دعا عند اهل بيت
 

اعمال کو الله تک پہنچا نے والے اسباب
موانع کے بالمقابل کچه ایسے اسباب ہيں کہ جب اعمال الله کی بارگاہ تک پہنچنے سے عاجز ہو جاتے ہيں تووہ اسباب جو انسان کے اعمال کو الله کی بارگاہ تک پہنچا تے ہيں اور یہ اسباب ،موانع کے بالمقابل ہيں :ان اسباب کا روایت نبوی ميں تذکرہ مو جود ہے جن کو ہم علامہ مجلسی کی نقل روایت کے مطابق جس کو انهوں نے امالی شيخ صدوق سے بحارالانوار ميں نقل کيا ہے بيان کرتے ہيں : شيخ صدوق نے ((امالی )ميں سعيد بن مسيب سے انهوں نے عبد الر حمن بن سمرہ سے نقل کيا ہے :(ہم ایک دن رسول الله (ص)کی خدمت بابر کت ميں حاضر تهے کہ آپ نے فرمایا :
فقال:اني رایت البارحة عجائب ،قال:فقلنا:یارسول الله، ومار اٴَیت ؟ حدَّثنا بہ فداک انفسناواهلوناواولادنا ؟فقال:راٴَیت رجلاً من اُمتي وقد اٴَتاہ ملک الموت ليقبض روحہ،فجاء ہ برّہ بوالدیہ فمنعہ منہ ۔
وراٴَیت رجلاًمن اُمتي قد بسط عليہ عذاب القبر،فجاءَ ہ وضو وٴہ فمنعہ منہ ۔ وراٴَیت رجلاًمن اُمتي قداحتوشتہ الشياطين،فجاءَ ہ ذکرُاللهعزّوجلّ فنجّاہ من بينهم ۔
وراٴ یت رجلاًمن اُمتي والنبيّون حلقاًکلمااتیٰ حلقة طردوہ،فجاءَ ہ اغتسالہ من الجنابة فاخذبيدہ فاٴجلسہ الی جنبهم ۔
وراٴ یت رجلاً من اُمتي بين یدیہ ظلمة ومن خلفہ ظلمة وعن یمينہ ظلمة وعن شمالہ ظلمة ومن تحتہ ظلمة مستنقعاًفي الظلمة،فجاءَ ہ حجہ وعمرتہ فاٴخرجاہ من الظلمة وادخلاہ النور ۔
وراٴَ یت رجلاً من اُمتي یُکلّم المُوٴمنين فلایُکلمونہ،فجاءَ ہ صلتہ للرحم فقال:یامعشرالموٴمنين،کلّموہ فانّہ کان واصلاً لرحمہ،فکلمہ الموٴمنون وصافحوہ وکان معهم ۔
وراٴ یت رجلاً من اُمتي تقی وجہہ النيران و شررها بيدہ ووجهہ،فجاء تہ صدقتہ فکانت ظلّاً علیٰ راسہ وستراً علیٰ وجهہ۔
وراٴَ یت رجلاً من اُمتي قد اخذ تہ الزبانية من کل مکان فجاء ہ امرہ بالمعروف ونهيہ عن المنکر فخلّصَاہ من بينهم وجعلاہ مع ملائکة الرحمة۔
وراٴ یت رجلاً من اُمتي جاثياًعلیٰ رکبتيہ بينہ و بين رحمة اللّٰہ حجاب فجاء ہ حسن خلقہ فاٴخذ بيدہ فاٴدخلہ فی رحمة اللّٰہ ۔
وراٴَ یت رجلاً من اُمتی قد هوت صحيفتہ قبل شمالہ فجاءَ ہ خوفہ من اللّٰہ عزّ وجلّ فاٴخذ صحيفتہ فجعلها فی یمينہ ۔
وراٴَ یت رجلاً من اُمتي قد خفت مو ازینہ،فجاءَ ہ افراطہ فثقلوا مو ازینہ۔ وراٴَ یت رجلاً من اُمتي قائماً علیٰ شفيرجهنم،فجاءَ ہ رجاءَ ہ فی اللّٰہ عزّو جلّ فاستنقذہ بذالک۔
وراٴَ یت رجلاً من اُمتي قد هویٰ في النارفجاءَ تْہ دموعہ التي بکیٰ من خشية اللّٰہ فاستخرجتہ من ذلک۔
وراٴَ یت رجلاً من اُمتي علیٰ الصراط یرتعدکما ترتعدالسعفة فی یوم ریح عاصف فجاءَ ہ حسن ظنہ باللّٰہ فسکن رعدتہ ومضیٰ علی الصراط۔ ورایت رجلاً من اُمتي علیٰ الصراط یزحف احياناًویحبواحياناًویتعلق احياناًفجاءَ تْہ صلاتہ عليہ فاٴقامتہ علیٰ قدميہ ومضیٰ علیٰ الصراط۔
وراٴَ یت رجلاً من اُمتي انتهیٰ الیٰ ابواب الجنة کلماانتهیٰ الیٰ باب اُغلق ( دونہ،فجاء تہ شهادة ان لا الٰہ الّا اللّٰہ صادقاًبها،ففتحت لہ الابواب و دخل الجنة”( ١ “ميں نے متعدد عجائبات کا مشاہد ہ کيا ہے ميں نے عرض کيا: یا رسول الله آپ نے کن کن عجائبات کا مشاہدہ فرمایا؟ ميری جان آپ پر فدا ہو ذراان عجائبات کی ہمارے اور ہماری اولاد کےلئے تفسير تو فرما دیجيے؟ آپ نے فرمایا :ميں نے اپنی امت ميں سے ایک شخص کو دیکها کہ ملک الموت اس کی روح قبض کر نے کےلئے آیا ہے تو وہ فرشتہ اس (شخص )کی اپنے والدین کے ساته نيکيوں کی وجہ سے اس کی روح قبض نہ کر سکا ۔
ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها جس کو شيا طين نے ڈرا رکها تها تو الله عزوجل کے تذکرہ نے اس کو ان شياطين سے نجات دلائی ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے پياسے شخص کو دیکها کہ جب بهی وہ پانی کے حوض پر پانی پينے کی غرض سے پہنچتا تها تو اس کو پانی پينے نہيں دیاجاتا تها تو ماہ رمضان کے روزوں نے آکر اس کو سيراب کيا گيا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)بحار الا نوار جلد ٧ صفحہ/ ٢٩٠ ۔ ٢٩١ ۔ ) ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها کہ انبياء عليہم السلام حلقہ ، حلقہ بنائے ہوئے بيڻهے ہيں تو جب بهی یہ شخص حلقہ کے پاس پہنچتا تها تو اس کو نزدیک آنے سے منع کردیا جاتا تها ،ليکن جب وہ غسل جنابت کرکے آیا تو انهوں نے اس کا ہاته پکڑ کراپنے پہلو ميں بيڻهایا ۔
ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جسکے آگے پيچهے ،دائيں، بائيں اور اس کے نيچے کی طرف تاریکی ہی تاریکی تهی اور وہ اس تاریکی کے سبب جانکنی کے عالم ميں تها تو اس کے انجام دئے ہوئے حج وعمر ہ نے آکر اس کی جان بچائی اور تاریکی سے نکال کر روشنی ميں داخل کيا ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها کہ مومنين سے کلام کر تا ہے ليکن مو منين اس سے بات نہيں کر تے ہيں ۔تو اس شخص کے صلہٴ رحم نے کہا اے مومنواس سے کلام کرو کيو نکہ اس نے صلہٴ رحم انجام دیاہے تو مومنوں نے اس سے کلام کيا ،مصافحہ کيا گو یا کہ وہ ان کے ساته تها ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها جس کے ہاته اور چہرہ آگ کی سوزش سے جل رہے تهے تو اس کے دئے ہو ئے صدقہ نے اس کے سر پر آکر سایہ کيا اور اس کے چہرے کو چهپاليا۔
ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکها جس کی ہر جگہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تهے تو اس کے کئے ہوئے امر با لمعروف اور نہی عن المنکر نے اس کو ان شعلوں سے نجات دلائی اور اس کے لئے رحمت کے فرشتہ مقررفرمائے ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جو گهڻنيوں کے بهل چل رہا تها اور اس کے اور الله کی رحمت کے درميان پر دے حائل ہو گئے تهے تو اس کے حسن خلق نے اس کا ہاته پکڑ کر الله کی رحمت ميں داخل کيا ۔
ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جس کا نامہٴ اعمال اس کے بائيں ہاته ميں تها تو الله کے خوف نے اس کا وہ نا مہٴ اعمال اس کے بائيں ہاته سے ليکر اس کے دائيں ہاته ميں دیدیا ۔
ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جس کے اعمال کا پلڑ ا بہت ہلکا تها تو اس کے دوسروں کو سيراب کرنے نے اس کو وزنی بنایا ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو جہنم کے پاس کهڑے دیکها تو الله تعالیٰ سے اميد نے اس کو جہنم سے نجات دلائی ۔ ميں نے اپنی امت کے ایک شخص کو جہنم کی آگ ميں جلتے دیکها تو اس کے وہ آنسو جو الله کے خوف کی وجہ سے اس کی آنکهوں سے جاری ہوئے تهے انهوں نے اس کو جہنم کی آگ سے نکالا ۔
ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو صراط پر دیکها جو سخت آندهيوں ميں خرمہ کے درخت کی شاخ کی طرح ہل رہا تها تو اس کے الله سے حسن ظن نے اس کو ہلنے سے روکا اور وہ صراط سے گذر گيا ۔
ميں نے اپنی امت ميں سے پل صراط پر ایک ایسے شخص کو دیکها جو آگے بڑهنے کےلئے اپنے چاروں ہاته پير مار رہا تها اور کبهی اپنے کو کهينچے جارہاتها اور کبهی اس پر لڻک رہا تها تو اس کی نماز نے آکر اس کے قدموں پر کهڑ اکيا اور پل صراط سے گذارا ۔
ميں نے اپنی امت کے ایک ایسے شخص کو دیکها جس پر جنت کے تمام دروازے بند ہو گئے تهے تو اس کی <اشهدا ن لا الٰہ الاالله >کی گواہی نے اس کی تصدیق کی تو اس کےلئے جنت کے دروازے کهل گئے اور وہ جنت ميں چلا گيا ۔

جن چيزوں کوالله سے دعا کرتے وقت انجام دینا چاہئے
اب ہم ان (وسائل )اسباب کے سلسلہ ميں گفتگو کرتے ہيں جن کو دعا کرتے وقت انجام دنيا چاہئے ۔
پروردگار عالم کافرمان ہے کہ ہم اس سے وسيلہ کے ذریعہ دعا کریں : ارشاد خدا وند عالم ہے :
( <اُو ئِٰلکَ الَّذِینَْ یَدعُْونَْ یَبتَْغُونَْ اِل یٰ رَبِّهِمُ الوَْسِيلَْةَ>( ١
“ یہ جن کو خدا سمجه کر پکارتے ہيں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسيلہ تلاش ( کر رہے ہيں ” <یَااَیُّهَاالَّذِینَْ آمَنُواْاتَّقُواْاللهَ وَابتَْغُواْاِلَيہِْ الوَْسِيلَْةَ> ( ٢
“اے ایمان والو الله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو ” خداوندعالم نے یہ وسائل ان بندوں کےلئے قرار دئے ہيں جن کے اعمال اور دعا ئيں الله کی رحمت تک پہنچنے سے عاجز ہيں اور وہ (خدا )ارحم الراحمين ہے ۔
خداوندعالم فرماتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ اسرا آیت/ ۵٧ ۔ )
٢)سورئہ مائدہ آیت/ ٣۵ ۔ )
( <اِلَيہِْ یَصعَْدُ الکَْلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَْمَلُ الصَّالِحُ یَرفَْعُہُ >( ١
“پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہو تے ہيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا ہے ”
بيشک انسانی حيات ميں کلمہٴ طيب اور عمل صالح ہے ۔ <کلم الطيّب> سے مراد انسان کا الله پر ایمان رکهنا ،اخلاص ، اُس (خدا ) پر اعتماد رکهنا ، اس سے اميد رکهنا ، اس سے دعا کر نا اور اس کی با رگاہ ميں گڑ گڑا نا اور گر یہ و زاری کر نا ہے ۔
عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی انسا نيت قا ئم ہو تی ہے اور وہ ایمان ، اخلاص ، اعتماد اور اميد ہے ۔
اور <کلم الطيب > “خوشگوار گفتگو ”قرآن کی تصریح کی رو سے خدا وند عالم کی جا نب چلی جا تی ہے ليکن قرآن ہی کی صراحت کی بنا پر اس خو شگوار گفتگو کو خداوند عالم کی جا نب نيک عمل ہی لے جاتا ہے ۔
اگر عمل صالح نہ ہو تو < کلم الطيب > الله تک نہيں پہنچ سکتا ، کبهی کبهی ایسا ہو تا ہے کہ (عمل صالح ) عا جز اور کمز ور ہو تا ہے اور اس ميں< کلم الطيب > کو الله تک پہنچا نے کی طا قت و قدر ت نہيں ہو تی لہٰذا ایسی صورت ميں نہ تو انسان کی دعا الله تک پہنچتی ہے اور نہ ہی اس کی دعا مستجاب ہو تی ہے ۔ الله نے انسان کی زندگی ميں اس کے ہاتهوں ميں کچه ایسے وسائل دید ئے ہيں جن کے ذریعہ وہ خدا وند عالم تک پہنچ سکتا ہے اگر یہ وسائل واسباب نہ ہوں تو انسان کےلئے اس کی دعا اور فریادکے الله تک پہنچنے کا کو ئی امکان ہی نہيں ہے۔ یہی وہ وسائل واسباب ہيں جن کی طرف قرآن کریم نے بهی اشارہ فرمایا ہے۔ ان ہی وسائل ميں سے رسول الله کا اپنی امت کے لئے دعا اور استغفار کرناہے ۔ خداوندعالم کا ارشاد ہے :
<وَلَواَْنَّهُم اِذظَْلَمُواْاَنفُْسَهُم جَاءُ وکَْ فَاستَْغفِْرُواْاللهَ وَاستَْغفَْرَلَهُمُ الرَّسُولُْ ( لَوَجَدُواْاللہَّٰ تَوَّابًا رَحِيمْاً >( ١
“اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کيا تها تو آپ کے پاس آتے اور خود بهی اپنے گنا ہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بهی ان کے حق ميں استغفار کرتے تو خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے ” قرآن کریم کی یہ آیت صاف طورپر یہ بيان کرتی ہے کہ رسول الله (ص)کا مومنين کے لئے استغفار کرنا ان وسائل ميں سے ہے جن ميں پروردگار عالم اپنے بندوں کو اس چيز کی رغبت دلاتا ہے جو دعا اور استغفار ميں ان کےلئے وسيلہ قرار پائے ۔
جو کچه رسول اسلام (ص)کےلئے ان کی حيات طيبہ ميں کہا جاتا ہے کہ انهوں نے مومنين کےلئے خدا سے استغفار کياہے وہ وفات کے بعد استغفار نہيں کرسکتے نہيں ایسا کچه نہيں ہے بلکہ رسول الله (ص)تو وفات کے بعد بهی زندہ ہيں اور اپنے پروردگا ر کی طرف سے رزق پاتے ہيں ۔

رسول خدا (ص) اور اہل بيت عليم السلام سے تو سل کرنا
اسلامی روایات ميں رسول خدا (ص)اور اہل بيت عليہم السلام سے تو سل کےلئے بہت زیادہ زور دیا گيا ہے ۔
داؤ وبرقی سے مروی ہے :“إِنِّي کنت اسمع اباعبد اللّٰہ عليہ السلام اکثرمایلحّ في الدعاء علی اللّٰہ بحقّ الخمسة،یعني رسول اللّٰہ،و اميرالموٴمنين، و فاطمة ، ( والحسن ، والحسين ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)سورئہ نساء آیت/ ۶۴ ۔ )
١١٣٩ ،حدیث / ٨٨۴۴ ۔ / ١)وسائل الشيعہ جلد ۴ ) “ميں نے ابو عبد الله عليہ السلام کو دعا ميں اکثر پنجتن پاک کے وسيلہ سے دعا کرتے دیکها ہے یعنی رسول الله، امير المو منين ، فاطمہ ،حسن اور حسين عليہم السلام ”
سما عہ سے مرو ی ہے :مجه سے ابو الحسن عليہ السلام نے فرمایا :اے سماعہ جب تمهيں خداوند عالم سے کو ئی سوال درپيش ہو تو اس طرح کہو : اللهم انّي اٴَسالک بحقّ محمّد وعلی فانّ لهماعندک شاٴْناًمن الشاٴن وقدراًمن القدر،وبحقّ ذلک القدران تُصلّيَ علیٰ محمّد وآل محمّد وان تفعل بي کذا وکذ ا (١)<
“پروردگارا ميں تجه کو محمد اور علی کا واسطہ دیکر سوال کرتا ہوں جن کا تيرے نزدیک بلند و بالا مقام ہے اور اسی عظمت کے پيش نظر تو محمد وآل محمد پر درود بهيج اور ميرے لئے ایسا ایسا انجام دے ”

دعا ئے کميل کے ذریعہ الله تک رسائی کے وسائل
ہم دعا ء کميل ميں ان وسائل کا مشاہد ہ کر تے ہيں جن کے ذریعہ سے امير المو منين دعا ميں خداوندعالم سے متوسل ہو ئے ہيں ۔
یہ وسائل دعا کے دوسر ے حصہ ميں بيان ہوئے ہيں جن کو امير المو منين عليہ السلام نے خداوند عالم سے دعا اور حاجتوں کو پيش کر نے سے پہلے مد نظر رکها ہے۔ اس دعا ئے شریف ميں بيان فرمایا ہے ان کو بيان کرنے سے پہلے ہم اس دعا ء کميل کا مختصرسا خا کہ بيان کر تے ہيں ،اور جن بلند افکارپر یہ دعا مشتمل ہے ان کو بيان کریں گے نيز اس کی بهی وضاحت کریںگے کہ آپ نے اس دعا ميں ان بلند افکار کے مابين کن طریقوں سے استفادہ فر مایا ہے ۔
کيونکہ ائمہ سے منقول مشہور ادعيہ کی ہر عبارت کے معين افکاراورمنظم اسلوب نيزدعا کے آغاز اوراختتام کی مخصوص روش ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)عدةالدا عی صفحہ / ٣٨ ۔ )
معروف ادعيہ ميں سے ہر دعا کی ایک مخصوص شکل ہے ان کيفيات کے مطالعہ سے ہميں یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دعا کی روش نيز خداوند عالم سے منا جات کر نے کا طریقہ کيا ہے ۔
ہر دعا کےلئے بلند وبا لا اور بنيادی فکر ہے ،افکار کا مجمو عہ اسی فکر سے پرورش پاتا ہے ،یہ بنيادی مطلب ہے اور دو سرے مطالب کا مجموعہ اسی اساسی مطلب سے پرورش پاتا ہے ،سوال کر نے کا طریقہ اور سوال کرنے اور ختم کرنے کے اسلوب و طریقوں کو بتا تا ہے ۔
اگر علما نے اس مسئلہ کو بطور کا فی و وافی بيان کيا ہو تا تو اس سے مفيد نتا ئج کا اخراج کرتے ۔
اب ہم دعا ئے کميل کے سلسلہ ميں اس کے بنيادی افکار اور کيفيت کے متعلق بيان کرتے ہيں:

دعا کميل کی عام تقسيم
دعا ء کميل مومنين کے درميان بڑی مشہور ومعروف ہے جس کو مومنين ہر شب جمعہ کو پڑها کر تے ہيں ،اور اس کو کبهی تنہااورکبهی ایک ساته مل کر بهی پڑها کر تے ہيں ۔
یہ دعا حضرت امير المو منين عليہ السلام سے منسوب ہے جو آپ نے کميل بن زیاد نخعی کو تعليم فرما ئی تهی اسی طرح یہ دعا ایک نسل کے بعد دوسری نسل ميں مومنين تک پہنچتی رہی ہے ۔
یہ دعا عبودیت ، فروتنی و انکساری کے مفا ہيم کے لحاظ سے بيش بہا خزانہ نيز زندہ اشکال ميں تضرع ،فریاد خوا ہی نيز توبہ اورانابہ کا مو جيں مارتا سمندر ہے ۔ ہم اس دعا ء ميں بيان شدہ تمام مطالب ومفاہيم کی تشریح کرنا نہيں چاہتے چونکہ یہ طولا نی بحثيں ہيں انشاء الله اگر موقع ملا ،قسمت نے ساته دیا اور اسباب بهی پيد ا ہو گئے تو ضرور ان مطالب کی تشر یح کریں گے۔
ليکن اب ہم صرف اس دعا کی کيفيت کی وضاحت کرتے ہيں یہ دعا تين مخصوص مرحلوں پر مشتمل ہے اور ہر مرحلہ آنے والے مرحلہ ميں شمار ہوتا ہے ان تمام باتوں کی اساس وبنياد دعا کی کيفيت سے درک ہو تی ہے یہ ہمارے دعا پڑهنے ،اس ميں بيان ہو نے والے مفا ہيم و افکار کے سلسلہ ميں غور و فکر کرنے اور ان سے متاثر ہو نے ميں ہماری بہت زیادہ مدد کرتے ہيں۔ شاید پرورد گار عالم اس جہدو کو شش کو ان مومنين کےلئے نفع بخش اور مفيد قراردے جنهوں نے اس دعا کو پڑهنے کی اپنی عادت بنا لی ہے ۔

تصميم دعا کی فکر
جيسا کہ ہم بيان کر چکے ہيں کہ یہ دعا تين مرحلوں پر مشتمل ہے: پہلا مرحلہ :جو دعا کے شروع کرنے کے حکم ميںہے جس ميں دعا کرنے والا الله کی بارگاہ ميں کهڑاہوکر دعا کرتا ہے ۔گڑاگڑا تا ہے اور خدا سے مانگتا ہے ،چونکہ گناہ انسان اور الله کے درميان حائل ہوکر دعا کو مقيد کر دیتے ہيں اور اگر بندہ خدا کے سامنے کهڑے ہوکر دعا کرنے کا موقف اپنا تا ہے تو اس کےلئے اس پہلے مرحلہ کی رعایت کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔
اس مرحلہ (ابتدائے دعا)ميں الله سے مانگنے، طلب کرنے کے طریقہ کی ابتداء بيان کرتے ہيں ان ميں سے ایک الله سے مغفرت طلب کرنا ہے: <اَللَّهُمَّ اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تَهتِْکُ العِْصَمَ اَللَّهُمَّ اغفِْرلِْيَ الذُّنُوبَْ الَّتِي تُنزِْلُ النِّقَمَ۔۔۔>
“خدایا ميرے گناہوں کو بخش دے جو ناموس کو بڻہ لگادیتے ہيں۔ان گناہوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ہوتے ہيں ” یہ جملے مغفرت سے متعلق ہيں ۔
اوردوسرے مرحلہ ميں خدا کی یاد ،شکر اور اسکاتقرب طلب کيا گيا ہے: <واَساْٴَلُکَ بِجُودِْکَ اَن تُدنِْيَنِي مِن قُربِْکَ وَاَن تُوزِْعَنِي شُکرَْکَ وَاَن تُلهِْمَنِي ذِکرَْکَ> “تيرے کرم کے سہارے ميرا سوال ہے کہ مجهے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفيق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الہام کرامت فرما” پہلے تو انسان کے لئے خداوند عالم کی بار گاہ ميں دعا کرنے کےلئے کهڑاہونا ضروری ہے۔
جس کے نتيجہ ميں خداوند عالم اسکے گناہوں کو معاف کریگا،اسکے دل سے پردے ہڻا دیگا۔
دوسرے خداوند عالم کا بندے کو اپنے سے قریب ہونے اسکا شکر کرنے اوراس کے دل ميں تذکرہ کرنے کی اجازت دینا ضروری ہے۔
یہ دعا ميں وارد ہونے کے ابتدائی فقرے ہيں۔
اسکا دوسرا فقرہ الله کی بارگاہ ميں اپنی ضرورتوں کو پيش کرنا اوراسکی طرف راغب ہوناہے :
<اَللَّهُمَّ وَاَساْٴلُکَ سُوٴَالَ مَن اشتَْدَّت فَاَقَتُہُ وَاَنزَْلَ بِکَ عِندَْ الشَّدَائِدِحَاجَتَہُ وَعَظُمَ فِيمَْا عِندَْک رَغبَْتُہُ>
“مجهے ہر حال ميں تواضع اور فروتنی کی توفيق عطا فرماخدایا ميرا سوال اس بے نوا جيسا ہے جس کے فاقے شدید ہوں اور جس نے اپنی حاجتيں تيرے سامنے رکه دی ہوں اور جس کی رغبت تيری بارگاہ ميں عظيم ہو ” الله سے کوئی فرار نہيں کرسکتا اور نہ ہی خدا کے علاوہ بندے کی کوئی اور پناہگاہ ہے۔
یہ دو حقيقتيں ہيں:
الف۔الله سے کوئی مفر نہيں ہے
<اَللَّهُمَّ عَظُمَ سُلطَْانُکَ وَعَلَا مَکَانُکَ وَخَفِيَ مَکرُْکَ وَظَہَرَاَمرُْکَ وَ غَلَبَ قَهرُْکَ وَجَرَت قُدرَْتُکَ وَلَایُْمکِْنُ الفِْرَارُ مِن حُکُومَْتِکَ >
“خدایا تيری سلطنت عظيم ،تيری منزلت بلند،تيری تدبير مخفی ،تيرا امر ظاہر،تيرا قہر غالب اور تيری قدرت نافذ ہے اور تيری حکومت سے فرار ناممکن ہے ”
ب:الله کے علاوہ کو ئی اور پناہ گاہ نہيں ہے
<اَللَّهُمَّ لاَاَجِدُلِذُنُوبِْي غَافِراًوَلَالَِقبَائِحِيسَْاتِراً،وَلَالِشَي ءٍ مِن عَمَلِيَ القَْبِيحِْ بِالحَْسَنِ مُبَدِّلاًغَيرَْکَ لَااِ ہٰلَ اِلَّااَنتَْ >
“خدایا ميرے گناہوں کے بخشنے والے،ميرے عيوب کی پردہ پوشی کرنے والے، ميرے قبيح اعمال کو نيکيوں ميں تبدیل کرنے والے تيرے علاوہ کوئی خدا نہيں ہے ”
یہ اس ابتدائی مرحلہ کا دوسرا فقرہ ہے اور اس مرحلہ کے تيسرے فقرے ميں حضرت علی انسان کی مایوسی اور اس کی طویل شقاوت کے بارے ميں فرماتے ہيں :
<اَللَّهُمَّ عَظُمَ بَلَائِي وَ اَفرَْطَ بِي سُوءُ حَالِي،ْوَقَصُرَت بِي اَعمَْالِي،ْوَقَعَدَت بِي اَغلَْالِي،ْوَحَبَسَنِي عَن نَفعِْي بُعدُْاَمَلِي وَخَدَعَتنِْي الدُّنيَْابِغُرُورِْهَا،وَنَفسِْي بِجِنَایَتِهَاوَمِطَالي یَاسَيِّدي >
“خدایا ميری مصيبت عظيم ہے ،ميری بدحالی حد سے آگے بڑهی ہوئی ہے ،ميرے اعمال ميں کوتاہی ہے،مجهے کمزوریوں کی زنجيروں نے جکڑکر بڻها دیا ہے اور مجهے دور درازکی اميدوں نے فوائد سے روک دیا ہے،دنيا نے دهوکہ ميں مبتلا رکها ہے اور نفس نے خيانت اور ڻال مڻول ميں مبتلا رکها ہے اے ميرے سردار” اس بے بسی ،رنج وغم اور شقا وت کے اسباب انسان کا عمل اور اس کی کوششيں ہيںلہٰذا وہ خداوند عالم سے دعا کرے کہ اس کے گنا ہوں کو معاف کردے اور ان گنا ہوں کو اپنے اور دعا کے درميان حا ئل نہ ہونے دے۔
<فَاٴَسئَْلُکَ بِعِزَّتِکَ اَن لَایَحجُْبَ عَنکَْ دُعَائي سُوءُْ عَمَلِي وَفِعَالِي وَلَا تَفضَْحنِْي بِخَفِي مَااطَّلَعتَْ عَلَيہِْ مِن سِرِّي وَلَاتُعَاجِلنِْي بِالعُْقُوبَْةِ عَل یٰ مَاعَمِلتُْہُ فِی خَلَوَاتِي مِن سُوءِْ فِعلِْي وَ اِسَائَتِي وَدَوَامِ تَفرِْیطِْي وَجَهَا لَتِي وَکَثرَْةِ شَہوَْاتِي وَغَفلَْتي>ْ
“تجهے تيری عزت کا واسطہ ۔ميری دعاوٴں کو ميری بد اعمالياں روکنے نہ
پائيں اور ميں اپنے مخفی عيوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ہونے پاوٴں۔ميں نے تنہا ئيوں ميں جو غلطياں کی ہيں ان کی سزا فی الفور نہ ملنے پائے، چاہے وہ غلطياں بد عملی کی شکل ميں ہو ں یا بے ادبی کی شکل ميں۔مسلسل کوتاہی ہو یا جہالت یا کثرت خواہشات و غفلت ”
اس مرحلہ کے چو تهے فقرے ميں ایک بہت بڑے مطلب کی طرف اشار ہ کيا گيا ہے کہ بندہ کااپنے نقصان اور مایوسی کے وقت خدا کے علاوہ اس کا کو ئی ملجاو ماٴویٰ نہيں ہے :
<اِ ہٰلِی مَن لِي غَيرُْکَ اَساْٴَلَہُ کَشفَْ ضُرِّي وَالنَّظَرَ فِي اَمرِْي>
“خدایا۔پروردگار۔ميرے پاس تيرے علاوہ کون ہے جو ميرے نقصانات کو دور کر سکے اور ميرے معاملات پر توجہ فرماسکے”
اس مرحلہ کے پانچویں فقرے ميں دوباتوں کا اعتراف کيا گيا ہے :