دعا عند اهل بيت(جلد دوم)
 

ب۔جوچيز یں دعا ميں سزاوار نہيں ہيں
اب ہم ان چيزوں کے سلسلہ ميں بحث کریں گے جو دعا ميں نہيں ہونا چاہئيں اور ہم ان سب چيزوں کو قرآن اور حدیث کی روشنی ميں بيان کریں گے جو مندرجہ ذیل ہيں :

١۔کائنات اور حيات بشری ميں الله کی عام سنتوں کے خلاف دعا کرنا
حضرت نوح عليہ السلام نے اپنے بيڻے کی شفاعت اور اس کے پانی ميں غرق ہو نے سے بچانے کيلئے خداوند عالم کے وعدہ کے مطابق کہ وہ ان کے اہل کو نجات دے گا خدا سے دعا کی ليکن خداوندعالم نے اپنے بندے اور اپنے نبی نوح عليہ السلام کی دعا قبول نہيں کی اور ان کی دعا کو رد فرما یا :<انہ ليس من اهلک >اے نوح یہ تمہارے اہل سے نہيں ہے ”اور ان کو پهر اس کے مثل کبهی دعا نہ کرنے کی نصيحت فرمائی۔
<وَنَادَ یٰ نُوحُْ رَبَّہُ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابنِْی مِن اَهلِْی وَ اِنَّ وَعَدَ کَ الحَْقُّ وَاَنتَْ اَحکَْمُ الحَْاکِمِينَْ #قَا لَ یَانُوحُْ اِنَّہُ لَيسَْ مِن اَهلِْکَ اِنَّہُ عَمَلٌغَيرُْصَا لِحٍ فَلَا تَساْٴلنِْ مَا لَيسَْ لَکَ بِہِ عِلمٌْ اِنِّی اَعِظُکَ اٴَ تَکُونَْ مِنَ الجَْاهِلِينَْ #قَالِ رَبِّ اِنِّی اٴَعُوذُْبِکَ اَن اَسئَْلَکَ مَالَيسَْ بِہِ عِلمٌْ ( وِاِلَّاتَغفِْرلِْی وَتَرحَْمنِْی اٴَکُن مِنَ الخَْا سِرِینَْ>( ١
“اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار ميرا فرزند ميرے اہل ميں سے ہے اور تيرا وعدہ اہل کو بچا نے کا بر حق ہے اور تو بہترین فيصلہ کرنے والا ہے ،ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہيں ہے یہ عمل غير صالح ہے لہٰذا مجه سے اس چيز کے بارے ميں سوال نہ کرو جس کا تمہيں علم نہيں ہے ميں تمہيں نصيحت کرتا ہوں کہ تمہارا شمار جا ہلوں ميں نہ ہو جا ئے نوح نے کہا کہ خدایا !ميں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس چيز کا سوال کروں جس کا علم نہ ہو اور اگر تو مجهے معاف نہ کرے گا اور مجه پر رحم نہ کرے گا تو ميں خسارہ اڻهانے والوں ميں ہو جا ؤں گا ” حضرت نوح عليہ السلام کوخداوندعالم سے اپنے اہل وعيال کی نجات کا سوال کرنے کا حق تها ليکن جوان کے اہل سے نہ ہو اس کو غرق ہو نے سے نجات دلانے کے سلسلہ ميں سوال کرنے کا کوئی حق نہيں تها ۔
ان کا بيڻا ان کے اہل ميں نہيں تها یہ الله کا حکم ہے اور حضرت نوح عليہ السلام کو پروردگار عالم کے قوانين اور احکام کی خلاف ورزی کرنے کا حق نہيں ہے ۔ ذرا حضرت نو ح عليہ السلام کے جواب پر غور وفکر کيجئے ۔
دعا ميں الله کی سنتوں کے امر کو سمجهنا ضروری ہے دعا کا کام ان سنتوں کوتوڑنا اور ان سے تجاوز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ ہودآیت ۴۵ سے ۴٧ ۔ )
کرنا نہيں ہے بلکہ دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ بندہ خدا وند عالم کی سنتوں اور اس کے قوانين کے دائرہ ميں رہ کرخداوند عالم سے سوال کرے ۔بيشک الله کی سنتيں ہميشہ الله کے ارادہ تکوینی کومجسم کرتی ہيں ،اور دعا کی شان الله کے ارادہ کے زیر سایہ ہے نہ اس سے تجا وز کرتی ہے اور نہ ہی اس کی حدود کو پارکر تی ہے ۔
خداوندعالم فرماتا ہے :
( <وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبدِْیلْاً >( ١
“اور تم خدا کی سنت ميں ہر گز تبدیلی نہيں پا ؤ گے ” نظام کا ئنات الله کے اس ارادہ کی مجسم شکل ہے جس کے بغير کا ئنات کا نظا م درست نہيں رہ سکتا ہے ،بندہ کےلئے اس کی تبدیلی کےلئے دعا کر نا صحيح نہيں ہے بيشک دعا بندوں کےلئے الله کی رحمت کے دروازوں ميں سے ایک دروازہ ہے ؛اور الله کا ارادہ ہميشہ اس کی رحمت کے مطابق ہو تا ہے اور بندہ کے لئے اس ميں تغير و تبدل کی دعا کرنا صحيح نہيں ہے ۔
ایک سنت دوسری سنت سے مختلف نہيں ہو سکتی ہے ،ہر سنت الله کے ارادہ کو مجسم کرتی ہے اور الله کا ارادہ اس کی اس رحمت اور حکمت کو مجسم کرتا ہے جس سے بلند نہ کو ئی رحمت ہے اور نہ حکمت ہے۔چا ہے وہ تکوینی سنتيں ہوں یا تاریخی اور اجتماعی سنتيں ہوں ۔
یہ الله کی سنت ہے جو لوگ بعض دوسر ے لوگوں سے اپنے دین ودنيا کے سلسلہ ميں سوال کيا کرتے ہيں اور انسان کا اللهسے اور ایک دوسرے سے بے نياز رہنے کا سوال کرنا صحيح نہيں ہے چونکہ اس طرح کی دعا کرنابا لکل الله کی سنت اور اس کے ارادہ کے خلاف ہے ۔
حدیث ميں حضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :
<اللّهم لاتحوجني الیٰ احد من خلقک >
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ فا طر آیت/ ۴٣ ۔ )
“خدا یا مجه کو اپنی مخلوق ميں سے کسی کا محتاج نہ بنا” رسول الله (ص)نے فرمایا :اس طرح مت کہو چونکہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے :
حضرت علی عليہ السلام نے عرض کيا :پهر ميں کيسے کہوں یا رسول الله ؟ رسول الله (ص) نے فرمایا :
( <اللّهم لاتحوجني إلی شرارخلقک >( ١
“پروردگارا !مجهے اپنی شریر مخلوق ميں سے کسی کا محتاج نہ کرنا ” شعيب نے حضرت ابو عبد الله عليہ السلام سے نقل کياہے کہ آپ سے عرض کيا گيا:
“ادعُ الله یغنيني عن خلقہ۔قال:انّ اللّٰہ قسّم رزق مَن شاء علیٰ یدی مَن ( شاء،ولکن اساٴل اللّٰہ اٴن یغنيک عن الحاجة التي تضطرک الیٰ لئام خلقہ”( ٢
“ آپ یہ دعا فرما دیجئے کہ خدا مجه کو مخلوق سے بے نياز کر دے آپ نے فرمایا :اللهنے رزق کو کسی نہ کسی کے ذریعہ تقسيم کيا ہے لہٰذا تم خداوندعالم سے یہ دعا کرو کہ خدا مجهکو بر ے لوگوں کے سامنے اپنی حاجت بيان کرنے پر مجبور نہ کرے ”
دعا کے اس طریقہ سے دعا کر نے ميں ہم یہ دیکهتے ہيں کہ اسلامی روایات ميں دعا ئيں کرنے کا ایک واقعی محدود دائر ہ ہے اور غير واقعی اور خيالی دائروں سے دعا خارج ہے ۔
حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :
( “اٴنہ ساٴلہ شيخ من الشام :اٴي دعوة اٴضلّ؟فقال:“الداعي بمالایکون”( ٣ “آپ سے شام کے ایک بزرگ نے سوال کيا :سب سے زیادہ گمراہ کُن کو نسی دعا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۵ ۔ )
١١٧ حدیث صفحہ / ٨٩۴۶ ۔ : ٢)اصول کافی صفحہ / ۴٣٨ ،وسائل اشيعہ جلد ۴ )
٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۴ ۔ )
آپ نے فرمایا :“نہ ہو نے والی چيز کيلئے دعاکرنا ”
حيات بشری ميں نہ ہو نے والی چيز الله کی متعارف سنتوں کے دائرہ حدود سے خارج ہے ان ميں واقعی و حقيقی طور پر کو ئی تفکر نہيں کيا جا سکتا ہے ۔
عدةالداعی ميں امير المو منين سے مر وی ہے :
( <مَن ساٴل فوق قدرہ استحق الحرمان >( ١
“جس نے اپنی مقدار سے زیادہ سوال کيا وہ اس سے محروم ہو نے کا مستحق ہے ”
ہمارے عقيدے کے مطابق (فوق قدرہ )کے ذریعہ ان چيزوں کے بارے ميں سوال کيا جاتا ہے جن کو حقيقی طور پر طلب نہيں کيا جاتاہے ۔

٢۔حل نہ ہونے والی چيزوں کيلئے دعا کرنا
جس طرح نہ ہونے والی چيزوں کے بارے ميں سوال اور دعا نہيں کرنا چاہئے اسی طرح حلال نہ ہونے والی چيزوں کيلئے دعا کرنا بهی سزا وار نہيں ہے اور یہ دونوں ایک ہی باب سے ہيں پہلی بات الله کے ارادئہ تکو ینيہ سے خارج ہے اور دوسری بات الله کے تشریعی ارادہ سے خارج ہے ۔
الله تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :
( <اِن تَستَْغفِْرلَْهُم سَبعِْينَْ مَرَّةً فَلَن یَغفِْرَاللهُ لَهُم>ْ( ٢
“اگر ستر مرتبہ بهی استغفار کریں گے تو خدا انهيں بخشنے والا نہيں ہے ” امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں :
( <لاتساٴل مالایکون ومالایحلّ >( ٣
“نہ ہو نے والی اور غير حلال چيزوں کے متعلق سوال نہ کرو”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالا نوار جلد ٩٣ صفحہ / ٣٢٧ حدیث/ ١١ ۔)
( ٢)سورئہ توبہ آیت/ ٨٠ ۔
٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۴ ۔ )


٣۔دوسروں کی نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنا
انسان کا الله سے یہ دعا کرنا کہ وہ دوسروں کی نعمتوں کو مجهے دیدے تو ایسی دعا کرنا جائز نہيں ہے :خداوند عالم فرماتا ہے :
( <وَلَا تَتَمَنَّواْمَافَضَّلَ اللهُ بِہِ بَعضَْکُم عَل یٰ بَعضٍْ >( ١
“اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچه زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرنا ”
انسان کا الله سے نعمتوں کی آرزو کرنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے اور اس کے اس آرزو کرنے ميں بهی کوئی حرج نہيں ہے کہ جس طرح دوسروں کو نعمت دی ہے ہم کو بهی بلکہ دوسروں سے زیادہ ہم پر فضل وکرم کرے ليکن خدا وند عالم اپنے بندوں سے اس چيز کو پسند نہيں کرتا کہ جن بندوں کو اس نے نعمت دی ہے وہ ان نعمتوں کو دیرتک ڻکڻکی باندهے دیکهتا رہے ۔
خدا وندعالم فرماتا ہے :
( <وَلَاتَمُدَّ نَّ عَينَْيکَْ اِل یٰ مَامَتَّعنَْابِہِ اَزوَْاجاً مِنهُْم زَهرَْةَالحَْ وٰيةِالدُّنيَْا>( ٢
“اور خبر دار ہم نے ان ميں سے بعض لوگوں کو دنيا کی اس ذرا سی زندگی کی رونق سے مالا مال کر دیا ہے اس کی طرف آپ آنکه اڻها کر بهی نہ دیکهيں ” خداوندعالم اس بات کو بهی دوست نہيں رکهتا ہے کہ انسان دوسروں کی نعمتوں کو اپنی طرف منتقل کرنے کی آرزو کرے۔بيشک اس طرح کی تمنا کر نے کا مطلب دوسروں سے نعمت چهيننا ہے اور خداوند عالم اس چيز کو اپنے بندوں سے پسند نہيں کرتا ہے ،یہ تو تنگ نظری اور اپنی حيثيت سے زیادہ تمنا اور آرزو کرنا ہے جس کو الله تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے با لکل پسند نہيں کرتا ہے بيشک الله کی سلطنت و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ نسا ء آیت/ ٣٢ ۔ )
٢)سورئہ طہ آیت/ ١٣١ ۔ )
با دشاہت وسيع ہے ،ا س کے خزانے ختم ہو نے والے نہيں ہيں ،اس کے ملک کی کو ئی حد نہيں ہے اور انسان کے الله سے ہر چيز کا سوال کرنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے ہاں، یہ تمنا و آرزو کرسکتا ہے کہ خدا اس کو دوسروں سے بہتر رزق عطا فر ما ئے ۔دعا ميں وارد ہوا ہے :
<اللّهم آثرنیْ ولاتوٴثرعليّ احداً>
“خدایا مجه کو منتخب فرما مجه پر کسی کو ترجيح نہ دے ” <وَاجعَْلنِْي مِن اَفضَْلِ عِبَادِکَ نَصِيبْاًعِندَْک،ْوَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَدَیکَْ >
“اور مجهے ان بندوں ميں قرار دے جو حصہ پانے ميں تيرے نزدیک سب سے اچهے ہوں اور تيرے قرب ميں بڑی منزلت رکهتے ہوں ”
ا ن تمام چيزوں کے خدا وند عالم سے ما نگنے ميں کو ئی حرج نہيں ہے اور الله بهی ان تمام چيزوں کو دو ست رکهتا ہے ،اور ہما رے پرور دگار کو اس چيز کا ارادہ کرنے کی ضرورت نہيں ہے کہ جب وہ اپنے کسی بندہ کو کو ئی نعمت عطا کر نے کا ارادہ کرے تو وہ اس بندہ سے چهين کر کسی دو سرے بندہ کو عطا کردے ۔
عبدالرحمان بن ابی نجران سے مروی ہے کہ :حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے الله کے اس قول<وَلَا تَتَمَنَّواْمَافَضَّلَ اللهُ بِہِ بَعضَْکُم عَل یٰ بَعضٍْ >( ١)“اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچه زیادہ دیا ہے ”کے سلسلہ ميں سوال کيا گيا تو آپ نے فرمایا:
( <لایتمنی الرجل امراٴة الرجل ولاابنتہ ولکن یتمنّی مثلها>( ٢
“انسان کو کسی کی عورت یا اس کی بيڻی کی تمنا نہيں کرنی چا ہئے بلکہ اسکے مثل کی تمنا کرناچا ہئے ’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ نسا ء آیت/ ٣٢ ۔ )
٢)تفسير عياشی صفحہ ٢٣٩ ۔ )


۴۔مصلحت کے خلاف دعا کرنا
انسان کا اپنی مصلحت کے خلاف دعا کرنا سزاوار نہيں ہے ،جب انسان دعا کے نفع اور نقصان سے جاہل ہوتا ہے ليکن الله اس کو جانتا ہے خدا وند عالم دعا کو کسی دوسری نعمت کے ذریعہ مستجاب کرتا ہے یا بلا دور کردیتا ہے یا جب تک اس دعا ميں نفع دیکها ہے اس کے مستجاب کرنے ميں تا خير کردیتا ہے ،دعا افتتاح ميں وارد ہوا ہے:
<اٴَ ساْٴَلُکَ مُستَْانِساً لَاخَائِفاًوَلَاوَجِلاً ،مُدِلّاًعَلَيکَْ فِيمَْاقَصَدتُْ فِيہِْ اِلَيکَْ ،فَاِن اَبطَْاٴعَنِّي عَتَبتَْ بِجَهلِْي عَلَيکَْ، وَلَعَلَّ الَّذِي اَبطَْاٴعَنِّی هُوَخَيرٌْلِي لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَة الاُْمُورِْ۔فَلَم اٴَرِمَولْیً کَرِیمْاًاَصبِْرُعَل یٰ عَبدٍْ لَئِيمٍْ مِنکَْ عَلَيَّ یَارَبِّ >
“اور انس و رغبت کے ساته بلا خوف وخطر اور ہيبت کے تجه سے سوال کرتا ہوں جس کا بهی ميں نے تيری جانب ارادہ کيا ہے اگر تو نے ميری حا جت کے پورا کرنے ميں دیر کی تو جہالت سے ميں نے عتاب کيا اور شاید کہ جس کی تا خير کی ہے وہ ميرے لئے بہتر ہو کيو نکہ تو امور کے انجام کاجا ننے والا ہے ميں نے نہيں دیکها کسی کریم مالک کو جولئيم بندہ پر تجه سے زیادہ صبر کرنے والا ہو ” دعا ميں اس طرح کے حالات ميں انسان کو اللهسے دعا کر نا چاہئے اپنے تمام امور اسکے حوا لہ کردینا چاہئے ،جب بندہ اپنی دعا کے قبول ہو نے ميں دیر دیکهے یا اسکی دعا مستجاب نہ ہو رہی ہو تو اسے الله سے ناراض نہيں ہو نا چا ہئے ليکن کبهی کبهی انسان خدا وند عالم سے ان چيزو ں کا سوال کرتا ہے جو اس کےلئے مضر ہو تی ہيں ،کبهی کبهی وہ خير طلب کرنے کی طرح شر(برائی ) طلب کرتا ہے اور اپنے لئے نقصان دہ چيزوں کےلئے جلدی کيا کرتا ہے ۔
خداوندعالم فرما تا ہے :
( <وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ ہُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً> ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)اسرا آیت/ ١١ ۔ )
“اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”
حضرت صالح عليہ السلام نے اپنی قوم سے مخا طب ہو کر فرمایا : ( <قَالَ یَاقَومِْ لِمَ تَستَْعجِْلُونَْ بِالسَّيِّئَةِ قَبلَْ الحَْسَنَةِ >( ١
“صالح نے کہا کہ قوم والو آخر بهلا ئی سے پہلے برا ئی کی جلدی کيوں کر رہے ہو ”
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : اپنی نجات کے راستوں کو پہچانو کہ کہيں تم اس ميں وہ دعا نہ کر بيڻهو جو تمہاری ہلا کت کا باعث بن جا ئےں اور تم اس کو اپنے لئے نجات کا باعث سمجهتے رہو خداوندعالم فرما تا ہے :
( <وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ ہُ بِالخَْيرِْوَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً >( ٢ “اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برائی کی دعا ما نگنے لگتا ہے اور انسان تو بڑا جلد باز ہے ”

۵۔فتنہ سے پنا ہ مانگنا
فتنہ سے پناہ مانگنا صحيح نہيں ہے چو نکہ انسان کی زوجہ ،اولاد اور اس کا مال فتنہ ہيں اور نہ ہی انسان کا اپنے اہل و عيال اور ما ل کے لئے الله کی پناہ ما نگنا صحيح ہے ليکن انسان کا گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ چا ہنا صحيح ہے ۔
حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :
لایقولَنّ احدکم:اللّهم انّي اعوذ بک من الفتنة؛لاٴنّہ ليس من احد إلاٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)سورئہ نمل آیت/ ۴۶ ۔ )
٢)بحا رالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٢ ؛سورئہ اسر ١آیت/ ١١ ۔ ) وهومشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فليستعذمن مضلاّت الفتن؛فانّ الله یقو ل : (٢)<( وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ( ١
“تم ميں سے کو ئی ایک بهی یہ نہ کہے کہ ميں فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں چونکہ تم ميں سے ہر ایک فتنہ گرہے ليکن تم فتنوں کی گمراہی سے پناہ مانگواور خداوند عالم اس سلسلہ ميں فرماتا ہے :
“اور جان لو !کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہيں ” ابو الحسن الثالث عليہ السلام نے اپنے آبا ؤو اجد اد عليہم السلام سے نقل کيا ہے :ہم نے امير المو منين عليہ السلام سے ایک شخص کو یہ کہتے سُنا :
<اَللَّهُمَّ اِنِّی اَعُوذُْبِکَ مِنَ الفِْتنَْةِ>
“اے پروردگار ميں تجه سے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ” امام عليہ السلام نے فرما یا :ميں یہ دیکهتا ہوں کہ تم اپنے مال اپنی اولاد سے پناہ ما نگ رہے ہو چونکہ خداوندعالم فرما تا ہے :
( <وَاعلَْمُواْاَنَّمااَموَْالَکُم وَاَولَْادَکُم فِتنَْةٌ >( ٣
“تمہا رے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے صرف امتحان کا ذریعہ ہيں ” ليکن یہ کہو :
( <اللّهم انّي اعوذ بک من مضلاّت الفتن>( ۴
“اے پروردگار ميں تجه سے گمراہ کر نے والے فتنوں سے پناہ ما نگتا ہوں ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انفال آیت/ ٢٨ ۔ )
٢)نہج البلاغہ القسم الثانی : ١۶٢ ۔ )
٣)سورئہ تغا بن آیت/ ١۵ ۔ )
۴)امالی طوسی جلد ٢ صفحہ/ ١٩٣ ؛بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۵ ۔ )


۶۔مومنين کے لئے بد دعا کر نا
دعا کی اہميت اور اس کی غرض و غایت ميں سے ایک چيز مسلمان خاندانوں کے مابين را بطہ کا محکم کرنا اور ان کے درميا ن سے غلط فہميوں اورجهگڑوں کو دور کرنا ہے جو عام طور سے دنياوی زندگی ميں مزاحمت کا سبب ہو تے ہيں ،غائب شخص کےلئے دعا کرنا اس رابطہ کا سب سے بہترین سبب ہے جو زندگی کے مائل ہو نے کو پيش کرتا ہے ،البتہ اس کے برعکس ایسے حالات جو تعلقات ميں منفی صورت حال پيداکرتے ہيں ان حالات ميں پروردگار عالم دعا کرنے کو دوست نہيں رکهتا ہے ۔
خدا وندعالم مومنين کے ایک دوسرے کی موجودگی ميں دعا کرنے دعا کے ذریعہ ایک ایک دوسرے پر ایثار و فدا کاری کرنے اور دعا کرنے والے کے دوسرے کی حاجتوں اور ان کے اسماء کو اپنے نفس پر مقدم کرنے کو دوست رکهتا ہے ۔
خدا وند عالم دعا ميں اپنے دوسرے بهائی کی نعمتوں کے زائل وختم ہو نے کی دعا کرنے کو پسند نہيں کرتا ہے ،جيسا کہ ہم ابهی بيان کرچکے ہيں ۔
اور نہ ہی خدا وند عالم دعا ميں کسی انسان کے اپنے مومن بهائی کے خلاف دعا کرنے کو پسند کرتا ہے ، اگر چہ اس نے اس کو تکليف یا اس پر ظلم ہی کيوں نہ کيا ہو (اگر وہ اس کا ایمانی بهائی ہو اور ظلم کرکے ایمانی برادری کے دائرہ سے خارج نہ ہوا ہو )اور نہ ہی خدا وند عالم اس چيز کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کو برا ئی کے ساته یا دکریں ۔
دعوات را وندی ميں ہے کہ توریت ميں آیا ہے کہ خدا وند عالم اپنے بندے سے فرماتاہے:
<انّک متیٰ ظلمت تدعوني علیٰ عبد من عبيدي من اجل انّہ ظلمک۔ فلک من عبيدي من یدعوعليک من اجل انّک ظلمتہ۔فان شئت اجبتک و اجبتہ منک،وان شئت ( اخرتکما الیٰ یوم القيامة >( ١
“خداوند عالم اپنے بندہ سے خطاب کرتا ہے کہ جب تجه پر ظلم کيا جاتا ہے تو تو اس ظلم کی وجہ سے اس کے خلاف بد دعا کرتاہے تو تجهے یہ بهی معلوم ہونا چاہئے کہ کچه بندے ایسے بهی ہيں کہ جن پر تم نے ظلم کيا ہے اور وہ تيرے لئے بددعا کرتے ہيں تو اگر ميری مرضی ہو تی ہے تو ميں تيری دعا قبول کرليتا ہوں اور اس بندے کی دعابهی تيرے حق ميں قبول کرليتا ہوں ”
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے : <اذا ظلم الرجل فظلّ یدعوعلیٰ صاحبہ،قال اللّٰہ عزّوجلّ:انّ ها هناآخر یدعو عليک یزعم انّک ظلمتہ،فان شئت اجبتک واجبت عليک وان شئت اخّرتکما ( فيوسعکماعفوي>( ٢
“جب کو ئی انسان پر ظلم کرتا ہے اور وہ بد دعا کرتا ہے تو خداوند عالم فر ماتا ہے کہ کل جب تم کسی پر ظلم کروگے تو وہ تمہارے لئے بد دعا کرے گا پس اگر چا ہو تو ميں دونوں کی بد دعا قبول کرلونگا اور اگر چاہو تو ميں اس کو قيامت تک کےلئے ڻال دونگا ”
ہشام بن سالم سے مروی ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا ہے :
( <انّ العبد ليکون مظلوما فلایزال یدعوحتّیٰ یکون ظالماً >( ٣ “جب کو ئی مظلوم بد دعا کرتا ہے تو وہ ظالم ہو جاتا ہے ” حضرت علی بن الحسين عليہ السلام سے مروی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢۶ ۔ )
٢)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ / ١١٧٧ ،حدیث ٨٩٧٢ ؛امالی الصدوق صفحہ / ١٩١ ۔ )
٣)اصول کا فی صفحہ ۴٣٨ ؛عقاب الاعمال صفحہ ۴١ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ) ١١۶۴ ،حدیث ٨٩٢۶ ۔
<ان الملائکة اذاسمعواالموٴمن یذکراٴخاہ بسوء ویدعوعليہ قالوا لہ:بئس الاخ انت لاخيک کفّ ایّهاالمستّرعلیٰ ذنوبہ وعورتہ،واٴربع علیٰ نفسک،و احمداللّٰہ الَّذي ( سترعليک،واعلم اَّن اللّٰہ عزّوجلّ اعلم بعبدہ منک >( ١
“جب ملا ئکہ سنتے ہيں کہ مو من اپنے کسی بها ئی کی برا ئی اور اس کےلئے بد دعا کر رہا ہے تو کہتے ہيں کہ تو بہت برا بها ئی ہے اے وہ شخص جس کے گناہ کی خداوند عالم نے پردہ پو شی کر رکهی ہے تو اپنی زبان کو قابو ميں رکه اس خدا کی تعریف کر جس نے تيرے گناہ کی پردہ پوشی کی ہے اور تجهے معلوم ہونا چا ہئے کہ خداوند عالم کو تيرے مقابلہ ميں اپنے بندے کے بارے ميں زیادہ علم ہے ”
بيشک الله تبارک وتعالےٰ“ السلام ”ہے ،سلام اسی کی طرف پلڻتا ہے ،ذات خدا سلا متی سے برخوردار ہے، سلامتی اسی کی طرف پلڻتی ہے ،سلا متی اسی کی جا نب سے ہے ،اس کا دربار، سلا متی کا دربار ہے ۔جب ہم سلام و سلا متی سے بهرے دلوں سے خداوند عالم کی با رگاہ ميں حا ضر ہو ں گے ، ایک دو سرے کيلئے دعا کریں گے ،اور ہم ميںسے بعض دو سرے بعض افراد کيلئے رحمت کا سوال کریں گے ،اور ہم ميں سے بعض کی دعائيں الله کی رحمت نازل ہو نے ميں موٴ ثر ہوں گی تو ہم پر جو الله کی رحمت نازل ہو گی وہ سب کو شامل ہو گی ،بيشک خداوند عالم کی رحمت محبت اور سلامتی کے مقامات پر نا زل ہو تی ہے ،جو قلوب مو منين سے محبت و مسالمت کرتے ہيں ،ہمارے اعمال ،نمازیں ،دعا ئيں ، اور قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلندہوتے ہيں کلم طيب(پاکيزہ کلمات ) اور کلم طيب (پاکيزہ کلمات ) سے زندہ قلوب الله تبارک و تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہيں : ( <اِلَيہِْ یَصعَْدُالکَْلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَْمَلُ الصَّالِحُ یَرفَْعَہُ >( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)اصول کا فی صفحہ ۵٣۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١۶۴ ،حدیث / ٨٩٢٧ ۔ )
٢)سورئہ فا طر آیت/ ١٠ ۔ )
“پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا ہے ”
جب ہم الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ميں ایسے ڻيڑهے اورکينہ بهر ے دل جن ميں محبت وسلامتی نہ ہواُن کے ساته کهڑے ہو کر ایک دوسرے مومن کے خلاف دعا کریں گے تو ہم سے خدا کی تمام نعمتيں منقطع ہو جا ئينگی ،اور اس کا ئنات ميں خدا کی وسيع رحمت ہم پر نازل نہيں ہو گی ،اور ہمارے اعمال، نماز یں، دعائيں اور قلوب الله تک نہيں پہنچ پائيں گے ۔
بيشک محبت سے لبریز اور محبت سے زندہ دلوں کے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہو تی ہے اور مو منين سے بلائيں اور عذاب دور ہو تا ہے اس کے برخلاف (مومنوں کے )مخالف اور دشمن دلوں کے ذریعہ ان سے الله کی رحمت دور ہو تی ہے اور ان کے لئے بلائيں اور عذاب کو نزدیک کرتی ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے آبا ؤاجدا دسے اور انهوں نے حضرت رسول خدا سے نقل کيا ہے :
<انّ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ إذا راٴی اهل قریة قد اسرفوا في المعاصي وفيهم ثلاثة نفرمن الموٴمنين،ناداهم جلّ جلالہ:یااٴهل معاصيتی،لولا فيکم من الموٴمنين المتحاببين بجلا لي العامرین بصلاتهم ارضي ومساجدي المستغفرین بالاسحار خوفاً ( مني لاٴنزلت بکم العذاب >( ١
“بيشک جب الله تعالیٰ نے ایک قریہ کے لوگوں کو معصيت ميں زندگی بسر کرتے دیکها حالانکہ ان کے مابين صرف تين افراد مو من تهے تو پروردگار عالم کی طرف سے ندا آئی :اے گناہ کرنے والو!اگر تمہارے درميان محبت سے بهرے دل نہ ہو تے جو اپنی نمازوں کے ذریعہ ميری زمين کو آباد رکهتے ہيں اور مسجدوں ميںسحر کے وقت ميرے خوف کی وجہ سے استغفار کيا کرتے ہيںتو ميں تم پر عذاب نازل کردیتا ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحا رالانوار جلد ٧۴ صفحہ ٣٩٠ ۔ )
جميل بن دراج نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : <مَن فضّل الرجل عند اللّٰہ محبّتہ لاخوانہ،ومن عرّفہ اللّٰہ محبّة اخوانہ احبّہ اللّٰہ ( ومَن احبّہ اللّٰہ اٴوفاہ اجرہ یوم القيامة >( ١
“الله کے نزدیک وہ شخص با فضيلت ہے جو اپنے بها ئيوں سے محبت کرتا ہے اور جس کو خدا وند عالم اس کے بها ئيوں کی محبت سے آشنا کردیتا ہے اس کو دو ست رکهتا ہے اور جس کو دو ست رکهتا ہے اس کو قيامت کے دن پورا اجر دیگا ” حضرت رسول خدا (ص)سے مروی ہے :
<لاتزال امتی بخيرماتحابوا،واٴدّو الامانة،وآتواالزکاة،وسياٴتي علیٰ امتي زمان تخبث فيہ سرائرهم،وتحسن فيہ علانيتهم ان یعمّهم اللّٰہ ببلاء فيدعونہ دعاء ( الغریق فلایستجاب لهم >( ٢
“ميری امت اس وقت تک نيک رہے گی جب تک اس کے افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے رہيں ،امانت ادا کرتے رہيں ،زکات دیتے رہيں ،مير ی امت پر ایک ایسا زمانہ آئيگا جب ان کے باطن برے ہوں گے اور ان کا ظاہر اچها ہوگا اور اگر خدا وند عالم ان کو کسی مصيبت ميں مبتلا کرے گا اور وہ ڈوبتے شخص کے مثل بهی دعا ما نگيں گے تو بهی ان کی دعا قبول نہ ہو گی ”

محبت بهرے دلوں سے خداکی رحمت نازل ہو تی ہے
حضرت امام جعفر دق عليہ السلام سے مروی ہے :
<انّ الموٴمنين اذاالتقيا فتصافحا انزل اللّٰہ تعالیٰ الرحمة عليهما،فکانت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)ثواب الاعمال صفحہ/ ۴٨ ؛بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ٣٩٧ ۔ )
٢)عدة الداعی صفحہ ١٣۵ ،بحارالانوار جلد ٧۴ صفحہ / ۴٠٠ ۔ )
تسعة وتسعين لاٴشدّهماحبّالصاحبہ،فاذا تواقفاغمرتهماالرحمة،واذاقعدایتحدثان قالت الحفظة بعضهالبعض:اعتزلوا بنا فلعل لهماسرّا وقد ستراللّٰہ عليهما >
“بيشک جب مو منين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں مصافحہ کرتے ہيں تو خداوند عالم ان دونوں پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے ان ميں سے ننانوے رحمتيں اس شخص کيلئے ہيں جو ان ميں اپنے دوسرے بهائی سے زیادہ محبت رکهتا ہے اور جب ان ميں توافق ہو جاتا ہے تو دونوں کو رحمت خدا گهير ليتی ہے اور جب وہ دونوں گفتگو کرنے کيلئے بيڻهتے ہيں تو نا مہ ٴ اعمال لکهنے والے فرشتہ کہتے ہيں کہ ان دونوں سے دور ہو جاؤ چونکہ یہ راز کی باتيں کررہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ”
اسحاق بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : “انّ الموٴ منين اذااعتنقاغمرتهماالرحمة فاذاالتزما لایریدان عرضاً من اعراض الدنياقيل لهما:مغفور لکما فاٴستاٴنفا؛فاذااقبلا علی المساء لة قالت الملا ئکة بعضها لبعض:تنحّواعنهما؛فانّ لهماسرّا قد ستراللّٰہ عليهما۔ قال اسحق :فقلت:جعلت فداک،ویکتب عليهمالفظهماوقد قال اللّٰہ تعالیٰ <مَایَلفِْظُ مِن قَولٍْ اِلّالَدَیہِْ رَقِيبٌْ عَتِيدٌْ>( ١)؟قال فتنفس ابوعبد اللّٰہ الصعداء ثم بکی و قال:یااسحق ،انّ اللّٰہ تعالیٰ انماامرالملائکة اٴن تعتزل الموٴمنين اذا التقيااجلالاً لهما،وان کانت الملائکة لاتکتب لفظهما،ولاتعرف کلاهما،فانہ یعرفہ ویحفظہ ( عليهماعالم السر واخفیٰ”( ٢
“بيشک جب مومنين ایک دوسرے سے گلے ملتے ہيں اور مصافحہ کرتے ہيں توان دونوں کو رحمت گهير ليتی ہے جب وہ بے لوث انداز ميں ایک دو سرے سے چمٹ جاتے ہيں تو ان سے کہا جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورہ ٴ ق آیت/ ١٨ ۔ )
٢)معالم الزلفیٰ للمحدث البحرانی صفحہ / ٣۴ ۔ )
ہے کہ تمہارے سب گنا ہ بخش دئے گئے لہٰذا اب شروع سے نيک عمل انجام دو ،جب وہ ایک دو سرے سے کچه چيز دریافت کرنے کی جا نب بڑهتے ہيں تو فرشتے ایک دو سرے سے کہتے ہيں ان دونوں سے دور ہو جاؤ کيونکہ یہ راز کی بات کر رہے ہيں اور خداوند عالم نے ان کی پردہ پوشی کی ہے ۔
اسحاق کا کہنا ہے کہ ميں نے آپ کی خدمت اقدس ميں عرض کيا :ميری جان آپ پر فدا ہو کيا ان دو نوں کے الفاظ لکهے جاتے ہيں جبکہ خداوند عالم فر ماتا ہے مو من جوبهی بات کرتا ہے اس کے پاس ایک نگراں فرشتہ مو جود ہوتا ہے اس وقت حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے فر مایا :اے اسحاق خداوند عالم نے فرشتوں کو مو منين سے ان کے ملاقات کے وقت جدا رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے تا کہ ان مو منين کی تعظيم کرسکے اور فرشتے اگر چہ ان کے الفاظ نہيں لکهتے اور ان کے کلا م کو نہيں پہچانتے ليکن خداوند عالم تو پہچانتا ہی ہے جو راز اور مخفی باتوں کا جاننے والا ہے ”