دنیا میں اعمال کا اثر(٤)
وما أصابکم من مصیبة......
عزیزان گرامی! گذشتہ چند دنوں سے ہماری گفتگو انسان کے اعمال کے اس دنیا میں اثر کے بارے میں جاری تھی جس میں یہ عرض کیا گیا کہ اگر کوئی انسان نیک اعمال بجالاتے ہوئے اپنے ربّ کی اطاعت کرتا ہے تو اسے اس کے نیک اعمال کی جزا جہاں آخرت میں دی جائے گی وہاں اس دنیا میں بھی اسے پانچ قسم کے انعامات سے نوازا جائے گا جن میں سے ایک اس دنیا کی مشکلات کا حل ہونا ہے جسے بیانکر چکے اور دوسرا انعام جو عبد صالح کو اس دنیا میں عطا کیا جائیگا وہ بابرکت رزق کا ملنا ہے اور یہ انعامات اور لطف پروردگار اس عبد صالح کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کی نسلیں بھی اس کی وجہ سے ان انعامات سے بہرہ مند ہوتی ہیں جیسا کہ بیان کیا جا چکا اور آج بھی اس بارے میں دو روایتیں نقل کر رہے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
((انّ اللہ لیخلف عبد الصالح من بعد موتہ فی أھلہ ومالہ و ان کان أھلہ اھل السوء ثمّ قرء ھذہ الآیة الی آخرھا : وکان أبوھما صالحا))
خداوند متعال نیک بندے کے مال اورخاندان میں اس کی موت کے بعد اسکی جانشینی اپنے ذمہ لے لیتا ہے.اگرچہ اس کے گھر والے اچھے لوگ نہ ہوں. اور پھراس آیت کی آخر تک تلاوت کی: وکان أبوھما صالحا . [101]
ان آیات و روایات کی روشنی میں اتنا معلوم ہوگیا کہ انسان کے نیک اعمال اس اور اس کی اولاد کے رزق میں بہت اثر رکھتا ہے انہیں نیک اعمال میں سے جو انسان کے رزق میں وسعت کا باعث بنتے ہیں ایک خدا کی بارگاہ میں دعا کرنا ہے آج پوری دنیا کی پریشانی یہی رزق و معاش ہے اس دور میں ہر بندہ پریشان ہے کہ وہ کس طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کو پورا کرے. ماہ رمضان المبارک تو ہے ہی دعاؤں کا مہینہ ، اس میں جتنی بھی دعائیں پڑھی جائیں کم ہیں.آج آپکو اس پریشانی سے نجات کا ایک نسخہ بتا رہے ہیں اگر خلوص نیّت کے ساتھ خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرو گے تو انشاء اللہ رزق کی مشکل حل ہو جائے گی.خاص طور پر میرے نوجوان دوست اس بات کو توجہ سے سنیں گے.راوی کہتا ہے میں نے امام صادق علیہ السلام سے درخواست کی کہ مولا مجھے وسعت رزق کی دعا تعلیم فرمائیں. تو آنحضرت نے مجھے یہ دعا تعلیم فرمائی جس بڑھ کر میں نے رزق میں مؤثر کسی چیز کو نہیں پایا . اور وہ دعا یہ ہے : ((اللھمّ ارزقنی من فضلک الواسع الحلال الطیب،رزقا واسعا حلالا طیبا بلاغا للدنیا و الآخرة صبا صبا ھنیئا مریئا من غیر کدّ ولا منّ من أحد خلقک الا سعة من فضلک الواسع فانّک الواسع فانّک قلت: ((واسئلوا اللہ من فضلہ )) فمن فضلک أسأل و من عطیتک أسأل و من یدک الملاء أسأل )) [102]
خدایا ! مجھے اپنے وسیع حلال و پاک رزق میں سے دنیاوآخرت میں رزق پاک، حلال ووسیع عطافرما.جو برکت والا ہو ،نہ تو اس میں زیادہ زحمت ہو اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی کا احسان .اس لئے کہ تونے خود ہی تو فرمایا ہے کہ اللہ سے اس کے فضل کی درخواست کرو پس میں تجھ سے تیرے فضل وبخشش اور وسیع قدرت کی درخواست کرتا ہوں .
یقینا اگر کوئی شخص امام علیہ السلام کی تعلیم دی ہوئی اس دعا کو ہمیشہ دہراتا رہے تواسے دنیا میں روز گار کی مشکلات سے نجات مل سکتی ہے . خدا وند متعال تمام دوستوں اور بھائیوں کو مالی مشکلات سے نجات دے اور اپنے اہل وعیال کو حلال رزق کھلانے کی توفیق عطا فرمائے .
٣۔عمر کا طولانی ہونا :
انسان کے نیک اعمال کااثر جو اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے ان میں سے ایک اس کی عمر کا طولانی ہونا ہے اور بعض اعمال تو ایسے ہیں کہ ان میں تقوٰی بھی شرط نہیں ہے بلکہ اگر کوئی گنہگار شخص بھی انجام دے تواسے بھی اس کا اجر ضرور ملتا ہے جیسے صلہ رحمی وغیرہ . اور اس عمر کے طولانی ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان بسا اوقات بڑھاپے میں جا کر گناہوں سے پشیمان ہو جاتا ہے اور یہی چیز خدا کی رحمت کے اس کے شامل حال ہونے کا سبب بنتی ہے .
اور دوسری چیز جو دنیا میں انسان کے لئے بہت زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے وہ دوسروں پر احسان کرنا ہے اور یہ مہینہ نیکی اور احسان کا مہینہ ہے جس میں دس برابر اجر عطا کیا جاتا ہے .اس بارے میں ہم چند ایک احادیث نقل کر رہے ہیں تاکہ صلہ رحم اور احسان کی اہمیت واضح ہو سکے :
١۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :
(یکون الرجل یصل رحمہ فیکون قد بقی من عمرہ ثلاث سنین فیصیّرھا اللہ ثلاثین سنة و یفعل اللہ ما یشاء ) [103]
ایک انسان کی عمر کے تین سال باقی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے جس کی وجہ سے خدا وند متعال اس کی عمر تین سے بڑھا کر تیس سال کر دیتا ہے اور خدا جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے .
٢۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
((صلة الأرحام تزکّی الأعمال و تنمی الأموال وتدفع البلوٰی و تیسر الحساب و تنسیء الأجل )) [104]
صلہ رحم اعمال کو پاک ، اموال کو زیادہ ، بلاؤں کو دور ،حساب کو آسان اور موت کی تاخیر کا باعث بنتا ہے .
٣۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
((مانعلم شیئا یزید فی العمر الاّصلة الرّحم...)) [105]
مجھے نہیں معلوم کہ صلہ رحم سے بڑھ کر کوئی شے عمرکے طولانی ہونے کا باعث بنتی ہو... .
٤۔ سلیمان بن ہلال کہتا ہے میں نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں قبیلہ کے لوگ ایک دوسرے سے اچھا برتاؤ بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں . امام علیہ السلام نے فرمایا: ایسی صورت میں ان کے مال اور اولاد ترقی میں رہیں گے لیکن اگر وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں تو نہ تو ان کا مال باقی رہے گا اور نہ ہی اولاد . [106]
اگر مسلمان اسلام کے بتائے ہوئے ان احکامات اور اس اہل بیت علیہم السلام کی نورانی تعلیمات پر عمل کرتے تو آج اسلامی معاشرہ کی یہ حالت نہ ہوتی. اپ کے چھٹے امام علیہ السلام فرماتے ہیں : (( صلة الرحم و حسن الجوار یعمران الدیار و یزیدان فی الأعمار )) [107]
صلہ رحم اور ہمسائیوں سے اچھا سلوک شہروں کو آباد اورعمروں کے طولانی ہونے کا موجب بنتے ہیں.
اسی طرح امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں :
((القول الحسن یثری المال و ینمی الرزق و ینسی فی الأجل و یحبب الی الأھل و یدخل الجنّة )) [108]
اچھی بات چار طرح کی نعمتوں کا باعث بنتی ہے:
١۔مال کا زیادہ ہونا
2۔ رزق میں برکت
3۔ موت کا مؤخر ہونا
٤۔ خاندان کی محبت
انسان کے اعمال کااثر(٥)
وما أصابکم من مصیبة....
عزیزان گرامی! ہماری گفتگو انسان کے اعمال کی تاثیر کے بارے میں جاری تھی کہ اگر کوئی انسان نیک اعمال بجالاتا ہے توخدا وند متعال اس کے اجر کو ضائع نہیں کرتا جیسا کہ اس نے خود بھی اس کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :
((فانّ اللہ لا یضیع أجر المحسنین )) [109]
ترجمہ:خدا احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا . اور یہ اجر جس طرح آخرت میں انسان کے نامہ اعمال میںدرج ہوگا.اور اس کی وجہ سے اس کے بجالانے والے پر لطف خدا ہوگا اسی طرح اس دنیا میں بھی نیک انسان کو اس کے اعمال کا نتیجہ اور انعام ملے گا .انہیں انعامات الہی میں سے چوتھے اور پانچویں انعام کے بارے میں آج انشاء اللہ گفتگو کی جائے گی .
٤۔ اجتماعی وقار :
تقوٰی اورپرہیز گاری کا دنیا میں ایک اثر یہ ہے کہ متقی انسان کا معاشرے کے اچھے اور برے تمام لوگوں کے درمیان عزّت و احترام ہوتا ہے چاہے وہ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں.ہر معاشرہ میں عام لوگوں کی جن پر امید ہوتی ہے وہ یہی افراد ہیں . اس کی بہترین دلیل جناب یوسف علیہ السلام کی داستان ہے جسے قرآن نے بھی نقل کیا کہ دو افراد جو جناب یوسف علیہ السلام کے ہمراہ زندان میں تھے وہ ایمان سے بے بہرہ تھے لیکن اس کے باوجود حضرت یوسف علیہ السلام کا تقوٰی باعث بنا کہ وہ ان کی طرف مائل ہوں .انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آکر اپنا خواب بیان کیا اور اس کی تعبیر پوچھی اور اس کی وجہ جناب یوسف علیہ السلام کا ان نظر میں پرہیز گار ہونا تھا . [110]
قرآن واضح طور پر یہ بیان کر رہا کہ وہ لوگ جناب یوسف کے تقوٰی سے متاثر ہوکر ان کے پاس آئے اور پھر مصر کے خزانوں کی چابیوں کا ان کے سپرد کیا جانا بھی ان کے تقوٰی کی بناء پر تھا. قرآن کریم اس بارے میںفرماتا ہے:
((وقال الملک ائتونی بہ أستخلصہ لنفسی فلمّا کلّمہ قال انّک الیوم لدینا مکین امین . قال اجعلنی علی خزائن الأرض انّی حفیظ علیم . و کذالک مکّنا لیوسف فی الأرض یتبوّأ منھا حیث یشاء نصیب برحمتنا من نشاء ولا نضیع أجر المحسنین )) [111]
ترجمہ: اور بادشاہ نے کہا کہ انھیں لے آؤ میں اپنے ذاتی امورمیں ساتھ رکھوں گا اس کے بعد جب ان سے بات کی توکہا کہ تم آج سے ہمارے دربار میں باوقار امین کی حیثیت سے رہو گے . یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ہوں اور صاحب علم بھی . اور طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ جھاں چاہیں رہیں .ہم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاہتے ہیں دے دیتے ہیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع بھی نہیں کرتے.
توعزیزان گرامی! آپ نے دیکھا کہ جناب یوسف علیہ السلام کے تقوٰی نے انہیں اس قدر مشکل سے نجات بھی دی اور انہیں عزت و وقار بھی.
علّامہ اسمعیل حقّی نے روح البیان میں مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ بادشاہ مصر جناب یوسف علیہ السلام کے کردار کو دیکھ کر مسلمان ہو گیا تھا اور اس پر یہ بہترین اضافہ کیا ہے کہ اگر یوسف کا کردار بادشاہ مصر کو مسلمان بنا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ابو طالب کے کردار کو ان کے ایمان کی دلیل قرار نہ دیا جائے [112].
یقینا خداوند متعال نیک انسان کے اجر کو ضائع نہیں ہونے دیتا . قرآن کریم نے جناب یوسف علیہ السلام کے بھایئوں کے ان پاس گندم لینے کے لئے آنے اور یوسف کے ان شناخت کر لینے کے واقعہ کو یوسف علیہ السلام کی زبانی یوں نقل کیا ہے:(( أنا یوسف وھذا أخی قد منّ اللہ علینا انّہ من یتّق اللہ ویصبرفانّ اللہ لا یضیع أجر المحسنین)) [113]
انہوں نے کہا : میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہمارے اوپر احسان کیا ہے اور جو کوئی بھی تقوٰی اور صبر احتیار کرتا ہے اللہ نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا .
اوریہ حقیقت ہے کہ متّقی انسان ہمیشہ معاشرہ میںباوقار زندگی گذارتا ہے نہ تو اسے مخلوق میں سے کسی کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کسی سے لالچ . اگر اسکی نظر میں کوئی چیز ہوتی ہے تو وہ ذات پروردگار ہے.خدا وند متعال ہم سب کو بھی اپنی عبادت کی حقیقی لذت اور اس کے نتیجہ میں باوقار زندگی نصیب فرمائے .
٥۔لوگوں کے دلوں میں محبت :
نیک اعمال کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ خدا وند متعال لوگوںکے دلوں میں نیک ومتقی شخص کی محبت ڈال دیتا ہے اور یہ اس وقار سے بڑھکر ہے جسے ہم نے بیان کیا . اس بارے خدا وند متعال فرماتا ہے :
((انّ الّذین آمنوا و عملواالصّالحات سیجعل لھم الرحمٰن ودّا))
ترجمہ: بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے عنقریب رحمان لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر دے گا .
علّامہ طباطبائی لکھتے ہیں : یہ آیت مطلق ہے اور اس میںآخرت کی قید نہیں لگائی گئی .( ١) بنا بر ایں اہل ایمان و صالح افراد اس دنیا میں بھی محبوب ہوتے ہیں اورآخرت میں بھی .رسول خدۖا فرماتے ہیں:
((ماأقبل عبد بقلبہ الی اللہ الّا أقبل اللہ بقلوب المؤمنین الیہ حتٰیّ یرزقہ مودّتہم و رحمتہم )) [114]
جب کوئی بندہ اپنے دل کو خدا کی طرف متوجہ کرتا ہے توخدا مؤمنین کے دلوں کو اسکی طرف متوجہ کردیتا ہے تاکہ ان کی دوستی اور شفقت اسے نصیب ہو سکے .
نیز فرمایا : (( انّ اللہ اذا أحبّ مؤمنا قال لجبرائیل انیّ احببت فلانا فأحبّہ فیحبّہ جبرائیل ثمّ ینادی فی السماء الا أنّ اللہ أحبّ فلانا فأحبّوہ فیحبّہ أھل السماء ثمّ یوضع لہ قبول فی أھل الأرض )) [115]
خداوند متعال جب کسی مومن سے محبت کرتا ہے توجبرائیل سے فرماتاہے میں فلاں کو دوست رکھتا ہوں تم بھی اس سے دوستی کرو، جبرائیل اس سے دوستی کرتاہے اور پھر آسمان والوں کو ندادیتا ہے کہ اے اہل آسمان! خدا فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت و دوستی کرواور دنیا والوں میں اسکی مقبولیت پیدا کردیتا ہے.
طبرسی علیہ الرحمة نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :
((قل اللھمّ اجعل لی عندک عھدا واجعل فی قلوب المؤمنین ودّا فقالھما فنزلت ھذہ الآیة))
کہہ اے پالنے والے ! اپنی بارگاہ میں میرے لئے عھد قرار دے اور لوگو ں کے دلوں میں میری محبت پیدا فرما . جب حضرت علی علیہ السلام نے یہ دو جملے کہے تو اس وقت یہی آیت نازل ہوئی .
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پروردگار نے علی اور انکی اولاد کی محبت کو تمام مسلمانوں پر اس قدر واجب قرار دیا کہ اگر کوئی مسلمان ان کی محبت کا اقرار نہ کرے تو اس کی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی ہے .اوریہ وہی وعدہ الٰہی ہے جواس نے اپنے نیک بندوں کودیا ہے اور وہ اپنے وعدہ کے خلاف ہر گز عمل نہیں کرتا.
خدا وند متعال اس ماہ مبارک کے صدقے میں ہمیں سچا محبّ اہل بیت علیہم السلام بننے اور ان کی سیرت پر عمل کرنے تو فیق عطا فرمائے . والسّلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
|