|
جھالت کا علاج(٢)
قال المھدی علیہ السلام : آذانا جھلاء الشّیعة و حمقائھم ومن دینہ جناح البعوضة أرجح منہ .
عزیزان گرامی ! ہماری گفتگو جھالت کے علاج کے بارے میں کہ کیا کیا جائے جس سے ہم اپنی جھالت کو دور کر کے امام زمانہ کوراضی کرسکیں . توکل کے درس میں یہ بیان کیا گیا کہ جھل بسیط کو دور کرنے کا واحد علاج یہ ہے کہ انسان علم حاصل کرے علماء کی طرف رجوع کرے. اس لئے کہ علم کے بغیر عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے . قرآن مجید میں تقریبا پچھتر بار جہاں پہ ایمان کا تذکرہ ہوا سا تھ ہی عمل کے بارے میں بھی کہا گیا(( الاّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات )) یعنی علم بغیر عمل کے مفید نہیں اور عمل بغیر علم کے فائدہ مند نہیں ہو سکتا .
صدر اسلام کے مسلمان جب ایک دوسرے سے ملتے توکہا کرتے (( والعصر انّ الانسان لفی خسر . الاّ الّذین آمنوا و عملواالصالحات ))اگر کوئی شخص عمل کرنا چاہتا ہے تو اسے عالم ہونا چاہئے لیکن عالم ہونے کا معنی یہ نہیں کہ وہ پانچ یا دس سال مدرسہ میں پڑھے بلکہ اگر اپنی مسجد کے مولانا صاحب کے پاس ہر روز دس منٹ جائے اور اپنی نماز اور جو کچھ دین کے بارے میں جانتا ہے اسے پیش کرے اگر درست ہے تو الحمد للہ ورنہ اصلاح کرے . جو لوگ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن صحیح نماز نہیں پڑھتے ، اس کے آداب سے ، احکام نماز شکیات وغیرہ سے آگاہ نہیں ہیں قیامت کے دن انہیں خطاب کیا جائے گا (( ھلّا تعلّمت))نماز کے احکام کو کیوں نہیں سیکھا . کیا تمھارا بازار جانا ضروری تھا یا تمھاری نماز ، کیا تمھارا دوکان کھولنا ضروری تھا یا تمھاری نماز . کیا ایف اے بی اے کرنا ضروری تھا یا احکام نماز . تمھیں ان سب کاموں کی فکر تو تھی ، انہیں تو اہمیت دیتے تھے لیکن اگر کسی چیز کی اہمیت نہیں تھی .
تو دین کا علم ہے وہ نماز و روزے کے احکام ہیں .پس اسے جھنّم میں لے جایا جائے . کتنی حماقت کی بات ہے کہ انسان اس چند روزہ زندگی کے لئے جس کا کوئی بھروسہ ہی نہیں کہ کس وقت ختم ہوجائے . اس کے لیے تو دن رات کوشش کرے لیکن وہ زندگی جو ابدی زندگی ہے جو انسان کا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے اس سے بے خبر رہے اس گھر کے لئے کچھ نہ کرے .
عزیزان گرامی !قرآن نے یہاں پر ایک اور بھی ذمہ داری بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ انسان جس طرح اپنی عاقبت کی فکر کرتا ہے اسی طرح اپنے گھر والوں اپنی بیوی ،اپنے بچوں کی بھی فکر کرے اس لئے کہ کہیں خدا نخواستہ یہ نہ کہ جس اولاد کی خاطر انسان اپنی پوری زندگی کا سکون تباہ کر کے بیٹھاہو وہی اولاد کل باپ کی آنکھوں کے سامنے جہنم کاایندھن بن رہی ہو .لہذاقرآن نے فرمایا:
((یاأیھاالّذین آمنوا قوا أنفسکم و أھلیکم نارا وقودھا الناس و الحجارة )) [74]
ترجمہ:اے ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اوقات منبر پر فرماتے: افسوس آخری زمانہ کے بچوں پر ان کے والدین کی وجہ سے. صحابہ کرام عرض کرتے : یا رسول اللہ کیا وہ مشرک ہوں گے ؟ فرماتے نہیں، ہونگے تو مسلمان لیکن انہیں ان کی دنیا کی فکر تو ہو گی مگر ان کی آخرت سے غافل ہوں گے . [75]
ماںباپ کو یہ فکر تو ہو گی کہ ہمارے بچے اچھی سے اچھی یونیورسٹی میں پڑھیں تاکہ ان کی دنیا سنور جائے لیکن ان کی آخرت سے بے پرواہ ہونگے . ماں کی خواہش یہ ہو گی کہ میری بیٹی ڈاکٹر یا پروفیسر بن جائے لیکن اگر اسے اس کی فکر نہیں کہ اس نے کبھی حجاب کیا ہے یا نہیں ؟ اسے عورتوں کے ضروری مسائل سے آگاہی ہے یا نہیں ؟ ایسے ماں باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کے لئے جھنم خرید رہے اس لئے کہ اتنا پیسہ خرچ کر کے بیٹی کو کالج یا یونیورسٹی میں بھیجا جبکہ اسے نہ تو پردے سے آگا ہکیا اور نہ ہی نامحرم کے ساتھ بولنے یا اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے .
تو یقینا ایسی بیٹی خود بھی جھنّم میں جائے گی اور اپنے والدین کو بھی جھنّم لے جائے گی .
اگر بیٹی یا بیٹاامتحان میں ناکام ہو جائے تو ماں باپ کوپوری پوری رات نیند نہ آئے لیکن اگر صبح کی نماز نہ پڑھیں تو کوئی فکر نہیں .
عزیزان گرامی!ضروری احکام کا سیکھنا سب پر واجب ہے. اے میرے عزیز دوستو اور اے میری ماں بہنو! یاد رکھ لو کہ ایک توضیح المسا ئل جو مجتھد کی ساٹھ یا ستر سال کی زحمت کا نتیجہ ہوتا ہے اسے گھر بیٹھے نہیں سمجھا جا سکتا .لہذاضروری ہے کہ کسی سے پوچھیں ، مجلس میں جائیں ، درس اخلاق میں جائیں . علماء کی محفل سے فائدہ اٹھائیں . اور یہ بھی یاد رکھ لیں اگر اپنی اولاد کو علماء سے دور رکھو گے اللہ کے رسولۖ فرما رہے کہ ایسی تین بیماریوں میں مبتلا ہو گے جن کے درد کا علاج ممکن نہ ہو گا . فرمایا:
(( سیأتی زمان علٰی امّتی یفرّون من العلماء کما یفرّ الغنم من الذّئب واذاکان کذٰلک سلّط اللہ علیھم من لا رحم لہ ولا علم لہ ولا حلم لہ و ترفع البرکة من أموالھم و یخرجون من الدّنیا بلا ایمان)) [76]
میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ علماء سے اسی طرح بھاگیں گے جیسے بھیڑ بھیڑئے سے بھاگتی ہے اور جب ایسی حالت ہوگی تو خدا وند متعال ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کر دے گا جن کے دل میں نہ تو ان کے بارے میں رحم ہوگا ، نہ علم ہوگا ، نہ صبر و بردباری ہوگی . اور پھر ان کے اموال سے برکت اٹھا لی جائے گی. اور وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے جائیں گے کہ ان کے دل میں ایمان کا ذرہ نہ ہوگا .
آئمہ علیھم السلام کے اصحاب کی سیرت دیکھیں .کیا ہم ان سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں ؟ کیا ہم روایات کو بہتر سمجھتے ہیں یا وہ ؟ یقینا وہ ہم سے بہتر تھے لیکن اس کے با وجود اپنے شک کو دور کرنے کے لئے کیا کیا کرتے ؟ ہمیں بھی ویسا ہی کرنا چاہئے .
امام صادق علیہ السلام ، امام رضا علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام کے صحابہ میں بعض ایسے بھی تھے جو اپنے امام زمانہ کے سامنے اپنا عقیدہ پیش کرتے. جن میں سے ایک شہزادہ عبدالعظیم حسنی ہیں جن کا مقام اتنابلند کہ اگر کوئی ان کی زیارت کرلے تو اسے زیارت امام حسین علیہ السلام کا ثواب مل جائے گا . ان کا روضہ تہران میں ہے . یہ امام ہادی علیہ السلام کے نمائندہ بھی ہیں لیکن پھر بھی اطمینان قلب کی خاطر امام زمانہ کے پاس آتے ہیں اور آکر عرض کرتے ہیں: یابن رسول اللہ میں عقیدہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں . کہا : میں خدا کو اس کی صفات کے ساتھ مانتا ہوں ، پیغمبرۖ کی نبوت اور آپ کی امامت پر ایمان رکھتا ہوں ، قیامت کو مانتا ہوں خلاصہ ایک ایک عقیدہ بیاں کیا. امام ہادی علیہ السلام نے اس کا عقیدہ سننے کے بعد فرمایا :
((ھذا دینی و دین آبائی ))
یہی میرا اور میرے آباؤ و اجداد کا دین ہے .
یہ ہے شک اور جھالت کو دور کرنے کا راستہ کہ انسان کسی عالم کے سامنے اپنا عقیدہ پیش کرے اور یوں اپنی اصلاح کرے . اور اگر ایسا نہیں کرتا تو آپ سن چکے کہ خدا وند متعال اسے تین طرح کے عذاب میں مبتلا کردے گا . خدا ہم سب کو علماء کی صحبت اور ان سے اپنے اپنے عقیدوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین
دنیا میں اعمال کا اثر(١)
قال اللہ تبارک و تعالٰی فی کتا بہ المجید . بسم اللہ الرحمٰن الرحیم .و ما أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم و یعفوا عن کثیر .
عزیزان گرامی ! تمام ادیان الٰھی اور خاص طور پر دین مقدس اسلام کی نگاہ میں انسان کی اہمیت اور اسکا مقام اس کے اعمال کا مرہون ہے . البتہ عمل سے مراد اعضا ء و جوارح کی حرکت نہیں ہے بلکہ انسان کی نیّت اور ا س کی معرفت کو بھی شامل ہے جیسا کہ خدا وند متعال نے بیان فرمایا :
((ولکلّ درجات ممّا عملوا وما ربّک بغافل عمّا یعملون )) [77]
ترجمہ: اورہر ایک کے لئے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہیںاور تمہارا پروردگار ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے .
نیز سورہ احقاف میں فرمایا :
((ولکلّ درجات ممّا عملوا و لیوفّیھم أعمالھم وھم لا یظلمون )) [78]
ترجمہ: اور ہر ایک کے لئے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہونگے اور یہ اس لئے کہ خدا ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا .
انسانی حقیقت عمل کے سایہ میں ہے انسان کا نیک یا بد ہونا اس کے عمل کے تابع ہے .جناب نوح علیہ السلام سے خدا وند متعال کا یہ فرمان ((انّہ لیس من أھلک انّہ عمل غیر صالح)) اس میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ خدا نے یہ نہیں فرمایا : تمھارے بیٹے کے اعمال صالح نہیں ہیں بلکہ فرمایا : تمھارا بیٹا عمل صالح نہیں ہے .یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کی حقیقت اس کا عمل ہے اور انسان اپنے اعمال کا مجسمہ ہے . اب اگر اس کے اعمال نیک ہوں گے تو وہ خود بھی نیک ہی ہو گا اور اگر اس کے اعمال برے ہوں گے تو وہ خود بھی برا ہو گا.
قیامت میں بھی انسان اپنے اعمال کی صورت میںمحشور ہوگا . بلکہ اس دنیا میں بھی انسان کا حقیقی چہرا اس کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے لیکن اسے خاص افراد کے سوا کوئی نہیں درک کر سکتا.
انسان جتنے بھی اعمال بجا لاتا ہے وہ نابود ہونے والے نہیں ہیں روز قیامت کامل طور پر آشکار ہونگے اور اس دنیا میں بھی کسی حد تک ان کا اثر باقی رہتا ہے .
یہ اثر کبھی انفرادی ہوتا ہے اور کبھی اجتماعی . یعنی یا تو اس کے اعمال کا خود اس پر پڑتا ہے یا پورے معاشرہ پر.اسی طرح انسان کے اعمال کا اثر کبھی اس کی روح پر پڑتا ہے اور کبھی اس کے دنیاوی امور پر.
اس میں شک نہیں ہے کہ ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اوراس کی فیملی اس دینا میں اچھی زندگی بسر کرے.انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے اور پھردین مبین اسلام نے بھی اس کی نفی نہیں کی ہے بلکہ عبادت کے مفہوم کو اس قدر وسعت دی کہ اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال کی خوشحالی کی خاطر رزق کمانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اس عمل کو عبادت قرار دیا اور بیوی بچوں پر کھلے دل سے خرچ کرنے کو مومن کی علامت قرار دیا کی مومن معاش کے سلسلے میں گھر والوں پر سختی نہیں کرتا اور جو ایسا کرتا خدا وند متعال اس کے رزق میں برکت دیتا ہے اور وہ کبھی بھی تنگ دستی کا شکار نہیں ہوتا . البتہ اسراف کی اسلام اجازت نہیں دیتا .
تو اسلام نے عبادت کے مفہوم کو صرف نماز و روزہمیں منحصر نہیں کیا . ایک مرتبہ صحابہ کرام نے ایک نوجوان کو دیکھا جس کے کندھے پر بیلچہ ہے اور مزدوری کی خاطر جارہا . انہیوں نے دیکھ کر کہا : یہ کس قدر پیارا نوجوان ہے اے کاش ! اپنی اس جوانی کو عبادت خد ا میں صرف کرتا تو اللہ کے رسول ۖ نے فرمایا : یہ گمان مت کرو کہ سرف نمازو روزہ ہی عبادت ہے بلکہ رزق حلال بھی عین عبادت ہے .
نیا کی تلاش بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے اگر اس کے حاصل کرنے کا مقصد برا نہ ہو ایسی دنیا جوانسان کے دین میں، اس کی آخرت میں اس کی مدد گار ہو وہ حقیقت میں دنیا نہیں ہے بلکہ آخرت ہی آخرت ہے . ابن ابی یعفور امام صادق علیہ السلام کے صحابی ہیں وہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : مولا کیا کروں دل میں دنیا کی محبت پیدا ہو گئی ہے. اسے حاصل کرنے کو جی چاہتا ہے. امام علیہ السلام نے فرمایا : دنیا حاصل کرنے کے بعد اسے کیا کر وگے؟ عرض کرنے لگا:میں چاہتا ہوں اپنی اور اہل وعیال کی ضروریات کو پورا کروں ، صلہ رحمی کروں، صدقہ دوں، اور حج و عمرہ بجا لاؤں. فرمایا : یہ دنیا طلبی نہیں بلکہ آخرت طلبی ہے.
قرآن نے بھی مرنے والے کے مال کو نیکی سے تعبیر کیاہے :
(( کتب علیکم اذا حضر أحدکم الموت ان ترک خیرا الوصیة للوالدین والأقربین بالمعروف حقّا علی المتّقین )) [79]
ترجمہ:تمہارے اوپر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی مال چھوڑا ہے تواپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کر دے.یہ صاحبان تقوٰی پر ایک طرح کا حق ہے.
اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
((نعم العون علی التقوٰی الغنٰی )) [80]
تقوٰی حاصل کرنے کے لئے مال بہترین مدد گار ہے .
اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
((اسألوا اللہ الغنٰی فی الدنیا و العافیة )) [81]
خدا سے دنیا میں تونگری اورعافیت طلب کرو.
ایسا مال دنیا جو انسان کے حرص و طمع ، لالچ و حسداور شہرت طلبی کا باعث نی بنے بلکہ اسے راہ خدا میں ، راہ حسین میں خرچ کرنے کے لیے طلب کرے تو وہ دنیا کی محبت نہیں کہلائے گا . اس لئے کہ دنیاکی محبت ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جو انسان کی آخر ت کے لئے مانع بنے ،اسے سعادت اخروی تک پہنچنے سے روک رہی ہو ورنہ ہرطرح کا مال ،مال دنیاشمار نہیں ہوتا .
بہر حال اگر دنیا کی محبت ، خدا کی محبت ،۔ اہلبیت علیہم السلام کی محبت کے مقابلہ میں آجائے تو دنیا کی محبت کو محبت خدا، محبت رسولۖ اور محبت آل رسول پر قربان کر دینا چاہئے .
آنے والے چند دن ہماری گفتگو کا محور انسان کے اعمال کا اس دنیا میں اثر رہے گا .
عزیزان گرامی ! یہ دنیا عمل کا مقام ہے انسان جو کچھ انجام دے گا اس کا نتیجہ بعض اوقات یہاں پر پا لے گا یا پھر آخرت میں .جیساکہ قرآن کریم نے ارشاد فرمایا :
((ا لّذی خلق الموت والحیاة لیبلوکم ایّکم أحسن عمل))
ترجمہ:( بابرکت ہے وہ ذات)جس نے موت و حیات کو اس لئے پیداکیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے.
تو عزیزان گرامی! انسان اگر نیک اعمال انجام دے گا توخدا وند متعال اسے اسی دنیا میں ایسی ایسی نعمتوں سے نوازے گا کہ جن کے بارے میں اس نے کبھی فکر ہی نہ کی ہو .اس لئے کہ وہ عادی طریقہ سے انسان کو نہیں ملیں گی بلکہ غیر عادی اور غیر طبیعی راستوں سے انسان کو عطا کی جائیں گی.وہ نعمتیں جو ایک نیک انسان کو ، بندہ مومن کو اس دنیا میں عطا کی جائیں گی مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ مشکلات کا حل ہون
٢ ۔ رزق وسیع
٣۔ اجتماعی وقار
٤۔ معاشرہ میں محبوبیت
٥۔ عمر کا طولانی ہون
ان میں سے ہر ایک کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا :
١۔ مشکلات کا حل ہونا:
مجموعی طور پر انسانی زند گی میں جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ دو طرح کی ہیں :
١) ایسی مشکلات جن سے انسان کی عزّت ختم ہو جاتی ،معاشرہ میں اور اپنے جاننے والوں میں اس کا مقام ختم ہوجاتا ہے .
ایسی مشکلات اگر راہ خدا میں جھاد کی خاطر نہ ہوں تو انسان کے لئے ننگ وعار شمار ہوتی ہیں ااور دنیا کی کوئی نعمت انسان کی روح کو تسکین نہیں پہنچا سکتی . لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ ایسے واقعات کے پیش آنے سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش بھی کرے اور ساتھ ساتھ خدا وند متعال سے پناہ بھی مانگتا رہا .
قرآن کریم کی آیا ت اور احادیث کی روشنی میں جوکچھ ملتا ہے وہ یہی ہے کہ اگر بندہ مومن جان بوجھ کر غلط قدم نہ اٹھائے تو خدا وند متعال اسے ایسے حوادث سے محفوظ رکھتا ہے.جیسا کہ خود پروردگار عالم نے فرمایا : (( واعلموا أنّ اللہ مع المتّقین )) [82]
اور یہ سمجھ لو کہ خدا پرہیز گاروں ہی کے ساتھ ہے
دوسرے مقام پر تاکید کے ساتھ فرمایا :
((و انّ اللہ مع المحسنین )) [83]
اور یقینا اللہ حسن عمل والوں کے ساتھ ہے.
بندہ مومن کو اپنی عزّت و ناموس کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ خدا وند ومتعال کی مدد کی ضرورت ہے اور یہ آیات اسے مایوس نہیں ہونے دیتیںبلکہ اس کی روح کی تسکین کا باعث بنتی ہیں کہ اگر کہیں اس بندہ مومن کو کوئی مشکل پیش آگئی تو اسے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ خدا اس کی مدد اس کے شامل حال ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے مشکلات سے گھبراتے نہیں ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ لمحہ دو لمحہ کے لئے ہے اس کے بعد خود بخود برطرف ہو جائے گی . خدا وند متعال ہر مومن کو ایسی مشکلا ت سے محفوظ رکھے جن سے اس کی آبرو ریزی کا خطرہ ہو .
|
|