خودسازي
یعنی
تزكيه و تهذيب نفس
253
دوسرا وسيلہ

فضائل اور مكارم اخلاق كى تربيت

نفس كے كمال تك پہنچنے
اور قرب الہى كے حاصل كرنے كے لئے ايك وسيلہ ان اخلاقى كى جو انسان كى فطرت اور سرشت ميں ركھ ديئے گئے ہيں پرورش اور تربيت كرنا ہے_ اچھے اخلاق ايسے گران بہا امور ہيں كہ جن كا ربط اور سنخيت انسان كے ملكوتى روح سے ہے ان كى تربيت اور پرورش سے انسان كى روح كامل سے كاملتر ہو جاتى ہے يہاں تك كہ وہ اللہ كے بلند و بالا مقام قرب تك پہنچتا ہے_ اللہ تعالى كى مقدس ذات تمام كمالات كا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونكہ عالم بالا سے تعلق ركھتا ہے وہ اپنى پاك فطرت سے كمالات انسانى كو كہ جن كى عالم بالا سے مناسبت ہے انہيں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان كى طرف مائل ہے اسى لئے تمام انسان تمام زمانوں ميں نيك اخلاق كو جانتے اور درك كرتے ہيں جيسے عدالت_ ايثار_ سچائي_ امانتدارى _ احسان _ نيكي_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خير خواہى مظلوموں كى مدد شكريہ احسان شناسى سخاوت اور بخشش_ وفا

254
عہد_ توكل_ تواضع اور فروتني_ عفو اور درگزر_ نرمى مزاجى _ خدمت خلق و غيرہ ان تمام كو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہيں خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتاہے_ كہ قسم نفس كى اور اس كى كہ اسے نيك اور معتدل بنايا ہے اور تقوى اور منحرف ہوجانے كا راستہ اسے بتلايا ہے كامياب وہ ہوا جس نے اپنے نفس كو پاك بنايا اور نقصان ميں ہوگا وہ كہ جس نے اپنے نفس كو آلودہ اور ناپاك بنايا_(437)
جب اخلاقى كام بار بار انجام ديئے جائيں تو وہ نفس ميں راسخ اور ايك قسم كا ملكہ پيدا كر ليتے ہيں وہى انسان كو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے ميں موثر اور اثر انداز ہوتے ہيں اسى واسطے اسلام اخلاق كے بارے ميں ايك خاص طرح كى اہميت قرار ديتا ہے_ اسلام كا ايك بہت بڑا حصہ اخلاقيات پر مشتمل ہے_ سينكٹروں آيات اور روايات اخلاق كے بارے ميں وارد ہوئي ہيں_ قرآن مجيد كى زيادہ آيتيں اخلاق كے بارے ميں اور اخلاقى احكام پر مشتمل ہيں يہاں تك كہ اكثر قرآن كے قصوں سے غرض اور غايت بھى اخلاقى احكام امور ہيں اور كہا جا سكتا ہے كہ قرآن مجيد ايك اخلاقى كتاب ہے _ قاعدتا پيغمبروں كے بھيجنے كى ايك بہت بڑى غرض اور غايت بھى نفس كو پاك اور صاف بنانا اور اخلاق كى اور پرورش كرنا ہے_ ہمارے پيغمبر عليہ السلام نے بھى اپنى بعثت اور بھيجے جانے كى غرص اخلاق كى تكميل كرنا اور نيك اخلاق كى تربيت كرنا بتلائي ہے اور فرمايا ہے كہ '' ميں اللہ تعالى كى طرف سے بھيجا گيا ہوں تا كہ نيك اخلاق كو پورا اور تمام كروں_(428)
پيغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے كہ '' ميں نيك اخلاق كى تمہيں نصيحت اور وصيت كرتا ہوں كيونكہ خداوند عالم نے مجھے اسى غرض كے لئے بھيجا ہے_(429)
نيز پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ قيامت كے دن اعمال كے ترازو ميں اخلاق حسنہ سے كوئي چيز افضل ہو نہيں ركھى جائيگي_(430)

255
تيسرا وسيلہ

عمل صالح
قرآن مجيد سے معلوم ہوتا ہے كہ ايمان كے بعد انسان كے تكامل كا وسيلہ اعمال صالح ہيں كہ جن كى وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عاليہ كو حاصل كر سكتا ہے اور اپنى اخروى زندگى كو پاك و پاكيزہ بنا سكتا ہے_ قرآن مجيد ميں ہے كہ '' جو شخص نيك اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو يا عورت جب كہ ايمان ركھتا ہو ہم اس كو ايك پاكيزہ ميں اٹھائيں گے اور اسے اس عمل سے كہ جسے وہ بجا لايا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب ديں گے_(431)
اس آيت سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان كے لئے دنيا كى زندگى كے علاوہ ايك اور پاك و پاكيزہ زندگى ہے اور وہ نئي زندگى اس كے ايمان اور عمل صالح كے نتيجے ميں وجود ميں آتى ہے_ قرآن فرماتا ہے كہ '' جو لوگ ايمان اور عمل صالح كے ساتھ خداوند عالم كى طرف لوٹيں يہى وہ لوگ ہيں جو مقامات اور درجات عاليہ پر فائز ہوتے ہيں_(432)
خداوند عالم فرماتا ہے كہ '' جو انسان اللہ تعالى كى ملاقات كى اميد ركھتا ہے اسے نيك عمل بجالانا چاہئے اور عبادت ميں خدا كا كوئي شريك قرار نہ دينا چاہئے_(433)
نيز اللہ تعالى فرماتا ہے كہ جو شخص عزت كا طلبكار ہے تو تمام عزت اللہ تعالى كے

256
پاس ہے كلمہ طيبہ اور نيك عمل اللہ تعالى كى طرف جاتا ہے_(434)
اللہ تعالى اس آيت ميں فرماتا ہے كہ تمام عزت اور قدرت اللہ كے لئے مخصوص ہے اسى كے پاس ہے اور كلمہ طيبہ يعنى موحد انسان كى پاك روح اور توحيد كا پاك عقيدہ ذات الہى كى طرف جاتا ہے اور اللہ تعالى نيك عمل كو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نيك عمل جب خلوص نيت سے ہو تو انسان كى روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقى اور كمال ديتا ہے_ قرآن مجيد سے معلوم ہوتاہے كہ آخرت كى پاك و پاكيزہ زندگى اور اللہ تعالى سے قرب اور القاء كا مرتبہ ايمان اور عمل صالح كے ذريعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجيد نے نيك اعمال كے بجا لانے پر بہت زيادہ زور ديا ہے خدا سعادت اور نجات كا وسيلہ صرف عمل صالح كو جانتا ہے نيك عمل كا معيار اور ميزان اس كا شريعت اور وحى الہى كے مطابق ہونا ہوا كرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان كى خصوصى غرض سے واقف ہے اس كى سعادت اور تكامل كے طريقوں كو بھى جانتا ہے اور ان طريقوں كو وحى كے ذريعے پيغمبر اسلام كے سپرد كر ديا ہے تا كہ آپ انہيں لوگوں تك پہنچا ديں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل كريں_
خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' جو لوگ ايمان لے آئے ہيں جب خدا اور اس كا رسول تمہيں كسى چيز كى طرف بلائيں جو تمہيں زندگى عطا كرتى ہيں تو اسے قبول كرو_(435)
نيك اعمال شرعيت اسلام ميں واجب اور مستحب ہوا كرتے ہيں_ عارف اور سالك انسان ان كے بجالانے سے اللہ تعالى كى طرف سير و سلوك كرتے ہوئے قرب الہى كے مقام تك پہنچ سكتا ہے اور يہى تنہا قرب الہى تك پہنچنے كا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہيں وہ عارف كو اس مقصد تك نہيں پہنچا سكتے بلكہ وہ ٹيڑھے راستے ہيں_ عارف انسان كو مكمل طور سے شرعيت كا مطيع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سير و سلوك كے ليے شرعيت كے راستے كے علاوہ اور كوئي راستہ اختيار نہيں كرنا چاہئے اور ان اذكار اور اوراد اور حركت سے كہ جس كا شرعيت اسلام ميں كوئي مدرك اور

257
ذكر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہيز كرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تك نہيں پہنچاتے بلكہ وہ اس كو مقصد سے دور بھى كر ديتے ہيں كيونكہ شرعيت سے تجاوز كرنا بدعت ہوا كرتا ہے_ عارف اور سالك انسان كو پہلے كوشش كرنى جاہئے كہ وہ واجبات اور فرائض دينى كو صحيح اور شرعيت كے مطابق بجالائے كيونكہ فرائض اور واجبات كے ترك كردينے سے مقامات عاليہ تك نہيں پہنچ سكتا گرچہ وہ مستحبات كے بجالائے اور ورد اور ذكر كرنے ميں كوشاں بھى رہے_ دوسرے مرحلے ميں مستحبات اور ذكر اور ورد كى نوبت آتى ہے_ عارف انسان اس مرحلے ميں اپنے مزاجى استعداد اور طاقت سے مستحبات كے كاموں كا بجا لائے اور جتنى اس ميں زيادہ كوشش كرے گا اتنا ہى عالى مقامات اور رتبے تك جا پہنچے گا_ مستحبات بھى فضيلت كے لحاظ سے ايك درجے ميں نہيں ہوتے بلكہ ان ميں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہيں جس كے نتيجے ميں بہتر اور جلدى مقام قرب تك پہنچاتے ہيں جيسے احاديث كى كتابوں ميں اس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے_ عارف انسان نمازيں دعائيں ذكر اور اوراد كتابوں سے انتخاب كرے اور اس كو ہميشہ بجا لاتا رہے جتنا زيادہ اور بہتر بجا لائيگا اتنا صفا اور نورانيت بہتر پيدا كرے گا اور مقامات عاليہ كى طرف صعود اور ترقى كرے گا ہم يہاں كچھ اعمال صالح كى طرف اشارہ كرتے ہيں اور باقى كو كتابوں كى طرف مراجعہ كرنے كا كہتے ہيں ليكن اس كا ذكر كر دينا ضرورى ہے كہ فرائض اور نوافل ذكر اور ورد اس صورت ميں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہيں بطور اخلاص بجا لايا جائے_ عمل كا صالح اور نيك اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص كى مقدار كے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص ميں بحث كرتے ہيں پھر كچھ تعداد اعمال صالح كى طرف اشارہ كريںگے_

اخلاص
اخلاص كا مقام اور مرتبہ تكامل اور سير و سلوك كے اعلى ترين مرتبے ميں سے ايك ہے اور خلوص كى كى وجہ سے انسان كى روح اور دل انوار الہى كا مركز بن جاتا ہے

258
اور اس كى زبان سے علم اور حكمت جارى ہوتے ہيں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص خدا كے لئے چاليس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس كے دل سے حكمت اور دانائي كے چشمے ابلتے اور جارى ہوجاتے ہيں_(436)
حضرت اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے '' كہاں ہيں وہ لوگ جو اپنے اعمال كو خدا كے لئے خالص بجالاتے ہيں اور اپنے دلوں كو اس لئے كہ اللہ تعالى كى وجہ كا مركز پاك ركھتے ہيں_(437)
حضرت زہراء عليہا السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالى كى طرف بھيجے اللہ تعالى بھى بہترين مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(438)
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے '' بندوں كا پاك دل اللہ تعالى كى نگاہ كا مركز ہوتا ہے جس شخص نے دل كو پاك كيا وہ اللہ تعالى كا مورد نظر قرار پائيگا_ (439)
پيغمبر عليہ السلام نے جبرائيل عليہ السلام سے نقل كيا ہے اور اس نے اللہ تعالى سے نقل كيا ہے كہ '' خلوص اور اخلاص ميرے رازوں ميں سے ايك راز ہے كہ جس شخص كو ميں دوست ركھتا ہوں اس كے دل ميں يہ قرار دے ديتا ہوں_(440)
خلوص كے كئي مراتب اور درجات ہيں_ كم از كم اس كا درجہ يہ ہے كہ انسان اپنى عبادت كو شرك اور رياء اور خودنمائي سے پاك اور خالص كرے اور عبادت كو صرف خدا كے لئے انجام دے خلوص كى اتنى مقدار تو عبادت كے صحيح ہونے كى شرط ہے اس كے بغير تو تقرب ہى حاصل نہيں ہوتا عمل كى قيمت اور ارزش اس كے شرك اور رياء سے پاك اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' خداوند عالم تمہارى شكل اور عمل كو نہيں ديكھتا بلكہ تمہارے دلوں كو ديكھتا ہے_(441)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ميں بہترين شريك ہوں جو شخص كسى دوسرے كو عمل ميں شريك قرار دے (تو تمام عمل كو اسي

259
كے سپرد كر ديتا ہوں) ميں سوائے خالص عمل كے قبول نہيں كرتا _(442) امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خداوند عالم لوگوں كو قيامت ميں ان كى نيت كے مطابق محشور كرے گا_(443)
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے '' خوش نصيب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا كو صرف خدا كے لئے انجام ديتا ہے اور اپنى آنكھوں كو ان ميں مشغول نہ كرے جو آنكھوں سے ديكھتا ہے اور اس كى وجہ سے جو اس سے كان پر پڑتا ہے اللہ تعالى كے ذكر كو فراموش نہ كرے اور جو چيزيں دوسروں كو دى گئي ہيں ان پر غمگين نہ ہو_(444)
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے_ ''عمل ميں خلوص سعادت كى علامتوں ميں سے ايك علامت ہے_(445) اللہ تعالى كے ہاں وہ عبادت قبول ہوتى ہے اور موجب قرب اور كمال ہوتى ہے جو ہر قسم كے رياء اور خودپسندى اور خودنمائي سے پاك اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا كے لئے انجام دى جائے عمل كى قبوليت اور ارزش كا معيار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زيادہ ہوگا اتناہى عمل كامل تر اور قيمتى ہوگا_ عبادت كرنے والے كئي طرح كے ہوتے ہيں_
ايك وہ لوگ جو اللہ تعالى كے عذاب اور جہنم كى آگ كے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہيں_
دوسرے وہ لوگ ہيں جو بہشت كى نعمتوں اور آخرت كے ثواب كے لئے اوامر اور نواہى كى اطاعت كرتے ہيں ان كا اس طرح كا عمل اس كے صحيح واقع ہونے كے لئے تو مضر نہيں ہوتا ان كا ايسا عمل صحيح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھى ہے كيونكہ قرآن مجيد اور احاديث ميں لوگوں كو راہ حق كى ہدايت اور ارشاد اور تبليغ كے لئے غالبا انہيں دو طريقوں سے استفادہ كيا گيا ہے بالخصوص پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولياء اللہ خداوند عالم كے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع كيا كرتے تھے اور بہشت اور اس كى نعمتوں كے لئے شوق اور اميد كا اظہار كيا كرتے تھے_

260
تيسرے وہ لوگ ہيں جو اللہ تعالى كى نعمتوں كے شكرانہ كے لئے اللہ تعالى كى پرستش اور عبادت كيا كرتے ہيں اس طرح كا عمل بجا لانا اسكے منافى نہيں جو عمل كے قبول ہونے ميں خلوص شرط ہے اسى واسطے احاديث ميں لوگوں كو عمل بجالانے كى ترغيب اور شوق دلانے ميں اللہ تعالى كى نعمتوں كا تذكرہ كيا گيا ہے تا كہ ان كى وجہ سے اللہ تعالى كے احكام كى اطاعت كريں بلكہ خود پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت ميں انہماك اور كوشش كرنے كا سبب يہ بتلايا ہے كہ كيا ہم اللہ كے شكر گزار بندے قرار نہ پائيں(افلا اكون عبدا شكورا)گر چہ ان تينوں كے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہيں ليكن تيسرے قسم كے لوگ ايك خاص امتياز اور قيمت ركھتے ہيں كيونكہ ان ميں خلوص زيادہ ہوتا ہے_ امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ جو لوگ اللہ تعالى كى عبادت كرتے ہيں وہ تين قسم كے ہوتے ہيں ايك قسم وہ ہے جو آخرت كے ثواب حاصل كرنے كے لئے خدا كى عبادت كرتے ہيں_ ان لوگوں كا كردار تاجروں والا ہے دوسرى قسم وہ ہے جو جہنم كے خوف سے اللہ تعالى كى عبادت كرتے ہيں يہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوكر والى ہے_ تيسرى قسم وہ ہے جو اللہ تعالى كى نعمتوں كے شكرانے كے ادا كرنے كے لئے عبادت كرتے ہيں يہ عبادت آزاد مردوں والى عبادت ہے_(446)
چوتھى قسم ان لوگوں كى ہے جو نفس كى تكميل اور روح كى تربيت كے لئے عبادت كرتے ہيں اس طرح كا م قصد بھى اس خلوص كو جو عبادت كے صحيح ہونے ميں شرط ضرر نہيں پہنچاتا_
پانچويں قسم اللہ كے ان ممتاز اور مخصوص بندوں كى ہے كہ جنہوں نے خدا كو اچھى طرح پہنچان ليا ہے اور جانتے ہيں كہ تمام كمالات اور نيكيوں كا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس كى عبادت كرتا ہے اور چونكہ وہ اللہ كى بے انتہا قدرت اور عظمت كى طرف متوجہ ہيں اور اس ذات كے سوا كسى اور كو موثر نہيں ديكھتے صرف اسى ذات كو پرستش اور عبادت كے لائق سمجھتے ہيں اسى لئے خدا كو دوست ركھتے ہيں اور اس كى قدرت اور

261
عظمت كے سامنے خضوع اور خشوع كرتے ہيں اور يہ اخلاص اور خلوص كا اعلى ترين درجہ اور مرتبہ ہے_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ عبادت كرنے والے تين گروہ ہيں_ ايك گروہ ثواب كى اميد ميں عبادت كرتا ہے يہ عبادت حريص لوگوں كى ہے كہ جن كى غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ كے ڈر سے عبادت كرتا ہے_ يہ عبادت غلاموں كى عبادت ہے كہ خوف اس كا سبب بنتا ہے ليكن ميں چونكہ خدا كو دوست ركھتا ہوں اسى لئے اس كى پرستش اور عبادت كرتا ہوں يہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں كى ہے اس كا سبب اطمينان اور امن ہے اللہ تعالى فرماتا ہے (و ہم فزع يومئسذ امنون كہ وہ قيامت كے دن امن ميں ہيں_ نيز اللہ فرماتا ہے '' قل ان كنتم تحبون اللہ فاتبعونى يحببكم اللہ و يغفر لكم ذنوبكم_(447) امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے '' اے ميرے مالك_ ميں تيرى عبادت نہ دوزخ كے خوف سے اور نہ بہشت كے طمع ميں كرتا ہے بلكہ ميں تيرى عبادت اس لئے كرتا ہوں كے تجھے عبادت اور پرستش كے لائق جانتا ہوں_(448)
يہ تمام گروہ مخلص ہيں اور ان كى عبادت قبول واقع ہوگى ليكن خلوص اور اخلاص كے لحاظ سے ايك مرتبے ميں نہيں ہيں بلكہ ان ميں كامل اور كاملتر موجود ہيں پانچويں قسم اعلى ترين درجہ پر فائز ہے ليكن يہ واضح رہے كہ جو عبادت كے اعلى مرتبہ پر ہيں وہ نچلے درجہ كو بھى ركھتے ہيں اور اس كے فاقد نہيں ہوتے بلكہ نچلے درجے كے ساتھ اعلى درجے كو بھى ركھتے ہيں_ اللہ تعالى كے مخلص اور صديقين بندے بھى اللہ تعالى سے ڈرتے ہيں اور ان كے لطف اور كرم كى اميد ركھتے ہيں اللہ تعالى كى نعمتوں كے سامنے شكر ادا كرتے ہيں اور معنوى تقرب اور قرب كے طالب ہوتے ہيں ليكن ان كى عبادت كا سبب فقط يہى نہيں ہوتا اور چونكہ وہ خدا كى سب سے اعلى ترين معرفت ركھتے ہيں اسى لئے اس كى عبادت اور پرستش كرتے ہيں يہ اللہ تعالى كے ممتاز اور منتخب بندے ہيں مقامات عاليہ كے علاوہ نچلے سارے درجات ركھتے ہيں كيونكہ جو انسان تكامل

262
كے لئے سير و سلوك كرتا ہے جب وہ اعلى درجے تك پہنچتا ہے تو نچلے درجات كو بھى طے كر كے جاتا ہے_
اب تك جو ذكر جو ذكر ہوا ہے وہ عبادت ميں خلوص اور اخلاص تھا ليكن خلوص صرف عبادت ميں منحصر نہيں ہوتا بلكہ عارف انسان تدريجا ايك ايسے مقام تك جا پہنچتا ہے كہ وہ خود اور اس كا دل اللہ تعالى كے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غيروں كو اپنے دل سے اس طرح نكال ديتا ہے كہ اس كے اعمال اور حركات اور افكار خداوند عالم كے ساتھ اختصاص پيدا كر ليتے ہيں اور سوائے اللہ تعالى كى رضايت كے كوئي كام بھى انجام نہيں ديتا اور خدا كے سوا كسى سے نہيں ڈرتا اور خدا كے سوا كسى پر اعتماد نہيں كرتا_ اس كى كسى سے دوستى اور دشمنى صرف خدا كے لئے ہوا كرتى ہے اور يہ اخلاص كا اعلى ترين درجہ ہے_
امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں خوش نصيب ہے وہ شخص كہ جس كا عمل اور علم محبت اور بغض كرنا اور نہ كرنا بولنا اور ساكت رہنا تمام كا تمام خدا كے لئے خالص ہو_(449)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جس شخص كى محبت اور دشمنى خرچ كرنا اور نہ كرنا صرف خدا كے لئے ہو يہ ان انسانوں ميں سے ہے كہ جس كا ايمان كامل ہوتا ہے_(450) امام جعفر صادق عليہ السلام نے ''فرمايا ہے كہ اللہ تعالى نے جس بندے كے دل ميں سوائے خدا كے اور كوئي چيز نہ ركھى ہو تو اس كو اس سے اور كوئي شريف ترين چيز عطا نہيں كي_(451)
امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالى كو بخش ديا گيا ہو اور اس كى اطاعت كا پيمان اور عہد بناندھا گيا ہو_(452)
جب كوئي عارف انسان اس مرتبے تك پہنچ جائے تو خدا بھى اس كو اپنے لئے خالص قرار دے ديتا ہے اور اپنى تائيد اور فيض اور كرم سے اس كو گناہوں سے محفوظ

263
كر ديتا ہے اس طرح كا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالى كے ممتاز بندوں ميں سے ہوتے ہيں_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' ہم نے ان كو آخرت كى ياد كے لئے خالص قرار دے ديا ہے_(453)
قرآن كريم حضرت موسى عليہ السلام كے بارے ميں فرماتا ہے كہ '' يقينا و ہ خالص ہوگيا ہے اور رسول اور پيغمبر ہے_(454)
اللہ تعالى كے خالص بندے ايك ايسے مقام تك پہنچتے ہيں كہ شيطن ان كو گمراہ كرنے سے نااميد ہوجاتا ہے قرآن كريم شيطن كى زبان نقل كرتا ہے كہ اس نے خداوند عالم سے كہا كہ '' مجھے تيرى عزت كى قسم كہ ميں تيرے تمام بندوں كو سوائے مخلصين كے گمراہ كروں گا اور مخلصين كے گمراہ كرنے ميں ميرا كوئي حصہ نہيں ہے_(455) بلكہ اخلاص كے لئے روح اور دل كو پاك كرنے كى ضرورت ہوتى ہے اور عبادت كرنے ميں كوشش اور جہاد كرنا ہوتا ہے_ امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''عبادت كا نتيجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(456)
جيسے كہ احاديث ميں وارد ہوا ہے كہ چاليس دن تك عبادت اور ذكر كو برابر بجا لانا دل كے صفا اور باطنى نورانيت اور مقام اخلاص تك پہنچنے كے لئے سبب اور موثر اورمفيد ہوتاہے نہ صرف ايك دفعہ بلكہ تدريجا اور اخلاص كے باطنى مراحل طے كرتے رہنے سے ايسا ہو سكتا ہے_