دعا عند اهل بيت(جلد دوم)
 

اہل بيت عليہم السلام کی ميراث ميں دعاؤں کے مصادر
ہمارے پاس ائمہ اہل بيت عليہم السلام کی احادیث ميں مناجات اور دعاؤں کاصاف شفاّف اور طيب و طاہر دولت کا بہت بڑا ذخيرہ موجود ہے ۔

اصحاب ائمہ عليہم السلام اور تدوین حدیث کا اہتمام
ائمہ عليہم السلام اپنے اصحاب سے دعاؤں کے سلسلہ ميں جو کچه وصيت فرماتے تهے تووہ ان کو لکهنے کے بڑے پابند تهے ۔
سيد رضی الدین علی بن طاوؤس نے کتاب مہج الدعوات ميں امام مو سیٰ بن جعفر سے منسوب دعا ئے جوشن صغير کو نقل کرتے وقت یہ تحریر کياہے کہ امام کاظم عليہ السلام کے صحابی ابو وصاح محمدبن عبدالله بن زید النهشلی نے اپنے والد بزگوار عبدالله بن زید سے نقل کيا ہے کہ عبد الله بن زید کا کہنا ہے کہ ابوالحسن کاظم کے اہل بيت عليہم السلام اور ان کے شيعوں کی ایک خاص جماعت تهی جو مجلس ميں اپنے ساته غلاف ميں بڑی نرم و نازک آبنوس کی تختياں ليکرحاضرہو اکر تے تهے جب بهی آپ اپنی زبان اقدس سے کو ئی کلمہ ادا فر ما تے تهے یا کو ئی فتویٰ صادر فرما تے تهے تو وہ قوم جو کچه سنا کرتی تهی اس کو لکه ليا کرتی تهی۔اسی بنياد پر عبدالله نے کہا کہ ہم نے آپ کو دعا ميں یہ فر ما تے سناہے اور اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ا)مہج الدعوات موٴلف سيد رضی الدین علی بن طاؤس ۔
سلسلہ ميں مشہور و معروف دعا “جو شن صغير” مو سیٰ بن جعفر عليہ السلام سے ذکر فرمائی ہے۔

حدیث کے سلسلہ ميں(اصول اربعماٴة) چا رسو اصول
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کے اصحاب نے آپ کی احا دیث کی تدوین چارسو کتابوں ميں کی ہے جو اصول اربعماٴت کے نا م سے مشہور ہو ئيں۔شيخ امين الاسلام طبر سی (متوفی ۵۴٨ ئه )نے اعلام الوریٰ ميں حضرت امام صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ آپ کے چار ہزار اہل علم شاگرد مشہور تهے اور آپ نے ان کے جوابات ميں مسائل کے سلسلہ ميں چار سو کتابيں تحریر کيں جن کو اصول اربعماة کہا جاتاہے اور اصحاب اصول کا طریقہٴ کار ائمہ عليہم السلام سے سنی جا نے والی تمام چيزوں کو لکهنا اور تدوین کرنا تها ۔
شيخ بہا ئی کتاب الشمسين ميں تحریر کرتے ہيں :“ہما رے بزرگان سے یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ اصحاب اصول کی یہ عادت تهی کہ وہ جب بهی کسی امام سے کو ئی حدیث سنتے تهے تو وہ اس حدیث کو اپنے اصول ميں درج کرنے کےلئے سبقت کرتے تهے کہ ہم کہيں دنوں کے گذر نے کے ساته ساته اس پوری حدیث یا بعض حصہ کو فر اموش نہ کر دیں ”اس لئے یہ اصول اصحاب کی طرف سے مورد وثوق تهے جب وہ ان سے کو ئی روایت نقل کرتے تهے تو اس کے صحيح ہو نے کا حکم لگا تے تهے اور اس پر اعتماد کرتے تهے ۔
جناب محقق داماداصول اربعماٴت نقل کرنے کے بعد انتيسویں نمبر پر ذکر کرتے ہيں :یہ با ت جان لينی چا ہئے کہ معتمد اصول مصححہ کو اخذ کرنا روایت کو صحيح قرار دینے کا ایک رکن ہے ”۔
ائمہ عليہم السلام کے اصحاب کی بڑی تعداد نے اصول کی کتابت کے سلسلہ ميں کہا ہے کہ ان اصول کا پورا کرنا اور ان اصول سے مکمل طور پر استفادہ کرنا ممکن نہيں ہے جناب شيخ طو سی اپنی کتاب فہرست کی ابتدا ميں تحریر فر ما تے ہيں :
ہم ان اصول کے مکمل ہو نے کی ضمانت نہيں لے سکتے چونکہ ہمارے اصحاب کی تصانيف اور ان کے اصول اکثر شہروں ميں منتشر ہو نے کی وجہ سے صحيح طور پر ضبط نہ ہو سکے ليکن ہاں کتاب الذریعہ ميں آقائے بزرگ طہرانی کے قول کے مطابق ان کی تعداد چار سو سے کم نہيں ہے۔
محقق داماداپنے مذکورہ تلخيص نمبرميں تحریر کرتے ہيں :یہ مشہور ہے کہ اصول اربعماٴت حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کے شا گردوں کے ذریعہ تحریر کئے گئے ہيں جبکہ ان کے جلسوں ميں شریک ہو نے اور ان سے روایت نقل کرنے والے راویوں کی تعدادتقریباً چار ہزار ہے اور ان کی کتابيں اور تصنيفات بہت زیادہ ہيں ليکن ان ميں سے قابل اعتماد یہی چار سو اصول ہيں ”

ميراث اہل بيت عليہم السلام اور طغرل بيگ کی آتش زنی
اہل بيت عليہم السلام کی ميراث ميں سے یہ اصول متعدد طا ئفوں کے پاس تهے ان ہی ميں سے دعا ؤں کی کتابيں بهی تهيں جو کتا بوں کے اس مخزن کے جلنے کی وجہ سے تلف ہو گئيں تهيں جس کو وزیر ابو نصر سابور بن ارد شير (شيعہ وزیر جس کو بہاء الدولہ نے وزارت دی تهی )نے وقف کيا تها یہ اس دور ميں کتابوں کا سب سے بڑا مخرن شمار کيا جاتا تها۔یا قوت حموی نے معجم البلدان جلد ٢صفحہ/ ٣۴٢ پر مادہ بين سورین ميں کہا ہے کہ : بيشک بين السورین کرخ بغداد ميں آبادی کے لحاظ سے سب سے اچها محلہ تها ”اس ميں کتابوں کا مخزن تها جس کو ابو نصرسابور بن ارد شير وزیرکو بہا ء الدولہ بو یہی کے وزیر نے وقف کيا تها ،دنيا ميں اس سے اچهی کتابيں کہيں نہيں تهيں تمام کتابےں معتبر ائمہ اور ان کے محرز اصول کے تحت تحریر کی گئی تهيں جب محلہ کرخ کو جلایا گياتواس ميںيہ تمام کتابيں جل کر راکه ہوگئيں اورانهيں کتابوں ميں جن کو طغرل بيگ نے جلایا اہل بيت عليہم السلام سے ماثورہ دعاؤں کی کتابيں بهی تهيں۔
محقق،طہرانی کتاب یا قوت ميں، حموی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد لکهتے ہيں :“ ہم کو اس بات کا گمان ہے کہ بغداد کے محلہ کرخ ميں شيعوں کےلئے وقف کی گئی اس لا ئبریری کی کچه کتابيں وہی دعا ئی اصول ہيں جن کو ائمہ کے قدیم اصحاب نے ائمہ سے نقل کيا ہے اور بزرگان رجال نے ان سے ہر ایک کی سوانح عمری ميں صاف صاف کہا ہے کہ یہ کتابيں انهيں کی ہيں اس کو کتاب ادعيہ بهی کہا ہے نيز اس کتاب کے اس کے مو ٴ لف سے نقل کرنے کی روش کو بهی ذکر کيا ( ہے ”( ١

اہل بيت عليہم السلام کی محفوظ رہ جانے والی ميراث
ان اصول کی کچه کتابےں شيخ الطائفہ ،شيخ ابو جعفر طوسی کی کتاب “التہذیب”اور الاستبصار موٴلف کے پاس تهيں۔اس وقت بغداد ميں امهات اصول کے نام سے بهرے ہوئے دو کتاب خانہ تهے ان ميں سے ایک کتابخانہ سابور تها جس کے بانی شيعہ علماء تهے جو بغداد ميں کرخ کی طرف بنایا گيا تها اوردوسرا کتابخانہ ان کے استاد محترم شریف مرتضیٰ کا تها جس ميں اسّی ہزار کتابيں تهيں وہ کتابيں ابن ادریس حلی کے زمانہ تک باقی رہيں جن ميں سے “مستطرفات السرائر”کا استخراج کيا گيا۔

دعاؤںکے کچه مصادر کا تلف ہونے سے محفوظ رہنا
محقق بزرگ طہرانی کتاب الذریعہ ميں تحریر کرتے ہيں :منجملہ دعائی اصول جو شاپور کتاب خانہ ميں یا خاص عناوین کے تحت موجود تهے یا قوت حموی کی تشریح کے مطابق سب کے سب جل کر راکه ہوگئے ليکن ان ميں سے جو کچه شخصی طورپر دوسروں کے پاس موجود تهے، وہ محفوظ رہ گئے ادعيہ ، اذکار اور زیارتوں کے مطالب ہم تک اسی طرح پہنچے ہيں جس طرح ان اصول ميں مندرج تهے چونکہ کتاب خانہ کے جلائے جانے سے چندسال پہلے متعدد علماء اعلام نے ادعيہ ، اعمال اور زیارتوں کی کتابيں تاليف کی تهيں اور جوکچه ان کتابوں ميں دعاؤں کے اصول موجود تهے ان کو اخذ کرليا تها ۔
ان اصول سے تاليف کی گئيں کتابيں کتاب خانہ کے جلائے جانے سے پہلے اسی طرح موجود تهيں اور آج بهی موجود ہيں ،جيسے کتاب دعا مولف شيخ کامل الزیارات۔مولف قولویہ متوفی ٣۶٠ ئه ق،کتاب الدعا والمزار مولف شيخ صدوق متوفی ٣٨١ ئه، کتاب المزار مولف شيخ مفيد متوفی ٢ ا ۴ ء قاور کتاب روضةالعابدین مولف کراجکی متوفی ۴۴٩ ئه ق۔ کلينی متوفی ٣٢٩ ئه ق۔ کتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)الذریعہ جلد ٨ صفحہ ١٧۴ ۔ )