مومنين کے ساته ملاوٹ کرنے سے الله کاغضب نازل ہوتا ہے
اس موضوع سے جو چيز متعلق ہو تی ہے اور دعا وصاحب دعا کے درميان
حائل ہو تی ہے وہ مومنين کيلئے فریب ودهو کہ کا مخفی رکهنا ہے ۔
حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :
<من بات وفی قلبہ غش لاٴخيہ المسلم بات فی سخط اللّٰہ ،واصبح کذلک
( وهوفی سخط اللّٰہ حتّیٰ یتوب ویرجع،واین مات کذلک مات علی غيردین الاسلام>( ١
“جو ساری رات عبادت ميں بسر کرے اور وہ اپنے دل ميں ایسا اردہ کرے جس
کے ذریعہ مومن بهائی فریب کها جائيں تو وہ پوری رات الله کے غضب و ناراضگی ميں
بسر کرتا ہے اور یہی اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)الوسائل جلد ٢۵ صفحہ ٢٠۴ ۔ )
کے بعد والے دن کا حال ہے یعنی الله کے غضب ميں پورا دن گزارتا ہے یہاں تک کہ وہ
الله سے توبہ کرے اور اپنی اصلی حالت پر آجا ئے اور اگر وہ اسی کينہ و بغض کی
حالت ميں مر جائے تو وہ دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر مرے گا ”
مومنين سے سو ء ظن قبوليت عمل کی راہ ميں رکاوٹ
جس طرح سے باطن ميں برائی چهپائے رکهنے کی وجہ سے عمل خداوند
عالم تک نہيں پہنچتاہے
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :
<لایقبل اللّٰہ من موٴمن عملاًوهومضمرعلیٰ اخيہ الموٴمن سوء اً>
“الله تبار ک وتعالیٰ اس مومن کے عمل کو قبول نہيں کرتا جو اپنے مومن
بهائی سے اپنے دل ميں برائی رکهے ہوئے ہو ”
خداوندعالم مومنين سے بغض رکهنے والوں پر اپنا کر م نہيں فرماتا
حضرت امير المو منين عليہ السلام حضرت رسول خدا (ص)سے نقل فرما تے
ہيں :
<شرارالناس مَن یبغض الموٴمنين وتبغضہ قلوبهم،المشّاوٴون بالنميمة
( المفرقون بين الاٴحبة،اُولئک لاینظراللّٰہ اليهم،ولایزکّيهم یوم القيامة>( ١
“لوگوں ميں سب سے شریر لوگ وہ ہيں جو اپنے مو من برادرا ن سے بغض
رکهتے ہيں اور مسلسل چغلی کرتے رہتے ہيں دوستوں کے درميان تفرقہ ڈالتے
ہيںخداوند عالم قيامت کے دن ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہيں دیکهے گا ”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)وسائل جلد ٢۵ صفحہ / ٢٠۴ ۔ )
اہل بيت عليہم السلام کی دعاؤں ميں حبّ خدا الله سے لو لگا نا
<قُل اِن کَانَ آبَاءُ کُم وَاَبنَْاوٴُکُم وَاِخوَْانُکُم وَاَزوَْاجُکُم وَعَشِيرَْتُکُم وَاَموَْالٌ
اقتَْرَفتُْمُوهَْاوَتِجَارَةً تَخشَْونَْ کَ سٰادَ هٰاوَمَ سٰاکِنَ تَرضَْونَْ هٰااَحَبُّ اِلَيکُْم مِنَ اللهِ وَرَسُولِْہِ وجِ هٰادٍ
( فِی سَبِيلِْہِ فَتَرَبَّصُواْحَتّ یٰ یَاٴتِیَ اللهُ بِاٴَمرِْہِ وَاللهُ یٰ لاَهدِْی القَْومَْ الفَْاسِقِينَْ>( ١
“پيغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا ،اولاد ،برادرن ،ازواج ،عشيرہ
وقبيلہ اور وہ اموال حنهيں تم نے جمع کيا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی
طرف سے فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جنهيں پسند کرتے ہو تمہاری نگا ہ ميں الله
،اس کے رسول اور راہ خدا ميں جہاد سے زیادہ محبوب ہيں تو وقت کا انتظار کرو یہاں
تک کہ امر الٰہی آجا ئے اور الله فاسق قوم کی ہدایت نہيں کرتا ہے ”
صحيح صورت ميںخداوندعالم سے ایک دوسرے سے ہما ہنگ اور تمام سازگار
عناصر کے ذریعہ ہی لولگا ئی جاسکتی ہے اوریہی چند چيزیں مجمو عی طور پر الله
سے لولگا نے کے صحيح طریقہ معين کرتی ہيں ۔
اسلامی روایات ميں ایک ہی عنصر جيسے خوف یا رجاء (اميد )یا محبت یا
خشوع کی بنياد پر الله سے لولگا نے کو منع کيا گيا ہے ۔جو عناصر خداوندعالم سے
مجموعی اور وسيعی طور پر رابطہ کو تشکيل دیتے ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ توبہ آیت/ ٢۴ ۔ )
ان کا آیات، روایات اور دعاؤں ميں تفصيلی طور پر ذکر کيا گيا ہے جيسے اميد، خوف،
تضرع، خشوع، تذلل، ترس،محبت، شوق، اُنس، انا بہ، ایک دوسرے سے کنارہ
کشی، استغفار، استعاذ ہ، استرحام، انقطاع، تمجيد، حمد، رغبت رهبت، طاعت
،عبودیت، ذکر،فقراور اعتصام ہيں ۔
حضرت امام زین العا بدین بن حسين عليہ السلام سے دعا ميں وارد ہو اہے :
<اللّهم اني اسالک انْ تملا قلبی حباًوخشيةمنک وتصدیقاًلک وایمانابک
( وفرقاًمنک وشوقاً اليک>( ١
“پرور دگارا ! ميں تيری بارگاہ ميں دست بہ دعا ہوں کہ ميرے دل کو اپنی
محبت سے لبریز فر مادے ،ميں تجه سے خوف کها ؤں ،تيری تصدیق کروں ،تجه پر
ایمان رکهوں اور تجه سے فرق کروں اور تيری طرف شوق سے رغبت کروں ”
ان تمام عناصرکے ذریعہ خداوندعالم سے خاص طریقہ سے لو لگا ئی جاتی
ہے اور ان عنصروں ميں سے ہر عنصر الله کی رحمت اور معرفت کے ابواب ميں سے
ہر باب کيلئے ایک کنجی ہے ۔
استر حام الله کی رحمت کی کنجی ہے اور استغفار مغفرت کی کنجی ہے ۔
ان عنصروں ميں سے ہر عنصر بذات خود اللهسے لولگا نے کا ایک طریقہ ہے
شوق محبت اور انسيت اللهتک پہنچنے کا ایک طریقہ ہے ،خوف اور رهبت اللهتک
پہنچنے کا دوسرا طریقہ ہے خشوع اللهتک پہنچنے کاتيسرا طریقہ ہے ۔دعا اور تمنا
اللهتک رسائی کا ایک اورطریقہ ہے ۔
انسان کيلئے الله تک رسائی کی خاطر مختلف طریقوں سے حرکت کرنا
ضروری ہے اس کو ایک ہی طریقہ پر اکتفا ء نہيں کرنا چاہئے کيو نکہ ہر طریقہ کا ایک
خاص ذوق کمال اور ثمر ہوتا ہے جو دوسرے طریقہ ميں نہيں پایاجاتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحا رالانوار جلد ٩٨ صفحہ ٩٢ ۔ )
اس بنياد پر اسلام اللهتک رسائی کے متعدد طریقوں کو بيان کرتاہے یہ ایک
وسيع بحث ہے جس کو ہم اِس وقت بيان کر نے سے قاصر ہيں ۔
الله کی محبت
الله تعالیٰ کی محبت ان تمام عناصر سے افضل اور قوی ترہے ،یہ انسان کو
اللهسے لولگا نے کيلئے آمادہ کرتی ہے اور اللهسے اس کے رابطہ کو محکم ومضبوط
کرتی ہے ۔
محبت کے علاوہ کسی اور طریقہ ميں اتنا محکم اور بليغ رابطہ خدا اور بندے
کے درميان نہيں پایا جاتا ہے خدا وند عالم سے یہ رابطہ اسلامی روایات ميں بيان ہوا
ہے جن ميں سے ہم بعض روایات کا تذکرہ کررہے ہيں :
روایات ميں آیا ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت داؤ دکی طرف وحی کی :
<یاداود ذکري للذاکرین وجنتي للمطيعين وحبي للمشتاقين وانا خاصة
( للمحبين>( ١
“اے داوٴد ذاکرین کےلئے ميرا ذکر کرو ،ميری جنت اطاعت کرنے والوں کےلئے
ہے اور ميری محبت مشتاقين کےلئے ہے اور ميں محبت کرنے والوں کےلئے مخصوص
ہوں ”
امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
<الحبّ افضل من الخوف >
( “محبت ،خوف سے افضل ہے ”( ٢
محمد بن یعقوب کلينی نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل
کيا ہے :
<العبّاد ثلا ثة:قوم عبدوا اللّٰہ عزّوجلّ خوفاًفتلک عبادة العبيد،وقوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحا الانوار جلد ٩٨ صفحہ ٢٢۶ ۔ )
٢)بحار الا نوار جلد ٧٨ ۔صفحہ ٢٢۶ ۔ )
عبدوا اللّٰہ تبارک وتعالیٰ طلب الثواب،فتلک عبادة التجار،وقوم عبدوا اللّٰہ عزّوجلّ
( حبّاً،فتلک عبادةالاحرار،وهي افضل عبادة>( ١
“عبادت تين طرح سے کی جاتی ہے یا عبادت کرنے والے تين طریقہ سے
عبادت کر تے ہيں ایک قوم نے الله کے خوف سے عبادت کی جس کو غلاموں کی
عبادت کہاجاتا ہے ،ایک قوم نے اللهتبارک وتعا لیٰ کی طلب ثواب کی خاطر عبادت
کی جس کو تاجروں کی عبادت کہاجاتا ہے اور ایک قوم نے اللهعزوجل سے محبت
کی خاطر عبادت کی جس کو احرار(آزاد لوگوں) کی عبادت کہاجاتاہے اور یہی سب
سے افضل عبادت ہے”۔
جناب کلينی نے رسول اسلام (ص)سے نقل کيا ہے :
<افضل الناس مَن عشق العبادة،فعانقها،واحبّهابقلبہ،وباشرهابجسدہ، وتفرّغ
( لها،فهولایبالي علیٰ مااصبح من الدنيا علی عسراٴم یسر >( ٢
“لوگوں ميں سب سے افضل شخص وہ ہے جس نے عبادت سے عشق کر
تے ہوئے اس سے معانقہ کيا ،اس کو اپنے دل سے دوست رکهااور اپنے اعضاء و
جوارح سے اس سے وابستہ رہے ، اس کو پرواہ نہيں رہتی کہ اس کا اگلا دن خوشی
سے گزرے گا یا غم کے ساته گذرے گا ”
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :
“نجویٰ العارفين تدورعلیٰ ثلاثة اصول:الخوف،والرجاء والحبّ۔فالخوف فرع
العلم،والرجاء فرع اليقين،والحبّ فرع المعرفة۔فدليل الخوف الهرب،ودليل الرجاء
الطلب،ودليل الحبّ ایثارالمحبوب،علیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٨۴ ۔ )
٢) اصول کافی جلد ٢صفحہ ٢٨٣ ۔ )
ماسواہ۔فاذا تحقق العلم فی الصدرخاف،واذاصحّ الخوف ہرب،واذاهرب نجاواذا اشرق
نوراليقين فی القلب شاهد الفضل واذاتمکن من روٴیة الفضل رجا، واذا وجد حلاوة
الرجاء طلب،واذاوُفّق للطلب وجد۔واذا تجلّیٰ ضياء المعرفة فی الفوٴاد۔هاج ریح
المحبة،واذاهاج ریح المحبة استاٴنس ظلال المحبوب،وآثرالمحبوب علیٰ ماسواہ،وباشر
اوامرہ۔ومثال هذہ الاصول الثلاثة کالحرم والمسجدوالکعبة،فمن دخل الحرم اٴمن من
الخلق،ومن دخل المسجد اٴمنت جوارحہ اٴن یستعملهافيالمعصية،ومَن دخل الکعبة
( اٴمن قلبہ من اٴن یشغلہ بغيرذکراللّٰہ ”( ١
“عارفوں کی مناجات تين اصول پر گردش کرتی ہے :خوف ،اميد اور محبت
۔خوف علم کی شاخ ہے ،اميد یقين کی شاخ ہے اور محبت معرفت کی شاخ ہے
خوف کی دليل ہر ب (فرار اختيار کرنا) ہے ،اميد کی دليل طلب ہے اور محبت کی دليل
محبوب کو دوسروں پر تر جيح دینا ہے ،جب سينہ ميں علم متحقق ہوجاتا ہے تو خوف
ہوتا ہے اور جب صحيح طریقہ سے خوف پيداہوتاہے توفراروجود ميں اتاہے اورجب
فراروجودميں اجاتاہے توانسان نجات پا جاتا ہے ،جب دل ميں یقين کا نور چمک اڻهتا
ہے تو عارف انسان فضل کا مشا ہدہ کرتا ہے اور جب فضل دیکه ليتا ہے تو اميد وار ہو
جاتا ہے ،جب اميد کی شرینی محسوس کر ليتا ہے تو طلب کرنے لگتا ہے اور جب
طلب کی تو فيق ہو جا تی ہے تو اس کو حا صل کرليتا ہے ،جب دل ميں معرفت کی
ضياء روشن ہو جا تی ہے تو محبت کی ہوا چل جا تی ہے اور جب محبت کی ہوا چل
جا تی ہے تو محبوب کے سا یہ ميں ہی سکون محسوس ہوتا ہے اور محبوب کے
علاوہ انسان ہر چيز سے لا پرواہ ہو جاتاہے اور براہ راست اپنے محبوب کا تابع
فرمان ہو جاتا ہے ۔ان تين اصول کی مثال حرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مصباح الشریعہ صفحہ ٢۔ ٣۔ )
مسجداور کعبہ جيسی ہے جو حرم ميں داخل ہو جاتا ہے وہ مخلوق سے محفوظ ہو
جاتا ہے ،جو مسجد ميں داخل ہوتا ہے اس کے اعضاء و جوارح معصيت ميں استعمال
ہو نے سے محفوظ ہو جا تے ہيں جو کعبہ ميں داخل ہو جاتا ہے اس کا دل یاد خدا
کے علا وہ کسی اور چيز ميں مشغول ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے ”
حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے:
“بکی شعيب من حبّ اللهعزّوجلّ حتّیٰ عمي۔۔۔اٴوحیٰ اللهاليہ: یاشعيب،ان
یکن هذاخوفاًمن النار،فقداٴجرتک،وان یکن شوقاالی الجنة فقد ابحتک۔ فقال:الهي
وسيدي،انت تعلم انی مابکيت خوفامن نارک،ولاشوقاالی جنتک،ولکن عقدحبک علی
قلبی،فلست اصبرا واراک،فاوحی اللهجلّ جلالہ اليہ:امااذاکان هذاهکذافمن اجل
( هذاساخدمک کليمي موسی بن عمران”( ١
“ الله سے محبت کی وجہ سے گریہ کرتے کرتے حضرت شعيب عليہ السلام
کی آنکهوں سے نور چلا گيا ۔تو اللهنے حضرت شعيب عليہ السلام پر وحی کی :اے
شعيب اگر یہ گریہ وزار ی دوزخ کے خوف سے ہے تو ميں نے تم کو اجردیا اور اگر
جنت کے شوق کی وجہ سے ہے تو ميں نے تمہارے لئے جنت کو مباح کيا ۔
جناب شعيب عليہ السلام نے عرض کيا :اے ميرے اللهاور اے ميرے سيد
وسردار تو جانتا ہے کہ ميں نہ تو دوزخ کے خوف سے گریہ کررہاہوں اور نہ جنت کے
شوق ولالچ ميں ليکن ميرے دل ميں تيری محبت ہے اللهنے وحی کی اے شعيب!
اگر ایسا ہے تو ميں عنقریب تمہاری خدمت کيلئے اپنے کليم موسیٰ بن عمران کو
بهيجو ں گا ”
حضرت ادریس عليہ السلام کے صحيفہ ميں آیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ١٢ صفحہ ٣٨٠ ۔ )
<طوبیٰ لقوم عبدوني حبّاً،واتخذوني الٰهاًوربّاً،سهرواالليل،وداٴبواالنهار
طلباًلوجهي من غيررهبة ولارغبة،ولالنار،ولاجنّة،بل للمحبّة الصحيحة،والارادة الصریحة
( والانقطاع عن الکل اليَّ>( ١
“اس قوم کيلئے بشارت ہے جس نے مير ی محبت ميں مير ی عبادت کی ہے
،وہ راتوں کو جا گتے ہيں اور دن ميں بغير کسی رغبت اور خوف کے ، نہ ان کو دوزخ
کا خوف ہے اور نہ جنت کا لالچ ہے بلکہ صحيح محبت اور پاک وصاف اراد ہ اور ہر چيز
سے بے نياز ہو کر مجه سے لولگا تے ہيں ۔
اور دعا کے سلسلہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں :
عميت عين لاتراک عليهارقيباًوخسرت صفقةعبدلم تجعل لہ من حبّک نصيباً
(٢)<
“وہ آنکه اندهی ہے جوخود پر تجه کونگران نہ سمجهے ،اور اس انسان کا
معاملہ گهاڻے ميں ہے جس کےلئے تو اپنی محبت کا حصہ نہ قرار دے ”
ایمان اور محبت
اسلامی روایات ميں وارد ہوا ہے بيشک ایمان محبت ہے ۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے :
( <الایمان حبّ وبغض >“ایمان محبت اور بغض ہے ”( ٣
فضيل بن یسار سے مروی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الا نوار جلد ٩۵ صفحہ ۴۶٧ ۔ )
٢)بحار الا نوار جلد ٩٨ صفحہ / ٢٢۶ ۔ )
٣)بحار الانو ار جلد ٧٨ صفحہ / ١٧۵ ۔ )
ساٴلت اباعبد اللّٰہ عليہ السلام عن الحبّ والبغض،اٴَمن الایمان هو؟ فقال
( :<وهل الایمان الّاالحبّ والبغض ؟>( ١
“ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے محبت اور بغض کے بارے ميں
سوال کيا کہ کيا دونوں ایمان ميں سے ہيں ؟ آپ نے فرمایا :کيا محبت اور بعض کے
علاوہ ایمان ہو سکتا ہے ؟
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :
هل الدین الّاالحبّ؟انّ اللّٰہ عزّوجلّ یقول :
(٣)<( قل ان کنتم تحبّون اللهفاتبعوني یحببکم الله( ٢
“کيا دین محبت کے علاوہ ہے ؟بيشک خداوندعالم فرماتا ہے :
قل ان کنتم تحبّون اللهفاتبعوني یحببکم الله
“اے پيغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ الله سے محبت کرتے ہو تو ميری پيروی
کرو خدا بهی تم سے محبت کرے گا ”
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مروی ہے:
( <الدین هوالحبّ والحبّ هوالدین> ( ۴
“دین محبت ہے اور محبت دین ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ١٢۵ ۔ )
٢)سورئہ آل عمرا ن آیت/ ٣١ ۔ )
٣)بحارالانوار جلد ۶٩ صفحہ / ٢٣٧ )
۴)نور اثقلين جلد ۵ صفحہ/ ٢٨۵ ۔ )
محبت کی لذت
عبادت اگرچہ محبت ،شوق اور حسرت ودردکے ذریعہ ہو تی ہے اور اس سے
بڑهکر کو ئی لذت وحلاوت نہيں ہے ۔
حضرت امام زین العابد ین عليہ السلام جنهوں نے الله کی محبت اور اس کے
ذائقہ اور حلاوت کا مزہ چکها ہے وہ فرماتے ہيں :
( <الهي مااطيب طعم حبّک ومااعذب شرب قُربک >( ١
“پروردگار تيری محبت کے ذائقہ سے اچها کو ئی ذائقہ نہيں ہے اور تيری قُربت
سے گوارا کو ئی چيز گوارا نہيں ہے ”
یہ حلاوت اور لذت، اوليا ء الله کے دلوں ميں پائی جاتی ہے یہ عارضی لذت
نہيں ہے جو ایک وقت ميں ہو اور دوسرے وقت ميں ختم ہوجائے بلکہ یہ دائمی لذت
ہے جب کسی بندہ کے دل ميں اللهسے محبت کی لذت مستقر ہو جاتی ہے تو اس
کا دل الله کی محبت سے زندہ ہو جاتا ہے اور جو دل الله کی محبت سے زندہ ہوجائے
خداوند وعالم اس پرعذاب نازل نہيں کرتا اور الله کی محبت اس کے دل ميں گهرکر
جاتی ہے ۔
حضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :
<الهي وعزّتک وجلالک لقد اٴحببتک محبةاستقرّت حلاوتهافي قلبي
( وماتنعقدضمائرموحّدیک علیٰ انک تبغضُ محبيک >( ٢
“خدایا! تجه کو تيرے عزت و جلال کی قسم تيری محبت کی مڻهاس ميرے دل
ميں گهر کر گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الانو ار جلد ٩٨ صفحہ / ٢۶ ۔ )
٢)مناجات اهل البيت صفحہ ٩۶ ۔ ٩٧ ۔ )
اور تيرے مو حدین کے ذہن ميں یہ خيال بهی نہيں گذرتا کہ تو ان سے نفرت کرتا ہے
”
الله کی محبت کی اسی مستقر اور ثابت حالت کے بارے ميں حضرت امام
علی بن الحسين فرماتے ہيں :
<فوعزّتک یاسيدي لوانتهرتني مابرحت من بابک ولاکففت عن تملّقک لماانتهیٰ
( الي من المعرفةبجودک وکرمک >( ١
“ تيری عزت کی قسم! اے ميرے مالک اگر مجه کو اپنی بارگاہ سے نکال دے
گا تو ميں اس دروازے سے نہ جا وٴنگا اور نہ تيری خوشامد سے باز رہونگا اس لئے
تيرے جود و کرم کو مکمل طور پر پہچان ليا ہے ”
محبت کے گہر ے اور دل ميں مستقر ہو نے کی سب سے بليغ تعبير یہی ہے
کہ وہ محبت دائمی ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر مولا اپنے غلام کو ذبح بهی کردے تو
بهی وہ محبت اس کے دل سے زائل نہيں ہو سکتی اور جس غلام کے دل ميں اس
کے مو لا کی محبت ثابت اور مستقر ہوگئی وہ اپنے غلام کو کبهی قتل نہيں کر
سکتا ہے ۔
جب انسان اللهسے محبت کے ذائقہ اور اس سے انسيت کی قوت سے
آشنا ہوجاتا ہے تو اس پر کوئی اور چيز اثر نہيں کر سکتی حضرت امام زین العا بدین،
امام المحبين عليہ السلام فرما تے ہيں :
<مَن ذاالذي ذاق حلاوة محبّتک فرام عنک بدلا؟ومن ذاالذي انس بقربک
( فابتغیٰ عنک حولا>( ٢
“وہ کو ن شخص ہے جس نے تيری محبت کی مڻهاس کو چکها ہو اور تيرے
بدل کا خواہش مند ہو اور وہ کون شخص ہے جس نے تيری قربت کا انس پایا ہو اور
ایک لمحہ کے لئے بهی تجه سے رو گردانی کرے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحا رالانوارجلد ٩٨ صفحہ / ٨۵ ۔ )
٢)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ / ١۴٨ ۔ )
لوگوں کا مسالک اور مذاہب ميں تقسيم ہونا اللهسے محبت کی لذت سے
محروم ہونا ہے جو لوگ اپنی زندگی ميں اللهسے محبت کی معرفت حاصل کر ليتے
ہيں وہ اس کے بعد اپنی زندگی ميں کسی دوسری چيز کی جستجو نہيں کر تے
ہيں ۔
حضرت امام حسين بن علی عليہ السلام فرماتے ہيں :
<ماذاوجد من فقدک؟وماالذي فقدمن وجدک ؟>
“ جس نے تجه کو کهو دیا اس نے کيا پایا ؟اور جس نے تجه کو پاليا اس نے
( کيا کهو یا”( ١
حضرت علی بن الحسين زین العا بدین عليہ السلام اللهسے محبت کی لذت
کے علاوہ محبت سے استغفار کرتے ہيں ،الله کے علاوہ کسی دوسرے ذکر ميں
مشغول ہو نے سے استغفار کرتے ہيں اور الله کی قربت کے علاوہ کسی دوسری
خوشی سے استغفار کرتے ہيں ،اس اعتبار سے نہيں کہ خداوندعالم نے اس کو
اپنے بندوں پر حرام قرار دیاہے بلکہ اس لئے کہ وہ محبت دل کو الله سے منصرف کر
دیتی ہے اور انسان الله کے علاوہ کسی دوسرے سے لو لگا نے لگتا ہے اگر چہ بہت
کم مدت کيلئے ہی کيوں نہ ہو ليکن جس دل کو اللهسے محبت کی معرفت ہو گئی
ہے وہ دل اللهسے منصرف نہيں ہو تا ہے ۔
اوليا ئے خدا کی زند گی ميں ہر چيز اور ہر کوشش اللهسے دائمی محبت،
الله کا ذکر اور اس کی اطاعت کے ذریعہ ہی آتی ہے اس کے علاوہ ہر چيز الله کی یاد
سے منصرف کرتی ہے اور ہم اللهسے استغفار کر تے ہيں ۔
امام عليہ السلام فر ما تے ہيں :
<واستغفرک من کل لذة بغيرذکرک ومِن کلّ راحة بغيراُنسک،ومن کل سرور
( بغيرقربک،ومن کلّ شغلٍ بغيرطاعتک >( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الانوار جلد ٩٨ صفحہ / ٢٢۶ ۔ )
٢)بحار الانوار جلد ٩۴ صفحہ / ١۵١ ۔ )
“اور ميں تيری یاد سے خالی ہر لذت ،تيرے انس سے خالی ہر آرام ،تيرے قرب
سے خالی ہر خو شی ،اور تيری اطاعت سے خالی ہر مشغوليت سے استغفار کرتا
ہوں ”
محبت کے ذریعہ عمل کی تلافی
محبت عمل سے جدا نہيں ہے محبت انسان کے عمل ،حر کت اور جد و جہد
کی علا مت ہے ليکن محبت ،عمل کا جبران کر تی ہے اور جس شخص نے عمل
کرنے ميں کو ئی کو تا ہی کی ہے اس کی شفاعت کر تی ہے وہ الله کے نز دیک
شفيع ومشفع ہے ۔
حضرت امام علی بن الحسين عليہ السلام ماہ رمضان ميں سحری کی ایک
دعا ميں جو ابو حمزہ ثما لی سے مر وی ہے اور بڑی عظيم دعا ميں شما ر ہو تی ہے
فرما تے ہيں :
<معرفتي یامولاي دليلي عليک وحبي لک شفيعي اليک وانا واثق من دليلي
( بدلالتک ومن شفيعي الیٰ شفاعتک >( ١
“اے ميرے آقا ميری معرفت نے ميری،تيری جانب راہنما ئی کی ہے اور تجه
سے ميری محبت تيری بارگاہ ميں ميرے لئے شفيع قرار پا ئيگی اور ميں اپنے رہنما پر
بهروسہ کئے ہوئے ہوں نيز مجهے اپنے شفيع پر اعتماد ہے ”
معرفت اور محبت بہترین رہنما اور شفيع ہيں لہٰذا وہ انسان ضائع نہيں ہوسکتا
جس کی الله کی طرف رہنمائی کرنے والی ذات اسکی معرفت ہے اور وہ بندہ مقصد
تک پہنچنے ميں پيچهے نہيں رہ سکتا جس کی خداوند عالم کے سامنے شفاعت
کرنے والی ذات محبت ہے ۔
حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :
<الٰہي انّک تعلم انّي وان لم تدم الطاعة منّي فعلاجزما فقددامت محبّة
وعزما>
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحا ر الانوار جلد ٩٨ صفحہ ٨٢ ۔ )
“خدایا تو جانتا ہے کہ ميں اگرچہ تيری مسلسل اطاعت نہ کرسکا پهر بهی
تجه سے مسلسل محبت کرتا ہوں ”
یہ امام عليہ السلام کے کلا م ميں سے ایک لطيف و دقيق مطلب کی طرف
اشارہ ہے بيشک کبهی کبهی اطاعت انسان کو قصور وار ڻهہرا تی ہے اور وہ الله کی
اطاعت پر اعتماد کر نے پر متمکن نہيں ہو تا ہے ليکن الله سے محبت کر نے والے
انسانوں کے یقين و جزم ميں شک کی کو ئی راہ نہيں ہے اور جس بندے کے دل
ميں الله کی محبت گهر کر جا تی ہے اس ميں شک آہی نہيں سکتا ۔بندہ بذات خود
ہی اطاعت ميں کو تا ہی کر تا ہے اور وہ ان چيزوں کا مرتکب ہو تا ہے جن کو خدا وند
عالم پسند نہيں کر تا اور نہ ہی اپنی معصيت کرنے کو دو ست رکهتا ہے ليکن اس
کےلئے یہ امکان نہيں ہے کہ (بندہ اطاعت ميں کو تا ہی کرے اور معصيت کا ارتکاب
کرے )اطاعت کو نا پسند کرے اور معصيت کو دوست رکهے ۔
بيشک کبهی اعضا و جوارح معصيت کی طرف پهسل جاتے ہيں ،ان ميں
شيطان اور خو ا ہشات نفسانی داخل ہو جا تے ہيں اور اعضاء و جوارح الله کی
اطاعت کرنے ميں کو تا ہی کر نے لگتے ہيں ليکن الله کے نيک و صالح بندوں کے دلوں
ميں الله کی محبت ،اس کی اطاعت سے محبت اور اس کی معصيت کے نا پسند ہو
نے کے علا وہ اور کچه داخل ہی نہيں ہو سکتا ہے ۔
ایک دعا ميں آیا ہے :
<الٰہي احبّ طاعتک وانْ قصرت عنهاواکرہ معصيتک وانْ رکبتها فتفضل عليّ
( بالجنّة >( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحا رالانوار جلد ٩۴ صفحہ ١٠١ ۔ )
“خدایا! ميں تيری اطاعت کرنا چا ہتا ہوں اگر چہ ميں نے اس سلسلہ ميں کو
تا ہی کی ہے اور مجهے تيری معصيت کرنا نا گوار ہے اگر چہ ميں تيری معصيت
کاارتکاب کر چکا ہوں لہٰذا مجه کو بہشت کرامت فرما ”
جوارح اور جوانح کے درميان یہی فرق ہے بيشک جوارح کبهی جوانح سے
ملحق ہو نے سے کوتاہی کر تے ہيں اور کبهی جوانح اپنے پروردگار کی محبت ميں
مکمل طور پر خاضع وخاشع ہو جا تے ہيں اور جوارح ایسا کرنے سے کوتاہی کر تے
ہيں ليکن جب دل پاک وپاکيزہ اور خالص ہو جاتاہے تو جوارح اسکی اطاعت کرنے
کيلئے نا چار ہوتے ہيں اور ہمارے لئے جوارح اور جوانح کی مطلوب چيز کا نافذکرنا
ضروری ہے اور ہم جوارح اور جوانح کے درميان کے اس فا صلہ کو اخلاص قلب کے
ذریعہ ختم کر سکتے ہيں
محبت انسان کو عذاب سے بچاتی ہے
جب انسان گناہوں کے ذریعہ الله کی نظروں سے گرجاتا ہے اور انسان کو الله
کے عذاب اور عقاب کيلئے پيش کيا جاتا ہے تو محبت ا نسان کو الله کے عذاب اور
عقاب سے نجات دلاتی ہے ۔
حضرت علی بن الحسين زین العا بدین عليہ السلام منا جات ميں فرماتے ہيں:
( <الهي انّ ذنوبي قداخافتني ومحبّني لک قد اجارتني>( ١
“خدایا! ميرے گناہوں نے مجهے ڈرادیا ہے اور تجه سے ميری محبت نے مجهے
پناہ دے رکهی ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الانو ار جلد ٩۵ صفحہ/ ٩٩ ۔ )
محبت کے درجات اور اس کے طریقے
بندوں کے دلو ں ميں محبت کے درجے اور مراحل ہوتے ہيں :
یعنی دل ميں اتنی کم محبت ہو تی ہے کہ محبت کر نے والے کو اصلا اس
محبت کا احساس ہی نہيں
ہوتا ہے۔
ایک محبت ایسی ہو تی ہے جس سے بند ے کا دل اس طرح پُر ہو جاتا ہے کہ
انسان کے دل ميں کوئی ایسی جگہ باقی نہيں رہ جاتی جس سے انسان لہو و
لعب ميں مشغول ہو اور الله کا ذکر نہ کرے ۔
اور ایک محبت ایسی ہوتی ہے کہ انسان الله کے ذکر ،اس سے مناجات کر
نے اور اس کی بارگاہ ميں کهڑے ہونے ميں مہنمک ہو جاتا ہے اور وہ ذکر ،دعا ،نماز
اور فی سبيل الله عمل کر نے اور اس کے سامنے کهڑے ہو کر نماز پڑهنے سے
سيراب نہيں ہوتا ہے۔
ایک دعا ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرما تے ہيں :
<سيّدی انامن حبّک جائع لااشبع ،وانامن حبک ظماٰن لااُرویٰ واشوقاہ الیٰ مَن
یراني ولااٴراہ>
“ميرے آقا و سردار ميں تيری محبت کا بهو کا ہوں کہ سير نہيں ہوسکتا ،اور
تيری محبت کا اتنا پياسا ہوں کہ سيراب نہيں ہو سکتااور ميں کسی ذات کے دیدار کا
مشتاق ہوںليکن وہ مجهے اپنا دیدار نہيں کراتا ”
حضر ت امام علی بن الحسين زین العابدین مناجات ميں فرماتے ہيں :
<وغُلتی لایبردهاالاّوصلُک ولوعتی لایطفئوهاالَّالقاءُ ک وشوقی اليک لایُبُلُّہُ
( الاالنَّظَرُاِلَيکَْ >( ١
“اور ميری حرارت اشتياق کو تيرے وصال کے علاوہ کو ئی اور چيزڻهنڈا نہيں
کرسکتی اور ميرے شعلہ ٴ شوق کو تيری ملاقات کے علاوہ کو ئی اور چيز بجها نہيں
سکتی اور ميرے شوق کو تر نہيں کر سکتا ہے مگر تيری طرف نظر کرنا ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٩۴ صفحہ ١۴٩ ۔ )
الله کی محبت ميں والہانہ پن بهی ہے ،زیارت امين ميں آیا ہے :
( <اللهم انّ قلوب المخبتين اليک والهة>( ١
“ تيرے سامنے تواضع کرنے والوں کے دل مشتاق ہيں ”
حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام سے دعا ميں مروی ہے :
<الهی بک هامت القلوب الوالهة ۔۔۔فلا تطمئنّ القلوب الابذکراک ولا تسکن
( النفوس الاعند روٴیاک >( ٢
“خدایا !محبت بهرے دل تجه ہی سے وابستہ ہيں ۔۔۔ دل تيرے ذکر کے بغير
مطمئن نہيں ہو تے اور نفسوں کو تيرے دیدار کے بغير سکون نہيں ملتا ”
ان والهہ اور ہائمہ قلوب کی یہ خاصيت ہے کہ ان کو الله کے ذکر کے بغير
سکون و اطمينان نہيں ہو تا۔
ہم کو محبت کی آخری حد کا سبق اميرالمو منين علی بن ابی طالب عليہ
السلام کی اس دعا کے کلمات ميں ملتا ہے جس کی آپ نے کميل بن زیادہ نخعی
کو تعليم دی تهی جو دعاء کميل کے نام سے مشہور ہے:
<فهبني یاسيّدي ومولاي وربي صبرت علیٰ عذابک فکيف اصبرعلیٰ فراقک
،وهبني صبرت علی حرنارک فکيف اصبرعن النظر الیٰ کرامتک ام کيف اسکن فی النار
( ورجائي عفوک؟!>( ٣
“تو اے ميرے خدا!ميرے پروردگار !ميرے آقا!ميرے سردار! پهر یہ بهی طے ہے
کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مفاتيح الجنان دعا ء ابو حمزہ ثمالی۔ )
٢)بحار ا لا نو ار جلد صفحہ/ ١۵١ ۔ )
٣)مفا تيح الجنان دعائے کميل ۔ )
اگر ميں تيرے عذاب پر صبر بهی کر لوں تو تيرے فراق پر صبر نہيںکر سکتا۔اگر آتش
جہنم کی گرمی برداشت بهی کر لوں تو تيری کرامت نہ دیکهنے کو برداشت نہيں کر
سکتا ۔بهلا یہ کيسے ممکن ہے کہ ميں تيری معافی کی اميدرکهوں اورپهرميں آتش
جہنم ميںجلادیاجاوٴں ”
یہ بندہ کی توجہ کو مبذول کر نے کے بہت ہی پاک وپاکيز ہ اور سچے نمونے
ہيں یعنی بندہ اپنے مولا وآقا کی طرف سے جہنم کے عذاب پر تو صبر کر سکتا ہے
ليکن وہ اسکی جدائی اور غضب پر کيسے صبر کرسکتا ہے ؟!
کبهی محب اپنے مولا کے عقاب کو برداشت کرتاہے ليکن اس کے غضب کو
برداشت نہيں کرتا کبهی وہ سب سے سخت عذاب دوزخ کو تو برداشت کر ليتا ہے
ليکن مولا وآقا کے فراق کو برداشت نہيں کرپا تا ہے ۔
جہنم کی آگ بندہ کا ڻهکانا کيسے ہو سکتی ہے حا لانکہ بندہ اپنے مولا وآقا
سے مہربانی وعطوفت اور جہنم سے نجات دینے کی اميدر کهتا ہے ؟
محبت اور رجاء واميد یہ دونو ں چيزیں بند ے کے دل سے جدُا نہيں ہوسکتی
ہيں (حالا نکہ اس کو الله کے غضب کی وجہ سے جہنم کی بهڻی ميں جهو نک دیا
جاتا ہے )اس عظيم وجليل دعا کی یہ پاک و پا کيزہ صورتيں ہيں ۔
کبهی بندہ اپنے مولا سے محبت کر تا ہے اور اس کا مولا و آقا اس کو اپنی
نعمت اور فضل سے نوازتا ہے یہ محبت کی تاکيد کا ہی اثر ہے ليکن وہ محبت جس
کو بندے کے دل سے جدا کر نے اور جدا نہ کرنے سے اس کی محبت ميں کو ئی
اضافہ نہ ہوتاہو تواس کو بندے کے مولا وآقا کے عذاب جہنم ميں جهونک دیاجا ئيگا ۔
امام زین العا بدین نے جس دعا ء سحر کی ابو حمزہ ثمالی کو تعليم دی تهی
اس ميں فرماتے ہيں :
<فوعزّتک لوانتهرتني مابرحت من بابک ولاکففت عن تملّقک لما اُلهم قلبي من
المعرفة بکرمک وسعة رحمتک الی مَن یذهب العبد الاّ الی مولاہ؟ والی مَن یلتجی
المخلوق الاّالی خالقہ ؟!الهي لوقرنتني بالاصفاد،ومنعتني سيبک من بين
الاشهاد،ودللت علیٰ فضائحي عيون العباد،وامرت بي الی النار وحلت بيني وبين
( الابرارماقطعتُ رجائي منک،وماصرفتُ تاٴميلي للعفوعنک، ولاخرج حبّک من قلبي> ( ١
“تيری عزت کی قسم !اگرتو مجه کو جهڑک بهی دے گا تو ہم تيرے دروازے
سے کہيں جا ئيں گے نہيں اور تجه سے آس نہيں توڑیں گے ہمارے دل کو تيرے کرم
کا یقين ہے اور ہميشہ تيری وسيع رحمت پر اعتماد ہے ميرے مالک بندہ اپنے مالک
کوچهوڑکرکدهر جا ئے اور مخلوق خالق کے ماسوا کس کی پناہ لے!ميرے معبود اگر
تو مجه کو زنجير وں ميںجکڑ بهی دے گا اور مجمع عام ميں عطا سے انکاربهی کر
دیگا اور لوگوں کو ہمارے عيوب سے آگاہ بهی کردیگا اور ہم کو جہنم کا حکم بهی
دیدیگا اور اپنے نيک بندوں سے الگ بهی کر دیگا تو بهی ميں اميد کوتجه سے منقطع
نہيں کرونگا اور جو تيری معافی سے آس نہيں توڑونگا اور تيری محبت کو دل سے نہ
نکالونگا ”
یہ بات ذہن نشين کرليجئے کہ یہی محبت سچی محبت ،اميد،آرزو ،اور پاک
صاف محبت ہے یہ بندہ کے دل سے کبهی نکل نہيں سکتی چاہے مولا اس کو
زنجيروں ميں ہی کيوں نہ جکڑ دے اور اس کولوگوں کے سامنے رسوا ہی کيوں نہ
کرے ۔
ہم محبت اور رجاء کی ان بہترین صورتوں کو قارئين کرام کی خدمت ميں پيش
کرتے ہيں جن کو مولائے کائنات نے جليل القدر دعا کميل ميں بيان فرمایاہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)دعا ابو حمزہ ثمالی ۔ )
ن تَرَکتَْنِي نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ <فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا
اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاٴصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْستَْصرِْخِينَْ وَلَاٴبکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ
وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِيَّ المُْوٴمِْنِينَْ یَاغَایَةَ آمَالِ العَْارِفِينَْ یَاغَيَاثَ المُْثستَغِيثِْينَْ یَاحَبِيبَْ
قُلُوبِْ الصَّادِقِينَْ وَ یَااِ ہٰلَ العَْا لَمِينَْ>
اَفَتُرَاکَ سُبحَْانَکَ یَااِ هٰلِي وَبِحَمدِْکَ تَسمَْعُ فِيهَْاصَوتَْ عَبدٍْمُسلِْمٍ سُجِنَ
فِيهَْابِمُخَالَفَتِہِ وَذَاقَ طَعمَْ عَذَاِبهاَبِمَعصِْيَتِہِ وَحُبِسَ بَينَْ اَطبَْاقِهَابِجُرمِْہِ وَجَرِیرَْتِہِ وَهُوَیَضِجُّ
اِلَيکَْ ضجٍيجَ مُُوٴمِّلٍ لرَحمَْتِکَ وَی اْٰندیکَ بِلِ سٰانِ اَٴهلِْ تَوحْيدِکَ وَیَتَوَسَّلُ اِلَيکَْ بِرُبُوبِيَّتِکَ
یاٰمَولْايَ فَکَيفَْ یَب قْٰی فِی الْعَ اٰ ذبِ وَهُوَ یَرجُْو اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ اَم کَيفَْ تُوٴلِمُہُ
الناٰرُّوَهُوَیَامُْلُ فَضلَْکَ وَرَحمَْتَکَ ام کَيفَْ یُحرِْقُہُ لَهيبُ هٰاوَاَنتَْ تَسمَْعُ صَوتَْہ وَتَر یٰ مَ اٰ کنَہُ اَم کَيفَْ یَشتَْمِل عَلَيہِْ زَفيرُ هٰا وَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفَْہُ اَم کَيفَْ یَتَقَلقَْلُ بَينَْ اَط بْٰقٰاِ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ صِدقَْہُ
اَم کَيفَْ تَزجُْرُہُ ز اٰبنِيَتُ هٰاوَهُوَیُ اٰندیکَ ی رَٰابَّہُ اَم کَيفَْ یَرجُْو فَضلَْکَ فی عِتقِْہِ مِن هْٰا فَتَترُْکُہُ
في هٰاهَي هْٰاتَ اٰ م اٰ ذلِکَ الظَّنُّ بِکَ وَلَاالمَْعرْوُفُ مِن فَضلِْکَ وَ اٰلمُشبِْہٌ لِ مٰا عٰامَلتَْ بِہِ المُْوَحِّدینَ
( مِن بِرِّکَ وَاِح سْٰانِکَ >( ١
“تيری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميری گویائی کو باقی
رکها تو ميں اہل جہنم کے درميان بهی اميدواروں کی طرح فریاد کروں گااور فریادیوں
کی طرح نالہ و شيون کروں گااور “عزیز گم کردہ ”کی طرح تيری دوری پر آہ وبکا کروں
گا اور تو جہاں بهی ہوگا تجهے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز
اميد،فریادیوں کا فریادرس ،صادقين کا محبوب اور عالمين کا معبودہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مفاتيح الجنان دعاء کميل۔ )
اے ميرے پاکيزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کيا یہ ممکن ہے کہ تواپنے
بندہٴ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جہنم ميں گرفتار اور معصيت کی بنا پر
عذاب کا مزہ چکهنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جہنم کے طبقات کے درميان کروڻيں
بدلنے والا بنادے اور پهر یہ دیکهے کہ وہ اميد وار رحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل
توحيد کی طرح پکارنے والا ،ربوبيت کے وسيلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس
کی آواز نہيں سنتا ہے۔
خدایا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور
تيرے فضل وکرم سے اميدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار
ہوگا۔جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور
اس کی منزل کو دیکه رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپيٹ ميں ليں
گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکه رہا ہوگا۔وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح
کروڻيں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ۔ جہنم کے فرشتے اسے
کس طرح جهڑکيں گے جبکہ وہ تجهے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم ميں کس
طرح چهوڑ دے گا جب کہ وہ تيرے فضل و کرم کا اميدوار ہوگا ،ہر گز تيرے بارے ميں یہ
خيال اور تيرے احسانات کا یہ انداز نہيں ہے تونے جس طرح اہل توحيد کے ساته نيک
برتاوٴ کيا ہے اس کی کوئی مثال نہيں ہے۔ميں تویقين کے ساته کہتا ہوں کہ تونے
اپنے منکروں کے حق ميں عذاب کا فيصلہ نہ کردیا ہوتا اور اپنے دشمنوں کوہميشہ
جہنم ميں رکهنے کا حکم نہ دے دیا ہوتا تو ساری آتش جہنم کو سرد اور سلامتی بنا
دیتا اور اس ميں کسی کا ڻهکانا اور مقام نہ ہوتا”
ہمارے ایک دوست نے ہم سے کہا :شجاعت حضرت علی عليہ السلام کی
اصلی خصلت ہے اور یہ خصلت ان سے جدا نہيں ہوسکتی یہاں تک کہ آپ رب
العالمين کی بارگاہ ميں اس شہامت کے ساته دعا کرتے ہيں۔آپ نے جناب کميل
کوجو دعا تعليم فرمائی تهی اس ميں اس بات کی تعليم دی ہے کہ جب گناہکار بندہ
یہ خيال کرتا ہے کہ وہ آگ کے جنگل ميں پهنس گيا ہے اور چاروں طرف سے اسکو
آگ نے گهير لياہے تو وہ اس وقت نہ توخاموش رہ سکتا ہے نہ کسی جگہ پر اسکو
سکون ملتا ہے اور نہ ہی عذاب اور عقوبت کے لئے تسليم ہوسکتا ہے اور یہی حال
اس شخص کا ہے جس پر عذاب کا ہورہاہو اور آگ کے شعلے اس کو ڈرا رہے ہوں تو وہ
روتا ہے چلاتا ہے افسوس کرتا ہے اور آواز بلند کرتا ہے ۔
قارئين! کيا آپ نے ملاحظہ نہيں فرمایا کہ اس حالت کی دعاميں کس طرح
تعبير کی گئی ہے؟
ن تَرَکتَْني نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ <فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا
اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاٴصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْصتَْسرِْخِينَْ وَلَاٴبکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ
وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِیَّ المُْوٴمِْنِينْ>
ہم نے عرض کيا :تم نے مولائے کائنات کے کلام کو صحيح طور پر نہيں
سمجها ۔اگر مولائے کائنات یہ بيان فرماتے جوتم نے خيا ل کيا ہے تو اس خطاب کے
مقدمہ ميں < لوتَرَکتَْنِی نَاطِقاً > نہ فرماتے ليکن ميں اس مقام پر حضرت علی
عليہ السلام کی فطری حالت کا احساس کررہا ہوں جو آپ نے ان کلمات ميں الله کی
بارگاہ ميں حاضر ہوکر فرمایا ہے کہ انسان الله کی بارگاہ ميں اس شير خوار بچہ کے
مانند ہے جو دنيا ميں اپنی ماں کی عطوفت ،مہربانی ،رحمت اور محبت کے علاوہ
کوئی پناہگاہ نہيں رکهتا ہے جب بهی اسکوکوئی امرلاحق ہوتا ہے یاکوئی نقصان
پہنچتا ہے تو وہ دوڑکر اپنی ماں کی آغوش ميں چلاجاتا ہے اسی سے فریاد کرتا ہے
اور جب وہ کسی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے اور اسکی ماں اسکو کوئی سزادینا
چاہتی ہے اور وہ اپنی ماں کی سزا سے بچ کر کسی اور پناہگاہ ميں جانا چاہتا ہے تو
اسکے پاس اسکی ماں کے علاوہ کوئی اور پناہگاہ ہوتی ہی نہيں ہے لہٰذا اسکے
لئے اسی سے فریاد کرناضروری ہو تا ہے اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اسکو
اذیت و تکليف دیتا ہے تو اسکے پاس اسکی ماں کے علاوہ کوئی اور پناہگاہ نہيں
ہوتی ہے۔
یہی حال مولائے کائنات کا اس دعا ميں ہے آپ نے اپنے عظيم قلب سے اس
دعا کی تعليم فرمائی :الله سے پناہ مانگو ،اس سے فریاد کرو اور اسکے علاوہ
کسی اور کو اپنا ملجاوماوی نہ بناؤ۔
فقط خداوند تبارک وتعالی یکتا اسکا ملجاوماوی ہے جس کے علا وہ وہ کسی
کو پہچانتا ہی نہيں ہے جب بندہ یہ خيال کرتا ہے کہ خداوند عالم کا عذاب اس کا
( احاطہ کئے ہوئے ہے ( ١
کيا خداوند تبارک وتعالیٰ اسکا ملجاوماویٰ نہيں ہے؟تو پهر کيوں اس خدا سے
استغاثہ کرنے ميں تردد کرتا ہے؟
امام زین العابدین عليہ السلام مناجات ميں اسی معنی کی عکاسی کرتے
ہوئے فرماتے ہيں:
<فان طردتنی مِن بابک فبمن الوذ؟وان ردّدتنی عن جنابک فبمن اعوذ؟الهي
( هل یرجع العبدالابق الَّاالٰی مولاہ؟ام هل یجيرہ من سخطہ احد سواہ>( ٢
“پس اگر تو مجه کو اپنے در وازے سے ہڻا دے گا تو ميں کس کی پناہ لونگا اور
اگر تو نے مجه کو اپنی درگاہ سے لو ڻا دیا تو کس کی پناہ ميں رہونگا کيا فراری (بها
گا ہوا)غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے پاس پلڻتا ہے یا اس کو آقا کی ناراضگی
سے خود آقا کے علاوہ کوئی اور بچاتا ہے ”
اور آپ نے ابوحمزہ ثمالی کو جو دعا کی تعليم فرمائی تهی اس ميں آ پ
( فرماتے ہيں : <وانایاسيدي عائذ بفضلک هارب منک اليک >( ٣
“اور ميں تيرے فضل کی پناہ چا ہنے والا ہوں اور تجه سے بهاگ کر تيری طرف
آنے والا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)یہاں ہم خود مو لا علی کے کلمات سے مذکورہ مطالب کو اخذ کر رہے ہيں اگر مو لائے کا )
ئنات سے یہ کلمات صادر نہ ہوئے ہوتے تو اس طرح مو لائے کا ئنات اور خداوند عالم کے درميان رابطہ
کے سلسلہ ميں گفتگو کی ہم جراٴت نہيں کر سکتے ہيں ۔
٢)بحاالانوار جلد ٩۴ ص ۴٢ ا۔ )
٣)بحار الانوار جلد ٩٨ ص ٨۴ ۔ )
اسی دعا ميں حضرت امام زین العابدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :
<الیٰ مَن یذ هب العبد إِلا إِلیٰ مولاہ والی مَن یذهب المخلوق الاا لیٰ خالقہ>
(١)
“کياغلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے پاس جا سکتا ہے اور کيا مخلوق
اپنے خالق کے علاوہ کسی اور کے پاس جا تی ہے ”
بندہ کے خدا وند عالم سے لو لگا نے کے سلسلہ ميں بندہ کا الله سے الله
کی طرف بهاگ کر جانا یہ بہت دقيق معانی اوربلند افکار ہيں حضرت علی عليہ
السلام نے بندہ کے الله سے لو لگا نے کی جومنظر کشی فر ما ئی ہے یہ محبت اور
رجا و اميد کے سب سے زیادہ دقيق اورلطيف مشاعر ہيں اور محبت کرنے والوں کے
دلوں ميں سچے دل سے گهر کرتی ہيں ۔
حضرت علی عليہ السلام نے دعا کے اس فقرے ميں استغاثہ کر تے وقت
شعراء کا طریقہ اختيار نہيں فرمایا ہے بلکہ دعا کے اس مرحلہ کو پوار کيا ہے آپ خدا
کی بار گاہ ميں اپنے احساس اور شعور کی تعبير کرنے ميں بالکل سچے ہيں ۔
یہ ممکن ہی نہيں ہے کہ ہمارے، الله کی رحمت اور اسکے فضل کی معرفت
رکهتے ہوئے بهی خدا اپنے بندہ سے رجا اور محبت ميں سچے اور پاک وصاف
احساس کواس بندہ کی محبت اور اسکی اميد کو رد فرما دے ۔
حضرت علی عليہ السلام فرماتے ہيں :
>َ فَکَيفَْ یَب قْٰی فِی الْعَ اٰ ذبِ وَهُوَیَرجُْو اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ اَم کَيفَْ تُوٴلِمُہُ
الناٰرُّوَهُوَیَامُْلُ فَضلَْکَ وَرَحمَْتَکَ ام کَيفَْ یُحرِْقُہُ لَهيبُ هٰاوَاَنتَْ تَسمَْعُ صَوتَْہ وَتَر یٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) بحاالانوار جلد ٩٨ صفحہ / ٨٨ ۔ )
مَ اٰ کنَہُ اَم کَيفَْ یَشتَْمِل عَلَيہِْ زَفيرُ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفَْہُ اَم کَيفَْ یَتَقَلقَْلُ بَينَْ اَط بْٰقٰاِ هٰاوَاَنتَْ
تَعلَْمُ صِدقَْہُ اَم کَيفَْ تَزجُْرُہُ ز اٰبنِيَتُ هٰاوَهُوَیُ اٰندیکَ ی رَٰابَّہُ >
“خدایا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور
تيرے فضل وکرم سے اميدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار
ہوگا۔جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور
اس کی منزل کو دیکه رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپيٹ ميں ليں
گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکه رہا ہوگا۔وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح
کروڻيں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ۔ جہنم کے فرشتے اسے
کس طرح جهڑکيں گے جبکہ وہ تجهے آواز دے رہا ہوگا ”
کيا یہ ممکن ہے کہ خداوند عالم بندہ کی گردن ميں اگ کا طوق ڈالدے ،اسکو
اس ميں جلائے حالانکہ وہ خدا کو پکاررہا ہوا پنے کئے پر پچهتا رہاہو اور اپنی زبان
سے اس کی وحدانيت کا اقرار کررہاہو ؟
ہما ری زندگی ميں جو کچه اس کا حلم و فضل گذر چکا ہم اس کی مطلق اور
قطعی و یقينی طور پر نفی کرتے ہيں ليکن حضرت علی عليہ السلام خدا وند عالم
کے حلم و فضل پر اس کے فضل سے اسطرح استدلال فر ماتے ہيں :<
وَهُوَیَرجُْو اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ>امام عليہ السلام قضيہ کے دو نوں طرف یعنی خدا وند
عالم کے بندہ سے رابطہ برقرار رکهنے اور بندہ کے خداوند عالم سے لو لگا نے ميں
قاطع اور صاف صاف طور پر بيان فر ما تے ہيں۔
جس طرح اس کو یقين ہے کہ اگر بندہ کو جہنم ميں بهی ڈالدیاجائيگا تو اس
کی محبت اور اميد اس سے جدا نہيں ہوسکتی ہے اور ہرگز خداوندعالم کے علاوہ
اس کا کوئی ملجاوماویٰ نہيں ہوسکتا ہے اسی طرح اس کو بهی یقين ہے کہ
خداوندعالم سچی محبت اور اميد کو بندے کے دل سے ختم نہيں کرتا ہے ۔
اس جزم ،قاطعيت اور صاف گوئی کے متعلق مولائے کائنات کے کلام ميں غور
فرمائيں :
<هيهات ماذلک الظّنُ بکَ وَلَاالمَْعرُْوفُْ مِن فَضلِْکَ وَلَامُشبِْہٌلِّمَا عَامَلتَْ بِہِ
المُْوَحِّدِینَْ مِن بِرِّکَ وَاِحسَْانِکَ فَبِاليَْقِينِْ اَقطَْعُ لَولَْامَاحَکَمتَْ بِہِ مِن تَعذِْیبِْ جَاحِدِیکَْ
وَقَضَيتَْ بِہِ مِن اِخلَْادِ مُعَانِدِیکَْ لَجَعَلتَْ النَّارَکُلَّهَا بَردْاً وَسَلَاماًوَمَاکَانَ لِاَحَدٍ فِيهَْامَقَرّاًوَلَامُقَاماً
>(ا)
“ہر گز تيرے بارے ميں یہ خيال اور تيرے احسانات کا یہ انداز نہيں ہے ۔تونے
جس طرح اہل توحيد کے ساته نيک برتاوٴ کيا ہے اس کی کوئی مثال نہيں ہے۔ميں
تویقين کے ساته کہتا ہوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق ميں عذاب کا فيصلہ نہ کردیا
ہوتا اور اپنے دشمنوں کوہميشہ جہنم ميں رکهنے کا حکم نہ دے دیا ہوتا تو ساری
آتش جہنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس ميں کسی کا ڻهکانا اور مقام نہ ہوتا”
یہ جزم ویقين جو بندہ خداوندعالم سے لولگانے ميں رکهتا ہے یہ بلند مرتبہ
ہے اور مو لا کا اپنے بند ے سے تعلق رکهنا یہ مرتبہ پائين ہے ۔ہم ان دونوں باتوں کا
مو لائے کا ئنات کے دو سرے کلام ميں مشاہدہ کرتے ہيں جہاں پر آپ نے اپنی
مشہور مناجات ميں خداوند عالم کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے :
<الهي وعزّتک وجلالک لقداحببتک محبّة استقرّت حلاوتها في
( قلبي،وماتنعقدضمائرموحّدیک علیٰ انک تبغض محبيک> ( ٢
“خدایا !تجه کو تيرے عزت و جلال کی قسم تيری محبت کی مڻهاس ميرے دل
ميں گهر کر گئی ہے اور تيرے مو حدین کے ذہن ميں یہ خيال بهی نہيں گذرتا کہ تو
ان سے نفرت کرتا ہے ”
حضرت امام علی بن الحسين عليہ السلام کی مناجات ميں آیا ہے :
<الهي نفس اعززتهابتوحيدک کيف تذ لّهابمهانة هجرانک وضمير
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مفاتيح الجنان دعائے کميل ۔ )
٢)مناجات اہل البيت صفحہ ۶٨ ۔ ۶٩ ۔ )
( انعقد علیٰ مودّتک کيف تحرقہ بحرارة نيرانک >( ١
“اے خدا جس نفس کو تونے اپنی توحيد سے عزت دی ہے اسے کيسے اپنے
فراق کی ذلت سے ذليل کرے گا اور جس نے عشق و محبت کی گرہ با ندهی ہے
اس کو اپنی آگ کی حرارت سے کيسے جلا ئے گا ”
حضرت سجاد عليہ السلام ابو حمزہ ثمالی کو تعليم دینے والی دعا ميں
فرماتے ہيں :
<افتراک یاربّ تخلف ظنوننااوتخيّب آمالنا؟کلّا یاکریم ،فليس هٰذا
( ظننابک،ولا هٰذاطمعنافيک یاربّ اِنَّ لَنَافِيکَْ اَمَلاًطَوِیلْاً کَثِيرْاً،اِنَّ لَنَافِيکَْ رَجَاءً عَظِيمْاً۔۔۔> ( ٢
“اور تو یقيناہمارے ےقين کوجهوڻا نہيں کرے گااور ہماری اميد کو نااميدنہيں
کرے گا ؟ہر گز نہيں کریم تيرے بارے ميں یہ بد گمانی نہيں ہے ہم تجه سے بہت اميد
رکهتے ہيں اور بہت کچه اميد لگائے بيڻهے ہيں ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الانوار جلد ٩۴ صفحہ ١۴٣ ۔ )
٢)مفا تيح الجنان دعائے ابو حمزہ ثما لی ۔ )
|