(دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
 

۲۔ دعائے ندبہ کی سندی تحقیق
اعلیٰ معارف، درخشاں حقائق ، روشن معانی اور عمیق مطالب جو بدیع و نوآوری کے اسلوب ، بہترین و منطقی بیان بہت فصیح اور عظیم فقرات اس مبارک دعا میں وارد ہوئے ہیں ،جو ہمیں ہر قسم کی سند اور حوالے سے بے نیاز کرتے ہیں کہ ایسے روشن حقائق اور درخشاں نکات ، ہرگز کسی اور منبع و مصدر سے صادر نہیں ہو سکتے اس کا سرچشمہ سوائے ولایت اور خاندان عصمت و طہارت حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے صاف و شفاف چشمے کے کچھ اور نہیں ہو سکتا ، لیکن عاشقوں کی جماعت کے دل کی نورانیت کے لیے دعائے ندبہ کی نورانی مجالس کو ہر جمعہ کی صبح میں ،دعائے ندبہ کے استوار اور مستحکم منابع و مصادر کو زمانے کے تسلسل کے اعتبار سے ہم یہاں ذکر کررہے ہیں :

۱۔ ابو جعفر محمد بن حسین ابن سفیان بزوفری
سب سے پہلے با وثوق اور مورد اعتماد شخص کہ جنہوں نے دعائے ندبہ کی سند کو اپنے مکتوب میں برحق رہنما مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے وہ ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری ہیں ۔
”بزوفری “”بزوفر“ نامی دیہات جو ”قوسان “ کے اطراف میں ”بغداد “ کے نزدیک ”موفّقی“ نہر کے ساحل پر دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع ہے ۔(۱)
”بزوفری“ کا شمارشیخ مفید کے اساتذہ میں ہوتا ہے اور شیخ مفید نے ان سے کثرت سے روایت نقل کی ہے ۔ محدث نوری شیخ مفید کا نام شمار کرتے وقت ان کا نام ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”ابو علی ۔فرزند شیخ طوسی ۔نے امالی میں متعدد مرتبہ اپنے والد شیخ طوسی سے ،انہوں نے شیخ مفید سے ان سے روایت کی ہے اور ان کے لیے مغفرت طلب کی ہے ۔“ (۲)
جناب آقابزرگ تہرانی کہتے ہیں:
”ان کی وثاقت و صداقت شیخ مفید کا ان سے کثرت سے نقل کرنا، ان
_______________________
۱۔ معجم البلدان ،یاقوت بن عبد اللہ حموی بغدادی ،ج۱،ص ۴۱۲۔
۲۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ،حسین ابن محمد تقی نوری طبرسی ، ج۲۱، ص۲۴۴۔
کے لیے طلب مغفرت کرنے سے واضح و آشکار ہے ۔“ (۱)
شیخ طوسی تہذیب الاحکام اور استبصار کی مشیخہ میں ان کا نام ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”میں نے جو روایت احمد ابن ادریس سے نقل کی ہے ،اسے شیخ مفید نے ”حسین بن عبید اللہ غضائری “ سے نقل کی ہے کہ دونوں نے ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے روایت نقل کی ہے ۔“ (۲)
بے مثال محقق،حجت تاریخ ،جناب آقا بزرگ تہرانی ان کی کتاب کے متعلق بحث کرتے وقت کہتے ہیں :
”کتاب الدعاء ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے ،شیخ مفید کے اساتذہ سے ،کہ شیخ مفید نے ان سے احادیث کو نقل کیا ہے یہ حدیثیں امالی شیخ طوسی میں شیخ مفید کے طریق سے ان سے روایت کی گئی ہےں ۔
پھر کہتے ہیں :
”انہوں نے دعائے ندبہ کو اس کتاب میں ذکر کیا ہے ،محمد ابن ابی قرّہ نے ان سے روایت کی ہے اور محمد بن مشہدی نے اپنی کتاب مزار میں
________________________
۱۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طہرانی ،ج۱،ص ۱۹۴۔
۲۔ تہذیب الاحکام شیخ طوسی ،ج۱۰،ص ۳۵۔ الاستبصار ،ج۴،ص ۳۰۴،(المشیخہ)۔
ان سے روایت کی ہے “ ۔(۱)

۲۔ ابو الفرج محمد ابن علی ابن یعقوب ابن اسحاق ابن ابی قرّہ قُنّائی
دوسرے مورد اعتماد شخص کہ جنہوں نے دعائے ندبہ کی سند کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے وہ محمد بن علی بن ابی قرّہ ہیں کہ انہوں نے ”کتاب الدعاء“ میں بزوفری کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔
علامہ تہرانی فرماتے ہیں :
”محمد بن مشہدی مزار میں اور سید ابن طاوٴوس نے اقبال اور دوسری کتابوں میں کثرت سے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔ “ (۲)
محمد بن ابی قرّہ نجاشی کے اجازہٴ روّاة میں شمار ہوتے ہیں ۔(۳)
قدمائے اہل رجال میں سے مرحوم نجاشی اپنی کتاب رجال میں کہتے ہیں:
”ابو الفرج ،محمد بن علی بن یعقوب بن اسحاق بن ابی قرّہ قنائی موثق تھے، کثرت سے روایات کو سنا بہت سی کتابیں تالیف کیںمنجملہ ان میں سے یہ ہے : عمل یوم الجمعہ ،عمل الشھور، معجم رجال ابی مفضل اور کتاب تھجّد کہ ان سب کی مجھے خبر دی ہے اور مجھے ان کی روایت نقل کرنے کا اجازہ دیا ہے ۔ (۱)
_______________________
۱۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۶۶۔
۲۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۶۶۔ طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ تہرانی (چوتھی صدی ہجری) ص ۲۶۶۔
۳۔ طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ تہرانی (پانچویں صدی ہجری) ص ۱۸۲۔
نجاشی نے ان کا لقب ”قنّائی “ذکر کیا ہے ،لیکن علامہ حلّی نے انہیں کبھی ”قنّائی“ اور کبھی ”قنّابی“ سے تعبیر کیا ہے ۔(۲) اور ان کی وثاقت کو ثابت کیا ہے (۳) اور نمازی علیہ الرحمہ کہتے ہیں:
”تمام اہل رجال کا ان کی وثاقت پر اتفاق ہے ۔“ (۴)

۳۔ محمد ابن جعفر ابن علی ابن جعفر مشہدی حائری
ابن مشہدی چھٹی صدی ہجری کے ایک جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے جو تقریباً ۵۱۰ھئق میں پیدا ہوئے اور ۵۸۰ھء ق سے پہلے دنیا سے رحلت کر گئے ۔
صاحب معالم نے اجازہٴ کبیرمیں ان کے اساتذہ کی مخصوص تعداد کو شمار کیا ہے کہ منجملہ ان میں سے یہ ہیں: ورّام(صاحب مجموعہ ورّام) ، شاذان ابن جبرئیل ،ابن زہرہ، ابن شہر آشوب وغیرہ ۔(۵)
ان کی گراں قدر کتاب بطور یادگار موجود ہے جو مزار کبیر اور مزار ابن مشہدی سے مشہور ہے خوش نصیبی سے اس کے بہت سے خطی نسخے ہمارے زمانے تک محفوظ رہے ہیں :
________________________
۱۔ رجال نجاشی ،ص۳۹۸۔
۲۔ ایضاح الاشتباہ ،حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی)،ص۲۶۶،۲۸۷۔
۳۔ رجال(خلاصہ ) حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی) ،ص۱۶۴۔
۴۔ مستدرکات علم رجال الحدیث ،شیخ علی نمازی ،ج۷،ص۲۵۱۔
۵۔ طبقات اعلام الشیعہ ،قرن ششم آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۵۲۔
۱۔ ایک نسخہ شیخ کاشف الغطاء کے کتاب خانہٴ نجف اشرف میں ۔
۲۔ایک نسخہ جناب مرزا محمد علی اردوبادی کے کتاب خانہٴ نجف اشرف میں ۔
۳۔ ایک نسخہ جناب محدث نوری کے کتاب خانہٴ نجف اشرف میں کہ انہوں نے کتاب مستدرک میں اس سے کثرت سے نقل کیا ہے ۔(۱)
۴۔ ایک نسخہ جناب علامہ امینی کے کتاب خانہٴ نجف اشرف میں کہ جس کی تاریخ کتابت ۳/ شوال ۹۵۶ھئق ہے۔(۲)
۵۔ ایک نسخہ آیة اللہ مرعشی کے کتاب خانہٴ قم میں جس کا شمارہ ۴۹۰۳ ہے، کہ جس کے ۴۸۲ صفحات ہیں اور اس کے کتابت کی تاریخ گیارہویں صدی ہجری سے مربوط ہے ۔(۳)
اس کی فوٹو کاپی کتاب خانہٴ موسہٴ آل البیت قم میں ہے جس کا شمارہ ۵۲۰۹ (قفسہ ۲۹ ردیف ۱۷۶ش۱۹) ہے ۔
یہ کتاب پہلی مرتبہ ماہ رمضان ۱۴۱۹ھئقم میں ۷۰۴ صفحات کے ساتھ قم میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ۔
یہ کتاب مزار کبیر کے نام سے مشہور ہوئی اور زیارت کے متعلق جامع ترین کتاب
________________________
۱۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طھرانی، ج۲۰،ص ۳۲۴۔
۲۔طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ طھرانی، قرن ششم ،ص۲۵۳۔
۳۔ فہرست کتاب خانہٴ آیة اللہ مرعشی ،سید احمد حسینی اشکوری ،ج۱۳،ص۸۳۔
ہے۔ جو مختلف طولانی زمانے اور صدیوں کے حوادث سے محفوظ رہی ہے اور ہمارے زمانے تک باقی ہے ۔
آٹھ صدی کی طویل مدت اس کی تاریخ تالیف سے گزرچکی ہے ،یہ کتاب ہمیشہ اکابر علمائے شیعہ کے مورد اعتماد رہی ہے اور ہر وہ صاحبان کتاب کہ جنہوں نے اس آٹھ صدی کے دوران دعاوزیارت کے متعلق کتاب تحریر کی انہوں نے واسطہ یا بغیر واسطہ کے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے ۔
ابن مشہدی اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:
”میں نے اس کتاب میں مقامات مقدسہ کی زیارات و اعمال ،مساجد کے اعمال ، منتخب دعائیں اور واجب نمازوں کی تعقیبات کی جمع آوری کی ہے جو متصل سند کے ساتھ مورد اعتماد راویوں کے ذریعے مجھ تک پہنچی ہے ۔“ (۱)
آیة اللہ خوئی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:
”یہ جملہ صراحت کے ساتھ ان تمام راویوں کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے جو اس کتاب کے سلسلہ سند میں واقع ہوئے ہیں۔“ (۲)
جناب آقا بزرگ تہرانی نے مجموعاً راویانِ حدیث کے پندرہ افراد کا استخراج کیا ہے اور ان کی وثاقت کا حکم لگایا ہے ۔(۳)
________________________
۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۲۷۔
۲۔ معجم رجال الحدیث ،سید ابو القاسم خوئی ،ج۱،ص ۶۵۔
۳۔ الذریعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ج۲۰،ص ۳۲۴۔
ابن مشہدی اس کتاب میں ،دعائے ندبہ کو بہ عنوان ”وہ دعا جو حضرت صاحب الزمان کے لیے سزاوار ہے کہ چارعظیم عیدوں :عید فطر،عید قربان، عید غدیر اور عید جمعہ میں پڑھی جائے “ذکر کیا ہے۔
انہوں نے اس کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن یعقوب بن ابی قرّہ کے توسط سے کتاب بزوفری سے نقل کیا ہے ۔
دعائے ندبہ کتاب خانہٴ آیت اللہ مرعشی کے نسخہ میں صفحہ۸۲۱ سے ۸۳۷ تک اور آل البیت کے نسخہ میں صفحہ ۸۳۱ سے ۸۴۷ تک اور مطبوعہ نسخہ میں ۵۷۳ سے ۵۸۴ تک ذکر ہوئی ہے ۔(۱)

۴۔ صاحب کتاب مزار قدیم
مزار قدیم بھی گراں قدر اور بہت عظیم کتاب ہے کہ اس کے مولف بھی ابن مشہدی صاحب کے ہم عصر تھے
اس کتاب میں بہت سی دعائیں اور زیارتیں ہیں جو کسی دوسرے منابع میں نہیں مل سکتیں۔ اس کے مولف اپنے استاد کے ذریعہ ” مہدی بن ابی حرب حسینی“ الشیخ ابو علی (فرزند شیخ طوسی )سے روایت کرتے ہیں:
اس بیان کے مطابق وہ شیخ طبرسی رحمة اللہ علیہ صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ۔ (۲)
________________________
۱۔صفحات کے اختلاف کا ارتباط شمارہ گزار ی سے ہے ورنہ نسخہٴ آ ل البیت کتاب خانہ مرعشی کے نسخہ کی فوٹو کاپی ہے۔
۲۔الذریعہ ،آغابزرگ تہرانی ،ص۳۲۲۔
اس کتاب کا ایک خطی نسخہ کتاب خانہٴ آیة اللہ مرعشی میں شمارہ۴۶۲،۱۸۱صفحات میں موجود ہے ۔(۱)
مزار قدیم کے مولف اپنی اس گراں بہا یاد گاری کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن ابی قرّہ کے توسط سے ،کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بزوفری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”یہ دعا حضرت صاحب الزمان کے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں کے شب و روز میں پڑھی جائے ۔“
اس نسخہ میں دعائے ندبہ ۱۷۳ صفحہ سے شروع ہوتی ہے اور ۱۷۶ صفحہ تک ختم ہوتی ہے ۔
اس بات کے پیش نظر کہ کتاب مزار قدیم کے مولف غیر معروف ہیں لہذا اس پر ایک موثق منبع کے عنوان سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا ، صرف اسے ابن مشہدی کی نقل کے لیے ابن ابی قرّہ اور بزوفری سے بطور تائید قرار دیا جا سکتا ہے ۔

۵۔ رضی الدین علی ابن موسیٰ ابن طاووس حلّی
سید ابن طاووس نے اپنی گراں قدر کتاب مصباح الزائر میں حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی زیارتوں کے حصّے میں چھ زیارات نقل کی ہےں ،اس وقت دعائے ندبہ کو ساتویں زیارت کے عنوان سے ”محمد بن علی بن ابی قرّہ“ کے نقل کے مطابق ”محمد
_______________________
۱۔ فہرست کتابخانہٴ آیت مرعشی ، سید احمد حسینی اشکوری ،ج۲،ص ۶۸۔
بن حسین بن سنان بزوفری “ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے :
”یہ دعا حضرت صاحب الزمان سے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے ۔ “ (۱)
اسی طرح آپ کتاب اقبال میں بھی اسلامی عیدوں کی دعاؤں کی ایک مخصوص تعداد شمار کر تے ہوئے کہتے ہیں:
”ایک دوسری دعا ہے جو نماز عید کے بعد اور تمام چارعظیم عیدوں میں پڑھی جاتی ہے ۔“ (۲)
اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کرتے ہیں اور آخر میں مزید فرماتے ہیں:
”جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو پروردگار کے مقابل سجدہ کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور کہو:
جو کچھ ہم نے امام جعفر صادق سے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ فرمایا: اس دعا کے بعد اپنا داہنا رخسار زمین پر رکھو اور کہو ”سیدی ،سیدیکم من عتیق لک ای عزیز ای جمیل “۔(۳)
اس تعبیر سے استفادہ ہوتا ہے کہ سید ابن طاووس نے مزار کبیر کے علاوہ دعائے
________________________
۱۔ مصباح الزائر ،سید علی بن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۶۔ ۴۵۳۔
۲۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۵۔
۳۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۹۔
ندبہ کو دسرے طریقہ سے نقل کیا ہے ،اس لیے کہ مزار کبیر اور مزار قدیم میں یہ آخری حصہ موجود نہیں ہے اور سید نے تصریح کی ہے کہ اسے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق سے روایت کی ہے ۔
سید ابن طاووس عید قربان کے اعمال بیان کرتے وقت ان دعاؤں کو نقل کرتے ہیں کہ جسے نماز عید سے واپس ہونے کے بعد پڑھا جاتا ہے ،پھر کہتے ہیں:”منجملہ ان دعاؤں میں سے کہ جسے نماز عید قرباں کے بعد پڑھا جاتا ہے دعائے ندبہ ہے کہ جسے عید فطر کے باب میں ہم نے بیان کیا ہے “۔(۱)

۶۔ علی ابن علی ابن موسیٰ ابن طاووس
علی ابن علی ،فرزند سید ابن طاووس(۲) نے کتاب زوائد الفوائد (۳)میں دعائے ندبہ کو اپنے پدربزرگوار سے نقل کیا ہے ۔(۴)
_______________________
۱۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۴۴۹۔
۲۔ فرزند سید ابن طاووس ان کے پدر بزرگوار کی تحریر کے مطابق جمعہ کے دن ۸محرم ۶۴۷ھء ق نجف اشرف میں پیدا ہوئے (کشف المحجة ص۶۴۹) اور۶۸۰ھء ق میں ان کے بھائی جلال الدین محمد کے انتقال کے وقت سادات کی نقابت حاصل کی۔ (طبقات اعلام الشیعہ قرن ہفتم ،ص۱۰۷)
۳۔ اس کتاب کا خطی نسخہ سید محمد مشکات کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے۔(الذریعہ ،ج۱۲،ص ۶۰)
۴۔زوائد الفوائد ،علی بن علی بن موسیٰ حلی ،ص۴۹۳،نسخہٴ خطی کتاب خانہ مرکزی دانشگاہ تہران۔
۷۔علامہ محمد باقر مجلسی
علامہ مجلسی نے دعائے ندبہ کو اپنی گراں قدر کتاب بحار الانوار میں مصباح الزائر کے نقل کے مطابق سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔(۱) اور آخر میں رقم طراز ہیں :
محمد بن مشہدی نے مزار کبیر میں کہا ہے : محمد بن علی بن ابی قرّہ کا قول ہے :
”میں نے دعائے ندبہ کو کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے۔“ (۲)
علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد میں بھی دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے اور اس کے آغاز میں کہتے ہیں:
”لیکن دعائے ندبہ جو برحق عقائد پر مشتمل ہے اور حضرت قائم کی غیبت پر اظہار افسوس ہے ،معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ اس دعا ئے ندبہ کو چارعظیم عیدوں میں پڑھنا سنت ہے یعنی جمعہ ،عید فطر ،عید قرباں اور عید غدیر۔“ (۳)
علامہ مجلسی اسی طرح کتاب تحفة الزائر میں سرداب مقدس کے اعمال کے بعد کہتے ہیں:
_________________________
۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲،ص۱۰۴۔ ۱۱۰۔
۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۱۰۲،ص۱۱۰۔
۳۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۸۶۔
”سید اور شیخ محمد بن مشہدی نے محمد بن علی بن (ابی) قرّہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے کہ ”دعائے ندبہ“ جو صاحب الزمان سے متعلق ہے مستحب ہے اسے چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے “۔
اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے ۔(۱)
جیسا کہ قارئین کرام نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ علامہ مجلسی نے ،کتاب زاد المعاد میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ دعائے ندبہ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے روایت ہوئی ہے ،اور کتاب تحفة الزائر کے مقدمہ میں اس بات کے پابند ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں صرف زیارات، ادعیہ اور ان آداب کو ذکر کریں گے جو معتبر اسناد کے ذریعہ ائمہ دین سے منقول ہےں ۔(۲)

۸۔ سید محمد طباطبائی یزدی
علامہ جلیل القدر ،صدر الدین سید محمد طباطبائی یزدی (متوفیٰ ۱۱۵۴ھئق) اپنی گراں قدر کتاب شرح دعائے ندبہ کے آغاز میں دعائے ندبہ کے متن کو سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ یہ امام جعفر صادق سے مروی ہے ۔ (۳)
__________________________
۱۔ تحفة الزائر ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۳۴۔
۲۔ تحفة الزائر ، محمد باقر مجلسی ، ص۲۔
۳۔ فروغ ولایت ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ،ص۳۳۔
۹۔ سید حیدر کاظمی
علامہ جلیل سید حیدر حسنی کاظمی ،(متوفیٰ ۱۲۶۵ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب عمدة الزائر میں دعائے ندبہ کو سید ابن طاووس اور دوسروں سے روایت کی ہے ۔(۱)

۱۰۔ محدّث نوری
محدث بزگوار آقا مرزا حسین نوری (متوفیٰ ۱۳۲۰ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب تحیة الزائر میں دعائے ندبہ کو مزار کبیر،مزار قدیم سے نقل کیا ہے اور مصباح الزائر سید ابن طاووس سے بھی روایت کی ہے ۔(۳)

۱۱۔ صدر الاسلام ہمدانی
دبیر الدین صدر الاسلام علی اکبر ہمدانی (متوفیٰ ۱۳۲۵ھئق) اپنی گراں قدر کتاب تکالیف الانام میں وظیفہ نمبر ۳۴کے عنوان کے تحت تحریر کرتے ہیں:
”یہ مبارک دعا کثرت شہرت کی وجہ سے آفتاب عالم تاب کی طرح ہے۔ بہتر ہے کہ ہر جمعہ کو حضرت کے چاہنے والے مرد عورت مساجد میں سے کسی مسجد یا عبادت گاہوں میں سے کسی عبادت گاہ میں جمع ہوں اور اس مبارک دعا کو انتہائی گریہ و زاری اور نالہ وشیون کے ساتھ نہایت حزن و ملال اور بے قراری سے پڑھیں اشک بہائیں اور اس روشن
________________________
۱۔ عمدة الزائر ،سید حیدر کاظمی ،ص۳۵۲۔۳۵۹۔
۲۔ تحیة الزائر ،حسین بن محمد تقی نوری ،ص۲۴۸۔
آفتاب کی غیبت اور اس جان جاناں کی عدم موجودگی پر توجہ کریں فریاد و فغاں بلند کریں اور قلب پُر درد سے آہ سرد نکالیں۔
اور اس عظیم مصیبت کو آسان تصور نہ کریں، اس مصیبت عظمیٰ کو سہل گمان نہ کریں کہ ان کی غیبت کی وجہ سے اسلام بالکل ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا ہے اور صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے ۔”ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدینا“۔
کفر اور فسق و فجور ناشکری تمام کرہٴ ارض پر چھا گئی ہے ،جو کچھ دستیاب نہیں ہے وہ مسلمان ہونے کے آثار ہیں اور جو کچھ ظاہر اور دستیاب ہے شیطانی آثار ہیں۔سب وادی غفلت اور ضلالت و جہالت کے لق و دق صحرا میں حیرا ن و سرگرداں شیطان کے سپاہیوں کے تابع ہیں اور حضرت صاحب الامر کے حکم کے نا فرمان ہیں ”اللّھمّ عجّل فرجہ و سھّل مخرجہ بمحمد و آلہ الطاھرین “۔(۱)
پھر اس وقت دعائے ندبہ کے متن کو صفحہ(۱۹۰ سے ۱۹۶ تک) ذکر کیا ہے ،اپنے استاد (مرحوم آقا مرزا حسین نوری طاب ثراہ) سے نقل کیا کہ استاداعظم کہتے ہےں :
”مشہور و معروف دعائے ندبہ کا شب جمعہ اور روز جمعہ پڑھنا مستحب ہے جو حضرت مہدی سے متعلق ہے ۔ در حقیقت اس کے مضامین دل
_______________________
۱۔ تکالیف الانام ،علی اکبر ہمدانی (صدر الاسلام) ص۱۸۸۔
شگاف اور جگر کو پاش پاش کرنے والے ہیں اور اس شخص کو خون کے آنسو رلانے والے ہیں کہ جس نے حضرت کے شربت محبت کو پیا ہے اور ان کے فراق کے زہر کی تلخی چکھی ہے ،جمعہ کے دن بلکہ شب جمعہ میں بھی (جیسا کہ کسی ایک مزارات قدیم میں کہ جس کے مولف شیخ طبرسی صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ان سے مروی ہے) پڑھی جانی چاہیے ۔“ (۱)
پھر مزید کہتے ہیں:
مولف کہتے ہیں :”اس مبارک دعا کے پڑھنے کے من جملہ خواص میں سے یہ ہے کہ تمام زمان و مکان میں مکمل خلوص اور حضور قلب سے پڑھی جائے اور اس کی خاصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اگر اس کے مضامین عالیہ اور روشن عبارات و اشارات کی طرف متوجہ رہے تو صاحب العصر و الزمان ارواحنا فداہ کی مخصوص عنایات اس صاحب مکان کے شامل حال ہو گی بلکہ حضرت کی بھی اس مجلس میںتشریف آوری کا باعث ہوگی۔ جیسا کہ بعض مقامات پر ایسا اتفاق ہوا ہے ۔“
پھر ایک واقعہ ملازین العابدین سلماسی کا نقل کیا ہے۔(۲)
__________________________
۱۔تکالیف الاٴنام، علی اکبر ہمدانی (صدر اسلام) ،ص۱۹۷۔
۲۔ گزشتہ حوالہ ۔
۱۲۔ ابراہیم ابن محسن کاشانی
عالم ربّانی شیخ ابراہیم ابن محسن کاشانی (متوفیٰ ۱۳۴۵ھئق) اپنی ارزش مند کتاب ”الصحیفة الھادیة و التحفة المھدیة“ میں جو آیت اللہ آقای سید اسماعیل صدر کی تقریظ کے ساتھ ایک صدی پہلے طبع ہوئی دعائے ندبہ کے متن کو کتاب بحار الانوار کے باب مزار سے نقل کیا ہے ۔(۱)

۱۳۔ مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی
نادرہٴ زمان ،عاشق صاحب الزمان آقا مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی (متوفیٰ ۱۳۴۸ھئق) نے مبارک کتاب مکیال المکارم میں ایک سو سے زیادہ ائمہ معصومین سے ماثورہ دعاؤں کو اس آفتاب عالم تاب کے زمانہٴ غیبت کے لیے نقل کیا ہے ، منجملہ ان میں سے دعائے ندبہ کو علامہ مجلسی اور محدث نوری کے نقل کے مطابق ذکر کیا ہے ۔(۲)
صاحب مکیال المکارم مزکورہ کتاب کے علاوہ ،کتاب وظیفہٴ مردم در غیبت امام زمان ظ میں بھی ۵۲ نمبر کے وظیفہ کے عنوان سے بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”جمعہ ،عید غدیر ،عید فطر اور عید قرباں کے دنوں میں دعائے ندبہ جو
_________________________
۱۔ الصحیفة الھادیة ، ابراہیم بن محسن کاشانی (فیض کاشانی) ، ص۷۵۔۸۹۔
۲۔ مکیال المکارم ،السید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۳۔۱۰۰۔
ظ یہ کتاب اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔(مترجم)
سے متعلق ہے اور زاد المعاد میں موجود ہے توجہ کے ساتھ پڑھنی چاہیے ۔“ (۱)

۱۴۔ محدّث قمّی
خاتم المحدّثین جناب شیخ عباس قمّی (متوفیٰ ۱۳۵۹ھئق) اپنی با برکت کتاب مفاتیح الجنان میں جو مولف کے خلوص کے نتیجہ میں عالَم مشرق و مغرب میں پھیلی ہوئی ہے اور شیعیان اہل بیت کی ہر فرد کے گھر میں، ایک یا چند نسخے اس کے مل جائیں گے، سرداب مقدس کے اعمال کے ضمن میں اور حضرت صاحب الزمان کی زیارتوں کے ذیل میں دعائے ندبہ کو بھی مصباح الزائر سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔

۱۵۔ شیخ محمد باقر فقیہ ایمان
حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے عاشق دل باختہ ،جناب شیخ محمد باقر فقیہ ایمانی (متوفیٰ ۱۳۷۰ھئق) جو ۷۷ کتابوں کے مولف ہیں ،ان میں سے ۲۷ جلد کعبہٴ مقصود قبلہٴ موعود ،حضرت صاحب الزمان سے مخصوص ہے ۔اپنی گراں قدر کتاب فوز اکبر میں دعائے ندبہ کے متن کو (۱۱۵ سے ۱۲۵ تک ) ذکر کیا ہے ،اس کے پڑھنے کی بہت تاکید کی ہے اور اس کے پڑھنے کی علت کو تین عنوان میں بیان کیا ہے :
۱۔انسان کا آنکھوں کی روشنی کے لیے حضرت کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرنا ۔
_________________________
۱۔ وظیفہٴ مردم در غیبت امام زمانہ ، سید محمد تقی موسوی اصفہانی ، ص۷۹۔
۲۔ حضرت کے ہمّ و غم کو دور کرنے کے لیے ۔
۳۔ تعجیل فرج کے ارادے سے۔(۱)
۱۶۔ سید محسن امین
عظیم مورخ سید محسن امین عاملی مولف اعیان الشیعہ (متوفیٰ ۱۳۷۱ھئق) نے دعائے ندبہ کے متن کو کتاب مفتاح الجنّات میں ذکر کیا ہے ۔(۲)
اگر تمام دعاؤں اور زیارتوں کو نقل کرنا چاہیں کہ جس میں دعائے ندبہ کو نقل کیا گیا ہے تو ہماری بات طولانی اور وہ اس کتاب کی وسعت سے خارج ہو جائے گی، اس لحاظ سے ہم اپنی گفتگو یہیں ختم کرتے ہیں اور اس کی وسیع بحث کو کسی اور موقع پر موقوف کرتے ہیں مزید قارئین کرام کو اس کے متعلق جو مستقل طور پر کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں اس کا حوالہ دیتے ہیں۔(۳)
_________________________
۱۔ فوز اکبر ،محمد باقر فقیہ ایمانی ،ص۱۱۸۔
۲۔ مفتاح الجنّات ،سید محسن امین عاملی ،ج۲،ص ۲۶۰۔
۳۔ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لیے رجوع کریں ۔پاسخ ما بہ گفتہ ھا ،سید محمد مہدی مرتضوی لنگرودی ، تحقیقی دربارہٴ دعائے ندبہ ،رضا استادی ،فروغ ولایت در دعائے ندبہ ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ، مدارک دعائے شریف ندبہ ،جعفر صبوری قمی ، نشریة ینتشربھا انوار دعاء الندبہ ، شیخ محمد باقر رشاد زنجانی ،نصرة المومنین در حمایت از دعائے ندبہ ،عبد الرضا ابراہیمی ،مزکورہ بالا عناوین کی کتاب شناسی توصیفی کو کتاب نامہ حضرت مہدی ،ج۱،ص ۱۹۶، ۲۲۴،ج۲،ص۵۵۴،۶۳۷،۷۵۰،ا۷۵ میں ملاحظہ فرمائیں۔
>>>مکتب اسلام نامی ارزش مند مجلے میں اس سلسلے میں مقالات بھی نشر ہو چکے ہیں۔ (سال ۱۳، شمارہ ۶،۷،۸،۹)
اس سلسلے میں دوسرے آثار بھی طبع اور نشر ہو چکے ہیں جن کے عناوین کتاب نامہٴ حضرت مہدی میں ذکر ہوئے ہیں۔(ج۱،ص ۳۴۶۔۳۴۸)
جناب آیت اللہ شیخ محمد باقر صدیقین (متوفیٰ ۱۴۱۴ھئق) نے سات کتابچہ درسھائی از ولایت کے عنوان سے نشر کیے ہیں کہ ان میں سے ایک دعائے ندبہ سے دفاع کے لیے مخصوص ہے ۔ <<<


امام زمانہ کی دعائے ندبہ کی مجالس پر خاص عنایات
تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے وجود اقدس کی طرف سے جن مجالس و محافل میں دعائے ندبہ پڑھی جاتی ہے خاص عنایت ہوتی ہے ، بعض تحریر شدہ کتابوں میں ان میں سے بعض عنایتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اگر خدائے متعال توفیق عطا کرے تو ان میں سے بعض کو فرصت سے جمع آوری کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا، ہم یہاں صرف اس کی فہرست کی طرف مختصر طور پر اشارہ کر رہے ہیں:
۱۔ سرداب مقدس میں ملّا زین العابدین سلماسی کا واقعہ جسے صدر الاسلام ہمدانی نے نقل کیا ہے ۔(۱)
۲۔ آیت اللہ جناب مرزا مہدی شیرازی کا واقعہ جسے علامہ قزوینی نے مولف کے لیے نقل کیا ہے ۔
۳۔ آیت اللہ میر جہانی کا واقعہ جسے مولف نے متعدد مرتبہ خود ان سے سنا ہے ۔
________________________
۱۔تکالیف الانام، علی اکبر ہمدانی (صدر الاسلام )ص۱۹۷۔
۴۔ بعض سعادت مند افراد کے واقعات کہ جسے علامہ نہاوندی نے بغیر واسطہ کے خود ان سے نقل کیا ہے ۔(۱)
۵۔ بعض دوسری جماعت کے واقعات کہ جسے محدث نوری نے متصل سند کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ (۲)
ہم یہاں صرف ایک عاشق دل باختہ کے واقعہ کے نقل پر اکتفا کرتے ہیں:
حضرت صاحب الزمان ارواحنا فداہ کے عاشق دل باختہ حضرت آیت اللہ شیخ محمد خادمی شیرازی (متوفیٰ ۱۴۱۹ھئق) جو گراں قدر تالیفات جیسے رجعت ، یاد مہدی اور فروغ بی نہایت کے مالک ہیں مولف کے لیے نقل کیا ہے کہ تقریباً چالیس سال پہلے امام رضا کے حرم مطہر پر آستانہ بوسی کے لیے مشرف ہوا ،ایک شب جمعہ کو اس مہربان امام کے حرم مطہر میں حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے فراق میں بہت زیادہ آنسو بہایا ،جب اپنی قیام گاہ پر پہنچا تو کچھ دیر آرام اور عالم خواب میں حضرت مہدی کے چہرہٴ انور کو دیکھا ،خدا حافظی کے وقت میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں، کیا دوبارہ بھی مجھ رو سیاہ کو اپنے دیدار مبارک کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ فرمایا: ہمارے وعدہٴ دیدار کا وقت کل صبح دعائے ندبہ ہے ۔میں نے عرض کیا : اے میرے مولا! میں زائر ہوں مجھے نہیں معلوم کہ دعائے ندبہ کہاں پڑھی جاتی ہے؟
_________________________
۱۔ العبقری الحسان ،علی اکبرنہاوندی ،ج۲،ص ۱۰۱،۱۹۸۔
۲۔ دار السلام ،حسین بن محمد تقی نوری ،ج۲،ص ۲۲۴۔
فرمایا: سید جواد مجتہدی کے گھر میں ۔میں خواب سے بیدار ہوا وضو کیا حرم کی طرف چلا اور امام رضا کی عنایات کا شکریہ ادا کیا ۔نماز صبح کے بعد حرم سے نکلا مسجد گوہر شاد کے صحن میں جس پہلے شخص کا دیدار کیا میں نے اس سے دریافت کیا: مشہد میں دعائے ندبہ کہاں پڑھی جاتی ہے؟ جواب دیا: جناب سید مجتہدی کے گھر میں ۔
میں نے ان کے گھر کا پتہ لیا اور تیزی سے اس پُر فیض مجلس میں خود کو پہنچایا ،کہ مجلس بہت نورانی اور معنوی تھی اور اس چہرہٴ منورکو کہ جس کا رات عالَم خواب میں مشاہدہ کیا تھا اپنے عاشقوں کے درمیان حاضر پایا تھے ۔
اسی طرح کا واقعہ جناب محمد یزدی کے لیے بھی پیش آیا تھا۔ انہوں نے بھی امام رضا سے توسل کیا ان کو بھی سید مجتہدی کے گھر کی طرف رہنمائی ہوئی تھی اور وہاں بھی کعبہٴ مقصود کی خدمت میں ان کے لیے شرفِ حضور فراہم ہوا تھا۔
یہ نمونے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی مجالس دعائے ندبہ پر خاص عنایت کی نشان دہی کرتے ہیں ۔
کتاب کے اس حصہ میں دوسرے سوال کے متعلق تفصیلی گفتگو کی ہے اور دعائے ندبہ کے سلسلہٴ اسناد کی زمانوں اور صدیوں کے اعتبار سے تحقیق پیش کی ہے اور سند کی تاکید اور استحکام کے لیے عظیم شخصیتوں کے اقوال جیسے علامہ مجلسی کے قول کو نقل کیا ہے۔ یہاں پر ہم مزید یہ کہتے ہیں کہ:
فقہ شیعہ میں رائج سخت گیریاں ان اخبار اور احادیث کے متعلق ہے جو ایک ضروری حکم (واجب یا حرام) کے استنباط کی راہ میں قرار پاتی ہیں، لیکن مستحبی مسائل میں ،بالخصوص دعاؤں اور زیارتوں میں وہ سخت گیری اور سندی موشکافی مرسوم نہیں ہے ،بلکہ اسی مقدار میں کہ اس کے مضامین شرع پسند اور مقبول ہوں اور ایک مشہور کتاب میں نقل ہو بس یہی کافی ہے ۔
لہٰذا اگر ایک دعا کی سند معتبر نہ ہو اور اس کا (بالخصوص) معصوم سے صادر ہونا ثابت نہ ہو چونکہ عمومی طور پر دعا کے لیے حکم ہوا ہے اور دعا اعمال راجحہ اور عبادات موکدہ میں سے ہے ،ان کا پڑھنا قرآنی اور حدیثی عمومات کے مطابق راجح اور مستحب ہے ۔اور مقام عمل میں سندی سخت گیری کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ” قاعدہٴ تسامح در ادلہٴ سنن“ اس مقام پر جاری ہے اور اتنی مقدار بھر اخروی ثواب حاصل کرنے کے لیے کافی ہے ۔
قاعدہٴ تسامح در ادلہ سنن بہت زیادہ حدیثوں پر متوقف ہے کہ اسے ”احادیث من بلغ“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے ۔
یعنی : ان حدیثوں کی بنا پر ، اگر ایک نیک عمل میں اجر و ثواب خداوپیغمبر سے نقل ہوا ہو اور یہ نقل کسی ایک فرد کو معلوم ہو اور وہ اس اجر و ثواب کو حاصل کرنے کے لیے اس عمل خیر کے لیے اقدام کرے تو خداوندمنّان اس ثواب کو اسے عنایت فرمائے گا اگر چہ اس قسم کی کوئی حدیث حقیقت میں معصوم سے صادر نہ ہوئی ہو۔
اس سلسلے میں معصومین سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں(۱) اور شیخ انصاری
________________________
۱۔الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ج۲،ص ۸۷، المحاسن ،احمد بن محمد بن خالد البرقی ، ج۱،ص ۹۳، ثواب <<<
>>>الاعمال شیخ صدوق ،ص۱۳۲، عدّّة الداعی ، احمد بن فہد حلّی ،ص۱۳، اقبال الاعمال سید ابن طاووس ،فلاح السائل سید ابن طاووس ،ص۱۲، مفتاح الفلاح شیخ بہائی ،ص۴۰۶، روضة المتقین ،محمد تقی مجلسی ،ج۱،ص ۴۵۵، مدارک الاحکام ، العاملی ، ج۱،ص ۱۸۷، وسائل الشیعہ ،حرعاملی ،ج۱،ص ۸۰، بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۲،ص ۲۵۶، مرآة العقول ،محمد باقر مجلسی ،ج۸،ص ۱۱۲۔
نے جواز تسامح در ادلہ سنن کے متعلق مستقل رسالہ تحریر کیا ہے ۔
متن دعا قوی مضامین اور الفاظ کے استحکام بھی اس کے اعتبار میں اضافہ کا باعث ہےں ۔ اقوال معصومین کی روش گفتار کی معرفت اور شناخت رکھنے و الے افراد ایک متن کے مضمون اور مطالب کی تحقیق سے اس کا معصوم سے صادر ہونے یا صادر نہ ہونے کا اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔
جب آیت اللہ کاشف الغطا سے ”دعائے صباح“ کی سند کے متعلق سوال کیا گیا تو کہا:
ہر ایک صاحبان علم و ثقاقت کے لیے ایک اسلوب ہوا کرتا ہے اور بشری معاشروں کے ہر گروہ کے لیے بلکہ ہر ملت اور تمام ملک کے باشندوں کے لیے طور و طریقہ ہوتا ہے ائمہ علیہم السلام کے لیے بھی مقام دعا میں تعریف اور پروردگار کی حمد و ثنا کے لیے مخصوص شیوہٴ سخن ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ان کے اقوال سے مانوس ہو گا اسے تسلط اور کمانڈ حاصل ہو جائے گا کہ ان کے اقوال کو پہچانے اور ایسا شخص شک و شبہ نہیں کر ے گا کہ دعاء صباح ان سے صادر ہوئی ہے ۔(۱)
________________________
۱۔ فردوس الاعلی ،شیخ محمد حسین، کاشف الغطاء ،ص۵۰۔
بہت سے بزرگوں نے ”دعائے ندبہ “اور زیارت”جامعہ کبیرہ“ کے مضامین عالیہ اور متن کی تحقیق کے متعلق کہا ہے کہ وہی صرف اس کے اعتبار کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اس کی سند کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے ۔ (۱)
ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی ان لوگوں کے مقابل میں جنہوں نے نہج البلاغہ کے بعض فقرات کا مولائے متقیان امیر المومنین سے صادر ہونے کے متعلق شک و شبہ کا اظہار کیا ہے یہی طریقہٴ استدلال پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نہج البلاغہ کے تمام فقرات حضرت کی طرف سے صادر ہوئے ہیں۔
انہوں نے ”خطبہٴ شقشقیہ “ کے متعلق مصدّق بن شبیب واسطی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے:
۶۰۳ھ ق میں اس خطبہ کو میں نے شیخ ابو محمد ،عبد اللہ بن احمد ،عرفیت ”ابن خشّاب“ کی خدمت میں پڑھان سے دریافت کیا: ”کیا آپ اس خطبہ کے جعلی اور نقلی ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں؟“۔
فرمایا: نہیں خدا کی قسم !
مجھے یقین ہے کہ یہ خطبہ حضرت کے اقوال کا حصہ ہے ،جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس کی تصدیق کرنے والے ہو۔
میں نے کہا: بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سید رضی کے کلمات کا
________________________
۱۔ الانوار اللامعہ ،سید عبد اللہ شُبّر،ص۳۱۔
حصہ ہے ۔
فرمایا: نہیں نہ رضی اور نہ غیر رضی ، ان کا طرز گفتگو کہاں اس قسم کا تھا؟ میں نے رضی کے مکتوبات کو دیکھا ہے اور ان کے نثر کے طریقہٴ کلام سے میں آشنا ہوں ۔ (۱)
اس بیان کی بنا پر ،اعلی معارف ،درخشاں حقائق ،روشن معانی اور عمیق مطالب جو پسندیدہ اسلوب، بہترین بیان ،منطقی نما اور نہایت عظیم و فصیح عبارتیں اس مبارک دعا میں مزکور ہیں ،وہ ہمیں ہر قسم کی سند اور منبع و مصدر پیش کرنے سے بے نیاز کرتی ہیں کہ ایسے تابناک اور روشن ظریف نکات جو کبھی بھی ولایت کے صاف و شفاف چشمہ کے علاوہ کسی اور منبع و مصدر سے نشاٴة نہیں پاتے ۔
ہمارے استاد دانا حضرت آیت اللہ سید مرتضیٰ شبستری (متوفیٰ ۱۴۰۱ھء ق) جو قرآنی اور حدیثی مسائل میں ایک بے مثال انسان تھے ،جس زمانے میں ائمہ اطہار کی ولایت و امامت کی بحث محکمات قرآن کی بنیاد پر حوزہٴ علمیہ قم کے ممتاز علماء و فضلاء کی جماعت کے لیے درس دیتے تھے ایک دن مسند درس پر فرمایا:
”میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ دعائے ندبہ کے فقرات میں سے ہر فقرہ متواتر ہے اور تمام حوزہٴ علمیہ کے لوگوں کو اس سلسلے میں بحث و گفتگو کی دعوت عام دیتا ہوں۔ “
_______________________
۱۔ شر ح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ابو حامد ھبة اللہ مدائنی ،ج۱،ص ۲۰۵۔
جو لوگ اس استاد دانا کی علمی صلاحیت سے واقف تھے وہ جانتے ہیں کہ وہ اس مطلب کو آسانی سے ثابت کر سکتے تھے ۔
دعائے ندبہ کی شرح کرنے والوں میں سے ایک فرد نے اس راستہ کو اپنایا ،دعائے ندبہ کے متن کو ۱۲۴ فقرہ میں تقسیم کیا قرآنی اور حدیثی مصادر کو ہر ایک فقرہ کے ذیل میں تفسیر و حدیث کی جامع کتابوں سے ذکر کیا اور ان کی کوشش یہ رہی کہ ان کے اکثر مصادر کو اہل سنت سے ذکر کریں۔ (۱)
ایک دوسری شرح کرنے والے نے ، اس مبارک دعا کے فقرات کی شرح میں انتہائی کوشش کی کہ اس کے فقرات کو قرآنی آیات سے تطبیق دیں اور ان کی تفسیر و تاویل میں تفسیر اور حدیث کے جامع مصادر سے استفادہ کیا ہے ۔ (۲)
ایک اور دوسرے ہم عصر مولف نے اس پسندیدہ اسلوب کی تفسیر و توضیح میں ایک ظریف تعبیر کی ہے اور کہتے ہیں:
”اگر کوئی شخص سکونت کے لیے ایک منزل رکھتا ہے ،تو اس سے اس کی سند کا مطالبہ کیا جاتا ہے ،اگر وہ کسی اسباب کی بنا پر اس منزل کی سند نہ پیش کر سکے ، لیکن زمین خرید نے کی سند ساخت و ساز کا اجازت نامہ، اس کی تعمیر کی تکمیل اور ایک ایک سامان جو اس بلڈنگ میں اینٹ،
_______________________
۱۔ شرح دعائے ندبہ ،سید علی اکبر موسوی ،محب الاسلام ۔
۲۔ ندبہ و نشاط ،احمد زمرّدیان شیرازی ۔
سیمنٹ ، چونا ، تیر آہن دروازہ کھڑکی وغیرہ استعمال ہوئے ہیں اس کے خریدنے کی رسید دکھا دے تو پھر اس سے گھر کی سند کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ “
اس بیان کی بنا پر ،اگر دعائے ندبہ کے فقرات میںسے ہر فقرہ ،عقائد حقّہ کا جز اور عالم تشیع کی تعلیمات کے مسلّمات میں سے ہو اور اس عظیم المرتبت استاد کی تعبیر کے مطابق اس کے فقرات میں سے ہر ایک فقرہ متواتر ہواور اس کے ہر فقرہ کی سند قرآن و سنت میں موجود ہو۔ اور اس کے طرزِ انشاء کو روش شناسی کے نقطہٴ نظر سے بطور دقیق جو دوسری دعائیں خاندان عصمت و طہارت سے صادر ہوئی ہیں ان پر منطبق ہوتی ہو نیز مشہور اور معتبر کتابوں میں درج ہوئی ہوں۔تو پھر سند پیش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جب کہ ہم نے اس مقام پر اسے معتبر سند کے ساتھ استناد کے قابل بنا کر قارئین محترم کی خدمت میں پیش کیا اور علامہ مجلسی جیسی عظیم المرتبت شخصیت کی اس کی سند کے معتبر ہونے پر صریحی تاکید پیش کی ہے جیسا کہ کہتے ہیں:
لیکن دعائے ندبہ جو بر حق عقائد اور حضرت قائم - کی غیبت پر اظہار افسوس پر مشتمل ہے ، ”معتبر سند“ کے ساتھ جو امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ اس دعائے ندبہ کا چار عظیم عیدوں میں پڑھنا مستحب ہے یعنی جمعہ، عید فطر، عید قرباں ،عید غدیر ۔(۱)
________________________
۱۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۸۶۔
علامہ مجلسی جو علوم اہل بیت کے سمندر کے شناور تھے انہوں نے اس مختصر فقرہ میں گراں قدر نکات کی طرف اشارہ کیا ہے :
۱۔ دعائے ندبہ مطالب کے لحاظ سے صحیح اور بر حق عقائد پر مشتمل ہے ۔
۲۔ دعائے ندبہ ماثور ہے اور معصوم سے ہم تک پہنچی ہے ۔
۳۔ دعائے ندبہ سندی لحاظ سے معتبر ہے ۔
۴۔ دعائے ندبہ کی سند امام جعفر صادق تک پہنچتی ہے ۔
۵۔ دعائے ندبہ کا چار عظیم اسلامی عیدوں میں پڑھنا مستحب ہے ۔