خدا وند عالم کے ارادہ کا قا نون عليت سے رابطہ
ہم اس قدرت اور حکومت کی رو شنی ميں جس کو قرآن کریم نے الٰہی ارادہ
کے تحت کائنات، تا ریخ اور معا شرہ ميں مقرر کيا ہے تو فطری طور پر یہ سوال ذہن
ميں آتا ہے کہ قانون عليت سے خدا کا کيا رابطہ ہے ؟
کيا یہ تعطيل ہے ؟یعنی الٰہی ارادہ قانون عليت کو معطل کر دیتا ہے جب خدا
وند عالم اس کاارادہ کرنا چا ہے ۔
اس کا جواب بغير کسی شک و شبہ کے نفی ميں ہے ۔
الله نے علت کو خلق کيا ہے اور اس کے علاوہ کسی نے علت کی تخليق
نہيں کی ہے ،علت کا خلق کرنا عليت کو با لضرورہ خلق کر نے کے برابر ہے ۔جس
طرح اس نے آگ کو پيدا کيا اسی طرح اس ميں حرارت کو بهی پيدا کيا اور آگ کو
( حرارت کے بغير پيدا کرنا زوج کو زوجيت( 1
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1)اس ميں بہت کم فرق ہے پہلا وجو د کےلئے ضروری ہے اور دوسرا ما هيت کےلئے لا زم )
ہے ۔
کے بغير پيدا کرنے کے مانند ہے ۔یہ ممکن ہی نہيں ہے کہ الله آگ کو اس کے بغير
پيدا کرے کہ وہ حرارت کےلئے علت ہوہاں وہ آگ کے علاوہ اس کو ایسی چيز ميں تو
تبدیل کر سکتا ہے جو آگ کے مشابہ ہے ۔پس اس قول کا مطلب یہ نہيں ہے کہ کا
ئنات اور تا ریخ پر ارادئہ الٰہيہ کے حاکم ہو نے سے قانون عليت کا معطل ہو جانا ہے ۔
پس ارادئہ الٰہيہ اور قانون عليت ميں کيا رابطہ ہے ؟
ارادئہ الٰہيہ قانون عليت پر بنفس نفيس قانون کی طرح حاکم ہے
قرآن کر یم نے اس علاقہ و رابطہ کی متعدد مقامات پرو ضاحت کی ہے اور
بيان فرمایا ہے کہ الله تعالیٰ حاکم مطلق ہے اور اسے اس قانون پر خوداس قانون کے
با لکل اپنی جگہ پر باقی رہتے ہوئے مطلق تسلط حاصل ہے قرآن الله کے ارادہ کو
معطل نہيں کرتا جيسا یہودیوں نے کہا ہے اور نہ نظام علت کو معطل کرتا ہے جيسا
کہ اشاعرہ نے کہا ہے بلکہ یہ تو اس کا ئنات اور اس قانون پر الله کی حاکميت کو
مقرر کرتا ہے جب وہ کسی قوم پر نعمت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس قوم
پرہواؤ ں کو رحمت کی بشارت کےلئے رواں دواں کرتا ہے :
( <هُوَ الَّذِی اَرسَْلَ الرِّیَاحَ بُشرْاً بَينَْ یَدَیہِْ رَحمَْتِہِ >( ١
“اور وہی وہ ہے جس نے ہوا ؤں کو رحمت کی بشارت کے لئے رواں کر دیا
ہے”
( <اللهُالَّذِی اَرسَْلَ الرِّیَاحَ فَتُثِيرُْسَحَاباً>( ٢
“الله وہی ہے جس نے ہوا ؤں کو بهيجا تو وہ بادلوں کو منتشر کر تی ہيں ”
( <وَاَرسَْلنَْا الرِّیَاح لَوَا قِحَ فَاٴَ نزَْلنَْا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً>( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ فر قان آیت/ ۴٨ ۔ )
٢)سورئہ فاطر آیت/ ٩۔ )
٣)سورئہ حجرآیت/ ٢٢ ۔ )
“اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجه اڻها نے والا بنا کر چلا یا ہے پهر آسمان
سے پا نی برسایا ہے ’
پاک و پاکيزہ ہے وہ ذات جو بادلوں کا بوجه اڻهانے والی ہواؤں کو بهيج کر
آسمان سے پانی برساتا ہے اور جب وہ کسی قوم کو اپنی رحمت کی بشارت دینا
چا ہتا ہے تو وہ اس پر ہواؤں کو رحمت کی بشارت دینے کے لئے رواں کرتا ہے تا کہ
وہ بادلوں کو ليجا ئيں اور ان پر آسمان سے پانی برسائے تا کہ ان کی زمين ہری
بهری ہو جا ئے جس ميں الله نے اپنی رحمت ودیعت کی ہے ۔
الله جس پر اپنی نعمتيں نازل کرناچا ہتا ہے اپنی نعمت کے ان ہی اسباب کے
ذریعہ نعمتيں نازل کرتا ہے جس طرح وہ جب کسی قوم سے اس کے برے عمل کی
وجہ سے انتقام لينا چا ہتا ہے عذاب کے اسباب کے ذریعہ انتقام ليتا ہے خدا وند عالم
آل فرعون کی تنبيہ کے سلسلہ ميں ارشاد فر ماتا ہے :
( <وَلَقَد اَخَذ اْٰنآلَ فِرعَْونَْ بِالسَّنينَ وَنَقصٍْ مِن اَ لثَّمَ اٰرتِ لَعَلَّهُم یَذَّکَّرُونَْ>( ١
“اور ہم نے آل فر عون کو قحط اور ثمرات کی کمی کی گرفت ميں لے ليا کہ
وہ شاید اسی طرح نصيحت حاصل کر سکيں ”
آل فرعون کے عذاب اور ان کی تنبيہ کا اختتام قحط اور خشک سالی پر ہوا
اور“ سنون”سنة” کی جمع ہے جس کا مطلب قحط اور خشک سالی ہے ۔
جب خداوند عالم کسی قوم پر نعمت نازل کرنا چا ہتا ہے تو اسباب نعمت کے
ذریعہ اس پر نعمت نا زل کرتا ہے اور اسباب نعمت سے ہوا اور بادل ہيں ۔جب کسی
قوم پر عذاب نازل کرنا چا ہتا ہے تو اسباب عذاب کے ذریعہ اس پر عذاب نا زل کرتا ہے
اور اسباب عذاب ميں سے قحط اور بہت کم بارش ہو نا ہے ۔
قانون تسبيب
قانو ن تسبيب سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم جس چيز کو چا ہتا ہے اس کو
اخذ کرليتاہے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) سورئہ اعراف آیت/ ١٣٠ ۔ )
جس چيز ميں چا ہتا ہے اپنی مشيت کے اسباب متحقق کر دیتا ہے قرآن کریم ميں
اس مطلب کے سلسلہ ميں بہت زیادہ شواہد مو جود ہيں خداوند عالم فر ماتا ہے :
<فَمَن یُرِدِاللهُ اَن یَهدِْیَہُ یَشرَْح صَدرَْہُ لِلاِْسلْاَمِ وَمَن یُرِدَاَن یُّظِلَّہُ یَجعَْل صَدرَْہُ
( ضَيِّقاًحَرجاًکَاَنَّمَایَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ >( ١
“پس خدا جسے ہدایت دینا چا ہتا ہے اس کے سينہ کو اسلام کے لئے
کشادہ کر دیتا ہے اور جسے گمراہی ميں چهوڑنا چا ہتا ہے اس کے سينہ کو ایسا
تنگ اور دشوار گذار بنا دیتا ہے جيسے آسمان کی طرف بلند ہو رہا ہو وہ اسی طرح
بے ایمانوں پر ان کی کثافت کو مسلط کر دیتا ہے ”
اور جس مطلب کا ہم اوپر تذکرہ کر چکے ہيں اس مطلب کو یہ آیت مکمل طور
پر واضح کر رہی ہے بيشک خدا وند عالم کسی قوم کی اس کے اعمال کے ذریعہ
ہدایت یااس کو گمرا ہ کر نے کا ارادہ رکهتا ہے تو اگر ہدایت کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے
اسباب فراہم کردیتا ہے یا ان کا سينہ اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جب وہ
کسی قوم کو گمراہ کرنا چا ہتا ہے تو اس کے محقق ہو نے کے اسباب فراہم کرتا ہے
اور اس قوم کے سينہ کو تنگ بنا دیتا ہے اور فرماتا ہے :
<وَاِذَااَرَدنَْااَن نُّهلِْکَ قَریَْةً اَمَرَنَامُترَْفِيهَْافَفَسَقُواْفِيهَْافَحَقَّ عَلَيهَْاالقَْولُْ فَدَمَّر ( نَاهَاتَدمِْيرْاً >( ٢
“اور ہم نے جب بهی کسی قریہ کو ہلاک کر نا چاہا تو اس کے ثروتمندوں پر
احکام نافذ کردئے اور انهوں نے ان کی نا فرمانی کی تو ہماری بات ثابت ہو گئی اور
ہم نے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا ”
جب خدا وند عالم کسی معاشرہ کو (ان کے اعمال کے سبب )ہلاک کرنا چا
ہتا ہے تو تو اسی سبب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انعام آیت/ ١٢۵ ۔ )
٢)سورئہ اسراء آیت / ١۶ ۔ )
کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے فاسد ہو نے کا سبب ہوتا ہے تو وہ اس کو آرام ميں
ڈال دیتا ہے اور یہ آرام آہستہ آہستہ ان کے فسق ونافرمانی کا سبب ہو جاتا ہے پهر
خدا وند عالم ان پر اپنا عذاب نازل کردیتا ہے ۔خدا وند عالم فر ماتا ہے :
<وَتَوَدُّونَْ اَنَّ غَيرَْذَاتِ الشَّوکَْةِ تَکُونُْ لَکُم وَیُرِیدُْ اللهَ اَن یُحِقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقطَْع ( دَابِرَالکَافِرِینَْ >( ١
“اور تم چا ہتے تهے کہ وہ طاقت والا گروہ نہ ہو اور الله اپنے کلمات کے ذریعہ
حق کو ثابت کر نا چا ہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو منقطع کر دینا چا ہتا ہے ”
جب خدا وند عالم رسول اسلام (ص) کے ساته ثابت قدم رہنے والے
مسلمانوں کے لئے حقانيت کو ثابت کرنا چاہتا ہے تو جاہ و حشم اور شان و شوکت
کے اسباب فراہم کردیتا ہے۔
جيسا کہ پرور دگار عالم نے ذات شوکت کے طریقہ کو مسلمانوں کے تکامل
کا سبب قرار دیا ہے اور زمين پر لوگوں کے لئے ان کو قيموم اور ان کا امام قرار دیا ہے
اسی طرح خداوند عالم نے لوگوں کے ہلاک کرنے کے لئے آزمائش و امتحان و آرام
قرار دیا ہے ۔خداوند عالم فرماتا ہے :
<فَلاَتُعجِْبکَْ اَموَْالُهُم وَلَا اَولْاَدُهُم اِنَّمَایُرِیدُْاللهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَافِی الحَْ اٰيةِ الدُّنيَْا وَتَزهَْقَ
( اَنفُْسُهُم وَهُم کَافِرُونَْ >( ٢
“تمہيں ان کے اموال و اولاد حيرت ميں نہ ڈال دیں بس الله کا ارادہ یہی ہے کہ
انهيںکے ذریعہ ان پر زندگانی دنيا ميں عذاب کرے اور حالت کفر ہی ميں ان کی جان
نکل جا ئے ”
خداوند عالم نے ان کے اموال اور اولاد کو ان کے عذاب اور ہلاکت کا سبب قرار
دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ الا نفال آیت/ ٧۔ )
٢)سورئہ توبہ آیت/ ۵۵ ۔ )
قانون توفيق
قانون توفيق قانون تسبيب سے قریب ہے یعنی خداوند عالم بندہ کے ذریعہ
اسباب خير کو نافذ کرا دیتا ہے جب خداوند عالم کسی مریض کو شفا دینے کا ارادہ
کرتا ہے تو ایک ایسے طبيب کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اس بندہ کے مرض کی
علت کو پہچانتا ہے اور وہ دوائيں فراہم کردیتا ہے جس سے وہ مریض کا علاج کرتا ہے
۔
جب کسی بندہ کے خير کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو اسباب ہدایت اور خير کی
طرف ہدایت کردیتا ہے ، جب کسی بندہ کو رزق دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے
اسباب رزق فراہم کردیتا ہے اور جب اس کے خلاف ارادہ کرتا ہے تو اسباب رزق کے
مابين پردے حائل کردیتا ہے ۔
کائنات ميں سلطان مطلق الله کا ارادہ
ہر چيز الله کے ہاته ميں ہے اور وہ اس کی حکمت اور بادشاہت کے سامنے
خاضع ہے :
<مَایَفتَْحِ اللهُ لِلنَّاسِ مِن رَحمَْةٍ فَلاَ مُمسِْکَ لَهَاوَمَایُمسِْکَ فَلاَمُرسِْلَ لَہُ مِن بَعدِْہِ
( وَهُوَالعَْزِیزُْالحَْکِيمُْ >( ١
“الله انسانوں کے لئے جو رحمت کا دروازہ کهول دے اس کا کوئی روکنے والا
نہيں ہے اور جس کو روک دے اس کا کو ئی بهيجنے والا نہيں ہے وہ ہر شے پر غالب
اور صاحب حکمت ہے ”
( <اِنَّ اللہَّٰ بَالِغُ اَمرِْہِ>( ٢
“بيشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے ”
اِن یَنصُْرکُْمُ اللہُّٰ فَلَاغَالِبَ لَکُم وَاِن یَخذُْلَکُم فَمَن ذَاالَّذِی یَنصُْرکُْم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ فاطر آیت/ ٢۔ )
٢)سورئہ طلاق آیت/ ٣۔ )
( من بَعدِْہِ >( ١
“الله تمہاری مدد کرے گا تو کو ئی تم پر غالب نہيں آسکتا اور وہ تمہيں
چهوڑدے گا تو اس کے بعد کون مدد کرے گا ”
<وَاِذَا اَرَادَ اللہُّٰ بِقَومٍْ سُوءًْ فَلَا مَرَدَّ لَہُ وَمَالَہمُْ مِن دُونِْہ مِن اٰولٍ>( ٢) “اور
جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کر ليتا ہے تو کو ئی ڻال نہيں سکتا ہے اور نہ
اس کے علا وہ کو ئی کسی کا والی و سر پرست ہے ”
( <اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیدُْ>( ٣
“بيشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کر ہی کے رہتا ہے ”
( <اِنَّ اللہَّٰ یَفعَْلُ مَایُرِیدُْ >( ۴
“الله جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے ”
( <اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُوٴمِنُ الْمُهَيْمِنُ >( ۵
“وہ بادشاہ ،پاکيزہ صفات ،بے عيب ،امان دینے والا ،نگرانی کرنے والاہے ”
خداوند عالم کے ارادہ اور قانون عليت کے مابين رابطہ
الله کے ارادہ اور قانون عليت کے مابين حتمی نظریہ فيصلہ کن قول یہ ہے کہ
قانون عليت کائنات ميں یقينی اور عام طور پر نافذ ہو تا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ آل عمران آیت/ ١۶٠ ۔ )
٢)سورئہ رعد آیت / ١١ ۔ )
٣)سورئہ ہود آیت/ ١٠٧ ۔ )
۴)سورئہ حج آیت/ ١۴ ۔ )
۵)سورئہ حشر آیت ٢٣ ۔ )
مگر یہ قانون الله کی مشيئت کے سامنے محکوم ہے حاکم نہيں ہے اور الله کا
ارادہ اس پر حاکم ہے الله کے ارادہ کے حاکم ہو نے کا مطلب اس قانون کوملغیٰ اور
معطل قرار دینا نہيں ہے اور کيسے خدا اس قانون کوملغیٰ قرار دے سکتا ہے جبکہ
اسی نے اس کو خلق فرمایا ہے ليکن خداوند عالم ان اسباب ميں سے جس کو چا
ہتا ہے مڻا دیتا ہے اور جن کو چاہتا ہے قائم و دائم رکهتا ہے اور اس کائنات ميں
جيسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اسباب عزت کے ذریعہ عزت دیتا ہے
اور جس کو چاہتا ہے اسباب ذلت کے ذریعہ ذليل کرتا ہے ۔
اس بنا پر یہ انسان کے بس کی بات نہيں ہے کہ وہ اسباب و علل کے ذریعہ
کائنات اور تاریخ کے مستقبل کا مطالعہ کرسکے چونکہ ہر امرميں الله کی مشيئت کا
دخل ہے لہٰذا یہ اسباب و علل جس طرح الله چا ہتا ہے اسی طرح متغير ہو جا تے ہيں۔
کبهی طاقتور اور کمزور لشکر ایک دوسرے سے ڻکراتے ہيں جب ہم ميں سے
کو ئی ایک ان دونوں کے مستقبل کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ یہی خبر دیتا ہے کہ طاقتور
لشکر کو فتح نصيب ہو گی اور کمزور لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا مگرجب
خداوند عالم چهوڻے گروہ کوبڑے لشکر پر غالب کرنا چاہتاہے تو ایسے اسباب فراہم کر
دیتا جن کا گمان بهی نہيں ہوتاہے وہ بڑے گروہ کے دلوں ميں رعب و خوف پيدا کردیتا
ہے اور چهوڻے گروہ کے دلوں ميں طاقت اور عزم و ارادہ کو محکم کردیتا ہے اور اس
چهوڻی جماعت کے کارنامہ کو مضبوط کر دیتا ہے ليکن بڑے گروہ کے اس فعل کو
مضبوط نہيں کرتا (یعنی ان کے دلوں ميں خوف و رعب اسی طرح باقی رہتا ہے )اور
بڑی جماعت کوعسکری غلطيوں ميں مبتلاکر دیتا ہے اور چهوڻے گروہ کو مضبوط
ومحکم کر دیتا ہے اور امور کو اسی کے مطابق انجام دیتا ہے :<فتنصرالفئة القليلة
علی الفئة الکثيرة اذاشاء الله >
“پس چهوڻے گروہ کو بڑے گروہ پر کامياب کردیتا ہے جب وہ چا ہتا ہے ”
چهوڻے اور بڑے گروہ کے جنگ کے راستہ کو ایک نہيں قرار دیتا جيسا کہ الله
پر ایمان نہ لانے والے افراد گمان کرتے ہيں ،اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ کثرت اسباب
مدد ميں سے نہيں ہے اور اقليت اسباب شکست ميں سے نہيں ہے ۔بيشک ہمارا یہ
کہنا ہے کہ مدد کے دوسرے اسباب بهی ہيں اسی طرح شکست کے بهی دوسرے
اسباب ہيں ،جب خداوند عالم کسی چهوڻے گروہ کی مدد کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو
اس کےلئے فتح کے اسباب مہيا کردیتا ہے اور یہ اس کے قبضہٴ قدرت ميں ہے اور
جب کسی بڑے گروہ کو شکست سے دو چار کرنا چا ہتا ہے تو اس کے اسباب فراہم
کردیتا ہے اور یہ بهی اسی کے قبضہٴ قدرت ميں ہے :
<قَالَ الَّذِینَْ یَظُنُّونَْ اَنَّهُم مُلاَقُواْاللهِ کَم مِن فِئَةٍ قَلِيلَْةٍ غَلَبَت فِئَةًکَثِيرَْةًبِاِذنِْ اللهِ
( وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِینَْ >( ١
“اور ایک جماعت جس نے خدا سے ملاقات کر نے کا خيال کيا تها کہا کہ اکثر
چهوڻے چهوڻے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجا تے ہيں اور الله
صبر کرنے والوں کے ساته ہے ”
تکوین (موجودات )ميں بداء
کائنات ميں بداء کا مطلب یہ ہے :کائنات اور تاریخ ميں جو حادثات رونما ہو نے
والے ہيں ان کے راستہ کو بدل دینا ۔اگر قانو ن عليت لوگوں کی زندگی پر حاکم ہو تا
تو بہت سے مقامات ایسے آئے ہيں جہاں پر انسان پستی کے گڑهے ميں گرنے والا
تها تو اس مو قع پر مشيت الٰہی نے بڑه کر اس کو سہارا دیا اور پستی کے گڑهے
ميں گرنے سے اس کو نجات دی ۔۔۔ جو قانون عليت کی حرکت کے خلاف ہے ۔اس کا
مطلب یہ نہيں ہے کہ یہ قانون ملغیٰ (بے کار ) ہے اور اس کی کو ئی حيثيت نہيں
ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ بقرہ آیت ٢۴٩ ۔ )
بلکہ خداوند عالم کی جانب سے یہ قانون محکوم ہے اوراس کے محکوم ہونے کے وہ
نتائج ہيں جو لوگوں کی سمجه کے خلاف ہيں اور لوگ ان کو اسباب و مسببات اور
علل و معلولات کا تسلسل کہتے ہيں ۔
قانون عليت ميں یہ تحکم الٰہی جو لوگوں کو چونکا دیتا ہے اور ان کے حسابات
ميں تغير و تبدل کردیتا ہے اسے بداء کہا جاتا ہے جو اہل بيت عليہم السلام سے وارد
ہو نے والی بہت سی روایات ميں بيان کيا گيا ہے ۔
“بداء ”کے ذریعہ کائنات ،تاریخ اور معاشرہ ميں تغير واقع ہو جاتا ہے وہ حادثات
واقع ہو جاتے ہيں جن کو انسان شمار نہيں کر سکتا ،لوگوں کی توقع کے خلاف
مدد ہو جا تی ہے ،وہ لوگ شکست کها جاتے ہيں جو کبهی شکست کے بارے ميں
سوچ بهی نہيں سکتے تهے ،کمزور باشاہ بن جاتا ہے اور بادشاہ ذليل ہو جاتے ہيں ۔
|