ہدیہ مبلّغین
 

چودہواں درس

دنیا میں اعمال کا اثر(٢)
وما أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکمو یعفوا عن کثیر .
عزیزان گرامی ! کل کے درس میں یہ بیان کیا گیا کہ انسانی زندگی میں جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ دو طرح کی ہیں ایک وہ جن کی وجہ سے انسان کا معاشرہ میں مقام گر جاتا ہے اگر یہ مشکلات خدا کی راہ میں جھاد کی خاطر ہوں تو خدا وند متعال انسان کی مدد فرماتا ہے . آج ان مشکلات کی دوسری قسم کو بیان کیا جائے گا :
٢۔ یہ وہ مشکلات ہیں جو اس کے لئے عیب و نقص شمارنہیں ہوتیں اگر یہ انسان کے ارادہ کے قوی ہونے اور صبر و استقامت کا باعث بنتی ہوں تو نعمت شمار ہوں گی لیکن اگر انسان ان کی وجہ سے اپنے آپ کو معاشرہ میں پست وذلیل سمجھنے لگے تو یہ اس کے گمراہ ہونے کا باعث بھی بن سکتی ہیں .
نیک اعمال بجالانے کا ایک اثر اس دنیا میں یہ ہے کہ خداوند متعال انسان کو ایسی قدرت عطا فرماتا ہے جس کی وجہ سے بڑی سے بڑی مشکل بھی بہت معمولی دکھائی دیتی ہے اور ساتھ ساتھ صبرو استقامت کی توفیق بھی ملتی ہے .
قرآن کریم نے اس حقیقت کو ایک ہی جملہ میں ایک قانون کی صورت میں بیان فرمایا ہے :
((ومن یتّق اللہ یجعل لہ مخرجا )) [84]
ترجمہ: اورجو اللہ سے ڈرتا ہے خدا اس کے لئے نجات کاراستہ پیدا کردیتا ہے.
اگرچہ بعض روایات میں باہر نکلنے سے مراد گناہوں اورشبھات سے باہر نکلنا بیان کیا گیا ہے جیسا کہ مجمع البحرین میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کرنے کے بعدفرمایا:
((مخرجا من شبھات الدنیا و من غمرات الموت و شدائد یوم القیامة))
یعنی دنیا کے شبھات اور موت و روز قیامت کی سختیوںسے بچ نکلنے کا راستہ دکھانا ہے. لیکن جیسا کہ واضح ہے کہ رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس روایت میں تمام مصادیق کو بیان نہیں فرمایا بلکہ بعض کو بیان فرمایا ہے اور آیت مجیدہ دنیا کی مشکلات کو بھی شامل ہو گی .
جب تیسرے خلیفہ کے زمانہ میں جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کو ربذہ کے پہاڑوں میں جلا وطن کیا گیا تو امیر المؤمنین علیہ السلام جناب عقیل ، امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ انہیں شہر سے باہر خدا حافظی کرنے کے لئے گئے تو جناب ابوذر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

١۔طلاق:٢
((یا أبا ذر انّک غضبت للہ فارج من غضبت لہ ، ان القوم خافوک علی دنیاھم وخفتھم علی دینک فاترک فی أیدیھم ما خافوک علیہ واھرب منھم بما خفتم علیہ ، فما أحوجتھم الی ما منعتھم وما أغناک عمّا منعوک و ستعلم من الرابح غدا و الأکثر حسّدا ولو أنّ السمٰوٰت والأرضین کانتا علی عبد رتقا ثمّ اتقی اللہ لجعل اللہ لہ مخرجا لا یؤنسنّک الاّ الحقّ ولا یوحشنّک الاّ الباطل ؛ فلو قبلت دنیاھم لأحبّوک ولو قرضت منھا لأمنّوک)) [85]
رسول اکرم صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (( من أکثر الاستغفار جعل اللہ لہ من کلّ ھمّ فرجا ومن کلّ ضیق مخرجا )) [86]
جو شخص زیادہ استغفار کرتا ہے خدا وند متعال اسے ہر طرح کے غم و اندوہ سے رہائی اور تمام تر سختیوں سے نجات دیتا ہے.
اسی طرح روایات میں بیان ہوا ہے کہ جب اموی خلیفہ عبدالملک کو خبر ملی کہ پیغمبرۖ کی تلوار امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ہے تو اس نے قاصد کو بھیجا کہ امام علیہ السلام سے وہ تلوار امانت کے طور پر لے آئے ، امام علیہ السلام نے تلوار دینے سے انکار کردیا. جب عبدالملک کو معلوم ہوا تو امام علیہ السلام کو نامہ لکھ کردھمکی دی کہ اگر شمشیر میرے حوالے نہ کی تو بیت المال سے آپ کا وظیفہ بند کردیا جائے گا . امام علیہ السلام نے جواب میں لکھا : (( أمّا بعد فانّ اللہ ضمن للمتقین المخرج من حیث یکرھون و الرزق من حیث لا یحتسبون )) [87]
خدا وند متعال نے پرہیز گاروں کو ان سے سختیوں کے برطرف کرنے اور انہیں ایسے راستہ سے رزق عطا کرنے کی ضمانت دی ہے جس کا وہ گمان تک نہ کرتے ہوں .
قرآن کریم نے بھی مشکلات سے نجات پانے والوں کی کئی ایک داستانیں نقل کی ہیں.جنمیں سے دو داستانوں کو بطور نمونہ بیان کررہے ہیں :

1!۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نجات پانا:
قرآن کریم نے حضرت یونس علیہ السلام کے نجات پانے کے قصہ کو یوں بیان کیا ہے (( و انّ یونس لمن المرسلین اذاأبق الی الفلک المشحون فساھم فکان من المدحضین فالتقمہ الحوت وھو ملیم . فلو لا أنّہ کان من المسبّحین للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون . فنذناہ بالعراء وھو سقیم )) [88]
ترجمہ: اور بے شک یونس بھی مرسلین میں سے تھے جب وہبھاگ کر ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف گئے اور اہل کشتی نے قرعہ نکالا تو انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا. پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا جبکہ وہ اپنے نفس کی ملامت کر رہے تھے پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی کے شکم میں رہ جاتے .پھر ہم نے ان کو ایک میدان میں ڈال دیا جبکہ وہ مریض بھی ہو چکے تھے .
سورہ صافات کی یہ آیات واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ اگر جناب یونس علیہ السلام کو شکم ماہی سے نجات ملی تو اس کا سبب ان کا تسبیح و تقدیس پروردگارکرنا تھا ورنہ قیامت تک مچھلی کے شکم میں ہی رہتے.
سورہ انبیاء میں جناب یونس علیہ السلام کی دعا کوان کی نجات کا باعث قرار دیا گیا. (( و ذالنون اذ ذھب مغاضبا فظنّ أن لن نقدر علیہ فنادٰی فی الظلمات أن لا الہ الّا أنت سبحانک انّی کنت من الظالمین . فاستجبناہ لہ و نجّیناہ من الغمّ و کذٰلک ننجی المؤمنین )) [89]
ترجمہ:اور یونس کو یاد کرو جب وہ غصّہ میں آکر چلے اوریہ خیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پھر تاریکیوں میں جا کر آواز دی کہ پروردگار تیرے سواکوئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا .تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور انہیں غم سے نجات دلادی کہ ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلاتے ہیں.
ان آیات سے دو نکتے سامنے آتے ہیں ایک یہ کہ جناب یونس علیہ السلام کی نجات عام طریقہ اور عادی نہیں تھی جس طرح دنیا کے اسباب ہیں . اور دوسرا یہ کہ خدا کی بارگاہ میں نیّت خالص کے ساتھ حاجت طلب کی جائے تو بڑی سے بڑی مشکل ٹل سکتی ہے .اور یہ عمل انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی خلوص نیت کے ساتھ اس کی بارگا ہ میں جھک جائے وہ اس کی حاجت کو پورا کردیتا ہے اور اس کے لئے بہترین فرصت یہی ماہ مبارک کا مہینہ ہے جس میں انسان اپنی بڑی سے بڑی مشکل حل کروا سکتا ہے . لیکن شرط یہ کہ انسان نیک عمل اور اس پروردگار مطلق کی اطاعت و بندگی کے ذریعہ سے اس کے حضور میں پیش ہو .

٢۔ جناب زکریاعلیہ السلام کی مشکل کا حل ہونا :
جناب زکریا علیہ السلام کی اولاد نہیں تھی اور وہ اکثر اس وجہ سے پریشان رہتے اگرچہ نبی اللہ ہونے کی وجہ سے ان کے اندر مصائب جھیلنے کی قدرت زیادہ تھی لیکن پھر بھی وارث کا نہ ہونا ہمیشہ انہیں پریشان کئے رکھتا . قرآن کریم نے جناب زکریا کی داستان کو یوں بیان کیا ہے :
((وزکریا اذ نادٰی ربّہ ربّ لا تذرنی فردا وأنت خیر الوارثین . فاستجبنالہ ووھبنا لہ یحیٰی و أصلحنا لہ زوجہ انھم کانوا یسارعون فی الخیرات و یدعوننا رغبا و رھبا و کانوا لنا خاشعین )) [90]
ترجمہ:اور زکریا کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے ربّ کوپکاراکہ پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑ دینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے.تو ہم نے انکی دعا کو بھی قبول کرلیااور انہیں یحیٰی جیسا فرزند عطاکردیااور ان کی زوجہ کو صالحہ بنا دیا کہ یہ تمام وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور رغبت و خوف کے ہر عالم میں ہمیں کو پکارنے والے تھے اور ہماری بارگاہ میں گڑگڑا کر التجا کرنے والے بندے تھے .
سورہ آل عمران اور سورہ مریم کی آیات کے مطابق حضرت زکریا کی زوجہ محترمہ اولاد کے قابل نہیں تھیں اور ادھر سے جناب زکریا بھی بڑھاپے کے عالم میں تھے لہذا ایسی صورت میں اولاد کا کوئی امکان نہیں تھا لیکن چونکہ جناب زکریا مجسمہ عمل صالح اور اہل دعا وذکر تھے لہذا پردگار عالم نے ان کی اس پریشانی کو دور کرتے ہوئے انہیں اولاد نرینہ کی نعمت سے نوازا .
دعا ایسا عمل صالح ہے جو بلاؤں کو انسان سے دورکر دیتا ہے . امام موسٰی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :
((جب تم پر مشکل آئے تو خدا سے دعا کرواس لئے کہ دعابلاؤں کے دور ہونے کا سبب بنتی ہے))
خدا وند متعال ہم سب کو نیک اعمال بجالانے کی توفیق عطا کرے اور ہماراشمار امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشریف کے نیک مدد گاروں میں سے فرمائے .آمین

پندرہواں درس

دنیا میں اعمال کا اثر(٣)
وما أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم ....
عزیزان گرامی ! گذشتہ چند دنوں سے ہماری گفتگوانسان کے اعمال کے بارے میں جاری ہے کہ انسان جواعمال انجام دیتا ہے جس طرح ان کا اثر آخرت میں ظاہرہو گا اسی طرح اس دنیا میں بھی ان اعمال کااثر ظاہر ہوتا رہتا ہے اگر کوئی شخص نیک اعمال بجالاتا ہے تو اسے اسی دنیا میں پانچ طرح کے انعامات سے نوازا جاتا ہے. جن میں سے ایک دینا کی مشکلات سے محفوظ رہنا ہے جسے بیان کرچکے اور دوسری نعمت جو پروردگا ر اپنے نیک بندوں کو عطا کرتا ہے اسے آج کے درس میں بیان کیا جائے گا:

٢۔ رزق بابرکت :
خدا وند متعال اپنے نیک بندوں کو ان کے نیک اعمال کے بدلے میں بابرکت رزق عطافرماتا ہے جس کی بناء پر بندہ مومن دنیا میں کسی کا محتا ج نہیں رہتا .قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:
((ومن یتّق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب )) ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کا راستہ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایسے راستہ سے رزق دیتا ہے جس کا وہ خیال بھی نہیں کرتا ہے . [91]
نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ((من انقطع الی اللہ کفاہ اللہ مؤنتہ و رزقہ من حیث لا یحتسب و من انقطع الی الدنیا وکّلہ الیھا )) [92]
جو شخص خدا کے لئے دنیاسے قطع تعلق ہوتا ہے خدا اسکے اخراجات کو مہیاکرتا ہے. اوراسے ایسے راستہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ گمان تک نہ کرتا ہو اور جو دنیا سے دل لگا لیتا ہے تو خدا اسے اسی کے حوالے کر دیتا ہے .
محمد بن مسلم نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیاہے : (( أبی اللہ عزّ وجلّ الاّ أن یجعل أرزاق المؤمنین من حیث لا یحتسبون )) [93]
خدا وند متعال نے مومنین کے رزق کا ایسی جگہ سے اہتمام کیا ہے جس کا وہ گمان بھی نہ کرتے ہوں .
رزق غیر محتسب یعنی ایسا رزق جس کا انسان گمان نہ کرتا ہو اس سے مراد کیا ہے؟ یا یہ کہ ایسارزق جو اعمال صالحہ کا نتیجہ ہے اس سے مراد کیا ہے ؟ روایات اہل بیت علیہم السلام میں اس کے دو معانی بیان کئے گئے ہیں
١۔ جو کچھ دیا گیا وہ اس قدر بابرکت ہے کہ کبھی انسان کو پریشان نہیں ہونے دیتا . ورنہ کتنے مالدار لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں ہے لیکن وہ رزق ان کے حلق سے نہیں اترتا ، ہر پریشان ہیں ہر روز کوئی نئی مصیبت آپڑتی ہے اسے سے پتہ چلتا ہے کہ اسے بابرکت رزق نہیں دیا گیا . امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :(( یرزقہ من حیث لا یحتسب ای یبارک فیما أتاہ )) [94]
رزق لا یحتسب سے مراد بابرکت رزق ہے . ایسا رزق جو بغیر زحمت کے انسان کو مل جائے .
امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
))من أتاہ اللہ برزق لم یخطّ الیہ برجلہ و لم یمدّ الیہ یدہ ولم یتکلّم فیہ بلسانہ ولم یشتدّ الیہ ثیابہ ولم یتعرّض لہ ،کان ممن ذکرہ اللہ فی کتابہ: ومن یتّق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب)) [95]
جس شخص کو خدا وند متعال بغیر چلے ، بغیر ہاتھ ہلائے ، بغیر زبان کو حرکت دیئے ،بغیر سفر کئے،اس کی تگ و دو کئے بغیررزق عطا کرے تویہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا : ہم اسے ایسے راستہ سے رزق عطا کریں گے جس کا وہ گمان تک نہ کرتا ہو.

جناب زکریا اور حضرت مریم :
قرآن کریم کے مطابق جن افراد کو غیر منتظر رزق ملا ان میںسے ایک جناب مریم سلام اللہ علیہا ہیں جن کا مسلسل عبادت الٰھی میں مشغول رہنا باعث بنا کہ ان پر طرح طرح کی نعمتیں نازل ہوں . قرآن نے حضرت زکریا علیہ السلام کے حضرت مریم کے پاس حالت عبادت میں جانے کی داستان کو یوں نقل کیا ہے :
((وکفّلھا زکریا کلّما دخل علیھازکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یا مریم أنیّ لک ھذا قالت ھو من عند اللہ أنّ اللہ یرزق من یشاء بغیرحساب )) [96]
ترجمہ:اور زکریا نے اس کی کفالت کی کہ جب زکریا محراب میں داخل ہوتے تو مریم کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے کہ یہ کہاں سے آیا اور مریم جواب دیتیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے رزق بے حساب عطا کردیتا ہے.
امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہا کے پاس گرمیوں میں سردیوں کے پھل اور سردیوں میں گرمیوں کے پھل آیا کرتے تھے .جب حضرت زکریا علیہ السلام نے یہ غیر طبیعی چیزیں دیکھں تو خدا وند
متعال سے اولاد کی دعا کی اگرچہ ان کی زوجہ بوڑھی ہو چکی تھیں اور ان کی یہ دعا قبول ہوئی . [97]
یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ جس جھان کو ہم عالم اسباب کے نام سے پہچانتے ہیں وہ مستقل نہیں ہے. اور خدا وند متعال غیر طبیعی اسباب کے ذریعہ سے بھی اپنے نیک بندوں کی مدد فرماتا ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے انسان اپنے آپ کو متّقی تو بنائے .اس کے بعد دیکھنا کہ کیسے دنیا اس کے سامنے مسخر ہوتی ہے .

دو یتیم بچوں کا واقعہ:
انسان کے نیک اعمال کا فائدہ جس طرح اس کی اپنی ذات کو ہوتا ہے اسی طرح اس کی آنے والی نسلوں کو بھی ہوتا ہے قرآن مجید نے حضرت موسیٰ اور حضرت حضر کی داستان کو یوں نقل کیا ہے : ((موسیٰ نے خضر سے کہا کیا مجھے اپنے ساتھ لے چلو گے تاکہ تمھارے سے علم سیکھ سکوں ؟ اس نے کہا تم صبر نہیں کرپاو گے ان مسائل پر جن کے بارے میں آگاہ نہیں ہو.آنحضرت نے کہا : انشاء اللہ صبر کروں گا
١۔ تفسیر عیاشی ذیل آیت مذکورہ
اور آپ کی مخالفت نہیں کروں گا . اس عالم نے کہا :پس جو کچھ میں انجام دوں اس کے بارے میں سوال مت کرنا یہاں تک کہ میں خود تمہیں اس آگاہ کروں .
دونوں مل کرچلے ، جب بھی جناب خضر کوئیغیرطبیعی یا خارق العادہ کام انجام دیتے حضرت موسٰی اعتراض کرنے لگتے .یہاں تک کہ وہ اپنے کام کا راز بتاتے. اتنے میں دو یتیم بچوں کی دیوار کے پاس پہنچے اور کہا : (( و أمّا الجدار فکان لغلامین یتیمین فی المدینة و کان تحتہ کنز لھما و کان أبوھما صالحا فأراد ربّک أن یبلغا أشدّھما و یستخرجا کنزھما رحمة من ربّک وما فعلتہ عن أمری )) [98]
ترجمہ:اور یہ دیوار شہر کے دو بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت وتوانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں یہ سب تمہارے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے.
یہ آیت مجیدہ اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ان دو یتیم بچوں کو خزانہ ملنے کا سبب ان کے آباؤ و اجدادکا نیک وصالح ہونا تھا . اس آیت کے ذیل میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:(( انّ اللہ لیحفظ ولد المؤمن الی الف سنة و ان الغلامین کان بینھماوبین ابویھماسبعمأة سنة)) [99]
بے شک خداوند متعال مومن کی نسل کوایک ہزارسال تک محفوظ رکھتا ہے اور ان دو یتیم بچوںاور ان کے والدین کے درمیان سات سو سال کا فاصلہ تھا .
عزیزان گرامی ! آپ نے دیکھا کہ نیک اعمال کا اس دنیامیں ایک فائدہ یہ کہ انسان کی نسل نابود نہیں ہوتی اور اس کی واضح مثال خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آج تک اور پھر قیامت تک باقی رہنا ہے جبکہ بنو امیہ اور بنو عباسیہ نے اپنے سارے خزانے لٹوا دیئے تاکہ کسی طرح محمد و آل محمد(ع) کا نام مٹا سکیں .لیکن یہ آل محمد کی عبادت و بندگی پردگار کا نتیجہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت طاقت نہ تو ان کو مٹا سکی اور نہ ہی ان کے چاہنے والوں .
نیز فرمایا : ((انّ اللہ لیصلح بصلاح الرجل المؤمن ولدہ وولد ولدہ یحفظہ فی دویرتہ و دویرات حولہ ، فلا یزالون فی حفظ اللہ لکرامتہ علی اللہ ، ثمّ ذکر الغلامین فقال : وکان أبوھما صالحا ألم تر أنّ اللہ شکر صلاح أبیھما)) [100]
خدا وند متعال ایک شخص کے صالح ہونے کی وجہ سے اسکی اولاد اوراس کی اولاد کی اولاد کو بھی نیک وصالح بنا دیتا ہے اور اسے اپنے اور اطراف کے گھروں میں محفوظ رکھتا ہے اور اس شخص کی کرامت کی وجہ سے اس کے اپنے گھر والے اور ہمسائے خداکی پناہ میں رہتے ہیں . اس کے بعد امام علیہ السلام نے ان دو یتیم بچوں کا قصہ بیان کیا اور فرمایا : کیا یہ فکر نہیں کرتے ہو کہ خدا نے ان کے نیک باپ کی قدر دانی کی ہے ؟!
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے آپ کو خدا کافرمانبردار بنا لیتا ہے ہر ہر عمل میں اس کے حکم کی پیروی کرتا ہے تو خدا وند متعال اس کو بھی بلند کردیتا ہے اور پھر اس کی نسل کے ذریعہ سے اسے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھتا ہے اور ایسی زندگی جس کے بعد موت نہیں ہے.