292
چھٹا وسيلہ
دعا
تكميل روح اور قرب خدا كى بہترين عبادت اور سبب دعا ہے اسى لئے خداوند عالم نے اپنے بندوں كو دعا كرنے كى دعوت دى ہے_ قرآن مجيد ميں خدا فرماتا ہے ''مجھ سے مانگو اور دعا كرو تا كہ ميں تمہيں عنايت كروں جو لوگ ميرى عبادت كرنے سے تكبر كرتے ہيں وہ بہت جلدى اور خوارى كى حالت ميں جہنم ميں داخل ہونگے_ (509) پھر اللہ تعالى نے فرمايا ہے '' تضرع اور مخفى طور سے خدا سے مانگو يقينا خدا تجاوز اور ظلم كرنے والوں كو دوست نہيں ركھتا_ (510) اور فرمايا '' اے ميرے بندو مجھ سے سوال كرو ان سے كہہ دو كہ ميں ان كے نزديك ہوں اگر مجھ پكاريں تو ميں ان كا جواب دونگا_ (511)
پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' دعا عبادت كى روح اور مغز ہے_ (512)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' دعا عبادت ہے_ خدا فرماتا ہے كہ لوگ ميرى عبادت كرنے سے تكبر كرتے ہيں_ خدا كو پكار اور يہ نہ كہہ كہ بس كام ختم ہوچكا ہے_ (513)
حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كبھى دعا كو ترك نہ كرو كيونكہ تم ايسا عمل پيدا نہيں كرو گے جو دعا سے زيادہ تقرب كا موجب ہو يہاں تك كہ معمولى چيزوں
293
كو كبھى خدا سے طلب كرو اور ان كے معمولى ہونے كى وجہ سے دعا كرنے كو ترك نہ كرو كيونكہ معمولى چيزوں كا مالك بھى وہى ہے جو بڑے امور كا مالك ہے_ (514)
لہذا خدا كے بندے كو دعا كرنى چاہئے كيونكہ وہ تمام وجود ميں خدا كا محتاج ہے بلكہ عين احتياج اور فقر ہے اگر ايك لحظہ بھى اللہ تعالى كا فيض قطع ہو جائے تو وہ نابود ہوجائيگا_ جو كچھ بھى بندے كو پہنچتا ہے وہ خدا كى طرف سے ہوتا ہے لہذا بندے كو اس تكوينى اور طبعى احتياج كو زبان سے اظہار كرنا چاہئے اپنى احتياج اور فقر اور بندگى كو عملى طور سے ثابت كرنا چاہئے اور اس كے سوا كوئي عبادت كا اور مفہوم اور معنى نہيں ہے_ انسان دعا كرنے كى حالت ميں خدا كى ياد ميں ہوتا ہے اور اس كے ساتھ راز اور نياز كرتا ہے اور تضرع اور زارى جو عبادت كى رسم ہے غنى مطلق كے سامنے پيش كرتا ہے_
دنيا جہاں سے اپنے فقر اور احتياج كو قطع كرتا ہے خيرات اور كمالات كے مركز اور منبع كے ساتھ ارتباط برقرار كرتا ہے_ عالم احتياج سے پرواز كرتا ہے اور اپنى باطنى آنكھ سے جمال حق كا مشاہدہ كرتا ہے_ اس كے لئے دعا اور راز و نياز كى حالت ايك لذيذ ترين اور بہترين حالت ہوتى ہے_ خدا كے نيك بندے اور اولياء اسے كسى قيمت پر كسى قيمت سے معاملہ نہيں كرتے صحيفہ سجاديہ اور دوسرى دعاؤں كى كتابوں كى طرف رجوع كيجئے كہ كس طرح ائمہ اطہار عليہم السلام راز و نياز كرتے تھے_ خدا سے ارتباط اور دعا كى قبوليت كى اميد دعا كرنے والے كے دل كو كس طرح آرام اور دل كو گرمى ديتى ہے_ اگر انسان مصائب اور مشكلات كے حل كے لئے خدا سے پناہ نہ مانگے تو كس طرح وہ مشكلات كا تحمل كر سكتا ہے اور زندگى كو گرم و نرم ركھ سكتا ہے؟
دعا مومن كا ہتھيار ہے كہ جس كے وسيلے سے نااميد اور ياس كا مقابلہ كرتا ہے اور مشكلات كے حل كے لئے غيب كى خدا سے پناہ نہ مانگے تو كس طرح وہ مشكلات كا تحمل كر سكتا ہے اور زندگى كو گرم و نرم ركھ سكتا ہے؟
294
دعا مومن كا ہتھيار ہے كہ جن كے وسيلے سے نا اميدى اورپاس كا مقابلہ كرتا ہے اور مشكلات كے حل كے لئے غيب طاقت سے مدد طلب كرتا ہے_ پيغمبر اور ائمہ عليہم السلام ہميشہ اس ہٹھيار سے استفادہ كيا كرتے تھے اور مومنين كو ان سے استفادہ كرنے كى سفارش كيا كرتے تھے_
امام رضا عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمايا كہ '' انبياء كے ہتھيار سے فائدہ حاصل كرو_ پوچھا گيا كہ انبياء كا ہتھيار كيا تھا؟ تو آپ نے فرمايا كہ دعا_ (515)
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خدا اپنے بندوں ميں اسے زيادہ دوست ركھتا ہے جو زيادہ دعا كرتا ہے ميں تمہيں وصيت كرتا ہؤں كہ سحر كے وقت سے لے كر سورج نكلنے تك دعا كيا كرو كيونكہ اس وقت آسمان كے دروازے كھول ديئے جاتے ہيں اور لوگوں كا رزق تقسيم كيا جاتا ہے اور ان كى بڑى بڑى حاجتيں پورى كى جاتى ہيں_ (516)
دعا ايك عبادت ہے بلكہ عبادت كى روح ہے اور آخرت ميں اس كا اجر ديا جاتا ہے اور مومن كى معراج ہے اور عالم قدس كى طرف پرواز ہے روح كو كامل اور تربيت ديتى ہے اور قرب خدا تك پہنچاتى ہے_
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' مومن كا ہتھيار دعا ہے اور دعا دين كا ستون اور زمين اور آسمان كا نور ہے_ (517) امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''نيك بختى اور سعدت كى چابى دعا ہے_ بہترين دعا وہ ہے _ جو پاك اور تقوى والى دل سے ہو خدا سے مناجات كرنا نجات كا سب ہوتا ہے اور اخلاص كے ذريعے نجات حاصل ہوتى ہے جب مصائب اور گرفتارى ميں شدت آجائے تو خدا اسے پناہ لينى چاہئے_ (518) لہذا دعا ايك ايسى عبادت ہے كہ اگر اس كے شرائط موجود ہوں اور درست واقع ہو تو نفس كے كمال تك پہنچنے اور قرب خدا كا موجب ہوتى ہے اور يہ اثر يقينى طور سے دعا پر مرتب ہوتا ہے_ اس لئے خدا كے بندے كو كسى حالت اور كسى شرائط ميں اس بڑى عبادت سے غافل نہيں ہونا چاہئے كيونكہ كسى وقت بھى بغير اثر كے نہيں ہوا كرتى گرچہ اس كا فورى طور سے ظاہر بظاہر اثر مرتب نہ ہو رہا ہو_ ہو سكتا ہے كہ
295
دعا كرنے والے كى خواہش اور سوال كو موخر كر ديا جائے يا دنيا ميں بالكل پورى ہى نہ كى جائے ليكن ايسا ہونا بھى بغير مصلحت كے نہ ہوگا_ كبھى مومن كى دنياوى خواہش كے قبول كرنے ميں واقعاً مصلحت نہيں ہوتى _ خداوند عالم بندے كى مصلحتوں كو اس سے زيادہ بہتر جانتا ہے ليكن بندے كو ہميشہ اپنے احتياج اور فقر كے ہاتھ كو قادر مطلق كے سامنے پھيلاتے رہنا چاہئے اور اپنى حاجتوں كو پورا كيا جائيگا ليكن خدا كبھى مصلحت ديكھتا ہے كہ اپنى بندے كى حاجت كو موخر كر دے تا كہ وہ اللہ تعالى سے زيادہ راز و نياز اور مناجات كرے اور وہ اعلى مقامات اور درجات تك جا پہنچے اور كبھى اللہ تعالى اپنے بندے كى مصلحت اس ميں ديكھتا ہے كہ اس كى حاجت كو اس دنيا ميں پورا نہ كيا جائے تا كہ ہميشہ وہ خدا كى ياد ميں رہے اور آخرت كے جہان ميں اس كو بہتر اجر اور ثواب عنايت فرمائے_
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' خدا اس بندے پر اپنى رحمت نازل كرے_ جو اپنى كو خدا سے طلب كرے اور دعا كرنے ميں اصرار كرے خواہ اس كى حاجتيں پورى كى جائيں يا پورى نہ كى جائيں آپ نے اس وقت يہ آيت تلاوت كى وادعوا ربى عسى الا اكون بدعا ربى شقياً_ (519)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كبھى مومن اپنى حاجت كو خدا سے طلب كرتا ہے ليكن خدا اپنے فرشتوں كو حكم ديتا ہے كہ ميرى بندے كى حاجت كے پورے كئے جانے كو موخر كر دو كيونكہ دوست ركھتا ہے كہ اپنے بندے كى آواز اور دعا كو زيادہ سنتا رہے پس قيامت ميں اس سے كہے گا اے ميرے بندے تو نے مجھ سے طلب كيا تھا ليكن ميں نے تيرے قبول كئے جانے كو موخر كر ديا تھا اب اس كے عوض فلاں ثواب اور فلاں ثواب تجھے عطا كرتا ہوں اسى طرح فلانى دعا اور فلانى دعا_ اس وقت مومن آرزو كرے گا كہ كاش ميرى كوئي بھى دعا دنيا ميں قبول نہ كى جاتى يہ اس لئے تمنا
296
كرتا ہے_ جب وہ آخرت كا ثواب ديكھتا ہے_ (520) امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے _ دعا كے آداب كو حفظ كر اور متوجہ رہ كہ كس كے ساتھ بات كر رہا ہے اور كس طرح اس سے سوال كر رہا ہے اور كس لئے اس سے سوال كرتا ہے_ اللہ تعالى كى عظمت اور بزرگى كو ياد كر اور اپنے دل ميں جھانك اور مشاہدہ كر كہ جو كچھ تو دل ميں ركھتا ہے_ خدا اسے جانتا ہے اور تيرے دل كے اسرار سے آگاہ ہے تيرے دل ميں جو حق يا باطل پنہاں اور چھپا ہوا ہے اس سے مطلع ہے اپنى ہلاكت اور نجات كے راستے كو معلوم كر كہيں ايسا نہ ہو كہ خدا سے ايسى چيز كو طلب كرے كہ جس ميں تيرى ہلاكت ہو جب كہ تو خيال كرتا ہے كہ اس ميں تيرى نجات ہے_
خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ '' كبھى انسان خير كى جگہ اپنے شر كو چاہتا ہے انسان اپنے كاموں ميں جلد باز اور جلدى كرنے والا ہے_ پس ٹھيك فكر كر كہ خدا سے كس كا سوال كر رہا ہے اور كس لئے طلب كر رہا ہے_ دعا اپنے دل كو پروردگار كے مشاہدے كے لئے پگھلانا ہے_ اور اپنے تمام اختيارات كو چھوڑنا اور تمام كاموں كو اللہ تعالى كے انتظار ميں نہ رہ كيونكہ خدا تيرے راز اور سب سے زيادہ مخفى راز سے بھى آگاہ اور مطلع ہے_ شايد تو خدا سے ايسى چيز طلب كر رہا ہے جب كہ تيرى نيت اس كے خلاف ہے_ (521)
297
ساتواں وسيلہ
روزہ
تزكيہ نفس اور اس كى پاك كرنے اور خودسازى كے لئے ايك بہت بڑى عبادت كہ جس كے بہت زيادہ اثرات پائے جاتے ہيں وہ روزہ ہے_ روزے يك فضيلت ميں بہت زيادہ احاديث وارد ہوئي ہيں جيسے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' روزہ جہنم كى آگ سے حفاظت كرنے والى ڈھال ہے_(522)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خدا فرماتا ہے كہ روزہ ميرے لئے ہے اور ميں ہى اس كى جزاء دونگا_ (523)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' روزہ ركھنے والا بہشت ميں پھرتا ہے اور فائدہ حاصل كرتاہ ے اس كے لئے فرشتے افطار كرنے تك دعا كرتے ہيں_ (524)
پيغمبر عليہ السلامم نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص ثواب كے لئے ايك مستحبى روزہ ركھے اس كے لئے بخشا جانا واجب ہے_ (255 ) حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' روزہ دار كا سونا بھى عباد ہے اور اس كا چپ رہنا تسبيح ہے_ اور اس كا عمل مقبول اور اس كى دعا قبول كى جاتى ہے_ (526)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا ہے كہ '' اللہ تعالى فرماتا ہے نيك
298
بندوں كے اعمال دس برابر سے سات سو برابر ثواب ركھتے ہيں سوائے روزے كہ جو ميرے لئے مخصوص ہو تو اس كى جزاء ميں دونگا پس روزے كا ثواب صرف خدا جانتا ہے_ (527)
امير المومنين عليہ السلام نے روايت كى ہے كہ رسول خدا نے معراج كى رات فرمايا _ ''اے ميرے خالق_ پہلى عبادت كونسى ہے تو اللہ تعالى نے فرمايا كہ پہلى عبادت ساكت رہنا اورروزے _ پيغمبر عليہ السلام نے عرض كى اے ميرے خالق روزہ كا اثر كونسا ہے؟ اللہ تعالى نے فرمايا كہ روزے كا اثر دانائي ہے اور دانائي معرفت كا سبب ہوتى ہے_ اور معرفت يقين كا سبب بنتى ہے اور جب انسان يقين كے مرتبے تك پہنچتا ہے تو پھر اس كو كوئي پرواہ نہيں كہ وہ سختى ميں يا آرام ميں زندگى كرے_ (528)
روزہ ايك خاص عبادت ہے كہ جس ميں دو پہلو نفى اور ثبات موجود ہوتے ہيں پہلا اپنے نفس كو كھانے پينے اور عزيز لذت سے جو شرعا جائز ہے روكنا اور محافظت كرنا_ اسى طرح خدا اور رسول پر جھوٹ نہ باندھنا اور بعض دوسرى چيزوں كو ترك كرنا ہوتا ہے_ دوسرا_ قصد قربت اور اخلاص كو جو در حقيقت اس عبادت كے روح كے بمنزلہ ہے_ روزے كى حقيقت نفس كو روكنا اورمادى لذات سے حتمى طور سے قصد قربت سے محافظت كرنا ہوتا ہے_ كھانا پينا جنسى عمل خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنا روزے كو باطل كرديتے ہيں فقہى كتابوں ميں روزے كى يوں تعريف كى گئي ہے كہ اگر كوئي ان امور يعنى كھانے پينے جماع خدا اور رسول پر جھوٹ باندھے _ انزال مني_ حقنہ كرنا_ غسل ارتماسى _ جنابت پر باقى رہنا كو قصد قربت سے ترك كرے تو اس كى عبادت صحيح ہے اور اس كى قضاء اور كفارہ نہيں بتلايا گيا ہے بلكہ روزہ اس سے زيادہ وسيع معنى ميں بيان كيا گيا ہے_ حديث ميں آيا ہے كہ روزہ صرف كھانے پينے كے ترك كرنے كا نام نہيں ہے بلكہ حقيقى روزہ دار وہ ہے كہ حس كے تمام اعضاء اور جوارح گناہوں كو ترك كريں يعنى آنكھ آنكھوں كے گناہوں سے اسى طرح زبان اور كان ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء اپنے اپنے گناہوں كو ترك كريں ايسا روزہ اللہ كے خاص بندوں كا ہے_
299
اس سے بلند اور بالا ايك وہ روزہ ہے جو خاص الخاص لوگوں كا روزہ ہے اور وہ ان چيزوں كے ترك كرنے كے علاوہ اپنے دل كو ہر اس خيال اور فكر سے فارغ كردے جو خدا كى ياد سے روكے اور ہميشہ خدا كى ياد ميں رہے اور اسے حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ كو خدا كا مہمان جانے اور اپنے آپ كو خدا كى ملاقات كے لئے آمادہ كے_ نمونے كے طور پر اس حديث كى طرف توجہ كيجئے امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں روزہ صرف كھانے اور پينے كو ترك كرنے سے حاصل نہيں ہوتا_ جب روزہ ركھے تو پھر كان اور آنكھ اور زبان اور شكم اور شرمگاہ كو بھى گناہوں سے محفوظ كرے اور ساكت رہے سوائے نيكى اور مفيد كلام كے بات كرنے سے ركا رہے اور اپنى خدمت كرنے والوں اور نوكروں سے نرمى كرے جتنا ہو سكتا ہے ساكت رہے سوائے خدا كے ذكر كے اور اس طرح نہ ہو كہ روزے والا دن اس طرح كا ہو كہ جس دن روزہ نہ ركھا ہوا ہو _ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ ميں فرمايا ہے جو شخص ماہ رمضان كا روزہ ساكت ہو كر ركھے اور كان اور آنكھ اور زبان اور شرمگاہ اور دوسرے بدن كے اعضاء كو جھوٹ اور حرام اور غيبت سے اللہ كے تقرب كى نيت سے روكے ركھے تو وہ روزہ اس كے تقرب كا اس طرح سبب بنے گا كہ گويا وہ حضرت ابراہيم عليہ السلام كا ہم نشين ہو_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' روزہ صر ف نہ كھانے اور پينے كا نام نہيں ہے_ (529) بلكہ اس كے شرائط ہيں كہ ان كى محافظت كرنى چاہئے تا كہ روزہ كامل اور تام ہو سكے وہ ہے سكوت اور چپ رہنا_ كيا تم نے حضرت مريم عليہا السلام كى بات نہيںسنى كہ جو آپ نے لوگوں كے جواب ميں كہا تھا كہ ميں نے اللہ تعالى كے لئے نذر كى ہوئي ہے كہ آج كے دن كسى سے بات نہ كروں يعنى چونكہ روزے سے ہوں مجھے چپ رہتا چاہئے لہذا جب تم روزہ ركھو تو اپنى زبان كو جھوٹ بولنے سے روكو_ اور غصہ نہ كرو_ گالياں نہ دو برى باتيں نہ كرو_ جھگڑا اور لڑائي نہ كرو_ ظلم اور ستم سے پرہيز كرو_ جہالت اور بد اخلاقى اور ايك دوسرے سے دورى سے پرہيز كرو_ اللہ تعالى كے
300
ذكر اور نماز سے غافل نہ رہو_ سكوت اور تعقل اور صبر و صدق اور برے لوگوں سے دورى كا خيال كرو_ باطل كلام جھوٹ بہتان دشمنى سوء ظن غيبت چغل خورى سے اجتناب كرو_ اور آخرت كى طرف توجہ ركھو اور اس دن كے آنے كے انتظار ميں رہو كہ جس دن خدا كا وعدہ پورا ہوگا اور اللہ تعالى كى ملاقات كا سامان مہيا كرو_ آرام اور وقار خشوع خضوغ ذلت كہ جب كوئي بندہ اپنے مولى سے ڈرتا ہے اس كى رعايت كرو_ خوف اور اميد خوف اور ترس كى حالت ميں رہو اور اگر اپنے دل كو عيبوں سے اور باطل كو دھوكا دينے سے اور بدن كو كثافت سے پاك اور صاف كرو_ اللہ تعالى كے علاوہ ہر ايك چيز سے بيزارى كرو_ اور اللہ كى حكومت كو روزے كے وسيلے سے اور ظاہر اور باطن كو جس سے خدا نے منع كيا ہے خالى كرنے سے قبول كر ليا اور اللہ تعالى سے خوف اور خشيت كو ظاہر اور باطن ميں ادا كيا اور روزہ كے دنوں اپنے نفس كو خدا كے لئے بخش ديا اور اپنے دل كو خدا كے لئے خالى كر ديا اور اسے حكم ديا تا كہ وہ اللہ تعالى كے احكام پر عمل كرے اگر اس طرح اور اس كيفيت سے روزہ ركھا تو پھر تو واقعا روزہ دار ہے اور اپنے وظيفہ پر عمل كيا ہے اور ان چيزوں ميں جتنى كمى اكرو گے اتناہى تيرا روزہ ناقص ہوجائيگا كيونكہ روزہ ركھنا صرف نہ كھانے اور پينے سے نہيں ہوتا بلكہ خدا نے روزے كو تمام افعال اور اقوال جو روزے كو باطل كرديتے ہيں حجاب اور مانع قرار ديا ہے پس روزے ركھنے والے كتنے تھوڑے ہيں اور بھوكے رہنے والے بہت زيادہ ہيں_ (530)
اپنے آپ كو سنوار نے ميں روزے كا كردار
اگر روزے كو اسى طرح ركھا جائے كہ جس طرح پيغمبر اسلام نے چاہا ہے اور اسى كيفيت اور شرائط سے بجالا جائے كہ جو شرعيت نے معين كيا ہے تو پھر روزہ ايك بہت بڑى قيمتى اور مہم عبادت ہے اور نفس كے پاك كرنے ميں بہت زيادہ اثر كرتا ہے روزہ ہر حالت ميں نفس كو گناہوں اور برے اخلاق سے خالى كرنے اور نفس كو كامل اور
301
زينت ديئے جانے والے اور اللہ تعالى كے اشراقات سے استفادہ كرنے ميں كامل طور سے موثر ہوتا ہے_ روزہ ركھنے والا گناہوں كے ترك كرنے كے وسيلے سے نفس امارہ پر كنٹرول كر كے اپنے قابو ميں ركھتا ہے_ روزے كے دن گناہوں كے ترك كرنے سے نفس كى رياضت اور عملى تجربے كا زمانہ ہوتا ہے_ اس زمانے ميں نفس كو گناہوں اور كثافت سے پاك كرنے كے علاوہ جائز لذات كھانے پينے سے بھى چشم پوشى كرتا ہے اور اس وسيلے سے اپنے نفس كو صفا اور نورانيت بخشتا ہے كيونكہ بھوك باطن كے صفا اور خدا كى طرف توجہہ كا سبب ہوتى ہے_ انسان بھوك كى حالت ميں غالباً خوش حالى كى حالت پيدا كر ليتا ہے كہ جو پيٹ بھرى حالت ميں اسے حاصل نہيں ہوتي_ خلاصہ روزہ تقوى حاصل كرنے ميں بہت زيادہ تاثير ركھتا ہے اسى لئے قرآن مجيد ميں تقوى حاصل كرنے كو روزے كے واجب قرار دينى كى غرض بتلايا گيا ہے_ قرآن ميں ہے _ ''اے وہ لوگو جو ايمان لے آئے روزہ تم پر واجب كيا گيا ہے جيسے كہ پہلے لوگوں پر واجب كيا گيا تا كہ تھا تم اس وسيلے سے صاحب تقوى ہو جاؤ_ (531) جو شخص ماہ رمضان ميں روز ركھے اور چونكہ روزہ دار پورے مہينے ميں گناہوں اور برے اخلاق سے پرہيز كرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو پاليتا ہے تو وہ ماہ رمضان كے بعد بھى گناہوں كے ترك كرنے كى حالت كو باقى ركھے گا_
يہاں تك جو كچھ كہااور لكھا گيا ہے وہ روزے كا نفس انسانى كے پاك كرنے اور نفس كو گناہوں اور كثافتوں سے صاف كرنے كا اثر ليكن روزہ كچھ مثبت اثرات بھى ركھتا ہے جو نفس كو كمال تك پہنچنے اور باطن كے خوشمنا ہونے اور ذات الہى تك تقرب كا موجب اور سبب بنتا ہے _ جيسے_
1_ روزہ يعنى نفس كو مخصوص مفطرات سے روكنا ايك ايسى عبادت ہے كہ جس ميں اخلاص اور قصد قربت سے نفس كى تكميل اور تربيت ہوتى ہے اور قرب الہى كا دوسرى عبادتوں كى طرح سبب بنتى ہے_
2_ گناہوں اور اور لذات كے ترك كرنے سے روزہ دار كا دل صاف اور پاك ہو جاتا
302
ہے اور خدا كے سوا ہر فكر اور ذكر سے فارغ ہوجاتا ہے اس وسيلے سے اللہ تعالى كے اشراقات اور افاضات اور القاء اللہ كى استعداد اور قابليت پيدا كر ليتا ہے اور اس حالت ميں اللہ تعالى كے الطاف اور عنايات اسے شامل حال ہو جاتے ہيں اور اللہ تعالى كے جذبے سے قرب الہى كو حاصل كر ليتا ہے_ اسى لئے احاديث ميں وارد ہوا ہے كہ روزے دار كا سانس لينا اور سونا بھى ثواب اور عبادت ہے_
3_ روزے كے دن عبادت اور نماز اور دعا اور قرآن پڑھنے ذكر اور خيرات اور مبرات كے بہترين دن ہوتى ہيں كيونكہ نفس حضور قلب اور اخلاص اور اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنے كے لئے دوسرے دلوں سے زيادہ آمادہ اور حاضر ہوتا ہے_ ماہ رمضان عبادت كى بہار اور خدا كى طرف توجہ كرنے كے لئے بہترين وقت ہوا كرتا ہے اسى لئے احاديث ميں ہے كہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو امام جعفر صادق عليہ السلام اپنے فرزند سے سفارش كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ '' عبادت كرنے ميں كوشش كرو كيونكہ اس مہينے ميں رزق تقسيم كيا جاتا ہے_ اور اجل اور موت لكھى جاتى ہے_ اس ميں وہ لوگ جو خدا كے پاس جائيں گے لكھے جاتے ہيں_ ماہ رمضان ميں تك ايك رات ايسى كہ جس ميں عبادت كرنا ہزار مہينے سے زيادہ افضل ہے_ (532) اميرالمومنين نے لوگوں سے فرياد كہ '' ماہ رمضان ميں دعا زيادہ كياكرو اور توبہ اور استغفار كرو كيونكہ دعا كے وسيلے سے تم سے مصيبتيں دور كى جائيں گى اور توبہ اور استغفار كے ذريعے سے تمہارے گناہ مٹ جائيں گے_ (533)
اميرالمومنين نے روايت كى ہے كہ '' رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے ايك دن ہمارے لئے خطبہ بيان كيا اور اس ميں فرمايا لوگو_ ماہ رمضان كا مہينہ بركت اور رحمت اور مغفرت كى ساتھ تمہارے طرف آيا ہے يہ مہينہ دوسرے مہينوں سے خدا كے نزديك بہترين مہينہ ہے_ اس كے دن دونوں سے بہترين دن ہيں اور راتيں راتوں ميں سے بہترين راتيں ہيں اس كى گھڑياں گھڑيوں ميں سے بہترين گھڑياں ہيں يہ ايسا مہينہ ہے كہ جس ميں تم خدا كى طرف اس ميں دعوت ديئے گئے ہو اور اللہ تعالى كى نزديك
303
صاحب كرامت قرار ديئے گئے ہو_ اس ميں تمہارا سانس لينا تسبيح كا ثواب ركھتا ہے اور تمہارا سونا عبادت كا ثواب ركھتا ہے_ اس مہينے ميں تمہارے اعمال قبول كئے جاتے ہيں اور تمہارى دعائيں قبول كى جاتى ہيں پس تم سچى نيت اور پاك دل سے خدا كو پكارو كہ اس نے تمہيں اس ميں روزہ ركھتے اور قرآن پڑھنے كى توفيق عنايت فرمائي ہے كيونكہ بدبخت اور شقى ترين وہ شخص ہے جو اس بزرگ مہينے ميں اللہ تعالى كے بخشنے جانے سے محروم رہے اس ميں اپنى بھوك اور پياس سے قيامت كى بھوك اور پياس كو ياد كرو_ فقراء اور مساكين كو صدقہ دو اور بڑوں كا احترام كرو اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم كرو_ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمى كرو_ اپنى زبان كى حفاظت كرو اور حرام چيزوں سے اپنى آنكھوں كو بندہ كرو اور كانوں كو احرام كے سننے سے بند كرو_ يتيموں پر رحم اور مہربانى كرو_ اور اپنے گناہوں سے توبہ كرو_ اور نماز كے اوقات ميں اپنے ہاتھوں كو دعا كرنے كے لئے بلند كرو كيونكہ يہ وقت بہترين وقت ہے كہ خدا لوگوں پر رحمت كى نگاہ ڈالتا ہے اور ان كى مناجات كو قبول كرتا ہے اور ان كى پكار پر لبيك كہتا ہے جب كوئي سوال كرے اسے عطا كرتا ہے اور اس كى دعا كو قبول كرتا ہے_ لوگو تمہارى جانيں تمہارے اعمال كے مقابلے ميں گروہى ميں پس استغفار كے ذريعے انہيں آزاد كراؤ_
تمہارى پشت گناہوں كى وجہ سے سنگين ہوچكى ہے طويل سجدوں سے اس بار سنگين كو ہلكار كرو اور جان لو كہ خدا نے اپنے عزت كى قسم كھا ركھى ہے كہ نماز پڑھنے اور سجدہ كرنے والوں كو عذاب نہ كرے اور ان كو قيامت كے دن جہنم كى آگ سے ڈرائے_
لوگو جو شخص اس مہينے ميں روزہ دار كو افطارى كرائے اسے ايك بندے كے آزاد كرنے كا ثواب ديا جائيگا اور گذرے ہوئے گناہوں كو معاف كرديا جائيگا_ كہا گيا_ يا رسول اللہ_ ہم تمام افطارى دينے پر قدرت نہيں ركھتے _ آپ نے فرمايا كہ دوزخ كى آگ سے بچو خواہ ايك ٹكڑا يا پانى كا ايك گھونٹ پلانا ہى كيوں نہ ہو _ لوگو جو شخص اس مہينے ميں اپنے اخلاق كو اچھا كرے قيامت كے دل پل صراط سے عبور كرے گا_ اور خدا
304
اسے آزاد كرے گا_ جو شخص اس مہينے ميں كسى بندے كے كام كو آسان كردے خداوند عالم قيامت كى دن اس كے كام كو آسان كردے گا_ جو شخص اس مہينے ميں اپنى برائي كو لوگوں سے روكے خدا قيامت كے دن اپنے غضب كو اس سے روكے گا_ جو شخص كسى يتيم كى عزت كرے خدا قيامت كے دن اسے اپنى رحمت سے متصل كرے گا جو شخص قطع رحمى كرے خدا قيامت كے دن اس سے اپنى رحمت كو قطع كردے گا_ جو شخص اس مہينے ميں مستحب نمازيں پڑھے خدا اس كے لئے جہنم سے برات لكھ دے گا_ جو شخص اس مہينے ميں مجھ پر زيادہ درود بھيجے خدا اس كے نامہ اعمال كے ترازو كو بھارى قرار دے گا_ جو شخص اس مہينے ميں قرآن كى ايك آيت پڑھے اس كو ايك قرآن كے ختم كرنے كا جو دوسرے مہينوں ميں پڑھے گا ثواب ديا جائيگا_ لوگو اس مہينے ميں جنت كے دروازے كھول ديئے جاتے ہيں اللہ تعالى سے طلب كرو كہ وہ تم پر بند نہ كرے _ اس مہينے ميں دوزخ كے دروازے بند كرديئےاتے ہيں_ خدا سے طلب كرو كہ وہ تم پر كھول نہ ديئے جائيں_ اس مہينے ميں شيطانوں كو زنجيروں ميں بند كر ديا جاتا ہے خدا سے طلب كرو كہ ان كو تم پر تسلط اور غلبہ نہ ديا جائے_
امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ميں نے آپ كى خدمت ميں عرض كيا_ يا رسول اللہ اس مہينے ميں سب سے بہترين عمل كونسا ہے؟ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا اے ابوالحسن_
اس مہينے ميں محرمات سے پرہيز كرنا سب سے زيادہ افضال عمل ہے_ (534)
جيسے كہ ان حاديث سے معلوم ہوتا ہے يہ ہے كہ ماہ رمضان پر بركت اور بافضيلت مہينہ ہے يہ عبادت اور اپنے آپ كو بنانے دعا اور تہجد نفس كى تكميل اور تربيت كا مہينہ ہے_ اس مہينے ميں عبادت دوسرے مہينوں كى نسبت كئي برابر ثواب ركھتى ہے يہاں تك كہ اس مہينے ميں مومن كا سانس لينا بھى عبادت ہے_ اس مہينے مين جنت كے دروازے مومنين كے لئے كھول ديئے جاتے ہيں اور جہنم كے دروازے بند كر ديئے جاتے ہيں_ اللہ تعالى كے فرشتے خدا كے بندوں كو عبادت كى طرف بلاتے
305
رہتے ہيں بالخصوص سحرى اور شب قدر كہ جس ميں جاگتے رہنا اور عبادت كرنا ہزار مہينے سے افضل ہے خدا نے اس مہينے ميں عام دربار لگايا ہے اور تمام مومنين كو اپنى طرف مہمانى كے لئے بلايا ہے اس دعوت كا پيغام پيغمبر عليہم السلام لائے ہيں_
ميزبان جواد مطلق ہے _ اللہ كے مقرب فرشتے مہمان مومنين كے خدمت گزار ہيں_ اللہ تعالى كى نعمتوں كا عام دسترخوان بچھا ہوا ہے_ مختلف قسم كى نعمتيں اور جوائز كہ جنہيں نہ كسى آنكھ نے ديكھا ہے اور نہ كسى كان نے سنا ہے_ اور نہ كسى كے دل پر خطور كيا ہے مہيا كر دى گئي ہيں_ رمضان كا مہينہ پر بركت اور با فضيلت مہينہ ہے_اللہ تعالى كى توفيق ہر طرف سے آمادہ اور مہيا ہے_ ديكھيں كہ ہمارى ہمت اور لياقت كتنى ہے اگر ہم نے غفلت كى تو قيامت كے دن پشيمان ہونگے ليكن اس دن پشيمانى كوئي قائدہ مند نہ ہوگي_ ماہ رمضان كى دعائيں مفاتيح الجنان اردو اور دوسرى دعاؤں كى كتابوں ميں موجود ہيں جيسے مفاتيح الجنان جديد و غيرہ_ خلوص اور توجہہ كے ساتھ اللہ تعالى كے تقرب اور سير و سلوك كے لئے ان سے استفادہ كيا جا سكتا ہے_
آخر ميں بتلا دينا چاہتا ہوں كہ باقى تمام عبادات بھى نماز اور روزے ذكر اور دعا كى طرح اپنے آپ كو بنانے اور سنوارنے اور تكميل اور تربيت نفس ميں مفيد اور موثر ہوتے ہيں چونكہ ہمارى بنا اختصار پر تھى لہذا ان كو توضيح اور تشريح سے صرف نظر كيا ہے_
|