دعا عند اهل بيت(جلد دوم)
 

الله کےلئے اور الله کے بارے ميں محبت
اب ہم مندرجہ ذیل سوال کا جواب بيان کریں گے الله کےلئے خالص محبت کے یہ معنی فطرت انسان کے خلاف ہيں چونکہ اللهنے انسان کو متعدد چيزوں سے محبت اور متعدد چيزوں سے کراہت کرنے والی فطرت د ے کرخلق کيا ہے اوراس معنی ميں اللهسے خالص محبت کرنے کا مطلب یہ ہے انسان کی اس فطرت کے خلاف محافظت کرے جس فطرت پر اللهنے اس کو خلق کيا ہے ؟
جواب :اللهسے خالص محبت کرنے کا مقصد انسانی فطرت کا انکار کر نا نہيں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چيزوں سے اللهمحبت کرتاہے اور جن چيزوں کو ناپسند کرتاہے ان کی محبت اور کراہت کی توجيہ کرنا ہے لہٰذا پر وردگار عالم اپنے بندے اور کليم حضرت موسیٰ بن عمران سے ان کے اہل کی محبت ان کے دل سے نکلوانا نہيںچاہتا ہے بلکہ خداوندعالم یہ چاہتاہے کہ ان کے اہل وعيال کی محبت خداوندعالم کی محبت کے زیرسایہ ہو اور ہر محبت کےلئے بندے کے دل ميں وہی ایک منبع ومصدر ہونا چاہئے دوسرے لفظو ں ميں :بيشک پر وردگار عالم اپنے بندے اور کليم موسیٰ بن عمران سے یہ چاہتا ہے کہ ہر محبت کو الله کی محبت کے منبع اور مصدرسے مر بوط ہونا چاہئے اس وقت بندے کی اپنے اہل وعيال سے محبت تعظيم کےلئے ہوگی یہی اس کا دقيق مطلب ہے اور تربيت کا بہترین اور عمدہ طریقہ ہے اور اسی طریقہ تک صرف اسی کی رسائی ہو سکتی ہے جس کو اللهنے اپنی محبت کےلئے مخصوص کرليا ہے اور اس کو منتخب کرليا ہے بيشک رسول الله (ص)لوگوں ميں سب سے زیادہ پاک وپاکيزہ اور طيب وطاہرتهے آپ کا فرمان ہے ميں دنيا کی تين چيزوں سے محبت کرتاہوں :عورت خوشبو اور ميری آنکهوں کی ڻهنڈ ک ( نمازہے ۔ ( ١
بيشک یہ وہ محبت ہے جو الله کی محبت کے زیرسایہ جاری رہتی ہے اور ان تينوں ميں رسول خدا سب سے زیادہ نمازسے محبت کر تے تهے اس لئے کہ نمازان کی آنکهوں کی ڻهنڈک ہے بيشک نماز سے رسول الله (ص)کی محبت الله کی محبت کے زیرسایہ جاری تهی ۔
پس الله سے محبت کرنے ميں انسان کی فطرت ميں کوئی خلل واقع نہيں ہوتا ہے جس فطرت پر الله نے انسان کو خلق کياہے ۔بلکہ جدید معيار و ملاک کے ذریعہ حيات انسانی ميں محبت اور عداوت کے نقشہ کو اسی نظام کے تحت کرنا ہے جس کو اسلام نے بيان کيا ہے ۔
انسان کی فطری محبت خود اسکے مقام پر باقی ہے ليکن جدید طریقہ کی وجہ سے الله کی تعظيم وتکریم کرنا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)الخصال صفحہ / ١۶۵ ۔ )
اس بنياد پر الله کےلئے محبت اور الله کے سلسلہ ميں محبت کی قيمت کےلئے اسلامی روایات ميں بہت زیادہ زور دیا گيا ہے۔
حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب عليہ السلام سے مروی ہے : ( <المحبّةللهاقرب نسب>( ١
“خدا سے محبت سب سے نزدیکی رشتہ داری ہے ”
اور حضرت علی عليہ السلام کا ہی فرمان ہے : ( <المحبّةفي اللهآکد من وشيج الرحم>( ٢
“خدا سے محبت خو نی رشتہ داری سے بهی زیادہ مضبوط ہے ”
یہ تعبير بہت دقيق ہے اور ایک اہم فکر کی طلبگار ہے ۔بيشک لوگوں کے اپنی زندگی ميں بہت گہری رشتہ داری اور تعلقات ہوتے ہيں ۔ان تمام تعلقات ميں رشتہ داری کے تعلقات بہت زیادہ معتبر ہيں ،اور الله تعالی کی محبت کی رشتہ داروں کی محبت سے زیادہ محبت کی تاکيد کی گئی ہے جب انسان اپنی محبت اور تعلقات رشتہ داری کے ذریعہ قائم کرلے۔اسی محبت سے اور عداوت کی وجہ سے رشتہ داری کا مل اور ناقص ہوگی۔
رشتہ داروں کی محبت پر اس لئے زیادہ زور دیا گيا ہے کہ جب الله کے علاوہ کسی اور سے محبت ہوگی تو اس محبت ميں تغير وتبدل ہوگا اور خلل واقع ہوگا ۔
اسی وجہ سے بعض لوگوں کے تاثرات دوسرے بعض لوگوں سے مختلف ہوتے ہيں ليکن جب انسان اپنے بهائی سے الله کےلئے محبت کرے گا تو وہ بہت زیادہ قوی محبت ہوگی اور یہ محبت مختلف اور ایک دوسرے کےلئے متضاد محبت سے کہيں زیادہ موٴثر ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)ميزان الحکمة جلد ٢ص ٢٢٣ ۔ )
٢)ميزان الحکمةجلد ٢صفحہ/ ٢٣٣ ۔ )
الله کےلئے خالص محبت صرف انسان کے فطری تعلقات کی نفی نہيں کرتی بلکہ انسان پر اس بات پر زور دیتی ہے اور اس کے ذہن ميں یہ بات راسخ کرتی ہے کہ اس محبت کو ایک بڑے منبع کے تحت منظم کرے جس کو ہر صدیق اور ولی خدانے منظم و مرتب کيا ہے ۔ پس الله کے نزدیک لوگوں ميں وہ شخص زیادہ افضل ہوگا جو اپنے بهائی سے الله کی محبت کے زیر سایہ محبت کرے ۔حضرت امام
جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :
( <ماالتقی موٴمنان قط الاکان افضلهمااشدّهماحبّالاخيہ>( ١ “مو من جب بهی آپس ميں مليں گے تو ان ميں وہ افضل ہو گا جو اپنے بهائی سے بہت زیادہ محبت کرتا ہو ”
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کا ہی فرمان ہے : <انّ المتحابين فی اللّٰہ یوم القيامة علی منابرمن نور،قد اضاء نوراجسادهم ( ونورمنابرهم کلّ شیٴ حتی یُعرفوابہ،فيُقال:هوٴلاء المتحابّون فِيْ اللّٰہ >( ٢
“الله کی محبت ميں فنا ہوجانے والے قيامت کے دن نور کے منبروں پر ہو ں گے ان کے اجساد اور ان کے منبروں کے نور کی روشنی سے ہر چيزروشن ہو گی یہاں تک کہ ان کا تعارف بهی اسی نور کے ذریعہ ہوگا ۔پس کہا جائيگا :یہ لوگ الله کی محبت ميں فناء فی الله ہوگئے ہيں ”
روایت کی گئی ہے کہ پروردگار عالم نے موسیٰ بن عمران عليہ السلام سے کہا :
<هل عملت لي عملاً ؟قال:صلّيت لک وصمت،وتصدّقت وذکرت لک،فقال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ:امّا الصلاة فلک برهان،والصوم جُنّة،والصدقة قدظلّ،والذکرنور،فاٴي عمل عملت لی؟قال موسیٰ:دلّنی علی العمل الذي هو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الانوار جلد ٧۴ ص ٣٩٨ )
٢)بحار الانوار جلد ٧۴ ص ٣٩٩ ۔ )
لک۔قال:یاموسیٰ،هل واليت لي وليّاوهل عادیت لي عدوّاًقطّ؟فعلم موسیٰ انّ افضل ( الاعمال الحبّ فی اللّٰہ والبغض في اللّٰہ >( ١
“کيا تم نے ميرے لئے کوئی عمل انجام دیا ہے ؟حضرت موسیٰ عليہ السلام نے عرض کيا :
ميںنے تيرے لئے نماز پڑهی ہے، روزہ رکهاہے ،صدقہ دیاہے اور تجه کو یاد کيا ہے پروردگار عالم نے فرمایا :نماز تمہارے لئے دليل ہے ،روزہ سپر ہے صدقہ سایہ اور ذکر نور ہے پس تم نے ميرے لئے کونسا عمل انجام دیا ہے ؟حضرت موسیٰ نے عرض کيا :ہر وہ چيز جس پر عمل کا اطلاق ہوتا ہے وہ تيرے لئے ہے خداوندعالم نے فرمایا :کيا تم نے کسی کو ميرے لئے ولی بنایااور کيا تم نے کسی کو ميرا دشمن بنایا ہرگز؟تو موسیٰ کو یہ معلوم ہوگيا کہ سب سے افضل عمل الله کی محبت اور بغض ميں فنا ہوجانا ہے”
حدیث بہت دقيق ہے نماز کےلئے امکان ہے کہ انسان اسکو الله کی محبت کے عنوان سے پيش کرے یا ممکن ہے نماز کو اپنے لئے جنت ميں دليل کے عنوان سے پيش کرے ۔روزہ کو ممکن ہے انسان الله کی محبت کےلئے مقدم کرے اور ممکن ہے اسکو اپنے لئے جہنم کی آگ سے سپر قرار دے ليکن اولياء الله کی محبت اور الله کے دشمنوں سے برائت الله کی محبت کے بغير نہيں ہوسکتی ہے ۔

محبت کا پہلا سر چشمہ
ہم الله کی محبت کےلئے کہاں سے سيراب ہوں؟ہماری اس بحث ميں یہ سوال بہت اہم ہے ۔ جب ہم الله کی محبت کی قيمت سے متعارف ہوگئے تو ہمارے لئے اس چيز سے متعارف ہونا بهی ضروری ہے کہ ہم اس محبت کو کہاں سے اخذ کریں اور اسکا سرچشمہ و منبع کيا ہے ؟
اس سوال کا مجمل جواب یہ ہے کہ اس محبت کا سرچشمہ ابتدا وانتہاء الله تبارک وتعالیٰ ہے۔ اس مجمل جواب کی تفصيل بيان کرنا ضروری ہے اور تفصيل یہ ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) بحارالانوار جلد ۶٩ ص ٢۵٣ ۔ )


ا۔الله اپنے بندوں کو دوست رکهتا ہے
بيشک الله اپنے بندوں کو دوست رکهتا ہے ،ان کو رزق دیتا ہے ،ان کو کپڑا پہناتا ہے ، ان کو بے انتہا مال ودولت عطا کرتا ہے ،ان کو معاف کرتا ہے ،ان کی توبہ قبول کرتا ہے ،ان کو سيدها راستہ دکهاتا ہے ،ان کو توفيق عطا کرتا ہے ،ان کو اپنے صراط مستقيم کی طرف ہدایت کرتا ہے ،ان کو اپنی رعایاکا ولی بنا تا ہے اور ان پر فضيلت دیتا ہے ،ان سے برائی اور شر کو دور کرتا ہے یہ سب محبت کی نشانياں ہيں۔

٢۔ان کو اپنی محبت والفت عطا کرتا ہے
الله کی بندوں کےلئے یہ محبت ہے کہ وہ ان (بندوں)سے محبت کرتا ہے اور ان کو اپنی محبت کا رزق عطا کرتا ہے ۔محبت کا یہ حکم بڑا عجيب و غریب ہے بيشک محبت کا دینے والا وہ خداہے جو اپنے بندوں سے محبت سے ملاقات کرتا ہے ان کو جذبہ عطا کرتا ہے پهر اس جذبہ کے ذریعہ ان کو مجذوب کرتا ہے ۔ ہم یہ مشاہدہ کرچکے ہيں کہ ماثورہ روایات اور دعاؤں ميں اس مطلب کی طرف متعدد مرتبہ ارشارہ کياگياہے حضرت امام زین العابدین عليہ السلام بارہوےں مناجات ميں فرماتے ہيں :
<اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْا رُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِي حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم> “خدا یا !ہميں ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز وگدازنے جن کے دلوں پرقبضہ کر ليا ہے ”
ہم اس دعا کی پہلے شرح بيان کرچکے ہيں ۔
چودهویں مناجات ميں آیا ہے :<اَساْٴَلُکَ اَن تَجعَْلَ عَلَينَْاوَاقِيَةًتُنجِْينَْا مِنَ الهَْلَ اٰ کتِ،وَتُجَنِّبُنَامِنَ الآْ اٰفتِ،وَ تُکِنُّنَامِن دَواهِي المُْصي اٰبتِ،وَاَن تُنزِْلَ عَلَي اْٰنمِن سَکينَتِکَ،وَاَن تُغَشِّيَ وُجُوهَ اٰنبِاَن اْٰورِمَحَبَّتِکَ،وَاَن تُوٴوِیَ اٰناِ لٰ ی شَدیدِرُکنِْکَ،وَاَن تَحوِْیَ اٰنفَي اَک اْٰنفِ عِصمَْتِکَ،بِرَاٴفَتِکَ وَرَحمَْتِکَ اٰیاَرحَْمَ الراٰحِّمينَْ>
“ ہمارے لئے وہ تحفظ قراردےدے جو ہميں ہلاکتوں سے بچا لے اور آفتوں سے محفوظ کرکے مصيبتوں سے اپنی پناہ ميںرکهے ۔ ہم پر اپنا سکون نازل کردے اور ہمارے چہر وںپر اپنی محبت کی تابانيوں کا غلبہ کردے۔ ہم کو اپنے مستحکم رکن کی پناہ ميں لے لے اور ہم کو اپنی مہربانيوںکی عصمت کے زیرسایہ محفوظ بنادے” پندرهویں مناجات (زاہدین )ميں آیا ہے :
<اِ هٰلِي فَزَهِّد اْٰنفي هٰاوَسَلِّم اْٰنفي هٰا،وَ سَلِّم اْٰنمِن هْٰابِتَوفْيقِکَ وَ عِصمَْتِکَ،وَانْزَع عَناٰجَّ لاٰبيبَ مُ خٰالَفَتِکَ،وَتَولَّ اُمُورَ اٰن بِحُسنِْ کِ اٰ فیَتِکَ،وَاَجمِْل صِ اٰلتِ اٰنمِن فَيضِْ مَ اٰوهِبِکَ،وَاَغرِْسفِْي اَفئِْدَتِ اٰناَش جْٰارَمَحَبَّتِکَ وَاَتمِْم لَ اٰناَن اْٰورَمَعرِْفَتِکَ،وَاَذِق اْٰنحَ اٰلوَةَعَفوِْکَ وَلَذَّةَمَغفِْرَتِکَ،وَاَقرِْراَْعيُْنَ اٰنیَومَْ لِ اٰ قئِکَ بِرُوٴْیَتِکَ،وَاَخرِْج حُبَّ الدُّن اْٰيمِن قُلوُبِ اٰنکَ مٰافَعَلتَْ بِالصاٰلِّحينَ مِن صَفوَْتِکَ،وَالاَْب اْٰررِمِن خٰاصَّتِکَ بِرَحمَْتِکَ اٰیاَرحَْمَ الراٰحِّمينَ>
“خدا یا ہم کو اس دنياميں زہد عطا فرما اور اس کے شرسے محفوظ فرما اپنی توفيق اور عصمت کے ذریعہ ہم سے اپنی مخالفت کے لباس اتر وادے اور ہمارے امور کا تو ہی ذمہ دار بن کر ان کی بہترین کفایت فرمااپنی وسيع رحمت سے مزید عطافرمااور اپنے بہترین عطایا سے ہمارے ساته اچهے اچهے برتاٴو کرنا اور ہمارے دلوں ميں اشجار محبت بڻها دے اور ہمارے لئے انوار معرفت کو مکمل کردے اور ہميں اپنی معافی کی حلاوت عطا فرمااور ہميں مغفرت کی لذت سے آشنابنا دے ہماری آنکهوں کوروز قيامت اپنے دیدار سے ڻهنڈاکر دےنا اور ہمارے دلوں سے دنيا کی محبت نکال دےنا جيسے تونے اپنے نيک اور منتخب اورتمام مخلوقات ميں نيک کردار لوگوں کے ساته سلوک کيا ہے اور اپنی رحمت کے سہارے اے ارحم الراحمين ” آخر ميں ہم اس مطلب کی تکميل کےلئے سيد ابن طاوؤس کی نقل کی ہوئی روز عرفہ پڑهی جانے والی امام حسين عليہ السلام کی دعا نقل کررہے ہيں :
<کيف یستدل عليک بماهو فی وجودہ مفتقر اليک اَیَکُوْنُ لِغَيْرِکَ مِنَ الظُّہُورِْمَالَيسَْ لَکَ حَتی یَکُونَْ هُوَالمُْظهِْرَلَکَ مَت یٰ غِبتَْ حَتّ یٰ تَحتَْاجَ اِل یٰ دَلِيلٍْ یَدُلُّ عَلَيکَْ وَمَت یٰ بَعُدَت حَتی تَکُونَْ الآثَارُهِیٍ الَّتِی تُوصِْلُ اِلَيکَْ عَمِيَت عَينٌْ لَاتَرَاکَ عَلَيهَْارَقِيبْاًوَخَسِرَت صَفقَْتُہُ عَبدٍْ لَم تَجعَْل لَّہُ مِن حُبِّکَ نَصِيبْا۔۔۔فَاهدِْنِی بِنُورِْکَ اِلَيکَْ،وَاَقِمنِْی بِصِدقِْ العُْبُودِْیَّةِ بَينَْ یَدَیکَْ ۔۔۔وَصُنَّی بِسِترِْکَ المَْصُونِْ ۔۔۔وَاسلُْک بِی مَسلَْکَ اَهلَْ الجَْذبِْ،اِ هٰلِی اَغنِْنِی بِتَدبِْيرِْکَ لِی عَن تَدبِْيرِْی،ْوَبِاِختِْيَارِکَ عَن اِختِْيَارِی وَاَوقِْفنِْی عَن مَرَاکِزِ اِضطِْرَارِی ۔۔۔اٴَنتَْ الَّذِی اَشرَْقَتَ الاَْنوَْارَ فِی قُلُوبِْ اٴَولِْيَائِکَ حَتیّٰ عَرَفُوکَْ وَوَحَّدُوکَْ ۔وَاَنتَْ الَّذِی اٴَزَلتَْ الاَْغيَْارَعَن قُلُوبِْ اَحِبَّائِکَ حَتّ یٰ لَم یُحِبُّواسِوَاکَ وَلَم یَلجَْوٴُااِل یٰ غَيرِْکَ اَنتَْ المُْونِْسُ لَهُم حَيثُْ اَوحَْشتَْهُمُ العَْوَالِمُ وَاَنتَْ الَّذِی هَدَیتَْهُم حَيثُْ اِستِْبَانَت لَهُمُ المَْعَالِمُ ۔مَاذَاوَجَدَمَن فَقَدَکَ ؟وَمَاالَّذِی فَقَدَ مَن وَجَدَک ؟لَقَد خَابَ مَن رَضِیَ دُونَْکَ بَدَلاً،وَلَقَدخَْسِرَمَن بَغ یٰ عَنکَْ مُتَحَوِّلاً کَيفَْ یُرجْ یٰ سِوَاکَ وَاَنتَْ مَاقَطَعتَْ الاِْحسَْانَ؟وَکَيفَْ یُطلَْبُ مِن غَيرِْکَ وَاَنتَْ مَابَدَّلتَْ عَادَةَ الاِْمتِْنَانِ ؟یَامَن اَذَاقَ اَحِبَّائَہُ حَلَاوَةَ المُْوَانَسَةَ فَقَامُواْبَينَْ یَدَیہِْ مُتَمَلِّقِينَْ وَیَامَن اَلبَْسَ اَولِْيَائَہُ مَلَبَسَ هَيبَْتِہِ فَقَامُواْبَينَْ یَدَیہِْ مُستَْغفِْرِینَْ ( ۔۔۔اِ هٰلِی اَطلُْبنِْی بِرَحمَْتِکَ حَتّ یٰ اَصِلَ اِلَيکَْ،وَاجذُْبنِْی بِمَنِّکَ حَتّ یٰ اَقبَْلَ عَلَيکَْ >( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار ج ٩٨ ص ٢٢۶ ۔ )
“ميں ان چيز وںکو کس طرح راہنمابناوٴںجو خود ہی اپنے جود ميںتيری محتاج ہيں کيا تيرے کسی شی ٴ کوتجه سے بهی زیادہ ظہورحاصل ہے کہ وہ دليل بن کر تجه کو ظاہر کرسکے تو کب ہم سے غائب رہا ہے کہ تيرے لٴے کسی دليل اور راہنمائی کی ضرورت ہو ،اور کب ہم سے دور رہا ہے کہ آثار تيری بارگاہ تک پہنچا نے کا ذریعہ بنيں وہ آنکهيں اندهی ہيں جو تجهے اپنا نگراں نہيںسمجه رہی ہيں اور وہ بندہ اپنے معاملات حيات ميں سخت خسارہ ميں ہے جسے تيری محبت کاکوئی حصہ نہيں ملا ۔۔۔تو اپنی طرف اپنے نور سے ميری ہدایت فرما، اور مجه کو اپنی سچی بندگی کے ساته اپنی بارگاہ ميںحاضری کی سعادت کرامت فرما ۔۔۔اور اپنے محفوظ پردوں سے ميری حفاظت فرما ۔۔۔اور جذب و کشش رکهنے والوں کے مسلک پر چلنے کی توفيق عطا فرما اپنی تدبير کے ذریعہ مجهے ميری تدبير سے بے نياز کردے اوراپنے اختيار کے ذریعہ ميرے اختيار اورانتخاب سے مستغنی بنا دے
اوراضطرارواضطراب کے مواقع کی اطلاع اورآگاہی عطافرما۔۔۔تو ہی وہ ہے جس نے اپنے دوستوں کے دلوں ميں انوارالوہيت کی روشنی پيدا کر دی تووہ تجهے پہچان گئے اور تيری وحدانيت کا اقرار کرنے لگے اور توہی وہ ہے جس نے اپنے محبوں کے دلوں سے اغيار کو نکال کرباہرکردیا تواب تيرے علا وہ کسی کے چاہنے والے نہيں ہيں، اور کسی کی پناہ نہيں مانگتے تو نے اس وقت ان کا سمان فراہم کياجب سارے عالم سبب وحشت بنے ہو ئے تهے اور تو نے ان کی اس طرح ہدایت کی کہ سارے راستے روشن ہو گئے پروردگارجس نے تجه کو کهو دیا اس نے کياپایا؟اور جس نے تجه کو پاليا اس نے کيا کهویا؟جو تيرے بدل پر راضی ہوگياوہ نا مراد ہوگيا،اور جس نے تجه سے رو گردانی کی وہ گهاڻے ميں رہا ،تيرے علاوہ غيرسے اميد کيوں کی جائے جبکہ تونے احسان کاسلسلہ روکانہيں اور تيرے علاوہ دوسرے سے مانگا ہی کيوں جا ئے جبکہ تيرے فضل و کرم کی عادت ميں فرق نہيں ایا ہے وہ پرور دگارجس نے اپنے دو ستوں کو انس و محبت کی حلاوت کا مزہ چکها دیاہے تو اس کی بارگاہ ميں ہاته پهيلائے کهڑے ہوئے ہيں اور اپنے اولياء کو ہيبت کا لباس پہنا دیاہے تو اس کے سامنے استغفار کرنے کے لئے استادہ ہيں۔۔۔ميرے معبود مجه کو اپنی رحمت سے طلب کر لے تا کہ ميں تيری بارگاہ تک پہونچ جا ؤں اور مجهے اپنے احسان کے سہارے اپنی طرف کهينچ لے تا کہ ميں تيری طرف متوجہ ہوجاؤں ”

٣۔بندوں سے خداوندعالم کا اظہاردوستی
خداوندعالم اپنے بندوں سے دوستی کا اظہار کرتا ہے اور بندوں کو اپنی ذات سے محبت کرانے کےلئے نعمتوں سے مالامال کردیتا ہے بيشک پروردگار عالم دلوں پر نعمت اس لئے نازل کرتاہے کہ خداوندعالم نے جن پر نعمت نازل کی ہے وہ الله کو دوست رکهيں ۔
حضرت امام زین العابدین عليہ السلام سے دعائے سحر ميں آیا ہے : <تَتَحَبَّبُ اِلَينَْابِالنِّعَمِ وَنُعَارِضُکَ بِالذُّنُوبِْ خَيرُْکَ اِلَينَْانَازِلٌ وَشَرُنَا اِلَيکَْ صَاعِدٌ وَلَم یَزَل وَلَایَزَالُ مَلَکٌ کَرِیمٌْ یَاتِْيکَْ عَنَّابِعَمَلٍ قَبِيحٍْ فَلَا یَمنَْعُکَ لٰذِکَ مِن اَن تَحُوطَْنَابِرَحمَْتِکَ وَتَتَفَضَّل ( عَلَينَْابِآلَائِکَ فَسُبحَْانَکَ مَااَحلَْمَکَ وَاَعظَْمَکَ وَاَکرَْمَکَ مُبدِْئاًوَمُعِيدْ اً>( ١
“تو نعمتيں دے کرہم سے محبت کرتا ہے اور ہم گناہ کر کے اس کا مقابلہ کرتے ہيں تيراخيربرابر ہما ری طرف آرہا ہے اور ہما راشر برابر تيری طرف جارہا ہے فرشتہ برابر تيری بارگاہ ميں ہماری بد اعماليوں کادفتر لے کر حاضر ہوتاہے ليکن اس کے باوجود تيری نعمتوں ميںکمی نہيں اتی اورتو برابر فضل و کرم کر رہاہے تو پاک پاکيزہ ہے تو تجه جيسا حليم عظيم اور کریم کون ہے ابتدا اور انتہا ميں تيرے نام پاکيزہ ہيں ”
الله کا اپنے بندے پر نعمت فضل ،بهلائی عفواور ستر (عيب پوشی)نازل کرنے اور بندہ کی طرف سے الله کی طرف سے جوبرائی اور شر صعود کرتا ہے ان دونوںکے درميان مقائسہ سے اس بات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٩٨ صفحہ ٨۵ ۔ )
کا پتہ چلتا ہے کہ بندہ اپنے مولا سے شرمندہ ہے ،وہ الله کی طرف سے اس محبت اور دوستی کا روگردانی اور دشمنی کے ذریعہ جواب دیتا ہے ۔ انسان کتنا شقی اور بدبخت ہے کہ الله کی محبت اوردوستی کا جواب ردگردانی اور دشمنی سے دیتا ہے ۔
امام زمانہ حضرت حجة عليہ السلام کے دعاء افتتاح ميں ان کلمات کے سلسلہ ميں غوروفکر کریں
<اِنَّکَ تَدعُْونِْی فَاٴُوَلِّي عَنکَْ وَتَتَحَبَّبُ اِلَيَّ فَاَتَبَغَّضُ اِلَيکَْ،وَتَتَوَدَّدُاِلَيَّ فَلاَاَقبَْلُ مِنکَْ،کَانَّ لِیَ التَّطَوُّلَ عَلَيکَْ،فَلَم یَمنَْعُکَ لٰذِکَ مِنَ الرَّحمَْةِلِي وَ الاِحسَْانِ اِلَيَّ وَالتُّفَضُّلِ ( عَليَّ >( ١
“اے پروردگار بيشک تو نے مجه کو دعوت دی اور ميں نے تجه سے رو گر دانی کی اور تونے محبت کی اور ميں نے تجه سے بغض و عناد رکها اور توميرے ساته دو ستی کرتا ہے تو ميں اس کو قبول نہيں کرتا ہوں گویا کہ ميرا تيرے اوپر حق ہے اور اس کے باوجود اس نے تجه کو ميرے اوپر احسا ن کر نے اور فضل کر نے سے نہيں رو کا ”
( <خيرک الينانازل وشَرُّنَااِلَيکَْ صَاعِدٌ>( ٢
“تيراخيربرابر ہما ری طرف آرہا ہے اور ہما راشر برابر تيری طرف جارہا ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مفاتيح الجنان دعائے افتتاح ۔ )
٢)بحارالانوار جلد ٨ا صفحہ ٨۵ ۔ )