|
284
چوتھا وسيلہ
جہاد اور شہادت
اسلام كو وسعت دينے اور كلمہ توحيد كے بلند و بالا كرنے اسلام كى شوكت اور عزت سے دفاع كرنے قرآن كے احكام اور قوانين كى علمدارى اور حاكميت كو برقرار كرنے ظلم اور تعدى سے مقابلہ كرنے محروم اور مستضعفين كى حمايت كرنے كے لئے جہاد كرنا ايك بہت بڑى عبادت ہے اور نفس كے تكامل اور ذات الہى سے تقرب اور رجوع الى اللہ كا سبب ہے_ جہاد كى فضيلت ميں بہت زيادہ روايات اور آيات وارد ہوئي ہيں_
خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ '' جو لوگ ايمان لے آئے ہيں اور اپنے وطن سے ہجرت كر لى ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا كے راستے ميں جہاد كرتے ہيں وہ اللہ كے نزديك ايك بلند و بالا مقام اور رتبہ ركھتے ہيں اور وہى نجات پانے والے لوگ ہيں خدا انہيں اپنى رحمت اور رضوان اور بہشت كى كہ جس ميں دائمى نعمتيں موجود ہيں خوشخبرى اور بشارت ديتا ہے_ وہ بہشت ميں ہميشہ رہيں گے اور يقينا اللہ تعالى كے نزديك يہ ايك بہت بڑى جزا اور ثواب ہے_ (494)
اللہ تعالى فرماتا ہے كہ '' اللہ تعالى نے مجاہدوں كو جہاد نہ كرنے والوں پر بہت زيادہ ثواب ديئے جانے ميں برترى اور بلندى دى ہوئي ہے_ (495)
285
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' بہشت كا ايك دروازہ ہے كہ جس كا نام باب المجاہدين ہے_ جب مجاہد بہشت كى طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ كھل جائيگا جب كے جانے والوں نے اپنى تلواروں كو اپنے كندھوں پر ڈال ركھا ہو گا دوسرے لوگ قيامت كے مقام پر كھڑے ہونگے اور فرشتوں ان كا استقبال كريں گا_ (496)
پيغمبر اسلام نے فرمايا ہے كہ '' ہر نيكى كے اوپر كوئي نہ كوئي اور نيك موجود ہے يہاں تك كہ انسان اللہ كے راستے ميں مارا جائے كہ پھر اس سے بالاتر اور كوئي نيكى موجود نہيں ہے_ (497)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص اللہ كے راستے ميں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس كا كوئي ياد نہيں دلائے گا_ (498)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' خداوند عالم شہيد كو سات چيزيں عنايت فرمائيگا_ 1_ جب اس كے خون كا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس كے تمام گناہ معاف كر ديتا ہے_ 2_ شہادت كے بعد اس كا سر دو حوروں كے دامن ميں قرار ديتا ہے اور وہ اس كے چہرے سے غبار كو ہٹاتى ہيں اور كہتى ہيں_ تم پر شاباش ہو وہ بھى ان كے جواب ميں ايسا كہتا ہے_ 3_ اسے بہشت كا لباس پہنايا جاتا ہے_ 4_ بہشت كے خزانچى اس كے لئے بہترين عطر اور خوشبو پيش كرتے ہيں كہ ان ميں سے جسے چاہے انتخاب كرلے_
5_ شہادت پانے كے وقت وہ اپنى جگہ بہشت ميں ديكھتا ہے_ 6_ شہادت كے بعد اس كى روح كى خطاب ہوتا ہے كہ بہشت ميں جس جگہ تيرا دل چاہتا ہے گردش كر_ 7_ شہيد اللہ تعالى كے جمال كا مشاہدہ كرتا ہے اور اس ميں ہر پيغمبر اور شہيد كو آرام اور سكون ہے_(499)
خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' خداوند عالم مومنين كے جان اور مال كو خريد تا ہے تا كہ اس كے عوض انہيں بہشت عنايت فرمائے يہ وہ مومن ہيں جو اللہ كے راستے ميں جنگ كرتے ہيں اور دشمنوں كو قتل كرتے ہيں اور خود بھى قتل ہوجاتے ہيں يہ ان سے
286
اللہ تعالى كا وعدہ ہے جو تو رات اور انجيل اور قرآن ميں اللہ تعالى نے لكھ ديا ہے اور اللہ تعالى سے كون زيادہ وعدہ كو پورا كرنے والا ہے؟ تمہيں يہ معاملہ مبارك ہو كہ جو تم نے خدا سے كر ليا ہوا ہے اور يہ ايك بڑى سعادت ہے_ (500)
قرآن مجيد كى يہ آيت ايك بڑى لطيف اور خوش كن آيت ہے كہ جو لوگوں كو عجيب اور لطيف ارو ظريف انداز سے جہاد كا شوق دلاتى ہے _ ابتداء ميں كہتى ہے _ كہ اللہ تعالى نے مومنين كے مال اور جان كو خريد ليا ہے اور اس كے عوض ان كو بہشت ديتا ہے يہ كتنا بہترين معاملہ ہے؟ اللہ تعالى جو غنى مطلق اور جہان كا مالك ہے وہ خريدار ہے اور فروخت كرنے والے مومنين ہيں جو خدا اور آخرت پر ايمان ركھتے ہيں_ اور جن چيزوں پر معاملہ كيا ہے وہ مومنين كے مال اور جان ہيں اور اس معاملہ كا عوض بہشت ہے اس كے بعد خدا فرماتا ہے كہ تورات اورانجيل اور قرآن يعنى تين آسمانى بڑى كتابيں ہيں جن ميں اس طرح كا ان سے وعدہ درج كيا گيا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے كہ كس كو پيدا كر سكتے ہو كہ اللہ تعالى سے وعدہ پر عمل كرے آخر ميں خدا مومنين كو خوشخبرى ديتا ہے كہ يہ ايك بہت بڑى نيك بختى اورسعادت ہے_
قرآن مجيد ان لوگوں كے لئے جو خدا كے راستے ميں شہيد ہوجاتے ہيں مقامات عاليہ كو ثابت كرتا ہے اور فرماتا ہے كہ '' ان لوگوں كو مردہ گمان نہ كرو جو اللہ كے راستے ميں شہيد ہوجاتے ہيں بلكہ وہ زندہ ہيں اور اللہ تعالى كے ہاں روزى پاتے ہيں_ (501) لفظ عندہم جو اس آيت ميں ہے وہ بلند و بالا مقام كى طرف اشارہ ہے مرنے كے بعد انسان كى روح كا زندہ رہنا شہيدكے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ تمام انسان زندہ ہيں ليكن شہداء كى خصوصيت يہ ہے كہ شہيد اللہ كے ہاں عاليترين مقامات اور درجات ميں زندہ رہتا ہے اور انہيں مقامات عاليہ ميں روزى ديا جاتا ہے اور يہ واضح ہے كہ ان مقامات ميں روزى ديا جانا دوسروں كے ساتھ مساوى اور برابر نہيں ہے_ اللہ تعالى كے راستے ميں شہادت بہت بڑى قيمت اور بڑى عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے ميں عالى مقامات تك جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت كو دوسرى عبادت سے دو چيزوں كى وجہ
287
سے خصوصيت اورامتياز حاصل ہے_ پہلي_ مجاہد انسان كى غرض اور غايت اپنے ذاتى مفاد اور لواحقين كے مفاد كو حاصل كرنا نہيں ہوتا وہ كوتاہ نظر اور خودخواہ نہيں ہوتا بلكہ وہ جہاں ميں خدا خواہ ہوا كرتا ہے_ مجاہد انسان كلمہ توحيد اور اسلام كى ترويج اور وسعت كو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استكبار كے ساتھ مبارزہ اور جہاد كرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفين سے دفاع كرتا ہے اور اجتماعى عدالت كے جارى ہونے كا طلبكار ہوتا ہے اور چونكہ يہ غرض سب سے بلند اور بالا ترين غرض ہے لہذا وہ اعلى درجات اور مراتب كو پاليتا ہے_
دوسرى _ ايثار كى مقدار
مجاہد انسان اللہ تعالى سے تقرب اور اس كى ذات كى طرف سير اور سلوك كے لئے ارزشمند اور قيمتى چيز كا سرمايہ ادا كرتا ہے اگر كوئي انسان صدقہ ديتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر كرتا ہے اور اگر عبادت كرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس ميں خرچ كرتا ہے ليكن مجاہد انسان تمام چيزوں سے صرف نظر اور درگذر كرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنى جان سے ہاتھ دھوليتا ہے اور اپنى تمام ہستى كو اخلاص كے ساتھ اللہ تعالى كے سپرد كر ديتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عيال اور رشتہ داروں سے صرف نظر كرتا ہے اور اپنى جان اور روح كو اپنے پروردگار كے سپرد كر ديتا ہے_ جس كام كو متدين اور عارف لوگ پورى عمر كرتے ہيں مجاہد انسان ان سب سے زيادہ تھوڑے سے وقت ميں انجام دے ديتا ہے_ مجاہد انسان كى عظيم او رنورانى روح كے لئے ماديات اور مادى جہان تنگ ہوتا ہے اسى واسطے وہ شير كى طرح مادى جہان كے پنجرے كو توڑتا ہے اور تيز پرواز كبوتر كى طرح وسيع عالم اور رضايت الہى كى طرف پرواز كرتا ہے اور اعلى مقامات اور مراتب تك اللہ تعالى كى طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولياء خدا سارى عمر ميں تدريجاً محبت اور عشق اور شہود كے مقام تك پہنچتے ہيں تو مجاہد شہيد ايك رات ميں سو سال كا راستہ طے كر ليتا ہے اور
288
مقام لقاء اللہ تك پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذكر اور ورد قيام اور قعود كے وسيلے سے اللہ كا تقرب حاصل كرتے ہيں_ تو اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد كرنے والا انسان زخم اور درد سختى اور تكليف كو برداشت كرتے ہوئے اپنى جان كى قربانى دے كر اللہ تعالى كا تقرب ڈھونڈتا ہے_
ان دو ميں بہت زيادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد كا ميدان ايك خاص قسم كى نورانيت اور صفا اور معنويت ركھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حركت اور ايثار كا ميدان ہے_ محبوب كے را ستے ميں بازى لے جانے اور ہميشگى زندگى كا ميدان ہے_ مورچے ميں بيٹھتے والوں كا زمزمہ ايك خاص نورانيت اور صفا اور جاذبيت ركھتا ہے كہ جس كى نظير اور مثال مساجد اورمعابد ميں بہت كم حاصل ہوتى ہے_
289
پانچواں وسيلہ
خدمت خلق اور احسان
خداوند عالم سے تقرب اور قرب صرف نماز روزہ حج اور زيارت ذكر اور دعا ميں منحصر نہيں ہے اور نہ ہى مساجد اور معابد ميں منحصر ہے بلكہ اجتماعى ذمہ داريوں كو انجام دينا اور احسان اور نيكوكارى مخلوق خدا كى خدمت كرنا بھى جب اس ميں قصد قربت ہو تو وہ بھى بہترين عبادت ہے كہ جس كے ذريعے سے اپنے آپ كو بنانا اور نفس كى تكميل كرنا اور نفس كى تربيت كرنا اور ذات الہى كے تقرب كا موجب ہوتا ہے_ اسلام كى نگاہ ميں اللہ كا قرب اور سير و سلوك اور تعبد كے معنى لوگوں سے كنارہ كشى اور گوشہ نشينى نہيں ہے بلكہ اجتماعى ذمہ داريوں كو قبول كرتے ہوئے لوگوں ميں رہ كر لوگوں كے ساتھ احسان اور نيكى انجام دينا اور مومنين كے ضروريات كو پورا كرنا اور انہيں خوش كرنا محروم طبقے كا دفاع مسلمانوں كے امور ميں اہتمام كرنا اور ان كے مصائب كو دور كرنا اور خدا كے بندوں كى مدد كرنا يہ تمام اسلام كى نگاہ ميں ايك بہت بڑى عبادتيں ہيں كہ جن كا ثواب حج اور عمرے كے كئي برابر زيادہ ہوتا ہے_ اس كے متعلق سينكٹروں احاديث پيغمبر اور ائمہ اطہار عليہم السلام سے وارد ہوئي ہيں _ امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ '' اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ميرى مخلوق ميرے عيال ہيں ميرے نزديك سب سے زيادہ محبوب انسان وہ ہے جو ميرى مخلوق پر مہربان ہو اور ان كے ضروريات كے بجا
290
لانے ميں زيادہ كوشش كرلے_ (502)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا ہے كہ '' لوگ اللہ كہ اہل و عيال ہيں اللہ كے نزديك سب سے زيادہ محبوب انسان وہ ہے جو اللہ كے اہل و عيال كو فائدہ پہنچائے اور ان كے دلوں كو خوشنود كرے_ (503)
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كسى مومن كا كسى دوسرے مومن كے سامنے مسكرانا ايك حسنہ اور نيكى ہوا كرتا ہے اور اس كى تكليف اور گرفتارى كو دور كرنا بھى ايك نيكى ہے خدا كسى ايسى چيز سے عبادت نہيں گيا كہ جو اس كے نزديك مومن كے خوش كرنے سے زيادہ محبوب ہو_ (504)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو كسى مومن كو خوش كرے اس نے مجھے خوش كيا ہے اور جس نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو خوش كيا ہوا اس نے خدا كو خوش كيا ہے اور جس نے خدا كو خوش كيا ہو اور وہ جنت ميں داخل ہوگا_ (505)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ايك مومن كى حاجت اور ضرورت كو پورا كر دينا اللہ تعالى كے نزديك بيس ايسے حج سے كہ جسميں ايك لاكھ خرچ كيا ہو زيادہ محبوب ہے_ (506)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' مسلمان كى ضرورت اور حاجت كے پورے كرنے ميں كوشش كرنا خانہ كعبہ كے ستر دفعہ طواف كرنے سے بہتر ہے_ (507)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اللہ تعالى كے ايسے بندے ہيں جو لوگوں كو ان كى حاجات ميں پناہ گاہ بنتے ہيں يہ وہ ہيں كہ جو قيامت ميں اللہ تعالى كے عذاب سے محفوظ ہونگے_ (508)
جيسے كہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہيں كہ احسان نيكوكارى اللہ كے بندوں كى خدمت لوگوں كے مصائب دور كرنے ميں كوشش اسلام كى نگاہ ميں ايك بہت بڑى عبادت شمار ہوتے ہيں كہ اگر انسان اسے قصد قربت سے بجالائے تو يہ تكميل نفس اور اس كى تربيت اور قرب الہى كا وسيلہ بنتا ہے_ افسوس كہ اكثر لوگ صحيح اسلام كو نہ پہنچاننے
291
كى وجہ سے اس بہت بڑى اسلامى عبادت سے غفلت برتتے ہيں اور عبادت اور قرب الہى كو فقط نماز روزہ دعا اور زيارت ذكر اور ورد ميں منحصر جانتے ہيں_
|
|