|
تين وسيلے
حضرت علی بن الحسين زین العابدین عليہ السلام تين چيزوں کوخداوند عالم
تک پہنچنے کا وسيلہ قرار دیتے ہيں اور الله نے ہم کو اس تک پہنچنے کےلئے وسيلے
تلاش کرنے کا حکم دیاہے ارشادخداوندعالم ہے :
( <یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْاتَّقُواْاللهَ وَابتَْغُواْاِلَيہِْ الوَْسِيلَْة>( ١
“اے ایمان والو الله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو ”
( <اُو ئِٰلکَ الَّذِینَْ یَدعُْونَْ یَبتَْغُونَْ اِ لٰ ی رَبِّهِمُ الوَْسِيلَْةَ>( ٢
“یہ جن کو خدا سمجه کر پکارتے ہيں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسيلہ
تلاش کر رہے ہيں ”
جن وسائل سے امام عليہ السلام اس سفر ميں متوسل ہوئے ہيں وہ حاجت
سوال اور محبت ہيں امام عليہ السلام کا کيا کہنا آپ دعا کی کتنی بہترین تعليم
دینے والے ہيں ۔
وہ یہ جانتے ہيں کہ اُنهيں اللهسے کياطلب کرنا چاہئے ،اور کيسے طلب کرنا
چاہئے اور الله کی رحمت کے مواقع کہاں ہيں :
پہلا وسيلہ :حاجت
حاجت بذات خودالله کی رحمت کی ایک منزل ہے بيشک خداوندعالم کریم ہے
وہ اپنی مخلوق یہاں تک کہ حيوان اور نباتات پر ان کی ضرورت کے مطابق بغير کسی
سوال کے اپنی رحمت نازل کر تا ہے اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ خداسے طلب اور
سوال نہيں کرنا چاہئے اس لئے کہ حاجت کے پہلوميں سوال اور طلب الله کی رحمت
کے دروازوں ميں سے ایک دوسرا دروازہ ہے ۔جب لوگ پياس کا احساس کر تے ہيں تو
خداوندعالم ان کو سيراب کرتا ہے جب ان کو بهوک لگتی ہے تو خداوندعالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ مائدہ آیت / ٣۵ ۔ )
٢)سورئہ اسراء آیت ۵٧ ۔ )
انکو کها نا دیتا ہے اور جب وہ برہنہ ہو تے ہيں تو خداوندعالم ان کو کپڑا عطا کر تا ہے :
( <وَاِذَامَرِضتُْ فَهُوَیَشفِْينِْ >( ١
“اور جب بيمار ہو جاتا ہوں تو وہی شفا بهی دیتا ہے ”
یہاں تک کہ اگر ان کو خداکی معرفت نہ ہو وہ یہ بهی نہ جانتے ہوں کہ کيسے
اللهسے دعا کرنا چاہئے اور اس سے کيا طلب کرنا چاہئے :
<یامَن یُعطي من سئالہ یامن یعطي من لم یساٴلہ ومَن لم یعرفہ تحنُّنامنہ
( ورحمة >( ٢
“اے وہ خدا جو اپنے تمام سائلوںکودیتا ہے اے وہ خدا جو اسے بهی دیتا ہے
جو سوال نہيں کرتاہے بلکہ اسے پہچا نتابهی نہيں ہے ”
ہم حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کی مناجات ميں الله کی رحمت
نازل کرنے کے لئے اس عمدہ اور رباّنی نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہيں :
مولايَ یامولاي انت المولیٰ واناالعبد،وهل یرحم العبدالاالمولیٰ۔ مولايَ
یامولاي انت المالک واناالمملوک،وهل یرحم المملوک الاالمالک۔ مولایَ یامولایَ انت
العزیزواناالذليل وهل یرحم الذليل الاالعزیزمولايَ یامولاي انت الخالق واناالمخلوق،وهل
یرحم المخلوق الاالخالق۔مولايَ یامولايَ انت العظيم واناالحقير،وهل یرحم
الحقيرالاالعظيم،مولايَ یامولايَ انت القوي واناالضعيف،وهل یرحم الضعيف
الاالقوی۔مولايَ یامولايَ انت الغنيّ واناالفقير،وهل یرحم الفقيرالاالغنيّ۔مولايَ
یامولايانت المعطي واناالسائل،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)شعراء آیت / ٨٠ ۔ )
٢)رجب کے مہينہ کی دعائيں ۔ )
وهل یرحم السائل الاالمعطي،مولايَ یامولاي انت الحي واناالميت،وهل یرحم الميت
الاالحي۔مولايَ یامولايَ انت الباقي واناالفاني،وهل یرحم الفاني الاالباقي مولايَ
یامولايَ انت الدائم واناالزائل،وهل یرحم الزائل الاالدائم۔مولايَ یامولاي انت الرازق
واناالمرزوق،وهل یرحم المرزوق الاالرازق۔مولايَ یامولايَ انت الجوادواناالبخيل وهل
یرحم البخيل الاالجواد۔مولايَ یامولاي انت المعافي واناالمتلیٰ،وهل یرحم المبتلیٰ
الاالمعافي۔مولايَ یامولايَ انت الکبير واناالصغير،وهل یرحم الصغيرالّاالکبير۔مولايَ
یامولايانت الهادی وانا الضال،وهل یرحم الضال الاالهادی۔مولايَ یامولايَ انت الغفوروانا
المذنب،وهل یرحم المذنب الاالغفور۔مولايَ یامولايَ انت الغالب واناالمغلوب، وهل یرحم
المغلوب الاالغالب۔مولايَ یامولايَ انت الرب واناالمربوب،وهل یرحم المربوب
الاالرب۔مولايَ یامولايَ انت المتکبرواناالخاشع،وهل یرحم الخاشع الاالمتکبر۔مولايَ
یامولاي ارحمنی برحمتک،وارض عنی بجودک و کرمک وفضلک۔ یاذاالجودوالاحسان،
والطول والامتنان>(ا)
“اے ميرے مو لا تو مو لا ہے اور ميںتيرا بندہ۔ اب بندہ پر مو لا کے علا وہ کون
رحم کرے گا۔ اے ميرے مو لا اے ميرے مالک تومالک ہے اور ميں مملوک اور مملوک
پرمالک کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مولا توعزیزہے ا ور ميں
ذليل ہوں اور ذليل پر عزیز کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا
توخالق ہے اور ميں مخلوق ہوں اور مخلوق پر خالق کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔
ميرے مو لا اے ميرے مو لا توعظيم ہے اور ميں حقير ہوں اور حقير پر عظيم کے علاوہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مفاتح الجنان اعمال مسجد کوفہ مناجت اميرالمو منين عليہ السلام ۔ )
کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا توقوی ہے اور ميں کمزور ہوں اور کمزور
پر طاقتور کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توغنی ہے اور ميں
فقير ہوں اور فقير پر غنی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا اے ميرے مو لا
تومعطی ہے اور ميں سائل ہوں اور سائل پر معطی کے علاوہ کون رحم کرے گا۔اے
ميرے مو لا ميرے مو لا تو زندہ ہے اور ميں مرنے والا ہوں اور مر نے والے پر زندہ کے
علاوہ کون رحم کرے گا ۔ ميرے مو لا ميرے مو لا تو باقی ہے اور ميں فانی ہوں اور
فانی پر باقی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ اے ميرے مو لا ميرے مو لا توہميشہ رہنے
والا ہے اور ميں مڻنے والا ہوں اور مڻنے والے پر رہنے والے کے علاوہ کون رحم کرے گا
۔ميرے مو لا ميرے مو لا تورازق ہے اور ميں محتاج رزق ہوں اور محتاج پر رازق کے علا
وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توجواد ہے اور ميں بخيل ہوں اور بخيل
پر جواد کے علاوہ کون رحم کرے گا ؟ميرے مو لااے ميرے مو لا توعافيت دینے والا ہے
اور ميں مبتلا ہوں اور درد بتلاپر عافيت دینے والے کے علاوہ کون رحم کرسکتاہے۔
ميرے مو لا اے ميرے مو لا توکبير ہے اور ميں صغيرہوں اور صغير پر کبيرکے علاوہ کون
رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توہادی ہے اور ميں گمرا ہ ہوں اور گمراہ پر
ہادی کے علاوہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا تورحمن ہے اور ميں قابل
رحم ہوں اور قابل رحم پر رحمان کے علاوہ کون رحم کرے گا۔ ميرے مو لا اے ميرے مو
لا توبادشاہ ہے اور ميں منزل امتحان ميں ہوں اور ایسے بندئہ امتحان پر بادشاہ کے
علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توراہنما ہے اور ميں سر گرداں
ہوں اور کيا سر گرداں پر راہنما کے علاوہ اور کو ن رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے
مو لا توبخشنے والا ہے اور ميں گناہگار ہوں اور گنا ہگار پر بخشنے والے کے علاوہ کون
رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توغالب ہے اور ميں مغلوب ہوں اور مغلوب پر
غالب کے علاوہ اور کو ن رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا تورب ہے اور ميں
مربوب ہوں اور پرورش پانے والے رب
کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو لا اے ميرے مو لا توصاحب کبریا ئی ہے اور
ميںبندئہ ذليل ہوں اوربندئہ ذليل پرخدائے کبير کے علا وہ کون رحم کرے گا ۔ميرے مو
لا اے ميرے مو لاتو اپنی رحمت سے مجه پر رحم فرما اور اپنے جود و کرم و فضل
سے مجه سے راضی ہو جا اے صاحب جود و احسان اور اے صاحب کرم و امتنان ”
حضرت اميرالمو منين عليہ السلام اس بہترین مناجات کے ان جملوں ميں
اللهتبارک وتعالیٰ سے اپنی حاجت اور فقرکےلئے متوسل ہوتے ہيں اور بندہ کی
حاجت اور اس کے فقرکو الله کی رحمت نازل ہونے کا موردقرار دیتے ہيں ۔
بيشک مخلوق الله کی رحمت نازل کرانا چاہتی ہے حقير عظيم کی رحمت
نازل کرانا چاہتا ہے ضعيف قوی کی فقير غنی کی مرزوق رازق کی،مبتلامعافی کی،
گمراہ ہادی کی ،گنا ہگار غفورکی ،حيران وسرگردان، دليل اور مغلوب غالب کی
رحمت کی رحمت نازل ہونے کے خواستگارہيں۔
یہ الله کی تکوینی سنتيں ہيں اور الله کی سنتوں ميں ہرگز تبدیلی نہيں
آسکتی جب حاجت اور فقر ہو گا تو ان موقفوں کےلئے الله کی رحمت اور فضل ہوگا
جس طرح پا نی نيچی جگہ پر گرتا ہے الله کی رحمت حاجت وضرورت کے مقام پر
نازل ہوتی ہے الله کریم وجوادہے اور کریم حاجت وضرورت کے مقامات کی رعایت
کرتاہے اور اپنی رحمت اس سے مخصوص کردیتا ہے ۔
حضرت امام زین العابدین عليہ السلام دعائے سحرميں جس کو آپ نے ابو
حمزہ ثمالی کو تعليم فرمایا تها ميں فرما تے ہيں :<اعطني فقري،وارحمني لضعفي>
یعنی آپ نے فقر اور ضعف کو وسيلہ قرار دیا ہے اور انهيں کے ذریعہ آپ الله
کی رحمت سے متوسّل ہو تے ہيں ۔
یہ فطری بات ہے کہ اس کلا م کو مطلق قرار دینا ممکن نہيں ہے اور ایک ہی
طریقہ ميں منحصر نہيں کيا جا سکتا ہے بيشک الله کی رحمت نازل ہونے کے
دوسرے اسباب بهی ہيں اور دوسرے موانع و رکاوڻيں بهی ہيں جن سے الله کی
رحمت نازل نہيں ہوتی اور الله کی سنتوں ميں مبتلاہونے کا سبب بهی ہيں ۔
ہمارا یہ کہنا ہے :بيشک حاجت اور فقر کی وجہ سے الله کی رحمت نازل
ہوتی ہے تو ہمارے لئے اس گفتار کو اس الٰہی نظام کے مطابق اور اس کے دائرہ
ميںرہنا چاہئے اور یہ معرفت کا وسيع باب ہے جس کو ہم اس وقت چهيڑنا نہيں
چاہتے ہيںعنقریب ہم توفيق پروردگار کے ذریعہ اس حقيقت کی مناسب یا ضروری
تشریح کریں گے ۔
ہم قرآن کریم ميں بہت سے ایسے نمونے دیکهتے ہيں جن ميں حاجت اور فقر
کو پيش کيا گيا ہے اور ان کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہوئی ہے اور اللهنے ان کو
قبوليت کے درجہ تک پہنچایا ہے حاجت بهی اُسی طرح قبول ہوتی ہے جس طرح
سے دعا اور سوال قبول ہوتے ہيں بيشک خداوندعالم کی بارگاہ ميں اپنی حاجت
پيش کرنا بهی دعا کی ایک قسم ہے ان نمو نوں کو قرآن کریم نے الله کے صالحين
بندوں کی زبانی نقل کيا ہے ۔
ا۔ عبد صالح حضرت ایوب عليہ السلام کا خداوندعالم کی بارگاہ ميں سختيوں
اور مشکلات کے وقت اپنی حاجت پيش کرنا ۔
<وَاَیُّوبَ اِذنَْاد یٰ رَبَّہُ اَنِّی مَسَنِّیَ الضُُّرُّوَاَنتَْ اَرحَْمُ الرَّاحِمِينَْ فَاستَْجَبنَْا لَہُ
فَکَشَفنَْامَابِہِ مِن ضُرٍّوَآتَينَْاہُ اَهلَْہُ وَمِثلَْهُم مَعَهُم رَحمَْةًمِن عِندِْنَاوَذِکرْ یٰ لِلعَْابدِینَْ>(ا)
“اور ایوب کو یاد کرو جب انهوں نے اپنے پروردگار کو پکاراکہ مجهے بيماری نے
چهوليا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان
کی بيماری کو دور کردیا اور انهيں ان کے اہل وعيال دیدئے اور ویسے ہی اور بهی
دیدئے کہ یہ ہماری طرف سے خاص مہربانی تهی اور یہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انبياء آیت / ٨٣ ۔ ٨۴ ۔ )
عبادت گذار بندوں کے لئے ایک یاد دہانی ہے ”
قرآن کریم اس فقرہ ميں کوئی بهی دعا نہيں کی گئی ہے جس کی قرآن
کریم نے اس امتحان دینے والے صالح بندہ کی زبانی نقل کيا ہے ليکن خداوندعالم
نے فرمایا ہے :
( <فاستجبنالہ فکشفنامابہ ضُرّ>( ١
“ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور ان کی بيماری کو دور کردیا ”
گویا حاجت اور فقر کا خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنا دعا کی ایک قسم ہے ۔
٢۔عبد صالح ذوالنون نے اپنے فقر وحاجت اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کو خدا
کی بارگاہ ميں پيش کيا جب آپ سمندرميں شکم ماہی کے گهپ اندهيرے ميں تهے:
<وَذَاالنُّونِْ اِذذَْهَبَ مُغَاضِباًفَظَنَّ اَن لَن نَّقدِْرَعَلَيہِْ فَنَا دٰی فِی الظُّلُ مٰاتِ اَن لَااِ ہٰلَ
اِلَّااَنتَْ سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ فَاستَْجَبنَْالَہُ وَنَجَّينَْاہُ مِنَ الغَْمِّ وَ کَ لٰ ذِکَ نُنجِْی
( المُْوٴمِْنِينَْ >( ٢
“ اور یونس کو یاد کرو کہ جب وہ غصہ ميں آکرچلے اور یہ خيال کيا کہ ہم ان پر
روزی تنگ نہ کریں گے اور پهر تاریکيوں ميں جاکر آوازدی کہ پروردگار تيرے علاوہ کوئی
خدا نہيں ہے تو پاک وبے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے
تهاتو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليااور انهيں غم سے نجات دلادی کہ ہم اسی طرح
صاحبان ایمان کو نجات دلاتے رہتے ہيں ”
اس طرح کی استجابت طلب کےلئے نہيں ہے یہ حاجت اور فقر کےلئے ہے
( عبد صالح ذوالنون نے اس کلمہ :<سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِينَْ >( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انبياء آیت ٨۴ ۔ )
٢)سورئہ انبياء آیت / ٨٧ ۔ ٨٨ ۔ )
٣)سورئہ انبياء آیت ٨٨ ۔ )
“ اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تها”کے علاوہ اور کچه نہيں
کہا خدوندعالم نے اس کو قبول کيا اور ان کو غم سے نجات دی :<فَاستَْجَبنَْالَہُ
( وَنَجَّينَْاہُ مِنَ الغَْمِّ>( ١
“تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليااور انهيں غم سے نجات دلادی ”
٣۔ ہم کوقرآن کریم ميں الله،موسیٰ بن عمران اور ان کے بهائی ہارون کا یہ
کلمہ بهی ملتا ہے جب انهوں نے فرعون تک اپنی رسالت کا پيغام پہنچا نے کےلئے
اللهسے دعاکی :
<اِذهَْبَااِل یٰ فِرعَْونَْ اِنَّہُ طَغ یٰ فَقُولَْالَہُ قَولًْالَيِّناًلَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُاَویَْخ شْٰی قَالَارَبَّنَااِنَّنَانَخَافُ
( اَن یَّفرُْطَ عَلَينَْااَواَْن یَّط غْٰی >( ٢
“تم دونوں فر عون کی طرف جا ؤ کہ وہ سر کش ہو گيا ہے ،اس سے نر می
سے بات کر نا شاید وہ نصيحت قبول کر لے یا خو فزدہ ہو جا ئے ،ان دونوں نے کہا کہ
پر ور دگار ہميں یہ خوف ہے کہ کہيں وہہم پر زیا دتی نہ کرے یا اور سر کش نہ ہو جا
ئے ”
ان دونوں نے اللهسے فرعون اور اس کی بادشاہت کے مقابلہ ميں خداسے
اپنی حمایت اور مدد کی درخواست نہيں کی اور نہ ہی اپنی ضرورت کےلئے امن
وامان کی درخواست کی ہے بلکہ انهوں نے اپنی کمزوری، فرعون کی عوام الناس پر
گرفت ،فرعون کی طاقت اور اس کی سرکشی کا تذکرہ کيا:
<اِنَّنَانَخَافُ اَن یَّفرُْطَ عَلَينَْااَواَْن یَّط غْٰیٰ >
“ان دونوں نے کہا کہ پر ور دگار ہميں یہ خوف ہے کہ کہيں وہ ہم پر زیا دتی نہ
کرے یاوہ سر کش نہ ہو جا ئے ”
اللهنے ان کی اس درخواست کو مستجاب کرتے ہوئے ان کی حمایت اور تائيد
ميں فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انبياء آیت ٨٧ ۔ )
٢)سورئہ طہ آیت ۴٣ ۔ ۴۵ ۔ )
( <قَالَ لَاتَخَافَااِنَّنِی مَعَکُمَااَسمَْعُ وَاَر یٰ>( ١
“ارشاد ہوا تم ڈرو نہيں ميں تمہارے ساته ہوں سب کچه سن بهی رہا ہوں اور
دیکه بهی رہا ہوں”
۴۔چوتها نمونہ عبد صالح حضرت نوح عليہ السلام کا وہ کلمہ ہے جو آپ نے
اپنے بيڻے کوطوفان ميں غرق ہونے سے بچانے کی خاطر الله کی بارگاہ ميں پيش
کياتها :
<وَنَادَ یٰ نُوحُْ رَبَّہُ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابنِْی مِن اَهلِْی وَ اِنَّ وَعَدَ کَ الحَْقُّ وَاَنتَْ اَحکَْمُ
( الحَْاکِمِينَْ >( ٢
“اور نوح نے اپنے پروردگارکو پکاراکہ پروردگارميرا فرزندميرے اہل ميں سے ہے
اور تيرا وعدہ اہل کو بچانے کا برحق ہے اور تو بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ”
بہر حال حاجت اور فقرکے وقت بهی الله کی رحمت نازل ہوتی ہے یہاں تک کہ
حيوانات اورنباتات کی ضرورتوں اور فقر کےلئے بهی الله کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔
جب پياس لگتی ہے توالله ان کو سيراب کرتا ہے اور جب بهوک لگتی ہے تو
اللهان کو سيرکرتا ہے اور کهانا کهلاتا ہے یہ معرفت کا بہت وسيع وعریض باب ہے اور
ہم اس کے ایک پہلو کو رحاب القرآن کے سلسلہ کی کتاب <شرح الصدر >ميں بيان
کر چکے ہيں ۔
دوسرا وسيلہ :دعا
یہ الله کی رحمت کی کنجيوں ميں سے ایک کنجی ہے
خداوندعالم فرماتا ہے :
( <ادعونی استجب لکم>( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ طہ آیت / ۴۶ ۔ )
٢)سورئہ ہودآیت/ ۴۵ ۔ )
٣)سورئہ غافر آیت ۶٠ ۔ )
“مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا”
( اور خدا کا فرمان ہے:<قُل مَایَعبَْوٴُابِکُم رَبِّي لَولَْادُعَاوٴُکُم >( ١
“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا ئيں نہ ہو تيں تو پرور دگار تمہاری
پروا ہ بهی نہ کرتا ”
تيسرا وسيلہ :محبت
بيشک بندہ محبت کے ذریعہ الله کی رحمت نازل کراتاہے جو کسی دوسرے
امرکے ذریعہ نازل نہيں ہوتی ہے
اب ہم ان تينوں وسيلوں کے سلسلہ ميں تفکر کرتے ہيں جن کو امام نے
خداوندعالم تک رسائی کےلئے اپنا وسيلہ قراردیا ہے ۔
<رِضَاکَ بُغيَْتِي وَرُوٴْ یَتِکَ حَاجَتي ۔۔۔وَعِندَْکَ دَوَاءُ عِلَّتِي وَشِفَاءُ غُلَّتِي وَبَردُْلَوعَْتِي ( وَکَشفُْ کُربَْتِي>ْ( ٢
“تيری ہی رضا ميرا آرزو ہے اور تيراہی دیدار ميری حا جت ہے اور تےرا ہی
ہمسایہ ميرا مظلوب ہے تيرے پاس ميرے مرض کی دواہے اور ميری تشنگی کا علاج
ہے غم کی بے قراری کی ڻهنڈک، رنج و غم کی دوری تيرے ہی ذمہ ہے ”یہ وسيلہ ٴ
حاجت وفقر ہے ۔
<جوارک طلبي وقربک غایة سوٴ لي۔۔۔ فکن انيسي في وحشتي ومقيل
عثرتي وغافرزلّتي وقابل توبتي،ومجيب دعوتي ،وولي عصمتي ومغني فاقتي >
“ اور تےرا ہی ہمسایہ ميرا مظلوب ہے اور تيرا قرب ميرے سوالات کی انتہا ہے
۔۔۔پس تو ميری وحشت ميں ميرا انيس، ہوجا لغزشوں ميں سنبهالنے والا خطاؤںکو
معاف کرنے والا اور ميری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ فرقان آیت ٧٧ ۔ )
٢)مناجات مریدین )
توبہ کوقبول کرنے والا ،ميری دعا کاقبول کرنے والا ،ميری حفاظت کا ذمہ داراور فاقہ
ميں غنی بنانے والاہے ”یہ وسيلہ دعا ہے ۔
<فانت لاغيرک مرادي،ولک لالسواک سهري وسهادي،ولقاء ک قرّة عيني
ووصلک منیٰ نفسي واليک شوقي ،وفی محبّتک ولهي والی هواک صبابتي>
“فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتاہوں کسی اور کے
لئے نہيں ۔ اور تيری ملاقات ميری آنکهوں کی ڻهنڈک ہے اور تيرا وصال ميرے نفس
کی اميد ہے اورتيری جانب ميرا شوق ہے اور تيری ہی محبت ميں ميری بيقراری ہے
تيری ہی خواہش کی طرف ميری توجہ ہے ”یہ وسيلہ محبت ہے۔
اب ہم امام کے کلام کے اس فقرہ کے بارے ميں غوروفکر کرتے ہيں اور یہ دعا
کا عمدہ جملہ ہے بيشک فن اور ادب کے مانند دعا کے عمد ہ وبہترین درجہ ہيں امام
عليہ السلام فرماتے ہيں:
<فقدانقطعت اليک همتي وانصرفت نحوک رغبتي،فانت لاغيرک مرادی،ولک
لاسواک سهری وسها دی ولقا ء ک قرہ عينی>
“اس لئے کہ ميری ہمت تيری ہی طرف ہے اور ميری رغبت تيری ہی بارگاہ
کی طرف ہے فقط تو ميری مراد ہے اور تيرے ہی لئے ميں راتوں کو جاگتا ہوںکسی
اور کے لئے نہيںتيری ملاقات ميری آنکهوں کی ڻنهڈک ہے ”
جو چيز“انقطاع ”ميں ہے وہ “تعلق”ميں نہيں ہے امام عليہ السلام نے فرمایا
ہے:
<فقدتعلقت بک همتي>نہيں فرمایا ہے بيشک الله سے لولگانا دوسروں سے
لولگانے کو منع نہيں کرتا ہے ۔جب بندہ خدا سے لولگانے ميں صادق ہے اور یہ کہتا
ہے :
<فقدانقطعت اليک همتي>بيشک “انقطاع”ایجابی اور سلبی دونوں معنی کا
متضمن ہے ۔ پس انقطاع“من الخلق الی الله”،انقطاع“الی الله”اس جملہ کے ایجابی
معنی ہيں جن کاامام نے قصد فرمایا ہے۔
بيشک محبت ميں اخلاص فصل اور وصل ہے فصل یعنی الله کے علاوہ
دوسروں سے فاصلہ و دوری اختيار کرنا ،الله اورا لله نے جن کی محبت کا حکم دیا ہے
ان سے وصل (ملنا)ہے اور یہ دونوں ایک قضيہ کے دو رخ ہيں۔
جب محبت خالص اور پاک وصاف ہوتی ہے تو وہ دو باتوں کی متضمن ہوتی
ہے:محبت و برائت ،اور وصل وفصل وانقطاع من الخلق “الی الله”ہے۔
یہی معنی دوسرے جملے “وانصرفت اليک رغبتی”کے بهی ہيں۔
انصراف الی الله سے “اعراض ”اور “اقبال”دونوں مراد ہيں ۔اعراض یعنی الله کے
علاوہ دوسروں سے روگردانی کرنا اور “اقبال ”سے مراد الله ا ور الله نے جس سے
محبت کرنے کا حکم دیا ہے ان کی بارگاہ ميں حاضر ہونا ہے ۔
پهراس حقيقت کےلئے تيسری تاکيد جو ان سب ميں بليغ ہے ،اس ميں
محبت اور انصراف الی الله کے معنی کو شامل ہے اور خدا کے علاوہ دوسروں سے
منقطع ہونا ہے:
<فانت لاغيرک مرادي ولک لالسواک سهوي وسهادي>
“سهو”اور“ سهاد ”نيند کے برعکس ہيں سہر یعنی محبت کی وجہ سے رات
ميں نماز یںپڑهنا ۔ سهاد:بيداری کی ایک قسم ہے اور یہ حالت انسان کو اپنے کسی
اہم کام ميں مشغول ہونے کے وقت پيش آتی ہے جس سے اس کی نيند اڑجاتی
ہے اور انسان الله سے لولگانے کا مشتاق ہوتا ہے۔
یہ دونوں محبت کی حالتےں ایک دوسرے کے مثل ہيں :انس اور شوق ۔بندہ
کا الله کے ذکر سے مانوس ہونا ،اور الله کا بندہ کے پاس اس طرح حاضر ہونا کہ بندہ
اپنی دعا،ذکر، مناجات اور نماز ميں خدا کے حاضر ہونے کا احساس کرتا ہے اور الله
سے ملاقات کا مشتاق ہوتا ہے۔
محب الله کی بارگاہ ميں ان دونوں باتوں کو سمجه کر حاضر ہوتا ہے تو یہ
دونوں حالتےں اسکی نيند اڑا دیتی ہيں اس کوبيدار کر دیتی ہيں جب لوگ گہری نيند
ميں سوجاتے ہيں اور نيند کی وجہ سے اپنے احساس بيداری اور شعور کو کهو
بيڻهتے ہيں ۔
بيشک نيند ایک ضرورت ہے تمام لوگ اس سے اپنا حصہ اخذ کرتے ہيں جس
طرح وہ کهانے پينے سے اپنی ضرورتےں پوری کرتے ہيں چاہے وہ لوگ صالح و نيک
ہوں یا برے ہوں ۔یہاں تک کہ انبياء اور صدیقين بهی سوتے تهے۔
ليکن ایک شخص جوضرورت بهر سوتا ہے جس طرح وہ کهانے پينے سے اپنی
ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص نيند کے سامنے سر تسليم خم کردیتا ہے اور
نيند اس پر غالب آجاتی ہے ان دونوں آدميوں کے درميان فرق ہے۔
اولياء الله نيند کے سامنے سر تسليم خم نہيں کرتے ہيںبيشک نيند ان کی
ضرورت ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے اپنا حصہ اخذ کرتے ہيں ۔رسول
الله (ص)بهی خداوند عالم کی بارگاہ ميں حاضر ہونے کے بعد ہی سوتے تهے اور آپ
کا فرمان تها کہ ميرے سر کے پاس وضو کاپانی رکه دیناتاکہ ميں خدا کی بارگاہ ميں
حاضری دے سکوں۔
جب آپ کےلئے نرم اور آرام وہ بستر بچهایا جاتا تها تو آپ اسکو اڻهانے کا حکم
دیدتے تهے اس لئے کہ کہيں ان پر نيندغالب نہ آجائے ۔
آپ سخت چڻائی پر آرام فرماتے تهے یہاں تا کہ چڻائی ان کے پہلوپر اثر انداز
ہو اور آپ پر نيند غالب نہ آجائے۔
خداوند عالم نے رات ميں مناجات ،ذکر اور اپنے تقرب کے وہ خزانے قرار دئے
ہيں جو دن ميں نہيں قرار دئے ہيں۔ان کی طرح رات کے لئے بهی افراد ہيں جو رات
ميں نماز ےں پڑهتے ہيں جب لوگ سوجاتے ہيں ،جب لوگ سستی ميں پڑے رہتے
ہيں تو یہ ہشاش بشاش ہو تے ہيں۔ جب لوگ اپنے بستروں پر گہری نيند ميں سوئے
رہتے ہيں۔تو یہ الله سے ملاقات کرکے عروج پر پہنچتے ہيں ۔
رات کےلئے بهی دولت ہے جس طرح دن کےلئے دولت ہے ،رات ميں بهی دن
کی طرح خزانے ہيں۔عوام الناس دن کی دولت ،اسکے خزانے کو پہچانتے ہيں ليکن
بہت کم لوگ ہيں جو رات کی دولت اور اسکے خزانے کی قيمت سے واقف ہيں اور
جب انسان رات اور دن کی دولت سے ایک ساته بہرہ مند ہوتا ہے تو اسے انصاف
پسند،متوازن اور راشد کہاجاتا ہے ۔
رسول الله ایک ساته دونوں سے بہرہ مندہوتے تهے اور بالکل متوازن طورپر
دونوں کو اخذ کئے ہوئے تهے ۔آپ نے رات سے محبت،اخلاص اور ذکر اخذ کيااور دن
سے طاقت، حکومت اور مال اخذ کيا تاکہ دین کی دعوت اور اسکے محکم ومضبوط
ہونے پر متمکن ہوجائيں اور رات ميں آپ معين وقت پر عبادت کيلئے اڻهتے تهے اور
رسالت جيسے ثقيل وسنگين عہدے کو اڻهانے پر متمکن تهے:
<یَااَیُّهَاالمُْزِّ مِّل قُمِ اللَّيلَْ اِلَّاقَلِيلْاً نِصفَْہُ اَوِنقُْص مِنہُْ قَلِيلْاً اَوزِْد عَلَيہِْ وَرَتِّلِ القُْرآْنَ
تَرتِْيلْاً اِنَّاسَنُلقِْی عَلَيکَْ قَولْاًثَقِيلْاً اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيلِْ هِیَ اَشَدُّوَطاًْوَّاَقوَْمُ قِيلْاً اِنَّ لَکَ فِی
( النَّهَارِ سَبحْاً طَوِیلْاً>( ١
“اے ميرے چادر لپيڻنے والے رات کو اڻهو مگر ذرا کم آدهی رات یا اس سے
بهی کچه کم کردو یا کچه زیادہ کرو اور قرآن کو ڻهہر ڻهہر کر با قا عدہ پڑهو ہم
عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگين حکم نا زل کرنے والے ہيں بيشک رات کا اڻهنا نفس
کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے یقيناً آپ کے لئے دن ميں
بہت سے مشغوليات ہيں ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ مزمل آیت / ١۔ ٧۔ )
اور ہمارے لئے اس مقام پر رات اور اسکے رجال کے سلسلہ ميں حدیث
قدسی سے ایک روایت کا نقل کرنا بہتر ہے۔
روایت ميں آیا ہے کہ خداوند عالم نے بعض صدیقين پر وحی نازل کی ہے:
انلي عبادمن عبادي یحبّونی فاحبّهم ویشتاقون الی واشتاق اليهم و
یذکروني واذکرهم وینظرون اليَّ وانظراليهم وان حذوت طریقهم احببتُک وان عدلت
منهم مقتّک قال:یاربّ وماعلا متهم ؟قال:یراعون الظلال بالنهارکمایراعي الراعي
الشفيق غنمہ،ویحنّون الیٰ غروب الشمس کمایحنّ الطيرالیٰ وکرہ عند
الغروب،فاذاجنّهم الليل واختلط الظلام ،وفرشت الفرش،ونصبت الا سرة وخلا کلّ حبيب
بحبيبہ نصبوااليّ اقدامهم وافترشواليّ وجوههم،وناجونی بکلامي،وعلقوااليّ بانغامي
فمن صارخ وباک ،وَمتاٴوَّہٍ شاکٍ،ومن قائم وقاعد وراکع وساجد بعيني مایتحملون من
اجلي،وبسمعي مایشکون من حبّي اول مااعطيهم ثلاث:
١۔اٴَقذف من نوري في قلوبهم فيخبرون عنّي کمااخبرعنهم۔
٢۔والثانية:لوکانت السماوات والارض فی موازینهم لاستقللتهالهم۔
٣۔والثالثة:اُقبل بوجهي اليهم،افتریٰ من اقبلت بوجهی عليہ یعلم احد
( مااریداعطيہ؟>( ١
“ميرے کچه بندے مجه سے محبت کرتے ہيں اور ميں ان سے محبت کرتا ہوں
،وہ ميرے مشتاق ہيں اور ميں ان کا مشتاق ہوں وہ ميرا ذکر کرتے ہيں ميں ان ذکر
کرتا ہوں وہ مجهے دیکهتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)لقاء الله ص ٠۴ ا۔ )
ہيں اور ميں ان کو دیکهتا ہوں اگر تم بهی انهيں کا طریقہ اپناؤ گے تو ميں تم سے
بهی محبت کرونگا اور اگر اس سے رو گردانی کروگے تو تم سے ناراض ہو جاؤنگا
۔سوال کيا گيا پروردگار عالم ان کی پہچان کيا ہے؟ آواز آئی کہ وہ دن ميں اپنے سایہ
تک کی اس طرح مراعات کرتے ہيں کہ جيسے کو ئی مہربان چوپان اپنے گلّہ کی ،اور
وہ غروب شمس کے اسی طرح مشتاق رہتے ہيں جيسے پرندہ غروب کے وقت اپنے
آشيانہ ميں پہنچنے کے مشتاق رہتے ہيں پس جب رات ہو تی ہے اور ہر طرف اندهيرا
چها جاتا ہے بستر بچه جاتے ہيں پلنگ بچهادئے جا تے ہيں ہر حبيب اپنے محبوب کے
پاس خلوت ميں چلا جاتا ہے تو وہ اپنے قدم ميری طرف بڑها دیتے ہيں ميری طرف
اپنے رخ کر ليتے ہيں ميرے کلام کے ذریعہ مجه سے مناجات کرتے ہيں نيز منظوم
کلام کے ذریعہ ميری طرف متوجہ ہو جاتے ہيں تو کتنے ہيں جو چيخ چيخ کر روتے ہيں
،کتنے ہيں جو آہ اور شکوہ کرتے ہيں ،کتنے ہيں جو کهڑے رہتے ہيں ،کتنے ہيں جو
بيڻهے رہتے ہيں ،رکوع کرتے رہتے ہيں سجدہ کرتے رہتے ہيں ميں دیکهنا چا ہتا ہوں
کہ وہ ميری خاطر کيا کيا برداشت کرتے رہتے ہيں ميں سنتا رہتا ہوں جو وہ ميری
ميری محبت کی خاطر پيش آنے والی مشکلات کا شکوہ کرتے ہيں ميں سب سے
پہلے ان کو تين چيزیں عطا کرونگا :
١۔ميں ان کے دلوں ميں اپنا نور ڈال دونگا تو وہ ميرے بارے ميں اسی طرح
بتائيں گے جيسے ميں ان کے با رے ميں بتا ؤنگا ۔
٢۔اگر آسمان و زمين ان کی ترازؤوں ميں ہو تو ميں ان کے لئے آسمان و زمين
کا وزن بهی کم کر دونگا۔
٣۔ميں ان کی طرف توجہ کرونگا اور جس کی طرف ميں اپنا رخ کرلوں تو کسی
کو کيا معلوم ميں اسے کيا دیدونگا ”
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے:
<کان ممااوحیٰ الله تعالی الی موسی بن عمران:کذّب مَن زعم انہ یحبّني
فاذاجنّہ الليل نام عنّي،یابن عمران،لوراٴیت الذین یقومون لي في الدجیٰ وقد مثلت
نفسيبين اعينهم،یخاطبوني وقدجللت عن المشاهدة،ویکلموني وقد عززت عن
الحضور۔یابن عمران،هب لي من عينک الدموع،ومن قلبک الخشوع،ثم ادعني في
( ظلمة اللَّيالي تجدني قریبامجيبا>( ١
“خداوند عالم نے حضرت مو سیٰ بن عمران سے کہا کہ :جو شخص رات ميں
مجه سے راز و نياز نہيں کرتا وہ ميرا محب نہيں ،فرزند عمران اگر تم ان افراد کو
دیکهوگے کہ جو تاریکی ٴ شب ميں ميری بارگاہ ميں آتے ہيں اور ميں ان کی آنکهوں
کے سامنے ہوتا ہوں تووہ مجه سے مخاطب ہوتے ہيں جبکہ ميں نظر نہيں آتا ہوں تو
وہ مجه سے کلام کرتے ہيں حالانکہ ميں ان کے سامنے حاضر نہيں ہوتا ،اے فرزند
عمران اپنی آنکهوں سے اشک گریاں اور دل سے خشوع مجهے ہدیہ کرو پهر مجهے
تا ریکی ٴ شب ميں پکارو تو مجهے اپنے قریب اور اپنی دعا کا قبول کرنے والا پاؤگے ”
نہج البلاغہ کے خطبہ متقين ميں امير المومنين علی بن ابی طالب رات کی
تاریکی ميں مناجات کرنے والے اولياء الله کی پر وردگار عالم کی بارگاہ ميں حاضری
کے حالات کی اس طرح عکاسی فرماتے ہيں:
<امااللَّيلُْ فَصَافُّونَْ اَقدَْامَهُم،ْتَالِينَْ لاجزَْاءِ القُْرآْنِ یُرَتِّلُونَهَاتَرتِْيلْاً، یُحَزِّنُونُْ بِہِ
اَنفُْسَهُم وَیَستَْثِيرُْونَْ بِہِ دَوَاءَ دَائِهِم فَاِذَامَرُّواْبِآیَةٍ فِيهَْاتَشوِْیقٌْ رَکَنُواْاِلَيهَْا طَمَعاًوَتَظَلَّعَت نُفُوسُْهُم اِلَيهَْاشَوقْاًوَظَنُّواْاَنَّهَانُصُبُ اَعيُْنِهِم وَاِذَامَرُّوابِآیَةٍ فِيهَْا تَخوِْیفٌْ اَصغَْواْاِلَيهَْامَسَامِعَ
قُلُوبِْهِم وَظَنُّواْاَنَّ زَفِيرَْجَهَنَّمَ وَشَهِيقَْهَافِي اُصُولِْ ذَٰاانِهِم فَهُم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)لقاء الله صفحہ/ ٠ا۔ )
حَانُونَْ عَل یٰ اَوسَْاطِهِم مُفتَْرِشُونَْ لِجِبَاهِهِم وَاَکُفِّهِم وَرُکَبِهِم وَاَطرَْافِ اَقدَْامِهِم یَطَلِّبُونَْ
ال یٰ اللہِّٰ تَعَال یٰ فِي فِکَاکِ رِقَابِهِم ۔
( وَاَمَّاالنَّهَارُفَحُلَمَاءُ عُلَمَاءُ قَد بَرَاهُمُ الخَْوفُْ بَریَْ القِْدَاحِ ۔۔۔>( ١
“رات ہو تی ہے تو اپنے پيروں پر کهڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ڻهہر ڻهہر کر
تلا وت کرتے ہيں جس سے اپنے دلوں ميں غم و اندوہ تا زہ کرتے ہيں اور اپنے مر ض
کا چارہ ڈهونڈهتے ہيں جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس ميں
جنت کی تر غيب دلا ئی گئی ہو ،تو اس کی طمع ميں ادهر جهک پڑتے ہيں اور اس
کے اشتياق ميں ان کے دل بے تابانہ کهينچتے ہيں اور یہ خيال کر تے ہيں کہ وہ (پر
کيف )منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر
پڑتی ہے جس ميں (جہنم سے )ڈرایا گيا ہو تو اس کی جا نب دل کے کا نوں کو جهکا
دیتے ہيں اور یہ گمان کرتے ہيں کہ دوزخ کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چيخ پکار اُن
کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے ،وہ (رکوع )اپنی کمریںجهکا ئے اور (سجدہ ميں
)اپنی پيشانياں ہتهيلياں گهڻنے اور پيروں کے کنا رے (انگوڻهے) زمين پر بچها ئے ہو
ئے الله سے گلو خلا صی کے لئے التجائيں کرتے ہيں ۔
دن ہوتا ہے تو وہ دانشمند عالم ،نيکوکار اور پرہيز گار نظر آتے ہيں ۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)نہج البلاغہ خطبہ ٣٠٣ ۔ )
|
|