دعا عند اهل بيت(جلد دوم)
 


الله سے ملاقات کے شوق کی ایک اور حالت
الله سے ملاقات کرنے کے شوق کی ایک اور صورت کا حضرت امام زین العابدین عليہ السلام کی مناجات ميں مشاہدہ کيا جاسکتا ہے جس ميں آپ فرماتے ہيں:
<اِ هٰلي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْا رُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِي حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم فَهُم اِل یٰ اَوکَْارِالاَْفکَْارِیَاوُونَْ وَفِي رِیَاضِ القُْربِْ وَالمُْکَاشَفَةِ یَرتَْعُونَْ وَمِن حَيَاضِ المَْحَبَّةِ بِکَاسِ المُْلَاطَفَةِ یَکرَْعُونَْ وَشَرَایِعَ المُْ صٰا اٰفتِ یَرِدُونَْ قَدکُْشِفَ الغِْطَاءُ عَن اَبصَْارِهِم وَانجَْلَت ظُلمَْتُ الرَّیبِْ عَن عَقَائِدِهِم وَضَمَائِرِهِم وَانتَْفَجَت مُخَالَجَةُ الشَّکِّ عَن قُلُوبِْهِم وَسَرَائِرِهِم وَانشَْرَحَت بِتَحقِْيقِْ المَْعرِْفَةِ صُدُورُْهُم وَعَلَت لبِسَبقِْ السَّعَادَةِ فِی الزّهادة وَهِمَمُهُم وَعَذُبَ فِی مَعِينِْ المُْعَامَلَةِ شِربُْهُم وَطَابَ فِي مَجلِْسِ الاُْنسِْ سِرُّهُم وَاَمِنَ فِي مَوَاطِنِ المَْخَافَةِ سِربُْهُم وَاطمَْاٴَنَّت بِالرُّجُوعِْ اِل یٰ رَبِّ الاَْربَْابِ اَنفُْسُهُم وَتَيَقَّنَت بِالفَْوزِْوَالفَْلَاَحِ اَروَْاحُهُم وَقَرَّت بِالنَّظَرِاِل یٰ مَحبُْوبِْهِم اَعيُْنُهُم وَاستَْقَرَّبِاِدرَْاکِ السَّوٴُلِ وَنَيلِْ المَْامُولِْ قَرَارُهُم وَرَبِحَت فِي بَيعِْ الدُّنيَْابِالآْخِرَةِ تِجَارَتُهُم اِ هٰلِي مَااَلَذَّ خَوَاطِرَالاِْلهَْامِ بِذکرِْکَ عَل یٰ القُْلُوبِْ وَمَااَحلْ یٰ المَْسِيرَْ اِلَيکَْ بِالاَْوهَْامِ فِي مَسَالِکِ الغُْيُوبِْ وَمَااَطيَْبَ طَعمُْ حُبِّکَ وَمَااَعذَْبَ شِربَْ قُربِْکَ فَاَعِذنَْامِن طَردِْکَ وَاِبعَْادِکَ وَاجعَْلنَْامِن اَخصِّ عَارِفِيکَْ وَاَصلِْح عِبَادَکَ وَاَصدَْقِ طَائِعِيکَْ وَاَخلَْصِ ( عُبَّادِک>( ١
“خدا یا !ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز و گداز نے جن کے دلوں پر قبضہ کر ليا ہے وہ فی الحال آشيانہ ٴ افکار ميں پناہ لئے ہو ئے ہيں اور ریاض قرب اور مکاشفات ميں گردش کر رہے ہيںتيری محبت کے حوض سے سيراب ہو رہے ہيں اور تيرے اخلاص کے گهاٹ پر وارد ہو رہے ہيں ان کی نگاہو ں سے پردے اڻهادئے گئے ہيں اور ان کے دل و ضمير سے شکوک کی تاریکياںزائل ہو گئی ہيں ان کے عقائد سے شک و شبہ کی تاریکی محو ہو گئی ہے اورتحقيقی معرفت سے ان کے سينے کشادہ ہو گئے ہيں اور سعادت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مفاتيح الجنان مناجات عارفين۔ )
حاصل کرنے کے لئے زہد کی راہ ميں ان کی ہمتيں بلند ہو گئی ہيں اورا طاعت کے ذریعہ سے ان کا چشمہ شيریں ہو گياہے مجلس انس ميں ان کاباطن پاکيزہ ہو گيا ہے اورمحل خوف ميں ان کا راستہ محفوظ ہوگيا ہے وہ مطمئن ہيںکہ ان کے دل رب العالمين کی طرف راجع ہيں اور ان کی روحوںکو کاميابی اور فلاح کایقين ہے اور ان کی آنکهوں کومحبوب کے دیدار سے خنکی حاصل ہو گئی ہے اور ان کے دلوں کو اورمدعاکے حصول سے سکون مل گيا ہے دنيا کو آخرت کے عوض بيچنے ميں ان کی تجارت کامياب ہو گئی ہے خدایا !دلوں کےلئے تيرے ذکر کا الہام کس قدر لذیذ ہے اور تيری بارگاہ کی طرف آنے ميں ہر خيال کس قدر حلاوت کا احساس کرتا ہے۔ تيری محبت کا ذائقہ کتنا پاکيزہ ہے اور تيرے قُر ب کاچشمہ کس قدرشيریں ہے ہميں اپنی دوری سے بچالے اور اپنے مخصوص عارفوں اوراپنے صالح بندوں ميں سے سچے اطاعت گذار اور خالص عبادت گذاروں ميں قرار دےنا ” ہم اس مقام پراہل بيت عليہم السلام کی دعا اور مناجات توقف نہيں
کرناچاہتے ليکن ہم امام علی بن الحسين عليہ السلام کی مناجات کے اس جملہ کے بارے ميں کچه غوروفکر کرنا چاہتے ہيں جس جملہ سے آپ نے مناجات کا آغاز فرمایا ہے:
<اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِنَ الَّذِینَْ تَرَسَّخَت اَشجَْارُالشَّوقِْ اِلَيکَْ فِی حَدَائِقِ صُدُورِْهِم وَاَخَذَت لَوعَْتُ مُحَبّّتِکَ بِمَجَامِعِ قُلُوبِْهِم>
“خدا یا! ہم کو ان لوگوں ميں قرار دے جن کے دلوں کے باغات ميںتيرے شوق کے درخت راسخ ہو گئے ہيں اور تيری محبت کے سوز و گداز نے جن کے دلوں پر قبضہ کر ليا ہے ”
بيشک اولياء الله کےلئے جيساکہ امام عليہ السلام کے کلام سے ظاہر ہوتاہے خوبصورت باغ،طيب وطاہر ہيں اور عوام الناس سے مختلف طرح کی چيزیں صادر ہوتی ہيں:
کچه لوگوںکے دلوں سے مکاتب اور علمی مدرسے وجود ميں آتے ہيں اور علم خير اور نور ہے بشرطيکہ الله سے ملاقات کا شوق باقی رہے بعض لوگوں کے سينہ تجارت گاہ ،بينک اور مال و دولت کے مخزن ہوتے ہيں جن کی تعداد بہت زیادہ ہو تی ہے اور شمارش کے نقشے ہو تے ہيں اور فائدہ و نقصان کے مقام ہو تے ہيں مال اور تجارت اچهے ہيں ليکن اس شرط کے ساته کہ یہ کام اسکے دل کو مشغول نہ کردے اور ایسا رنج وغم نہ ہو جو اس سے جدا نہ ہوسکتا ہوکچه لوگوں کے دل ایسی زمين ہوتے ہيںجس ميںببول کے درخت،جنگل(اندرائن جوکڑواہونے ميںضرب المثل ہے ) زہریلے ، کينہ مال پر لڑائی جهگڑا ، بادشاہت اور دوسروں کےلئے کيد ومکر ہوا کرتے ہيں،اور کچه افراد کے صدور (قلوب)کهيلنے کودنے والے افعال پر ہوتے ہيں دنيا وسيع پيمانہ پر ایک گروہ کےلئے لہو ولعب ہے ۔
لوگوں ميں سے کچه لوگوں کا دل دو ڻکڑوں ميں تقسيم کيا گيا ہے:ایک حصہ زہر،کينہ ،مکروکيد سے پر ہے اور دوسرا حصہ لہو ولعب سے لبریز ہے۔جب پہلے حصہ کا راحت وآرام چهن جاتا ہے تو وہ دوسرے حصہ سے پناہ مانگتا ہے اور لہو ولعب سے مدد چاہتا ہے تاکہ وہ نفس کو پہلے حصہ کے عذاب سے نجات دلا سکے۔
ليکن اولياء الله کے سينے اس شوق کے باغ(جيسا کہ امام زین العابدین عليہ السلام نے فرمایا ہے)کے سلسلہ ميںبارونق اور طيب وطاہر ميوے ہوتے ہيں کبهی ان ميں شوق کے درخت جڑ پکڑ جاتے ہيں اور اس ميں اپنی شاخيں پهيلادیتے ہيں ۔الله سے ملاقات کا شوق ایسا امر نہيں ہے کہ اگر اس پر خواہشات نفسانی غالب آجائے یا دنيااپنے کو زیب وزینت کے ساته اسکے سامنے پيش کردے تو وہ شوق ملاقات ختم ہوجائے ،اور جب صاحب دنيا کےلئے دنيا تنگ ہوجاتی ہے اور وہ مشکلوں ميں گهرجاتا ہے نہ تو اس شوق ميں کوئی کمی آتی ہے اور نہ ہی اس کے اوراق (پتّے)مرجهاتے ہيں۔
بيشک جب الله سے شوق ملاقات کے اشجار ان دلوں ميں اپنی جڑ محکم و مضبوط کر ليتے ہيں تو تمام مشکلوں کے باوجود ہميشہ ہرے بهرے اور پهل دیتے رہتے ہيں۔
الله سے ملاقات کرنے کے شوق کی حالت روح کے ہلکے ہونے کی حالت ہے اور یہ حالت سنگينی اور دنيا پر اعتما د کرنے کی حالت کے برعکس ہے جس کے سلسلہ ميں قرآن کریم ميں گفتگو کی گئی ہے:
<مَالَکُم اِذَاقِيلَْ لَکُم انفِْرُواْفِی سَبِيلِْ اللهِ اَثَّاقَلتُْم اِلَی الاَْرضِْ اَرَضِيتُْم ( بِالحَْيَاةِالدُّنيَْامِنَ الآخِرَةِ> ( ١
“جب تم سے کہا گياکہ راہ خدا ميں جہاد کےلئے نکلو تو تم زمين سے چپک کر رہ گئے کيا تم آخرت کے بدلے زندگا نی دنيا سے راضی ہو گئے ہو” بيشک جب انسان دنيا سے لولگاتا ہے ،اسی سے راضی ہوتاہے اور اس پر اعتماد وبهروسہ کرليتا
ہے تو اسکا نفس بهاری اور ڈهيلا ہوجاتا ہے اور جب اسکا نفس ( ٢)دنيا سے آزاد ہوجاتا ہے تو ہلکا ہوجاتا ہے اور الله کی محبت اور اس سے شوق ملاقات کو جذب کرتا ہے۔
ہم اہل بيت سے ماثورہ دعاؤں کے بارے ميں روایات کی روشنی ميں محبت، شوق اور انس کی بحث کا اختتام کرتے ہيں اور اب “محبت خدا ”کی بحث کا آغاز کرتے ہيں ۔

الله کےلئے خالص محبت
یہ مقولہ توحيد حب کے مقولہ سے بلند ہے بيشک توحيد حب الله کی محبت کے علاوہ دوسری محبتوں کی نفی نہيں کرتی ہے ليکن الله کی محبت کو دوسری محبتوں پر غلبہ دیتی ہے پس الله کی محبت حاکم اور غالب ہے :
( <وَالَّذِینَْ آمَنُواْاَشَدُّحُباللهِ>( ٣
“ایمان والوں کی تمام تر محبت خدا سے ہو تی ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ توبہ آیت ٣٨ ۔ ) ٢)دنيا سے آزاد ہونے کا مطلب اس کو ترک کردینا نہيں ہے رسول خدا (ص) بهی دنيا سے ) آزاد تهے ليکن پهر بهی اپنی دعوت کے سلسلہ ميں دنيا کا سہاراليتے تهے ”
٣)سورئہ بقرہ آیت ۶۵ ا۔ )
یہ ایمان کی شرطوں ميں سے ایک شرط اور توحيد کی شقوں ميں سے ایک شق ہے۔
ليکن الله سے خالص محبت،الله کے علاوہ دوسروں سے کی جانے والی محبت کی نفی کرتی ہے ليکن اگر محبت خدا(الحب لله،البغض لله)کے ساته باقی رہے ۔یہ ایمان اور توحيد کی شان ميں سے نہيں ہے ،ليکن صدیقين اور ان کے مقامات کی شان ہے۔
بيشک خداوند عالم اپنے اولياء اور نيک بندوں کے دلوں کو اپنی محبت کے علاوہ دوسروں کی محبت سے خالی کرنے پر متمکن کردیتا ہے ۔
حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :
( <القلب حرم اللّٰہ فلا تسکن حرم اللّٰہ غيراللّٰہ >( ١ “دل الله کا حرم ہے اور الله کے حرم ميں الله کے علاوہ کوئی اور نہيں رہ سکتا ہے”
یہ دل کی مخصوص صفت ہے چونکہ اعضاء وجوارح انسان کی زندگی ميں مختلف قسم کے کام انجام دیتے ہيں جن کو خداوند عالم نے اس کےلئے مباح قرار دیا ہے اور ان کو بجالانے کی اجازت دی ہے ليکن دل الله کا حرم ہے اور اس ميں الله کے علاوہ دوسرے کی محبت کا حلول کرنا سزاوار نہيں ہے۔
روایت ميں دل کی حرم سے تعبير کرنے کے متعلق نہایت ہی دقيق نکتہ ہے بيشک حرم کا علاقہ امن وامان کاعلاقہ ہے اور اسکا دروازہ ہراجنبی آدمی کےلئے بند رہتا ہے اور اس ميں رہنے والوں کو کوئی ڈروخوف نہيں ہوتا اور نہ ہی اس ميںکوئی اجنبی داخل ہوسکتا ہے اسی طرح دل الله کا امن وامان والا علاقہ ہے اس ميں الله کی محبت کے علاوہ کسی اورکی محبت داخل نہيں ہوسکتی اور اس ميں الله کی محبت کو کوئی برائی یا خوف پيش نہيں آسکتا ہے۔
صدیقين اور اولياء الله سے خالص محبت کرنے والے بندے ہيں الله کی محبت اور دوسروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ/ ٢۵ ۔ )
کی محبت کو ایک ساته جمع نہيں کيا جاسکتا ہاں الله کی محبت کے زیر سایہ تو دوسروں کی محبت ہوسکتی ہے ۔
ہم مندرجہ ذیل حضرت امام زین العابدین عليہ السلام کی مناجات ميں محبت کی سوزش اور محبت ميں صدق اخلاص دیکهتے ہيں :
<سَيَّدِي اِلَيکَْ رَغبَْتِی،ْوَاِلَيکَْ رَهبَْتِی،ْوَاِليَْکَ تَاٴمِيلِْي وَقَد سَاقَنِي اِلَيکْ اَمَلِي وَعَلَيکَْ یَاوَاحِدِي عَکَفَت هِمَّتِي وَفِيمَْاعِندَْکَ انبَْسَطَت رَغبَْتِي وَلَکَ خَالِص رَجَائِي وَخَوفِْي وَبِکَ اَنِسَت مَحَبَّتي وَاِلَيکَْ اَلقَْيتُْ بِيَدي وَبِحَبلِْ طَاعَتِکَ مَدَدتُْ رَهبَْتِي یَامَولَْايَ ( بِذِکرِْکَ عَاشَ قَلبِْي وَبِمُنَاجَاتِکَ بَرَّدتُْ اَمَلَ الخَْوفِْ عَنِّي۔ْ۔۔>( ١
“ميرے مالک ميری تيری ہی طرف رغبت ہے اور تجهی سے خوف تجهی سے اميد رکهتا ہے،اور تيری ہی طرف اميد کهينچ کر لے جاتی ہے ، ميری ہمت تيری ہی جناب ميںڻهہرگئی ہے اور تيری نعمتوں کی طرف ميری رغبت پهيل گئی ہے خالص اميداورخوف تيری ہی ذات سے وابستہ ہے محبت تجهی سے مانوس ہے اور ہاته تيری ہی طرف بڑهایا ہے اور اپنے خوف کوتيری ہی ریسمان ہدایت سے ملا دیا ہے خدایاميرادل تيری ذات سے زندہ ہے اور ميرادرد خوف تيری مناجات سے ڻهہراہے ” امام عليہ السلام مناجات کے اس ڻکڑے ميں اپنی رغبت ،رهبت ،اور آرزو تمام چيزوں کو الله سے مربوط کرتے ہيں اور خدا کی عطا کردہ ہمت کے ذریعہ ان سب کے پابند تهے آپ خالص طورپر خدا سے اميد رکهتے تهے اور اسی سے خوف کهاتے تهے۔
رسول خدا (ص)سے مروی ہے :
( <احبّواالله من کلّ قلوبکم>( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) دعائے ابو حمزہ ثمالی ۔ )
٢)کنز العمال جلد ٧۴ صفحہ/ ۴۴ ۔ )
“تم الله سے اپنے پورے دلوں کے ساته دو ستی کرو ” اور حضرت امام زین العابدین عليہ السلام سے مروی دعا ميں آیا ہے: <اللهم انّي اٴَساٴَلک ان تملاقلبي حبّالک وخشية منک،وتصدیقالک وایمانابک ( وفرقاًمنک وشوقااليک>( ١
“بار الٰہا ميں تجه سے سوال کرتا ہوں کہ تو ميرے دل کو اپنی محبت ،خوف ،تصدیق ایمان اور اپنے شوق سے لبریز فر ما دے ” اگر الله سے محبت اور اس سے شوق ملاقات سے بندہ کا دل لبریز ہوجائے تو پهر اس ميں الله سے محبت کے علا وہ کسی دوسرے سے محبت کی کو ئی خالی جگہ ہی باقی نہيں رہ جاتی مگر یہ کہ محبت اس خدا کی محبت کے طول ميں اور اسی کی محبت کے نتيجہ پرکہ محبت بهی درحقيقت الله کی محبت ہے اور اسی شوق کا نتيجہ ہے۔
ماہ رمضان کے آجانے پر حضرت امام صادق عليہ السلام کی دعاکا ایک حصہ یہ ہے :
<صلّ عل یٰ مُحَمَّدٍوَآل مُحَمَّدٍوَاشغَْل قَلبِْی بِعَظِيمِْ شَانِکَ،وَاَرسَْلَ مُحَبَّتَکَ اِلَيہِْ ( حَتّ یٰ اَلقَْاکَ وَاَودَْاجِي تَشخَْبُ دَماً>( ٢
“خدایا! محمد وآل محمد پر درود بهيج اپنی شان کی عظمت کے صدقہ ميں ميرے دل کو اپنی یاد ميں مصروف رکه ميرے دل ميں اپنی محبت ڈال دے تاکہ ميں تجه سے خون ميں غلطاں حالت ميں ملاقات کروں ” اس کا مطلب خداوند عالم کيلئے خالص محبت کرنا ہے چونکہ خدا کی محبت دل کو مصروف کرنے
والا کام ہے اور اس سے جدا نہ ہو نے والا امر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٩٨ صفحہ/ ٨٩ ۔ )
٢)بحا ر الانوار جلد ٩٧ صفحہ ٣٣۴ ۔ )


بندہ سے متعلق خداوند عالم کی حميت
بيشک الله اپنے بندے سے محبت کرتا ہے اور محبت کی ایک خصوصيت غيرت ہے وہ غيور بندوں کے دلوں ميں ہوتی ہے بندے اللهسے خالص محبت کریں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے سے محبت نہ کریں اور بندوں کو اپنے دل ميں دوسروں کی محبت داخل کرنے کی اجازت نہيں ہے ۔ روایت ميں آیا ہے کہ موسیٰ بن عمران عليہ السلام نے اپنے رب سے وادی مقدس ميں مناجات کرتے ہوئے عرض کيا اے پروردگار : <اني اخلصت لک المحبّة منيّ وغسلت قلبي ممّن سواک >(ا)
“ميں صرف تيرا مخلص ہوں اور تيرے علاوہ کسی اور سے محبت نہيں کرتا”اور مجهے اپنے اہل وعيال سے شدید محبت ہے خداوندعالم نے فرمایا ۔اگر تم مجه سے خالص محبت کرتے ہوتو اپنے اہل وعيال کی محبت اپنے دل سے الگ کردو ” الله کی اپنے بندے پر یہ مہربانی ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے غيرکی محبت کو زائل کر دیتا ہے اور جب خداوند عالم اپنے بندے کو اپنے علاوہ کسی اور سے محبت کرتے ہوئے پاتاہے تو اس کی محبت کو بندے سے سلب کردیتا ہے یہاں تک کہ بندہ کا دل اس کی محبت کےلئے خالص ہوجاتاہے اور حضرت امام حسين عليہ السلام سے مروی دعا ميں آیاہے :
انت الذي ازلت الاغيارعن قلوب احبّّائک حتیٰ لم یحبّواسواک ماذا وجد مَن ( فقدک وماالذی فقد مَن وجدک لقدخاب من رضي دونک بدلا”( ٢ “تونے اپنے محبوں کے دلوں سے غيروں کی محبت کو اس حد تک دور کردیا کہ وہ تيرے علاوہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٨٣ صفحہ ٢٣۶ ۔ )
٢)بحارا لانوارجلد ٩٨ صفحہ ٢٢۶ ۔ )
کسی سے محبت ہی نہيں کرتے ۔جس نے تجهے کهو دیا اس نے کيا پایا ؟اور جس نے تجهے پاليا اس نے کيا کهویا ؟جو شخص تيرے علاوہ کسی اور سے راضی ہوا وہ نا مراد رہا ”
ہمارے لئے اس سلسلہ ميں اس تربيت کرنے والی خاتون کا واقعہ نقل کرنابہتر ہے جس کو شيخ حسن البنانے اپنی کتاب “مذاکرات الدعوة والداعية ”ميں نقل کيا ہے۔ حسن البنّاکہتے ہيں :شيخ سلبی (مصرکے علم عرفان اور اخلاق کی بڑی شخصيت)کو خداوندعالم نے ان کی آخری عمرميں ایک بيڻی عطاکی شيخ اس سے بہت زیادہ محبت کر تے تهے یہاں تک کہ آپ اس سے جدا نہيں ہوتے تهے وہ جوں جوں جوان اور بڑی ہو رہی تهی شيخ کی اس سے محبت ميں اضافہ ہوتا جا رہا تها شيخ بنّا نے اپنے کچه ساتهيوں کے ہمراہ ایک شب پيغمبر اکرم کی شب ولا دت شيخ شلبی کے گهر کے نزدیک ایک خوشی کی محفل سے لوڻنے کے بعد شيخ شلبی سے ملا قات کی جب وہ چلنے لگے تو شيخ نے مسکرا کر کہا :انشاء الله کل تم مجه سے اس حال ميں ملاقات کروگے کہ جب ہم روحيہ کو دفن کرینگے ۔ روحيہ ان کی وہی اکلو تی بيڻی تهی جو شادی کے گيارہ سال بعد خداوند عالم نے ان کو عطا کی تهی اور جس سے آپ کام کرتے وقت بهی جدا نہيں ہوتے تهے اب وہ جوان ہو چکی تهی اس کا نام روحيہ اس لئے رکها تها کيونکہ وہ ان کےلئے روح کی طرح تهی ۔
بنّا کہتے ہيں کہ : ہم نے اُن سے رو تے ہوئے سوال کيا کہ اس کا انتقال کب ہوا ؟شيخ نے شلبی نے کہا آج مغرب سے کچه دیر پہلے ۔ہم نے عرض کيا :تو آپ نے ہم کو کيوں نہيں بتایا تا کہ ہم دو سرے گهر سے تشيع کی جماعت کے ساته نکلتے ۔؟شيخ نے کہا : کيا ہوا ؟ہمارا رنج و غم کم ہو گيا غم خو شی ميں بدل گيا ۔کيا تم کو اس سے بڑی نعمت چا ہئے تهی ؟
گفتگو شيخ کے صوفيانہ درس ميں تبدیل ہو گئی اور وہ اپنی بيڻی کی وفات کی وجہ یہ بيان کرنے لگے کہ خداوند عالم ان کے دل پر غيرت سے کام لينا چاہتا تها کيونکہ خداوند عالم کو اپنے نيک بندوں کے دلوں کے سلسلہ ميں اسی بات سے غيرت آتی ہے کہ وہ کسی دو سرے سے وابستہ ہوں یا کسی دوسرے کی طرف متوجہ ہوں ۔انهوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کی مثال پيش کی جن کا دل اسماعيل عليہ السلام ميں لگ گيا تها تو خداوند عالم نے ان کو اسما عيل کو ذبح کرنے کا حکم دیدیا اور حضرت یعقوب عليہ السلام جن کا دل حضرت یوسف عليہ السلام ميں لگ گيا تها تو خداوند عالم نے حضرت یوسف کو کئی سال تک دور رکها اس لئے انسان کے دل کو خداوند عالم کے علاوہ کسی اور سے وابستہ نہيں ہو نا چا ہئے ورنہ وہ محبت کے دعوے ميں جهوڻا ہوگا ۔
پهر انهوں نے فضيل بن عياض کا قصہ چهيڑا جب انهوں نے اپنی بيڻی کے ہاته کا بوسہ ليا تو بيڻی نے کہا بابا کيا آپ مجهے بہت زیادہ دوست رکهتے ہيں ؟تو فضيل نے کہا : ہاں ۔بيڻی نے کہا : خدا کی قسم ميں آج سے پہلے آپ کو جهوڻا نہيں سمجهتی تهی ۔فضيل نے کہا :کيسے اور ميں نے کيوں جهوٹ بولا؟بيڻی نے کہا کہ : ميں سوچتی تهی کہ آپ خداوند عالم کے ساته اپنی اس حالت کی بنا پر خدا کے ساته کسی کو دو ست نہيں رکهتے ہوں گے ۔تو فضيل نے رو کر کہا کہ :اے ميرے مو لا اور آقا چهوڻے بچوں نے بهی تيرے بندے کی ریا کاری کوظاہر کردیا ۔ایسی باتوں کے ذریعہ شيخ شلبی ہم سے روحيہ کے غم کو دور کرنا چا ہتے تهے اور اس کی مصيبت کے دردو الم سے ہو نے والے غم کوہم سے برطرف کرنا چا ہتے تهے ہم نے ان کو خدا حافظ کہا اور اگلے دن صبح کے وقت روحيہ کو دفن کردیا گيا ہم نے گریہ و زاری کی کو ئی آواز نہ سنی بلکہ صرف صبر و تسليم و رضا کے مناظرکا مشا ہدہ کيا ۔