دعا عند اهل بيت
محمد مهدی آصفی
مترجم: سيد ضرغام حيدر نقوی


دعا کی تعریف
دعا یعنی بندے کا خدا سے اپنی حا جتيں طلب کرنا ۔ دعا کی اس تعریف کی اگر تحليل کی جا ئے تو اس کے مندرجہ ذیل چار رکن ہيں :
١۔مدعو:خدا وند تبارک و تعالیٰ۔
٢۔داعی :بندہ۔
٣۔دعا :بندے کا خدا سے ما نگنا۔
۴۔مدعو لہ:وہ حا جت اور ضرورت جو بندہ خدا وند قدوس سے طلب کر تا ہے ۔
ہم ذیل ميں ان چاروں ارکان کی وضاحت کر رہے ہيں :

١۔مدعو :
یعنی دعا ميں جس کو پکارا جاتا ہے وہ خدا وند قدوس کی ذات ہے :
١۔خداوند قدوس غنی مطلق ہے جو آسمان اورزمين کا مالک ہے جيسا کہ ارشاد ہو تا ہے :
< اٴَلَم تَعلَْم اَنَّ اللَّہَ لَہُ مُلکُْ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرضِْ 1
“کيا تم نہيں جا نتے کہ آسمان و زمين کی حکو مت صرف الله کےلئے ہے ” < وَ لِلَّہِ مُلکُْ السَّمَاواتِ وَالاَْرضِْ وَمَابينَْهُمَایَخلُْقُ مَایَشَا ءُ 2
“اور الله ہی کےلئے زمين و آسمان اور ان کے درميان کی کل حکو مت ہے ” ٢۔خداوند عالم کا خزانہ جود و عطا سے ختم نہيں ہو تا : اِنَّ هذََٰالرزقْنَامَالَہُ مِن نِفَاد 3
“یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہو نے والا نہيں ہے ”سورئہ ص آیت / ۵۴ ۔ کُلّاًنُمِدُّ هٰوٴُلَاءِ وَ هٰوٴُلَاءِ مِن عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَاکَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحظُْوراً 4
“ہم آپ کے پر ور دگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور اُن سب کی مدد کر تے ہيں اور آپ کے پر ور دگار کی عطا کسی پر بند نہيں ہے ” اور دعا ئے افتتاح ميں وارد ہو ا ہے :“لَاتَزِیدُْہُ کَثرَْة العَطَاءِ اِلَّاجُودْاًوَکَرَماً ” “اور عطا کی کثرت سوائے جود و کرم کے اور کچه زیا دہ نہيں کر تی ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 سورئہ بقرہ آیت/ ١٠٧ ۔
2 سورئہ ما ئدہ آیت/ ١٧ ۔
3 سورئہ ص آیت ۵۴ ۔
4 سورئہ اسرا ء آیت ٢٠ ۔
٣۔وہ اپنی ساحت و کبریا ئی ميں کو ئی بخل نہيں کر تا ،کسی چيز کے عطا کر نے سے اس کی ملکيت کا دائرہ تنگ نہيں ہو تا ،وہ اپنے بندو ں پر اپنی مر ضی سے جو جو د و کرم کرے اس سے اس کی ملکيت ميں کو ئی کمی نہيں آتی اور وہ بندوں کی حا جتوں کو قبول کر نے ميں کوئی دریغ نہيں کرتا ۔
اگر کو ئی بندہ اس کو پکا رے تو وہ دعا کو مستجاب کر نے ميں کسی چهوڻے بڑے کا لحاظ نہيں کرتاہے چونکہ خود اسی کا فر مان ہے :<اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ >“مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا”مگر یہ کہ خود بندہ دعا مستجا ب کرانے کی صلا حيت نہ رکهتا ہو ۔چو نکہ بندہ اس با ت سے آگاہ نہيں ہو تا کہ کو نسی دعا قبول ہو نی چا ہئے اور کو نسی دعا قبول نہيں ہو نی چا ہئے فقط خدا وند عالم اس چيز سے واقف ہے کہ بندے کےلئے کونسی دعاقبوليت کی صلاحيت رکهتی ہے اور کو نسی قبوليت کی صلا حيت نہيں رکهتی جيساکہ دعا ئے افتتاح ميں آیا ہے :
<وَلَعَلَّ الَّذِی اَبطَْاٴْعَنّی هُوَخَيرٌْلِی لِعِلمِْکَ بِعَاقِبَةِ الاُْمُورِْ،فَلَم اَرَمَولْیً کَرِیمْاًاَصبِْرعَْلَ یٰ عَبدٍْلَئِيمٍْ مِنکَْ عَلَيَّ>
“حالانکہ توجانتا ہے کہ ميرے لئے خير اس تاخير ميں ہے اس لئے کہ تو امور کے انجا م سے باخبرہے ميں نے تيرے جيساکریم مولا نہيں دیکها ہے جو مجه جيسے ذليل بندے کوبرداشت کرسکے ”

٢۔داعی :(دعا کر نے والا )
بندہ ہر چيز کا محتاج ہے یہا ں تک کہ اپنی حفا ظت کر نے ميں بهی وہ الله کا محتا ج ہے ارشاد ہو تا ہے :
< یَٰاٴَیُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ 1
“انسانوں تم سب الله کی بارگاہ کے فقير ہو اور الله صاحب دو لت اور قابل حمد و ثنا ہے ” < وَاللَّہُ الغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ 2
“خدا سب سے بے نياز ہے اور تم سب اس کے فقير اور محتاج ہو ” انسان کے پاس اپنے فقر سے بہتر اور کو ئی چيز نہيں ہے جو اس کی بار گاہ ميں پيش کر سکے۔ اور الله کی بارگاہ ميں اپنے کو فقير بنا کر پيش کر نے سے اس کی رحمتوں کا نزول ہو تا ہے۔
اور جتنا بهی انسان الله کی بارگاہ کا فقير رہے گا اتنا ہی الله کی رحمت سے قریب رہے گا اور اگر وہ تکبر کر ے گا اور اپنی حا جت و ضرورت کو اس کے سا منے یش نہيں کر ے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے دور ہو تا جا ئے گا ۔

٣۔ دعا :(طلب ،چا ہت، مانگنا)
انسان جتنا بهی گڑ گڑا کر دعا ما نگے گا اتنا ہی وہ رحمت خدا سے قریب ہو تا جا ئے گا ۔انسا ن کے مضطر ہو نے کی سب سے ادنیٰ منزل یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اختيارات کا مالک خدا کو سمجهے یعنی خدا کے علا وہ کو ئی اس کی دعا قبول نہيں کر سکتا ہے اور مضطر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس دو سرا کو ئی اختيار نہ رہے یعنی اگر کو ئی اختيار ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کا اختيار ہے اور اس کے علا وہ کو ئی اختيار نہيں ہے جب ایسا ہوگا تو انسان اپنے کو الله کی بارگاہ ميں نہایت مضطر محسوس کرے گا ۔۔۔اور اسی وقت انسان الله کی رحمت سے بہت زیادہ قریب ہو گا:
6 < اٴَ مّنَّ یُّجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاہُ وَیَکشِْفُ السُّوءَْ 3
“بهلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کوآوازدیتا ہے اور اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 سورئہ فاطر آیت/ ١۵
2 سورئہ محمد آیت ٣٨ ۔
3 سورئہ النمل آیت ۶٢ ۔
مضطر کی دعا اور الله کی طرف سے اس کی قبوليت کے درميان کو ئی فاصلہ نہيں ہے اور دعا ميں اس اضطرار اورچاہت کا مطلب خدا کے علاوہ دنيا اور ما فيہا سے قطع تعلق کر لينا اور صرف اور صرف اسی سے لو لگاناہے اس کے علا وہ غيرخدا سے طلب ا ور دعا نہيںہو سکتی ہے ۔اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ دعا انسان کو کو شش اور عمل کر نے سے بے نياز کر دیتی ہے ،جس طرح کوشش اور عمل، دعا کر نے والے کو الله سے دعا کرنے سے بے نياز نہيں کر تے ہيں۔

۴۔مد عوّلہ ( جس کے لئے یاجو طلب کيا جا ئے )
انسا ن کو خدا وند قدوس سے اپنی چهو ڻی سے چهو ڻی اور بڑی سے بڑی تمام جا جتيں طلب کر نا چاہئيں خدا اس کی حا جتوں کو پورا کر نے سے عا جز نہيں ہو تا اور نہ اس کے ملک و سلطنت ميں کو ئی کمی آتی ہے ،اور نہ ہی بخل اس کی ساحتِ کبریا ئی سے ساز گار ہے ۔
انسا ن کےلئے خدا وند عالم سے اپنی چهو ڻی سے چهوڻی حاجت طلب کر نے ميں بهی کو ئی حرج نہيں ہے (یہاں تک کہ وہ اپنے لئے جوتی ،جانوروں کےلئے چارا اور اپنے آڻے کےلئے نمک بهی ما نگ سکتا ہے ) جيسا کہ روایت ميں وارد ہوا ہے کہ خدا وند عالم چهوڻی بڑی حا جتوں کو پورا کر کے اپنے بندے کو ہميشہ اپنے سے لو لگانے کو دوست رکهتا ہے ۔نہ چهوڻی دعا ئيں، اور نہ ہی بڑی حاجتيں ہو نے کی وجہ سے خداوند عالم اپنے اور بندوں کے درميان پردہ ڈالتا ہے ۔خدا وند عالم تو ہميشہ اپنے بندوں کی چهو ڻی اور بڑی تمام حاجتوں کو پورا کر تا ہے اور اپنے بندے کے دل کو ہر حال ميں اپنی طرف متوجہ کرنا چا ہتا ہے ۔
انسان اور خدا کے درميان دعا اور حاجت کے مثل کوئی چيز واسطہ نہيں بن سکتی ہے ۔دعا کے یہی چار ارکان ہيں ۔