|
محو اور اثبات
محو اور اثبات کے معنی ميں بداء کے یہی معنی قرآن کریم ميں بيان ہو ئے
ہيں :
( <یَمحُْواللهُ مَایَشَاءُ وَیُثبِْتُ وَعِندَْہُ اُمُّ الکِْتَابِ >( ١
“الله جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے یا بر قرار رکهتا ہے کہ اصل کتاب اسی
کے پاس ہے ”
“اُمّ الکتاب ”سے مراد الله تعالیٰ کا علم ہے جس کو روایات کی زبان ميں “لوح
محفوظ ”سے تعبير کی گئی ہے جس ميں محو اور تغيير واقع نہيں ہو تا اور نہ ہی خدا
وند عالم ایسا ہے کہ وہ پہلے ایک چيز سے نا آگاہ ہو اور بعد ميں اس کو اس چيز کا
علم حاصل ہو ۔
شيخ صدوق نے کتاب “ اکمال الدین ”ميں ابو بصير اور سماعة سے اور
انهوں نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ رعد آیت/ ٣٩ ۔ )
( <من زعم انّ اللّٰہ عزّوجلّ یبدوٴلہ في شي ءٍ لم یعلمہ امس فابروٴوامنہ>( ١
“جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ الله عز و جل کےلئے ایسی چيز کا علم
حاصل ہو تا ہے جس کو وہ کل نہيں جانتا تهاتو اسے ہم سے برائت کرناچا ہئے ”
محو “ کتاب تکوین ” ميں تو جاری ہو سکتا ہے ليکن “اُمُّ الکتاب ”جو خداوند
عالم کا علم ہے اس ميں جا ری نہيں ہو سکتا ہے ۔
خداوند عالم کا علم ثابت ہے اس ميں کسی قسم کی رد و بدل اور تغير
وتبدل واقع نہيں ہو سکتا ہے اور تغير و تبدل کائنات ،مجتمع اور تاریخ ميں ان اسباب
کے ذریعہ واقع ہو تا ہے جن کو خداوند عالم نے ان کےلئے فراہم کر رکها ہے ۔عياشی
نے ابن سنان سے اور انهوں نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا
ہے :
<انَّ اللّٰہ یقدِّم مایشاء ویوٴخرمایشاء،ویمحومایشاء ویثبت مایشاء وعندہ امّ
الکتاب وقال فکل امریریدہ اللّٰہ فهو فِيْ علمہ قبل ان یصنعہ ليس شي ء یبدولہ
( الّاوقدکان فِيْ علمہ، انّ اللّٰہ لایبدولہ من جهل >( ٢
بيشک خداوند عالم جس چيز کو چا ہتا ہے مقدم کر دیتا ہے اور جس چيز کو
چا ہتا ہے مو خر کردیتا ہے جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے اور جس چيز کو چاہتا ہے
ثابت (برقرار ) رکهتا ہے اس کے پاس اُمّ الکتاب ہے اور ہر وہ امر جس کا خداوند
عالم ارادہ کرتا ہے وہ اس سے پہلے کہ اس چيز کو موجود کرے اس کے علم ميں
ہے کو ئی ایسی چيز نہيں ہے جس کی وہ ابتدا کرے وہ اس کے علم ميں نہ ہو
،بيشک خداوندعالم کسی چيز کی ابتدا کرنے سے نا آگاہ نہيں ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الانوار جلد ۴ صفحہ ١١١ ۔ )
٢)بحار الانوار جلد ۴ صفحہ ١٢١ ۔ )
عمار بن مو سیٰ نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے :
“جب حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سےیمحوالله کے سلسلہ ميں
سوال کيا گيا تو آپ نے فرمایا:
<اِنَّ ذلک الکتاب کتاب یمحواللّٰہ مایشاء ویثبت،فمن ذلک یَرُدُّ الدعاء القضاء
وذالک الدعاء مکتوب عليہ الّذي یُرَدُّبہ القضاء حتّٰی اذاصارالیٰ اُمِّ الکتاب لم یغن الدعاء
( فيہ شيئاً>( ١
“بيشک وہ کتاب ایسی کتاب ہے جس ميں سے الله جو چاہتا ہے اس کو مڻا
دیتا ہے اور جس چيز کو چاہتا ہے برقرار رکهتا ہے جو شخص دعا کے ذریعہ قضا کو رد
کرنا چاہتا ہے تو وہ دعا خداوند عالم کے پاس لکهی ہو ئی ہے جس کے ذریعہ سے
قضا ڻل جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ ام الکتاب تک پہنچتی ہے تو دعا اس ميں کچه
نہيں کرسکتی ہے ”
خداوند عالم کائنات کے نظام ميں قانون عليت کے ذریعہ جس چيز کو چاہتا ہے
ثابت رکهتا ہے اور جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے ۔کبهی ایک معين و مشخص
مرض صاحب مرض کی طبيعی اسباب کے ذریعہ مو ت کا سبب ہو تا ہے تو خداوند
عالم اس کو اپنے اذن و امر سے اس کےلئے بر قرار رکهتا ہے اور جب چاہتا ہے اس
کو مڻا دیتا ہے اور صاحب مرض کی شفا ء کے اسباب فراہم کردیتا ہے ۔اسباب کے
معطل کرنے کا مطلب یہ نہيں ہے کہ تکوین ميں توقانون محو جاری ہو جاتا ہے ليکن
ام الکتاب ميں نہ محو جاری ہو تا ہے نہ کو ئی تغير وتبدل ہو تا ہے اور نہ ہی خداوند
عالم کسی چيز سے ناآگاہ ہو نے کے بعد اس کا عالم ہوتا ہے۔
کتاب تکوین ميں یہ محو اسباب و مسببات کے نظام کےلئے خدا وند عالم کی
“حکمت ”اور “رحمت ’ کی بنا پر جاری ہو تے ہيں ۔جب خداوند عالم کی “حکمت ”اور
“رحمت ’ کائنات اورمعاشرہ ميں کسی چيز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار )
کے حادث ہو نے کا تقاضا کرتی ہے تو خداوند عالم اس کے اسباب فراہم کردیتا ہے اور
جو کچه کائنات اورمعاشرہ ميں ہو تا ہے اس کو مڻا دیتا ہے اگر الله تعالیٰ کی مشيت،
اسباب اور مسببات کے نظام کی باعث نہ ہو ۔یہ نظام “محو ”اور “اثبات ”کی حالت
ميں الله تعالیٰ کے امر کا خاضع ہے ،الله تعالیٰ کی بادشاہت اس پر نافذ ہے ۔جب خدا
وند عالم اپنے اذن اور امر سے اس کا اثبات چاہتا ہے تو وہ ثابت رہتا ہے اور جب الله
اس ميں تغير تبدل اور اس کو مڻانا چاہتا ہے تو وہ اس کے حکم اور بادشاہت سے بدل
جاتے ہيں ۔
“بداء ”پر ایمان کی تردید
ہميت کے اعتبار سے بداء پر ایمان رکهنا خداوند عالم پر ایمان رکهنے کے بعد
آتا ہے ؛ بداء کے انکار کرنے کا مطلب کائنات اور معاشرہ کی حرکت اور اس کی دیکه
بهال کرنے سے خداوندعالم کے ارادہ کو معزول کرنا اور نظام عليت و سببيت ميں الله
کے ارادہ کو محکوم کرنا ہے جيسا کہ یہود کہتے ہيں :
( <یَدُاللهِمَغلُْولَْةٌ >( ١
“خدا کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں ”
بلکہ ہمارا قول یہ ہے :
( <بَل یَدَاہُ مَبسُْوطَْتَانِ >( ٢
“بلکہ خدا کے دونوں ہاته کهلے ہو ئے ہيں ”
خداوند عالم کی بادشاہت کی کو ئی انتہا نہيں ہے اس کا ہاته پوری کائنات
اور معاشرہ پر پهيلاہوا ہے ۔
الله تبارک و تعالیٰ پر مسلمان انسان کے عقيدہ رکهنے کی یہ پہلی پناہ گاہ
ہے اور دوسری پناہ گاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) سورئہ مائد ہ آیت ۶۴ ۔ )
٢) سورئہ مائد ہ آیت ۶۴ ۔ )
الله تعالیٰ سے رابطہ رکهنا ہے ۔بيشک الله تعالیٰ پر ایمان نظام ميں اسباب و
مسببات ميں ہر حال ميں جو تغير و تبدل ہوتا ہے وہ اس کی دسترس ميں ہے بندہ
اپنی تمام حاجتوں ميں اسی سے پناہ چاہتا ہے اور اکثر انسان کو جو چيز الله سے
متمسک کرتی ہے وہ حاجتوں اور رنج و غم کے وقت خداوند عالم سے دعا کرنے کا
وقت ہے ۔
جب انسان الله تعالیٰ کے قضا اور قدر ميں تغير و تبدل کی کو ئی سبيل نظر
نہيں آتی اور وہ حادثوں کے واقع ہونے کے وقت دعا کرنے ميں کو ئی فائدہ نہيں
دیکهتا تو انسان اپنی حاجت اور اہم کام کے وقت خداوند عالم سے پناہ نہيں مانگتا
ہے ۔الله کی پناہ تو وہ لوگ مانگتے ہيں جن کا یہ عقيدہ ہے کہ الله تعالیٰ کی دو قضا
ہيں خداوندعالم کی ایک قضا وہ ہے جو ام الکتاب ميں لکهی گئی ہے جس ميں تغير
و تبدل کا کو ئی امکان ہی نہيں ہے ۔دوسری قضا وہ ہے جس ميں جب الله چا ہتا ہے
تو تغير و تبدل واقع ہو جاتا ہے تو اس وقت بندے اپنی حاجتوں اور دعاوٴں کے قبول ہو
نے کے لئے اس کی پناہ ماگتے ہيں ۔
دعا اور بداء
جوامور اسباب و حوادث کی رفتاربدلنے ميں خداوند عالم کے ارادہ کے دخل
انداز ہو نے کا سبب ہوتے ہيں وہ بہت زیادہ ہيں جيسے ایمان اور تقویٰ، خداوند عالم
ارشاد فر ماتا ہے :
( <وَلَواَْنَّ اَهلَْ القُْر یٰ آمَنُواْوَاتَّقُواْلَفَتَحنَْاعَلَيهِْم بَرَکَات مِنَ السَّمَاء>( ١
“اور اگراہل قریة ایمان لے آتے اور تقویٰ اختيار کرليتے تو ہم ان کےلئے زمين و
آسمان کی برکتوں کے دروازے کهول دیتے ”
( شکر :<لَئِن شَکَرتُْم لَاٴَزِیدَْنَّکُم >( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ اعراف آیت/ ٩۶ ۔ )
٢)سورئہ ابراہيم آیت/ ٧۔ )
“اگر تم ہمارا شکریہ ادا کروگے تو ہم نعمتوں ميں اضافہ کر دیں گے ”
استغفارکے بارے ميں ارشاد ہوتا ہے :
( <وَمَاکَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُم وَاَنتَْ فِيهِْم وَمَاکَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم یَستَْغفِْرُونَْ >( ١
“حالانکہ الله ان پر اس وقت تک عذاب نہيں نازل کرے گا جب تک “پيغمبر ”آپ
ان کے درميان ہيں اور خدا ان پر عذاب کرنے والا نہيں ہے اگر یہ توبہ اور استغفار کرنے
والے ہو جا ئيں’
دعا اور ندا کے سلسلہ ميں خداوند عالم فرماتا ہے :
( <وَنُوحْاًاِذ اْٰند یٰ مِن قَبلُْ فَاستَْجَبنَْالَہُ فَنَجَّينَْاہُ وَاَهلَْہُ مِنَ الکَْربِْ العَْظِيمِْ>( ٢
“اور نوح کو یاد کرو جب انهوں نے پہلے ہی ہم کو آواز دی اور ہم نے ان کی
گزارش قبول کر لی اور انهيں اور ان کے اہل کوبہت بڑے کرب سے نجات دلادی ”
<وَاَیُّوبَْ اِذنَْاد یٰ رَبَّہُ اِنِّی مَسَّنیَْ الضُّرُّوَاَنتَْ اَرحَْمُ الرَّاحِمِينَْ فَاستَْجَبنَْالَہُ
( فَکَشَفنَْامَابِہِ مِن ضُرٍّوَآتَينَْاہُ اَهلَْہُ وَمِثلَْهُم مَعَهُم رَحمَْةً مِن عِندِْنَاوَذِکرْ یٰ لِلعَْابِدِینْ>َ( ٣
“اور ایوب کو یاد کرو جب انهوں نے اپنے پرور دگار کو پکارا کہ مجهے بيماری نے
چهو ليا ہے اور تو بہترین رحم کر نے والا ہے تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان
کی بيماری کو دور کر دیا اور انهيں ان کے اہل و عيال دیدئے کہ یہ ہماری طرف سے
خاص مہربانی تهی اور یہ عبادت گزار بندوں کے لئے ایک یاد دہا نی ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انفال آیت/ ٣٣ ۔ )
٢)سورئہ انبياء آیت/ ٧۶ ۔ )
٣)سورئہ انبياء آیت / ٨٣ ۔ ٨۴ ۔ )
<وَذَاالنُّونِْ اِذذَْهَبَ مُغَاضِبًافَظَنَّ اَن لَن نَقدِْرَعَلَيہِْ فَنَاد یٰ فِی الظُّلُمَاتِ اَن لَا اِ ہٰلَ
اَلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ فَاستَْجَبنَْالَہُ وَنَجَّينَْاہُ مِنَ الغَْمِّ وَکَ لٰ ذِکَ نُنجِْی ( المُوٴمِْنِينَْ >( ١
“اور یونس کو یاد کرو کہ جب وہ غصہ ميں آکر چلے اور یہ خيال کيا کہ ہم ان پر
روزی تنگ نہيں کریں گے اور پهر تاریکيوں ميں جا کر آواز دی کہ پرور دگار تيرے علا وہ
کو ئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں
سے تها ،تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کر ليا اور انهيں غم سے نجات دلادی اور ہم
اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلا تے رہتے ہيں ”
مطلق طور پرپوری کائنات کا نظام خدا وند عالم کے قبضہ ٴ قدرت ميں ہے
کائنات ميں کو ئی ایسی چيز نہيں ہے جو اس کی سلطنت کو محدود کرے اور اس
کو عاجز کردے ۔یہ بادشاہت اس کے ذاتی اسباب کے ذریعہ جاری رہتی ہے اور اس کا
مطلب اسباب و مسببات کو معطل کرنا نہيں ہے خدا وند عالم اس نظام کائنات ميں
اپنی بادشاہت ،حکم اور امر سے جس چيز کو چاہتا ہے مڻا دیتا ہے اور اپنے اذن سے
جس چيز کو چاہتا ہے برقرار رکهتا ہے یہ محو اور اثبات فقط کتاب تکوین ميں جاری
ہوتا ہے اور “ اُم الکتاب’ ميں ایسا نہيں ہے ۔ خداوند عالم تکوین ميں اپنی حکمت اور
رحمت سے کسی چيز کو محو کرتا ہے اور اس محو کرنے کو ہی بداء کہا جاتا ہے
جواہل بيت عليہم السلام سے مروی متعدد روایات ميں ایا ہے اور خداوند عالم متعدد
اسباب کے ذریعہ بداء کو جا ری کرتا ہے، جيسے استغفار ،تقویٰ ،ایمان ،شکر اور دعا
وغير ہ
( دعا بداء کے اہم اسباب ميں سے ہے : <اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ >( ٢
“اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ ا نبياء آیت/ ٨٨ ۔ )
٢)سورئہ مومن آیت/ ۶٠ ۔ )
|
|