مقابلہ کے دو سرے مر حلہ ميں امام عليہ السلام کی گو اہی
اس گو اہی کو زائر تا ویل قرآن پر جنگ کر کے دا ئرئہ حدود ميں ثبت کرتا ہے
ہم ان فقروں کو امام امير المو منين عليہ السلام کی زیارت کے سلسلہ ميں اس طرح
پڑهتے ہيں :
اللَّهُمَّ اِنِّیْ اَشْهَدُانّہُ قَدْبلَّغَ عن رسولک ماحمّل ورعیٰ مااستحفظ،وحفظ
مااستودع،وحلل حلالک،وحرَّم حرامک،واقام احکامک،و جاهد الناکثين فی
سبيلک،والقاسطين فی حکمک،والمارقين عن امرک،صابراً،محتسباًلاتاخذہ فيک لومة
لائمٍ”۔
“خدایا ميں گواہی دیتا ہوں کہ امير المو منين نے تيرے رسول کی طرف سے
دئے گئے بارکوپہونچا دیا اور اس کی رعایت کی جس کی حفاظت چا ہی گئی اور جو
امانت رکهی گئی تهی اس کی حفاظت کی اور تيرے حلال کو حلال اور تيرے حرام کو
حرام باقی رکها اور تيرے احکام کو قائم کيا اورنا کثين( طلحہ اور زبير)کے ساته تيری
راہ ميں جہاد کيااور قاسطين اور مارقين کے ساته تيرے حکم سے صبر اور تحمل کے
ساته جہاد کيااور تيری راہ ميں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کو ئی پرواہ نہيں
کی ”
رسول اسلام (ص) کی بعثت کے دن سے مخصوص زیارت ميں اس طرح
پڑهتے ہيں :
کنت للمومنين ابارحيماً۔۔۔وعلیٰ الکافرین صباوغلظة وغيظاً،وللموٴمنين
غيثاوخصباوعلما،لم تفلل حجّتک،ولم یزغ قلبک،ولم تضعف بصيرتک ولم تجبن نفسک
کنت کالجبل،لاتحرّکہ العواصف،ولاتزیلہ القواصف،کنت کماقال رسول اللّٰہ قویافی
بدنک،متواضعاًفی نفسک،عظيماًعند اللّٰہ،کبيراًفي الارض،جليلاًفي السماء،لم یکن
لاحد فيک مهمزولالخلق فيک مطمع ولا لاحد عنک هوادہ،یوجد الضعيف الذليل عندک
قویاعزیزاًحتیّٰ تاخذلہ بحقہ والقوي العزیزعندک ضعيفاًحتیّٰ تاخذ منہ الحقّ ”۔
“آپ مومنين کےلئے رحم دل باپ تهے ۔۔۔ آپ کافروں کے لئے سخت عذاب اور
درد ناک سزا تهے اور مومنوں کےلئے باران رحمت ہریالی اور علم کی حيثيت سے
تهے آپ کی حجت کند نہيں ہو ئی اور آپ کا دل کج نہيں ہوا آپ کی بصيرت کمزور
نہيں ہوئی آپ کا نفس ڈرا نہيں آپ اس پہاڑ کے مانند تهے جس کو تيز ہوا ہلا نہيں
سکتی اور آندهياں اس کوہڻا نہيں سکتيں آپ ویسے قوی بدن تهے جيسا کہ رسول
الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا تها اور اپنے نفس ميں متواضع تهے اور خدا
کے نزدیک عظيم تهے ،زمين ميں کبير تهے اور آسمان ميں جليل تهے آپ کے با رے
ميں کسی کے لئے نکتہ چينی کا مقام نہيں ہے اور نہ کسی کہنے والے کےلئے
اشارہ ہے اور آپ کے با رے ميں کسی مخلوق کو غلط طمع ہے اور نہ کسی کےلئے
بيجا اميد ہے اپ کے نزدیک ہر ضعيف و کمزور و ذليل قوی اور عزیز رہتا ہے یہاں تک کہ
آپ اس کےلئے اس کا حق لے ليں اور قوی عزت دار آپ کے نزدیک کمزور ہوتا ہے یہاں
تک کہ اپ اس سے حق لے ليں ’
دوسرے مر حلہ ميں تاویل قرآن پر جنگ کرنے کی گواہی
اس کا پہلا حصہ تاویل کے دائرئہ ميں جنگ صفين سے متعلق ہے اور دوسرا
حصہ کربلا سے متعلق ہے اور کربلا ميں اس سلسلہ کی جنگ واضح وآشکار طور پر
واقع ہوئی اس ميں قلب سليم رکهنے والے کےلئے کوئی شک وشبہ نہيں ہے اس
کا ہروہ شخص گواہ ہے جس کے پاس دل ہے یا جو قوت سماعت کا مالک ہے ۔
اس جنگ ميں امام حسين عليہ السلام اپنے ساته اپنے اہل بيت اور اصحاب
ميں سے بہتّرافرادنيز ایسی مو من جماعت کے ساته کهڑے ہوئے جو ميدان کربلا
ميں کسی وجہ سے یا بلا وجہ غير حاضر رہے ۔۔۔اور دوسری طرف یزید آل اميہ اور ان
کی شامی اور عراقی فوج نے قيام کيا ۔
اس جنگ ميں کسی شک وشبہ کے بغير دونوں طرف کے محاذ اچهی طرح
واضح ہو جاتے ہيں چنانچہ امام حسين عليہ السلام نبوت کی ہدایت کے ساته ظاہر
ہوتے ہيں اور یزید سر کشوں ،جباروں اور متکبروں کی بری شکلوں ميں ظاہر ہوتا ہے ۔
کربلا ان دونوں جنگوں کے مابين حد فاصل ہے واقعہٴ کربلا سے ليکر آج تک
کسی پر اس جنگ کا امر ومقصد مخفی نہيں رہاہے اور وہ حق وباطل کی شناخت نہ
کر سکا ہو مگر الله نے جس کی آنکهوں کا نور چهين ليا اس کے دلو ں اور آنکهوں پر
مہر لگادی اور ان کی آنکهوں پر پر دے ڈالدئے ہيں ۔
اس جنگ کے دائرہ حدودميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام فرزند
رسول کےلئے نماز قائم کر نے زکات ادا کرنے اور <فی سبيل الله > جهاد کر نے کی
گواہی دیتا ہے اور اس کے بعد اس جنگ کے پس منظر کو بر قرار رکهتے ہوئے اس
سلسلہ کو واقعہ کربلا کے بعد خدا کی طرف سے امامت ولایت اور قيادت سے
متصل کر تاہے ہم اس گواہی کے سلسلہ ميں بہت سے فقرے حضرت امام حسين
السلام کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :اشهدانک قد بلغت عن اللّٰہِ مَاامرک بہ ولم تخش
احدا غيرہ،وجاهدت فی سبيلہ،وعبد تہ،مخلصاًحتیّٰ اتاک اليقين۔واشهد انک کلمة
التقویٰ،والعروة الوثقیٰ،والحجة علیٰ مَن یبقیٰ۔واشهد انک عبد الله وامينہ،بلّغت
ناصحاًوادیت اميناً،وقُتلتَ صدّیقاً،ومضيت علیٰ یقين،لم توٴثرعمیٰ علیٰ هدیٰ،ولم تُمل
من حق الیٰ باطل۔اشهد انک قد اقمت الصلاة ،وآتيت الزکاة ،وامرت بالمعروف ونهيت
عن المنکرواتبعت الرسول وتلوت الکتاب حقّ تلاوتہ و دعوت الیٰ سبيل ربک بالحکمة
والموعظة الحسنة ۔اشهد انک کنت علیٰ بيّنة من ربک قدبلّغت مااُمرت بہ وقمت
بحقّہِ،وصدّقت مَن قبلک غيرواهن ولا موهن۔اشهد ان الجہاد معک،وان الحقّ معک
واليک وانت اهلہ و معدنہ،و ميراث النبوة عندک”۔
“اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے الله کے اس پيغام کو پہنچایا جس کا اس
نے آپ کو حکم دیاتها اور آپ خدا کے علاوہ کسی سے خائف نہيں ہوئے اورآپ نے راہ
خدا ميں جہاد کيا اور اس کی خلوص کے ساته عبادت کی یہاں تک کہ آ پ کو موت
آگئی ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کلمہ ٴ تقویٰ اور عروہ ٴ وثقیٰ اور اہل دنيا پر حجت
ہيں اور ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ آپ الله کے بندہ اور اس کے امين ہيں ، آ پ نے
ناصحانہ انداز ميں پيغام حق پہنچایا اور امانت کو ادا کيا آپ صدیق شہيد کئے گئے ،
اور یقين پر دنيا سے گئے ،ہدایت کے بارے ميں کبهی گمراہی کو ترجيح نہيں دی
اورکبهی حق سے باطل کی طرف مائل نہيں ہوئے ميں گواہی دیتا ہوں کہ آ پ نے
نماز قائم کی ،اور زکوٰة ادا کی اور نيکيوں کا حکم دیابرائيوں سے روکااور رسول کا
اتباع کيا اور قرآن کی تلا وت کی جوتلا وت کاحق تها اورحکمت اور مو عظہ حسنہ کے
ذریعہ اپنے رب کی راہ کی طرف بلایا،ميں گواہی دیتا ہوںکہ آپ اپنے رب کی طرف
سے ہدایت یافتہ تهے اور جو آپ کو حکم دیا گيا تهاآپ نے اسی کو پہنچایا،اس کے
حق کے ساته قيام کياجس نے آپ کو قبول کيااس کی آپ نے اس طرح تصدیق کی
کہ نہ اس کی کو ئی تو ہين ہواور نہ آپ کی تو ہين ہو ،ميں گوا ہی دیتا ہوں کہ جہاد
آپ کے ساته ہے اور حق آپ کی طرف ہے آپ ہی اس کے اہل اور اس کا معدن ہيں ”
وارثت کی گواہی
یہی وہ امامت ہے جس کی ہم نے اس زیارت ميں گواہی دی ہے اور وہ امامت
حضرت امام حسين عليہ السلام کے بعد آپ کی نسل درنسل باقی رہے گی یہ
امامت درميان ميں منقطع ہونے والی نہيں ہے یہ امامت ائمہٴ توحيد کی امامت ہے
جو تاریخ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام سے مستقر ہوئی ہے حضرت آدم
حضرت نوح اور حضرت ابراہيم سے رسول خدا (ص) حضرت علی اورامام حسن تک
پہنچی ہے حضرت امام حسين عليہ السلام اس امامت کی تمام ارزشوں اور ذمہ
داریوں کے وارث ہيں :
<انّ الله اصط فٰی آدَمَ وَنُوحْاًوَآلَ اِبرَْهِيمَْ وَآلَ عِمرَْانَ عَل یٰ العَْالَمِينَْ ذُرِّیَّةً بَعضُْهَا مِن ( بَعضٍْ وَاللہُّٰ سَمِيعٌْ عَلِيمٌْ > ( ١
“الله نے آدم ،نوح اور آل ابراہيم اور آل عمران کو منتخب کرليا ہے یہ ایک نسل
ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور الله سب کی سننے والا اور جا ننے
والا ہے ”
حضرت امام حسين عليہ السلام کر بلا ميں اس وارثت کے عہدہ دارتهے :امام
حسين عليہ السلام اس عظيم ميراث کو کر بلا تک لے گئے تا کہ لوگ اس کے ذریعہ
دليل پيش کریں اس کا دفاع کریں اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ آلِ عمران آیت/ ٣٣ ۔ ٣۴ ۔ )
کی مخالفت کر نے والوں سے جنگ کریں یہ بلاغ المبين اسی رسالت کےلئے ہے
جس ميراث کو حضرت امام حسين عليہ السلام نے آل ابراہيم اور آل عمران سے پایا
تها ۔
اس معرکہ کے وسط ميں زائر حضرت امام حسين عليہ السلام کےلئے گواہی
دیتا ہے:
١۔اس مقام پر واضح طورپر یہ ثابت ہوجا تا ہے کہ حضرت امام حسين عليہ
السلام کی یزید سے جنگ اور حضرت ابراہيم عليہ السلام کے نمرود سے مقابلہ
اسی طرح حضرت موسیٰ کا فرعون سے ڻکراؤ اور رسول خدا (ص)کی ابو سفيان
سے مخالفت نيز حضرت علی کی معاویہ سے جنگ ميں کوئی فرق نہيں ہے۔
٢۔تمام مرحلوں ميں اس جنگ کا محور، روح توحيد ہے ۔
٣۔جو ميراث حضرت امام حسين عليہ السلام کو آل ابراہيم اور آل عمران سے
ورثہ ميں ملی جس کےلئے آپ نے کربلا کے ميدان ميں قيام کيا وہ ميراث آپ کے بعد
آپ کی ذریت ميں موجود رہی انصار جنهوں نے امام حسين عليہ السلام کا اتباع
کيااسی طرح یہ ميراث ان کے تابعين جو آل ابرا ہيم اور آل عمران کی راہ سے ہدایت
حاصل کرتے رہے ان ميں باقی رہی۔
ہم صالحين کی وراثت کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام کی
شہادت کےلئے زیارت وارثہ کے جملے پڑهتے ہيں :
<السلام عليک یاوارث آدم صفوةالله،السلام عليک یاوارث نوح نبي اللّٰہ السلام
عليک یاوارث ابراهيم خليل اللّٰہ ،السلام عليک یاوارث مو سیٰ کليم اللّٰہ،السلام عليک
یاوارث عيسیٰ روح اللّٰہ،السلام عليک یاوارث محمّدحبيب اللّٰہ،السلام عليک یاوارث
اميرالموٴمنين ولي اللّٰہ>
“سلام آپ پر اے آدم صفی الله کے وارث ،سلام آ پ پراے نوح نبی خدا کے
وارث، سلام آپ پر اے ابراہيم خليل خدا کے وارث،سلام آپ پراے مو سیٰ کليم الله کے
وارث ،سلام آپ پر اے عيسیٰ روح الله کے وارث ،سلام ہوآ پ پر اے محمدصلی الله
عليہ وآلہ حبيب خدامحمدمصطفےٰ کے وارث،سلام ہو آپ پر اے اميرالمو منين ولی الله
کے وارث ”
آل ابراہيم اور آل عمران کی اس وراثت کی اگر چہ قرآن کی آیت کے مطابق
ایک نسل ذریت کی طرف نسبت دی گئی ہے :
( <ذُرِّیَّةً بَعضُْهَامِن بَعضٍْ> ( ١
“یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے ”
مگر یہ کہ یہ رسول خدا (ص)اور مو لا ئے کائنات کی جانب فرزندی کی طرف
ذریتی انتساب کے عنوان کے علاوہ ایک اور عنوان ہے کيونکہ یہ عنوان براہ راست اس
شہادت کے بعد وارد ہوا ہے :
“السلام عليک یابن محمّد المصطفیٰ ،السلام عليک یابن علی المر تضیٰ
السلام عليک یابن فاطمة الزهراء السلام یابن خدیجة الکبری ”
“سلام آپ پر اے محمد مصطفے کے فرزند سلام آپ پر اے علی مر تضیٰ کے
دلبند سلام آپ پر اے فاطمہ زہرا کے لخت جگر سلام آپ پر اے خدیجة الکبریٰ کے
فرزند ”
شاہد ومشہود
زیارتوں ميں گواہی سے متعلق روایات ميں شاہد اور مشہود کے درميان کوئی
ربط نہيں ہے ان گواہيوں ميں زائر جس کی زیارت کر رہا ہے اس کی گواہی دیتا ہے :
<انّک قد اقمت الصلاة وآتيت الزکاة وامرت بالمعروف ونهيت عن المنکروجاهدت
في سبيل الله حقّ جهادہ >
“بيشک آپ نے نماز قائم کی زکوٰة ادا کی اورنيکيوں کا حکم دیا اور برائيوں
سے روکا اور الله کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ آل عمران آیت/ ٣۴ ۔ )
راہ ميں جہاد کيا جو جہاد کا حق تها ”
پس زائر شاہد اور جس کی زیارت کر رہا ہے وہ مشہودلہ ہے اور اس کا عکس
بهی صحيح ہے
بيشک الله کے انبياء عليہم السلام اس کے رسول اور ان کے اوصياء امتوں پر
شاہد ہيں اور رسول الله (ص) ان کے اوصياء اس امت کے شاہد ہيں۔
خدا وند عالم کا ارشاد ہے:<وَیَومَ نبعثُ فی کُلّ اُمّةٍ شهيداًعليهم مِن انفُْسِهِم
( وَجِئْنٰابک شهيداًعلیٰ هٰوٴُلاٰء >( ١
“اور قيامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انهيں ميں کا ایک گواہ اڻهائيں گے اور
پيغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر لے آئيں گے ۔۔۔”
( <یَااَیُّهَاالنَّبِیُّ اِنَّااَرسَْلنَْاکَ شَاهِداًوَمُبَشِّراًوَنَذِیرْاً >( ٢
“اے پيغمبر ہم نے آپ کو گواہ،بشارت دینے والا ،عذاب الٰہی سے ڈرانے والا”
<کَ لٰ ذِکَ جَعَلنَْاکُم اُمَّةً وَسَطاًلِتَکُونُْواْشُهَدَاءَ عَل یٰ النَّاسِ وَیَکُونَْ الرَّسُولُْ عَلَيکُْم ( شَهِيدْاً >( ٣
“اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درميانی امت قرار دیا ہے تا کہ تم لوگوں
کے اعمال کے گواہ رہو اور پيغمبر تمہا رے اعمال کے گواہ رہيں ”
( < وَلِيَعلَْمَ اللهُ الَّذِینَْ آمَنُواْوَیَتَّخَذَمِنکُْم شُهَدَاءَ >( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ نحل آیت/ ٨٩ ۔ )
٢)سورئہ احزاب آیت/ ۴۵ ۔ )
٣)سورئہ بقرہ آیت/ ١۴٣ ۔ )
۴)سورئہ آل عمران آیت/ ١۴٠ ۔ )
“تا کہ خدا صاحبان ایمان کو دیکه لے اور تم ميں سے بعض کو شہداء قرار دے
اور وہ ظالمين کو دوست نہيں رکهتا ہے ”
<فاٴُو ئِٰلکَ مَعَ الَّذِینَْ اَنعَْمَ اللهُ عَلَيهِْم مِنَ النَّبِيِّينَْ وَالصِّدِّیقِْينَْ وَالشُّهَدَاءِ
( وَالصَّالِحِينَْ>( ١
“وہ ان لوگوں کے ساته رہے گا جن پر خدا نے نعمتيں نازل کی ہيں انبياء
،صدیقين،شہداء اور صالحين ”
پس زائر ین شاہد کی منزل سے مشہود کی منزل ميں پہونچ جاتے ہيں اسی
طرح مشہود لہ جن کے لئے ہم نماز زکات، امر بالمعروف اور جہاد کی گو اہی دیتے
ہيں وہ شاہد بن جاتے ہيں ۔
زیارتو ں ميں واردہوا ہے :
<انتم الصراط الاقوم وشهداء دارالفناء وشفعاء دارالبقاء >
اور حضرت اميرالمو منين عليہ السلام کی آڻهویں زیارت ميں آیا ہے :
<مضيت للذی کنت عليہ شهيداًوشاهداًومشهوداً >
“اور جس مقصد پر آپ تهے اسی پر شہيد ہوئے اور شاہد و مشہود ہوئے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ نساء آیت/ ۶٩ ۔ )
|