قبوليت دعاکی دو جزائيں
بندہ کی دعا قبول ہونے کی اہميت خداوند عالم کے یہاں دو جہتوںسے ہے
ایک جہت سے نہيں ہے اوران ميں سے ایک جہت دوسری جہت سےزیادہ عظيم ہے
کم اہميت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سوال کے ذریعہ اس مطلب کا اظہار
کرے جس کے ذریعہ انسان الله سے صرف دنيا یاصرف آخرت یاان دونوں کو ایک ساته
طلب کرتا ہے۔
بيش قيمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم بنفس نفيس بندہ کی دعا
کا جواب دے تو اس کا مطلب خدا وند عالم کا اپنے بندہ کی دعا قبول کرنا ہی ہے
کيونکہ جتنی مرتبہ بهی خداوند عالم قبول کرے گا اتنی ہی مرتبہ گویا بندہ کی طرف
توجہ کرے گا ۔
دنيا کی ہر چيزکی قيمت اور حد ہوتی ہے ليکن خداوند قدوس کا اپنے بندہ
کی طرف متوجہ ہونے کے لئے نہ کوئی حساب ہے اور نہ کو ئی حدہے۔
ليکن جب بندہ پر خدا کی خاص عنایت ہوتی ہے تو اس وقت بندہ کی سعادت
کی کوئی حد نہيں ہوتی اور اس سعادت سے بلندکوئی اور سعادت نہيں ہوتی جس
کو اللهاپنے بندوں ميں سے بعض بندوں سے مخصوص کردیتاہے اور اسکی دعا قبول
کرکے یہ نشاندہی کراتا ہے کہ جس چيز کا بندہ نے خدا سے سوال کيا ہے وہ کتنی
قيمتی اور اہم ہے۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے :
“لقد دعوت اللّٰہ مرة فاٴستجاب،ونسيت الحاجة،لاٴنّ استجابتہ بإقبالہ علیٰ
عبدہ عند دعوتہ اعظم واجل مما یرید منہ العبد،ولوکانت الجنة ونعيمهاالاٴبد ولکن
( لایعقل ذلک الّاالعالمون،المحبون،العابدون،العارفون، صفوة اللّٰہ وخاصتہ” ( ١
“ميں نے ایک مرتبہ خدا وند عالم سے دعا کی اور اس نے قبول کرلی تو ميں
اپنی حا جت ہی کو بهول گيا اس لئے کہ اس کا دعا کی قبوليت کے ذریعہ بندہ کی
طرف توجہ کرنا بندہ کی حاجت کے مقابلہ ميں بہت عظيم ہے چا ہے وہ صاحب حا
جت اور اس کی ابدی نعمتوں سے متعلق ہی کيو ں نہ ہو ليکن اس بات کو صرف
خداوند عالم کے علماء ،محبين ،عابدین ،عرفاء اور اس کے مخصوص بندے ہی سمجه
سکتے ہيں ”
پس دعا اور استجابت دونوں الله اور بندہ کے مابين ایک تعلق ولگاؤ ہے یعنی
سب سے افضل و اشرف تعلق ہے۔ اللهاور اسکے بندوں کے درميان اس سے افضل
کونسا تعلق ولگاؤ ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کے حضور ميں اپنی حاجت پيش
کرے اللهاس کو قبول کرے اور اس سے مخصوص قراردے۔
اس تعلق کی لذت اور نشوونما اور بندہ پر خداوند عالم کی توفيق وعنایات
ميں اسی وقت مزہ ہے جب انسان اپنی مناجات،ذکر اور دعاکو خداسے مخصوص
کردے
ہم(مولف)کہتے ہيں الله سے اس تعلق ولگاؤ کی لذت یہ بندہ پر الله کی
عنایت ہے کہ بندہ اس طرح خداوند عالم کی یاد ميںغرق ہوجاتاہے کہ انسان خداکی
بارگاہ ميں اپنی حا جتيں پيش کرنے ميں مشغول ہوجاتا ہے ۔
اور کون لذت اس لذت کے مقابل ہوسکتی ہے ؟اور کونسی دولت خداوند عالم
کے حضور ميں پيش ہونے،اس سے ملاقات ،مناجات اور اسکا تذکرہ کرنے اور اسکے
جلال وجمال ميں منہمک ہونے کے مانند ہوسکتی ہے اور دعاکرنے کےلئے الله کے
سامنے کهڑے ہونا یہ خدا کے سامنے حاضر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)مصباح الشریعة صفحہ / ١۴ ۔ ١۵ ؛بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣٢٣ ۔ )
ہونے اس سے ملاقات ،مناجات اور اسکو یاد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
ایک عارف کا کہناہے:الله کے حضور ميں الله کے علاوہ کسی اورسے کوئی
سوال کرناالله کے نزد یک بہت برا ہے اور خدا کے علاوہ اس کے جلال اور جمال ميں
منہمک ہوجاناہے۔
رسول خدا (ص) سے مروی ہے کہ حدیث قدسی ميں آیاہے:
( “من شغلہ ذکري عن مساٴلتي اعطيتہ افضل مااعطی السائلين ”( ١
جو شخص مجه سے کوئی سوال کرے گاتوميں اس کوسوال سے زیادہ
عطاکرونگا ”
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے:
“وانّ العبد لتکون لہ الحاجة الی اللّٰہ فيبداٴبالثناء علی اللّٰہ والصلاة علی محمد
( وآلہ حتّی ینسیٰ حاجتہ فيقضيهامن غيران یساٴلہ ایاها”( ٢
“اگر بندہ ،خداسے کوئی حاجت رکهتا ہواور وہ خداوند عالم سے اپنی حاجت
کی ابتداء اس کی حمدوثنا اور محمد وآل محمد پر صلوات بهيج کر کرے اور اسی
دوران وہ اپنی حاجت بهول جائے تو اس سے پہلے کہ وہ خداوند عالم سے حاجت کا
سوال کرے وہ اس کی حاجت پوری کردے گا ”
مناجات محبين ميں حضرت امام زین العابدین عليہ السلام سے مروی ہے :
<۔۔۔اِجعَْلنَْامِمَّن هَيَّمتَْ قَلبَْہُ لِاِرَادَتِکَ وَاجتَْبَيتَْہُ لِمُشَاهَدَتِکَ ،وَاَخلَْيتَْ وَجهَْہُ لَکَ
( وَفَرَّغتَْ فُوٴَادَہُ لِحُبِّکَ وَرَغَّبتَْہُ فِيمَْاعِندَْکَ ۔۔۔وَقَطَعتَْ عَنہُْ کُلَّ شَيءٍْ یَقطَْعُہُ عَنکَْ >( ٣
“ہم کو ان ميں سے قر ار دے کہ جن کے دلوں کو اپنی چاہت کے لئے گرویدہ
کرليا ہے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحارالانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣٢٣ ۔ )
٢)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٣١٢ ۔ )
٣)مناجات محبين۔ )
اپنے مشاہدے کےلئے انهيںچن ليا ہے اپنی طرف توجہ کی یکسوئی عنایت کی ہے
اور اپنی محبت کے لئے ان کے دلوںکو خا لی کر ليا ہے اور اپنے ثواب کے لئے راغب
بنا یا ہے ۔۔۔اور ہر اس چيز سے الگ کر دیا ہے جو بندہ کو تجه سے الگ کرسکے ”
دعا اور استجابت دعا کا رابطہ
خداوند عالم ارشاد فرماتاہے:
<وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْی اَستَْجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی سَيَدخُْلُونَْ
( جَهَنَّمَ دَاخِرِینَْ>( ١
“اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا اور
یقيناً جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل
ہوں گے ”
دعا قبول ہونے کے درميان کيا رابطہ ہے؟
استجابت کيسے تمام ہوتی ہے؟
ہم اس فصل ميں ان ہی دو سوالات سے متعلق بحث کریں گے۔
بيشک خداوند عالم کی طرف سے دعا استجابت کے الٰہی سنتوں اور قوانين
کے ذریعہ انجام پاتی ہے جيسا کہ تمام افعال ميں خدا کا یہی طریقہ رائج ہے۔
منفعل ہونا خداکی ذات ميں نہيں ہے جيسا کہ ہم انسانوں کی فطرت ہے کہ
کبهی ہم غصہ ہوتے ہيں ،کبهی خوشحال ہوتے ہيں،کبهی غصہ ہو تے ہيں ،کبهی
خوش ہو تے ہيں ،کبهی چُست رہتے ہيں اور کبهی ملول و رنجيدہ رہتے ہيں ۔
اور خداوند عالم کے افعال ایک طرح کے قانون ا ور سنت ہيں ان ميں خوشی
یا غصہ کاکوئی دخل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔ )
نہيں ہوتا تمام سنتيں اور قوانين الٰہيہ اپنی جگہ پر ثابت ہيں ۔ایسا نہيں ہے کہ خداوند
عالم خوش ہوگا تو دعا قبول کرے گا اور ناراض ہوگاتو دعاقبول نہيں کرے گا ۔
یہ تمام الٰہی سنتيں افق غيب(مڻافيزیکی )ميں اس طرح جاری ہوتی ہيں
جس طرح فيزیکس، کيميا،اور ميکانيک ميں بغير کسی فرق کے جاری ہوتی ہيں۔
( <لَن تَجِدَلِسُنَّةِاللهِتَبدِْیلْاً>( ١
“تم خدا کی سنت ميں ہر گز تبدیلی نہيں پا وٴ گے ”
( <لَن تَجِدَلِسُنَّةِ اللهِتَحوِْیلْاً>( ٢
“ہر گز خدا کے طریقہٴ کار ميں کو ئی تغير نہيں ہو سکتا ہے ”
دعاقبول ہونے ميں الله کی سنت کيا ہے؟
دعا ،رحمت کی کنجی ہے
دعا اور استجابت کے درميان رابطہ کے سلسلہ ميں نصوص اسلاميہ ميں دعا
اجابت کی کليد کے عنوان سے تعبير کی گئی ہے اور یہی کلمہ دعااور استجابت کے
درميان رابطہ کی نوعيت کو معين ومشخص کرتاہے۔
حضرت علی عليہ السلام سے مروی ہے :
( <الدعاء مفتاح الرحمة>( ٣
“دعاکليد رحمت ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ١)سورئہ احزاب( ۶٢ )
٢)سورئہ فاطرآیت/ ۴٣ ۔ )
( ٣)بحار جلد ٩٣ صفحہ ٣٠٠ )
اور امام امير المومنين علی بن ابی طالب عليہ السلام نے اپنے فرزند امام
حسن عليہ السلام کو وصيت فرمائی:
<ثم جعل فی یدک مفاتيح خزاٴئنہ بمااذن فيہ من مساٴلتہ فمتٰی شئت
( استفتحت بالدعاء ابواب خزائنہ>( ١
“تمہارے ہاتهوں ميں اپنے خزانوں کی کليد قرار دی پس جب تم چاہو تو اس
دعاکے ذریعہ خزانوں کے دروازے کهول سکتے ہو”
دعا اور استجابت کے درميان رابطہ کی واضح و روشن تعبير “فمتی شئت
استفتحت بالدعاء ابواب خزائنہ”ہے۔
پس معلوم ہواکہ جس کليد سے ہم الله کی رحمت کے خزانوں کو کهول
سکتے ہيں وہ دعا ہے۔
اور ا لله کی رحمت کے خزانے کبهی ختم نہيں ہوتے ليکن ایسا بهی نہيں ہے
کہ تمام لوگ الله کی رحمت کے خزانوں کے مالک بن جائيں اور ایسا بهی نہيں ہے
کہ تمام لوگ آسانی سے الله کی رحمت کے خزانوں کو حاصل کرسکيں۔
امام جعفر صادق عليہ السلام سے خداوند عالم کے قول:
( <مَایَفتَْحِ اللهُ لِلنَّا سِ مِن رَحمَْةٍ فَلَامُمسِْکَ لَهَا >( ٢
“الله انسا نوں کےلئے جو رحمت کا دروازہ کهول دے اس کا کو ئی روکنے والا
( نہيں ہے ”کے بارے ميںروایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:وہ دعاہے۔( ٣
بيشک دعا وہ کليد ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم لوگو ں کےلئے اپنی
رحمت کے دروازوں کو کهول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٩ )
٢)سورئہ فا طر آیت / ١۔ )
٣)بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٢٩٩ ۔ )
دیتا ہے اور اس کليد کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے ہاتهوں ميں قرار دیا ہے۔
رسول الله (ص)سے مروی ہے کہ:“من فتح لہ من الدعاء منکم فتحت لہ ابواب
( الاجابة ”( ١
“تم ميں سے جس شخص کےلئے باب دعا کهل جائے تو اس کے لئے اجابت
کے دروازے کهل جاتے ہيں ”
اللهتبارک وتعالیٰ جو دعا کے ذریعہ بندے کے لئے دروازے کهول دیتا ہے وہ
اس کے لئے ابواب اجابت بهی کهول دیتاہے۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے:
( “من قرع باب اللّٰہ سبحانہ فتح لہ ”( ٢
“جو الله کے دروازے کو کهڻکهڻاتاہے تو الله اس کےلئے دروازہ کهول دیتا ہے”
اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے:
“اکثرمن الدعاء،فانہ مفتاح کل رحمة،ونجاح کل حاجة،ولاینال ماعند اللّٰہ
( الابالدعاء،وليس باب یکثرقرعہ الایوشک انْ یُفتح لصاحبہ ”( ٣
“زیادہ دعا کرو اس لئے کہ دعا ہر رحمت کی کنجی ہے۔ہر حاجت کی کاميابی
ہے اور الله کے پاس جو کچه ہے اس کو دعا کے علاوہ کسی اور چيز سے حاصل
نہيں کيا جاسکتا اور ایسا کوئی دروازہ نہيں جس کو بہت زیادہ کهڻکهڻایا جائے اور وہ
کهڻکهڻانے والے کے لئے نہ کهلے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)کنزالعمال حدیث نمبر/ ٣١۵۶ ۔ )
٢)غررالحکم حدیث / ٨٢٩٢ ۔ )
٣)بحارالانوارجلد ٩٣ صفحہ ٢٩۵ ،وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١٠٨۶ حدیث/ ٨۶١۶ ۔ )
اور حضرت اميرالمومنين عليہ السلام سے مروی ہے:
“الدعاء مفاتيح النجاح،ومقاليدالفلاح،وخيرالدعاء ماصدرعن صدر نقي وقلب
( تقي” ( ١
“دعا کاميابی کی کليد اوررستگاری کے ہار ہيں اور سب سے اچهی دعاوہ
ہوتی ہے جو پاک وصاف اورپرہيزگار دل سے کی جاتی ہے”
ر سو ل ١للهصلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مر و ی ہے کہ :
“الاادلّکم علی سلاح ینجيکم من اعدائکم،ویدرّارزاقکم ؟ قالوا:بلیٰ، قال:تدعون
( ربّکم بالليل والنهار،فانّ سلاح الموٴمن الدعاء ”( ٢
“آگاہ ہو جاوٴکيا ميں تمہاری اس اسلحہ کی طرف را ہنمائی کروں جو تم کو
تمہارے دشمنوں سے محفوظ رکهے اور تمہارا رزق چلتا رہے ؟توانهو ں نے کہا : ہا ں
آپ نے فر ما یا :خدا وند عا لم کو رات دن پکارو اس لئے کہ دعا مو من کا اسلحہ ہے”
عمل اور دعا الله کی رحمت کی دو کنجيا ں
الله نے ہما رے ہا تهو ںميں کنجيا ں قرار د ی ہيں جن کے ذر یعہ ہم الله کی
رحمت کے خز انو ںکے دروازے کهول سکتے ہيں اور ان کے ذر یعہ ہم الله کا رزق
اور اس کا فضل طلب کر سکتے ہيں اور وہ دو نو ں کنجيا ں عمل اور دعا ہيں اور ان
ميں سے ایک دو سر ے سے بے نيا زنہيں ہو سکتی ۔
عمل، دعا سے بے نيا زنہيںہے یعنی انسان کےلئے عمل کے بغير دعا پر
اکتفا کر لينا کافی نہيں ہے
رسول الله (ص) نے جناب ابوذر سے وصيت کرتے ہو ئے فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)وسائل الشيعہ جلد ۴صفحہ ١٠٩۴ حدیث ٨۶۵٧ ،اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵١٧ ۔ )
٢)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہٴ ١٠٩۵ ،حدیث ٨۶۵٨ ۔ )
( “یااٴباذرمَثَلُ الذي یدعوبغيرعمل کمثل الذي یرمي بغيروتر ” ( ١
“اے ابوذر بغير عمل کے دعا کرنے والا اسی طرح ہے جس طرح ایک انسان
بغير کمان کے تير پهينکے ”
امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے :
“ثلاثة ترود عليهم دعوتهم:رجل جلس فی بيتہ وقال:یاربِّ ارزقني، فيُقال لہ:اٴلم
( اجعل لک السبيل الیٰ طلب الرزق ؟۔۔۔”( ٢
“تين آدميوں کی دعائيں واپس پلڻادی جاتی ہيں : ان ميں سے ایک وہ شخص
ہے جو اپنے گهر ميںبيڻها رہے اور یہ کہے : اے پرور دگارمجهے رزق عطا کر تو اس کو
جواب دیا جاتاہے : کيا ميں نے تمہارے لئے طلب رزق کا را ستہ مقررنہيں کيا ؟۔۔۔”
اور انسان کےلئے دعا کے بغير عمل پر اکتفا کر لينا بهی صحيح نہيں ہے ۔
رسول اللهصلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
“إنّ للهعباداًیعملون فيعطيهم،وآخرین یساٴلونہ صادقين فيعطيهم،ثم یجمعهم
فی الجنة۔فيقول الذین عملوا:ربّنا،عملنافاٴعطيتنا،فبمااعطيت هوٴلاء؟ فيقول:هوٴلاء
عبادي،اٴعطيتکم اجورکم ولم اٴلتکم من اٴعمالکم شيئاً،وساٴلني هوٴلاء فاٴعطيتهم
( واغنيتهم،وهوفضلي اُوتيہ مَنْ اٴشاء”( ٣
“بيشک الله کے کچه ایسے بندے ہ یں جو عمل کرتے ہيں اور خدا انکو عطا کرتا
ہے اوردوسرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) وسا ئل شيعہ ابواب دعا باب ٣٢ حدیث ٣ ۔ )
٢)وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ۵٠ ح ٣ ۔ )
٣) وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١٠٨۴ حدیث / ٨۶٠٩ ۔ )
بندے ہيں جو صدق دل سے سوال کر تے ہيں اور خدا وند عالم ان کو بهی عطا کر
تاہے پهرجب ان کوجنت ميں جمع کيا جا ئيگا تو عمل کرنے والے بندے کہيں گے : اے
ہمارے پالنے والے ہم نے عمل کيا تو تو نے ہم کو عطا کيا ليکن ان کو کيوں عطا کيا
گيا جواب ملے گا یہ ميرے بندے ہيں ميں نے تم کو تمہارا اجر دیا ہے اور تمہارے
اعمال ميں سے کچه کم نہيں کيا ہے اور ان لوگوں نے مجه سے سوال کيا ميں نے
ان کو دیا اور ان کو بے نياز کردیا اور یہ ميرا فضل ہے ميں جس کو چا ہتا ہوں عطا کرتا
ہوں ”
اگر انسان عمل کرنے سے عاجز ہو تو الله نے اس کی تلافی کےلئے دعا قرار
دی تا کہ انسان اپنے نفس پر اعتماد کرے ،جو کچه حول و قوہٴ الٰہی کے ذریعہ عطا
کيا گيا ہے اورجو کچه اس نے عمل کے ذریعہ قائم کيا ہے اس کے فریب ميں نہ آئے ۔
معلو م ہو ا کہ عمل اور دعا دو نوں سب سے عظيم دو کنجياں ہيں جن دو
نوں کے ذریعہ انسان پر الله کی رحمت کے دروازے کهلتے ہيں ۔
ا ب ہم عمل اور اس کے رحمت سے رابطہ کے مابين اور اس کے با لمقا بل
دعا اور ا لله کی رحمت کے خزا نوں کے ما بين رابطہ اور عمل سے دعا کے رابطہ کے
بارے ميں بحث کریں گے چونکہ یہ روابط ہی اسلام کے ابتدائی اور اصلی مسائل
ہيں۔
الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کو “عمل اور دعا”دونوں چيزیں ایک ساته عطا کی
ہيں۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اللهتعالیٰ نے اپنے بندوں کو وہی سب کچه عطا کيا“جو ان
کے پاس ہے”۔“وہ سب کچه نہيں جو ان کے پاس نہيںہے”اور ان کے پاس ان کی
کوششيں اور ان کے اعمال ہيں۔وہ اپنی کوشش سے جو کچه الله کے سامنے پيش
کرتے ہيں اور اپنے نفوس اور اموال سے خرچ کرتے ہيں وہ عمل ہے ،اور جو کچه ان
کے پاس نہيں ہے وہ ان کا فقر،اور الله کا محتاج ہونا ہے اور الله کے سامنے اپنے فقير
اور محتاج ہونے کا اقرار کرنا ہے۔
انسانی حيات ميں یہ دونوں الله کی رحمت کو نازل کرنے کی کنجياں
ہيں،جسے وہ اپنی کوشش عمل،نفس اور مال کے ذریعہ الله سے حاصل کرتا ہے اور
الله کے حضور ميں اپنی حاجت ،فقر اور مجبور ی کو دکهلاتاہے۔
دعااور عمل کے درميان رابطہ
ہمارا دعا کو الله کی سنتوں سے جدا سمجهنا صحيح نہيں ہے بيشک اللهنے
کائنات ميں اپنے بندوں کے لئے ان کی حاجتوں کی خاطرسنتوں کو قرار دیا ہے۔اور
لوگوں کا اپنی تمام حاجتوں اور متعلقات ميں ان سنتوں کو مہمل شمار کرناحرمت
نہيں ہے۔
دعا ان سنتوںکا بدل قرار نہيں دی جاسکتی یہ الٰہی سنتيں انسان کو
دعاسے بے نياز نہيں کرتی ہيں(یعنی ان سنتوں کو دعاؤں کا بدل قرار نہيں دیا
جاسکتاہے۔)
یہ نکتہ اسلامی ربانی ثقافت ميں ایک بہت لطيف نکتہ ہے،لہٰذا فلّاح( کا
شتکار ) کےلئے زمين کهودنااس ميںپانی دینا،زمين کی فصل ميں رکاوٹ بننے والی
اضافی چيزوں کو دور کرنا، زراعت کی حفاظت کرنا اور مزرعہ سے نقصان دہ چيزوں کو
دور کرنے کےلئے دعا کردینا ہی کا فی نہيں ہے ۔
بيشک ایسی دعا قبول نہيں ہو تی ہے اور ایسی دعائيں امام جعفر صادق
عليہ السلام کے اس قول کا مصداق ہيں :
<الداعي بلاعمل کالرامي بلاوتر>
“ عمل کے بغير دعا کرنے والابغير کمان کے تير پهينکنے والے کے ما نند ہے ۔
جس طرح بيمار اگر حکيم اور دوا کو بيکار سمجهنے لگے تو اس کی دعا قبول
نہيں ہو تی ہے اور یہ دعا قبول ہی کيسے ہو جس ميں انسان الله کی سنتوں سے
منه مو ڑلے ۔لہٰذا الٰہی سنتوں کے بغير دعا قبول نہيں ہو سکتی ہے ۔بيشک اپنے
بندوں کی دعاوٴں کو قبول کرنے والا فطری طور پر ان سنتوں کا خالق ہے وہ وہی خدا
ہے جس نے اپنے بندوں کو ان سنتوں کو جا ری کرنے کا حکم دیا ہے اور ان سے کہا
ہے کہ تم اپنا رزق اور اپنی حا جتيں ان سنتوں کے ذریعہ حاصل کرو اور خدا وند عالم
فر ماتا ہے :
( <هُوَالَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الاَْرضَْ ذَلُولْاًفَامشُْواْفِی مَنَاکِبِهَا وَکُلُواْمِن رِزقِْہِ ۔۔۔>( ١
“اسی نے تمہا رے لئے زمين کو نرم بنا دیا ہے کہ اس کے اطراف ميں چلو اور
رزق خدا تلاش کرو ۔۔۔”
اور خدا وند عالم کا یہ فرمان ہے :
( <فَانتَْشِرُواْفِی الاَْرضِْ وَابتَْغُواْمِن فَضلِْ اللهِ>( ٢
“پس زمين ميں منتشر ہو جا ؤ اور فضل خدا کو تلاش کرو ”
جس طرح دعا عمل کا قائم مقام نہيں ہو سکتی اسی طرح عمل دعا کا قائم
مقام نہيں ہو سکتا بيشک اس کا ئنات کی کنجی الله کے پاس ہے ،دعا کے ذریعہ
الله اپنے بندوں کووہ رزق عطا کرتا ہے جس کو وہ عمل کے ذریعہ حا صل نہيں کر
سکتے اور دعا کے ذریعہ فطری اسباب سے اپنے بندوں کووہ کا ميابی عطا کرتا ہے
جس پر وہ عمل کے ذریعہ قادر نہيں ہو سکتے ہيں ۔
انسان کےلئے رزق کی خاطر فطری اسباب کے مہيا کرنے کا مطلب یہ نہيں
ہے کہ انسان فطری اسباب کے ذریعہ الله سے دعا ،سوال اور ما نگنے سے بے نياز
ہو جا ئے ۔
بيشک الله تبارک و تعالیٰ باسط ،قابض،معطی ،نافع ،ضار،محيی و مہلک،معزّ و
مذل،رافع اور واضع(یعنی بلندی اور پستی عطا کرنے والا )ہے ،دنيائے ہستی کی
کنجياں اسی کے ہاته ميں ہيں کو ئی چيزاس کے امر ميں مانع نہيں ہو سکتی ،اس
دنيا کی کو ئی بهی چيز اس کے امر و سلطنت سے با ہر نہيں ہو سکتی اس دنيائے
ہستی کی ہر طاقت و قوت ،سلطنت ،نفع پہنچانے والی اورنقصان دہ چيز اس کے
امر،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ ملک آیت/ ۵ا۔ )
٢)سورئہ جمعہ آیت/ ٩۔ )
حکم اور سلطنت کے تابع ہے اور خدا کی سلطنت و ارادہ کے علا وہ اس دنيا ميں
کسی چيز کا وجود مستقل نہيں ہے یہا ں تک کہ انسان بهی الله سے دعا ،طلب اور
سوال کے ذریعہ معا ملہ کر نے سے بے نياز نہيں ہے
ہم الله کی تسبيح کرتے ہيں اور یہودیوں کے اس قول :
( <ید الله مغلولة>( ١
“خدا کے ہاته بندهے ہو ئے ہيں ”سے اس کو منزہ قرار دیتے ہيں اور وہ کہتے
ہيں جو قرآن کہتا ہے :
( <بَل یَدَاہُ مَبسُْوطَْتَانِ>( ٢
“بلکہ اس کے دونوں ہاته کهلے ہو ئے ہيں ”
ہم اپنے تمام معا ملات خدا سے وابستہ قراردیتے ہيں ہم خدا کے ساته
معاملہ کر نے اور جن سنتوں کو اللهنے بندوں کے لئے رزق کا وسيلہ قرار دیا ہے ان
کے مابين جدائی کے قائل نہيں ہيں اور ہمارا یہ بهی عقيدہ ہے کہ یہ تمام طاقتيں اور
روشيں خداوند عالم کے ارادہ مشيت اور سلطنت کے طول ميں ہم کو فائدہ یا نقصان
پہنچاتی ہيںيہ خداوند عالم کے ارادہ اور سلطان کے عرض ميں نہيں ہيں اور نہ ارادہ
و سلطان سے جدا ہيں ۔
ہم اپنے چهوڻے بڑے تمام امور ميں الله کی رحمت،فضل اور حکمت سے یہی
لولگاتے ہيں اور ہم اپنی زندگی ميں الله کے ارادے اسکی توفيق اوراسکے فضل سے
ہی لولگاتے ہيں ہم اپنی زندگی کے ہر لمحہ ميں الله کے محتاج ہيں اور پوری زندگی
ميں اسکے فضل و رحمت ،حمایت،توفيق اور ہدایت کے محتاج ہيں اور ہم دعاکرتے
ہيں کہ وہ ہمارے امور کااستحکام ان کی ،تائيد،ہدایت،توفيق کا سرپرست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)سورئہ ما ئدہ آیت / ۶۴ ۔ )
٢)سورئہ ما ئدہ آیت/ ۶٣ ۔ )
ہے۔ہم خدا وند عالم کی ذات کریمہ سے اس بات کی پناہ چا ہتے ہيں کہ وہ ایک
لمحہ کيلئے بهی ہم کو ہمارے حال پر چهوڑدے خداسے ہم یہ چاہتے ہيں کہ وہ خود
ہی ہماری حاجتيں پوری کرے اور ہم کو کسی غير کا محتاج نہ بنائے ۔
اس دعا کا یہ مطلب نہيں ہے کہ انسان اپنی حاجتوں کو لوگوں سے مخفی
رکهے جبکہ اس کا ئنات ميں فطری اسباب مو جود ہيں بشرطيکہ انسان خداوند عالم
سے دعا کرے بلکہ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم سے یہ دعا کرے
کہ خداوند عالم غير سے اس کی حاجت کو، اپنی حاجت کے طول ميں قرار دے ۔غير
پر اس کے اعتماد کو اپنے اعتماد کے طول ميں قرار دے غير سے معاملہ کرنے کو
خود سے معاملہ کرنے کے طول ميں قرار نہ دے اور نہ جدا قرار دے چنا نچہ یہ کائنات
تمام کی تمام ایسے اسباب پر مشتمل ہے جو خداوند عالم کے تابع ہيں اور خداوند
عالم نے ان کو مخلوق کا تابع قرار دیا ہے ۔
ان اسباب کے ساته معاملہ کرنا ان کو اخذ کرنا ،ان پر اعتماد کرنا خداوند عالم
کے ساته معاملہ کرنے ،خدا سے اخذ کرنے ،خدا پر اعتماد کرنے کے طول ميں ہے
نيز اس توحيد کا جزء ہے جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے وہ نہ خدا کے ساته ہے
اور نہ خدا وند عالم سے جدا ہے ۔
اس روش کی بنا ء پر ہم کہتے ہيں کہ انسان کا فریضہ ہے کہ ہر چيز ميں
خداوند عالم کو پکارے ،ہر چيز کو خدا وند عالم سے طلب کرے چاہے چهوڻی ہو یا
بڑی ،روڻی(کهانا) ،آڻے کے نمک اور جانوروں کی گهاس سے ليکر جنگ کے ميدانوں
ميں دشمنوں پر کا ميابی تک ہر چيز خداوند عالم سے مانگے۔اپنی حاجتوں اور دعاؤں
ميں سے کسی چيز ميں غير خدا کا سہارا نہ لے اور اس بات سے خدا وند عالم کی
پناہ مانگے کہ وہ اس کو کسی چهوڻی یا بڑی چيز ميں اس کے حال پر چهوڑدے ۔
فعلی طور پر ہمارا یہ عقيدہ ہے کہ ہم اس عام فضاء ميں ہر چيز کے سلسلہ
ميں الله سے لولگائيں، ہر چيز الله سے طلب کریں ۔۔۔ یہ بات اس چيز سے کوئی
منافات نہيں رکهتی کہ انسان جس کو اللهنے پيدا کيا اور اس دنياميں کچه چيزیں
اسکے لئے مسخر کردی ہيں اور وہ اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ مریض ہونے کی
حالت ميں الله سے شفامانگتا ہے پهر ان اسباب شفاء اور علاج کوعلم طب اور دوا
ميں ڈهونڈهتا جواس نے اِن ميں قرار دئے ہيں۔
بلکہ ہم تو یہ عقيدہ رکهتے ہيں کہ اگر انسان تمام چيزوں کو چهوڑکر اور اس
دنيا ميں الله کی سنتوں کو بروئے کار نہ لاکر الله سے دعا کرتا ہے تو اسکی دعا قبول
نہيںہوتی اور وہ اس تير چلانے والے کے مانند ہے جو بغير کمان کے تير پهينکتاہے۔
یہ دقيق ، پاک و صاف اسلامی ثقافت ہم کو الله سے رابطہ رکهنے اور اس کا
ئنات ميں الله کی سنتوں کے ساته ہما ہنگی رکهنے کی دعوت دیتی ہے ۔
ہم اس بات سے یہ نتيجہ اخذ کرتے ہيں کہ ائمہ عليہم السلام سے وارد ہونے
والی دعائيں الله سے طلب کرنے کا ذخيرہ ہيں اور بندہ خدا کے علاوہ کسی اور سے
کوئی حاجت نہ رکهے،اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے،اپنی رسی کوالله کی ریسمان
سے ملا دے اور ہر اس چيز سے منقطع ہو جا ئے جو اس کو خداسے منقطع کردیتی
ہے۔
امام زین العا بدین عليہ السلام دعاميں فر ما تے ہيں:
<وَ لَاتَکِلنِْی اِل یٰ خَلقِْکَ بَل تَفَرَّد بِحَاجَتِي،ْوَتَوَلَّ کِفَایَتِي،ْوَانظُْر اِلّيَّ، وَانظُْر لِي ( فِی جَمِيعِْ اُمُورِْي>ْ( ١
“اور مجهے اپنی مخلوقات کے حوالہ نہ کر دینا تو تن تنہا ميری حاجت روا کرنا
،اور ميرے لئے کا فی ہو جانا ،اور ميری طرف نگاہ رکهنا ،اور ميرے تمام امور پر اپنی
نظریں رکهنا ”
حضرت ا مام حسين عليہ السلام دعا ئے عر فہ ميں فرماتے ہيں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١)صحيفہ کاملہ سجا دیہ دعا نمبر ٢٢ ۔ )
<اللَّهُمَّ مَااَخَافَ فَاکفِْنِي وَمَااَحذَْرَفَقِنِي،ْوَفِی نَفسِْي وَدِینِْي فَاحرِْسنِْي،ْوَفِی سَفَرِي فَاحفَْظنِْي،ْوَفِی اَهلِْي وَمَالِي فَاخلُْفنِْي،ْوَفِيمَْارَزَقتَْنِی فَبَارِکَ لِي وَفِی نَفسِْي فَذَلِّلنِْي،ْوَفِي اَعيُْنِ النَّاسِ فَعَظِّمنِْي وَمِن شَرِّالجِْنِّ وَالاِْنسِْ فَسَلِّمنِْي،ْوَبِذَنُوبِْي فَلَاتَفضَْحنِْي،ْوَبِسَرِیرَْتِي فَلَا تُخزِْنِي،ْوَبِعَمَلِي فَلَاتَبتِْلنِْي،ْوَنِعَمِکَ فَلَاتَسلُْبنِْي وَاِل یٰ غَيرِْکَ
( فَلَا تَکِلنِْي>ْ( ١
“ خدایاجس چيزکامجهے خوف ہے اس کےلئے کفایت فرما اور جس چيز سے
پرہيزکرتا ہوں اس سے بچا لے اور ميرے نفس اور ميرے دین ميںميری حراست فرما
اور ميرے سفر ميں ميری حفاظت فرما اور ميرے اہل اور مال کی کمی پوری فرما اور
جو رزق مجه کو دیا ہے اس ميں برکت عطافرما مجهے خود ميرے نزدیک ذليل بنادے
اور مجه کو لوگوں کی نگاہ ميں صاحب عزت قرار دے اور جن وانس کے شر سے
محفوظ رکهنا اورگنا ہوں کی وجہ سے مجهے رسوا نہ کرنا ميرے اسرارکوبے نقاب نہ
فرمانااور ميرے اعمال ميںمجهے مبتلا نہ کرنا اور جونعمتيں دیدی ہيں انهيںواپس نہ
لينااور مجه کو اپنے علاوہ کسی اور کے حوالہ نہ کرنا”
اب ہم دعا اور دعا قبول ہو نے کے درميان رابطہ کو بيان کر تے ہيں ۔
|