|
روزے کا فلسفہ
یاأیّھاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون[21].
ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تاکہ شاید اس طرح تم متّقی بن جاؤ.
عزیزان گرامی!جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند متعال نے روزے کا فلسفہ تقوٰی کو قرار دیاہے یعنی روزہ تم پر اس لئے واجب قرار دیا تا کہ تم متقی بن سکو، پرہیز گار بن سکو.اور پھر روایات میں اسے روح ایمان کہا گیا .امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
(( من أفطر یوما من شھر رمضان خرج روح الایمان منہ)) [22]
جس شخص نے ماہ رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھا اس سے روح ایمان نکل گئی .
یعنی روزے کی اہمیت اور اس کے فلسفہ کا پتہ اسی فرمان سے چل جاتا ہے کہ
روزے کے واجب قرار دینے کا مقصد ایمان کو بچانا ہے اوراسی ایمان کو بچانے والی طاقت کا دوسرا نام تقوٰی ہے جسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨٣ میں روزے کا فلسفہ بیان کیا گیا.
تو یہ تقوٰی کیا ہے جسے پروردگار عالم نے روزے کا فلسفہ اور اس کا مقصد قرار دیا ہے ؟ روایات میں تقوٰی کی تعریف میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں :
١۔ اطاعت پروردگار
٢۔ گناہوں سے اجتناب
٣۔ ترک دنی
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
(( علیک بتقوی اللہ فانّہ رأس الأمر کلّہ))
تمہارے لئے تقوٰی ضروری ہے اس لئے کہ ہر کام کا سرمایہ یہی تقوٰی ہے .
حقیقت یہ ہے کہ ایسا روزہ جو انسان کو گناہوں سے نہ بچاسکے اسے بھوک و پیاس کا نام تو دیا جاسکتا ہے مگر روزہ نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ روزہ کا مقصد اور اس کا جو فلسفہ ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ جس روزہ کا حکم دیا گیا تھا ہم نے وہ نہیں رکھا ، بلکہ یہ ہماری اپنی مرضی کا روزہ ہے جبکہ خدا ایسی عبادت کو پسند ہی نہیں کرتا جو انسان خداکی اطاعت کے بجائے اپنی مرضی سے بجا لائے ورنہ شیطان کو بارگاہ ربّ العزّت سے نکالے جانے کا کوئی جواز ہی رہتا چونکہ اس نے عبادت سے تو انکار نہیں کیا تھا .حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : (( قلت یا رسول اللہ ! ما افضل الأعمال فی ھذا الشھر ؟ فقال یا ابا الحسن أفضل الأعمال فی ھذا الشّھر ، ألورع من محارم اللہ ۔عزّوجلّ۔.))[23]
امیرالمؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا: یارسول اللہ !اس مہینہ میں کونسا عمل افضل ہے ؟ فرمایا : اے ابوالحسن ! اس ماہ میں افضل ترین عمل گناہوں سے پرہیز یعنی تقوٰی الھی ہے.
نیز مولائے کائنات فرماتے ہیں:
(( علیکم فی شھر رمضان بکثرة الاستغفار و الدّعا فأمّا الدّعا فیدفع بہ عنکم البلاء و أمّا الاستغفار فیمحٰی ذنوبکم)) [24]
ماہ رمضان میں کثرت کے ساتھ دعا اور استغفار کرو اس لئے کہ دعا تم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے اور استغفار تمھارے گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے .
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (( من صام شھر رمضان فاجتنب فیہ الحرام والبھتان رضی اللہ عنہ و أوجب لہ الجنان) ) [25]
جو شخص ماہ رمضان کاروزہ رکھے اور حرام کاموں اوربہتان سے بچے تو خدا اس سے راضی اور اس پر جنّت کو واجب کردیتا ہے .
اور پھر ایک دوسری روایت میں فرمایا : ((انّ الجنّة مشتاقة الی أربعة نفر : ١۔ الی مطعم الجیعان . ٢۔ وحافظ اللّسان. ٣۔ و تالی القرآن . ٤۔ وصائم شھر رمضان .
جنّت چار لوگوں کی مشتاق ہے:
١۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے والے
٢۔ اپنی زبان کی حفاظت کرنے والے
٣۔ قرآن کی تلاوت کرنے والے
٤۔ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے [26]
روزے کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان حرام کاموں سے بچے اور کمال حقیقی کی راہوں کو طے کرسکے .رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
((شھر رمضان شھر فرض اللہ ۔ عزّوجلّ ۔ علیکم صیامہ ، فمن صامہ ایمانا و احتسابا ، خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمّہ)) [27]
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خدا وند متعال نے تم پرروزے واجب قرار دیئے ہیں پس جو شخص ایمان اور احتساب کی خاطر روزہ رکھے تو وہ اسی طرح گناہوں سے پاک ہو جائے گا جس طرح ولادت کے دن پاک تھا .
ویسے بھی گناہ سے اپنے آپ کو بچانا اور حرام کاموںسے دور رہنا مومن کی صفت ہے اس لئے کہ گناہ خود ایک آگ ہے جو انسان کے دامن کو لھی ہوئی ہو اور خدانہ کرے اگر کسی کے دامن کو آگ لگ جائے تو وہ کبھی سکون سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے بجھا نہ لے اسی طرح عقل مند انسان وہی ہے جو گناہ کے بعد پشیمان ہو اور پھر سچی توبہ کرلے اس لئے کہ معصوم تو ہم میں سے کوئی نہیں ہے لہذااگر خدانہ کرے غلطی سے کوئی گناہ کربیٹھے تو فورا اس کی بارگاہ میں آکر جکھیں ، یہ مہینہ توبہ کے لئے ایک بہترین موقع ہے کیونکہ اس میں ہر دعاقبول ہوتی ہے.آئیں اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیں اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ کریں، یقینا خداقبول کرے گا .رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ((من صام شھر رمضان فحفظ فیہ نفسہ من المحارم دخل الجنّة )) [28]
جو شخص ماہ مبارک میں روزہ رکھے اور اپنے نفس کو حرام چیزوں سے محفوظ رکھے ، جنّت میں داخل ہوگا .
امام صادق علیہ السلام روزہ کا ایک اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
((انّما فرض اللہ عزّوجلّ الصّیام لیستوی بہ الغنیّ والفقیر و ذٰلک أنّ الغنیّ لم یکن لیجد مسّ الجوع فیرحم الفقیر لأنّ الغنیّ کلّما أراد شیئا قدر علیہ ، فأراد اللہ عزّ وجلّ أن یسّوی بین خلقہ ، و أن یذیق الغنیّ مسّ الجوع والألم لیرقّ علی الضّعیف فیرحم الجائع)) [29]
خداوند متعال نے روزے اس لئے واجب قرار دیئے تاکہ غنی وفقیربرابر ہو سکیں .اور چونکہ غنی بھوک کا احساس نہیں کرسکتا جب تک کہ غریب پر رحم نہ کرے اس لئے کہ وہ جب کوئی چیز چاہتا ہے اسے مل جاتی ہے.لہذا خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنی مخلوق کے درمیان مساوات برقرار کرے اور وہ اس طرح کہ غنی بھوک و درد کی لذت لے تاکہ اسکے دل میں غریب کے لئے نرمی پیداہو اور بھوکے پر رحم کرے .
عزیزان گرامی! یہ ہے روزے کا فلسفہ کہ انسان بھوک تحمل کرے تاکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس ہو لیکن افسوس ہے کہ آج تو یہ عبادت بھی سیاسی صورت اختیار کر گئی ہے بڑی بڑی افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں جن میں غریبوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کے بھوکے بچوں اور انہیں مزید اذیت دی جاتی ہے نہ جانے یہ کیسی اہل بیت علیہم السلام اور اپنے نبیۖکی پیروی ہو رہی اس لئے کہ دین کے ہادی تو یہ بتا رہے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ غریبوں اور فقیروں کی مدد کرو جبکہ ہم علاقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے یا پیسے والے لوگوں کو دعوت کر رہے اور باقاعدہ کارڈ کیے ذریعہ سے کہ جن میں سے اکثر روزہ رکھتے ہی نہیں.
عزیزان گرامی ! روزہ افطار کروانے کا بہت بڑاثواب ہے لیکن کس کو؟ روزہ داراور غریب لوگوں کو . ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ ان لوگوںکو افطار نہ کروائیںان کو بھی کروایئں لیکن خدارا غریبوں کا خیال رکھیں جن کا یہ حق ہے . خداوندمتعال ہمیں روزے کے فلسفہ اور اس کے مقصد سے آگاہ ہونے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے .اور اس با برکت مہینہ میں غریبوں کی مددکرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے .آمین یا ربّ العالمین
رزق حلال
ومن یتّق اللہ یجعل لہ مخرجا.و یرزقہ من حیث لا یحتسب[30]
ترجمہ: اور جو بھی اللہ سے ڈرتاہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پید اکردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے .
علی بن عبد العزیز کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا عمر بن مسلم نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوں وہ تو تجارت کو ترک کرکے عبادت میں مشغول ہوگیا ہے . امام علیہ السلام نے فرمایا : وائے ہو اس پر ! کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ بے کا ر آدمی کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے . بعض اصحاب رسولۖ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کو بند کردیا اور عبادت میں مشغول ہوگئے .وہ یہ کہتے تھے کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے . جب یہ بات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ کونسی چیز تمھارے اس عمل کا باعث بنی؟عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ! جب خدا نے ہمارے رزق کی ذمہ داری لے لی ہے تو ہم عبادت میں مشغول ہوگئے
ہیں . آنحضرتۖ نے فرمایا : جو بھی ایسا کام کرے گا اس کی دعامستجاب نہیں ہوگی تمہارے لئے ضروری ہے کہ رزق کی تلاش میں نکلو.
عزیزان گرامی! اس میں شک نہیں ہے کہ خدا نے مومنین کے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے لیکن وہ رزق اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ انسان اس کی کوشش نہ کرے . اور روزے کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان روزہ دار سحری و افطاری میں رزق حلال کھائے .اگر کوئی مومن خدا نخواستہ پاک رزق سے ، حلال رزق سے افطار نہ کرے تو اس کا یہ روزہ قبول نہیں ہوگا .اور اسی طرح باقی عبادات بھی ،آنے والے چند درسوں میں ہم یہ واضح کریں گے کہ کیسے رزق حلال حاصل کریں اور وہ کونسے عوامل ہیں جو انسان کے لئے حلال رزق کمانے میں مانع بنتے ہیں .
عزیزان گرامی! دین مقدس اسلام میں رزق حلال کی اسقدراہمیت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے حلال مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے تو اسے شھید کا مرتبہ دیا ہے رسول مکرم اسلامۖ فرماتے ہیں :
((من قتل دون مالہ فھو شھید )) [31]
جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شھید ہے .نیز فرمایا :
١۔ فرھنگ موضوعی مبلغان : ٢٣٣
عبادت سات قسموں پر مشتمل ہے جن میں سے افضل ترین قسم رزق حلال کا کمانا ہے .( ١)
اسی طرح فرمایا : ((انّ اللہ یحبّ أن یری عبدہ تعبا فی طلب الحلال))[32] خدا وندمتعال پسند کرتا ہے کہ اپنے بندے کو رزق حلال کے حصول میں تھکتا ہوئے دیکھے .
مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام کا یہ فرمان بھی رزق حلال کی اہمیت کو واضح کرتا ہے:
((من أکل أربعین یوما نوّر اللہ قلبہ )) [33]
جو شخص چالیس دن رزق حلال کھائے توخدا وند متعال اسکے دل کو نورانی کر دیتا ہے .
رسولخدا سلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
((حقّ الولد علی والدہ أن یعلّمہ الکتابة والسّباحة والرّمایة وأن یرزقہ الّا طیّبا )) [34]
بیٹے کا باپ پر حق یہ ہے کہ وہ اسے لکھنے ، تیرنے اورتیراندازی کی تعلیم دے اور اسے حلال غذاکھلائے.
نیز روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
((لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتّی یسأل عن أربع : عن عمرہ فیما أفناہ و عن شبابہ فیما أبلاہ و عن مالہ من أین کسبہ و فیما أنفقہ و عن حبّنا أہل البیت )) [35]
روز قیامت انسان کو اس وقت تک آگے نہ بڑھنے دیا جائے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: ١۔ عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا .
٢۔ جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں گذارا.
٣۔ مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاںخرچ کیا .
٤۔ ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں .
مال حلال کمانے اور اسے اپنی اولاد کو کھلانے کی بہت تاکید کی گئی ہے اس لئے کہ انسان کی دنیا وآخرت کی بد بختی کا ایک عامل رزق حرام ہے جو انسان کو ہمیشہ خداسے دور رکھتا ہے لذّت عبادت سے آشنا نہیں ہونے دیتا اور اگر انسان
حرام مال کھاکر عبادت بجابھی لائے تب بھی وہ اس عبادت کی لذّت حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کہ ایسی عبادت کا کویء فائدہ نہیں ہے .رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
((العبادة مع أکل الحرام کالبناء علی الرّمل و قیل : علی الماء )) [36]
حرام مال کھاکر کی جانے والی عبادت ، ریت کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند ہے یا کہا گیاہے کہ پانی کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند .
یعنی ایسی عبادت کا کوئی اعتبار نہیں ہے کسی وقت بھی شیطان ایسے انسان کے عمل کو بھی ضائع کرسکتا ہے اور اس کے ایمان کوبھی . امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
((انّ الرّجل اذاأصاب مالا من الحرام لم یقبل منہ حجّ ولا عمرة ولا صلة رحم ، حتیّ انّہ یفسد فیہ الفرج )) [37]
جب کسی شخص کے پاس مال حرام آتا ہے تو نہ تو اس کی حج قبول ہوتی ہے ، نہ عمرہ اور نہ ہی صلہ رحم . یہاں تک کہ جماع پر بھی اسکا برا اثر پڑتا ہے .
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
((کسب الحرام یبین فی الذریة )) [38]
حرام کی کمائی اولاد میں اثر رکھتی ہے .
جب کوئی انسان حرام کھاکر بیٹھا ہو تو نہ تو اس پرنصیحت اثر کرتی ہے اور نہ ہی کسی بڑے کی بات . آج اگر ہماری اولادیں نافرمان ہیں تو اس کا باعث ہم خود ہی ہیں کتنے لوگ ہیں ہم میں سے جو خمس کے پابند ہیں جنھوںحق زہراء سلام اللہ علیہا غصب نہ کیا ہو.جنھوں نے رسول خداۖ کی اکلوتی بیٹی کو پریشان نہ کیا ہو .آج ہم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے مظلوم بیٹے کے قاتلوں پر لعنت تو کرتے ہیں لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود ، پیغمبرۖ کا کلمہ پڑھنے کے باوجود کیسے امام وقت کے مقابلہ میں تیر اور تلواریں لے کر آگئے ؟ کیا وہ امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے نہیں تھے ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ وہ جانتے تھے کہ یہ نواسہ رسولۖ ہے . ان کے نبیۖ کا بیٹا ہے .تو پھر کونسی چیز باعث بنی کہ انہوں نے جہنم میں جانا قبول کرلیا ؟ اس کا جواب امام حسین علیہ السلام نے وہیں پہ کربلا کے میدان میں ہی دے دیا تھا .جب عمر سعد نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ حسین کے خیموں کا چاروں طرف سے محاصرہ کرلیں تو اس وقت امام علیہ السلام انہیں نصیحت کرنے کے لیے اپنے خیمہ سے باہر آئے اور ان سے مخاطب ہوئے لیکن ان میں سے کسی نے توجہ ہی نہ کی تو امام مظلوم نے فرمایا :
((قد ملئت بطونکم من الحرام فطبع علی قلوبکم ، ویل لکم ! ألا تسمعون ...۔)) [39]
تم کیسے میری بات پر توجہ کروگے جبکہ تمھارے شکم حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تمھارے دلوں پر مہر لگ گئی ہے . افسوس تم پر ! کیا میری بات نہیں سن رہے ہو .
عزیزان گرامی! یہ لقمہ حرام کااثر ہی تھا جس نے عمر سعدملعون اور اس کی فوج کو زمانہ کے امام کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا .اس جملہ پر انتہائی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم بھی اپنی اولادوں کو حرام مال کھلا کر امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کے چاہنے والے ہونے کا دعوی کرتے ہوئے انہیں امام کا دشمن بنا رہے ہوں .
خدایا ! تجھے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کا واسطہ ہمیں رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرما اور ہمارا شمار امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حقیقی پیروکاروں میں سے فرما .آمین یا ربّ العالمین بحق محمد و آلہ الطاہرین.
|
|