دعا عند اهل بيت
 

١۔گناہوں کا اعتراف ۔
٢۔اس چيز کا اعتراف کہ بندہ جب الله کے حدودو احکام کی مخالفت کرتاہے اور اپنی خواہشات نفسانی ميں غرق ہوجاتا ہے تو وہ خدا کے سامنے کوئی حجت پيش نہيں کرسکتا ہے۔
اس مرحلہ کے آخری اور چهڻے حصہ ميں بندہ کا اپنے گناہوں ،معصيت ،نا اميدی شقاوت کا اعتراف کرناہے اوریہ اعلان کہ خدا سے کوئی فرار اختيار نہيں کرسکتا اور اسکے علاوہ بندہ کی کوئی پناہگاہ نہيں ہے،اور ا لله سے یہ درخواست کرناکہ وہ بندے سے اس کے برے افعال ،جرم وجرائم کا مواخذہ نہ کرے،الله کے سامنے گریہ و زاری اور اپنے مسکين ہونے کا اعتراف کرنے کے بعد بندہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے مولا کی بارگاہ ميں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے،اس سے نادم ہے ، انکساری کرتا ہے چونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار نہيں کيا جاسکتا ہے اور وہ اپنے نقصان اور رنج و غم کے وقت الله کے علاوہ کسی اور کے سامنے گڑگڑا نہيں سکتا ہے :
<وَقَداَْتَيتُْکَ یَااِ هٰلِي بَعدَْتَقصِْيرْي وَاِسرَْافِي عَ لٰی نَفسِْي مُعتَْذِراًنَادِماً مُنکَْسِراًمُستَْقِيلْاًمُنِيبْاًمُقِرّاًمُذعِْناًمُعتَْرِفاً لَا اٴَجِدُمَفَرّاًمِمَّاکَانَ مِنِّي وَلاَمَفزَْعاًاَتَوَجَّہُ اِلَيہِْ فِی اَمرِْيغَيرَْقَبُولِْکَ عُذرْي وَاِدخَْالِکَ اِیَّايَ فِي سَعَةِ رَحمَْتِکَ >
“اب ميں ان تمام کوتاہيوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتيوں کے بعد تيری بارگاہ ميں ندامت انکساری، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساته حاضرہو رہاہوں کہ ميرے پاس ان گناہوں سے بهاگنے کے لئے کوئی جائے فرار نہيں ہے اور تيری قبوليت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہيں ہے۔صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تواپنی رحمت کاملہ ميں داخل کر لے”
اس مقام پر یہ مرحلہ ختم ہو جاتا ہے ۔ اور اس جملہ<وقد اتيتکَ >کے ذریعہ انسان خداوندعالم کی بارگا ہ ميں دعا اور تضرع کرنے کااعلان کرتا ہے۔
یہاں سے دعا کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اس مرحلہ ميں امام عليہ السلام ان وسائل کا تذکر ہ فرماتے ہيں جن کے ذریعہ الله سے متوسل ہوا جاتا ہے اور ہمارے( مولف) نظر یہ کے مطابق وہ چار وسائل ہيں : پہلا وسيلہ: خداوندعالم کا اپنے بندوں پر فضل وکرم ورحمت اور ان سے محبت کرنا ہے :
<یَامَن بَدَءَ خَلقِْي وَذِکرِْي وَتَربِْيَتِي وَهَبنِْي لِاِبتِْدَاءِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِي > “اے ميرے پيداکرنے والے ۔اے ميرے تربيت دینے والے۔اے نيکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجهے معاف فرمادے ” دوسرا وسيلہ: ہمارا خداوندعالم سے محبت (لو لگا نا )کرنا اور اس کی وحدانيت کا اقرار کرنا ہے:
<اَتُرَاکَ مُعَذِّبِي بِنَارِکَ بَعدَْ تَوحِْيدِْ کَ وَبَعدَْ مَاانطَْو یٰ عَلَيہِْ قَلبِْي مِن مَعرَْفَتِکَ وَلَهِجَ بِہِ لِسَانِي مِن ذِکرِْکَ وَاعتَْقَدَہُ ضَمِيرِْي مِن حُبِّکَ وَبَعدَْصِدقِْ اعتِْرَافِي وَدُعَائِي خَاضِعاًلِرَبُوبِْيَّتِکَ> “پروردگار!کيا یہ ممکن ہے کہ ميرے عقيدہٴ توحيد کے بعد بهی تو مجه پر عذاب نازل کرے، یا ميرے دل ميں اپنے معرفت کے باوجود مجهے مورد عذاب قرار دے کہ ميری زبان پر مسلسل تيرا ذکر اور ميرے دل ميں برابر تيری محبت جاگزیں رہی ہے۔ ميں صدق دل سے تيری ربوبيت کے سامنے خاضع ہوں ” تيسرا وسيلہ: ہمارا عذاب کے تحمل کر نے ميں کمزوری کا اعتراف ہے اپنی کهال کی کمزوری اور ہڈیو ں کے ناتواںہونے کا اقرار کرناہے : <وَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفِْيعَن قَلِيلٍْ مِن بَلاَءِ الدُّنيَْاوَعُقوْبَْاتِهَاوَمایَجرِْي فِيهَْامِن المَْکَارِہِ عَل یٰ اَهلِْهَاعَل یٰ اَنَّ لٰذِکَ بَلاَ ءٌ وَمَکرُْوہٌْ قَلِيلٌْ مَکثُْہُ یَسِيرٌْبَقَائُہُ قَصِيرٌْمُدَّتُہُ فَکَيفَْ اِحتِْمَالِي لِبَلاَءِ الآخِرَةِ وَجَلِيلِْ وَقُوعِْ المَْکَارِہِ فِيهَْا۔۔۔ اِ هٰلِي وَرَبِّي وَسَيِّدِي لِاَيّ الاُمُورِْاِلَيکَْ اَشکُْووَْلِمَامِنهَْااَضِجُّ وَاَبکِْي لِاَلِيمِْ العَْذَابِ وَشِدَّتِہِ اَم لِطُولِْ البَْلاَءِ وَمُدَّتِہِ >
“پروردگار تو جانتا ہے کہ ميں دنيا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہيں کر سکتا اور ميرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہيں جب کہ یہ بلائيں قليل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو ميں ان آخرت کی بلاوٴں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختياں عظيم ہيں۔۔۔خدایا۔ پروردگارا۔ ميرے سردار۔ميرے مولا! ميں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور گریہ وبکا کروں ،قيامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصيبت اور دراز مدت کے لئے”
چو تها وسيلہ : امام عليہ السلام نے اس دعا ميں بيان فرمایا ہے وہ اس بهاگے ہو ئے غلام کی طرح ہے جس نے اپنے آقا کی نافرمانی کی ہو اور وہ پهر اپنے آقا کی پناہ اور اس کی مدد چاہتا ہو جب اسکے تمام راستہ بند ہو گئے ہوں اور اس کی اپنے مولا کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہ ہو۔
اس وسيلہ کی امام عليہ السلام ان کلمات ميں عکاسی فرماتے ہيں : ن تَرَکتَْنِي نَاطِقاًلاٴضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ <فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدِي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاٴصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْستَْسرِْخِينَْ وَلَاٴبکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِيَّ المُْوٴمِْنِينَْ یَاغَایَةَ آمَالِ العَْارِفِينَْ یَاغَيَاثَ المُْستَْغِيثِْينَْ یَاحَبِيبَْ قُلُوبِْ الصَّادِقِينَْ وَ یَااِ ہٰلَ العَْالَمِينَْ>
“تيری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميری گویائی کو باقی رکها تو ميں اہل جہنم کے درميان بهی اميدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شيون کروں گااور “عزیز گم کردہ ”کی طرح تيری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بهی ہوگا تجهے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز اميد،فریادیوں کا فریادرس ۔صادقين کا محبوب اور عالمين کا معبود ہے” یہاں پراس دعا ئے شریفہ کے چار وں وسيلے پيش کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے جن کے ذریعہ بندہ الله سے دعا اور سوال کرنے کےلئے لو لگاتا ہے ۔
اب ہم اس دعا ئے شریفہ کے تيسر ے مرحلہ کو پيش کر تے ہيں ۔(امام عليہ السلام ان چاروں وسيلوں سے الله سے متوسل ہو نے کے بعد )جس ميں امام عليہ السلام اپنی حاجات ومطالب کو یکے بعد دیگر ے خدا کی بارگاہ ميں پيش کرتے ہيں یہ تمام حاجتيں ایک پست نقطہ یعنی بندہ کی حيثيت اور اس کے عمل سے شروع ہوتی ہيں اور بلندترین نقطہ قمہ یعنی انسان کا اپنے آقا کی رحمت کے سلسلہ ميں وسيع شوق پر ختم ہو تی ہيں ۔
ہم پستی کے مقام پر اس طرح پڑهتے ہيں :
<اٴَن تَهَبَ لِيفِي هٰذِہ اللَّيلَْةِ وَفِي هٰذِہِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرمٍْ اَجرَْمتُْہُ وَکُلَّ ذَنبٍْ اَذنَْبتُْہُ وَکُلَّ قَبِيحٍْ اَسرَْرتُْہُ >
“ مجهے اِسی رات ميں اور اِسی وقت معاف کردے ۔ميرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائياں۔۔۔ ” اور بلند نظری کے سلسلہ ميں ہم اس طرح پڑهتے ہيں : <وَاجعَْلنِْي مِن اَحسَْنِ عَبِيدِْکَ نَصِيبْاً عِندَْکَ وَاَقرَْبِهِم مَنزِْلَةً مِنکَْ وَاَخَصِّهِم زُلفَْةً لَّدَیکَْ >
“ اور مجهے بہترین حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکهنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا ”
اور جن حاجتوں کو امام عليہ السلام نے ان فقروں ميں بيان فرمایا ہے ان کے چار گروہ ہيں ۔
١۔پہلا گروہ :خداوندعالم ہم کو بخش دے اور ہم سے ہمار ے گناہوں کا مواخذ ہ نہ کرے ہماری برایئو ں سے در گذرفرما ہمار ے جرم اور جن برائيوں کا ہم نے ارتکاب کيا ان کو معاف فرما:
<اٴَن تَهَبَ لِي فِی هٰذِہ اللَّيلَْةِ وَفِي هٰذِہِ السَّاعَةِ کُلَّ جُرمٍْ اَجرَْمتُْہُ وَکُلَّ ذَنبٍْ اَذنَْبتُْہُ وَکُلَّ قَبِيحٍْ اَسرَْرتُْہُ وَکُلَّ جَهلٍْ عَمِلتُْہُ کَتَمتُْہُ اَواَْعلَْنتُْہُ،اَخفَْيتُْہُ اَو اَظهَْرتُْہُ،وَکُلَّ سَيِّئَةٍ اَمَرتَْ بِاِثبَْاتِهاَالکِْرَامَ الکَْاتِبِينَْ الَّذَینَْ وَکَّلتَْهُم بِحِفظِْ مَایَکُونُْ مِنِّي وَجَعَلتَْهُم شَهُودْاًعَلَیَّ مَعَ جَوَارِحي >
“ مجهے اِسی رات ميں اور اِسی وقت معاف کردے ۔ميرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری ظاہری اور باطنی برائياں اور ساری جہالتيں جن کو ميں نے خفيہ طریقہ سے یا علی الاعلان چهپاکر یا ظاہر کر کے عمل کيا ہے اور ميری تمام خرابياں جنهيں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبين کو دیا ہے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معين کيا ہے اور ميرے اعضاء و جوارح کے ساته ان کو ميرے اعمال کا گواہ قرار دیا ہے ”
دوسرے گروہ ميں امام علی عليہ السلام الله سے رحمت نازل کرنے کےلئے عرض کرتے ہيں اور خدا سے عرض کرتے ہيں اے پروردگار وہ ہر شان ،ہر رزق اور خير جو تو نازل کرتاہے اس ميں ميرا حصہ قرار دے ۔
<وَاَن تُوَفِّرَحَظِّي مِن کُلِّ خَيرٍْاَنزَْلتَْہُ اَوبِْرٍّ نَشَرتَْہُ اَو رِزقٍْ بَسَطَّتَہُ >
“ميرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ہونے والے ہر خير و احسان اور نشر ہونے والی ہرنيکی ،ہر وسيع رزق،ہر بخشے ہوئے گناہ،عيوب کی ہر پردہ پوشی ميں سے ميرا وافر حصہ قرار دے ”
یہ وسيع دعا ان تمام چيزوں کو شامل ہے جو الله کی رحمتوں سے خارج نہيں ہو سکتی ہيں ۔
اس دعاکے تيسرے گروہ ميں طولا نی فقرے ہيں اور اس مطلب کی عکاسی کرتے ہيں کہ امام علی عليہ السلام نے الله سے لو لگانے کا بڑا اہتمام فرمایا ہے ۔ مولائے کائنات خداوند عالم کی بارگاہ ميں عرض کرتے ہيں کہ ميرے اوقات کو اپنے ذکر سے پر کردے اپنی خدمت ميں لگے رہنے کی دهن لگادے ، اپنے (خدا ) سے ڈرتے رہنے کی تو فيق عطا کر ، اپنے سے قریب کر اور اپنے جو ارميں جگہ عطا فرما :
<اَساْٴَلُکَ اَن تَجعَْلَ اَوقَْاتِي مِنَ اللَّيلِْ وَالنَّهَارِ بِذِکرِْکَ مَعمُْورَْةً وَبِخِدمَْتِکَ مَوصُْولَْةً۔۔۔ قَوِّعَل یٰ خِدمَْتِکَ جَوَارِحِي،ْ وَاشدُْدعَْلَی العَْزِیمَْةِ جَوَانِحِي وَهَب لِیَ الجِْدَّفي خَشيَْتِکَ وَالدَّوَامِ فِي الاِْتِّصَالِ بِخِدمَْتِکَ حَتّ یٰ اَسرَْحَ اِلَيکَْ فِي مَيَادِینِْ السَّابِقِينَْ،وَاشتَْاقَ اِ لٰ ی قُربِْکَ فِي المُْشتَْاقِينَْ وَادنُْوَمِنکَْ دُنُوَّالمُْخلِْصِينَْ،وَاَخَافَکَ مَخَافَةَالمُْوٴْقِنِينَْ،وَاجتَْمِعَ فِي جَوَارِکَ مَعَ المُْوٴمِْنِينَْ >
“ميں تجه سے سوال کرتاہوںکہ دن اوررات ميں جملہ اوقات اپنی یادسے معمور کرد ے ۔ اپنی خدمت کی مسلسل توفيق عطا فرما۔۔۔اپنی خدمت کے لئے ميرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے ميرے ارادہٴ دل کو مستحکم بنادے۔اپنا خوف پيدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تيری طرف سابقين کے ساته آگے بڑهوں اور تيز رفتار افراد کے ساته قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقين کے درميان تيرے قرب کا مشتاق شمار ہوں اور مخلصين کی طرح تيری قربت اختيار کروں۔صاحبان یقين کی طرح تيرا خوف پيدا کروں اور مومنين کے ساته تيرے جوار ميں حاضری دوں” ہمارے لئے یہ بتا نا ضروری ہے کہ پہلے اور تيسرے گروہ کے دعا کے تمام فقرے بندے کے الله سے لولگانے کےلئے مخصوص ہيں ليکن پہلے گروہ (قسم) ميں سلبی پہلو اختيار کيا گيا ہے اس ميں انسان الله سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہے ان سے در گذر چاہتا ہے ؛اور تيسرے گروہ (قسم)ميں ایجابی (مثبت)پہلو کو مدنظر رکها گيا ہے اس ميں خدا سے اخلاص ، خوف ، خشيت ،حب اور شوق کی بنياد پر الله سے لولگانے کو کہا گيا ہے ۔
چوتهے گروہ (قسم ) ميں ان مطالب کو مد نظر رکها گيا ہے جن ميں امام نے خداوند عالم سے ظالموں کے مکراوران کے شر سے بچنے کی در خواست کی ہے اور ان کے شر کو خود ان ہی کی طرف پلڻنا نے کو کہا ہے اور ظالموں کے ظلم اور ان کی اذیتوں سے محفوظ رہنے کی در خواست کی ہے :
< اَللَّهُمَّ وَمَن اَرَادَنِي بِسُوءٍْ فَاَرِدہُْ،وَمَن کَادَنِي فَکِدہُْ > “خدایا !جو بهی کوئی ميرے لئے برائی چاہے یا ميرے ساته کوئی چال چلے تو اسے ویساہی بدلہ دینا ”
<وَاکفِْنِي شَرَّالجِْنِّ وَالاِْنسِْ مِن اَعدَْائِي>ْ
“اورمجهے تمام دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا ” یہ اس دعا شریف کا بہت ہی مختصر اور مفيد خلاصہ ہے ۔ لہٰذا اس اجمال کی تشریح کرنا ضروری ہے ۔

دعا ء کميل کے چار و سيلے
اب ہم دعاء کميل کے چارو سيلوں کے سلسلہ ميں بحث کرتے ہيں اور یہ اس دعا شریف کی دوسری فصل ہے ۔

پہلا وسيلہ
خدا وند عالم نے اپنے بندے پر پہلے ہی اپنا فضل و کرم فرمادیا ہے ۔جب بندہ اپنے عمل و کو شش ميں عاجزہو جاتا ہے اور اس کے اور الله کے درميان پر دے حائل ہوجاتے ہيں تو خدا کا بندے پر فضل اور اس کی رحمت خدا تک پہنچنے کے لئے بندہ کی شافع ہوتی ہے ۔
خدا کا بندے پر سابق فضل اور رحمت نازل کرنا الله کا بندے سے محبت کرنے کی علامت ہے ۔
اور اسی (حب الٰہی)کے ذریعہ بندہ خدا وند عالم کے سامنے اپنی حاجتيں پيش کرتا ہے جب بندہ خدا کی رحمت کا مستحق نہيں ہوتا تو الله کی محبت اس کو اپنی رحمت اور فضل کا اہل بنا دیتی ہے اور اس کو مقام اجابت تک پہنچاتی ہے امام عليہ السلام اس وسيلہ کے بارے ميں فرماتے ہيں :
<یَامَن بَدَ ءَ خَلقِْي وَذِکرِْي وَتَربِْيَتِي وَبِرِّي،ْهَبنِْيِلاِبتِْدَاءِ کَرَمِکَ وَسَالِفِ بِرِّکَ بِي >
“اے ميرے پيداکرنے والے ،اے ميرے تربيت دینے والے،اے نيکی کرنے والے!
اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجهے معاف فرمادے ” ہماری پيدائش بهی الله سے سوال کرنے سے پہلے نيکی کاذکر، خلق اور تربيت کے ذریعہ ہو ئی جبکہ ہم اس کے مستحق نہيں تهے ۔
جب ہما رے گناہ اور ہماری برائياں الله کی نيکی اور اس کی رحمت کے درميان حا ئل ہو جا تے ہيں تو الله کی محبت ہماری شفاعت کرتی ہے اور ہم کو الله کے روبر واور اسکی رحمت کے مقام پر لاکر کهڑاکردیتی ہے ۔

دوسرا وسيلہ
ہماری خدا سے محبت ، اس کی ہمارے لئے کا مياب محبت کا وسيلہ ہے ۔امام عليہ السلام نے پہلے وسيلہ ميں خدا کی محبت کا ذکر کيا ہے اور اس کے بعد خداوند عالم سے اپنی محبت کو وسيلہ قرار دیا ہے ۔
اس وسيلہ کے سياق ميں ہمارا خدا کی وحدانيت کا اقرار ، اس کی بارگاہ ميں خضوع و خشوع، ہماری نمازیں سجدے ، ذکر ، شهادت (گواہی )، اس کی ربوبيت کا اقرار نيز اس کی عبودیت کا اقرار کرنایہ تمام چيزیں آتی ہيں ۔ ان تمام چيزوں کا مرجع دو ہی چيزیں ہيں :ہمارا اس سے محبت کرنا اور اس کی توحيد کا اقرار کرنا ہے ۔بيشک (حب)اور (توحيد )دونوں ایسے سرمایہ ہيں جن کو الله ردنہيں کرتا ہے اور ہم کو بهی دو نوں چيزوں ميں ایک لحظہ کيلئے بهی کو ئی شک نہيں کرنا چاہئے ۔
امام عليہ السلام اس وسيلہ سے متوسل ہونے کےلئے فرماتے ہيں : < اَتُرَاکَ مُعَذِّبِي بِنَارِکَ بَعدَْ تَوحِْيدِْکَ وَبَعدَْ مَاانطَْو یٰ عَلَيہِْ قَلبِْي مِن مَعرَْفَتِکَ وَلَهِجَ بِہِ لِسَانِيمِن ذِکرِْکَ وَاعتَْقَدَہُ ضَمِيرِْي مِن حُبِّکَ وَبَعدَْصِدقِْ اعتِْرَافِيوَدُعَائِي خَاضِعاً لِّرُبُوبِْيِّتِکَ >
“کيا یہ ممکن ہے کہ ميرے عقيدہٴ توحيد کے بعد بهی تو مجه پر عذاب نازل کرے، یا ميرے دل ميں اپنی معرفت کے باوجود مجهے مورد عذاب قرار دے کہ ميری زبان پر مسلسل تيرا ذکر اور ميرے دل ميں برابر تيری محبت جاگزیں رہی ہے۔ميں صدق دل سے تيری ربوبيت کے سامنے خاضع ہوں ’
یہاں پرہم دعا کے اس فقرہ سے متعلق ایک واقعہ نقل کرتے ہيں ۔ کہا جاتا ہے :جب خدا وند عالم نے حضرت یوسف عليہ السلام کو مصر کی حکو مت وسلطنت عطا کی توآپ ایک دن اپنے گهر کے سامنے تخت پر ایک ایسے نيک وصالح بندے کے ساته تشریف فرماتهے جس کو الله نے علم اور نور عطا کياتها ، اسی وقت اس تخت کے پاس سے ایک نوجوان کا گذر ہواتو اس صالح بندے نے حضرت یوسف عليہ السلام سے عرض کيا کہ کياآپ اس جوان کو پہچانتے ہيں؟ آپ نے فرمایا :نہيں تو اس بندے نے عرض کيا :یہ وہی بچہ ہے جس نے آپ کے بری وپاک ہونے کی اس وقت گواہی دی تهی جب عزیز مصر کی زوجہ نے آپ پر الزام لگایا تها ۔
<وَشَهِدَشَاهِدٌ مِن اَهلِْهَااِن کَانَ قَمِيصُْہُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَت وَهُوَمِنَ الکَْاذِبِينَْ ( ۔وَاِن کَانَ قَمِيصُْہُ قُدَّمِن دُبُرٍفَکَذَبَت وَهُوَمِنَ الصَّادِقِينَْ >( ١
“اور اس پر اس کے گهر والوں ميں سے ایک گواہ نے گو اہی بهی دیدی کہ اگر ان کا دامن سا منے سے پهڻا ہے تو وہ سچی ہے اور یہ جهوڻوں ميں سے ہيں اور اگر ان کا کر تا پيچهے سے پهڻا ہے تو وہ جهو ڻی ہے اور یہ سچو ں ميں سے ہيں ”
یہ وہی شير خوا ربچہ ہے جس نے گہوار ے ميں آپ کی گواہی دی تهی اور یہ اب جوان ہوگيا ہے حضرت یوسف عليہ السلام نے اس کو بلا یا ،اپنے پہلو ميں بيڻهایا اور اس کا بہت زیادہ احترام کيا اور وہ عبد صالح حضرت یو سف عليہ السلام کے پاس متعجب ہو کر مسکراتے ہوئے حضرت یوسف کے اس برتاؤکا مشاہد ہ کرتارہا۔ حضرت یوسف عليہ السلام نے اس نيک بندے سے فرمایا۔کيا تم کو ميرے اس جوان کے عزت وکرام کر نے پر تعجب ہو رہاہے ؟ تو اس نے کہا :نہيں ليکن اس جوان کی آپ کے بری الذمہ ہو نے کی گواہی کے علاوہ اور کوئی حيثيت نہيں ہے ،خدا نے اس کو قوت گویائی عطا کی جبکہ اس کی خود اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ یو سف آیت/ ٢۶ ۔ ٢٧ ۔ )
ميں کوئی فضيلت نہيں ہے ،اس کے باوجود آپ نے اس کا اتنا زیادہ اکرام کيا اس کو اتنی عزت دی ہے ۔
تو یہ کيسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ الله کے سامنے اتنے طولانی سجد ے کرے اور وہ اس کو جہنم کی آگ ميں جلادے ،یا اس بندے کے اس دل کو جلادے جو اس کی محبت سے لبریزہے ،یا اس کی اس زبان کو جلادے جس سے اس نے خدا کو بہت زیادہ یاد کيایا اسکی وحدانيت کی گواہی دی اور اس کی وجہ سے شرک کا انکار کيا ہے ؟
حضرت امام علی عليہ السلام اس سلسلہ ميں فرماتے ہيں :
<وَلَيتَْ شِعرِْي یَاسَيَّدِي وَاِ هٰلِي وَمَولَْائِي اتُسَلِّطُ النَّارَعَل یٰ وُجُوہٍْ خَرَّت لِعَظمَْتِکَ سَاجِدَةً وَعَ لٰی اَلسُْنٍ نَطَقَت بِتَوحِْيدِْکَ صَادِقَةً وَبِشُکرِْکَ مَادِحَةً وَعَل یٰ قُلُوبِْ اعتَْرَفَت بِاِ هٰلِيَّتِکَ مُحَقِّقَةً وَعَ لٰی ضَمَائِرَحَوَت مِنَ العِْلمِْ بِکَ حَتّ یٰ صَارَت خَاشِعَةً وَعَل یٰ جَوَارِحَ سَعَت اِ لٰ ی اَوطَْانِ تَعَبُّدِکَ طَائِعَةً،وَاَشَارَت بِاِ ستِْغفَْارِکَ مُذعِْنَةً مَا هٰکَذَاا لظَّنُّ بِکَ وَلَااُخبِْرنَْابِفَضلِْکَ عَنکَْ یَاکَرِیمُْ >
“ميرے سردار ۔ميرے خداميرے مولا ! کاش ميں یہ سوچ بهی سکتا کہ جو
چہرے تيرے سامنے سجدہ ریز رہے ہيں ان پر بهی توآگ کو مسلط کردے گااور جو زبانيں صداقت کے ساته حرف توحيد کو جاری کرتی رہی ہيں اور تيری حمد وثنا کرتی رہی ہيں یا جن دلوں کو تحقيق کے ساته تيری خدائی کا اقرار ہے یا جو ضمير تيرے علم سے اس طرح معمور ہيں کہ تيرے سامنے خاضع وخاشع ہيں یا جو اعضاء و جوارح تيرے مراکز عبادت کی طرف ہنسی خوشی سبقت کرنے والے ہيں اور تيرے استغفا ر کو یقين کے ساته اختيار کرنے والے ہيں ؛ان پر بهی تو عذاب کرے گا۔ہر گز تيرے بارے ميں ایسا خيال بهی نہيں ہے اور نہ تيرے فضل وکرم کے بارے ميں ایسی کو ئی اطلاع ملی ہے ”

تيسرا وسيلہ
عذاب برداشت کرنے کے مقابلہ ميں ہمارا کمزور ہو نا ، ہماری کهال کا باریک ہونا ،ہماری ہڈیوں کا کمزور ہونا ،ہم ميں صبر اور قوت برداشت کے مادہ کاکم ہونا ،کمزوری، قوی متين تک پہنچنے ميں ایک کا مياب وسيلہ ہے ،ہر کمزورقوی کو جذب کرنے اور اس کی عطوفت ومحبت کو اخذ کر نے کی خواہش کرتا ہے ۔
بيشک کمزور ميں ایک راز ہے جس کی بنا پراسے ہميشہ قوی کی طلب ہو تی ہے اسی طرح قوی (طاقتور )کو ہميشہ کمزور کی تلاش رہتی ہے یعنی دونوں ميں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کی تلاش رہتی ہے ۔
بيشک شيرخوار اپنی کمزوری کی بناء پر اپنی ماں کی محبت چاہتا ہے جس طرح مادر مہربان کو بچہ کی کمزوری اوراس کی رقت کی چاہت ہو تی ہے ۔ کمزور کا اسلحہ اور وسيلہ بکا اور اميد ہے اميرالمو منين علی عليہ لاسلام اس دعا ء کميل ميں فرماتے ہيں :
<یَامَنِ اسمُْہُ دَوَاءٌ،وَذِکرُْہُ شِفَاءٌ وَطَاعَتُہُ غِنیً اِرحَْم مَن رَّاسُ مَالَہُ الرَّجَاءُ وَسِلاَحَہُ البُْکَاءُ >
“اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا۔۔۔ اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط اميداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ہے”
بيشک فقير کا اصل سرما یہ غنی (مالدار )سے اميد رکهناہے ،کمزور کا اسلحہ، قوی کے نزدیک گریہ وزاری کر ناہے ،اوردنيا ميں جو کمزور کے ،قوی وطاقتور سے اور طاقتور کے کمزور سے لو لگا نے کے سلسلہ ميں الله کی سنتوں کو نہيں سمجه پا ئے گا وہ اس دعا ء کميل ميں حضرت علی عليہ السلام کے ان موثر فقروں کو نہيں سمجه پائيگا ۔
حضرت امام علی بن ابی طالب عليہ السلام دوسری مناجات ميں فرماتے ہيں :
<انت القوي واناالضعيف وهل یرحم الضعيف الاالقوي>
“تو قوی ہے اور ميں کمزور ہوں اور کيا طاقتور کے علاوہ کو ئی کمزور پر رحم کر سکتا ہے ”
امام عليہ السلام اس دعا کميل ميں بندے کی کمزور ی ،اس کی تدبير کی کمی اسکے صبر وتحمل کے جلد ی ختم ہوجانے ،کهال کے رقيق ہو نے اور اسکی ہڈیوںکے رقيق ہونے سے متوسل بہ بارگا ہ خد ا و ند قدوس ہوتے ہيں ۔ امام عليہ السلام فرماتے ہيں :
<یَارَبِّ ارحَْم ضَعفَْ بَدَنِي وَرِقَّةَجِلدِْي وَدِقَّةَ عَظمْي>ْ “پروردگار ميرے بدن کی کمزوری، ميری جلد کی نرمی اور ميرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما ’
ہم کو دنيا ميں کا نڻا چبهتا ہے ،انگارے سے ہمارا ہاته جل جاتا ہے اور جب ہم کودنيا ميں ہلکی سی بيماری لا حق ہو جاتی ہے تو ہماری نيند اڑجاتی ہے اور ہم بے چين ہو جاتے ہيں ،جبکہ اس تهوڑی سی دیر کی بيماری کو خداوندعالم نے امتحان کے لئے قرار دیا ہے تو ہم اس وقت کيا کریں گے جب ہم درد ناک عذاب کی طرف لے جائے جا ئيںگے اورعذاب کے فرشتوں سے کہا جائيگا :
<خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ ثُمَّ الْجَحِيْمُ صَلُّوْہُ ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍذَرْعُهَاسَبْعُوْنَ ذِرَاعاً ( فَاسْلُکُوْہُ >( ١
“اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو ،پهر اسے جہنم ميں جهونک دو ،پهر ستر گز کی ایک رسی ميں اسے جکڑلو ”
امام عليہ السلام فرما تے ہيں :
وَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفِْيعَن قَلِيلٍْ مِن بَلاَءِ الدُّنيَْاوَعُقوْبَْاتِهَاوَمایَجرِْی فِيهَْا مِن المَْکَارِہِ عَل یٰ اَهلِْهَاعَل یٰ اَنَّ لٰذِکَ بَلاَ ءٌ وَمَکرُْوہٌْ قَلِيلٌْ مَکثُْہُ یَسِيرٌْبَقَائُہُ قَصِيرٌْمُدَّتُہُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ الحاقة آیت/ ٣٠،٣١،٣٢ ۔ )
فَکَيفَْ اِحتِْمَالِی لِبَلاَءِ الآخِرَةِ وَجَلِيلِْ وَقُوعِْ المَْکَارِہِ فِيهَْاوَهُوَ بَلَاءٌ تَطُولُْ مُدَّتُہُ وَیَدُومُْ مُقَامُہُ وَلَایُخَفِّفُ عَن اَهلِْہِ لِاَنَّہُ لَایَکُونُْ إِلَّاعَن غَضَبِکَ وَانتِْقَامِکَ وَسَخَطِکَ وَ هٰذَا مَالَاتَقُومُْ لَہُ السَّ مٰواتِ وَالاَْرضَْ یَاسَيِّدِي فَکَيفَْ لِي وَاَنَاعَبدُْکَ الضَّعِيفُْ الذَّلِيلُْ الحَْقِيرُْالمِْسکِْينُْ المُْستَْکِينُْ یَااِ ہٰلِي وَرَبِّي وَسَيِّدِی وَمَولْاي
“پروردگار اتو جانتا ہے کہ ميں دنيا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نہيں کر سکتا اور ميرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ہيں جب کہ یہ بلائيں قليل اور ان کی مدت مختصر ہے۔تو ميں ان آخرت کی بلاوٴں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختياں عظيم،جن کی مدت طویل اور جن کا قيام دائمی ہے۔جن ميں تخفيف کا بهی کوئی امکان نہيں ہے اس لئے کہ یہ بلائيں تيرے غضب اور انتقام کا نتيجہ ہيں اور ان کی تاب زمين وآسمان نہيں لاسکتے ،تو ميں ایک بندہٴ ضعيف و ذليل و حقير ومسکين وبے چارہ کيا حيثيت رکهتا ہوںخدایا، پروردگارا، ميرے سردار،ميرے مولا”

چو تها وسيلہ
امام عليہ السلام اس دعا ميں بندہ کے الله سے مضطر ہو نے کو بيان فر ماتے ہيں اورانسان کےلئے اضطرار ایک کا مياب وسيلہ ہے اور اس کی حا جتيں الله کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ پوری نہيںہو سکتی ہيں ۔
ہماری اضطرار سے مراد یہ ہے کہ انسان کی حا جتيں الله کے علاوہ کو ئی اورپورا نہيں کر سکتا ہے اور اس کی پنا ہگاہ کے علاوہ کوئی پنا ہگاہ نہيں ہے ،انسان الله کے علاوہ کسی اور جگہ بهاگ کر جاہی نہيں سکتا الله کے علاوہ اس کو کوئی اور پناہگاہ نہيں مل سکتی ہے ۔
چهو ڻابچہ بچپن ميں اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی اورکو ایسا نہيں پاتا جو اس کے کام آئے اس کا دفاع کر ے اس کی حاجتيں پوری کرے اس کی ہر خواہش وچاہت پر لبيک کہے اس پر عطوفت کرے لہٰذا وہ اپنے والدین سے مانوس ہوتا ہے وہ اپنے ابهرتے بچپن ميں ان دونوں سے اپنے ہر مطالبہ اور ہر ضرورت کوان کی رحمت رافت شفقت سے پاتا ہے جب بچہ کو کوئی تکليف ہوتی ہے تو ان کو تکليف ہو تی ہے جب اس کو کسی چيز کا خوف ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کی پناہ ميں آجاتا ہے اور ان کے پاس اس کو امن وچين ،رحمت اور شفقت ملتی ہے اس کی ضرورتيں پوری ہو تی ہيں اور جس چيز سے اس کو خوف ہو تا ہے ان سے امان ملتی ہے ۔ جب وہ کبهی ایسا کام انجام دیتا ہے جس ميں وہ ان دونوں کے عقاب کا مستحق ہو تا ہے اور اس کو اپنی جان کا خوف ہو تا ہے تو وہ اپنے دائيں بائيں نظریں ڈالتا ہے تو اس کو کوئی پناہگا ہ نظر نہيں آتی اور نہ ہی وہ ان دونوں سے فرار کر سکتا ہے اور ان کے علاوہ کوئی امن کی جگہ اس کو نظر نہيں آتی تو انهيں کی پنا ہگا ہ ميں چلا جاتا ہے اور اپنے نفسں کو ان کا مطيع وفرمانبردار کہہ کران سے فریاد کرتا ہے حالا نکہ وہ دونوں اس کو مار نے اور مواخذ ہ کرنے کا اراد ہ کرتے ہيں ۔ والدین کو بهی اس طرح کے اکثر مناظردیکهنے کو ملتے ہيں اور بچہ ان کی محبت اور عطو فت کوحاصل کرليتا ہے ۔
امام عليہ السلام اس دعا ئے شریفہ ميں اسی معنی کی طرف اشارہ فر ماتے ہيں کہ آپ ہر مسئلہ ميں الله سے پناہ مانگتے تهے جب آپ پر کو ئی سخت وقت آتاتها،کو ئی مصيبت پڑتی تهی یا کسی مصيبت کا سامنا کرنا پڑتا تها تو آپ الله کی بارگاہ ميں فریاد کرتے تهے اور اسی سے لو لگاتے تهے ليکن پهر بهی آ پ کو اپنی مصيبت کے سلسلہ ميں الله کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہيں ملتی تهی امام عليہ السلام انسان کا اسی حالت ميںمشاہدہ کرتے ہيں وہ خداوند عالم کے اسی غضب کے سا منے ہے جس کی رحمت کی اسے اميد ہے اور اس خداوند قدوس کی عقوبت کے سامنے ہے جس کے غضب سے وہ سلا متی چاہتا ہے ۔ بندے کی (جب وہ اپنے کو الله کے عذاب کا مستحق دیکهتا ہے )الله کے علاوہ اور کو ئی پناہگاہ نہيںہے الله کے علاوہ وہ کہيںفرارا ختيار نہيں کرسکتا نہ اس کو خدا کے علا وہ کسی کی حمایت حا صل ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ خدا کے علا وہ کسی اور سے سوال کرسکتا ہے ۔
جب عذاب کے فرشتے اس کو جہنم کی طرف لے جاتے ہيں تو وہ خدا کی بارگاہ ميں گڑگڑا تا ہے اس سے امن وچين طلب کر تا ہے اس سے فریاد کر تا ہے ،اپنے نفس کےلئے اس سے رحمت طلب کرتا ہے جيسے وہ بچہ کہ جب اس کے والدین اس سے ناراض ہو جاتے ہيں تو اس کے پاس ان دونو ں کے علاوہ کسی اور کی طرف فرار کر نے کی کوئی جگہ باقی نہيں رہ جاتی ہے اوروہ ان کے علاوہ وہ کسی کو اپنا مونس ومدد گار نہيں پاتا ہے ۔
ہم امام عليہ السلام سے ان کلمات ميں دقيق ورقيق و شفاف مطالب کو سنتے ہيں جن کو توحيد اور دعا کی روح وجان کہا جاتا ہے : ن تَرَکتَْنِي نَاطِقاً لَاَضِجَّنَّ اَلَيکَْ بَينَْ <فَبِعِزَّتِکَ یَاسَيِّدِي وَمَولَْاي اُقسِْمُ صَادِقاً لَا اَهلِْهَاضَجِيجَْ الآْمِلِينَْ وَلاٴصرُْخَنَّ صُرَاخَ المُْستَْصرِْخِينَْ وَلَاٴبکِْيَنَّ عَلَيکَْ بُکَاءَ الفَْاقِدِینَْ وَلَاُنَادِیَنَّکَ اَینَْ کُنتَْ یَاوَلِيَّ المُْوٴمِْنِينَْ یَاغَایَةَ آمَالِ العَْارِفِينَْ یَاغَيَاثَ المُْستَْغِيثِْينَْ یَاحَبِيبَْ قُلُوبِْ الصَّادِقِينَْ وَ یَااِ ہٰلَ العَْا لَمِينَْ>
“تيری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے ميری گویائی کو باقی رکها تو ميں اہل جہنم کے درميان بهی اميدواروں کی طرح فریاد کروں گااور فریادیوں کی طرح نالہ و شيون کروں گااور “عزیز گم کردہ ”کی طرح تيری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جہاں بهی ہوگا تجهے آوازدوں گا کہ تو مومنين کا سرپرست، عارفين کا مرکز اميد،فریادیوں کا فریادرس،صادقين کے دلوں کا محبوب اور عالمين کا معبود ہے” قضيہ کی یہ پہلی وجہ ہے اور دوسری وجہ بهی پہلی وجہ کی طرح واضح و روشن ہے یعنی خداوند عالم کا اپنے بندہ سے رابطہ ۔
پہلی وجہ کا خلا صہ یہ ہے کہ بندہ جب مضطر ہو تا ہے تو خدا سے ہی لو لگاتا ہے اس کی رحمت اور اس کی امن کی تلاش ميں رہتا ہے ۔
بندہ سے خداوند عالم کے محبت کرنے کا دو سرا رخ اس وقت نظر آتا ہے جب وہ تيز بخار ميں مبتلا ہوتا ہے اور اُس (خدا ) کی رحمت کا طلبگار ہو تا ہے خدا وند عالم سے خود اسی خدا کی طرف فرار کرتا ہے خداوند عالم کی رحمت اور فضل کو اس حال ميں طلب کرتا ہے کہ وہ خداوند عالم کی عقوبت اور انتقام کے سامنے ہوتا ہے ۔
کيا یہ ممکن ہے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ارحم الراحمين ہو نے کے باوجود بندہ کی فریاد سنتا ہو اور اس(بندہ )کو اس کی عقل کی کمی اور جہالت کی وجہ سے اس کا ڻهکانا جہنم بنا دے جبکہ وہ اس سے فریا د کرتا ہے ،اس کا نام ليکر چيختا ہے ،اپنی زبان سے اس کی توحيد کا اقرار کرتا ہے ،اس سے جہنم سے نجات کا سوال کرتا ہے ،اور اسی کی بارگاہ ميں گڑگڑاتا ہے ۔۔۔اور وہ اس کو جہنم کے عذاب ميں ڈال دے اور اس کے شعلے اس کو جلا دیں ،اس کو جہنم کی آواز پریشان کرے ،اس کے طبقوں ميں لوڻتارہے، اس کے شعلے اس کو پریشان کریں جبکہ خداوند عالم جانتا ہے کہ یہ بندہ اس سے محبت کرتا ہے یہ سچ بول رہاہے اس کی توحيد کا اقرار کر رہا ہے اس سے پناہ مانگ رہا ہے اور اسی کا مضطر ہے ۔
پس تم غور سے سنو :
اَفَتُرَاکَ سُبحَْانَکَ یَااِ هٰلِي وَبِحَمدِْکَ تَسمَْعُ فِيهَْاصَوتَْ عَبدٍْمُسلِْمٍ سُجِنَ فِيهَْابِمُخَالَفَتِہِ وَذَاقَ طَعمَْ عَذَاِبهاَبِمَعصِْيَتِہِ وَحُبِسَ بَينَْ اَطبَْاقِهَابِجُرمِْہِ وَجَرِیرَْتِہِ وَهُوَیَضِجُّ یدِکَ وَیَتَوَسَّلُ اِلَيکَْ کَ بِلِ سٰانِ اَٴهلِْ تَوحْ اِلَيکَْ ضجٍيجَ مُُوٴمِّلٍ لرَحمَْتِکَ وَی اْٰندی بِرُبُوبِيَّتِکَ یٰ امَو اْٰلیَ فَکَيفَْ یَب قْٰی فِی الْعَ اٰ ذبِ وَهُوَیَرجْوُ اٰ مسَلَفَ مِن حِلمِْکَ اَم کَيفَْ تُوٴلِمُہُ یبُ هٰاوَاَنتَْ تَسمَْعُ صَوتَْہ وَتَر یٰ مَ اٰ کنَہُ اَم الناٰرُّ وَهُوَیَامُْلُ فَضلَْکَ وَرَحمَْتَکَ ام کَيفَْ یُحرِْقُہُ لَه یرُ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ ضَعفَْہُ اَم کَيفَْ یَتَقَلقَْلُ بَينَْ اَط بْٰقٰاِ هٰاوَاَنتَْ تَعلَْمُ کَيفَْ یَشتَْمِل عَلَيہِْ زَف ی عِتقِْہِ یکَ ی رَٰابَّہُ اَم کَيفَْ یَرجُْو فَضلَْکَ ف صِدقَْہُ اَم کَيفَْ تَزجُْرُہُ ز اٰبنِيَتُ هٰاوَهُوَیُ اٰند ی هٰاهَي هْٰاتَ اٰ م اٰ ذلِکَ الظَّنُّ بِکَ وَلَاالمَْعرْوُفُ مِن فَضلِْکَ وَ اٰلمُشبِْہٌ مِن هْٰافَتَترُْکُہُ ف ینَ مِن بِرِّکَ وَاِح سْٰانِکَ > لِ مٰا عٰامَلتَْ بِہِ المُْوَحِّد
“اے ميرے پاکيزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کيا یہ ممکن ہے کہ تواپنے بندہٴ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جہنم ميں گرفتار اور معصيت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکهنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جہنم کے طبقات کے درميان کروڻيں بدلنے والا بنادے اور پهر یہ دیکهے کہ وہ اميد وار رحمت کی طرح فریاد کناں اور اہل توحيد کی طرح پکارنے والا ،ربوبيت کے وسيلہ سے التماس کرنے والا ہے اور تو اس کی آواز نہيں سنتا ہے۔
خدایا تيرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب ميں رہے گا اور تيرے فضل وکرم سے اميدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جہنم کے الم ورنج کا شکار ہوگا،جہنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رہا ہو اور اس کی منزل کو دیکه رہا ہو،جہنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپيٹ ميں ليں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکه رہا ہوگا،وہ جہنم کے طبقات ميں کس طرح کروڻيں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ہے ،جہنم کے فرشتے اسے کس طرح جهڑکيں گے جبکہ وہ تجهے آواز دے رہا ہوگا اور تو اسے جہنم ميں کس طرح چهوڑ دے گا جب کہ وہ تيرے فضل و کرم کا اميدوار ہوگا ،ہر گز تيرے بارے ميں یہ خيال اور تيرے احسانات کا یہ انداز نہيں ہے ،تونے جس طرح اہل توحيد کے ساته نيک برتاوٴ کيا ہے اس کی کوئی مثال نہيں ہے”