دعا عند اهل بيت(جلد دوم)
 

٣۔والدین کےلئے دعا !
والدین کے ساته نيکی کرنا ان کے حق ميں دعاکرنا ہے اور نيز ان کے ساته احسان کرنے کے بہت زیادہ مصادیق ہيں۔
انسان اُن کی طرف سے صدقہ د ے ،ان کی طرف سے حج بجا لائے ،ان کی نماز یں ادا کر ے ،ان کيلئے دعا کرے وغير ہ وغيرہ ۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :
<مایمنع الرجل منکم ان یبرّ والدیہ حيےن اوميتين یصلي عنهما،و یتصدق عنهما،ویصوم عنهما ،فيکون الذي صنع لهما،ولہ مثل ذالک،فيزیدہ اللّٰہ عزَّوجلَّ ببرِّہ (وصلتہ )خيراً کثيراً>
“تم ميں سے ہر انسان کو اپنے والدین کے ساته نيکی کرنا چاہئے چا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ ان کی نماز یں اداکر ے ،ان کی طرف سے صدقہ دے، حج بجالائے اور ان کے روز ے رکهے پس جو کچه وہ ان کيلئے کرے گا ویسا ہی اس کيلئے ہو گا الله عزوجل اس کی نيکيوں اور صلہ ميں بہت زیادہ اضافہ کرے گا ”
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے ہی مروی ہے :
کان ابی یقول:خمس دعوات لایحجبن عن الرّب تبارک وتعالیٰ : ١۔دعوة الامام المقسط ۔
٢۔و دعوة المظلوم،یقول اللّٰہ عزّوجلّ :لاٴنتقمن لک ولوبعد حين ۔ ۴۔ودعوة الوالد الصالح لولدہ ۔
( ۵۔ودعوة الموٴمن لاخيہ بظہرالغيب،فيقول:ولک مثلاہ ۔ ( ١ “ميرے والد بزرگوار کا فرمان ہے :پانچ دعائيں ایسی ہيں جن کے مابين الله سے کوئی حجاب نہيں :
١۔عادل امام کی دعا ۔
٢۔مظلوم کی دعا ،الله عزوجل کہتا ہے :ميں تيرا انتقام ضرور لوں گا اگر چہ کچه مدت کے بعد ہی کيوں نہ لوں۔
٣۔نيک اولاد کی اپنے والدین کيلئے دعا ۔
۴نيک باپ کا اپنے فرزند کيلئے دعا کرنا ۔
۵۔مومن کا اپنے غائب (غير حاضر )بهائی کيلئے دعا کرنا ،اس سے کہا جاتا ہے :تمہارے لئے بهی اس کے مثل ہے” والدین کےلئے دعا کر نے کے سلسلہ ميں صحيفہ سجادیہ ميں دعا وارد ہوئی ہے :
<اَللَّهُمَّ صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَذُرِّیَّتِہِ وَاخصُْص اَبَوَيَّ بِاَفضَْلِ مَاخَصَصتَْ بِہِ آبَاءَ عِبَادِکَ المُْوٴمِْنِينَْ وَاُمَّهَاتِهِم یَااَرحَْمَ الرَّاحِمِينَْ اَللَّهُمَّ لَاتُنسِْنِي ذِکرَْهُمَافِي اَدبَْارِصَلَوَاتِي کلّ آن وَفِي اِناًمِن آنَاءِ لَيلِْي وَفِي کُلِّ سَاعَةٍ مِن سَاعَاتِ نَهَارِي اَللَّهُمَّ صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَاغفِْر لِي بِدُعَائِي لَهُمَاواَغفِْرلَْهُمَابِبِرِّهِمَا بِي مَغفِْرَةً حتماً وَارضَْ عَنهُْمَابِشَفَاعَتِي لَهُمَارِضیً عَزمْاًوَبَلِّغهُْمَابِالکَْرَامَةِ مَوَاطِنَ السَّلَامَةِ اَللَّهُمَّ وَاِن سَبَقَت مَغفِْرَتِکَ لَهُمَافَشَفِّعهُْمَافِيَّ وَاِن سَبَقَت مَغفِْرَتَکَ لِي فَشَفِّعنِْي فِيهِْمَاحَتی نَجتَْمِعَ بِرَا فَتِکَ فِی دَارِ کَرَامَتِکَ وَمَحَلِّ مَغفِْرَتِکَ وَرَحمَْتِکَ>
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴،حدیث / ٨٨٩۵ ۔ / ١)وسا ئل الشيعہ جلد ١١۵٣ )
“خدایا محمد وآل محمد پر رحمت نا زل فرما اور ميرے والدین کو وہ بہترین نعمت عطا فرما جو تو نے اپنے بندگان مو منين ميں کسی والدین کو بهی عطا فر ما ئی ہے اے سب سے زیادہ رحم کر نے والے ، خدا یا ! مجهے ان کی یاد سے غافل نہ ہو نے دینا نہ نمازوں کے بعد اورنہ رات کے لمحات ميں اور نہ دن کی ساعات ميں ،خدایا! محمد وآل محمد پر رحمت نا زل فرما اور ميری دعا ئے خير کے سبب انهيں بخش دے اور ميرے ساته ان کی نيکيوں کے بدلہ ان کی حتمی مغفرت فرما اور ميری گذارش کی بنا پر ان سے مکمل طور پر راضی ہو جا اور اپنی کرا مت کی بنا پر انهيں بہترین سلا متی کی منزل تک پہنچا دے ،اور خدایا! اگر تو انهيں پہلے بخش چکا ہے تو اب انهيں ميرے حق ميں شفيع بنا دے اور اگر ميری بخشش پہلے ہو جا ئے تو مجهے ان کے حق ميں سفارش کا حق عطا کردینا کہ ہم سب ایک کرامت کی منزل اور مغفرت و رحمت کے محل ميں جمع ہو جا ئيں ”


۴۔اپنی ذات کيلئے دعا !
یہ دعا کی منزلوں ميں سے آخری منزل ہے پہلی منزل نہيں ہے ۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ اسلام انسان سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ دنياوی زند گی ميں اپنے معيشتی امو ر ميں نيز دو سروں کے ساته معا ملہ کرنے کے سلسلہ ميں ناچيز سمجهے اور دو سروں کو خود پر ترجيح دے جس طرح اسلام انسان سے یہی مطالبہ دعا کے سلسلہ ميں بهی کرتا ہے ۔
ليکن انسان کو خداوندعالم کی بارگاہ ميں دعا کرتے وقت اپنے نفس کو فراموش نہيں کرنا چاہئے۔ ہم کو اپنی ذات کيلئے الله سے کيا سوال کرنا چاہئے ؟ اور ہميں کيسے دعا کر نا چا ہئے ؟
ہم اس سلسلہ ميں انشا ء الله عنقریب بحث کریں گے ۔

١لف۔ ہر لازم چيز کےلئے دعا !
ہم کو خدا وند عالم سے اپنی ضروریات کی وہ تمام چيزیں طلب کرنی چا ہئيںجو ہماری دنيا و آخرت کےلئے اہم ہيں۔ ہم کو اس سے ہر برائی اور شر سے اپنی دنيا و آخرت ميں دور رہنے کا سوال کرنا چا ہئے بيشک خير کی تمام کنجياں اور اس کے اسباب خدا وند عالم کے پاس ہيں کو ئی چيز اس کے ارادے کے متحقق ہو نے ميں ما نع نہيں ہو سکتی ہے ،نہ ہی کو ئی چيز اس کو عا جز کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے بندوں پر خير اور رحمت کرنے ميں بخل کر تا ہے ۔
جب خدا وند عالم کسی چيز کے عطا کرنے اور دعا مستجاب کرنے ميں کو ئی بخل نہيں کرتا ہے تو یہ کتنی بری بات ہے کہ انسان الله سے سوال اور دعا کرنے ميں بخل سے کام لے ۔
حدیث قدسی ميں آیا ہے :
<لوانّ اوّلکم وآخرکم وحيّکم وميّتکم اجتمعوا فتمنّیٰ کلّ واحد ما بلغت امنيّتہ ( فاٴعطيتہ،لم ینقص ذلک من ملکي>( ١
“اگر تمہارے پہلے اور آخری ،مردہ اور زندہ جمع ہو کر مجه سے اپنی اپنی آرزو بيان کریں تو ميں ہر ایک کی آرزو پوری کرونگا اور ميری ملکيت ميں کو ئی کمی نہيں آئيگی ”
رسول خدا (ص) سے مروی ہے کہ حدیث قدسی ميں آیا ہے :
<لوانّ اهل سبع سماوات واٴرضين ساٴلوني جميعاً،واعطيت کلّ واحد منهم ( مساٴلتہ مانقص ذلک من ملک وکيف ینقص ملک اٴنا قيّمہ>( ٢
“اگر سا توں زمين اور آسمان والے مل کر مجه سے سوال کریں تو ميں ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق عطا کرونگا اور ميری ملکيت ميں کو ئی کمی نہيں آ ئيگی اور کمی آئے بهی کيسے جب ميں نے ہی خود اس کو خلق کيا ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣ ۔ )
٢)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٣ ۔ )
رسول خدا (ص) سے مروی حدیث ميں آیا ہے : ( <سلوا اللهواجزلوا؛فانّہ لایتعاظمہ شيءٌ>( ١ “خداوند عالم سے مانگو اور زیادہ مانگو چو نکہ اس کے سامنے کو ئی چيز بڑی نہيں ہے ”
روایت کی گئی ہے :
<لاتستکثروا شيئاًمماتطلبون؛فماعنداللهاکثر>
“اپنی دعا ؤں ميں کسی چيز کو زیادہ مت سمجهو چونکہ خداوند عالم کے نزدیک جو کچه بهی ہے زیادہ ہے ”
اہل بيت عليہم السلام سے مروی روایا ت ميں دعا ميں ہر خير کی طلب اور ہر برائی سے دور رہنے کےلئے خدا وند عالم سے سوال کرنا عام طور پر بيان ہو ا ہے ۔ ہم ذیل ميں بعض نمونے بيان کر رہے ہيں :
رجب المرجب کے مہينہ ميں نماز کے بعد یہ دعا پڑهنا وارد ہوا ہے : <یَامَن یُعطِْي الکَْثِيرَْبِالقَْلِيلِْ یَامَن یُعطِْي مَن سَاٴلَہُ یَامَن یُعطِْي مَن لَم یَساْٴَلہُْ وَمَن لَم یَعرِْفہُْ تَحَنُّنَامِنہُْ وَرَحمَْةً اَعطِْنِي بِمَسٴْلَتِي اِیَّاکَ جَمِيعََ خَيرِْالدُّنيَْاوَجَمِيعَْ خَيرِْ الآخِرَةِ وَاصرِْف عَنِّي بِمَسئَْلَتِي اِیَّاکَ جَمِيعَْ شَرِّالدُّنيَْاوَشَرِّالآخِرَةِفَاِنَّہُ غَيرُْ مَنقُْوصٍْ مَااَعطَْيتَْ وزدني مِن فَضلِْکَ یَاکَرِیمُْ >
“اے وہ خدا جو کم کے مقابلہ ميں زیادہ عطا کرتا ہے،اے وہ خدا جو سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے دونوں کو عطا کرتا ہے اور جو اس کو نہ پہچانے ،ميرے سوال کرنے کی بنا پر مجه کو بهی اپنی رحمت ولطف سے عطا کر، دنيا کی کل نيکی اور آخرت کی تمام نيکياں، ميرے سوال کے مطابق مجه کوعطاکردے اوردنيا وآخرت کی تما م برائياں مجه سے دور فر مادے کيونکہ تيری عطا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٢ ۔ )
ميں نقص نہيں ہے اور ميرے لئے اپنے فضل کو زیادہ کر اے کریم! ”
<اللّهم انّي اساٴلک مفاتح الخير وخواتمہ وسوابغہ وفوائدہ وبرکاتہ ومابلغ علمہ علمي وماقصرعن احصائہ حفظي>
<یَامَن هُوَفِي عُلُوِّہِ قَرِیبٌْ،یَامَن هُوَفِي قُربِْہِ لَطِيفٌْ صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ محمّد اللَّهُمَّ اِنِّي اَسئَْلُکَ لِدِینِْي وَدُنيَْاي وَآخِرَتِي مِنَ الخَْيرِْکُلِّہِ وَاَعُوذُْ بِکَ مِنَ الشّرِّکُلِّہِ>
“خدایا ميں تجه سے خير کی کنجياں ،عاقبت بخير ،نعمتيں ،فوائد برکات نيز جس کا علم مجهے نہيں ہوسکا ہے اور جس چيز کا احاطہ کرنے سے ميری یادداشت قاصر ہے سب کا سوال کرتاہوں”
اے وہ خدا جو اپنی بر تری ميں قریب ہے اے وہ خد ا جو اپنے قرب ميں لطيف ہے درود ورحمت ہو محمد وآل محمد پر، اے خدا ميں تجه سے اپنے دین ،دنيا اور آخرت ميں خير کی دعا کرتا ہوں اور تمام برا ئيوں سے پناہ چا ہتا ہوں ” <وَاَدخِْلنِْی فِی کُلِّ خَيرٍْ اَدخَْلتَْ مُحَمَّداًوَآلَ مُحَمَّدٍوَاَخرِْجنِْي مِن کُلِّ اَخرَْجتَْ مِنہُْ مَُحَمَّداًوَآلَ مُحَمَّد>
“اے ميرے مو لا مجه کو ہر اس نيکی ميں داخل کردے جس ميں تونے محمد وآل محمد کو داخل کيا ہے اور مجه کو ہر اس برائی سے نکال دے جس سے تو نے محمد وآل محمد کو نکال دیا ہے ”
<وَاکفِْنِي مَااَهَمَّنِي مِن اَمرِْدُنيَْايَ وَآخِرَتِي>ْ
“اور مجه کودنيا وآخرت کے ان امور سے محفوظ رکه جو ميرے لئے دشواری کا سبب ہيں ”
<اَللَّّهُمَّ لَاتَدَع لِي ذَنبْاًاِلَّاغَفَرتَْہُ وَلَاهَمّاًاِلَّافَرَّجتَْہُ وَلَاسُقمْاًاِلَّاشَفَيتَْہُ وَلَا عَيبْاًاِلَّاسَتَرتَْہُ وَلَارِزقْاًاِلَّابَسَطتَْہُ وَلَاخَوفْاًاِلَّاآمَنتَْہُ وَلَاسُوءْ اًاِلَّاصَرَفتَْہُ وَلَاحَاجَةً هِيَ لَکَ رِضاًوَلِیَ فِيهَْاصَلَاحٌ اِلَّاقَضَيتَْهَایَااَرحَْمَ الرَّاحِمِينَْ >
“خدایا ! ميرے لئے کو ئی گناہ نہ چهوڑ مگر تو اس کو بخش دے اور نہ کسی غم کو مگر اس کوخو شی سے بدل دے اور نہ کسی مرض کو مگر یہ کہ تو شفا دیدے اور نہ کسی عيب کو مگر اس کو چهپا دے نہ کسی رزق کو مگر اسے زیادہ کر دے اور نہ کسی خوف کو مگر اس سے امان دیدے اور نہ کسی برائی کو مگر اسے دور کردے اور نہ کسی حاجت کوجس ميں تيری رضا اور جس ميں ميرے لئے صلاح ہو مگر تو اس کو پورا کردے اے سب سے بڑے رحم کرنے والے ”
<یَامَن بِيَدِہِ مَقَادِیرَْالدُّنيَْاوَالآْخِرَة وَبِيَدِہ مَقَادِیرْالنَّصرِْوَالخُْذلَْان، وَبِيَدِہ مَقَادِیرْالغِن یٰ وَالفَْقرْوَبِيَدِہ مَقَادِیرْالخَيرْوَالشّرّ،صَلِّ عل یٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ محمد، وَبَارِک لِي فِي دِینِْي الَّذِي هُوَمِلَاکُ اَمرِْي وَدُنيَْايَ اَلَّتِي فِيهَْامَعِيشَْتِي،ْوَآخِرَتِي اَلَّتِي اِلَيهَْامُنقَْلِبِي وَبَارِک لِي فِي جَمِيعِْ اُمُورِْي۔ْ۔۔اَعُوذُْبِکَ مِن شَرِّالمَْحيَْا وَالمَْمَاتِ، وَاَعُوذُْبِکَ مِن مَکَارِہِ الدُّنيَْاوَالآْخِرَةِ>
“اے وہ ذات جس کے اختيار ميں دنيا و آخرت کے اندازے ہيں کا ميابی اور شکست کے اندازے ہيں مالداری اور غربت کا اختيار ہے محمد وآل محمد پر درود بهيج اور مجهے ميری اس دنيا ميں برکت دے جو ميرے امر کا معيار ہے اور اسی دنيا ميں برکت دے جس ميں ميری روزی ہے اور اس آخرت ميں برکت دے جہاں مجهے جانا ہے ميرے تمام امور ميں برکت دے ۔۔۔ميں زندگی اور موت کے شر سے تيری پناہ مانگتا ہوں اور دنيا وآخرت کی نا گواریوں سے تيری پناہ مانگتا ہوں ”
<اٴسالُک بنور وجهک الذي اشرقت بہ السماوات وانکشفت بہ الظلمات وصلح عليہ امرالاولين والاخرین ان تصلي علی محمّدوآل محمّد وان تصلح لي شاٴني کلّہ ولاتکلني الي نفسی طرفة عين ابداً>
“ميں تجه سے تيری ذات کے اس نور کے صدقہ ميں سوال کرتا ہوں جس کے ذریعہ آسمان چمکے تا ریکيا ںچهٹ گئيں اور اس پر آنے والوں اور گذر جانے والوں کا معاملہ درست ہوا تو محمد وآل محمد پر درود بهيج اور یہ کہ تو ميرے لئے ميرے پورے معاملہ کو درست کر دے اور مجه کو ایک لمحہ کيلئے بهی ميرے نفس کے حوالہ نہ کر ”
سحری سے متعلق دعا ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فر ما تے ہيں :
<اکفِْنِي المُْهِمَّ کُلَّہُ،وَاقضِْ لِی بِالحُْسنْ یٰ،وَبَارِک فِي جَمِيعِْ اُمُورِْي وَاقضِْ لِي جَمِيعَْ حَوَائِجِی اللَّهُمَّ یَسِّرلِْي مَااَخَافُ تَعسِْيرَْہُ فانّ تيسيرمااخاف تعسيرہ عليک یسيروسهّل لي مااخاف حزونتہ ونفّس عني مااٴخاف ضيقہ وکفَّ عني مااٴخاف غمّہ واصرف عنی مااٴخاف بليّتہ>
“اور ہما رے تمام اہم امور کے لئے کافی ہو جا اور انجام بخير کر اور مجه کو بر کت دے تمام امور ميں اور ميری تمام حا جتوں کو پورا کر خدا یا !ميرے لئے آسان کر جس کی سختی سے ميں ڈرتا ہوں اس کا آسان کرنا تيرے لئے بہت سہل ہے اور سہل بنا دے اس کو جس کی دشواری سے ميں خو ف زدہ ہوں اور جس کی تنگی سے ميں خوفزدہ ہوں ا س ميں کشا دگی عطا کر اور جس کے غم سے خوف زدہ ہوں اس کو روک دے اور جس کی مصيبت سے ميں خوف زدہ ہوں اس کو مجه سے دور کر دے ”
اور دعاء الا سحارميں آیا ہے:
< وَهب لي رحمة واسعةجامعةاطلب بهاخيرالدنياوالآخرة > “اور مجه کو وسيع اور کامل رحمت عطا کر جس سے ميں دنيا و آخرت کی نيکياں حاصل کرسکوں ”

ب۔بڑی حا جتيں چهوڻی حاجتوں پر پردہ نہ ڈال دیں
کبهی کبهی ہم ميں سے بعض افراد اپنی چهوڻی چهوڻی حاجتوں کو خداوندعالم سے مانگنے کو عيب سمجهتے ہيں ليکن انسان کو پروردگار عالم سے مختلف چيزوں کے متعلق سوال کر نا چاہئے چاہے حاجت کتنی ہی چهوڻی کيوں نہ ہو خدا سے سوال کر نے ميں کوئی عيب نہيں سمجهنا چاہئے ۔
بندہ پروردگار عالم سے اپنی تمام حاجتوں اورکمزوریوں کوچهپاتاہے ليکن ہماری تمام حاجتيں، ہمارانقص یہاں تک کہ جن حاجتوں کو ہم خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے پيش کرنے سے بهی شرمند ہ ہوتے ہيں وہ ان سب سے آگا ہ ہے ۔ خداوندعالم سے بڑی بڑی حاجتوں اور سوالات کر نے سے چهوڻی چهوڻی حاجتوں پرپردہ ڈالنا سزاوار نہيں ہے ۔
خداوندعالم اپنے بندے سے اس کی چهوڻی بڑی تمام حاجتوں ميں اس سے رابطہ برقرار رکهنے کو پسندکرتاہے یہاں تک کہ وہ اس سے ہميشہ رابطہ رکهنا چا ہتا ہے اور یہ جاودانہ رابطہ اس وقت تک بر قرار نہيں رہ سکتا جب تک بند ہ خداوندعالم سے اپنی چهوڻی بڑی تمام حاجتوں کا سوال نہ کرے ۔
رسول الله (ص) سے مروی ہے :
<سلوا اللّٰہ عزّوجلّ مابدا لکم من حوائجکم حتّی شسع النعل،فانّہ انْ لم یيسرہ لم یتيسر>
“تم اپنی تمام حا جتيں یہاں تک کہ جو تے کے تسمہ کوبهی خدا سے مانگو چونکہ اگر اس کوخدانہيں دیگا تو نہيں ملے گا ”
یہ بهی رسول اسلام (ص)سے مروی ہے :
( <ليساٴل احدکم ربّہ حاجاتہ کلّها،حتّیٰ یساٴلہ شسع نعلہ اذا انقطع >( ١ “تم ميں سے ہر ایک کو خدا وند عالم سے اپنی تمام حاجتيں طلب کرنا چا ہئيں یہاں تک کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ ڻوٹ جا ئے تو اس کو بهی خدا سے مانگنا چا ہئے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مکارم الاخلاق صفحہ ٣١٢ ،بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩۵ ۔ )
اور یہ بهی رسول اسلام (ص) سے مروی ہے :
<لاتعجزوا عن الدعاء فانّہ لم یهلک اٴحدٌ مع الدعاء،وليساٴ ل احدُکم ربّہ حتّیٰ ( یساٴلہ شسع نعلہ اذا انقطع ،واساٴلوا اللّٰہ مِنْ فضلہ ؛فانّہ یحبّ انْ یساٴل>( ١
“تم دعا کرنے سے عا جز نہ ہو نا ؛چو نکہ دعا کے ساته کو ئی ہلا ک نہيں ہوا ،تم ميں سے ہر ایک کو خدا وند عالم سے سوال کرنا چا ہئے یہاں تک کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ بهی ڻوٹ جا ئے تو بهی اسی سے مانگنا چا ہئے اور تم الله سے اس کے فضل کا سوال کرو چونکہ خدا وند عالم اس چيز کو دو ست رکهتا ہے کہ اس سے سوال کيا جا ئے ”
سيف تمار سے مروی ہے کہ ميں نے حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام کو یہ فرماتے سُنا ہے :
<عليکم بالدعاء؛فانّکم لاتتقربون بمثلہ،ولاتترکواصغيرة لصغرها اٴنْ تساٴلوها،فانّ ( صاحب الصغائرهوصاحب الکبائر >( ٢
“تم پر دعا کرنا ضروری ہے چونکہ تم دعا کے مانند کسی اور چيز سے خدا وند عالم کے قریب نہيں ہو سکتے اور چهوڻی چيزوں کے بارے ميں اس کے چهوڻے ہو نے کی وجہ سے اس کے متعلق سوال کرنا نہ چهوڑ دو اس لئے کہ جو چهوڻی چيزوں کا مالک ہے وہی بڑی چيزوں کا مالک ہے ”
حدیث قدسی ميں آیاہے :
( <یاموسیٰ سلني کلّ ماتحتاج اليہ،حتّیٰ علف شاتک وملح عجينک>( ٣
“اے موسیٰ مجه سے ہر چيز کا سوال کر و یہاں تک کہ اپنی بکریوں کے چارے اور اپنے آڻے کے نمک کيلئے بهی مجه سے سوال کرو ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ ۔ )
۴،حدیث / ٢)بحا رالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩٣ ،المجالس صفحہ ١٩ ،وسا ئل الشيعہ جلد ١٠٩٠ ) ٨۶٣۵ اصول کا فی / ۵ ١ ۶ /
٣)عدة الداعی صفحہ ٩٨ ۔ )
دعا کے سلسلہ ميں ان چيزوں پر زور دینے سے ہماری مراد یہ نہيں ہے کہ انسان دعا کر نے کی وجہ سے عمل ميں سستی کر ے بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ جو عمل انجام دے رہا ہے اس تکيہ نہ کرے اور اس عمل کے سلسلہ ميں اس کی اميد و آرزو خداوند عالم کی ذات سے ہو ۔
دوسرے یہ کہ انسان اپنے تمام لوا زمات دعا انجام دیتے وقت اپنی حا جتوں اور خدا کے درميان رابطہ بر قرار رکهے ۔
مذکورہ دونوں چيزوں کایہ تقاضا ہے کہ انسان الله سے اپنی تمام حا جتےں طلب کر ے یہاں تک کہ جو تے کا تسمہ ،اپنے حيوان کےلئے چارہ اور آڻے کےلئے نمک کا بهی اسی سے سوال کرے، جيساکہ حدیث قدسی ميں آیا ہے ۔

ج: خدا وندعالم کی بارگاہ ميں بڑی نعمتوں کا سوال کر نا چا ہئے
جہاں ہم پرورد کار عا لم سے ہر چيز ما نگتے ہيں وہيں پر ہميں اس سے بڑی نعمتوں کا سوال کر نا چا ہئے
جس طرح ہميں پروردگا ر عالم سے چهوڻی چهوڻی چيزیں مانگنے ميں ندامت نہيں ہونی چاہئے جيسے حيوان کے لئے چارہ ،جوتے کا تسمہ اور آڻے کے لئے نمک اسی طرح ہميں اس سے بڑی بڑی نعمتوں کا سوال کرنا چا ہئے چاہے وہ کتنی ہی بڑی و عظيم کيوں نہ ہو ۔
ربيعہ بن کعب سے مروی ہے :
<قال لي ذات یوم رسول اللّٰہ (ص):یاربيعة خدمتني سبع سنين،افلا تساٴلنی حاجة ؟فقلت یارسول اللّٰہ امهلني حتّیٰ افکر۔فلمّااصبحت ودخلت عليہ قال لي: یاربيعة هات حاجتک ،فقلت:تساٴ ل اللّٰہ ان یدخلني معک الجنة،فقال لی:مَنْ علّمک هذا ؟فقلت :یارسول اللّٰہ ماعلّمني احد لکن فکرّت في نفسي وقلت:انْ ساٴلتہُ مالاً کان الیٰ نفاد،وان ساٴلتہ عمرا طویلاواولاداً کان عاقبتهم الموت۔قال ربيعة :فنکس راٴسہ (ص)ساعة ثم قال:افعل ذلک،فاعنّي بکثرة السجود۔قال وسمعتہ یقول:ستکون بعدي ( فتنة،فاذاکان ذلک فالتزمواعلي بن ابي طالب >( ١
“مجه سے ایک روز رسول خدا (ص)نے فرمایا اے ربيعہ تم سات سال سے مير ی خدمت کررہے ہو کيا مجه سے کسی چيز کا سوال نہيں کروگے۔ ميں نے عرض کيا :یا رسول الله (ص)مجهے غور وفکر کرنے کی مہلت د یئجے ۔جب ميں اگلے روز صبح کے وقت آنحضرت (ص) کی خدمت بابرکت ميں پہنچا تو آپ نے فرمایا :ا ے ربيعہ مجه سے اپنی حاجت بيان کرو ۔ ميں نے عرض کيا :خداسے دعا فرماد یجئے کہ وہ مجهکو آپ کے ساته جنت ميں داخل کرے ۔
آپ نے مجه سے فرمایا :تم کو یہ کس نے سکها یا ہے ؟ ميں نے عرض کيا :یا رسول الله (ص)یہ مجهے کسی نے نہيں سکها یا ميں نے بذات خود غوروفکر کيا کہ اگر ميں آپ سے مال کا سوال کرو ں تو وہ ختم ہو جا یگا ،اگر ميں آپ سے اپنی طولانی عمر اور اولاد کا سوال کروں تو یقينا ایک دن موت ضرور آئيگی ۔
ربيعہ کا کہنا ہے کہ آپ نے کچه دیر تو قف کر نے کے بعد فرمایا: خدا ایسا ہی کرے ،لہٰذاتم بہت زیادہ (سجدے )عبادت کيا کرو ۔
ربيعہ کہتے ہيں ميں نے آپ کو یہ فرما تے سُنا ہے :عنقریب ميرے بعد فتنہ بپا ہوگا اور جب ایسا ہو جا ئے تو تم پر علی بن ابی طالب عليہ السلام کی اطاعت کرنا واجب ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحاالانوار جلد ٩٣ ۔صفحہ ٣٢٧ ۔ )
حضرت امير المو منين عليہ السلام سے مروی ہے :
“کان النبی (ص)اذا سّئل شيئا فاذا اراد ان یفعلہ قال:نعم۔واذا اراد ان لا یفعل سکت،وکان لا یقول لشيٴلا فاٴتاہ اعرابي فساٴلہ فسکت ،ثم ساٴلہ فسکت، ثم ساٴلہ فسکت۔فقال (ص)۔کهيئة المسترسل:ماشئت یااعرابي؟فقلنا:الآن یساٴل الجنّة،فقال الاعرابی:اٴساٴلک ناقة ورحلها وزاداً۔قال:لک ذلک،ثم قال (ص):کم بين مساٴلة الاعرابي وعجوز بنی اسرائيل؟ثم قال:انّ موسیٰ لمّا اُمراٴن یقطع البحرفاٴنتهیٰ اليہ وضربت وجوہ الدواب رجعت،فقال موسیٰ:یاربّ مالي؟ قال:یاموسیٰ انّک عند قبریوسف فاٴحمل عظامہ،وقد استویٰ القبر بالارض،فساٴل مو سیٰ قومہ:هل یدري احد منکم این هو؟قالوا:عجوزلعلّها تعلم،فقال لها:هل تعلمين؟قالت:نعم،قال:فدليناعليہ ،قالت:لاواللّٰہ حتّی تُعطيني مااٴسئلک،قال:ذلک لک،قالت:فإنی اٴساٴلک اٴن اٴکون معک فی الدرجة الّتي تکون فی الجنّة،قال:سلي الجنّة۔قالت:لاواللّٰہ الّا اٴن اٴکون معک،فجعل موسیٰ یراود فاٴوحیٰ اللّٰہ اليہ:اٴن اٴعطها ذلک:فإنّها ( لاتنقصک،فاٴعطَاهاودلّتہ علی القبر”( ١
“جب پيغمبر اکرم (ص)سے کسی چيز کے متعلق سوال کيا جاتاتها تواگر آپ کا اراد ہ اس فعل کے انجام کے متعلق ہو تا تها تو آپ فرما تے تهے :ہاں اور اگر آپ کا ارادہ اس کے انجام نہ دینے کا ہوتا تها تو آپ ساکت رہتے تهے ۔
اور آپ کسی بهی چيز کے سلسلہ ميں“ نہيں” نہيںفرماتے تهے ،ایک اعرابی نے آپ کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ١)بحا الا نوار جلد ٩٣ صفحہ/ ٣٢٧ ۔ )
خدمت ميں حاضر ہوکرسوال کيا تو آپ خاموش رہے ،اس نے پهر سوال کيا تو آپ پهر خاموش رہے، پهر اس نے سوال کيا ،آپ پهر خاموش رہے،توآپ نے فرمایا : اے اعرابی تو کيا چاہتا ہے ؟ہم لوگوں نے کہا کہ اب یہ جنت کے سلسلہ ميں سوال کرے گا ۔
اعرابی نے کہا :ميں آپ سے ناقہ، سواری اور زادراہ چاہتا ہوں ۔
آپ نے فرمایا :ہاں تجه کو عطا کيا جائيگا ،پهر آپ نے فرمایا :اس اعرابی اور اس بنی اسرائيل کی بڑهيا کے درميان کتنا فرق ہے ؟ پهرفرمایا:جب موسیٰ کو دریا پار کرنے کا حکم ملا اور آپ دریا کے کنارے پہونچ گئے تو مو سیٰ نے جانوروں کو آگے بڑهانا چاہا ليکن جانور واپس آگئے ۔
جناب مو سیٰ عليہ السلام نے عرض کيا پالنے والے ميرے لئے کيا فرمان ہے؟ فرمایا :اے مو سیٰ تم حضرت یوسف عليہ السلام کی قبر کے پاس ہواو ر ان کی ہڈیوں کو اڻها لو جبکہ قبر زمين کے برابر ہو چکی تهی ۔ جناب موسیٰ نے اپنی قوم سے سوال کيا :کياتم ميں سے کوئی جانتا ہے ؟ قوم نے کہا:ایک بڑهيا ہے شاید وہ جانتی ہے ؟
بڑهيا سے سوال کيا :کيا تم جانتی ہو؟
اس نے جواب دیا :ہاں آپ نے فرمایا :تو ہميں بتاؤ کہاں ہے ؟ بڑهيا نے کہا :خدا کی قسم ميں اس وقت تک قبر کا پتہ نہيں بتاؤنگی جب تک آپ ميرے سوال کا جواب نہيں دیں گے۔
آپ نے فرمایا :جو تم مانگو گی وہی دیا جائيگا ، اس نے کہا :ميں جنت ميں آپ کے ساته اسی درجہ ميں رہوں جس ميں آپ رہيں گے ۔
آپ نے فرمایا:ہاں تم جنت ميں رہوگی اس نے کہا:نہيں خدا کی قسم ميں جب تک آپ کے ساته نہيں رہوں گی حضرت مو سیٰ عليہ السلام نے فر مایا :تم جنت کا سوال کرو۔تو بڑهيا نے کہا :ميں اس سے کم پر راضی نہيں ہوں ۔ جناب موسیٰ عليہ السلام کچه پس و پيش کرنے لگے تو الله نے آپ پر وحی نازل فرمائی :اگر آپ اس کو عطا کردیں گے توجنت ميںکمی نہيں آئيگی تو آپ نے اس کو عطا کردی اور اس نے قبر کا نشان بتا یا ”

د۔دعا کرکے سب کچه تدبير الٰہی کے حوالہ کردینا
دعا ميں خداوندعالم سے یہ طلب کرنا کہ وہ اپنی تدبير کے ذریعہ ہم کو اپنی تدبير سے بے نياز کردے اور اپنی رحمت و حکمت کو ہمارے امر کا ولی بنا دے اور ہمارے نفسوں پر کسی چيز کو مو کول نہ کرے ،دعا ء عرفہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام فرما تے ہيں :
<اَغنِْنِي بِتَدبِْيرِْکَ لِي عَن تَدبِْيرِْي،ْوَبِاِختِْيَارِکَ عَن اِختِْيَارِي >
“ميرے خدا مجه کو اپنی تدبير کے ذریعہ ميری تدبير سے بے نياز کر اور اپنے اختيار کے مقابلہ ميں ميرے اختيار سے بے نياز کر ”
اور منا جات شعبانيہ ميں آیاہے :<وَتَوَلِّ مِن اَمرِْي مَااَنتَْ اَهلُْہُ >
“خدایا !جس چيز کا تو اہل ہے ميرے امر ميں سے اس کا تو ذمہ دار ہوگا ”
یہ بهی وارد ہوا ہے :<حَسبِْي عَن سُوٴَالِي عِلمْہ بِحَالِي>ْ( ١)“ميرے سوال
کرنے سے اس کا ميرے حال سے واقف ہونا ہی کافی ہے”
مروی ہے :جب نمرود نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کو آگ ميں ڈالنے کا حکم دیا تو جبرئيل عليہ السلام نے آپ کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض کيا :کيا آپ کی کوئی حاجت ہے ؟آپ نے فرمایا: ہاں ميری حاجت تو ہے ليکن تجه سے نہيں ، <حَسبِْیَ اللهُ،وَنِعمَْ الوَْکِيلْ >
اس کے بعد ميکائل نے عرض کيا :اگر آپ کا اراد ہ آگ کو بجها نے کا ہے تو ميں آگ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ١۵۵ ۔ )
بجها دوں گا چونکہ بارش اور پانی کا خزانہ مير ے اختيار ميں ہے۔ آپ نے فرمایا :مير ا ایسا کوئی ارادہ نہيں ہے ۔
اس کے بعد ہوا کے فرشتہ نے آکر عرض کيا :اگر آپ چاہيں تو ميں آگ کو اڑادو ں آپ نے فرمایا :ميرا ایساکوئی اراد ہ نہيں ہے ۔
جبرئيل نے کہا :تو پهر الله سے اپنی حاجت طلب کيجئے آپ نے فرمایا ( :خداوندعالم کوميرے حالات کا علم ہے ”( ١
اس کا مطلب دعا سے منع کرنا نہيں ہے بلکہ اس کا مطلب بندہ کا تدبير ميں اپنے امر کو الله کے حوالہ کر دینا ہے ۔
اس کو ہر امر ميں الله کی طرف تفویض سے تعبير کيا جاتا ہے اور سختيوں اور بلاوٴں ميں الله کی تقدیر ،قضا ،حکمت اور تدبير پر اعتماد رکهنا ہے ۔ حضرت امام حسين عليہ السلام دعا ئے عرفہ ميں فرماتے ہيں :
<ا هٰلِي اِنَّ اِختِْلَافِ تَدبِْيرْکَ وَ سُرعَْةَ طَوَاءَ مَقَا دِیرِْکَ مَنعْا عِبَادِکَ العَْارِفِينَْ بِکَ عَنِ السَّکُونِْ اِل یٰ عَطَاءٍ وَاليَْاٴْسُ مِنکَْ فِی بَلَا ءٍ>
“ميرے معبود! بيشک تيری تدبير کی تبدیلی اور تيرے مقدارات کے سریع تغيرات نے تيرے عارف بندوں کوپر سکون عطا اور مصيبت ميں نا اميد ہونے سے روک دیا ہے ”
امام عليہ السلام فرماتے ہيں بيشک تير ے عارف بند ے کسی عطا پر راضی نہيں ہوتے وہ عطا چا ہے کتنی ہی بڑی کيوں نہ ہو اور کسی مصيبت ميں تجه سے مایوس نہيں ہو تے وہ بلا کتنی ہی بڑی کيوں نہ ہو کيونکہ ان کو معلوم ہے کہ تيرے احکام اور بندوں کے سلسلہ ميں فيصلہ بہت جلد ہوتا ہے نيز ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ١۵۵ ۔ )
حالت سے دو سری حالت کی جا نب تيری تدبير بدلتی رہتی ہے لہٰذا تيرے بندے عطا اور روزی پرمطمئن نہيں ہوتے اور تيری رحمت سے کسی مصيبت ميں مایوس نہيں ہوتے البتہ تيری رحمت پر مطمئن رہتے ہيں اور تيرے فضل سے مایوس نہيں ہو تے ہيں ”
امام حسين کے اسی مفہوم کی، قرآن کریم کی یہ آیت براہ راست عکاسی کررہی ہے:
( <لِکَيلْاَ تَاسَواْ عَل یٰ مَافَاتَکُم وَلاَتَفرَْحُواْبِمَاآتَاکُم>ْ( ١
“یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جوتمہارے ہاته سے نکل جا ئے اس کا افسوس نہ کرو اور جب خدا تم کو کوئی چيز(نعمت)عطاکرے تو اس پر نہ اترایاکرو ” امير المو منين عليہ السلام فرماتے ہيں :زہد قرآن کے ان دو کلموں ميں ہے :
( <لِکَيلْاَ تَاسَواْ عَل یٰ مَافَاتَکُم وَلاَتَفرَْحُواْبِمَاآتَاکُم>ْ( ٢
“یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جو تمہارے ہاته سے نکل جا ئے اس کا افسوس نہ کرواور اور جب خدا تم کو کوئی چيز(نعمت)عطاکرے تو اس پر نہ اترایاکرو ” جب خدا وند عالم نے بندوں کو اس کے قضا و قدر پر اعتماد اور اپنے تمام امور کو خد ا پر واگذار کرنے کی توفيق عطا کر دی ہے ۔۔۔تو بندہ اس وقت خوشی اور غم ميں الله کے قضا و قدر پرسکون محسوس کرتا صرف اس کی عطاپرنہيں، اور نہ ہی وہ مصيبتوں ميں ما یوس ہو تا ہے ۔
ماثورہ دعاؤں ميں اس معنی پر بہت زیادہ زور دیا گيا ہے مشہور ومعروف زیارت امين الله ميں آیا ہے :
<اَللَّهُمَّ فَاجعَْل نَفسِْي مُطمَْئِنَّةً بِقَدرِْکَ رَا ضِيَةً بِقَضَائِکَ،مَولِْعَةً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورہ حدید آیت/ ٢٣ ۔ )
٢)سورہ حدید آیت/ ٢٣ ۔ )
بِذکرْکَ وَدُعَائِکَ صَابِرَةً عِندَْ نُزُولِْ بَلَا ئِکَ شَاکِرَةً لِفَوَاضِلِ نِعمَْائِکَ >
“خدایا! ميرے نفس کو اپنے قدر پر مطمئن اور اپنے قضا پرراضی کردے، اپنے ذکر و دعا کا شيدائی بنا دے اور اپنے خالص اور برگزیدہ اولياء کا محبت کرنے والا بنا دے اور اپنے آسمان و زمين ميں محبوب کردے اور اپنی بلا کے نزول پر صابر اور اپنی بہترین نعمتوں پر شاکر بنا دے اپنی تمام نعمتوں کا یاد کرنے والا ” حضرت امام زین العابدین علی بن الحسين عليہما السلام دعا ميں فرماتے ہيں :
<وَالهَْمنَْاالاِْنقِْيَادَ لَمَّااَورَْدَت عَلَينَْامِن مَشِيَّتِکَ حَتیّٰ لَانَحبُّْ تَاخِيرُْمَا ( عَجَّلَت،ْوَلَاتَعجِْيلَْ مَااَخَّرَت وَلَانَکرَْہُ مَااَحبَْبتَْ وَلَانَتَخَيَّرمَاکَرِهتُْ >( ١
“ہميں اس مشيت کی اطاعت کا الہام عطا فر ما جو تونے ہم پر وارد کی ہے تا کہ جو چيز جلدی سامنے آجا ئے ہم اس کی تا خير کے خواہاں نہ ہوں اور جو چيز دیر ميں آئے اس کی عجلت کے طلبگار نہ ہوں تيری محبوب اشياء کو مکروہ نہ سمجهيں اور تيری نا پسندیدہ چيزوں کو اختيار نہ کرليں ”
دعا کے ایک اور مقام پر فرماتے ہيں :
<وطيب بقضائک نفسي ووسّع بمواقع حکمک صدري ووهب لي الثقة لاُقرمعها ( بانّ قَضَائک لم یجرالَّا بالْخَيْرِة>( ٢
“اور ميرے نفس کو اپنے فيصلہ سے مطمئن کردے اور ميرے سينہ کو اپنے فيصلوں کےلئے کشادہ بنا دے مجهے یہ اطمينان عطا فر ما دے کہ ميں اس امر کااقرار کروں کہ تيرا فيصلہ ہميشہ خير ہی کے ساته جاری ہو تا ہے۔
دعا ء صباح ميںحضرت امير المو منين عليہ السلام فرما تے ہيں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)صحيفہ سجا دیہ دعا / ٣٣ ۔ )
٢)صحيفہ سجا دیہ دعا / ٣۵ ۔ )
( <الهي هذہِ ازمة نفسي عقلتهابعقال مشيئتک >( ١
“خدایا! یہ ميرے نفس کی مہار ہے جس کو مر ضی اور مشيت کے رسّی سے مستحکم باندها ہے ”

ه۔خداوند عالم سے ذات خدا کو طلب کرنا
دعا ميںسب سے زیادہ لطف اوراس کی جلالت یہ ہے کہ انسان دعا ميں الله سے نہ دنيا طلب کرے اور نہ آخرت طلب کرے بلکہ وہ خدا سے اس کے وجہ کریم کا مطالبہ کرے ،اس کی مرضی ، ملاقات ،اس سے قربت ،اس تک رسائی ،اس کی محبت ،اس سے انسيت ،اور اس تک پہنچنے کی تشویق کا مطالبہ کرے حضرت فاطمہ صدیقہ ٴ طاہرہ نے دعا ميں ملک الموت کے خداوند عالم کے امر سے ان کی روح پاک قبض کرنے سے پہلے اس کی جانب سے ایسے رزق کا مطالبہ کياجس سے ان کا سينہ ڻهنڈا ہو جائے اور ان کا نفس خوش ہو جائے ،آپ نے دعاميں یوں عرض کيا :پروردگارا تيری طرف سے بشارت ہو نی چا ہئے تيرے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہيں ،اس سے ميرا دل ڻهنڈا ہو گيا، ميرا نفس خوش ہو گيا ،ميری آنکهيں ڻهندی ہو گئيں اور ميرا چہرہ باغ باغ ہو گيا ۔۔۔اور ميرا دل مطمئن ہو گيا اور اس سے ( ميرا پورا جسم خوش ہو گيا ”( ٢
حضرت امام حسين عليہ السلام دعائے عرفہ ميں فرما تے ہيں : <منک اٴطلبْ الوصول اليک>
“تجه ہی سے تجه تک پہنچنے کا مطالبہ کرتا ہوں ”
حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ء صباح ميں فرماتے ہيں : <اَنتَْ غَایَةُ مَطلُْوبِْی وَمُنَایَ >
“اور تو ہی ميرا آخری مطلوب ہے اور دنيا اور آخرت ميں ميری اميد ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)دعا ء صباح ۔ )
٢)فلا ح السائل ۔ )
پندرہ مناجات ميں سے مناجات “محبين ”ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں: <اِ هٰلِي مَن ذَا لَّذِی ذَاقَ حَلاَوةَ مَحَبَّتِکَ فَرَامَ مِنکَْ بَدَلاًوَمَن ذَاالَّذِي اَنِسَ بِقُربِْکَ فَابتَْغ یٰ عَنکَْ حِوَلاً >
“خدایا وہ کون شخص ہے جس نے تيری محبت کی مڻهاس کو چکها ہو اور تيرے علاوہ کا خواہش مند ہو اور وہ کون شخص ہے جس نے تيری قربت کا انس پایا ہو اور ایک لمحہ کے لئے بهی اس سے روگردانی کرے ’
پندرہ مناجات ميں سے مناجات مرید ین ميں امام زین العابدین عليہ السلام فرماتے ہيں:
<اِ هٰلِي فَاسلُْک بِنَا سُبُلَ الوُْصُولِْ اِلَيکَْ وَسَيِّرنَْا فِي اَقرَْبِ الطُّرُقِ لِلوُْفُودِْ عَلَيکَْ >
“خدایا! ہم کو اپنی طرف پہنچنے کے راستوں پر چلا دے اور ہم کو تيری طرف پہنچنے والے قریب ترین راستہ سے لے چل ،ہمارے اوپر دور کو قریب کردے ” مناجات متو سلين ميں فرماتے ہيں :
“وَاجعَْلنِْي مِن صَفوَْتِکَ اَلَّذِینَْ اَقرَْرتَْ اَعيُْنَهُم بِالنَّظَرِاِلَيکَْ یَومَْ لِقَائِکَ ” “اور مجه کو ان منتخب بندوں ميں قرار دے جن کی آنکهوں کو روز ملاقات اپنے دیدار سے خنکی عطا کی ہے ”
دعا عرفہ ميں امام حسين عليہ السلام فرما تے ہيں : <اَطلُْبنِْي بِرَحمَْتِکَ حَتّ یٰ اَصِلَ اِلَيکَْ>
“ميرے معبود مجه کو اپنے درِرحمت پر طلب کر، تا کہ ميں تجه سے مل جاوٴں”
حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ئے کميل ميں فر ما تے ہيں : <وَاستَْشفِْعُ بِکَ اِل یٰ نَفسِْکَ وَهَب لِيَ الجِْدَّ فِی خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامَ فِي الاِْتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ ۔۔۔وَادنُْوَمِنکَْ دُنُّوَالمُْخلِْصِينَْ وَاجتَْمِعَ فِی جَوَارِکَ مَعَ المُْوٴمِْنِينَْ>
“اور تيری ہی ذات کو اپنا سفارشی بناتا ہوں ،اور تومجه کو خوف و خشيت ميں کو شش کی توفيق عطا کر نيز تيری خدمت کے لگاتار انجام دینے کی ۔۔۔اور تيری بارگاہ ميں خلوص رکهنے والوں کا سا قرب حا صل ہو ،اور تيری بارگا ہ ميں مو منين کے ساته جمع ہو جا ؤں ”
مناجات محبين ميں امام زین العا بدین عليہ السلام فرماتے ہيں : <اِ هٰلِي فَاجعَْلنَْامِمَّن هَيَّمتَْ قَلبَْہُ لِاِرَادَتِکَ وَاجتَْبَيتَْہُ لِمُشَاهَدَتِکَ وَ اَخلَْيتَْ وَجهَْہُ لَکَ وَفَرَّغتَْ فُوَٴادَہُ لِحُبِّکَ وَرَغَّبتَْہُ فِيمَْاعِندَْکَ وَقَطَعتَْ عَنہُْ کُلَّ شَی ءٍ یَقطَْعُہُ عَنکَْ>
“خدایا!تو مجه کو ان لوگوں ميں سے قرار دے جس کے دل کو اپنے ارادہ کا مسکن بنایا ہو اور جس کو تو نے اپنے مشاہدہ کے لئے منتحب کيا ہو اور جس کے چہرے کو اپنے لئے خالی کر ليا ہے اور جس کے دل کو اپنی محبت کے لئے فارغ کرليا ہے اور جس کو اس چيز کی رغبت دی ہے جو تيرے پاس ہے اور جس سے ہر اس چيز کو دور کر دیا ہے جوتجه سے دور کر تی ہے ”