(دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید)
 

عرض ناشر
مبارک دعائے ندبہ قدیم الایام سے شیعوں کے توجہات کا مرکز رہی ہے اور حضرت صاحب الامر (ارواحنا لہ الفداہ) کا انتظار کرنے والے طول تاریخ میں اپنے دل کی تپش کو اس دعا کی خنکی سے آرام بخشتے تھے ۔
دعائے ندبہ حقیقت میں حجتوں اور اولیاء الٰہی کے اس وسیع زمین پر حاضر رہنے کی مختصر تاریخ کی نشان دہی کرتی ہے ۔وہ سلسلہ جو حضرت آدم (ع) سے آغاز ہوا اور آخری حجت حضرت امام مہدی (ع) تک جاری رہے گا۔
جو شخص دعائے ندبہ سے مانوس ہو جائے اور دل کی گہرائی سے پیغمبر اکرم کے بر حق جانشینوں کی مظلومیت کو معلوم کرے ،تو ان کی ولایت و حجت کی شمع اس کے دل میں روشن و منور ہو گی اور اس کا تمام وجود حجت خدا کی ضرورت کا احساس کرے گا۔
دعائے ندبہ کے پڑھنے والے کو آخری حجت خدا کی غیبت کی وجہ سے جو انسانی معاشرے پر مصیبت وارد ہوئی ہے معلوم ہو جائے گی اور وہ عظیم مصیبت جو امام معصوم (ع) کے وجود سے محروم ہونے کی بنا پر عالمِ بشریت پر وارد ہوئی ہے اس سے بھی واقف ہو جائے گا اس لحاظ سے اس کو اس کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہیں کہ شب و روز گریہ و زاری میں بسر کرے اور موجودہ سیاہ ترین حالات میں گرفتار ہونے پر آنسو بہائے ۔
لیکن یہ گریہ و زاری ایک طرح سے ان افراد پر اعتراض ہے جنہوں نے آخری امام - کی غیبت کا زمینہ فراہم کیا، اور دوسری طرف سے اس سر زمین پر امام معصوم (ع) کے ظہور کا زمینہ فراہم کرنے اور ان کی خدمت کرنے کا اعلان ہے ۔
دعائے ندبہ اور اس کی استناد کے متعلق بہت سی باتیں کہی گئی ہیں اور متعدد رسالے اور کتابیں بھی اس سلسلہ میں تالیف ہوئی ہیں ،لیکن اب بھی دنیا کے گوشہ و کنار میں زندگی بسر کرنے والے بعض ایسے بھی ہیں جو اس دعا میں شک و شبہ پیدا کرتے ہیں اور اس کی سند اور مضمون پر اعتراض کرتے ہیں ،اس وجہ سے لازم و ضروری ہے کہ دوسری مرتبہ اس دعا کے اعتراضات کو عمیق تحقیق کے ساتھ جواب دیا جائے ۔
کتابِ حاضر جو محقق محترم حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور کے عزم و ہمت سے منظر عام پر آئی ہے ،اس کی ابتدائی بحثوں میں آخری حجت حضرت مہدی (ع) کے لیے گریہ و زاری کرنے کی تاریخ بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد دعا ئے ندبہ کی تفصیلی سندی بحث ذکر کی گئی ہے مزید اس دعا کے متعلق بعض مضمونی اعتراضات کی تحقیق بھی کی گئی ہے ۔
کتاب کے محترم موٴلف کے شکریہ کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ یہ تالیف حضرت صاحب (ع)الامر (عج) کی خدمت میں شرفِ قبولیت حاصل کرے گی اور قارئین کرام کی رضایت بھی۔
انشاء اللہ

ابتدائیہ
صبح ِ جمعہ غم زدہ عاشقوں اور دل باختہ شیعوں کے پُر شکوہ اجتماعات، اہل بیت کے خلاف حلف بردار دشمنوں کو شدید آزار و اذیت پہنچاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خواب راحت کو اڑا دیتے ہیں۔
شہر کی فضا میں ”یابن الحسن -“ کی ان اجتماعات سے آواز بلند ہوتی ہے اور ایک خون آلود تیر کی طرح دشمن کے سینے میں داخل ہوجاتی ہے اور ان کے آرام و سکون کو ان سے سلب کرلیتی ہے۔
لہٰذا اسی رہ گزر سے مدت مدید سے بہت سے سوالات، دعائے ندبہ کے متعلق اعتراض کے عنوان سے شک و شبہ ایجاد کرنے کے لیے دشمنوں کی طرف سے رونما اور بعض مقامات پر نا آگاہ دوستوں کے ذریعے منتشر ہوئے، جوانوں کے بعض گروہ کے درمیان شک و شبہ کا غبار پھیلایا اور ان کے اذہان میں علامتِ سوال پیدا کیا۔
ہم اس تحریر میں اس بات کے درپے ہیں کہ ان سوالات کو بیان کرکے صاف و شفاف اسی کے ساتھ ہی ان کے استدلالی و منطقی جوابات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کریں۔
اس کے وہ بعض سوالات یوں ہیں کہ:
۱۔ کیا یہ معقول امر ہے کہ ایک فرد کی ولادت سے قبل اس کے فراق میں گریہ و زاری کی جائے؟
۲۔ کیا دعائے ندبہ کی کوئی معتبر سند پائی جاتی ہے؟
۳۔ کیا دعائے ندبہ پیغمبر (ص) کی جسمانی معراج سے ناسازگار ہے؟
۴۔ کیا دعائے ندبہ کیسانیہ عقائد سے نشاٴة پائی ہے؟
۵۔ کیا دعائے ندبہ گوشہ نشینی جیسی حالت کی حامل ہے؟
۶۔ کیا دعائے ندبہ بدعت ہے؟
۷۔ کیا دعائے ندبہ عقل کے منافی ہے؟
۸۔ کیا دعائے ندبہ بارہ ائمہ کی امامت کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟
۹۔ کیا دعائے ندبہ کا معصوم سے صادر ہونا معقول ہے؟
۱۰۔ کیا دعائے ندبہ کے فقرات قرآن کے مخالف ہیں؟
ان سوالات کے بعض حصّے عظیم القدر اور ارزش مند مجلّہٴ موعود میں بیان ہوئے ہیں ان کے استدلالی جوابات گراں قدر مجلّہ کے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیے،(۱) اب یہ ہماری سعادت ہے کہ ان کے مجموعی مقالات کو جس صورت میں آپ ملاحظہ کر رہے ہیں آپ قارئین گرامی کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

علی اکبر مہدی پور
_____________________________
۱۔ ماہ نامہٴ موعود، شمارہ ۱۴ تا ۱۹، خردار ماہ ۷۸ تا فروردین ۷۹۔