٢١ ۔دعا کے بعد ہاتهوں کو چہرے اور سرپر پهيرنا
امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے :
<ماابرزعبد یدہ الی الله العزیزالجبارالااستحياالله عزّوجلّ ان یردّها صفراً،حتیٰ
یجعل فيهامن فضل رحمتہ مایشاء،فاذا دعا احدکم فلایردّ یدہ حتّیٰ یمسح علیٰ وجهہ
( وراٴسہ>( ١
“کو ئی بندہ اپنے ہاته خدائے عزیز و جبار کے سامنے نہيں پهيلا تا مگر یہ کہ
خداوند عالم اس کو خالی ہاته واپس کرنے پر حيا محسوس کرتا ہے اور اپنے فضل و
رحمت سے جو کچه چاہتا ہے اس کے ہاته پر رکه دیتا ہے لہٰذا تم ميں سے کو ئی
دعا کرے اور اپنے ہاته ہڻائے تو وہ اپنے ہاتهوں کو چہرے پر مل لے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٣۴٢ ؛من لا یحضر ہ الفقيہ جلد ١ صفحہ ١٠٧ ؛بحارالانوار جلد )
٩٣ صفحہ ٣٠٧ ۔
موانع اوررکا وڻيں
کو نسی چيزیں دعا کے الله تک پہنچنے ميں مانع ہوتی ہيں ؟
اس بحث ميں ہم اس سوال کا جواب پيش کریں گے انشاءَ الله ۔
بيشک دعا کے بارے ميں جيسا کہ کہا گياہے کہ دعا وہ قرآن صاعد ہے جو الله
کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کے بالمقابل ہے ۔نازل ہونے والے قرآن ميں
عبودیت ،بندہ کوصرف خود کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنے اور صرف اسی سے
لولگا نے کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن صاعد ميں اس دعوت پر لبيک کہی گئی
ہے۔
ليکن یہاں پر کچه ایسے موانع ہيں جو دعاؤں کو الله کی بارگاہ ميں پہنچنے
سے روک دیتے ہيں اور الله کی بارگاہ ميں ان دعاؤں کے پہنچنے سے روکنے والے
اہم موانع گنا ہ اور معصيتں ہيں دعا ء کميل ميں واردہوا ہے :اَللَّهُمَّ اغفِْرلِْیَ الذُّنُوبَْ
الَّتِی تَحبِْسُ الدُّعَاءَ
“خدا یا ميرے ان تمام گنا ہوں کو بخش دے جو دعا ؤں کو قبول ہو نے سے
روک دیتے ہيں ”
اور اسی دعا ء کميل ميں آیاہے :<فَاٴَساْٴَلُکَ بِعِزَّتِکَ اَن لَا یَحجُْبَ عَنکَْ دُعَائِی سُوءُْ عَمَلِی >
“ميں تجه سے سوال کرتا ہوں تيری عزت کے واسطے سے کہ ميری بد
عملی ميری دعا کو پہنچنے سے نہ روکے ”
ہم عنقریب ان موانع (رکاوڻوں )کی تحليل کریںگے انشاء الله :
گناہ بارگاہ خدا کی راہ ميں ایک رکاوٹ
حيات انسان ميں گناہوں کے دواثر ہوتے ہيں :
١۔گناہ انسان اور خداوند عالم کے درميان حائل ہوجاتے ہيں ،انسان خدا سے
منقطع ہوجاتا ہے اس کےلئے اپنے کو خدا کی بارگاہ ميں پيش کرنے اور اس سے
لولگا نے کا امکان ہی نہيں رہتا ،اور نہ ہی اس کےلئے دعا کرنا ممکن ہوتا ہے بيشک
دعاکا مطلب اپنے کو خدا وند عالم کی بارگاہ ميں پيش کرنا ہے ۔
جب گناہ ،گناہ کرنے والے کو خدا تک پہنچا نے ميں مانع ہوجاتے ہيں تو اس
کی دعا ميں بهی مانع ہوجاتے ہيں ۔
٢۔گناہ دعا کو الله تک پہنچنے سے روک دیتے ہيں ،چونکہ جب دعا الله تک
پہنچتی ہے تو خدا اس کو مستجاب کرتا ہے ،یہ خدا کے شایان شان نہيں کہ جب
کسی بند ے کی دعا اس تک پہنچے تو وہ عاجز ہو جائے یا بخل سے کام لے
،بيشک دعا کی عاجز ی یہ ہے کہ وہ خدا تک نہيں پہنچتی ہے :کبهی کبهی گنا ہ
انسان کو دعا کرنے سے مقيد کردیتے ہيں اور کبهی کبهی دعا کو الله تک پہنچنے
ميں مقيد کردیتے ہيں ۔
ہم ذیل ميں اس مطلب کی وضاحت کررہے ہيں :
اخذ اور عطا ميں دل کادوہرا کردار
بيشک قلب ایک طرف تو خدا وند عالم سے رابطہ کےلئے ضروری چيزیں اخذ
کرتا ہے اور اس سے ملاقات کرتا ہے ،اور دوسری طرف ان چيزوں کو عطا کرتا ہے
جيسے حملہ آور قلب جو خون کو پهينکنے واپس لا نے اور لوگوں کے درميان سے
اکڻها کرنے کا کام دیتا ہے۔
جب دل ميں انسان کو ملا نے اور خدا وند عالم سے مر بوط کرنے کی صلا
حيت ختم ہو جا ئے تو گویا اس نے اپنی ساری اہميت کهو دی اور اس کو کو ئی فائدہ
نہيں ہوا جيسے وہ دل جو پوری طرح حملہ آور ہے۔
دل اس لينے دینے ميں ایک طرف توخداوند عالم کی جانب سے ہدایت ،نو
رانيت اور آگا ہی حاصل کرتاہے اور دو سری طرف انسان کو اس کی حرکات و گفتار
اور مو قف عمل ميں یہ ہدایت اور نو رانيت عطا کرتے ہيں
پہلی شق (الله سے ملاقات اور اخذ کرنا )کے سلسلہ ميں خداوندعالم
فرماتاہے :
<وَقَالَ الَّذِینَْ کَفَرُواْلَولَْانُزِّلَ عَلَيہِْ القُْرآْنُ جُملَْةًوَاحِدَةً کَ لٰ ذِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُوٴَادَکَ
( وَرَتَّلنَْاہُ تَرتِْيلْاً >( ١
“اور کافر یہ بهی کہتے ہيں کہ آخر اِن پر یہ قرآن ایک دفعہ کل کا کل کيوں
نہيں نازل ہوگيا۔ہم اسی طرح تدریجا نازل کرتے ہيں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن
کرسکيں اور ہم نے اسے ڻهہر ڻهہر کر نازل کيا ہے ”
تو قرآن رسول کے قلب مبارک پرایک دم اور آہستہ آہستہ نا زل ہو تا تها اور
دلوں کو تقویت بخشتا تها نيزیہ دل اس سے نو رانيت اور ہدایت حا صل کرتے تهے ۔
خداوندعالم کا ارشاد ہے :
<اَلله نَزَّلَ اَحسَْنَ الحَْدِیثِْ کِتَاباًمُتَشَابِهاً مَثَانِیَ تَقشَْعِرُّ مِنہُْ جُلُودُْ الَّذِینْ یَخشَْونَْ
( رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِ لٰی ذِکْرِاللہِّٰ >( ٢
“الله نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل ميں نازل کيا ہے جس کی آیتيں
آپس ميں ملتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ فرقان آیت ٣٢ ۔ )
٢)سورئہ زمر آیت ٢٣ ۔ )
جلتی ہيں اور بار بار دُہرائی گئی ہيں کہ ان سے خوف خدا رکهنے والوں کے رونگڻے
کهڑے ہو جاتے ہيں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کےلئے نرم ہو جاتے
ہيں”
قلوب، قرآن سے خشوع وخضوع اخذ کرتے ہيں ،نرم ہو جاتے ہيں خدا کی
ہدایت اور اس نور کے ساته رابطہ پيدا کرتے ہيں جس کو خداوند عالم نے بندوں کی
طرف بهيجا ہے کيونکہ قرآن خداوند عالم کی طرف سے ہدایت اور ایسا نور ہے جس
کو خداوند عالم نے بندوں کی جانب بهيجا ہے نيز یہ قرآن خداوند عالم کا برہان اور
مخلوق پر حجت ہے ۔
خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
( <یَاٴَایُّهَاالنَّاسُ قَدجَْآءَ کُم بُرهَْانٌ مِن رَبِّکُم وَاَنزَْلنَْااِلَيکُْم نُورْاً مُبِينْاً >( ١
“اے انسانو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکا ہے اور ہم
نے تمہاری طرف روشن نور بهی نازل کردیا ہے ”
یہ نور اور ہدایت مو منين اور متقين لوگوں کے دلو ں سے مخصوص ہے وہ اس
نور کو اخذ کرتے ہيں اور اس سے متاٴثر ہوتے ہيں :
( <هَذَابَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدیً وَمَوعِْظَةًلِلمُْتَّقِينَْ >( ٢
“یہ عام انسانوں کےلئے ایک بيان حقائق ہے اور صاحبان تقویٰ کےلئے ہدایت
اور نصيحت ہے’
( < هٰذَابَصَائِرُمِن رَبِّکُم وَهُدیً وَرَحمَْةٌلِقَومٍْ یُوٴمِْنُونَْ >( ٣
“یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل ہدایت اور صاحبان ایمان کےلئے
رحمت کی حيثيت رکهتاہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ١)نساء آیت/ ١٧۴ )
٢)سورئہ آ ل عمران آیت/ ١٣٨ ۔ )
٣)سورئہ اعراف آیت/ ٢٠٣ ۔ )
دل کےلئے یہ پہلا دور ہے جو الله سے ہدایت ،نور ،بصيرت اور بر ہان حاصل
کرتے ہيں اور جو کچه الله نے اپنے بندوں کےلئے نور اور ہدایت نازل کيا ہے ان سے
مخصوص ہوتا ہے ۔
دلوں کےلئے دوسرامرحلہ تو سعہ اور عطا
اس مرحلہ ميں قلوب ایسے نور اور ہدایت کو پهيلاتے ہيں جو ان کو خداوند
عالم کی جا نب سے ملا ہوتا ہے اوریہ قلوب انسان کی حر کت ،گفتار ،مو قف ،روابط
اور اقدامات کو نور عطا کرتے ہيں اس وقت انسان نو رالٰہی اور ہدایت الٰہی کے ذریعہ
آگے بڑهتا ہے نور خدا اور ہدایت خدا سے تکلم کرتا ہے نور خدا اور ہدایت کے ذریعہ
اپنامو قف معين کرکے لوگوں کے درميان چلتا ہے ۔
( <اَوَمَن کَانَ مَيتْاً فَاٴَحيَْينَْاہُ وَجَعَلنَْا لَہُ نُورْاً یَمشِْی بِہِ فِی النَّاسِ> ( ١
“کيا جو شخص مُردہ تها پهر ہم نے اسے زندہ کيااور اس کےلئے ایک نور قرار
دیاجس کے سہارے وہ لوگوں کے درميان چلتا ہے ”
<یَااَیُّهَاالَّذِ ینَْ آمَنُوااتَّقُوااللهَ وَآمِنُواْبِرَسُولِْہِ یُوٴتِْکُم کِفلَْينِْ مِن رَحمَْتِہِ وَیَجعَْل لَکُم ( نُورْاً تَمشُْونَْ بِہِ وَیَغفِْرلَْکُم وَاللهُ غَفُورٌْرَّحِيمٌْ >( ٢
“ایمان والو الله سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آؤ تا کہ خدا تمهيں اپنی
رحمت کے دہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی
روشنی ميں چل سکو اور تمهيں بخش دے اور الله بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان
ہے ”
یہ نور جس کے ذریعہ مومنين کا ایک دوسرے سے رابط برقرار رہتا ہے ،اس
کے ذریعہ سے وہ لوگوں کی صفوں ميں گهوما کرتے ہيں ،ان کی سياست ،یاتجارت
یاحيات انسانی کے دوسرے تمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انعام آیت/ ١٢٢ ۔ )
٢)سورئہ حدیدآیت/ ٢٨ ۔ )
کا موں ميں لگے رہتے ہيں یہ خداوندعالم کا وہ نور ہے جس کو الله نے اپنے بندوں
کےلئے بهيجا ہے :
( <وَمَن لم یَجعَْلِ اللهُ لَہُ نُورْاً فَمَالَہُ مِن نُورٍْ >( ١
“اور جس کےلئے خدا نور قرار نہ دے اس کے لئے کو ئی نور نہيں ہے ”
یہ وہ نور ہے جو الله کی طرف سے قلب ميں ودیعت کيا جاتا ہے پهر اس کے
ذریعہ دل، انسان کی بينائی ،سماعت اور اس کے اعضا وجوارح کی طرف متوجہ ہو تا
ہے ۔
اس اخذ اور عطا ميں دل کا کردار درميانی ہوتاہے نور الله کی طرف سے آتا ہے
اور اس کے ذریعہ انسان اپنا راستہ ،اپنی تحریک ،کلام اور موقف اختيار کرتا ہے ۔
یہ دل کے صحيح و سالم ہو نے کی علا مت ہے اور وہ قرآن کو صحيح طریقہ
سے اخذ کرتا ہے ،اور اسکو عطا کرتا ہے جس طرح سرسبز زمين نور ،ہوا اور پانی کو
اخذ کر تی ہے اور طيب و طا ہر پهل دیتی ہے۔
حضرت امرالمومنين عليہ السلام قرآن کی صفت کے سلسلہ ميں فرماتے
ہيں: <کتاب الله تبصرون بہ وتنطقون بہ وتسمعون بہ >
“یہ الله کی کتاب ہے جس کے ذریعہ تمهيں سجها ئی دیتا ہے اور تمہاری زبان
ميں گو یا ئی آتی ہے اور (حق کی آواز )سنتے ہو ”
جب دل صحيح وسالم نہ ہو تو اس ميں الله سے لولگانے کی خاصيت مفقود
ہو جاتی ہے اور وہ الله کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کا استقبال کرنے پر
متمکن نہيں ہو تا۔
جب دل ميں الله کی طرف سے نازل ہو نے والے قرآن کا استقبال کر نے کی
قدرت نہ ہو گی تو وہ نماز اور دعا کے ذریعہ قرآن صاعد کو الله تک پہنچا نے پر قادر
نہيں ہو سکے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ نورآیت/ ۴٠ ۔ )
اس حالت کو انغلاق قلب(دل کا بند ہوجانا) کہا جاتا ہے خداوند عالم فرماتا ہے:
( <صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَرْجِعُوْنَ >( ١
“یہ سب بہرے ،گونگے ،اور اندهے ہو گئے ہيں اور اب پلٹ کر آنے والے نہيں
ہيں ”
بہرااور اندها نور کا استقبال کرنے کی استطاعت نہيں رکهتا ہے اسی طرح جو
بولنے کی طاقت نہ رکهتا ہو اس کو فطری طور پر گو نگا کہاجاتا ہے ۔
پروردگار عالم بنی اسرائيل سے فرماتا ہے :
( <ثُمَّ قَسَت قُلُو بُکُم مِن بَعدِْ لٰذِکَ فَهِیَ کَالحِْجَارَةِاَواَْشَدُّ قَسوَْةً>( ٢
“پهر تمہارے دل سخت ہو گئے جيسے پتهر یا اس سے بهی کچه زیادہ
سخت ”
بيشک پتهر، نور ،ہو ااور پانی کا استقبال کرنے پر متمکن نہيں ہوتا ہے اور نور
،ہو ااور پانی ميں سے جو کچه بهی اس پر گرتا ہے اس کو واپس کردیتا ہے اور یہ
فطری بات ہے کہ وہ ثمر دینے کی استطاعت نہيں رکهتا ہے ،بلکہ ثمر تو وہ زمين
دیتی ہے جس ميں نور ،ہوا اور پانی جذب کرنے کی صلاحيت ہوتی ہے
اسی طرح جب دل صحيح وسالم نہيں ہوتا تو وہ نور کا استقبال نہيں کرتا اور
نہ ہی نور سے استفادہ کرپاتا ہے اسی کومکمل انغلاق کی حالت کہاجاتا ہے اور وہ
حالت (دل کا مرجانا )جس ميں دل ہر طرح کی حياتی چيز سے بے بہر ہ ہوجاتا ہے
یعنی زندہ دل کی طرح اس ميں کسی چيز کو لينے یادینے کی طاقت باقی نہيں رہ
جاتی اور جس دل ميں یہ خاصيت نہ پائی جاتی ہو وہ زندگی کا ہی خاتمہ کردیتا ہے۔
خداوندعالم دل کے مردہ ہو جانے کے متعلق فرماتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ بقرہ ١٨ ۔ )
٢)سورئہ بقرہ ٧۴ ۔ )
( <اِنَّ اللهَ یُسمِْعُ مَن یَّشَاءُ وَمَااَنتَْ بِمُسمِْعٍ مَن فِی القُبُورْ >( ١
“الله جس کو چا ہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے اور آپ انهيں نہيںسنا سکتے
جو قبروں کے اندر رہنے والے ہيں ”
( اور یہ فرمان خدا :<اِنَّکَ لاَتُسمِْعُ المَْو تْٰ ی وَلاتُسمِْعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ> ( ٢
“آپ مُردوں کواور بہروں کو اپنی آواز نہيں سنا سکتے ہيں اگر وہ منه پهير کر
بهاگ کهڑے ہوں ”
خدا وند عالم یہ فر ما تا ہے :
( <وَسَوَائٌعَلَيهِْم اٴَنذَْرتَْهُم اَم لَم تُنذِْرهُْم لاَیُوٴمِْنُونَْ> ( ٣
“اور ان کےلئے سب برابر ہے آپ انهيں ڈرائيں یا نہ ڈرائيں یہ ایمان لانے والے
نہيں ہيں ”
آوازاور انداز ميں کوئی عجزو کمی نہيں ہے بلکہ یہ ميت کی کمی اور عاجزی
ہے کہ وہ کسی چيز کو سننے کی قابليت نہيں رکهتی ہے ۔
دل کی اسی حالت کواس (دل) کا مرجانا ،بند ہو جانا اور الله سے منقطع ہو
جا نا کہا جاتا ہے ۔
اس قطع تعلق اوردل کے بند ہوجانے کی کيا وجہ ہے ؟
دلوں کے منجمد ہونے کے اسباب
اسلامی روایات ميں دلو ں کے منغلق ہو نے اور ان کے الله سے منقطع ہو
جانے کے دواہم اسباب پر زور دیا گيا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ فاطرآیت/ ٢٢ ۔ )
٢)سورئہ نمل آیت / ٨٠ ۔ )
٣)سورئہ یس آیت/ ١٠ ۔ )
١۔الله کی آیات سے اعراض روگردانی اور ان کی تکذیب ۔
٢۔گناہوں اور معصتيوں کا ارتکاب۔
خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے :
( <وَالَّذِینَْ کَذَّبُواْبِآیَاتِنَاصُمٌّوَبُکمٌْ فِی الظُّلُ مٰاتِ >( ١
“اور جن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی وہ بہرے گونگے تاریکيوں ميں
پڑے ہوئے ہيں ”
اس آیہٴ کریمہ ميں الله کی آیات کی تکذیب، لوگوں کی زند گی ميں تاریکيو
ںکے بس جانے اور ان کے گونگے ہوجانے کا سبب ہے ۔
خدا وند عالم فرماتا ہے:
( <وَاِذَاتُت لْٰی عَلَيہِْ آیَاتُنَا وَلیّٰ مُستَْکبِْراً کَاٴَن لَّم یَسمَْعهَْاکَاٴَنَّ فِی اُذُنَيہِْ وَقرْاً>( ٢
“اور جب اس کے سامنے آیاتِ الٰہيہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو اکڑکر منه پهير
ليتا ہے جيسے اس نے کچه سنا ہی نہيں ہے اور جيسے اس کے کان ميں بہرا پن
ہے ”
ہم اس آیہٴ کریمہ ميں الله کی آیات سے رو گردانی ان سے استکبار کے
درميان ایک متبادل تعلق کامشاہدہ کرتے ہيں۔
اسی پہلے سبب کو اعراض و روگردانی کہا جاتا ہے ۔
اور دوسرے سبب(گناہ )کے سلسلہ ميں خداوند عالم فرماتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ انعام آیت / ٣٩ ۔ )
٢)سورئہ لقمان آیت / ٧۔ )
( <کَلاَّبَل رَانَ عَ لٰی قُلُوبِْهِم مَّاکَانُواْیَکسِْبُونَْ >( ١
“نہيں نہيں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گيا ہے”
آیہٴ کریمہ ميں صاف طور پر یہ واضح کردیا گيا ہے کہ جن گناہوں کو انسان
کسب کرتا ہے وہ دل کو زنگ آلود کردیتے ہيں جن کی وجہ سے دل پر پردہ پڑجاتا ہے
اور وہ الله سے منقطع ہو جاتا ہے۔
گناہوں سے دلوں کااُلٹ جانا
انسان جب بار بار گناہ کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل خدا سے منقطع ہو جاتا
ہے اور جب دل خدا سے منقطع ہو جاتا ہے تو وہ برعکس (پلٹ جانا )ہوجاتا ہے گو یا او
پر کا حصہ نيچے اور نيچے کا حصہ اوپر ہوجاتا ہے اور اس کے تمام خصو صيات ختم ہو
جاتے ہيں ۔
امام جعفرصادق عليہ السلام سے مرو ی ہے :
<کان اٴبي یقول:مامن شيٴ افسد للقلب من خطيئتہ،انّ القلب ليواقع
( الخطيئة،فلاتزال بہ حتّیٰ تغلب عليہ،فيصيراعلاہ اسفلہ >( ٢
“ميرے والد بزرگوار کا فرمایا کرتے تهے : انسان کی خطا و غلطی کے علاوہ
کوئی چيز انسان کے دل کو خراب نہيں کرسکتی ،بيشک اگر دل خطا کر جائے تو وہ
اس پر ہميشہ کےلئے غالب آجاتی ہے یہاں تک کہ دل کا او پر والا حصہ نيچے اور
نيچے کا حصہ او پر آجاتا ہے ”
اور یہ بهی امام جعفرصادق عليہ السلام کا فرمان ہے :
<اذااذنب الرجل خرج في قلبہ نکتة سوداء،فان تاب انمحت،وان زاد زادت ،حتّیٰ
( تغلب علیٰ قلبہ،فلایفلح بعدهااٴبداً >( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ مطففين آیت/ ١۴ ۔ )
٢)بحا ر الانوار جلد ٧٣ صفحہ/ ۴١٢ ۔ )
٣)بحار الا نوارجلد ٧٣ صفحہ ٣٢٧ ۔ )
“ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل ميں ایک سياہ نقطہ پيدا ہو جاتا ہے
اگروہ تو بہ کرليتا ہے تو وہ مٹ جاتا ہے ، اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بهی بڑ
هتا جاتا ہے یہاں تک کہ پور ے دل پر غالب آجاتا ہے اور پهر کبهی وہ اس (دل )پر کا
ميابی نہيں پا سکتا ہے ”
|