دعا عند اهل بيت(جلد دوم)
 

زیارت
اس بات سے واقفيت کے بعدکہ تمام نسلوں ميں ميراث، تسالم، محبت اورملاقات کا رابطہ
اس دین کی خصوصيات ميں سے ہے ۔۔ ہم کویہ بهی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ وسائل کيا ہيں جن کی وجہ سے یہ رابطہ پيدا ہوتا ہے اور گذشتہ نسلوں کے لئے مو جودہ نسل کے احساسات کا پتہ چلتا ہے ۔۔۔یہ وسائل اس مقصد تک پہنچنے کےلئے اسلامی تربيتی پہلوکی راہ ہموارکرنے ميں موٴثر شمار ہوتے ہيں ۔
انبياء عليہم السلام اور ان کے خلفاء ،اوليائے الٰہی اور الله کے صالح بندوں کی قبروں کی زیارت کرنا ،ان پر سلام بهيجنا، ان کےلئے دعاکر نا ،ان کےلئے نماز قائم کرنا، زکواة ادا کرنااور امر بالمعروف کر نے کی گواہی دینا مو منين کی نسلوں کے درميان اس ملاقات اوررابطہ کے اہم اسباب ہيں ۔
ان زیارتوں ميںجن سے مومنين اولياء الله اور مومنين کی قبروں کی زیارت نيز اس سے متصل سلام و دعا و شہادت کے ذریعہ مانوس ہو تے ہيں مو منين کی اس جماعت کے سلسلہ ميں اپنے احساسات بيان کرتے ہيں جو ان سے پہلے ایمان لا چکے ،نمازیں قائم کرچکے ،امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کرچکے ،ان سے پہلے تو حيد کی جانب دعوت کے پيغام کيلئے قيام کرچکے خداکی جانب ان کےلئے راستہ ہموار کرچکے لوگوں کو خداوند عالم کا عبادت گذار بنا چکے ان سے پہلے لوگوں کے درميان کلمہ ٴ تو حيد کو بلند کرچکے ہيں ۔
اس احسان کےلئے زیارت کو وفا سے تعبير کيا گياہے یعنی اولاد کا اپنے آبا واجداد سے وفاداری کا اظہار کرنااس دوررائدميں توحيد ،نماز قائم کرنے اور زکات ادا کرنے کی جانب دعوت دینے کيلئے گواہی کی ضرورت ہے اور زیارت کا مطلب ہی فرزندوں کاآباوٴ واجداد کے سلسلہ ميں اور مو جودہ نسل کا گذشتگان کےلئے گواہی دینا ہے۔
زیارت ميں صلح وسلامتی اور محبت سے مراد گذشتہ نسلوں سے رابطہ برقرار رکهنا ہے اور حقيقت ميں ملاقات، رابطہ اور ایک دوسرے پر رحم ،صالحين کی پيروی ان کی یاد سے متعلق ذکر الٰہی کو مجسم کرتا ہے ۔
مومنين اپنی زندگی ميں فطری طور پر انبياء صالحين بلکہ تمام مومنين کی قبروں سے مانوس ہو تے ہيں اور رسول خدا (ص)کے اصحاب، اُحد کے شہيدوں اور حمزہ عليہ السلام کی قبر کی زیارت کيا کر تے تهے جيسا کہ صحيح روایات ميں وارد ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا رسول الله (ص) جناب حمزہ عليہ السلام کی قبر کی زیارت کر نا ضروری سمجهتی تهيں اور یہ زیارتيں اکثر نماز، دعا، ذکر اور الله کی بارگاہ ميں حاضر ی کے ساته انجام پاتی ہيں اور ماثور ہ زیارات ميں یہ تمام باتيں ذکر ہوئی ہيں ۔
تعجب ہے بعض اسلامی مذا ہب مسلمانوں کو انبياء ائمہ المسلمين اور صالحين کی قبروں کی زیارت کر نے اور ان کی قبروں کے نزدیک دعا اور نماز پڑهنے سے منع کر تے ہيں اور اسلام کی اس عمومی روش سے اپنے کو الگ قرار دیتے ہيں جو صالحين کی قبروں کی زیارت کر نے جاتے ہيں ان کو قبروں کے نزدیک دعا نماز اور ذکر کر نے سے منع کر تے ہيں اور اس فعل کو الله کے با رے ميں شرک سے تعبير کرتے ہيں ۔
ہم اس کاسبب تو نہيں جا نتے ہيں البتہ یہ کہہ سکتے ہيں کہ انهوں نے اسلام کے ظا ہری امر اور مفاہيم نيز ان اقدار کو اچهی طرح نہيں سمجها ہے جو زیارات کے سلسلہ ميں بيان کی گئی ہيں ۔
اور ہم یہ بهی نہيں جانتے کہ یہ برائی کس طرح کی برا ئی ہے جس سے مسلمانوں نے نہيںروکا جبکہ نصف صدی سے بڑی شدت کے ساته مسلمانوںکو اس چيز سے منع کياجارہا ہے ۔
یا تو ہم نصف صدی سے سختی سے روکنے والوں کو غلطی سے متہم کریں۔
یا ہم ان پر توحيد اور شرک کو صحيح نہ سمجهنے کا الزام لگائيں یعنی ان دونوں باتوں کو صحيح طریقہ سے درک نہيں کرپائيں ہيں ۔
خداوند عالم سب کو راہ راست کی ہدایت فر مائے اور اپنے صراط مستقيم پر اپنی خوشنودی کی جانب ہماری دستگيری فر مائے ۔

زیارتوں کی عبارات ميں آنے والے معانی و مفاہيم کا جا ئزہ
رسول خدا اور ائمہ معصو مين عليہم السلام کی زیارت کے سلسلہ ميں اہل بيت سے وارد ہونے والی روایات ميں ہم افکار کے مختلف نہج پاتے ہيں ہم ان ميں سے ذیل ميں دونمونے ذکر کر رہے ہيں :
پہلا نہج :وہ افکار جن کا امام اور امت کے درميان سياسی تعلق ہوتا ہے ۔ دوسرا نہج :وہ افکار جن کا زائر اور امام کے درميان ذاتی تعلق ہوتا ہے ۔ ہم عنقریب ان دونوں طریقوں کے سلسلہ ميں زیارتوں ميں واردہونے والے مضامين بيان کریں گے ۔

زیارتوں ميں سياسی اور انقلابی پہلو


١۔زیارت کا عام سياسی دائرہ سے رابطہ
اہل بيت عليہم السلام سے زیارتوں کے سلسلہ ميں وارد ہونے والی روایات ميں عقيدتی اور سياسی قضيہ کا بہت وسيع ميدان ہے اور سياسی قضيہ سے ہماری مراد رسول اسلام (ص) کے بعد امامت اور ولایت کا مسئلہ ہے اور یہ وہ معتبر وسيلہ ہے جو بنی اميہ اوربنی عباس کے دور ميںنيزاس کے بعدبهی سياست دور ميں ا سلام کے اصل راستہ سے منحرف ہوجانے کے بعدجاری وساری رہا ہے۔ اسلامی حکومتوں پر ایسے افراد نے بهی حکومت کی ہے جواسلام اور عالم اسلام کی نظر ميں قابل اطمينان نہيں تهے انهوں نے اسلام اور مسلما نوں کو بہت نقصان پہنچایا اہل بيت عليہم السلام نے اپنے دورکی اس طرح کی حکومتوں کا مقابلہ کيا ۔
اموی اور عباسی، مضبوط حکومتوں سے ڻکراتے رہنے کی بنا پرشيعہ ادب اور ثقافت ميں واضح آثار رونما ہوئے اور اسی وقت سے اہل بيت عليہم السلام کی اتباع کر نے والے شيعوں کو رافضہ کے نام سے پہچا نا جانے لگا چونکہ انهوں نے بنی اميہ اور بنی عباس کے خلفا کی ولایت کا انکار کيا تها ۔
شيعی سياسی فکر اور شيعی سياسی ادب کواس وقت سے رفض کا رنگ دیا گيا جب معاویہ نے حضرت امام حسن عليہ السلام سے مختلف بہانوں اور مکاریوں سے حکومت لی اور یہ رنگ بنی عباس کی حکومت کے اختتام تک باقی رہا۔ اس سياسی جنگ اور سياسی معارضہ کی اہل بيت عليہم السلام سے وارد ہونے والی دعاؤں ميں واضح طور پر عکاسی کی گئی ہے خاص طورسے امام اميرالمومنين علی بن ابی طالب عليہ السلام اور حضرت امام حسين عليہ السلام کی زیارت ميں چو نکہ ان دونوں اماموں کا دور تاریخ اسلام ميں مقابلہ اور ڻکراؤ کاسب سے سخت دور تها ۔
اور شاید اسی سبب کو حضرت امير المو منين علی بن ابی طالب عليہ السلام اور آپ کے فر زند ارجمند حضرت امام حسين عليہ السلام سے مروی زیارتوں ميں کثرت کے ساته ذکر کيا گيا ہے ۔
اور ان دونوں اماموں سے واردہونے والی زیارتوں کادوسرے تمام ائمہ سے وارد ہو نے والی زیارتوں سے مقدار اور کيفيت ميں فرق ہے ۔
اس سياسی قضيہ کاخلاصہ زیا رتوں ميں بيان ہواہے جيسا کہ ہم نے اس کا شہادت اور مو قف کے عنوان ميںتذکرہ کيا ہے جن ميں پہلاشہادت کے بارے ميں ہے اور دوسرا سياست کے متعلق ہے۔ ہم موقف کو شہادت کے بعد بيان کریں گے ۔
بيشک سياسی موقف ہر جنگ اور اختلاف کے مو قع پر قضاوت کے دا ئرہ کا خلاصہ ہوتا ہے قضاوت حق دو جهگڑاکرنے وا لو ں کے در ميان قا طع حکم کانام ہے، اس وقت اس حکم کی رو شنی ميں جس کو قضاوت معين کرتی ہے اس سے سياسی موقف معين ہو تا ہے ۔
ایسے ميں سب سے انصاف کرنے والاخود انسان کا ضمير ہوتا ہے وہ انصاف جس کو خدا نے انسان کی فطرت ميں ودیعت کيا ہے ۔
اسی طرح اس الٰہی محکمہ ميں اہل بيت عليہم السلام کے زائرکو یہ گوا ہی دینی پڑے گی کہ حق اہل بيت عليہم السلام کاحصہ ہے اور انهيں کے ساته ہے ،اور اہل بيت عليہم السلام کے دشمنوں کے خلاف یہ گواہی دے کہ وہ حق سے منحرف اور باطل کی طرف رجحان رکهنے والے تهے ۔ پهر اس گوا ہی کے راستہ پر ولایت ، برا ئت ،رو گردانی و سلام و لعنت کا موقف معين ہوتا ہے اب ہم ذیل ميں شہا دت اور مو قف ميں سے ہر ایک کے سلسلہ ميں اہل بيت عليہم السلام سے منقولہ زیارات کی چند عبارتوں کاتذکرہ کرتے ہيں :

الف:شہادت
مقابلہ کے پہلے مرحلہ ميں رسالت کی گواہی
جناب عمار کی زبانی جنگ کی دو قسميں ہيں ،ایک جنگ جو تنزیل قرآن پر ہوئی جو بدر اور احد ميں ہو ئی تهی اور دوسری جنگ تا ویل قرآن پر ہو ئی جو جمل،صفين اور کربلا ميں ہو ئی تهی یہ دو نوں جنگيں آج تک قا ئم ہيں اور یہ آ خر تک قائم رہيں گی ۔ہم پہلی جنگ کے سلسلہ ميں حضرت رسول خدا (ص) کی زیارت ميں پڑهتے ہيں :
اشهدیارسول الله مع کل شاهدواتحمّلهاعن کلّ جاد:انک قد بلّغت رسالات ربّک،ونصحت لامتک،وجاهدت فی سبيل ربّک،واحتملت الاذیٰ في جنبہ،ودعوت الیٰ سبيلہ بالحکمة والموعظة الحسنة الجميلة،وادّیت الحقّ الذي کان عليک ،وانّک قد روٴفت بالموٴمنين وغلظت علیٰ الکافرین، وعبدت اللّٰہ مخلصاًحتیّٰ اتاک اليقين،فبلغ اللّٰہُ بک اشرف محل المکرمين،واعلیٰ منازل المقرّبين،وارفع درجات المسلمين حيث لایلحقک لاحق،ولایفوقک فائق،ولایسبقکَ سابق،ولایطمع فی ادراکک طامع۔” “ميں شہادت دیتاہوں اے خدا کے رسول تمام شاہدوں کے ساته اورتمام منکروں کے مقابلہ ميں کہ آپ نے اپنے پرور دگار کے پيغامات کو پہنچا یا ،اپنی امت کو نصيحت کی، راہ خدا ميں جہاد کيا، اس کی راہ ميں ہر زحمت کو برداشت کيا ،لوگوں کو راہ خدا کی دعوت دی حکمت اور مو عظہ حسنہ کے ساته اوروہ سب کچه ادا کردیا جو آپ کے ذمہ تها، آپ نے مو منين پر مہربانی کی اور کافروںپر سختی کی اور خلوص سے الله کی عبادت کی یہاں تک کہ زندگانی کا خاتمہ ہوگيا خدا آپ کو بزرگ بندوںکی عظيم ترین منزل تک پہونچائے اورآپ کو مقربين کے بلند ترین مرتبہ پرفائزکرے اور مرسلين کے عظيم ترین درجہ تک پہنچادے جہاں تک کو ئی پہونچنے والا نہ پہنچ سکے اور کو ئی اس سے بالاتر نہ جاسکے اور کو ئی اس سے آگے نہ نکل سکے اورکسی ميں اس منزل کوحاصل کرنے کی طمع بهی نہ ہو سکے”
احد کے شہيدوں کی قبروں کی زیارت کے سلسلہ ميں پڑهتے ہيں :
<واشهدکم انکم قدجاهدتم فی اللّٰہ حقّ جہادہ وذببتم عن دین اللّٰہ وعن نبيہ،وجدتم بانفسکم دونہ،واشهد انکم قُتِلْتُمْ علیٰ منهاج رسول اللٰہ، فجزاکم اللّٰہ عن نبيہ وعن الاسلام واهلہ افضل الجزاء،وعرفناوجوهکم في رضوانہ مع النبيين والصدیقين والشهداء والصالحين وحسن اولٰئِکَ رفيقاً>
“اور ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حضرات نے راہ خدا ميں جہاد کا حق ادا کيا اور دین خدا اور رسول خدا سے دفاع کيا اور اپنی جان قربان کردی اور ميں گو اہی دیتا ہوں کہ آپ لوگ رسول الله کے طریقہ پر دنيا سے گئے خدا آپ کو اپنے پيغمبر اور اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے بہترین جزادے اور ہميں محل رضااور محل اکرام ميں آپ کی زیارت نصيب کرے جہاں آپ انبياء ،صدیقين ، شہداء اور صالحين کے ساته ہوں گے جوبہترین رفقاء ہيں ”