۔(۳)
____________________________
۱۔ جوامع الکلم ،احمد احسائی ،رسالہٴ قطیفیہ ،ص۱۲۷۔
۲۔ فروغ ابدیت ،جعفر سبحانی ،۱،ص ۳۱۵۔
۳۔ قصص العلماء ،محمد تنکاینی ،ص۴۳۔
ان کے بعد سید مہدی فرزند صاحب ریاض نے ملا محمد جعفر استر آبادی صاحب فصول اور شیخ محمد حسن صاحب جواہر نے بھی ان کے کفر کے متعلق اظہار نظر کیا۔ (۱)
گزشتہ مطالب کے پیش نظر یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ معراج جسمانی پر عقیدہ رکھنا فقہائے شیعہ کی نظر میں کتنا زیادہ استوار و محکم ہے کہ اس کے انکار کرنے والے کو دائرہٴ اسلام سے خارج جانتے ہیں اور اس کی پیشانی پر کفر کی علامت لگاتے ہیں ۔
اہل سنت کی اکثریت بھی اسی عقیدہ کی حامل ہے اور وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ معراج بیداری میں اور عنصری بدن کے ساتھ انجام پذیر ہوئی ہے ۔ (۲))
جائے تعجب ہے کہ بعض نادان علمائے عامہ معراج روحانی کے معتقد ہوئے ہیں اور انہوں نے حضرت عائشہ کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے :
شب ِ معراج جسمِ پیغمبر آنکھوں سے مخفی نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو معراج کرائی !!(۳)
جب کہ حضرت عائشہ اس تاریخ معراج میں ابھی کمسن بچی کے علاوہ کچھ نہ تھیں اور رسول اکرم کے گھر نہیں گئی تھیں۔لہذا یہی بات متن حدیث کے جعلی اور نقلی ہونے کے لیے کافی ہے ۔(۴)
___________________________
۱۔ اجساد جاویدان ، علی اکبر مہدی پور ،ص۲۲۰۔
۲۔ نور الیقین ،محمد خضری ،ص ۶۹۔
۳۔ السیر و المغازی ،محمد ابن اسحاق، ص۲۵۹، السیرة النبویہ ،ابو محمد عبد الملک ابن ہشام ،ج۱،ص ۲۴۵۔
۴۔ تفسیر کاشف ،محمد جواد مغنیہ ،ج۵،ص۹۔
دعائے ندبہ کے ایک فقرہ میں فضائل و مناقب شمار کرنے کے ضمن میں بالخصوص جس میں رسول اکرم کی معراج کی طرف اشارہ کیا گیا یوں نقل ہوا ہے:
”واوطاٴتہ مشارقک و مغاربک و سخّرت لہ البراق و عرجت بہ الی سمائک “
”اور ان کے لیے تمام مشرق و مغرب کو ہموار کر دیا اور براق کو مسخر کر دیا اور انہیں اپنے آسمان کی بلندیوں تک لے گیا۔“ (۱)
دعائے ندبہ کے اس مختصر فقرہ میں جو ایک سطر سے زیادہ تجاوز نہیں کرتا تین اہم مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے :
۱۔ مکہٴ مکرمہ سے مسجد اقصی تک راتوں رات سفر کرنا ۔(اوطاٴتہ)
۲۔آسمانوں کی بلندیوں تک لے جانا ۔(و عرجت بہ )
۳۔ اس معراج کا وسیلہ آسمانی سواری کا ہونا(و سخّرت لہ البراق)
پہلا موضوع سورہٴ مبارکہٴ”اسراء“ میں واقع ہوا ہے اور دسیوں دوسری معتبر روایت رسول اکرم سے نقل ہوئی ہے ۔(۲)
دوسرا موضوع سورہٴ مبارکہ ”نجم “ میں ذکر ہوا ہے اس کی تفصیل دسیوں دوسری
_______________________
۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن المشہدی ،ص۵۷۵۔
۲۔سورہٴ اسر اء (۱۷)آیت۱کی طرف رجوع کریں :تفسیر عیاشی ، محمد بن مسعود بن عیاش اسلمی السمرقندی ،ج۲،ص ۲۷۶، تفسیر قمی ،ابو الحسن علی بن ابراہیم قمی ،ج۲،ص۳، تاویل الآیات الظاہرہ ،سید شرف الدین علی النجفی ،ج۱،ص ۲۶۵، بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۸،ص ۲۸۲۔۴۱۰۔
معتبر روایت میں خود رسول اکرم سے وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے ۔(۱)
تیسرا موضوع بھی رسول اکرم سے دسیوں مبارک حدیث کے ضمن میں اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔(۲)
بالا مذکورہ فقرہ جو دعائے ندبہ سے ہم نے ذکر کیا بطور دقیق ”معراج جسمانی “ پر منطبق ہوتا ہے کہ تمام مفسر ین ،محدثین ،مورخین اور شیعہ متکلمین، قرآن اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی متواتر احادیث کی روشنی میں اس بات پر متفق ہیں ۔لیکن جو بات کچھ نادان دوستوںاور کینہ پرور دشمنوں کے اعتراض کا باعث ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ دعائے ندبہ کے بعض نسخوں میں ”عرجت بہ“کی جگہ ”عرجت بروحہ “ کی تعبیر نقل ہوئی ہے !
اس صورت میں فقرہٴ بالا کا معنی یوں ہوگا:” ان کو مشرق و مغرب میں لے گیا،براق کو ان کے اختیار میں دیا اور ان کی ”روح “ کو آسمان کی طرف لے گیا!“۔
اس مقام پر دو مطلب کا بطور دقیق تجزیہ کرنا ضروری ہے :
________________________
۱۔ سورہٴ نجم (۵۳) آیات ۱تا ۱۸، رجوع کریں: تفسیر قمی ،ابو الحسن علی بن ابراہیم قمی ،ج۲،ص ۳۳۳، تفسیر فرات ابن ابراہیم فرات کوفی ،ج۲،ص ۴۵۲، تاویل الآیات الظاہرہ ،سید شرف الدین علی النجفی ،ج۲،ص ۶۲۴،تفسیر صافی ، ابراہیم بن محسن کاشانی (فیض کاشانی) ،ج۵،ص ۸۵، بحار الانوار، محمد باقر مجلسی ،ج۱۸،ص ۲۸۲،۴۱۰۔
۲۔ الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی،ج ،ص۳۰۸، حدیث ۵۶۷، تفسیر کنز الدقائق ، محمد بن محمد رضا ابن المشہدی، ج۷،ص ۳۰۳، نور الثقلین، عبد العلی الحویزی ،ج۳،ص ۱۰۱، البرہان فی تفسیر القرآن ،سید ہاشم بحرانی ،ج۳،ص ۴۷۳، بحار الانوار، محمد باقر مجلسی ،ج۱۸،ص ۲۸۲۔۴۱۰۔
۱۔ ”عرجت بروحہ“ والا نسخہ کس قدر اعتبار کا حامل ہے؟
۲۔ اس نسخہ کے صحیح ہونے کی بنا پر ، کیا دعائے ندبہ کا یہ فقرہ معراج جسمانی کے ساتھ ناساز گاری رکھتا ہے ؟
پہلے سوال کے متعلق حق وحقیقت کے متلاشی قارئین کرام کی خدمت میں عرض کریں گے:
۱۔ وہ قدیمی ترین کتاب کہ جس میں دعائے ندبہ کا یہ متن تحریر کیا گیا اور اس کا نسخہ حوادث زمانہ سے محفوظ ہے اور ہمارے زمانے تک بغیر کسی تغییر و تحریف کے باقی ہے، معتبر اور گراں قدر کتاب المزار الکبیر کے مولف ،محدث محترم شیخ ابو عبد اللہ محمد ابن جعفر مشہدی ہیں ۔
مذکورہ فقرہ اس کتاب میں ”و عرجت بہ الی سمائک “ ذکر ہوا ہے ۔ (۱)
۲۔ اس کتاب کا خطی نسخہ ، گیارہویں صدی ہجری کی کتابت سے ۴۸۲ صفحات جس کے ہر صفحہ میں ۱۲سطریں ہیں ،آیت اللہ مرعشی صاحب کے عمومی کتاب خانہ میں موجود ہے ۔(۲)
اس نسخہ کی ۴۹۰۳ نمبر کے عنوان سے مرعشی صاحب کے کتاب خانہ میں حفاظت ہو رہی ہے ،یہ فقرہ صفحہ نمبر ۸۲۴ کی ساتویں سطر میں ”و عرجت بہ “ ذکر ہوا ہے ۔
________________________
۱۔ تفسیر کنز الدقائق ، ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن المشہدی ،ص۵۷۵۔
۲۔ فہرست نسخہ ہای خطی ،سید احمد حسینی اشکوری ،ج۱۳،ص۸۳۔
۳۔ اس کتاب کی فوٹو کاپی والا نسخہ موسسہٴ آل البیت کے کتاب خانہ میں موجود ہے ۔(۱)
اس نسخہ میں بھی مذکورہ فقرہ صفحہ ۴۲۲،(۸۳۴ صفحات پر مشتمل ) پر ”و عرجت بہ“ ذکر ہوا ہے ۔
۴۔مزار کبیر کے بعد دعائے ندبہ کا قدیمی ترین منبع کتاب مزار قدیم ہے، جس کا خطی نسخہ ۱۸۱ صفحات پر مشتمل ہے جس کے ہر صفحہ میں سترہ سطریں ہیں جو آیت اللہ مرعشی صاحب کے عمومی کتاب خانہ میں موجود ہے ۔(۲)
اس نسخہ میں بھی جس کا نمبر ۴۶۲ ہے جو آیت اللہ مرعشی صاحب کے عمومی کتاب خانہ میں محفوظ ہے ۔ مذکورہ فقرہ صفحہ نمبر ۱۷۴ میں ”و عرجت بہ “ ذکر ہوا ہے ۔
دعائے ندبہ کے لیے تیسرا موجودہ منبع سید ابن طاووس (متوفیٰ ۶۶۴ھئق) کی گراں قدر کتاب مصباح الزائر ہے ۔
اس کتاب کے مطبوعہ نسخہ میں مذکورہ فقرہ بجائے ” وعرجت بہ“ ”وعرجت بروحہ“ کی تعبیر کے ساتھ ذکر ہوا ہے ۔(۳)
یہ نسخہ یقینا غلط ہے ،اس لیے کہ:
________________________
۱۔قفسہٴ ۲۹،ردیف ۱۷۶، شمارہ ۱۹، مسلسل ۵۲۰۹۔
۲۔ فہرست نسخہ ہای خطی ، سید احمد حسینی اشکوری ،ج۲،ص ۶۹۔
۳۔ مصباح الزائر ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۴۴۷۔
سب سے پہلے یہ کہ:سید (سید ابن طاوٴوس) نے اس دعا کو کتاب مزار کبیر سے نقل کیا ہے ،اس لیے کہ اس کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں:
”ذکر بعض اصحابنا قال: قال محمد بن علی بن ابی قرہ: نقلت من کتاب محمد بن الحسین بن سنان البزوفری رضی اللہ عنہ دعاء الندبة۔۔۔ ، و ذکر انّہ الدعاء لصاحب الزمان صلوات اللہ علیہ و یستحب ان یدعی بہ فی الاعیاد الاربعة“(۱)
”ہمارے بعض اصحاب کا بیان ہے کہ محمد ابن علی ابن ابی قرہ نے کہا ہے ہم نے محمد ابن حسین ابن سنان بزوفری رضی اللہ عنہ کی کتاب سے دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے اور انہوں نے ذکر کیا ہے کہ یہ دعا امام زمانہ - کے لیے ہے اور مستحب ہے کہ اسے چار (عظیم) عیدوں میں پڑھا جائے“۔
اور یہ بطور دقیق صاحب مزار کبیر کی وہی تعبیر ہے جو دعائے ندبہ کے آغاز میں ہے ۔(۲)
اس بیان کی بنا پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ سید ابن طاووس نے اس دعا کو مزار کبیر کے واسطہ سے ابن ابی قرہ سے ، انہوں نے بزوفری سے نقل کیا ہے ،اور سید کے کلام

________________________
۱۔ گزشتہ حوالہ ،ص۴۴۶۔
۲۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن المشہدی ، ص۵۷۳۔
میں ”بعض اصحابنا “ سے مراد وہی ”ابن المشہدی“ ہیں ۔اور چونکہ مزار کبیر کے تمام نسخے جو سید (ابن طاووس) کے لیے بطور مستند و منبع واقع ہوئے ہیں وہ ان پر مقدم ہیں جس میں ”و عرجت بہ“ ذکر ہوا ہے ، بلا شک مصباح کا صحیح نسخہ بھی ” وعرجت بہ “ تھا۔
میں نے کتاب مصباح الزائر کے بعض نسخوں میں ”عرجت بہ “ دیکھا ہے۔ (۱)
محدّث قمی نے بھی اپنے استاد کے قول کی تائید کی ہے ۔(۲)
تیسرے یہ کہ کتاب مزار قدیم میں بھی جو سید (ابن طاووس) پر مقدم ہے انہوں نے بھی اس دعا کو ابن ابی قرہ سے کتاب بزوفری سے نقل کیا ہے ۔”وعرجت بہ“ کی تعبیر اس میں ذکر ہوئی ہے ۔(۳)
مذکورہ تینوں نکات کے پیش نظر کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ کتاب مصباح الزائر کے صحیح نسخہ میں بھی ”عرجت بہ“ تھا لیکن افسوس یہ کہ بعد کے نسخوں اور فوٹو کاپیوں میں” عرجت بہ “ کی عبارت ”عرجت بروحہ “ کی تعبیر میں مورد تصحیف (لفظو ں کی تبدیلی ) واقع ہوئی ہے ۔
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہی تصحیف(لفظوں کی تبدیلی ) شدہ نسخہ علامہ مجلسی کے ہاتھوں لگا، انہوں نے دعائے ندبہ کو اسی تصحیف شدہ نسخہ سے نقل کیا
-_________________________
۱۔ تحیة الزائر ،حسین بن محمد تقی نوری ،ص۲۶۰۔
۲۔ ھدیة الزائر ،شیخ عباس قمی ،ص۵۰۶۔
۳۔ المزار القدیم ،خطی نسخہ ،ص۱۷۳۔
اور نقل کرنے میں امانت کی رعایت کرنے کے لیے مذکورہ فقرہ کو ”عرجت بہ “ ذکر کیا ہے اور اس طرح یہ تصحیف شدہ نسخہ علمائے متاخرین کی کتابوں میں نقل ہوا ہے ۔ (۱)
محدث قمی نے بھی کتاب مفاتیح الجنان میں دعائے ندبہ کو مصباح الزائر کے تصحیف شدہ نسخہ سے نقل کیا ہے ،لہذا ”عرجت بروحہ “ کی عبارت کو متن میں ذکر کیا ہے اور ”عرجت بہ “ کی عبارت کو حاشیہ میں نسخہ ٴ بدل کے عنوان سے نقل کیا ہے ۔لیکن مفاتیح کے تحقیقی نسخہ میں ”عرجت بہ “ والی عبارت متن میں واقع ہوئی ہے ۔(۲)
مذکورہ مطالب سے ہم یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ:
۱۔ المزار الکبیر کے تمام عکس ، مطبوعہ اور خطی نسخوں میں ۔
۲۔ المزار القدیم کے موجودہ خطی نسخوں میں ۔
۳۔ مصباح الزائر کے اصلی نسخوں میں ”عرجت بہ“تھا۔
اب ہم آخری صدی کے محققین کی کتابوں سے ایک دوسری تعداد کے عناوین کو بھی یہاں ذکر کر رہے ہیں کہ جس میں ہر ایک نے اپنی گراں قدر کتابوں میں ”عرجت بہ“ نقل کیا ہے ۔
۱۔ تحیة الزائر ،مرزا حسین نوری ،(متوفیٰ ۱۳۲۰ھئق) ۔(۳)
________________________
۱۔ بحارالانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲، ص۱۰۵، زاد المعاد ،ص۴۸۸۔
۲۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی ،ص۱۰۴۸، طبع موسسہ رسالت ،ص۶۵۱۔
۳۔ تحیة الزائر ،حسین بن محمد تقی نوری،ص۲۳۴۔
۲۔ مکیال المکارم ،مرزا محمد تقی فقیہ احمد آبادی ،(متوفیٰ ۱۳۴۸ھئق) ۔ (۱)
۳۔ مفتاح الجنات ،صاحب اعیان الشیعہ ، (متوفیٰ ۱۳۷۱ھء ق)۔ (۲)
۴۔ شرح دعائے ندبہ ،محی الدین علوی طالقانی ،(متوفیٰ ۱۳۸۷ھئق)۔ (۳)
۵۔ شرح دعائے ندبہ ،شیخ عباس علی ادیب ،(۴)
۶۔ سخنان نخبہ در شرح دعائے ندبہ ،عطائی اصفہانی ۔(۵)
۷۔ شرح دعائے ندبہ ،سید علی اکبر موسوی محب الاسلام ۔(۶)
۸۔ ندبہ و نشاط ،احمد زمردیان۔(۷)
۹۔ الصحیفة الرضویة الجامعة ،سید محمد باقر موحد ابطحی۔(۸)
۱۰۔ الصحیفة المبارکة المھدیة ،سید مرتضیٰ مجتہدی ۔(۹)
جو کچھ ذکر ہوا وہ دعائے ندبہ کے اسناد اور منابع کے متعلق تھا جو تالیف کے وقت
_________________________
۱۔ مکیال المکارم ،السید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۴۔
۲۔ مفتاح الجنات ،سید محسن امین عاملی ج۲،ص ۲۶۱۔
۳۔ شرح دعائے ندبہ ،سید محی الدین (علوی ) طالقانی ،ص۱۲، ۸۲۔
۴۔ دعائے ندبہ ، عباس علی ادیب ،موعود سال اول شمارہ ۶، بہمن و اسفند ،۱۳۷۶ئش ،ص۷۹۔
۵۔ سخنان نخبہ ،علی عطائی اصفہانی ،ص۴۷۔
۶۔ شرح دعائے ندبہ ،سید علی اکبر محب الاسلام ،ص۵۶، ۱۲۹۔
۷۔ ندبہ و نشاط ، احمد زمردیان ،ص۱۸۰۔
۸۔ الصحیفة الرضویة الجامعة ،سید محمد باقر (موحد)ابطحی ، ص۳۱۲۔
۹۔ الصحیفة المبارکة المہدیہ ،سید مرتضیٰ مجتہدی ، ص ۱۳۶۔
مولف کی دست رس میں تھے ورنہ کثرت سے منابع و مصادر میںصدیوں اور دراز مدت تک تعبیر ”عرجت بہ “ کو تحریر کیا گیاہے کہ ان سب کا شمار کرنا طولانی ہو جائے گا۔
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ بہت سی عظیم المرتبت شخصیتوں نے دعائے ندبہ کے متعلق نقل ،ترجمہ ،شرح یا گفتگو کے وقت اس نکتہ پر خاص توجہ دی اور اپنی گراں قدر کتابوں میں تصریح کی ہے کہ لفظ ”عرجت بروحہ “ غلط اور صحیح ”عرجت بہ“ ہے ۔ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
۱۔ محدث نوری (متوفیٰ ۱۳۲۰ھئق) نے کتاب تحیة الزائر میں ۔ (۱)
۲۔ صاحب مکیال المکارم (متوفیٰ ۱۳۴۸ھئق) نے کتاب مکیال المکارم میں ۔ (۲)
۳۔ شیخ محمد باقر رشاد زنجانی ،(متوفیٰ ۱۳۵۷ھئش) (۳)
۴۔ شیخ عباس علی ادیب ،صاحب ھدیة العباد در شرح حال صاحب بن عباد ،جو انہیں کے مقبرہ میں مدفون ہیں ۔(۴)
۵۔ علی عطائی اصفہانی نے شرح دعائے ندبہ میں۔(۵)
_________________________
۱۔ تحیة الزائر ،حسین بن محمد تقی نوری ،ص۲۶۰۔
۲۔ مکیال المکارم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۱۰۰۔حاشیہ ص۹۴۔
۳۔ نشریة ینتشر بھا انوار دعاء الندبہ ،محمد باقر رشاد زنجانی ،ص۱۶۔
۴۔ شرح دعائے ندبہ ،عباس علی ادیب ،موعود شمارہٴ ۶،ص۸۰۔
۵۔ سخنان نخبہ ، علی عطائی اصفہانی ،ص۴۸۔
۶۔ مجلہٴ مکتب اسلام کی ھیئت تحریریہ (اہل قلم کی ایک جماعت )نے۔ (۱)
۷۔ آیت اللہ صافی نے فروغ ولایت میں ۔(۲)
۸۔ رضا استادی نے ،دہ رسالہ میں ۔(۳)
۹۔ احمد زمردیان نے شرح دعائے ندبہ میں ۔(۴)
۱۰۔ سید مرتضیٰ مجتہدی نے صحیفہٴ مہدیہ میں ۔(۵)
قابل توجہ یہ کہ دعائے ندبہ کے متن میں دو قوی شاہد اس بات پر موجود ہیں کہ نسخہ ”عرجت بہ “ صحیح ہے :
۱۔ جملہٴ ”و سخّرت لہ البراق “براق کو ان کے اختیار میں دیا ۔ اگر اس جملہ میں دقّت کی جائے تو ”عرجت بہ “ والے نسخہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے گا ،اس لیے کہ معراج روحانی کے لیے سواری کی ضرورت درکار نہیں ہے ۔(۶)
۲۔ جملہ ٴ ’ ’و اوطاٴتہ مشارقک و مغاربک “”اور ان کے لیے
_________________________
۱۔ مجلہ ٴ مکتب اسلام ،ناصر مکارم شیرازی ، جعفر سبحانی ،سال ۱۳، شمارہٴ ۷، ص۶۶،پرسشھا و پاسخ ھا ،ناصر مکارم شیرازی، ج۲،ص ۱۱۷۔
۲۔ فروغ ولایت ، لطف اللہ صافی گلپائیگانی ،ص۴۸۔
۳۔ دہ رسالہ ،رضا استادی ،ص۲۹۸۔
۴۔ ندبہ و نشاط، احمد زمردیان، ص ۱۹۸۔
۵۔ الصحیفة المبارکة المھدیة، ص ۱۳۶۔
۶۔ مکیال المکارم، سید محمد تقی موسوی اصفہانی، ج۲، ص ۱۰۰۔
مشرق و مغرب کو ہموار کر دیا“ ۔ بھی معراجِ جسمانی ہونے پر صراحت کرتا ہے کہ روحانی سفر میں ہموار کرنے کا مطلب درکار نہیں ہے ۔(۱)
یہاں دو واقعہ قابل توجہ اور سننے کے قابل ہے جسے تاریخ کے دو سعادت مند افراد نے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی ذات با برکت سے نقل کیا ہے کہ جس میں ”عرجت بروحہ “ والے نسخہ سے منع کیا ہے ۔
۱۔ جناب آیت اللہ الحاج مراز مہدی شیرازی (متوفی ٰ ۱۳۸۰ھئق) جو مرجع تقلید اور کربلا میں مقیم اور زہد و تقویٰ کا نمونہ تھے وہ کہتے ہیں:
”میں جس زمانہ میں سامرا تھا ،راتوں کو حضرت حجت کے سرداب میں جاتا تھا اور اس لیے کہ کوئی شخص میرے لیے مُخل نہ ہو دروازہ کا تالا بھی بند کر لیتا تھا اور صبح تک دعا و قرآن اور توسل و گریہ میں مشغول ہو جاتا تھا۔
ایک شب میں ،سرداب میں دعائے ندبہ پڑھنے میں مشغول تھا، یہاں تک کہ اس عبارت پر پہنچا ”وعرجت بروحہ الی سمائک“ یہاں کتاب مفاتیح میں بھی دو نسخہ درج ہے ،ایک ”و عرجت بہ “اور دوسرا ”و عرجت بروحہ “ اور دونوں صحیح بھی ہے چونکہ عرب لوگ مجموعی طور پر بدن کو ”روح ‘ ‘ بھی کہتے ہیں اور اب بھی ایسا ہے ،یعنی
________________________
۱۔ فروغ ولایت، لطف اللہ صافی گلپائیگانی، ص ۴۸۔
روح اور بدن کو بھی ”روح “ کہتے ہیں ۔لہٰذا میں نے ”وعرجت بروحہ “پڑھا چونکہ میری نظر میں اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔
ناگہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ میرے کنارے بیٹھا اور مجھے خطاب کر کے فرمایا:” اصلی نسخہ میں ” و عرجت بہ الی سمائک“ ذکر ہوا ہے ۔
میں حیرت میں تھا کہ میں نے سرداب کا دروازہ بند کر دیا تھا ،یہ شخص کہاں سے آیا؟ پھر میں نے دیکھا کوئی نہیں ہے “۔
مولف نے پہلی مرتبہ اس واقعہ کو علامہ فقیہ آیت اللہ الحاج سید محمد کاظم قزوینی ، آیت اللہ شیرازی کے داماد سے سنا تھا،اور آخر میں ایک تحریری اورکتابی شکل میں حسینہٴ کربلا ئیھا اصفہان کے شعبہٴ نشریات سے طبع اور نشر ہوا۔ (۱)
۲۔ آیت اللہ الحاج سید محمدحسن میرجہانی (متوفیٰ ۱۴۱۳ھئق) جو بہت سی گراں قدر تالیفات کے مالک ہیں منجملہ ان میں سے ”نوائب الدھور فی علائم الظہور“ ہے وہ کہتے ہیں:
”آیت اللہ اصفہانی علیہ الرحمہ کی زعامت و کفالت کے زمانہ میں ،میں عازم سامرا ہوا ،مجھے بہت زیادہ مال مرحمت فرمایا اور حکم دیا کہ اس کا ایک تہائی حصہ ان کے وکیل کو سامرا میں دے دوں اس کا ایک تہائی حصّہ
۱۔ جوان امام زمانت را بشناس ،دار المہدی والقرآن الحکیم ،ص۵۶۔
طلاب کے درمیان تقسیم کروں اور بقیہ ایک تہائی حصہ کو حرم مطہر کے خادمین کے درمیان تقسیم کروں اسی لیے حرم مطہر کا خادم میرا بہت احترام کرتا تھا۔
اس سے میں نے درخواست کی کہ راتوں کو سرداب مقدس میں بسر کروں وہ میری بات سے متفق ہو گیا۔ تقریباً دس دن میں سامرا میں مقیم تھا، راتوں کو سرداب مقدس میں چلا جاتا تھا ،خادم سرداب کے دروازہ کو باہر سے بند کر دیتا تھا اور خود سرداب کے باہر امامین عسکریین علیہما السلام کے صحن مطہر میں آرام کرتا تھا۔ قیام کی آخری رات کہ جب شب جمعہ تھی، جس وقت سرداب میں وارد ہوا اور معمول کے مطابق اپنے ہمراہ ایک شمع بھی رکھے ہوئے تھا، میں نے دیکھا سرداب کی فضا روز روشن کی طرح منور ہے ،تو میں نے شمع کو چھوڑ دیا اور سیڑھیوں سے نیچے گیا،میں نے دیکھا ایک سید بزرگوار عبادت میں مشغول ہیں ۔اس لیے کہ میں ان کی عبادت میں خلل نہ ڈالوں بغیر سلام کے وارد ہوا، اور چبوترہ کے دروازہ پر کھڑا ہو کر حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی زیارت میں مصروف ہو گیا۔
اس وقت ان کے کنارے اور ان سے تھوڑا آگے نماز کے لیے کھڑا ہو گیا، پھر میں بیٹھ گیا اور دعائے ندبہ پڑھنے میں مشغول ہوا۔
جس وقت جملہ ”وعرجت بروحہ الی سمائک “ تک پہنچا تو ان آقا نے فرمایا:
”یہ فقرہ ہم سے نہیں صادر ہوا ہے ”وعرجت بہ “ صحیح ہے، اگر ”بروحہ“ تھا تو براق کی ضرورت درکار نہیں تھی۔ اصول کے اعتبار سے تم اپنے وظیفہ پر کیوں عمل نہیں کرتے کیوں امام کے آگے نماز پڑھتے ہو؟!“
میں نے اس لیے کہ دعا کے درمیان بات نہ کروں کچھ نہیں کہا، دعا کو ختم کیا نماز زیارت پڑھی سر کو سجدے میں رکھا،سجدے کی حالت میں ایک مرتبہ میں متوجہ ہوا کہ یہ آقا کون تھے جو فرمارہے تھے :
۱۔ یہ فقرہ ہم سے صادر نہیں ہوا ہے !
۲۔ کیوں امام کے آگے نماز پڑھ رہے ہو؟
حیرانی و پریشانی کی حالت میں سجدے سے سر اٹھایا میں نے سرداب کی فضا کو دیکھا کہ بالکل تاریک ہے اور ان آقاکی کوئی خبر نہیں ہے !
میں نہایت تیزی سے سیڑھیوں سے اوپر آیا اور سرداب کے دروازہ کو بندھا ہوا پایا، دروازہ کو کھٹکھٹایا خادم آیا اور دروازہ کو کھولا ،میں نے دیکھا کہ اذان صبح کا وقت نزدیک ہے ۔
اس سے میں نے سوال کیا کہ یہ آقا جو آج کی رات سرداب میں تھے وہ کون تھے؟
جواب دیا: سرداب میں تمہارے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ میں نے کہا: یہی آقا جو ابھی سرداب سے باہر گئے ۔کہا: نہیں کوئی بھی باہر نہیں گیا،سرداب کا دروازہ تو بند ہے اور حرم اور صحن کے دروازے بھی بند ہیں۔ اس وقت میں متوجہ ہوا کہ کتنی عظیم سعادت مجھے نصیب ہوئی ہے اور مفت میں نے اسے کھو دیا۔ “
مولف نے اس واقعہ کو متعدد مرتبہ آیت اللہ میرجہانی سے مشہد اور اصفہان میں سنا تھا اور جہاں تک میرا حافظہ میرا ساتھ دے رہا ہے اسے میں نے یہاں نقل کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ واقعہ مختصر فرق کے ساتھ بعض تحریری شکل میں کتابوں میں نشرہوا ہے ۔(۱)
گزشتہ مطالب سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نسخہٴ ” وعرجت بروحہ “ کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور صحیح نسخہ ”وعرجت بہ “ ہے لیکن صحیح ہونے کی بنا پر بھی تعبیر ”وعرجت بروحہ“ معراج جسمانی کے عقیدہ کے متضاد و منافی نہیں ہے اس لیے:
سب سے پہلے یہ کہ: رسول اسلام کی معراج یقینا ایک مرتبہ سے زائد ہوئی تھی،اور امام صادق کی ایک روایت کی بنیاد پر ایک سو بیس مرتبہ آنحضرت معراج پر تشریف لے گئے ہیں۔(۲)
_______________________
۱۔ گنجینہٴ دانشمندان ،محمد شریف رازی ،ج۲،ص۴۱۰،کرامات صالحین ،محمد شریف رازی، ص۱۱۲، شیفتگان حضرت مہدی ،احمد قاضی زاہدی ،ج۱،ص ۲۳۹، دیدار یار ،علی کرمی ،ج۳،ص ۱۰۔
۲۔ کتاب الخصال ،شیخ صدوق ،ج۲،ص ۶۰۰۔
/h5> جس بات پر تمام مفسرین ،محدثین اور دوسرے علمائے شیعہ اتفاق نظر رکھتے ہیں یہ ہے کہ آنحضرت کی معراج جسم مبارک کے ساتھ ہوئی ،آنحضرت کی مشہور معراج وہ ہے کہ ایک رات مکہ معظمہ سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی طرف ہوئی تھی۔
معراج کا یہ موقع ”لیلة الاسراء“ و”لیلة المعراج“ سے معروف ہے معراج بے شک جسمانی ہوئی تھی، لیکن اور دوسرے مواقع ہمارے لیے واضح نہیں ہیںاور کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ ان موقعوں کو بھی ہمیں معراج جسمانی جاننا چاہیے۔
اس بیان کی بنا پر اگر تعبیر”و عرجت بروحہ“صحیح ہو تو ممکن ہے اس کو روحانی معراجوں پر حمل کریں اور دوسرے دو فقرے یعنی ”اوطاٴتہ“ اور ”وسخّرت لہ البراق“ کو آنحضرت کی جسمانی معراج تسلیم کریں۔
دوسرے یہ کہ: ”وعرجت بروحہ“معراج روحانی پر نص نہیں ہے بلکہ معراج جسمانی پر بھی مشتمل ہے اس لیے کہ:
سب سے پہلے یہ کہ: کسی شئے کا اثبات کرنا دوسرے چیزوں کی نفی نہیں کرتا۔
دوسرے یہ کہ :”عربی زبان میں بعض کا استعمال کل میں بہت زیادہ عام ہے ،جیسے ”رقبہ“ یعنی ”گردن“ کا استعمال خود”انسان“ کے لیے جیسا کہ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے ۔(۱)
________________________
۱۔ سورہٴ نساء (۴) آیت ۹۲ ۔
روح کا استعمال مکمل جسم و جان کے لیے عربی زبان کے علاوہ فارسی زبان میں بھی عام ہے جیسا کہ سعدی شیرازی کہتے ہیں:
جانا ھزاران آفرین بر جانت از سر تا قدم
صانع خدایی کاین وجود آورد بیرون از عدم
اے ہزاروں جانوں کے خالق! تیری جان اور مکمل وجود پر ہم قربان
ایسا صنّاع ازل کہ جس نے ہمیںپردئہ عدم سے ظاہری وجود بخشا
ہمیں معلوم ہے کہ فارسی میں”جان “عربی میں ”روح“ کے مساوی ہے (۱) اور سعدی نے کلمہٴ”جانت“”از سر تا قدم“ کے قرینہ سے اپنے ممدوح کی بدن کا ارادہ کیا ہے نہ صرف اس کی روح کا۔
آیت اللہ جناب مرزا ابو الفضل تہرانی شرح زیارت عاشورا میں فقرہٴ ”وعلی الارواح التی حلّت بفنائک“کی شرح میں رقم طراز ہیں:
”اور کبھی روح کو ”حال و محل“یا مناسبت کے تعلق سے روح کے ساتھ جسم کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں:”شال روحہ“یا ”جرح روحہ “یعنی ”اس کا بدن شل ہو گیا“یا ”اس کا بدن زخمی ہو گیا“ عراق اور حجاز میں یہ استعمال متعارف ہے اور یہ ایک ایسا تعلق ہے جو صحیح اور اس کا استعمال کرنا فصیح سمجھا جاتا
_______________________
۱۔ لسان العرب ،ابن منظور ،ج۵،ص ۳۶۱۔
ہے ۔اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دعائے ندبہ کی عبارت ”وعرجت بروحہ الی سمائک “ میں معراج جسمانی کے اثبات کی اب کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور دلیل بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔“(۱)
سید صدر الدین محمد حسنی طباطبائی نے بھی دوسری وجہ بیان کی ہے۔(۲)
اس بیان کی بنا پر نسخہٴ ”وعرجت بروحہ“ کا صحیح ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہوتا اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے لیکن اگر اسے بنا بر فرض صحیح تسلیم کر لیا جائے پھر بھی معراج جسمانی کے ساتھ بالکل ناسازگاری نہیں رکھتا۔ اور اس طرح دعائے ندبہ کے متن کے صحیح اور مستحکم ہونے پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔