صبحِ جمعہ ، دعائے ندبہ کے ہمراہ
صبح ِ جمعہ غم زدہ عاشقوں اور دل باختہ شیعوں کے پُر شکوہ اجتماعات، اہل بیت کے خلاف حلف بردار دشمنوں کو شدید آزار و اذیت پہنچاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خواب راحت کو اڑا دیتے ہیں۔
لہٰذا اسی رہ گزر سے مدت مدید سے بہت سے سوالات، دعائے ندبہ کے متعلق اعتراض کے عنوان سے شک و شبہ ایجاد کرنے کے لیے دشمنوں کی طرف سے رونما اور بعض مقامات پر نا آگاہ دوستوں کے ذریعے منتشر ہوئے، جوانوں کے بعض گروہ کے درمیان شک و شبہ کا غبار پھیلایا اور ان کے اذہان میں علامتِ سوال پیدا کیا۔
ہم اس تحریر میں اس بات کے درپے ہیں کہ ان سوالات کو بیان کرکے صاف و شفاف اسی کے ساتھ ہی ان کے استدلالی و منطقی جوابات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کریں۔
تالیف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور
مترجم: حجة الاسلام جناب فیروز حیدر فیضی

کچھ اپنی باتیں
بعض افراد دعائے ندبہ کی حقیقت و معرفت سے نا آگاہی اور غفلت کی بنیاد پر طرح طرح کے بے جا اعتراضات اپنے زعم ناقص سے کرتے رہتے ہیں۔
مثلاً کبھی کہتے ہیں: یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیوں کہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو سرگرمیوں، سعی و کوشش، ترقی و سربلندی اور کامیابی و کامرانی کے اسباب کے بجائے اسی راستے پر گامزن کرکے صرف اسی پر قناعت کرنے کا درس دیتی ہے۔
کبھی اس بات کے قائل ہوتے ہیں: یہ دعا اصولاً خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے، اللہ کی جیسی جو مصلحت ہوگی اسے انجام دے گا وہ ہم سے محبت کرتا ہے وہی ہمارا خالق ہے اور ہمارے مصالح و منافع کو بہتر جانتا ہے پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی کے مطابق اس سے سوال کرتے ہیں؟! یا یہ اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ دعائے ندبہ قرآنی تعلیمات سے ناسازگار ہے وغیرہ وغیرہ ۔
قارئین محترم ! جو لوگ اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں وہ دعا، گریہ و ندبہ اور نالہ و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی اور روحانی و معنوی آثار سے غافل ہیں، انسان ارادے کی تقویت اور رنج و الم کے دور ہونے کے لیے کسی سہارے کا محتاج ہے اور دعا انسان کے دل میں امید کی کرن بن کر اس کے تمام وجود کو روشن و منور کردیتی ہے۔
کسی مشہور ماہر نفسیات کا قول ہے: ”کسی قوم میں دعا اور گریہ و زاری کا فقدان اس ملت کی تباہی کے مترادف و مساوی ہے ، جس قوم نے دعا کی ضرورت کے احساس کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ عموماً فساد اور زوال پذیر ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتی“۔
البتہ اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ صبح کے وقت دعا اور عبادت کرنا پھر بقیہ مکمل دن کے تمام اوقات وحشی جانوروں کی طرح گزارنا، بے کار اور فضول امر ہے لہٰذا دعا کا سلسلہ مسلسل جاری رہنا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اس کے گہرے اثرات سے بہرہ مند نہ ہوسکے۔
مزید یہ کہ دعا انسان کے نفس میں اطمینان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی اور شادابی کیفیت پیدا کرتی ہے، مزید باطنی انبساط و سرور کا باعث ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ انسان کے لیے شجاعت و بہادری کی روح کو برانگیختہ کرتی ہے، دعا کے ذریعے انسان پر بہت سی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں سے بعض تو صرف دعا سے مخصوص ہیں، جیسے نگاہ کی پاکیزگی، کردار میں سنجیدگی، باطنی فرحت و مسرت، مطمئن چہرہ، استعدادِ ہدایت اور حوادث کا استقبال کرنے کا حوصلہ، یہ سب دعا کے اثرات و نتائج ہیں۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ ہماری کائنات میں دعا کے حقیقی خدو خال کی شناخت و معرفت رکھنے والے بہت کم ہیں۔
دعائے ندبہ حقیقت میں حجتِ زمانہ سرکار امام زمانہ (ع) عجل اللہ فرجہ الشریف روحی و ارواح العالمین لہ الفدا کے پس پردئہ غیبت، جمعہ کے دن پڑھی جانے والی ایک زیارت ہے جو شیعوں کے برحق اصول عقائد پر مشتمل ہے اور وہ انہیں ان کے وظائف و ذمہ داریوں کی تعلیم دیتی ہے تاکہ صاحبان ایمان اپنے اعتقادات میں ولایت و امامت کے متعلق بھی اپنے عظیم فریضے سے غافل نہ ہوں اور ان کے دلوں میں انتظار فرج و گشائش اور امید کی ضیاء پاشی ہوتی رہے۔
کتاب ہذا میں دعائے ندبہ کے مختلف اعتراضات جو اب تک دنیا کے گوشہ و کنار میں سامنے آتے رہے ہیں اس کے خاطر خواہ جوابات قارئین کرام کو دست یاب ہوجائیں گے ساتھ ہی ساتھ وہ امام زمانہ - کی معرفت سے بھی مالا مال ہوں گے۔

انشاء اللّٰہ المستعان