264
كچھ نيك اعمال
پہلے ذكر ہو چكا ہے كہ انسان كو تكامل تك پہچانے اور قرب اور ارتقاء كے مقام تك لے جانے كا راستہ صرف اور صرف وحى الہى اور شرعيت كى پيروى كرنے ميں منحصر ہے اور يہى وہ راستہ ہے كہ جسے انبياء عليہم السلام نے بيان كيا ہے او رخود اس پر عمل كيا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بيات كيا ہے يہى عمل صالح ہے_ عمل صالح يعنى واجبات اور مستحبات جو اسلام ميں بيان كئے گئے ہيں اور انہيں قرآن اور احاديث اور دعاؤں كى كتابوں ميں لكھا گيا ہے آپ انہيں معلوم كر سكتے ہيں اور ان پر عمل كر كے استفادہ حاصل كر سكتے ہيں ليكن ہم يہاں پر ان ميں سے كچھ كا ذكر كرتے ہيں_
اول: واجب نمازيں
قرب الہى اور سير و سلوك معنوى كے لئے نماز ايك بہترين سبب اور عامل ہے_ امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ہر پرہيزگار انسان كے لئے نماز قرب الہى كا وسيلہ ہے_(457)
معاويہ بن وھب نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے پوچھا كہ بہترين وسيلہ جو بندوں كو خدا كے نزديك كرتا ہے اور خدا اسے دوست ركھتا ہے كيا ہے؟ آپ نے فرمايا
265
اللہ كى معرفت كے بعد ميں نماز سے بہتر كوئي اور كسى چيز كو وسيلہ نہيں پاتا كيا آپ نے نہيں ديكھا كہ اللہ تعالى كے نيك بندے حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خدا نے مجھے جب تك زندہ ہوں نماز اور زكوة كى سفارش ہے_(458)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اللہ تعالى كے نزديك نماز محبوب ترين عمل ہے_ انبياء كى آخرى وصيت نماز ہے_ كتنا ہى اچھا ہے كہ انسان غسل كرے اور اچھى طرح وضوء كرے اس وقت ايك ايسے گوشہ ميں بيٹھ جائے كہ اسے كوئي نہ ديكھے اور ركوع اور سجود ميں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے ميں جائے اور سجدے كو طول دے تو شيطن داد اور فرياد كرتا ہے كہ اس بندے نے خدا كى اطاعت كى اور سجدہ كيا اور ميں نے سجدے كرنے سے انكار كر ديا تھا_(459)
امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ايك بندہ كى خدا كے نزديك ترين حالت اس وقت ہوتى ہے جب وہ سجدے ميں ہوتا اس واسطے كہ خداوند عالم فرماتا ہے كہ واسجد و اقترب_(460)
حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''جب انسان نماز كے لئے كھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالى كى رحمت نازل ہوتى ہے اور اس كے ارد گرد ملائكہ گھيرا كر ليتے ہيں ايك فرشتہ كہتا ہے كہ اگر يہ نماز كى ارزش اور قيمت كو جانتا تو كبھى نماز سے روگردانى نہ كرتا_(461)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے '' جب مومن بندہ نماز كے لئے كھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تك اس كى طرف نگاہ كرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالى كى رحمت اسے گھير ليتى ہے اور فرشتے اس كے اردگرد گھيرا ڈال ديتے ہيں خداوند اس پر ايك فرشتے كو معين كر ديتا ہے جو اسے كہتا ہے كہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان ليتا كہ تو كس كى توجہ كا مركز ہے اور كس سے مناجات كر رہا ہے تو پھر تو كسى دوسرى چيز كى طرف ہرگز توجہ نہ كرتا اور كبھى يہاں سے باہر نہ جاتا_(462)
266
نماز ميں حضور قلب
نماز ايك ملكوتى اور معنوى مركب ہے كہ جس كى ہر جزو ميں ايك مصلحت اور راز مخفى ہے_ اللہ تعالى سے راز و نياز انس محبت كا وسيلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہى اور تكامل كا بہترين وسيلہ ہے_ مومن كے لئے معراج ہے برائيوں اور منكرات سے روكنى والى ہے_ معنويت اور روحانيت كا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھى دن رات ميں پانچ دفعہ اس ميں جائے نفسانى آلودگى اور گندگى سے پاك ہو جاتا ہے اللہ تعالى كى بڑى امانت اور اعمال كے قبول ہونے كا معيار اور ترازو ہے_
نماز آسمانى راز و اسرار سے پر ايك طرح كا مركب ہے ليكن اس كى شرط يہ ہے كہ اس ميں روح اور زندگى ہو_ نماز كى روح حضور قلب اور معبود كى طرف توجہہ اور اس كے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ ركوع اور سجود قرات اور ذكر تشہد اور سلام نماز كى شكل اور صورت كو تشكيل ديتے ہيں_ اللہ تعالى كى طرف توجہ اور حضور قلب نماز كے لئے روح كى مانند ہے_ جيسے جسم روح كے بغير مردہ اور بے خاصيت ہے نماز بھى بغير حضور قلب اور توجہ كے گرچہ تكليف شرعى تو ساقط ہو جاتى ہے ليكن نماز پڑھنے والے كو اعلى مراتب تك نہيں پہنچاتى نماز كى سب سے زيادہ غرض اور غايت اللہ تعالى كى ياد اور ذكر كرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پيغمبر عليہ السلام سے فرماتا ہے كہ '' نماز كو ميرى ياد كے لئے برپا كر_( 464)
قرآن مجيد ميں نماز جمعہ كو بطور ذكر كہا گيا ہے يعنى '' اے وہ لوگو جو ايمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ كے لئے آواز دى جائي تو اللہ تعالى كے ذكر كى طرف جلدى كرو_(465)
نماز كے قبول ہونے كا معيار حضور قلب كى مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز ميں حضور قلب ہوگا اتنا ہى نماز مورد قبول واقع ہوگي_ اسى لئے احاديث ميں حضور قلب كى بہت زيادہ تاكيد كى گئي ہے_ جيسے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے ''كبھى آدھى نماز قبول ہوتى ہے اور كبھى تيسرا حصہ اور كبھى چوتھائي اور كبھى پانچواں حصہ
267
اور كبھى دسواں حصہ_ بعض نمازيں پرانے كپڑے كى طرح لپيٹ كر نماز پڑھنے والے كے سرپر مار دى جاتى ہے_ تيرى نماز اتنى مقدر قبول كى جائيگى جتنى مقدار تو خدا كى طرف توجہ كرے گا_( 466) امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جب انسان نماز كے لئے كھڑا ہوتا ہے تو خدا اس كى طرف توجہہ كرتا ہے اور اپنى توجہ كو اس سے نہيں ہٹاتا مگر جب تين دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھى اس سے اعراض اور روگردانى كر ليتا ہے_(467)
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' سستى اور بيہودہ حالت ميں نماز نہ پڑھو_ نماز كى حالت ميں اپنى فكر ميں نہ رہو كيونكہ تم خدا كے سامنے كھڑے ہو_ جان لو كہ نماز سے اتنى مقدار قبول ہوتى ہے جتنى مقدار تيرا دل اللہ كى طرف توجہ كرے گا_ (8 46)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' جو بندہ نماز كى حالت ميں خدا كے علاوہ كسى كى طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے كہتا ہے كہ اے ميرے بندے كس كا ارادہ كيا ہے اور كس كو طلب كرتے ہو؟ كيا ميرے علاوہ كسى كو خالق اور حفاظت كرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ كيا ميرے علاوہ كسى كو بخشنے والا طلب كرتے ہو؟ جب كہ ميں كريم اور بخشنے والوں سے زيادہ كريم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زيادہ عطا كرنے والا ہوں ميں تمہيں اتنا ثواب دونگا كہ جسے شمار نہيں كيا سكے گا ميرى طرف توجہ كر كيونكہ ميں اور ميرے فرشتے تيرى طرف توجہ كر رہے ہيں اگر نمازى نے خدا كى طرف توجہ كى تو اس دفعہ اس كے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہيں اور اس نے دوسرى دفعہ خدا كے علاوہ كسى طرف توجہہ كى تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو كى طرح خطاب كرتا ہے اگر اس نے نماز كى طرف توجہ كر لى تو اس كا غفلت كرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس كے آثار زائل ہوجاتے ہيں اور اگر تيسرى دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا
268
پھر بھى پہلے كى طرح اسے خطاب كرتا ہے اگر اس دفعہ نماز كى توجہ كر لے تو اس دفعہ اس كا غفلت والا گناہ بخش ديا جاتا ہے اور اگر چوتھى دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس كے ملائكہ اس سے توجہ ہٹا ليتے ہيں_ خدا اس سے كہتا ہے كہ تجھے اسى كى طرف چھوڑے ديا ہے كہ جس كى طرف توجہ كر رہا ہے_(469)
نماز كى ارزش اور قيمت خدا كى طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتى ہے توجہ اور حضور قلب كى مقدار جتنا اسے باطنى صفا اور تقرب الى اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبياء عليہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولياء كرام نماز كو اتنى اہميت نہيں ديتے تھے_ امير المومنين عليہ السلام كے حالات ميں لكھا ہے كہ جب نماز كا وقت ہوتا تھا تو آپ كے بدن پر لزرہ طارى ہوجاتا تھا اور آپكے چہرے كا رنگ بدن جاتا تھا_
آپ سے تبديلى اور اضطراب كا سبب پوچھا گيا تو آپ نے جواب ميں فرمايا ''كہ اس وقت اس امانت كے ادا كرنے كا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمين پر ڈالى گئي تھى ليكن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت كے اٹھانے سے انكار كر ديا تھا ليكن انسان نے اس بڑے امانت كے اٹھانے كو قبول كر ليا تھا ميرا خوف اس لئے ہے كہ آيا ميں اس امانت كو ادا كر لونگا يا نہ؟ (470)
امام محمد باقر عليہ السلام اور امام جعفر صادق عليہ السلام كے احوال ميں كہا گيا ہے كہ نماز كے وقت ان كے چہرے كا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز كى حالت ميں اس طرح ہوتے تھے كہ گويا اس گفتگو كر رہے ہيں كہ جسے وہ ديكھ رہے ہيں_(471)
امام زين العابدين كے حالات ميں لكھا ہے كہ جب آپ نماز كے لئے كھڑے ہوتے تھے تو آپ كے چہرے كا رنگ تبديل ہوجاتا تھا اور ايك حقير بندے كى طرح خدا كے سامنے كھڑے ہوتے تھے آپ كے بدن كے اعضاء خدا كے خوف سے لرزتے تھے اور آپ كى نماز ہميشہ و داعى اور آخرى نماز كى طرح ہوا كرتى تھى كہ گويا آپ اس كے بعد كوئي نماز نہيں پڑھ سكيں گے_(472)
حضرت زہرا عليہا السلام كے بارے ميں ہے كہ نماز كى حالت ميں سخت خوف كي
269
وجہ سے آپ كى سانس ركنے لگ جاتى تھي_(473)
امام حسن عليہ السلام كے حالات ميں لكھا ہے كہ نماز كى حالت ميں آپ كا بدن مبارك لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت يا دوزخ كى ياد كرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے كہ جيسے سانپ نے ڈس ليا ہو اللہ تعالى سے بہشت كى خواہش كرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_(474)
حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) كے بارے ميں فرماتى ہيں كہ ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے گفتگو كر رہى ہوتى جب نماز كا وقت آيات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے كہ گويا آپ مجھے نہيں پہچانتے اور ميں انہيں نہيں پہچانتي_(475)
امام زين العابدين عليہ السلام كے بارے ميں لكھا ہے كہ آپ نماز كى حالت ميں تھے كہ آپ كے كندھے سے عبا گر گئي ليكن آپ متوجہ نہيں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ كے اصحاب ميں سے ايك نے عرض كى اے فرزند رسول(ص) آپ كى عباء نماز كى حالت ميں گر گئي اور آپ نے توجہ نہيں كي؟ آپ نے فرمايا كہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو كہ ميں كس ذات كے سامنے كھڑا ہوا تھا؟ اس ذات كى توجہ نے مجھے عباء كے گرنے كى توجہ سے روكا ہوا تھا_ كيا تم نہيں جانتے كہ بندہ كى نماز اتنى مقدار قبول ہوتى ہے كہ جتنا وہ خدا كى طرف حضور قلب ركھتا ہو_ اس نے عرض كى _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاك ہوگئے؟ آپ نے فرمايا '' نہيں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان كے وسيلے سے تمہارى نماز كو پورا كر دے گا_(476)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بارے ميں لكھا گيا ہے كہ نماز كى حالت ميں آپ كا چہرہ متغير ہوجاتا تھا اور آپ كے سينے سے غلفے كى طرح آواز اٹھتى ہوئي سنى جاتى تھى اور جب آپ نماز كے لئے كھڑے ہوتے تو اس لباس كى طرح جو زمين پر گرا ہوا ہو حركت نہيں كيا كرتے تھے_
270
حضور قلب كے مراتب
حضور قلب اول اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنے كے مختلف درجات ہيں كہ ان ميں سے بعض كامل اور دوسرے بعض زيادہ كامل ہيں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات كو طے كرے تا كہ قرب اور شہود كے اعلى درجے اور عاليتر مقام كو حاصل كر لے_ يہ ايك طويل راستہ ہے اور متعدد مقامات ركھتا ہے كہ جس كى وضاحت مجھ جيسے محروم انسان سے دور ہے دور سے ديكھتے والا جو حسرت كى آگ ميں جل رہا ہے يہ اس كى قدرت اور طاقت سے خارج ہے ليكن اجمالى طور سے بعض مراتب كى طرف اشارہ كرتا ہوں شايد كہ عارف انسان كے لئے فائدہ مند ہو_
پہلا مرتبہ
يوں ہے كہ نماز پڑھنے والا تمام نماز يا نماز كے بعض حصے ميں اجمالى طور سے توجہ كرے كہ خداوند عالم كے سامنے كھڑا ہوا ہے اور اس ذات كے ساتھ ہم كلام اور راز و نياز كر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ كے معانى كى طرف توجہ نہ بھى ہو اور تفضيلى طور سے نہيں جانتا كہ وہ كيا كہہ رہا ہے_
دوسرا مرتبہ
قلب كے حضور اور توجہ كا يوں ہونا كہ نمازى علاوہ اس كے كہ وہ نماز كى حالت ميں اپنے آپ كو يوں جانے كہ خدا كے سامنے كھڑا اور آپ سے راز و نياز كر رہا ہے ان كلمات كے معانى كى طرف بھى توجہ كرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے كہ وہ خدا سے كيا كہہ رہا ہے اور كلمات اور الفاظ كو اس طرح ادا كرے كہ گويا ان كے معانى كو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں كے جو الفاظ كے ذريعے اپنے فرزند كو معانى كو تعليم ديتى ہے_
271
تيسرا مرتبہ
يہ ہے كہ نمازى تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تكبير اور تسبيح تقديس اور تحميد اور ديگر اذكار اور كلمات كى حقيقت كو خوب جانتا ہو اور ان كو علمى دليلوں كے ذريعے پہچانتا ہو اور نماز كى حالت ميں ان كى طرف متوجہ ہو اور خوف جانے كہ كيا كہہ رہا ہے اور كيا چاہتا ہے اور كس ذات سے ہم كلام ہے_
چوتھے مرتبہ
يہ ہے كہ نمازى ان سابقہ مرحلوں كے ساتھ كلمات اور اذكار كے معانى اور معارف كو اچھى طرح اپنى ذات كے اندر سموئے اور كامل يقين اور ايمان كے درجے پر جا پہنچے اس حالت ميں زبان دل كى پروى كرے گى اور دل چونكہ ان حقائق كا ايمان ركھتا ہے زبان كو ذكر كرنے پر آمادہ اور مجبور كرے گا_
پانچواں مرتبہ
يہ ہے كہ نمازى سابقہ تمام مراحل كے ساتھ كشف اور شہود اور حضور كامل تك جاپہنچے اللہ تعالى كے كمالات اور صفات كو اپنى باطنى آنكھوں سے مشاہدہ كرے اور سوائے خدا كے اور كسى چيز كو نہ ديكھے يہاں تك كہ اپنے آپ اور اذكار اور افعال اور حركات كى طرف بھى متوجہ نہ ہو خدا سے ہم كلام ہے يہاں تك كہ متكلم اور كلام سے بھى غافل ہے اپنے آپ كو بھى گم اور ختم كر چكا ہے_ اور اللہ تعالى كے جمال كے مشاہدے ميں محو اور غرق ہے_ يہ مرتبہ پھر كئي مراتب اور درجات ركھتا ہے كہ عارف انسانوں كے لحاظ سے فرق كر جاتا ہے _ يہ مرتبہ ايك عميق اور گہرا سمندر ہے بہتر يہى ہے كہ مجھ جيسا محروم انسان اس ميں وارد نہ ہو اور اس كى وضاحت ان كے اہل اور مستحق لوگوں كى طرف منتقل كردے_ اللہم ارزقنا حلاوة ذكرك و
272
مشاہدة جمالك
حضور قلب اور توجہ كے اسباب
جتنى مقدار حضور قلب اور توجہ كى ارزش اور قيمت زيادہ ہے اتنى مقدار يہ كام مشكل اور سخت دشوار بھى ہے _ جب انسان نماز ميں مشغول ہوتا ہے تو شيطان وسوسہ ڈالنا شروع كرديتا ہے او ردل كو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خيالات اور افكارميں مشغول كر ديتا ہے_ اسى حالت ميں انسان حساب كرنا شروع كر ديتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ كے مسائل ميں فكر كرنا شروع كر ديتا ہے_ علمى مطالب كو حل كرتا ہے اور بسا اوقات ايسے مسائل اور موضوعات كو كہ جن كو بالكل فراموش كر چكا ہے نماز كى حالت ميں ياد كرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ ميں متوجہ ہوتا ہے كہ جب نماز ختم كر چكا ہوتا ہے اور اگر اس كے درميان تھوڑا سا نماز كى فكر ميں چلا بھى جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_
بہت سى تعجب اور افسوس كا مقام ہے _ كيا كريں كہ اس سركش اور بيہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائيں كس طرح نماز كى حالت ميں مختلف خيالات اور افكار كو اپنے آپ سے دور كريں اور صرف خدا كى ياد ميں رہيں_ جن لوگوں نے يہ راستہ طے كر ليا ہے اور انہيں اس كى توفيق حاصل ہوئي ہے وہ ہمارى بہتر طريقے سے راہنمايى كر سكتے ہيں_ بہتر يہ تھا كہ يہ قلم اور لكھنا اس ہاتھ ميں ہوتا ليكن يہ حقير اور محروم بھى چند مطالب كى طرف اشارہ كرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ كے فائدہ مند ہوں گے_
1_ گوشہ نشيني
اگر مستحب نماز يا فرادى نماز پڑھے تو بہتر ہے كہ كسى تنہائي كے مكان كو منتخب كرے كہ ج ہاں شور و شين نہ ہو اور وہاں كوئي فوٹو و غيرہ يا كوئي ايسى چيز نہ ہو كہ جو نمازى كو اپنى طرف متوجہ كرے اور عمومى جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر ميں نماز پڑھے تو
273
بہتر ہے كہ كسى خاص گوشے كو منتخب كر لے اور ہميشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز كى حالت ميں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ ركھے يا اپنى آنكھوں كو بند ركھے اور ان ميں سے جو حضور قلب اور توجہہ كے لئے بہتر ہو اسے اختيار كرے اور بہتر يہ ہے كہ چھوٹے كمرے يا ديوار كے نزديك نماز پڑھے كہ ديكھنے كے لئے زيادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز كو جماعت كے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ كرے اور اگر پيش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس كى قرائت كى طرف خوب توجہ كرے_
2_ ركاوٹ كا دور كرنا
نماز شروع كرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ كا مانع اور ركاوٹ ہے اسے دور كرے پھر نماز پڑھنے ميں مشغول ہوجائے اور اگر پيشاب اور پاخانے كا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس كے بعد وضو كرے اور نماز ميں مشغول ہو اور اگر سخت بھوك اور پياس لگى ہوئي ہو تو پہلے كھانا اور پانى پى لے اور اس كے بعد نماز پڑھے اور اگر پيٹ كھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے كو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر كرے يہاں تك كہ نماز پڑھنے كو دل چاہنے لگے_
اور اگر زيادہ تھكاوٹ يا نيند كے غلبے سے نماز پڑھنے كو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنى تكاوٹ اور نيند كو دور كرے اس كے بعدنماز پڑھے_ اور اگر كسى مطلب كے واضح نہ ہونے يا كسى واقعہ كے رونما ہونے سے پريشان ہو اگر ممكن ہو تو پہلے اس پريشانى كے اسباب كو دور كرے اور پھر نماز ميں مشغول ہو سب سے بڑى ركاوٹ دنياوى امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگى ہوا كرتى ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و رياست اہل و عيال يہ وہ چيزيں ہيں جو حضور قب كى ركاوٹ ہيں ان چيزوں سے محبت انسان كے افكار كو نماز كى حالت ميں اپنى طرف مائل كر ديتے ہيں اور ذات الہى كى طرف متوجہ ہونے كو دور كر ديتے ہيں_ نماز كو ان امور سے قطع تعلق كرنا چاہئے تا كہ اس كى توجہ اور حضور قلب اللہ تعالى كى طرف آسان ہوجائے_
274
3_ قوت ايمان
انسان كى اللہ تعالى كى طرف توجہ اس كى معرفت اور شناخت كى مقدار كے برابر ہوتى ہے اگر كسى كا اللہ تعالى پر ايمان يقين كى حد تك پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالى كى قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس كے محيط ہونے كا پورى طرح يقين ركھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالى كے سامنے خضوع اور خشوع كرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشى كى گنجائشے باقى نہيں رہے گي_ جو شخض خدا كو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ كو اس ذات كے سامنے ديكھتا ہو تو نماز كى حالت ميں جو ذات الہى سے ہم كلامى كى حالت ہوتى ہے كبھى بھى اللہ تعالى كى ياد سے غافل نہيں ہوگا_ جيسے اگر كوئي طاقت ور بادشاہ كے سامنے بات كر رہا ہو تو اس كے حواس اسى طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے كہ كيا كہہ رہاہے اور كيا كر رہا ہے اگر كوئي اللہ تعالى كو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز كى حالت ميں اس سے غافل نہيں ہوگا لہذا انسان كو اپنے ايمان اور معرفت الہى كو كامل اور قوى كرنا چاہئے تا كہ نماز ميں اسے زيادہ حضور قلب حاصل ہوسكے_
پيغمبر اكرم نے فرمايا ہے كہ '' خدا كى اس طرح عبادت كر كہ گويا تو اسے ديكھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہيں ديكھ رہا تو وہ تجھے ديكھ رہا ہے_(478)
ابان بن تغلب كہتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت ميں عرض كيا كہ ميں نے امام زين العابدين عليہ السلام كو ديكھا ہے كہ آپ كا نماز ميں ايك رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمايا '' ہاں وہ اس مبعود كو كہ جس كے سامنے كھڑے تھے كامل طور سے پہچانتے تھے_(479)
4_ موت كى ياد
حضور قلب اور توجہ كے پيدا ہونے كى حالت كا ايك سبب موت كا ياد كرنا ہو
275
سكتا ہے اگر انسان مرنے كى فكر ہيں اور متوجہ ہو كہ موت كا كوئي وقت نہيں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط ميں موت كاواقع ہونا ممكن ہے يہاں تك كہ شايد يہى نماز اس كى آخرى نماز ہو تو اس حالت ميں وہ نماز كو غفلت سے نہيں پڑھے گا بہتر ہے كہ انسان نماز سے پہلے مرنے كى فكر ميں جائے اور يوں تصور كرے كہ اس كے مرنے كا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائيل عليہ السلام اس كى روح قبض كرنے كے لئے حاضر ہو چكے ہيں تھوڑا سا وقت زيادہ نہيں رہ گيا اور اس كے اعمال كا دفتر اس كے بعد بند ہو جائيگا اور ابدى جہاں كى طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس كے اعمال كا حساب و كتاب ليا جائے گا جس كا نتيجہ يا ہميشہ كى سعادت اور اللہ تعالى كے مقرب بندوں كے ساتھ زندگى كرنا ہوگا اور يا بدبختى اور جہنم كے گڑھے ميں گر كر عذاب ميں مبتلا ہونا ہوگا_
اس طرح كى فرك اور مرنے كو سامنے لانے سے نماز ميں حضور قلب اور توجہ كى حالت بہتر كر سكے گا اور اپنے آپ كو خالق كائنات كے سامنے ديكھ رہا ہوگا اور نماز كو خضوع اور خشوع كى حالت ميں آخرى نمازسمجھ كر بجا لائيگا نماز كے شروع كرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ ميں حالت پيدا كرے اور نماز كے آخر تك يہى حالت باقى ركھے_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' واجب نماز كو اس كے وقت ميں اس طرح ادا كرو كہ وہ تمہارى وداعى اور آخرى نماز ہے اور يہ خوف رہے كہ شايد اس كے بعد نماز پڑھنے كى توفيق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے كى حالت ميں سجدہ گاہ پر نگاہ ركھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے كہ تيرے نزديك كوئي تجھے ديكھ رہا ہے اور پھر تو نماز كو اچھى طرح پڑھنے لگے تو جان لے كہ تو اس ذات كے سامنے ہے جو تجھے ديكھ رہا ہے ليكن تو اس كو نہيں ديكھ رہا_(480)
5_ آمادگي
جب نمازى نے تمام ركاوٹيں دور كر لى ہوں تو پھر كسى خلوت اور تنہائي كي
276
مناسب جگہ جا كر نماز پڑھنے كے لئے تيار ہوجائے اور نماز شروع كرنے سے پہلے اللہ تعالى كى بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنى ناتوانى اور كمزورى كو ياد كرے اور يہ ياد كرے كہ وہ پروردگار اور تمام چيزوں كے مالك كے سامنے كھڑا ہے اور اس سے ہمكلام ہے_ ايسى عظيم ذات كے سامنے كھڑا ہے كہ جو تمام افكار يہاں تك كہ مخفى سوچ اور فكر كو جانتا ہے_ موت اور اعمال كے حساب اور كتاب بہشت اور دوزخ كو سامنے ركھے اور احتمال دے كہ شايد يہ اس كى آخرى نماز ہو اپنى اس سوچ اور فكر اتنا زيادہ كرے كہ اس كى روح اس كى تابع اور مطيع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ كہتے اور اس كے بعد نماز كى طرف مہيا ہونے والى يہ دعا پڑھے _ اللہم اليك توجہت و مرضاتك طلبت و ثوابك ابتقيت و بك امنت و عليك توكلت اللہم صل على محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبى لذكرك و ثبتنى على دينك و دين نبيك و لا تزغ قلبى بعد اذ ہديتنى و ہب لى من لدنك رحمة انك انت الوہاب
اس دعا كے پڑھتے كے وقت ان كلمات كى معانى كى طرف توجہ كرے پھر يہ كہے _ يا محسن قد اتاك المسئي يا محسن احسن الي
اگر حضور قلب اور توجہہ پيدا ہوجائے تو پھر تكبير الاحرام كہے اور نماز ميں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے كہ ابھى وہ حالت پيدا نہيں ہوئي تو پھر استغفار كرے اور شيطانى خيالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس كو تكرار كرے كہ اس ميں وہ حالت پيدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پيدا كر كے تكبيرة الاحرام كے معنى كى طرف توجہہ كرے نماز ميں مشغول ہوجائے ليكن متوجہ رہے كہ وہ كس ذات سے ہمكلام ہے اور كيا كہہ رہا ہے اور متوجہ رہے كہ زبان اور دل ايك دوسرے كے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے كيا جانتا ہے كہ اللہ اكبر كے معنى كيا ہيں؟ يعنى اللہ تعالى اس سے بلند و بالا ہے كہ اس كى تعريف اور وصف كى جا سكے درست متوجہ رہے كہ كيا
277
كہتا ہے آيا جو كہہ رہا ہے اس پر ايمان بھى ركھتا ہے_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جب تو نماز كے قصد سے قبلہ رخ كھڑا ہو تو دنيا اور جو كچھ اس ميں ہے لوگوں اور ان كے حالات اور اعمال سب كو ايك دفعہ بھولا دے اور اپنے دل كو ہر قسم كے ايسے كام سے جو تجھے ياد خدا سے روكتے ہوں دل سے نكال دے اور اپنى باطنى آنكھ سے ذات الہى كى عظمت اور جلال كا مشاہدہ كر اور اپنے آپ كو خدا كے سامنے اس دن كے لئے حاضر جان كہ جس دن كے لئے تو نے اپنے اعمال اگلى دنيا كے لئے بھيجے ہيں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا كى طرف رجوع كريں گے اور نماز كى حالت ميں خوف اور اميد كے درميان رہ تكبرة الاحرام كہنے كے وقت جو كچھ زمين اور آسمان كے درميان ہے معمولى شمار كر كيونكہ جب نمازى تكبيرة الاحرام كہتا ہے خداوند عالم اسكے دل پر نگاہ كرتا ہے اگر تكبير كى حقيقت كى طرف متوجہ نہ ہو تو اسے كہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوكا دينا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال كى قسم ميں تجھے اپنے ذكر كى لذت سے محروم كرونگا اور اپنے قرب اور اپنى مناجات كرنے كى لذت سے محروم كر دونگا_ (481)
درست ہے كہ نيت اور تكبرة الاحرام كے وقت اس طرح كى تيارى قلب كے حضور كے لئے بہت زيادہ اثر انداز ہوتى ہے ليكن سب سے مہم تر يہ ہے كہ ايسى حالت استمرار پيدا كرے اگر معمولى سے غفلت طارى ہوگئي تو انسان كى روح ادھر ادھر پرواز كرنے لگے گى اور حضور اور توجہہ خداوند عالم كى طرف سے ہٹ جائيگي_ لہذا نمازى كو تمام نماز كى حالت ميں اپنے نفس كى مراقبت اور حفاظت كرنى چاہئے اور مختلف خيالات اور افكار كو روكنا چاہئے ہميشہ اپنے آپ كو خدا كے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے كہ خدا كے ساتھ كلام كر رہا ہے اور اس كے سامنے ركوع اور سجود كر رہا ہے اور كوشش كرے كہ قرائت كرتے وقت ان كے معانى كى طرف متوجہ رہے اور غور كرے كہ كيا كہہ رہا ہے اوركس عظيم ذات كے ساتھ گفتگو كر رہا ہے اس حالت كو
278
نماز كے آخر تك باقى ركھے گرچہ يہ كام بہت مشكل اور دشوار ہے ليكن نفس كى مراقبت اور كوشش كرنے سے آسان ہو سكتا ہے و الذين جاہدوا فينا لنہدينہم سبلنا اگر اسے اس كى ابتداء ميں توفيق حاصل نہ ہو تو نااميد نہ ہو بلكہ بطور حتمى اور كوشش كر كے عمل ميں وارد ہوتا كہ تدريجاً نفس پر تسلط حاصل كرلے_ مختلف خيالات كو دل سے نكالے اور اپنے آپ كو خدا كى طرف توجہ دے اگر ايك دن يا كئي ہفتے اور مہينے يہ ممكن نہ ہوا ہو تو مايوس اور نا اميد نہ ہو اور كوشش كرے كيونكہ يہ بہرحال ايك ممكن كام ہے_ انسانوں كے درميان ايسے بزرگ انسان تھے اور ہيں كہ جو اول نماز سے آخر نماز تك پورا حضور قلب ركھے تھے اور نماز كى حالت ميں خدا كے علاوہ كسى طرف بالكل توجہ نہيں كرتے تھے_ ہم بھى اس بلند و بالا مقام تك پہنچنے سے نا اميد نہ ہوں اگر كامل مرتبہ تك نہيں پہنچے پائے تو كم از كم جتنا ممكن ہے اس تك پہنچ جائيں تو اتنا ہى ہمارے لئے غنيمت ہے_ (482)
دوم _ نوافل
پہلے بيان ہوچكا ہے كہ سير اور سلوك اور اللہ تعالى سے تقرب كا بہترين راستہ نماز ہے_ اللہ تعالى انسان كى خلقت كى خصوصيت كے لحاظ سے اس كے تكامل اور كمال حاصل كرنے كے طريقوں كو دوسروں سے زيادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالى نے نماز كو بنايا ہے اور پيغمبر عليہ السلام كے ذريعے انسانوں كے اختيار ميں ديا ہے تا كہ وہ اپنى سعادت اور كمال حاصل كرنے كے لئے اس سے فائدہ حاصل كريں _ نماز كسى خاص حد تك محدود نہيں ہے بلكہ اس سے ہر زمانے ميں ہر مكان اور ہر شرائط ميں فائدہ حاصل كيا جا سكتا ہے نماز كى دو قسميں ہيں ايك واجب نمازيں اور دوسرى مستحب نمازيں_
چھ نمازيں واجب ہيں پہلى پنجگانہ نمازيں يعنى دن اور رات ميں پانچ نمازيں دوسرى نماز آيات تيسرى نماز ميت چوتھى نماز اطراف پانچويں وہ نمازيں جو نذر يا قسم يا
279
عہد سے انسان پر واجب ہوتى ہيں چھٹى باپ كى نمازيں جو بڑے لڑكے پر واجب ہيں_
پنجگانہ نمازيں تو تمام مكلفين مرد اور عورت پر واجب ہيں ليكن باقى نمازيں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتى ہيں_ جو انسان اپنى سعادت اور كمال كا طالب ہے اس پر پہلے ضرورى ہے كہ وہ واجب نمازوں كو اس طرح جس طرح بنائي گئي ہيں انجام دے_ اگر انہيں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو يہ بہترين اللہ تعالى سے تقرب كا موجب ہوتى ہيں_ واجبات كو چھوڑ كر مستحبات كا بجا لانا تقرب كا سبب نہيں ہوتا_ اگر كوئي خيال كرے كہ فرائض اور واجبات كو چھوڑ كر مستحبات اور اذكار كے ذريعے تقرب يا مقامات عاليہ تك پہنچ سكتا ہے تو اس نے اشتباہ كيا ہے_ ہاں فرائض كے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالى اور تقرب الہى كو حاصل كر سكتا ہے_ دن اور رات كے نوافل پينتيں ہيں ظہر كى آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر كى آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد كى گيارہ ركعت ہيں_ احاديث كى كتابوں ميںنوافل كے پڑھنے كى تاكيد كى گئي ہے اور انہيں واجب نمازوں كا متمم اور نقص كو پر كرنے والا بتلايا گيا ہے_ دن اور رات كى نوافل كے علاوہ بھى بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مكان ميں بجالانے كا كہا گيا ہے او ران كا ثواب بھى بيان كيا گيا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان كّے ثواب اور ان كے فوائد اور اثرات كو حديث اور دعا كى كتابوں سے ديكھ سكتے ہيں اور نفس كے كمال تك پہنچنے ميں ان سے استفادہ كرسكتے ہيں ان سے فائدہ حاصل كرنے كا طريقہ ہميشہ كے لئے كھالا ہوا ہے_ اس كے علاوہ بھى ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت ميں نماز پڑھنا مستحب ہے_
امام رضا عليہ السلام نے فرمايا '' مستحب نمازيں مومن كے لئے تقرب كا سبب ہوا كرتى ہيں_ (483)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كبھى آدھى اور كبھى تہائي اور چوتھائي نماز اوپر جاتى ہے_ يعنى قبول ہوتى ہے_ اتنى نماز اوپر جاتى ہے اور قبول ہوتى ہے كہ
280
جتنى مقدار اس ميں حضور قلب ہو اسى لئے مستحب نمازوں كے پڑھنے كا كہا گيا ہے تا كہ ان كے ذريعے جو نقصان واجب نماز ميں رہ گيا ہے پورا كيا جائے_ (484)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و الہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' مومن بندہ ميرے نزديك محبوب ہے اور اس كے لئے واجبات پر عمل كرنے سے اور كوئي چيز بہتر نہيں ہے مستحبات كے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے كہ گويا ميں اس كى آنكھ ہوجاتا ہوں كہ جس سے وہ ديكھتا ہے اور گويا ميں اس كى زبان ہوجاتا ہوں كہ جس سے وہ بولتا ہے اور گويا ميں اس كا ہاتھ ہوجاتا ہوں كہ جس سے وہ چيزوں كو پكڑتا ہے اور گويا ميں اس كا پاؤں ہو جاتا ہوں كہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پكارے تو ميں قبول كرتا ہوں اور جواب ديتا ہوں اور اگر كوئي چيز مجھ سے مانگے تو اسے عطا كرتا ہوں ميں نے كسى چيز ميں ترديد اور ٹھہراؤ پيدا نہيں كيا جتنا كہ مومن كى روح قبض كرنے ميں كيا ہے وہ مرنے كو پسند نہيں كرتا اور ميں بھى اس كا ناپسندى كو ناپسند كرتا ہوں_ (485)
سوّم_ تہجّد
مستحبات ميں سے تہجد كى نماز كى بہت زيادہ فضيلت حاصل ہے قرآن مجيد اور احاديث ميں اس كى بہت زيادہ تاكيد كى گئي ہے خداوند عالم كى ذ ات پيغمبر عليہ السلام كو فرماتا ہے كہ ''رات كو تھوڑے سے وقت ميں تہجد كى نماز كے لئے كھڑا ہو يہ تيرے لئے مستحب ہے شايد خدا تجھے خاص مقام كے لئے مبعوث قرار دے دے_ (486)
اللہ تعالى اپنے خاص بندوں كے بارے ميں فرماتا ہے كہ '' كچھ لوگ رات كو اپنے پروردگار كے لئے سجدے اور قيام كے لئے رات گذارتے ہيں_ (487)
اللہ تعالى مومنين كى صفات ميں يوں ذكر كرتا ہے كہ '' رات كو بستر سے اپنے آپ كو جدا كرتے ہيں اور اميد اور خوف ميں خدا كو پكارتے ہيں اور جو كچھ انہيں ديا گيا ہے
281
خرچ كرتے ہيں كوئي نہيں جان سكتا كہ كتنى نعمتيں ہيں جو ان كى آنكھ كے روشنى اور ٹھنڈك كا موجب بنيں گى جنہيں ان كے اعمال كى جزاء كے طور پر محفوظ كيا جاچكا ہے_ (488)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ خداوند عالم نے دنيا كو وحى كى ہے كہ اپنى خدمت كرنے والوں كو مصيبت اورمشقت ميں ڈال اور جو ترك كر دے اس كى خدمت كر جب كوئي بندہ رات كى تاريكى ميں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات كرتا ہے تو خدا اس كے دل كو نورانى كرديتا ہے جب وہ كہتا ہے با رب يا رب تو خدا كى طرف سے كہا جاتا ہے_ لبيك يا عبدي_ تو جو چاہتا ہے طلب كرتا كہ ميں تجھے عطا كروں مجھ پر توكل اور آسرا كرتا كہ ميں تجھے كفايت كروں اس كے بعد اپنے فرشتوں سے كہتا ہے كہ ميرے بندے كو ديكھو كس طرح تاريكى ميں ميرے ساتھ مناجات كر رہا ہے جب كہ بيہودہ لوگ لہو اور لعب ميں مشغول ہيں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہيں تم گواہ رہو كہ ميں نے اسے بخش ديا ہے_ (489)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہيں كہ '' جبرائيل مجھے تہجد كى نماز ميں اتنى سفارش كر رہا تھا كہ ميں نے گمان كيا كہ ميرى امت كے نيك بندے رات كو كبھى نہيں سوئيں گے_ (490)
پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' آدھى رات ميں دو ركعت نماز پڑھنا ميرے نزديك دنيا اور اس كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب ہے_ (491)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' تہجد كى نماز شكل كو خوبصورت اور اخلاق كو اچھا اور انسان كو خوشبودار بناتى ہے اور رزق كو زيادہ كرتى ہے اور قرض كو ادا كراتى ہے اور غم اور اندوہ كو دور كرتى ہے اور آنكھوں كو روشنائي اور جلاديتى ہے_ (492)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' تہجد كى نماز اللہ تعالى كى خوشنودى اورملائكہ سے دوستى كا وسيلہ ہے_ تہجد كى نماز پيغمبروں كاطريقہ اور سنت اور ايمان اور معرفت كے لئے نور اور وشنى ہے_ كيونكہ تہجد كى نماز كے ذريعے ايمان قوى ہوتا ہے) بدن كو آرام ديتى ہے اور شيطان كو غضبناك كرتى ہے_ دشمنوں
282
كے خلاف ہتھيار ہے دعا اور اعمال كے قبول ہونے كا ذريعہ ہے انسان كى روزى كو وسيع كرتى ہے_ نمازى اور ملك الموت كے درميان شفيع ہوتى ہے_ قبر كے لئے چراغ اور فرش ہے اور منكر اور نكير كا جواب ہے_ قبر ميں قيامت تك مونس اور نمازى كى زيارت كرتى رہے گي_ جب قيامت برپا ہوگى تو نمازى پر سايہ كرے گى اس كے سركا تاج اور اس كے بدن كا لباس ہوگي_ اس كے سامنے نور اور روشنى ہوگى اور جہنم اور دوزخ كى آگ كے سامنے نور اور روشنى ہوگى اور جہنم اور دوزخ كى آگ كے سامنے ركاوٹ بنے گي_ مومن كے لئے اللہ تعالى كے نزديك حجت ہے اور ميران ميں اعمال كو بھارى اور سنگين كردے گى پل پر عبور كرنے كا حكم ہے اور بہشت كى چابى ہے كيونكہ نماز تكبير اور حمد تسبيح اور تمجيد تقديس اور تعظيم قرات اور دعا ہے_ يقينا جب نماز وقت ميں پڑھى جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_ (493)
تہجد كى نماز ميں بہت زيادہ آيات اوراحاديث وارد ہوئي ہيں_ تہجد كى نماز كو پڑھنا پيغمبروں اور اولياء خدا كا طريقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد كے بارے ميں خاص اہميت اور توجہ اور عنايت ركھتے تھے_ اللہ كے اولياء اور عرفاء شب كو ہميشہ بجالانے سے اور سحر كيوقت دعا اور ذكر سے عالى مراتب تك پہنچے ہيں_ كتنا ہى اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے كہ انسان سحرى كے وقت نيند سے بيدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر كو چھوڑ دے اور وضوء كرے اور رات كى تاريكى ميں جب كہ تمام آنكھيں نيند ميں گم اور سوئي ہوئي ہيں اللہ تعالى كے حضور راز و نياز كرے اور اس كے وسيلے روحانى معراج كے ذريعے بلندى كى طرف سفر كرے اور آسمان كے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبيح اور تہليل تقديس اور تمجيد الہى ميں مشغول ہوجائے اس حالت ميں اس كا دل اللہ تعالى كے انوار اور اشراقات مركز قرار اپائيگا اورخدائي جذب سے مقام قرب تك ترقى كرے گا (مبارك ہو ان لوگوں كو جو اس كے اہل ہے)
283
نماز شب كى كيفيت
تہجد كى نماز گيارہ ركعت ہے دو دو ركعت كر كے صبح كى نماز كى طرح پڑھى جائے باين معنى كہ اٹھ ركعت كو تہجد كى نيت سے اور دور ركعت نماز شفع كى نيت سے اور ايك ركعت نماز وتر كى نيت سے پڑھے_ كے لئے كچھ آداب اور شرائط بيان كئے گئے ہيں_ جنہيں دعاؤں اور احاديث كى كتابوں ميں ديكھےا جا سكتا ہے_
|