ب:الموقف
شہادت کے فيصلہ ميں حکم کا تابع ہے ۔
اور حکم سياست ميں موقف کاتابع ہوتا ہے ۔
مو قف کو واضح و صاف شفاف اورقوی ہونا چاہئے نيز نفس کو قربانی اور فدا
کاری کے لئے آمادہ ہو نا چاہئے ۔
اور مسلمانوں کی تاریخ صفين اور کربلا جيسے واقعات ميں ان افراد سے
مخصوص نہيں ہے جو اس حادثہ کے زمانہ ميں مو جود تهے بلکہ یہ مو قف خوشنودی
،رضایت ،محبت اور دشمنی کا لحاظ ان افراد کے لئے بهی ہوگا جو اُس حادثہ کے
زمانہ ميں موجود نہيں تهے۔
تاریخ ميں یہ ایام فرقان کی خصوصيات ميںسے ہے جن ميں لوگ دو
ممتازمحاذوں ميں تقسيم ہوجا تے ہيں اور ان ميں سے ہر ایک سے اختلاف بر طرف
ہوجاتا ہے جس کی بناء پر حق اور باطل کسی شخص پر مخفی نہيں رہ جاتامگر یہ
کہ الله نے اس کے دل،کان اور آنکه پر مہر لگا دی ہو ۔
یہ ایام لوگوںکو دو حصوں ميںتقسيم کرتے رہے ہيں اور اُن کو تاریخ ميںخو
شنودگی ناراضگی، محبت اور دو ستی کی بنا پردو حصوں ميں تقسيم کرتے رہے
ہيں اور تيسرے فریق کو ميدان ميں چهوڑتے رہے ہيں صفين اور کربلا انهيں ميں سے
ہے۔
جو شخص بهی دونوںبر سر پيکار فریقوں کو درک کرکے بدر ،صفين اور کربلا
کے واقعہ کاجا ئزہ لے وہ یا تو اِس فریق کی طرفدار ی کرے گا اوراس محاذميں داخل
ہو جا ئيگا یا دوسرے فریق کی طرفداری کرے گااور دوسرے محاذ ميں داخل ہو جائيگا
اس کو ان دونوں ميں سے کسی ایک سے مفر نہيں ہے اور یہی مو قف ہے ۔
خداوندعالم سيد حميری پر رحم کرے جنهوں نے اس تاریخی پہلو کو حق اور
باطل کے درميان ہو نے والی جنگ کو اشعار ميں بيان کيا ہے :
انی ادین بما دان الوصی بہ یوم الربيضة من قتل المحلينا
وبالذی دان یوم النهر دنت لہ وصافحت کفہ کفی بصفينا
تلک الدماء جميعاربّ فی عُنُقی ومثلہ معہ آمين آمينا
“ميں جنگ جمل کے دن اسی مو قف کا حامل ہوں جس کو مو لائے کائنات
نے اختيار کيا تهایعنی مخالفين کو قتل کرنا ”
“اور نہروان کے دن بهی ایسے ہی مو قف کا حامل ہوں اورميرا یہی حال
صفين کے سلسلہ ميں ہے ”
“پروردگار وہ سارے خون ميری گردن پر ہيں اور مو لائے کائنات کے ساته ایسے
وقائع ميں ہمراہی کےلئے ميں ہميشہ آمين کہتا رہتا ہوں ”
جو کچه صفين اور کربلا کی جنگ ميں رونما ہوا وہ حقيقی اور آمنے سامنے
کی جنگ تهی جو مصاحف کے اڻه جانے اور حکمين کے صفين ميں حکم کرنے اور کر
بلا ميں حضرت امام حسين عليہ السلام اور ان کے اصحاب کے شہيد ہوجانے سے
منقطع نہيں ہوئی بلکہ صفين اور کر بلا کو مخصوص طور پر یاد کيا جانے لگا اس لئے
کہ یہ ہمارے نظر یہ کے مطابق تاریخ اسلام ميں حق اور باطل کے درميان فيصلہ کر
نے والی جنگيں تين ہيں جنگ بدر ،صفين اور کر بلا تاریخ اسلام ميں ان ہی تينوں کو
ایام فرقان کہا جاتا ہے ۔
یہ جنگ آج بهی فریقين کے درميان اسی طرح باقی وساری ہے ۔۔۔یہ تاریخ ہے۔
اگرچہ تاریخ موجود ہ امت کےلئے یہی سياسی اور متمدن تاریخ کی ترکيب شدہ
شکل ہے اور ماضی (گزرے ہو ئے زما نہ) اور موجود ہ زمانہ ميں فاصلہ ڈالنا نہ ممکن
ہے اور نہ ہی صحيح ہے ۔چونکہ فرزند اپنے آباء و اجداد سے “مواقع” اور“ مواقف ”ميں
ميراث پاتے ہيں ۔موقف سے ہماری مراد تاریخ ميں حادث ہونے والے واقعات ہيں اور
واقعہ حادث ہونے کے وقت انسان پر اپنے رفتار وگفتار سے عکس العمل دکها نا واجب
ہے اس کو موقف کہا جاتاہے۔تو جب یہ جنگ ثقافتی جنگ تهی اور سمندر کے کسی
جزیرہ یا زمين کے کسی ڻکڑے سے مخصوص نہيں تهی تو یہ جنگ یقينا ایک نسل
سے دو سری نسل کی طرف منتقل ہوگی ما ضی کو پارہ کر کے حال سے متصل ہو
جا ئيگی اور اس کو اولاد اپنے آباء و اجداد سے ميراث ميں پائيگی ایسی صورت ميں
مو قف کو موقع سے جدا کرنا ممکن نہ ہوگا جس کی بنا ء پر یہ مواقع مو جودہ نسل
کی طرف دونوں بر سر پيکار فریقوں ميں سے ہر ایک کے مو قف کی حمایت کی بناء
پرمنتقل ہو جا ئيں گے ۔
یہ ميراث ایک فریق سے مخصوص نہيں ہے بلکہ جس طرح مو اقع و مو اقف
سے صالحين کو صالحين کی ميراث ملتی ہے اسی طرح مستکبرین اور ان کی اتباع
کرنے والے مستکبرین کے مو اقع اور مواقف کی ميراث پاتے ہيں ۔ہم اہل بيت عليہم
السلام سے مروی روایات ميں واضح طور پر مواقف کی ميراث کا مختلف صورتوں ميں
زیارتوں ميں مشا ہدہ کرتے ہيں ہم ذیل ميں ان کے کچه نمونے پيش کرتے ہيں :
ولایت و برائت
اس کا آشکار نمونہ او لياء الله سے دو ستی اور خدا کے دشمنوں سے
دشمنی کرنا ہے اس دو ستی اور دشمنی کا مطلب ان جنگوں اور ڻکراؤ سے خالی
ہو نا نہيں ہے بلکہ یہ تو اس کا ایسا جزء ہے جو اِن جنگوں ميںسياسی مو قف سے
جدا نہيں ہو سکتا جس کو اسلام نے دو حصوں ميں تقسيم کر دیا ہے ہم دو ستی
کے سلسلہ ميں زیارت جا معہ معروفہ ميں پڑهتے ہيں :
<اشهد اللهواشهدکم انی موٴمن بکم وبماآمنتم بہ،کافربعدوکم وبما کفرتم بہ
مستبصربکم وبضلالةمن خالفکم،موال لکم ولاوليائکم مبغض لاعدائکم ومعادٍلهم،سلم
لمن سالمکم وحرب لمن حاربکم محقق لماحققتم، مبطل لماابطلتم>
“ميں خدا کو اور آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ ميں آپ پراور ہر اس چيزپر ایمان
رکهتا ہوں جس پر آپ کاایمان ہے ،آپ کے دشمن کا اور جس کا آپ انکار کردیں سب
کا منکر ہوں آپ کی شان کو اور آپ کے دشمن کی گمرا ہی کو جانتا ہوں ۔آپ کا اور
آپ کے اولياء کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان سے عداوت
رکهتا ہوں اس سے ميری صلح ہے جس سے آپ نے صلح کی ہے اور جس سے آپ
کی جنگ ہے اس سے ميری جنگ ہے جسے آپ حق کہيں وہ ميری نظرميں بهی
حق
ہے اور جس کو آپ باطل کہيں وہ ميری نظرميں بهی باطل ہے ”
زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام ميں پڑهتے ہيں :
<لعن اللهامةاسست اساس الظلم والجورعليکم اهل البيت،ولعن اللهامة
دفعتکم عن مقامکم وازالتکم عن مراتبکم التی رتبکم اللهفيها>
“خدا یا!اس قوم پر لعنت کرے جس نے آپ کے اہل بيت پرظلم وجورکئے اور
اس قوم پرلعنت کرے جس نے آپ کو آپ کے مقام سے ہڻادیا اور اس جگہ سے گرادیا
جس منزل پر خدا نے آپ کورکها تها ”
اور
<اللهم العن اول ظالم ظلم حقّ محمّدوآل محمّدوآخرتابع لہ علی ذلک،اللهم
العن العصابةالتی جاهدت الحسين وشایعت وتابعت علی قتلہ اللهم العنهم جميعا>
“خدایا !اس پہلے ظالم پر لعنت کر جس نے محمد وآل محمد پر ظلم کيا ہے
اور اس کا اتباع کرنے والے ہيں ۔خدایا !اس گروہ پر لعنت کر جس نے حسين سے
جنگ کی اورجس نے جنگ پراس سے اتفاق کر ليا اورقتل حسين پرظالموں کی بيعت
کرلی ”
زیارت عاشوراء غير معروفہ ميں آیا ہے :
<اللّهم وهذایوم تجددفيہ النقمةوتنزل فيہ اللعنةعلی یزیدوعلی آل زیاد وعمربن
سعدوالشمر۔اللّهم العنهم والعن مَن رضي بقولهم وفعلهم من اول وآخر لعناًکثيرا
واصلهم حرنارک واسکنهم جهنم وساء ت مصيرا،واوجب عليهم وعلی کلّ مَن شایعهم
وبایعهم وتابعهم وساعدهم ورضي بفعلهم لعناتک التي لعنت بهاکل ظالم وکل غاصب
وکل جاحد،اللهم العن یزیذوآل زیادوبنی مروان جميعا،اللّهم وضاعف غضبک وسخطک
وعذابک ونقمتک علی اوّل ظالم ظلم اهل بيت نبيک،اللّهم والعن جميع الظالمين لهم
وانتقم منهم انک ذونقمةمن المجرمين>
“خدایا ! یہ وہ دن ہے جب تيرا غضب تازہ ہوتاہے اور تيری طرف سے لعنت کا
نزول ہوتا ہے یزید، آل زیاد، عمر بن سعد اور شمر پر۔خدایا ان سب پر لعنت کر اور ان
کے قول و فعل پر راضی ہوجانے والوں پر بهی لعنت کر چاہے اولين ميں ہوںيا آخرین
ميں سے کثير لعنت فرما اور انهيں آتش جہنم ميں جلادے اور دوزخ ميں ساکن کردے
جو بدترین ڻهکانا ہے اور ان کے لئے اور ان کے تمام اتباع اور پيروی کرنے والوں اور ان
کے فعل سے راضی ہوجانے والوں کے لئے ان لعنتوںکے دروازے کوکهول دے جوتو
نے کسی ظالم ،غاصب ،کافر، مشرک اور شيطان رجيم یا جبار و سرکش پرنازل کی
ہے۔ خدا لعنت کرے یزید و آل یزید اور بنی مروان پر خدایا اپنے غضب اپنی ناراضگی
اوراپنے عذاب و عقاب کومزید کردے ا س پہلے ظالم پرجس نے اہل بيت پيغمبر پر ظلم
کياہے اورپهر ان کے تمام ظالموں پر لعنت کر اور ان سے انتقام لے کہ تو مجرمين
سے انتقام لينے والا ہے ”
رضا اور غضب
دو ستی اور دشمنی ميں رضا اور غضب بهی داخل ہے :رضا یعنی جس سے
او ليا ء الله راضی ہو تے ہيں غضب جن سے اولياء الله غضب ناک ہوتے ہيں ۔
خوشی اور غضب ،محبت اور عداوت ایمان کی واضح نشانياں ہيں اور ان کے
ستون ميں سے ہيں یہ سياسی موقف کےلئے عميق فکر ہے ان دونوں (رضااور
غضب) کے بغير سياسی موقف مضمحل اور پائيدار نہيں ہے ۔
یہ وہ رابطہ اور ذاتی ایمان ہے جو سياسی موقف کو عمق ،مقاومت اور
استحکام عطا کرتا ہے رضا اور غضب کے سلسلہ ميں زیارت صدیقہ فاطمة الزہرا عليہا
السلام ميں آیا ہے :
<اشهداللهورسلہ وملائکتہ انيراض عمّن رضيت عنہ ساخط علی مَن سخطت
عليہ،متبرء ممن تبرّئت منہ موالٍ لمن واليت معادٍلمَن عادیت مبغض لمن ابغضت،محبّ
لمن احبّبت>
“ميں الله، رسول اور ملا ئکہ کو گواہ بناکرکہتا ہوں کہ ميں اس شخص سے
راضی ہوں جس سے آپ راضی ہيں اورہر اس شخص سے ناراض ہوں جس سے آپ
ناراض ہيں ہراس شخص سے بيزارہوں جس سے آپ بيزار ہيں آپ کے چاہنے والوں کا
چاہنے والا آپ کے دشمنوںکا دشمن، آپ سے بغض رکهنے والوں کادشمن اورآپ
سے محبت کرنے والوںکادوست ہوں ”
اور زیارت کے دوسرے فقر ے ميں آیاہے :
<اشهد انی ولی لمن والاک وعدولمن عاداک وحرب لمن حاربک>
“ميں آپ کے دوستوں کا دوست ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں جو آپ
سے جنگ کرنے والے ہيں اس سے ہماری جنگ ہے ”
سلم اور تسليم
موقف کی خصوصيات ميں سے سلم اور تسليم ہے تسليم کا سلم وصلح
سے بلند مر تبہ ہے لہٰذا موقف ميں سب سے پہلے مسالحت صلح ہونی چاہئے اور
سلم ميں الله ،رسول اور اولياء الله اور اس کے صالحين بندوں کی اتباع کی جا ئے :
( <یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْادخُْلُواْفِی السِّلمِْ کَافَّةً>( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ بقرةآیت / ٢٠٨ ۔ )
“ایمان والو تم سب مکمل طریقہ سے اسلام ميں داخل ہو جاؤ ”
اس سے چيلنج کو شامل نہ کيا گيا ہو:
( <اَلَم یَعلَْمُواْاَنَّہُ مَن یُحَادِدِاللهَوَرَسُولَْہُ فَاَنَّ لَہُ نَارَجَهَنَّمَ خَالِداًفِيهَْا>( ١
“کيا یہ نہيں جانتے ہيں کہ جو خداو رسول سے مخالفت کرے گا اس کيلئے
آتش جہنم ہے اور اسی ميں ہميشہ رہنا ہے ”
نہ الله کے سامنے سرکشی اور استکبار کيا جا ئے :
( <وَلَاتَطغَْواْفِيہِْ فَيَحِلّ عَلَيکُْم غَضَبِی>ْ( ٢
“اور اس ميں سرکشی اور زیادتی نہ کرو کہ تم پر ميرا غضب نازل ہو جائے ”
مخالفت نہ ہو :
( <وَاِنَّ الظَّالِمِينَْ لَفِی شِقَاقٍ بَعِيدٍْ>( ٣
“اور ظالمين یقينابہت دور رس نا فر مانی ميں پڑے ہوئے ہيں ”
دو سرے مر حلہ ميں اس مو قف کو رسول اور مسلمين کے امور کے سر
پرستوں سے تسليم کی اطاعت پر قائم ہو نا چا ہئے صلح اور تسليم ميں سے ہر
ایک کو انسان کی نيت ،قلب ،عمل اور رفتار ميں ایک ہی وقت ميں رچ بس جانا چا
ہئے صلح ،تسليم اور پيروی دل سے ہو نی چا ہئے اور جب ایسی صورت حال ہواور
سياسی مو قف ،نيت ،عمل اور با طن و ظا ہر ميں صلح و تسليم سے متصف ہو تو لو
گ اکڻها ہو کر اس مو قف کو اختيار کریں اور اس مو قف کے لوگ اس کے خلاف موقف
والوں کے ساته جمع نہيں ہوسکتے ۔ایسی صورت ميں مو من انسان اکيلا ہی ایک
امت شمار ہوگا جو امت کا پيغام ليکر قيام کرتا ہے اور وہ امت کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ توبةآیت/ ۶٣ ۔ )
٢)سورئہ طہ آیت / ٨١ ۔ )
٣)سورئہ حج آیت ۵٣ ۔ )
طرح پائيدار اور مضبوط ہو گاجيسا کہ ہمارے باپ ابوالانبياء جناب ابراہيم عليہ السلام
اکيلے ہی قرآن کی نص کے مطابق ایک امت تهے :
( <اِنَّ اِبرَْاہِيمَْ کَانَ اُمَّةً قَانِتاً لِلہِّٰ حَنِيفْاًوَلَم یَکُ مِنَ المُْشرِْکِينَْ >( ١
“بيشک ابراہيم ایک مستقل امت اور الله کے اطاعت گذار اور باطل سے کتراکر
چلنے والے تهے اور مشرکين ميں سے نہيں تهے ”
اور صلح و سلا متی کے بغير تاریخ ميں کو ئی مو قف رونما نہيں ہو تا اور اگر
ہم مو قف کو صلح و سلا متی سے خالی کردیں تو مو قف کالعدم ہو جائيگا صلح
تسليم خدا و رسول اور مسلمانوں کے پيشواؤں کی ہر بيعت کی جان ہے کيونکہ
بيعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کی عطا کردہ ہر چيز منجملہ محبت،
نفرت ، جان ،مال اور اولاد کو یکبارگی خداوند عالم کے ہاتهوں فروخت کردے اوروہ دل
خداوند عالم کيلئے ہر چيز سے خالی ہو جا ئے ،پهر اس کے بعد اپنے معا ملہ پر نہ
حسرت کرے اور ہی اپنے کام ميں شک کرے کيو نکہ وہ اب ہر چيز خداوند عالم کے
ہاتهوں بيچ چکا ہے اور اس کی قيمت لے چکا ہے لہٰذا نہ معا ملہ فسخ کرسکتا ہے
اورنہ فسخ کرنے کامطالبہ کرسکتاہے اوریہ سودمندمعاملہ ہے یہ امور مسلمين کے
سرپرستوں اور مو منين کے پيشواؤں کے مو قف کی جان ہے جنهوں نے اس
سلسلہ ميں اہل بيت عليہم السلام ج(و مسلمانوں کے امام ہيں) کی زیارت ميں انے
والی عبارتوں پر غور کریں ۔
رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی زیارت ميں آیاہے :
<فَقَلبِی لَکُم مُسَلِّمٌ ونصرتي لکم معدةحتّیٰ یحکم اللهبدینہ فمعکم معکم لامع
عدوکم>
“ ميرا دل آپ کے سامنے سراپاتسليم ہے اور ميری نصرت آ پ کےلئے حاضر
ہے یہاں تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ نحل آیت / ١٢٠ ۔ )
کہ پروردگاراپنے دین کا فيصلہ کردے تو ميں اپ کے ساته ہوں آپ کے دشمنوں کے
ساته نہيں ”
حضرت امام حسن عليہ السلام کی زیارت ميں واردہوا ہے :
<لبيک داعي اللهان کان لم یجبک بدني عنداستغاثتک ولساني عند
استنصارک قد اجابک قلبي وسمعي وبصري>
“ميں نے خداوند عالم کی دعوت پر لبيک کہی اے الله کی طرف بلانے والے
اگر چہ ميرے جسم نے آپ کے استغاثہ کے وقت لبيک نہيں کہی اور ميری زبان نے
آپ کے طلب نصرت کے وقت جواب نہيں دیا ليکن ميرے دل ،کان اور آنکه نے لبيک
کہی ”
زیارت حضرت ابو الفضل العباس :
<وقلبي لکم مسلّم وانالکم تابع ونصرتي لکم معدةحتی یحکم اللهوهو
خيرالحاکمين>
“ميرا دل آپ کے سامنے جهکا ہے اور تابع فرمان ہے اور ميں آپ کا تابع ہوں اور
ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ خدا فيصلہ کردے اور وہ بہترین فيصلہ کرنے
والا ہے ”
زیارت حضرت امام حسين عليہ السلام روز اربعين :
<وقلبي لقلبکم سلم،وامريلامرکم متبع،ونصرتي لکم معدة،حتّیٰ یاذن
اللهلکم،فمعکم معکم لامع عدوکم>
“اور ميرا دل آپ کے سامنے سراپا تسليم ہے اور ميرا امر آپ کے امر کے تابع
ہے اور ميری مدد آپ کے لئے تيار ہے یہاں تک کہ الله آپ کو اجا زت دے تو ہم آپ کے
ساته ہيں اور آپ کے دشمنوں کے ساته نہيں ہيں ”
یہ معيت جس کو زائر اپنے موقف اور ائمہ مسلمين سے دوستی کے ذریعہ
آمادہ وتيار کرتا ہے یہ موقف اور دوستی کی روح ہے ۔ان کی خوشی وغم، صلح
وجنگ آسانی عافيت اور سختی ومشکل ميں ساته رہنا دنيا ميں ان کے ساته رہنا
انشاء الله آخرت ميں ان کے ساته رہنا ہے ۔
|