دعا عند اهل بيت(جلد دوم)
 

کتاب مصباح المتہجد کے ذریعہ محفوظ رہنے والی دعائےں
وہ دعائيہ مصادر جو ان قدیمی اصول سے اخذ کئے گئے ہيں ان ميں سے کتاب مصباح المتہجد ہے جو شيخ الطائفہ طوسی متوفی ۴۶٠ ئه ق )کی تاليف ہے آپ نے ۴٠٨ ء ه ق ميں عراق آنے کے بعد ان قدیم اصول کو اخذ کيا جو کتابخانہ شاہ پور اور کتاب خانہ شریف مرتضی کے ماتحت موجود تهے آپ نے احادیث احکام کے سلسلہ ميں تہذیب الاحکام اور اسبتصار تاليف کی اور دعا واعمال کے متعلق مصباح المتہجدنام کی کتاب تحریرکی ہے اور اس ميں ان ہی مقدار ميں ان اصول کو تحریر کيا ہے جن کو عبّاد متہجدین سے آسانی سے اخذ کرسکےں۔

سيد ابن طاؤوس تک پہنچنے والے دعاؤں کے کچه مصادر
دعاؤں کے کچه وہ مصادر جو ساتویں ہجری تک کرخ ميں شاپور کتاب خانہ کے جل جانے سے بچ گئے اور وہ سيد رضی الدین ابن طاؤوس متوفی ۶۶۴ ئه ق کے ہاتهوں ميں آئے ۔
وہ اپنی کتاب کشف المحجہ جس کو اپنے فرزندکيلئے تاليف کيا تها اسکی بياليسيوں فصل ميں اس طرح تحریر کرتے ہيں : خداوند بزرگ و تعالیٰ نے ميرے سامنے تمہارے لئے متعددکتابيں لکهنے کا موقع فراہم کيا ۔۔۔اور الله نے ميرے لئے ( “دعوات ”کی ساڻه جلدوں سے زیادہ جلدیں لکهنے کا موقع فراہم کيا ۔( ١ جب سيد ابن طاؤوس نے کتاب مهج الدعوات تحریر کی تو آپ کے پاس دعاؤں کی ستّرسے زیادہ کتابےں موجود تهيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)کشف المحجہ ثمرةالمہجہ مولف ابن طاؤوس۔ )
آپ کتابِ مہج الدعوات کے آخر ميں اس طرح تحریر فرماتے ہيں :یہ ميری زندگی کی آخری کتاب ہے۔۔۔
سيد ابن طاؤوس اپنی زندگی کی آخری کتاب اليقين ميں تحریرکرتے ہيں کہ ميں نے اپنی زندگی کی اس آخری کتاب کو اس وقت تحریر کيا ہے جب ميرے پاس ( دعاؤں کی ستّرسے زیادہ کتابيں موجود تهيں۔( ١

سيد ابن طاؤوس کے پاس حدیث اور دعا کے پندرہ سو مصادر
جب سيد نے دعا کے سلسلہ ميں اپنی بڑی کتاب “اقبال”تحریر کی توشہيد کے اپنے مجموعہ ميں جبعی کے نقل کے مطابق ان کے پاس ان کی اپنی پندرہ سو کتابےں موجود تهيں اور یہ ۶۵ ٠ ئه ق کی بات ہے جب سيد رضی الدین ابن طاؤوس کتاب اقبال لکه کر فارغ ہوئے ۔
شہيد تحریرکرتے ہيں ۶۵٠ ئه ق ميں آپ کی ملکيت ميں چه سو پچاس ( کتابيں تهيں۔ ( ٢
سيد ابن طاؤوس کی ادعيہ اور اذکار کے سلسلہ ميں پندرہ کتابےں سيد ابن طاووس اپنی کتاب “فلاح السائل ”ميں تحریر کرتے ہيں کہ ميں نے جب دعاوٴں کے سلسلہ ميں اپنے جد شيخ ابو جعفر طوسی کی کتاب“المصباح الکبير ”پڑهی تو ہم کو اس ميں بہت سے اہم مطالب نظر آئے جن کو شيخ طوسی نے اپنی کتاب ميں ملحق نہيں فر ما یا تها لہٰذا ہم نے کتاب“المصباح الکبير ”پر پندرہ جلدوں ميں “تتمات مصباح المتہجد و مهمات فی صلاح المتعبد ” نامی کتاب مستدرک تحریر کی ہے ۔وہ کتاب فلاح السائل کے مقدمہ ميں تحریر کرتے ہيں :
ہم نے الله کی مدد سے چند جلد کتابيں مرتب و منظم کی ہيں جن کو اہم اور تتمہ کے عنوان سے شمار کيا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)الذریعہ جلد ٢ص ٢۶۵ ۔ )
٢)الذریعہ جلد ٢ص ٢۶۴ ۔ ٢۶۵ ۔ )
پہلی جلد :جس کا نام “فلاح السائل ”ہے جو رات اور دن کے اعمال کے سلسلہ ميں ہے اور اس کی دو جلدیں ہيں ۔
تيسری جلد :اس کتاب کا نام “زهرة الربيع فی ادعية الاسابيع ”۔
چو تهی جلد :اس کتاب کا نام جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع”۔
پانچویں جلد :اس کتاب کا نام “الدروع الواقية من الاخطار ”۔
چهڻی جلد :اس کتاب کا نام “المضمار للسباق واللحاق ”۔
ساتویں جلد:اس کتاب کا نام “السالک المحتاج الیٰ معرفة منا سک الحجاج ”۔
آڻهویں اور نویں جلد :ان دونوں کتابوں کا نام “الاقبال بالاعمال الحسنة فيما نذکرہ ممایعمل ميقاتاواحداًکل سنة ”۔
دسویں جلد :اس کتاب کا نام السعادات بالعبادات التی ليس لهاوقت محتوم و معلوم فی الروایات بل وقتهابحسب الحا دثات المقتضية والادوات المتعلقة بها جب ہم الله کے فضل وکرم سے ان کتابوں کو لکه کر فارغ ہو ئے تو ہم کو محسوس ہوا کہ ہم سے پہلے اس طرح کے علوم سے پرُ کتابيں کسی نے نہيں لکهيں اور یہ انسان کی ضروریات ميں سے ہے کہ انسان مرنے سے پہلے جزاکے طور پراپنی عبادات کو قبول کرانے اور قيامت ميں سرخرو ہونے کی استعدادکا ارادہ رکهتا ہے :
پہلا حصہ :“فلاح السائل ونجاح السائل فی عمل یوم و ليلة”۔ دوسرا حصہ : “زهرة الربيع فی ادعية الاسابيع ”۔
تيسرا حصہ :کتاب الرجوع فی زیارات وزیادات صلوات ودعوات الاسبوع فی الليل والنهار ۔
چو تها حصہ :“الاقبال ”وہ اعمال حسنة جن کو انسان ہر سال ميں ایک مرتبہ انجام دیتا ہے ۔
پانچواں حصہ :“اسرار الصلوات وانوار الدعوات ” اگر پروردگار نے مجهے اس کی تاليف کی مہلت دی تو ميں اس کو پوری زندگی ميں محفوظ رکهوں گا مگر یہ کہ خداوند عالم ایسے شخص کو اذن دے جس کو ميری وفات سے قبل اس ميں تصرف ( کر نے کا حق حاصل ہو ”( ١

سيد ابن طاووس سے متاٴخر دعا ؤں کے مصادر
آقا بزرگ محقق تہرانی تحریر کرتے ہيں :پهر علماء نے سيد بن طاووس کی مدون کتابوں ميں ان ادعيہ و اذکار کا اضافہ کياجو ائمہ عليہم السلام سے منسوب تهے اور جو پرانی دعاؤں کی کتابوں ميں درج تهے اور وہ کتابيں سيد ابن طاووس کے پاس مو جود نہيں تهيں اور وہ جلنے ،غرق ہو نے، زميں بوس ہو نے اور دیمک کے کهانے سے محفوظ رہ گئيں تهيں یہاں تک کہ وہ ہم تک پہونچيں ،تو ہم نے ان دعاؤں کو ان کی دعا کی کتابوں ميں درج کردیا ۔
ان افراد ميں سے شيخ سعيد محمد بن مکی ہيں جو ٧٨۶ ئه ميں شہيد ہو ئے ؛
شيخ جمال السالکين موجودہ کتاب “المزار ”کے موٴ لف ہيں، ابو العباس احمد بن فہد حلی موٴ لف کتاب “عدة الداعی ”اور کتاب “التحصين فی صفات العارفين ”متو فیٰ ٨۴١ ئه ۔
شيخ تقی الدین ابراہيم الکفعميمتوفیٰ ٩٠۵ ئه ،انهوں نے کتاب “جنة الامان الواقيہ ”،“بلد الامين ”،محا سبة النفس اور ائمہ عليہم السلام سے دوسری تمام ماثورہ دعائيں اور اذکار تحریرکئے ہيں انهوں کتاب “الجنة ”کے شروع ميں یہ تحریر کيا ہے کہ یہ کتاب معتمد اور صحيح السند کتابوں سے اخذ شدہ مطالب سے تحریر کی گئی ہے اور کتاب “الجنة ”اور “البلد ”کے دوسو سے زیادہ مصادر شمار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)فلا ح السا ئل صفحہ / ٧۔ ٩ طبع ١٣٧٢ ئه شمسی ۔ )
کئے ہيں اور ان ميں اصل متن کتاب کو بهی نقل کيا ہے اور ان ميں اکثر دعاوٴں کی قدیم کتابيں ہيں:
جيسے کتاب “روضة العابدین ”موٴ لف کراجکی ،متوفیٰ ۴۴٩ ئه ۔
کتاب “مفتاح الفلاح موٴلف شيخ بہا ئی متوفیٰ ١٠٣١ ئه ۔
کتاب “خلا صة الاذکار موٴلف محدث فيض کا شانی متوفیٰ ١٠٩١ ئه۔
اور علا مہ مجلسی ۺمتوفیٰ ١١١١ ئه ۔انهوں نے عربی زبان ميں بحار الانوار
تحریر کی ہے اور “زاد المعاد ” ، “تحفة الزائر ”،مقباح المصابيح ”، ربيع الاسابيع ”اور ( مفاتح الغيب ”فارسی زبا ن ميںتحریر کی ہيں۔ ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٧٩ ۔ ١٨٠ ۔ / ١)الذریعہ الیٰ تصانيف الشيعہ جلد ٨ )


دعااور قضا و قدر
دعااورقضاء و قدرخدا وند عالم نے ہر چيز کےلئے قضا و قدر قرار دیا ہے اور انسان ان دونوں سے کسی صورت ميں نہيں بچ سکتا ہے وہ خدا وند عالم کا حتمی و یقينی ارادہ ہے تو دعا کے مو قع پر انسان کيا کرے ؟
کيا جس چيز سے مشيت الٰہی اور اس کا علم یقينی طور پر متعلق ہو گياہو کيا دعا اس کو بدل سکتی ہے ؟
اور جب دعاميں اتنا اثر ہے کہ وہ قضا و قدر الٰہی ميں رد و بدل کر سکتی ہے تو یہ کيسے ہو سکتا ہے ؟
اس سوال کے جواب کےلئے قضا و قدر کی بحث کاچهيڑنا لا زم و ضروری ہے ۔۔۔اگر چہ ہم اس بحث کو چهيڑنے سے دعا کی بحث سے دور ہو کر فلسفہ کی بحث ميں دا خل ہو جا ئيں گے لہٰذا ہم اپنی ضرورت کے مطابق اس سوال سے متعلق بحث کو مختصر طور پربيان کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہيں ۔

تا ریخ اور کا ئنات ميں قا نو ن عليت
تاریخ اور کا ئنات کی حرکت کے مطابق یقينی اور عام طور پر بغير کسی استثنا ء کے قانون عليت جا ری و ساری ہے ۔
( <للهِ مُلکُْ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرضِْ یَخلُْقُ مَایَشَا ءُ>( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ شوریٰ آیت/ ۴٩ ۔ )
“بيشک آسمان و زمين کا اختيار صرف الله کے ہاتهوں ميں ہے وہ جو کچه چا ہتا ہے پيدا کرتا ہے ’
( <اِنَّ اللهَ یَفعَْلُ مَایُرِیدُْ >( ١
“الله جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے ”
( <اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِمَایُرِیدُْ>( ٢
“بيشک تمہارا پروردگا ر جو بهی چا ہے کرسکتا ہے ”
( <اِنَّمَاقَولُْنَالِشَیءٍْ اِذَااَرَدنَْاہُ اَن نَقُولَْ لَہُ کُن فَيَکُونُْ>( ٣
“ہم جس چيز کا ارادہ کرليتے ہيں اس سے فقط اتنا کہتے ہيں کہ ہو جا پهر وہ ہو جا تی ہے ”
( <وَلَوشَْاءَ ال لٰ ہُ لَذَهَبَ بِسَمعِْهِم وَاَبصَْارِهِم >( ۴

“خدا چا ہے تو ان کی سماعت و بصارت کو بهی ختم کر سکتا ہے ” ( <وَال لٰ ہُ یَختَْصُّ بِرَحمَْتِہِ مَن یَّشَا ءُ>( ۵
“الله جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے مخصوص کر ليتا ہے ”
( <یَرزَْقُ مَن یَّشَاءُ بِغَيرِْحِسَابٍ >( ۶
“وہ جسے چاہتا ہے رزق بے حساب عطا کر دیتا ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ حج آیت/ ۴ا۔ )
٢)سورئہ هود آیت/ ٠٧ ا۔ )
٣)سورئہ نحل آیت/ ۴٠ ۔ )
۴)سورئہ بقرہ آیت / ٢٠ ۔ )
۵)سورئہ بقرہ آیت/ ٠۵ ا۔ )
۶)سورئہ آل عمران آیت/ ٣٧ ۔ )
( <وَاللهُ یُوٴتِْی مُلکَْہُ مَن یَّشَاءُ>( ١
“اور الله جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیدیتا ہے ”
<قُلِ اللهُّٰمَّ مَالِک المُْلکْ مَن تَشَاءُ وَتَنزَْعُ المُْلکَْ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّمَن تَشَاءُ وَتُذِلّ ( مَن تَشَاءُ بِيَدِکَ الخَْيرَْاِنَّکَ عَل یٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیرٌْ>( ٢
“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ خدا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتاہے اور جسے چا ہتا ہے سلب کرليتا ہے ۔جس کو چا ہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چا ہتا ہے ذليل کرتا ہے سارا خير تيرے ہاته ميں ہے اور تو ہی ہر شیٴ پر قادر ہے ”
( <اِن یَّشَاٴیُذهِْبکُْم اَیُّهَاالنَّاسُ وَیَاٴتِ بِآخَرِینَْ >( ٣
“وہ چاہے تو سب کو اڻها لے جا ئے اور دو سرے لوگوں کو لے آئے ” یہ آیات اور ان آیات کے مانند آیات قرآن کریم ميں بہت زیادہ مو جود ہيں اور ان آیات سے یہ صاف طور پر وا ضح ہے کہ الله تبارک و تعا لیٰ کا ئنات پر سلطان مطلق ہے اس کی کو ئی حد و حدود نہيں ہے اس کو کو ئی چيز عا جز نہيں کر سکتی اور نہ کو ئی چيز اس کےلئے ما نع ہو سکتی ہے ۔
وہ ہرچيز پر قا در ہے وہ جو چا ہتا ہے کر تا ہے وہ جو بهی چا ہے کر سکتا ہے ،اس سے کسی چيز کے بارے ميں سوال نہيں کيا جا ئے گا اور اُن سے سوال کيا جا ئيگا اور اس کو کو ئی چيز عا جز نہيں کر سکتی ہے ۔
یہود یوں کا یہ نظریہ ہے کہ خدا وند عالم کا ارادہ اس عام نظام عليت کا محکوم ہے جو کائنات اور تا ریخ پر حکم کر تا ہے ،اور خداوند عالم (یہودیوں کی نظر ميں )کائنات اور تا ریخ کو خلق کر نے کے بعد ان پر با دشاہت نہيں رکهتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ بقرہ آیت/ ٢۴٧ ۔ )
٢)سورئہ آل عمران آیت/ ٢۶ ۔ )
٣)سورئہ نساء آیت/ ٣٣ ا۔ )
قرآن کریم اس بارے ميں فر ماتا ہے :
( <وَقَالَتِ اليَْهُودُْیَدُال لٰ ہِ مَغلُْولَْةٌ غُلَّت اَیدِْیهِْم وَلُعِنُواْبِمَاقَالُواْبَل یَدَاہُ مَبسُْوطَْتَانِ>( ١
“اور یہو دی کہتے ہيں کہ خدا کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں جبکہ اصل ميں انهيں کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں اور یہ اپنے قول کی بنا پر ملعون ہيں اور خدا کے دونوں ہاته کهلے ہو ئے ہيں ”
ہم نے جوکچه بيان کياہے اس ميں کو ئی شک نہيں ہے اور اس بارے ميں قرآن کریم صاف طور پر بيان کر رہا ہے اور یہود یوں نے جو کچه کہا ہے اس کا باطل ہونا خود بخود ظاہر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶۴ ۔ )