221
وظائف اور دستور
بعض عرفاء نے اس راستے كو طے كرنے كے لئے مندرجہ ذيل امور كے بجالانے كى سفارش كى ہے_
1_ اس مقام كے طالب كو سب سے پہلے توبہ كے ذريے اپنے نفس كو گناہوں اور باطنى گندگيوں اور برے اخلاق سے پاك اور صاف كرنا چاہئے پہلے توبہ كى نيت سے غسل كرے اور غسل كى حالت ميں اپنے گناہوں اور باطنى كثافتوں كو دل ميں لائے اور اللہ تعالى سے عرض كرے اے خالق_ ميں نے اپنے گناہوں سے توبہ كى ہے اور تيرى طرف لوٹ آيا ہوں اور ارادہ كر ليا ہے كہ پھر سے گناہ نہيں كروں گا جيسے ميں اپنے جسم كو پانى سے پاك كرتا ہوں اپنے دل كو گناہوں اور برے اخلاق سے پاك كر رہا ہوں_
2_ اپنے آپ كو ہر حالت اور ہر وقت خدا كے سامنے ديكھے اور كوشش كرے كہ تمام حالات ميں خدا كى ياد ميں رہے اور اگر غفلت طارى ہو جائے تو فوراً لوٹ آئے_
3_ اپنے آپ پر اچھى طرح كنٹرول كرے تا كہ وہ پھر گناہ كو بجا نہ لائے_ اس خاص وقت دن اور رات ميں نفس كے محاسبے كے لئے معين كردے اور پورى وقت سے دن اور رات كے اعمال كا حساب كرے اور اپنے نفس كو مورد مواخذہ
222
قرار دے_
4_ سوائے ضرورت كے چپ رہے اور زيادہ كلام نہ كرے_
5_ صرف ضرورت جتنى غذا كھائے اور زيادہ كھانے سے پرہيز كرے_
6_ ہميشہ با وضو رہے اور جس وقت وضوء باطل ہوجائے فوراً وضو كرلے_ روسل اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ '' خداوند عالم فرماتا ہے كہ جو شخص وضو كے باطل ہوجانے كے بعد دوبارہ وضو نہ كرے اس نے مجھ پر ظلم كيا ہے اور جو شخص وضو كرنے كے بعد دو ركعت نماز نہ پڑھے اس نے مجھ پر ظلم كيا ہے اور اگر كوئي انسان پڑھے اورنماز كے بعد دنيا اور آخرت كے لئے دعا كرے اور ميں اسے قبول نہ كروں تو ميں نے اس پر ظلم كيا ہے ليكن ميں ظلم كرنے والا خدا نہيں ہوں_ (395)
7_ دن اور رات ميں ايك خاص وقت اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنے كے لئے مخصوص كردے اور اگر يہ رات ميں بالخصوص سحرى كے وقت ہو تو بہتر ہے خلوت اور تنہائي ميں بيٹھ جائے اور اپنے سركو زانوں ميں ركھے اور تمام حواس كو اپنے آپ ميں سموئے اور غلط خيالات اور افكار كو روكے_ ايك مدت تك اس عمل كو بجالائے اس عمل سے تجھ كچھ مكاشفات حاصل ہونگے_
8_ يا حى يا قيوم اور يا من لا الہ الا انت كے ذكر كو اپنى زبان كو ورد قرار دے اور حضور قلب سے ہميشہ اس كا تكرار كرے_
9_ دن اور رات ميں ايك طويل سجدہ بجالائے اور جتنا ہوسكتا ہے حضور قلب سے اس ذكر كا اس ميں تكرار كرے_ لا الہ الا انت سبحانك انى كنت من الظالمين_ اس سجدہ كو طولانى بجالانا مجرب ہے اور اچھے اثرات ركھتا ہے_ بعض عرفا سے نقل ہوا ہے كہ وہ اس ذكر كو چار ہزار دفعہ پڑھا كرتا تھا_
10_ دن اور رات ميں ايك خاص وقت كو معين كر كے اس ذكر يا غنى يا مغنى كو كئي
223
بار پڑھے_
11_ ہر روز حضور قلب سے كچھ مقدار قرآن مجيد پڑھے اور آيات كے معانى ميں غور اور فكر كرے اور اگر كھڑے ہو كر يڑھے تو بہتر ہے_ _
12_ سحرى كے وقت بيدار ہو اور وضو كرے اور خلوت اور تنہائي كى جگہ ميں حضور قلب سے نماز تہجد پڑھے اور وتر نماز كے قنوت كو طويل كرے اور اپنے اور مومنين كے لئے مغفرت كو طلب كرے تہجد كى نماز كے بعد آيت سخرہ كو ستر دفعہ پڑھے يقين حاصل كرنے اور خيالات دور ہونے كے لئے مفيد اور مجرب ہے_ آيت سخرہ يہ ہے '' ان ربكم اللہ الذى خلق السموات و الارض فى ستہ ايام ثم استوى على العرش يغشى الليل النہار يطلبہ حثيثا و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بامرہ الا لہ الخلق و الامر تبارك اللہ رب العالمين ادعوا ربكم تضرعا و خفية انہ لا يحب المعتدرين و لاتفسدوا فى الارض بعد اصلاحہا و ادعوہ خوفا و طمعا ان رحمة اللہ قريب من المسحنين (396) نتيجہ حاصل كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ چاليس شب و روز تك ان دستورات اور وظائف پر عمل كرے ممكن ہے كہ اللہ تعالى كے لطف كا مورد توجہہ قرار پاسكے اور اس كے لئے كچھ مكاشفات حاصل ہوجائيں اور پہلے چاليسويں ميں اس طرح توفيق حاصل نہ ہو تو مايوس نہيں ہونا چاہئے اور دوسرا چاليسواں حتمى اور كوشش سے شروع كردے او رجب تك نتيجہ حاصل نہ ہو اسے بجالاتے رہنا چاہئے تيسرا اورچوتھا اور جب تك نتيجہ حاصل نہ ہو اس دستور العمل پر عمل كرتے رہنا چاہئے اور كبھى كوشش اور عمل كرنے سے دست بردار نہيں ہونا چاہيئےس طريقے پر محنت كرے اور خداوند عالم كى ذات سے توفيق طلب كرے اور جب بھى قابليت اور استعداد پيدا ہوگئي تو اللہ تعالى كے فيض كا محل قرار پاجائيگا اور اگر انسان ابتداء ميں ان تمام دستورالعمل پر
224
عمل كرنے كى قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر ان ميں تھوڑے سے دستور العمل پر عمل كرنا شروع كردے اور پھر آہستہ آہستہ ان ميں اضافہ كرتا جائے ليكن ان ميں سے اہم عمل غور اور فكر كرنا اور اپنے نفس پر كنٹرول اور حضور قلب اور خدا كى طرف توجہہ كرنا ہوتا ہے اور اہم يہ ہے كہ عارف كو اپنے نفس سے تصورات اور خيالات اور بيہودہ افكار اور غير كو دور كرنا ہوتا ہے اور تمام كا تمام خدا كى طرف توجہہ ہو ليكن يہ كام بہت ہى مشكل اور سخت ہے خيالات كا دور كرنا تين مرحلوں ميں انجام ديا جا سكتا ہے_
1_ پہلے مرحلے ميں كوشش كرے كہ پورى توجہہ صرف اسى ذكر پر ہو كہ جسے ادا كر رہا ہے اور دوسرے تمام خيالات كو اپنے سے دور ركھے اس كام كو اتنا زيادہ كرے كہ اپنے نفس پر پورى طرح كنٹرول كرلے اور اپنے سے دوسرے فكر رو كے ركھے_
2_دوسرے مرحلے ميں پہلے مرحلے والے كام ميں مشغول رہے اور ساتھ ہى يہ كوشش بھى كرے كہ ذكر كو ادا كرتے وقت اس كے معانى اور مفہوم پر توجہہ كرے اور ان معانى كو ذہن پر جارى كرے اور دوسرے خيالات اور تصورات كے ہجوم و روكے ركھے اور اسى حالت ميں ذكر كے معنى اور مفہوم كى طرف بھى پورى طرح متوجہ رہے_
3_ تيسرے مرحلے ميں كوشش كرے كہ معانى كو پہلے اپنى دل ميں قرار دے اور جب دل نے معانى كو قبول كر ليا اور اس پر ايمان لے آيا تو پھر اس ذكر كو زبان پر جارى كرے كہ گويا زبان دل كى پيروى كر رہى ہے_
4_ چوتھے مرحلے ميں كوشش كرے كہ تمام خيالات اور تصورات اور معانى يہاں تك كہ ان كے تصورى مفہوم كو بھى دل سے دور كرے اور نفس كو اللہ تعالى كے فيوضات اور بركات كے نازل ہونے كے لئے آمادہ اور مہيا كرے اپنے تمام وجود كے ساتھ ذات الہى كى طرف متوجہہ رہے اور تمام غير خدا كو دل سے دور كرے اور اشراقات اور افاضات سے استفادہ كرے اور اللہ تعالى كى توجہ سے سير اور
225
صعود كے كمال كے درجات طے كرنے لگے_ عارف انسان اس حالت ميں ممكن ہے كہ اس طرح مستفرق ہوجائے كہ سوائے خدا كے اور كوئي چيز نہ ديكھے اور صرف خدا سے ہى مانوس ہوجائے_ ايسے افراد كو يہ كيفيت مبارك ہو بہت ہى بہتر ہے كہ اس موضوع كو اولياء خدا كے سپرد كرديں كہ جنہوں نے ان مراحل اور ان طريقوں كو طے كيا ہوا ہے اور مقام شوق اور ذوق انس اور بقاء كا مزہ چكھا ہوا ہے_
امير المومنين(ع) كا حكم
نوف كہتے ہيں كہ ميں نے امير المومنين عليہ السلام كو ديكھا كہ وہ جلدى سے جا رہے تھے_ ميں نے عرض كى _ اے مولاي_ آپ كہاں جا رہے ہيں؟ آپ نے فرمايا اے نوف مجھے ميرى حالت پر چھوڑ دے كيونكہ ميرى آرزو او رتمنا مجھے اپنے محبوب كى طرف لے جا رہى ہے _ ميں نے عرض كى _ اے ميرى مولا_ آپ كى آرزو كيا ہے؟ آپ نے فرمايا_ وہ ذات جو ميرى آرزو كو جانے وہ جانتى ہے كہ ميرى آرزو كيا ہے اور دوسروں كو اس آرزو كے بيان كرنے كى ضرورت نہيں ہے ؟ ادب كا تقاضا يہى ہے كہ خدا كا بندہ اللہ تعالى كى نعمتوں اور حاجات ميں كسى دوسرے كو شريك قرار نہ دے_
ميں نے عرض كي_ يا اميرالمومنين ميں خواہشات نفس اور دنياوى امور كى طمع سے اپنے اوپر ڈرتا ہوں؟ آپ نے فرمايا كہ تم كيوں اس ذات سے جو خوف كرنے والوں اور عارفين كى حفاظت كرنے والى ہے سے غافل ہو؟ ميں نے عرض كى كہ اس ذات كى مجھے نشاندہى فرمايئےآپ نے فرمايا كہ وہ خداوند عالم ہے كہ جس كے فضل اور كرم سے تو اپنى آرزو كو حاصل كرتا ہے_ تو ہمت كر كے اس كى طرف متوجہ رہ اور جو كچھ دل پر خيالات آتے ہيں انہيں باہر نكال دے اور اگر پھر تجھ پر يہ كام دشوار ہوا تو ميں اس كا ضامن ہوں _ خدا كى طرف لوٹنے جا اور اپنى تمام توجہہ خدا كى طرف كر خداوند عالم فرماتا ہے كہ مجھے اپنى ذات اور جلال كى قسم كہ اس كى اميد جو ميرے سوا كسى دوسرے سے اميد ركھتا ہو قطع كر
226
ديتا ہوں اور اسے ذلت اور خوارى كا لباس پہناتا ہوں اور اپنے قرب سے دور كر ديتا ہوں اور اس كا اپنے سے ربط توڑ ديتا ہوں اور اس كى ياد كو مخفى ركھتا ہوں_ ويل اور پھٹكار ہو اس پر كہ جو مشكلات ميں ميرے سوا كسى دوسرے سے پناہ ليتا ہے جب كہ تمام مشكلات كا حل كرنا ميرے ہاتھ ميں ہے_ كيا وہ ميرے غير سے اميد ركھتا ہے جب كہ ميں زندہ اور باقى ہوں_ كيا مشكلات كے حل كرنے ميں ميرے بندوں كے دروازے پر جاتا ہے جب كہ ان كا دروازہ بند ہے_ كيا ميرے دروازہ كو چھوڑ رہا ہے جب كہ وہ كھلا ہوا ہے؟ كس نے مجھ سے اميد ركھى ہو اور ميں نے اسے نا اميد كيا ہو؟
ميں نے اپنے بندوں كى اميدوں كو اپنے ذمہ ليا ہوا ہے اور ميں ان كى ان ميں حفاظت كرتا ہوں ميں نے آسمان كو ان سے پر كرديا ہے جو ميرى تسبيح كرنے سے تھكتے نہيں ہيں اور فرشتوں سے كہہ ركھا ہے كہ كسى وقت بھى ميرے اور ميرے بندوں كے درمياں دروازہ بند نہ كريں_ جب كسى كو مشكل پيش آئے كيا وہ نہيں جانتا كہ ميرى اجازت كے بغير كوئي بھى اس كى مشكل كو حل نہيں كر سكتا؟ كيوں بندہ اپنى ضرورات ميں ميرى طرف رجوع نہيں كرتا جب كہ ميں اسے وہ ديتا ہوں كہ جسے اس نے چاہا بھى نہيں ہوتا كيوں مجھ سے سوال نہيں كرتا اور ميرے غير سے سوال كرتا ہے؟ كيا تم يہ سوچ سكتے ہو كہ بغير سوال كئے تو ميں بندے كو ديتا ہوں اور جب وہ مجھ سے سوال كرے گا تو ميں اسے نہيں دونگا؟ كيا ميں بخيل ہوں كيا بندہ مجھے بخيل جانتا ہے؟ كيا دنيا اور آخرت ميرے ہاتھ ميں نہيں ہے؟ كيا جو داور سخا ميرى صفت نہيں ہے؟ كيا فضل اور رحمت ميرے ہاتھ ميں نہيں ہے؟ كيا تمام آرزوئيں ميرے پاس نہيں آتيں؟ كون ہے جو انہيں قطع كرے گا؟ مجھے اپنى عزت اور جلال كى قسم اگر تمام لوگوں كى خواہشات اور آرزوں كو زمين پر اكٹھا كرديں اور ہر ايك كو ان تمام كے برابر بھى دے دوں تو ذرہ بھر ميرے ملك ميں كمى واقع نہ ہوگي_ جو كچھ ميرى طرف سے ديا جاتا ہے وہ
227
كس طرح نقصان والا ہوگا؟ كتنا بيچارہ اور فقير ہے وہ شخص كہ جو ميرى رحمت سے ناميد ہے؟ كتنا بيچارہ ہے وہ شخص جو ميرى نافرمانى كرتا ہے اور حرام كاموں كو بجا لاتا ہے اور ميرى عزت كى حفاظت نہيں كرتا اور طغيان كرتا ہے؟ امير المومنين عليہ السلام نے اس كے بعد نوف سے فرمايا كہ اے نوف طغيان كرتا ہے؟ امير المومنين عليہ السلام نے اس كے بعد نوف سے فرمايا كہ اے نوف يہ دعا پڑھنا_
''الہى ان حمدتك فبموا ہبك، و ان مجدتك فبمرادك و ان قدستك فبقوتك و ان ہللتك فبقدرتك، و ان نظرت فالى رحمتك، و ان غضصت فعلى يعقتك، الى انہ من لم يشغلہ الو لوع بذكرك، و لم يزوہ السفر بقربك، كانت حياتہ عليہ ميتتہ عليہ حسرة، الہى تناہت ابصارت رددون ما يريدون، ہتكت بينك و بينہم حجت الغفلتہ ، فسكنوا فى نورك، تنقسؤا بروحك، فصارت قلوبہم مغارسا لہييتك و ابصارہم معا كفا لقدرتك و قربت ازواجہم من قدسك، فجالسؤا اسقك بوقار المجالستہ، و خضوع المخاطبتہ، فاقبلت اليہم اقبال الشفيق، انصت لہم انصات الرفيق، واجبتہم اجابات الاحباء و انا جيتہم مناجاة الاخلائ، فبلغ بى المحل الذى اليہ و صلوا، و انقليى من ذكرى الى ذكرك، و لا تترك بينى و بين ملكوت عزك بابا الافتحتہ، و لا حجابا من حجب الغفلتہ الا ہتكتہ حتى تقيم روحى بين ضياء عرشك، و تجقل لہا مقاما نص نورك انك على كل شى قدير_
الہى ما اوحش طريقا لا يكون رفيقى فيہ املى فيك ، و ابعد سفر الا يكون رجائي عنہ دليلى منك، خاب
228
من اعتصم بحبل غيرك، وضعف ركن من استند الى غير ركنك، فيا معلم مومليہ الامل فيذہب عنہم كابتہ الوجل، يا تخرمنى صالح العمل، و اكلاء نى كلاة من فيارقتہ الحيل، فكيف يلحق مومليك ذل الفقر و انت الغني، عن مضار المذنبين، الہى و ان كل حلاوة منقطعتہ، و حلاوة الايمان تزداد حلاوتہا اتصالا بك، الہى و ان قلبى قد بسط املہ فيك، فاذقہ من حلاوة بسطل اياہ البلوغ لما امل، انك على كل شيء قدير_
الہى اسئلك مسئلتہ من يعرفك كنتہ معرفتك من كل خير ينتبغى للمومن ان يسلكہ، و اعوذ بك من كل شر و فتنتہ اعذت بہا احباء ك خلقك، انك على كل شيء قدير_
الہى اسئلك مسلتہ المسكين الذى قد تحير فى رجاہ، فلا يجد ملجا و لا مسنداً يصل بہ اليك، و لا يستدل بہ عليك الا بك و باز كانك و مقامتك التى لا تعطيل لہا مسنك، فاسئلك باسمك الذى طہرت بہ لخاصتہ اوليائك، فوحدوك، و اعرفوك فعبدوك بحقيقك ان تعرفنى نفسك لا قرلك بربوبيتك على حقيقتہ الايمان بك و لا تجعلنى يا الہى من يعبد الاسم دون المعني
229
و الحظنى بالحظتہ من لحظاتك تنوربہا قلبى بمعرفتك خاصتہ و معرفتہ اوليائك انك على كل شيء قدير_(397)
امام جعفر صادق(ع) كا حكم
عنوان بصرى چورا نوے سال كا كہتا ہے كہ ميں علم حاصل كرنے كے لئے مالك بن انس كے پاس آتا جاتا تھا_ جب جعفر صادق عليہ السلام ہمارى شہر آئے تو ميں آپ كى خدمت ميں حاضر ہوا كرتا تھا كيونكہ ميں دوست ركھتا تھا كہ ميں آپ سے بھى كسب فيض كروں ايك دن آپ نے مجھ سے فرمايا كہ ميں ايك ايسا شخص ہوں كہ جو مورد نظر اور توجہہ قرار پاچكا ہوں يعنى ميرے پاس لوگوں كى زيادہ آمد و رفت ہوتى ہے ليكن اس كے باوجود ميں دن او رات ميں خاص ورد اور ذكر بجا لاتا ہوں تم ميرے اس كام ميں مزاحم اور ركاوٹ بنتے ہو تم علوم كے حاصل كرنے كے لئے پہلے كى طرح مالك بن انس كے پاس جايا كرو_ ميں آپ كى اس طرح كى گفتگو سے غمگين اور افسردہ خاطر ہوا اور آپ كے ہاں سے چلا گيا اور اپنے دل ميں كہا كہ اگر امام مجھ ميں كوئي خير ديكھتے تو مجھے اپنے پاس آنے سے محروم نہ كرتے ميں رسول خدا كى مسجد ميں گيا اور آپ پر سلام كيا دوسرے دن بھى رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے روضہ ميں گيا اور دو ركعت نماز پڑھى اور دعا كے لئے ہاتھ اٹھائے اور كہا اے ميرے اللہ تعالى ميرے لئے جعفر صادق عليہ اسلام كا دل نرم كردے اور اس علم سے مجھے وہ عطا كر كہ جس كے ذريعے ميں صراط مستقيم كى ہدايت پاؤں_ اس كے بعد غمگين اور اندوہناك حالت ميں گھر لوٹ آيا اور مالك بن انس كے ہاں نہ گيا كيونكہ ميرے دل ميں جعفر صادق عليہ السلا كى محبت اور عشق پيدا ہو چكا تھا بہت مدت تك سوائے نماز كے ميں اپنے گھر سے باہر نہيں نكلتا تھا يہاں تك ميرا صبر ختم ہوچكا اور ايك دن جعفر صادق كے دروازے پر گيا اور اندر جانے كى اجازت طلب كى آپ كا خادم باہر آيا اور كہا
230
كہ تجھے كيا كام ہے؟ ميں نے كہا كہ ميں امام كى خدمت ميں مشرف ہونا چاہتا ہوں اور سلام كرنا چاہتا ہوں خادم نے جواب ديا كہ آقا محراب ميں نماز ميں مشغول ہيں اور وہ واپس گھر كے اندر چلا گيا اور ميں آپ كے دروازے پر بيٹھ گيا_ زيادہ دير نہيں ہوئي كہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آيا اور كہا كہ اندر آجاؤ ميں گھر ميں داخل ہوا آور آنحضرت پر سلام كيا آپ نے ميرے سلام كا جواب ديا اور فرمايا كہ بيٹھ جاؤ خدا تجھے مورد مغفرت قرار دے_ ميں آپ كى خدمت ميں بيٹھ گيا آپ نے اپنا سر مبارك جھكا ديا اور بہت دير كے بعد اپنا سر بلند كيا اور فرمايا تمہارى كنيت كونسى ہے؟ ميں نے عرض كى كہ ابوعبداللہ آپ نے فرمايا كہ خدا تجھے اس كنيت پر ثابت ركھے اور توفيق عنايت فرمائے_ تم كيا چاہتے ہو ميں نے اپنے دل ميں كہا كہ اگر اس ملاقات ميں سوائے اس دعا كہ جو آپ نے فرمائي ہے اور كچھ بھى فائدہ حاصل نہ ہو تو يہ بھى ميرے لئے بہت قيمتى اور ارزشمند ہے_ ميں نے عرض كى كہ ميں نے خدا سے طلب كيا ہے كہ خدا آپ كے دل كو ميرے بارے ميں مہربان كردے اور ميں آپ كے علم سے فائدہ حاصل كروں_ اميدوار ہوں كہ خداوند عالم نے ميرى يہ دعا قبول كر لى ہوگي_ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا _ اے عبداللہ _ علم پڑھنے سے حاصل نہيں ہوتا بلكہ علم ايك نور ہے_ جو اس انسان كے دل ميں كہ خدا جس كى ہدايت چاہتا ہے روشنى ڈالتا ہے پس اگر تو طالب علم ہے تو پہلے اپنے دل پر حقيقى بندگى پيدا كر اور علم كو عمل كے وسيلے سے طلب كر اور خدا سے سمجھنے كى طلب كرتا كہ خدا تجھے سمجھائے_ ميں نے كہا_ اے شريف_ اپ نے فرمايا اے ابوعبداللہ_ كہہ ميں نے كہا كہ بندگى كى حقيقت كيا ہے؟ آپ نے فرمايا بندگى كى حقيقت تين چيزوں ميں ہے_ پہلى بندہ كسى چيز كے مالك نہيں ہوا كرتا بلكہ مال كو اللہ تعالى كا مال سمجھے اور اسى راستے ميں كہ جس كا خدا نے حكم ديا ہے خرچ كرے_ دوسري_ اپنے امور كى تدبير ميں اپنے آپ كو ناتواں
231
اور ضعيف سمجھے_ تيسرى _ اپنے آپ كو اللہ تعالى كے اوامر اور نواہى كے بجالانے ميں مشغول ركھے اگر بندہ اپنے آپ كو مال كا مالك نہ سمجھے تو پھر اس كے لئے اپنے مال كو اللہ كے راستے ميں خرچ كرنا آسان ہوجائيگا اور اگر اپنے كاموں اور امور كى تدبير اور نگاہ دارى اللہ تعالى كے سپرد كردے تو اس كے لئے مصائب كا تحمل كرنا آسان ہوجائيگا اور اگر وہ اللہ تعالى كے احكام كى بجا آورى ميں مشغول رہے تو اپنے قيمتى اور گران قدر وقت كو فخر اورمباہات اور رياكارى ميں خرچ نہيں كرے گا اگر خدا اپنے بندے كو ان تين چيزوں سے نواز دے تو اس كے لئے دنيا اور شيطن اور مخلوق آسان ہوجائے گى اور وہ اس صورت ميں مال كو زيادہ كرنے اور فخر اور مباہات كے لئے طلب نہيں كرے گا اور جو چيز لوگوں كے نزديك عزت اور برترى شمار ہوتى ہے اسے طلب نہيںكرے گا اور اپنے قيمتى وقت كو سستى اور بطالت ميں خرچ نہيں كرے گا اور يہ تقوى كا پہلا درجہ ہے اور خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ يہ آخرت كا گھر ہم اس كے لئے قرار ديں گے كہ جو دنيا ميں علو اور فساد برپا نہيں كريں گے اور عاقبت اور انجام تو متقيوں كيليئے ہے_
تلك الدار الاخرة نجعلہا للذين لا يريدون علوا فى الارض و لا فسادا و العاقبتہ للمتقين_
ميں نے عرض كيا كہ اے امام(ع) _ مجھے كوئي وظيفہ اور دستور عنايت فرمايئےآپ نے فرمايا كہ ميں تجھے نو چيزوں كى وصيت كرتا ہوں اور يہ ميرى وصيت اور دستورالعمل ہر اس شخص كے لئے ہے جو حق كا راستہ طے كرنا چاہتا ہے اور ميں خدا سے سوال كرتا ہوں كہ خدا تجھے ان پر عمل كرنے كى توفيق دے_ تين چيزيں اور دستور العمل نفس كى رياضت كے لئے ہيں اور تين دستور العمل حلم اور بردبارى كے لئے ہيں اور تين دستور العمل علم كے بارے ميں ہيں_ تم انہيں حفظ كر لو اور خبردار كہ ان كے بارے ميں سستى كرو_ عنوان بصرى كہتا ہے كہ ميرى تمام توجہ آپ كى فرمايشات كى طرف تھى آپ نے فرمايا كہ وہ تين دستور العمل جو
232
نفس كى رياضت كے لئے ہيں وہ يہ ہيں_
1_ خبردار ہو كہ جس چيز كى طلب اور اشتہاء نہ ہو اسے مت كھاؤ_ 2_ اور جب تك بھوك نہ لگے كھانا مت كھاؤ_ 3_ جب كھانا كھاؤ تو حلال كھانا كھاؤ اور كھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو_ آپ نے اس كے بعد رسول اللہ كى حديث نقل كى اور فرمايا كہ انسان بر تن كوير نہيں كرتا مگر شكم كا پر كرنا اس سے بدتر ہوتا ہے اور اگر كھانے كى ضرورت ہو تو شكم كا ايك حصہ كھانے كے لئے اور ايك حصہ پانى كے لئے اور ايك حصہ سانس لينے كے لئے قرار دے_
وہ تين دستور العمل جو حلم كے بارے ميں ہيں وہ يہ ہيں_
1_ جو شخص تجھ سے كہے كہ اگر تو نے ايك كلمہ مجھ سے كہا تو ميں تيرے جواب ميں دس كلمے كہونگا تو اس كے جواب ميں كہے كہ اگر تو نے دس كلمے مجھے كہے تو اس كے جواب ميں مجھ سے ايك كلمہ بھى نہيں سنے گا_
2_ جو شخص تجھے برا بھلا كہے تو اس كے جواب ميں كہہ دے كہ اگر تم سچ كہتے ہو تو خدا مجھے معاف كردے اور اگر تم جھوٹ كہہ رہے تو خدا تجھے معاف كردے_
3_ جو شخص تجھے گالياں دينے كى دھمكى دے تو تو اسے نصيحت اور دعا كا وعدہ كرے وہ تين دستور العمل جو علم كے بارے ميں ہيں وہ يہ ہيں_
1_ جو كچھ نہيں جانتا اس كا علماء سے سوال كر ليكن ملتفت رہے كہ تيرا سوال كرنا امتحان اور اذيت دينے كے لئے نہيں ہونا چاہئے_ 2_ اپنى رائے پر عمل كرنے سے پرہيز كر اور جتنا كر سكتا ہے احتياط كو ہاتھ سے نہ جانے دے_ 3_ اپنى رائے سے (بغير كسى مدرك شرعي) كے فتوى دينے سے پرہيز كر اور اس سے اس طرح بچ كے جيسے پھاڑ دينے والے شير سے بچتا ہے_ اپنى گردن كو لوگوں كے لئے پل قرار نہ دے اس كے بعد اپ نے مجھ سے فرمايا كہ اب يہاں سے اٹھ كر چلے جاؤ_ بہت كافى مقدار ميں نے تجھ نصيحت كى ہے اور ميرے ذكر اور اذكار كے بجالانے ميں زيادہ مزاحم اور ركاوٹ نہ بنو كيونكہ ميں اپنى جان كى قيمت اور ارزش كا قائل ہوں اور سلام ہو اس پر جو ہدايت كى پيروي
233
كرتا ہے_
''و السلام على من اتبع الہدي''_(398)
مرحوم مجلسى كا دستور العمل
بہت بڑے بزرگوار عالم جو مقام عرفان ميں عارف ربانى ملا محمد تقى مجلسى ہيں انہوں نے لكھا ہے_ كہ ميں نے اپنے آپ كو صاف كرنے اور رياضت كرنے ميں كچھ حاصل كيا ہے اور يہ اس وقت تھا جب ميں قرآن كى تفسير لكھنے ميں مشغول تھا_ ايك رات نيم نيند اور بيدارى ميں پيغمبر عليہ السلام كو ديكھا_ ميں نے اپنے آپ سے كہا كہ ميں آنحضرت كے كمالات اور اخلاق ميں خوب اور دقت كروں_ ميں نے جتنى زياددہ وقت كى اتنا ہى آنحضرت كى عظمت اور نورانيت كو اس طرح وسيع تر پايا كہ آپ كے نور نے تمام جنگوں كو گھيرا ہوا تھا اسى دوران ميں جاگ اٹھا اور اپنے آپ ميں آيا تو مجھے القاء ہوا كہ رسول خدا كا اخلاق عين قرآن ہے لہذا ہميں قرآن ميں غور اور فكر كرنا چاہئے ميں جتنا قرآن ميں زيادہ غور اور فكر كرتا جاتا تھا اتنا ہى زيادہ حقائق سامنے آتے جاتے تھے يہاں تك كہ ايك ہى دفعہ مجھ ميں بہت زيادہ قرآن كے معارف اور حقائق آ موجود ہوئے ميں جس آيت ميں تدبر اور فكر كرتا تھا تو مجھے عجيب موحبت اور مطالب عطا كئے جاتے تھے گرچہ يہ مطالب اس شخص كے لئے كہ جس نے ايسى توفيق حاصل نہ كى ہو بہت دشوار اور ارشاد كرنا ہے_ نفس كى رياضت او راپنے آپ كو سنوار نے كا دستور العمل يہ ہے كہ بے فائدہ گفتگو كرنے بلكہ اللہ تعالى كے ذكر بغير بات كرنے سے اپنے آپ كو روكيں_ كھانے پينے اور لباس و غيرہ كى لذيذ چيزوں اور بہترين اور خوبصورت مكان اور عورتوں كو ترك كريں اور بقدر ضرورت استعمال كرنے پر اكتفاء كريں اولياء خدا كے علاوہ لوگوں سے ميل جول نہ ركھيں زيادہ سونے سے پرہيز كريں اور اللہ كے ذكر كو دائماً
234
اور پابندى سے بجالائيں_ اولياء خدا نے يا حى يا قيوم او ريا _ من لا الہ الا انت كا زيادہ تجربہ كيا ہے اور ميں نے بھى اسى ذكر كا تجربہ كيا ہے ليكن ميرا غالبا ذكر _ يا اللہ _ جب كہ دل كو خدا كے علاوہ سے نكال كر اور خداوند عالم كى طرف پورى توجہہ سے ہوا كرتا تھا_
ليكن سب سے زيادہ اہم اللہ تعالى كا پورى توجہ اور پابندى سے ذكر كرنا ہوا كرتا ہے باقى چيزيں اللہ تعالى كے ذكر كے برابر نہيں ہوا كرتيں اگر اللہ كا ذكر چاليس دن اور رات تك متصل كيا جائے تو حكمت اور معرفت اور محبت كے انوار كے دروازے ايسے كرنے والے پر كھول ديئے جاتے ہيں اس وقت وہ فناء فى اللہ اور بقاء باللہ كے مقام تك ترقى كر جاتا ہے_ (399)
ملا آخوند حسين قلى كا خط
آخوند ملا حسين قلى ہمدانى جو عالم ربانى اور زاہد اور عارف تھے انہوں نے ايك خط تبريز شہر كے ايك عالم كو لكھا كہ جس ميں آپ نے فرمايا _ بسم اللہ الرحمن الرحيم الحمد للہ رب العالمين و الصلواة و اسلام على محمد و آلہ الطاہرين و لعنتہ اللہ على اعدائہم اجمعين _ دينى اور ايمانى بھائيوں پر واضح ہونا چاہئے كہ ذات الہى تك قرب حاصل كرنا سوائے اس كے اور كوئي نہيں ہے كہ انسان كو تمام حركات اور سكنات اور تمام اوقات ميں شريعت اسلامى كا پابند ہونا چاہئے_
جاہل صوفياء كى لغويات اور خرافات سے جو ان كى عادت بن چكى ہے اس كے اپنا نے سے اجتناب كرنا چاہئے كيونكہ ان كے طريقے اور ذكر اور ورد پر عمل كرنا اللہ سے دور ہو جانے كے اور سوا اور كچھ حاصل نہيں ہوتا يہاں تك كہ اگر كوئي شخص موچھوں كو بڑھانے ركھے جيسے كہ يہ ايران كے صوفيوں كى جو اپنے آپ كو شيعہ كہلاتے ہيں علامت ہے_ ) اور اسے ضرورى سمجھتے ہيں اور گوشت كو نہ كھائے تو يہ بھى خرافات اور لغويات ميں شمار ہوتا ہے اگر كوئي شخص ائمہ عليہم السلام كے معصوم ہونے
235
پر ايمان ركھتا ہے تو اسے سمجھنا چاہئے كہ وہ ايسے اعمال سے جو ايران كے شيعہ صوفى انجام ديتے ہيں اور اسى طرح خاص ذكر جو ائمہ عليہم السلام سے وارد نہيں ہوئے بجا لاتے ہيں ان سے وہ ذات خدا كے قرب سے دور ہو رہے ہوتے ہيں اور ان سے انہيں قرب الہى حاصل نہيں ہوتا_ لہذا سب سے پہلے شرعيت اسلامى كو مقدم كرے اور جو كچھ شريعت ميں وارد ہوا اس پر عمل كرنے كا پابند بنے_ اس ناتوان اور كمزور بندے نے عقل اور روايات سے جو كچھ سمجھا اور استفادہ كيا ہے وہ يہ ہے كہ جو شخص اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنا چاہتا ہے تو اس كے لئے سب سے زيادہ اہم خدا كى معصيت اور نافرمانى كو ترك كرنا ہوگا اور جب تك يہ نہيں كرے گا تب تك نہ كوئي ذكر اور نہ كوئي فكر تيرے دل كو فائدہ پہنچا سكے گا كيونكہ شيطان كى اطاعت اور خدمت كرنے والا جو ذات الہى كا نافرمان اور انكارى ہے كس طرح اس ذات كا قرب حاصل كر سكے گا كيا كوئي بادشاہ او راس كى سلطنت خداوند عالم كى سلطنت سے عظيم الشان ہے_
جو كچھ ميں نے ذكر كيا ہے اسے خوب سمجھ تيرا اللہ تعالى كى محبت كو طلب كرنا جب كہ تو اس كى معصيت بجالا رہا ہے ايك غلط اور فاسد كام ہے_ كس طرح تم پر مخفى ہے كہ اللہ تعالى كى نافرمانى نفرت كا سبب ہوا كرتى ہے اور اللہ تعالى كا نفرت كرنا محبت كے ساتھ اكٹھا نہيں ہوا كرتا _ جب تيرے نزديك ثابت ہوچكا ہے كہ نافرمانى نہ كرنا اول اور آخر ظاہر اور باطن دين ہے تو پھر مجاہدہ اور كوشش كرنے كى طرف جلدى كر اور پورى كوشش سے نيند سے بيدار ہونے سے لے كر تمام اوقات ميں مراقبہ ميں مشغول رہ اور اللہ تعالى كى ذات اقدس كے ادب بجالانے كى پابندى كر اور يہ جان لے كہ تو اپنے تمام وجود كے ذرہ ذرہ ميں اس كى قدرت كا قيدى ہے اور اللہ تعالى كے حضور كا احترام كر اور اس كى يوں عبادت كر كہ گويا تو اسے ديكھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہيں ديكھ رہا تو وہ ذات تجھے ديكھ رہى ہے_ ہميشہ اس كى عظمت اور اپنے حقير ہونے اس كى بلندى اور اپنى پستى اس كى عزت اور اپنى ذلت اور اس كا مستفى ہوتا اور تيرا محتاج ہونے كى طرف متوجہہ رہ_ اور اس ذات كى طرف غفلت سے جب كہ وہ تيري
236
طرف ہميشہ ملتفت ہے غافل نہ رہ_ اس ذات كے سامنے ايك ذليل ضعيف بندے كى طرح كھڑا ہو اور اپنے قدموں كو اس كے سامنے يوں جھكا جيسے ايك كمزور كتا اپنے قدم زمين پر رگڑتا ہے_ كيا تيرے لئے يہ شرف اور فخر كافى نہيں كہ اس نے تجھے اپنے عظيم نام لينے كى تيرى كثيف اور معصيت كى گندگى سے نجس زبان سے ذكر كرنے كى اجازت دى ہے_
عزيز من_ اس رحيم اور كريم ذات نے زبان كو اپنے شريف ذكر كا مركز قرا رديا ہے كتنى بے حيائي ہوگى كہ اس كے مركز كو غيبت جھوٹ گالياں دينا آزار اور اذيت اور دوسرى نافرمانيوں كى گندگى اور نجاست سے آلودہ كيا جائے_ ذات الہى كے مركز كو خوشبو اور گلاب سے معطر ہونا چاہئے نہ كہ گندگيوں سے نجس ہو_بلا شك جب مراقبت اور حفاظت كرنے ميں وقت نہيں كرے گا تو تجھے علم نہ ہوگا كہ تيرے سات اعضاء يعنى كان زبان ہاتھ پاؤں پيٹ اور شرمگاہ كيا كيا نافرمانى كرتے ہيں اور كتنى آگ لگاتے ہيں؟ اور تو ان سے قتل نہ كيا جا چكا ہو_ اگر ميں ان مفاسد كى شرح بيان كروں تو اس خط ميں ممكن نہيں ہے ميں آيك ورقہ پر كيا كچھ لكھ سكتا ہوں_ تم نے ابھى تك اپنى اعضاء كو معصيت سے پاك نہيں كيا پھر تو كس طرح انتظار ركھتا ہے كہ ميں دل كے حالات كى تيرے لئے شرح لكھ دوں پس سچى توبہ كرنے كى طرف جلدى كر اور پھر مراقبت اور كوشش كرنے كى طرف دوڑ لگا_ خلاصہ مراقبت اور حفاظت نفس كے بعد قرب الہى كو طلب كر اور سحرى كے وقت بيدا ہو اور تہجد كى نماز كو آداب اور حضور قلب سے بجا لا اور اگر زيادہ وقت مل سكے تو اللہ كے ذكر اور اس كى مناجات ميں مشغول ہوجا ليكن رات كے ايك خاص وقت ميں حضور قلب كے ساتھ ذكر الہى ميں مشغولل رہ اور تمام حالات ميں حزن اور رنج سے خالى نہ رہتا اور اگر حزن اور رنج موجود نہ ہو تو اسے اس كے اسباب سے حاصل كر اور فارغ ہونے كے بعد حضرت زہرا عليہ السلام كى تسبيح اور بارہ دفعہ سورہ توحيد دس مرتبہ لا الہ الا اللہ و حدہ لا
237
شريك لہ لہ الملك كو آخر تك اور سہ مرتبہ لا الہ الا اللہ اور ستر مرتبہ استغفار_ اور تھوڑا سا قرآن پڑھ اور دعا صباح بھى ضرور پڑھا كر اور ہميشہ با وضو رہ اور اگر ہر وضو كے بعد دو ركعت نماز پڑھ لے تو بہت اچھا ہے_ مومنين كى حاجات اور بالخصوص علما اور بالاخص جو متقى ہيں كے بجالانے ميں بہت كوشش كر اور جس محفل ميں گناہ كے واقع ہونے كا گمان ہو حتمى طور سے اس كے جانے سے پرہيز كر بلكہ غافل لوگوں كے ساتھ بغير ضرورى كام كے اٹھ بيٹھ كرنا نقصان وہ ہے گرچہ اس ميں معصيت بھى نہ ہوتى ہو_ مباح چيزوں ميں زيادہ مشغول رہنا زيادہ مزاح كرنا اور لغويات كہنا اور غلط چيزوں كو سننا انسان كے دل كو مار ديتے ہيں اور اگر مراقبہ كے بغير ذكر اور فكر ميں مشغول ہو تو وہ بھى بے فائدہ ہوگا گرچہ حال بھى لے آئے كيونكہ ايسا حال دائمى نہ ہو گا بغير مراقبہ كے حال پيدا ہونے سے دھوكا نہ كھا_ اس سے زيادہ كہنے كى مجھ ميں طاقت نہيں ہے_ التماس دعا اور تم تمام سے دعا كا ملتمس ہوں_ اس بندہ حقير پر تقصير اور معاصى كو فراموش نہ كرنا_ شب جمعہ ميں سو دفعہ اور جمعہ كے عصر ميں سو دفعہ سورہ قدر كو پڑھا كرو_(400)
ميرزا جواد آقا تبريزى كا دستور العمل
عالم ربانى عارف كامل آقا ملكى تبريزى لكھتے ہيں كہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے طويل سجدہ كرنے كى بہت زيادہ سفارش فرمائي ہے كہ يہ ايك بہت ہى اہم كام ہے_ طويل سجدہ كرنا بندگى كى قريب ترين كيفيت اور علامت ہے اسى لئے تو ہر ايك ركعت ميں دو سجدہے قرار ديئے گئے ہيں_ ائمہ اطہار اور خالص شيعوں سے طويل سجدے كے بارے ميں مہم مطالب ثقل ہوئے ہيں_ امام زين العابدين عليہ السلام كو ايك سجدے ميں ايك ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ حقا حقا لا الہ الا اللہ تعبدا و رقا لا الہ الا ايمانا و صدقا پڑھتے سنا گيا_
امام موسى كاظم عليہ السلام كے بارے ميں لكھا گيا ہے كہ كبھى آپ كا سجدہ صبح كي
238
نماز كى بعد ظہر تك ہوا كرتا تھا اور ائمہ عليہم السلام كے اصحاب ميں سے ابن ابى عمير و جميل و خربود كے بارے ميں بھى ايسا نقل كيا گيا ہے_ نجف اشرف ميں طالب علمى كے زمانے ميں ميرے ايك استاد تھے جو متقى طلبہ كے لئے مرجع تھے ميں نے آپ سے سوال كيا آپ نے كو ن سے عمل كا تجربہ كيا ہے كہ جو سالك الى اللہ كے حق ميں موثر اور مفيد ہو؟ آپ نے فرمايا كہ دن اور رات ميں اسيك طويل سجدہ بجا لايا جائے اور سجدہ كى حالت ميں يہ كہا جائے لا الہ الا انت سبحانك انى كنت من الظالمين اور اس كے ذكر ميں اس طرح توجہہ كرے كہ ميرا خدا كسى پر ظلم كرنے سے پاك و پاكيزہ ہے بلكہ ميں خود ہوں جو اپنے اوپر ظلم كرتا ہوں اور اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈالتا ہوں_ ميرے يہ استاد اپنے مريدوں اور علاقمندوں سے ايسے سجدہ كى سفارش كيا كرتے تھے اور جو بھى يہ سجدہ بجالاتا تھآ اس كے اثرات كا مشاہدہ كيا كرتا تھا _ بالخصوص وہ حضرات جو اس سجدے كو بہت زيادہ طويل انجام ديتے تھے ان ميں سے بعض اس ذكر كو سجدہ ميں تكرار كيا كرتے تھے بعض تھوڑا اور بعض زيادہ تكرار كرتے تھے ميں نے سنا ہے كہ ان ميں سے بعض اس ذكر كو تين ہزار مرتبہ سجدہ ميں پڑھا كرتے تھے_(401)
شيخ نجم الدين كا دستور العمل
شيخ نجم الدين رازى لكھتے ہيں كہ اداب اور شرائط كے بغير زيادہ ذكر كرنا مفيد نہيں ہوتا_ پہلے شرائط اور ترتيب سے قيام كيا جائے اور جب سچے مريد كو سلوك الى اللہ كا دل ميں درد پيدا ہوجائے تو يہ علامت ہوگى كہ اس نے ذكر سے انس پيدا كر ليا ہے اور اسے مخلوق سے وحشت اور نفرت پيدا ہوگئي ہے جو تمام مخلوق سے ناميد ہو كر ذكر الہى كى پناہ ميں چاپہنچا ہے_ قل اللہ ثم ذرہم (يعنى اللہ كا ذكر كر اور تمام مخلوق كو چھوڑ دے كہ وہ اپنى لغويات ميں كھيلتے رہيں) جب ذكر كو پے در پے بجالائے جو صحيح اور خالص توبہ كے بعد ہو اور ذكر كرنے كى حالت ميں با غسل ہو اور اگر يہ نہ كر
239
سكے تو با وضو ہو كيونكہ ذكر الہى كرنا دشمن كے ساتھ جنگ كرنے كے مانند ہوا كرتا ہے اور بغير اسلحے كے دشمن كا مقابلہ نہيں كيا جا سكتا اور وضو مومن كا اسلحہ ہوا كرتا ہے_ الوضوء سلاح المومومن پاك كپڑے پہنے ہوا ہو اور كپڑے كے پاك ہونے كى چار شرطيں ہيں_ 1_ نجاست سے پاك ہو_ 2_ لوگوں پر ظلم كئے ہوئے مال سے پاك ہو_ 3_ حرام سے يعنى ابريشم سے پاك ہو يعنى ابريشمى كپڑا نہ ہو_ 4_ رعونت اور تكبر سے پاك ہو يعنى كپڑا كوتاہ ہو بہت لمبا نہ ہو_ ثيابك فطہر سے مراد كوتاہ كرنا ہے_ اور گھر ميں خلوت اور تاريكى اور صفات ستھرا كر كے بيٹھے اور اگر تھوڑى خوشبو يعنى دھونى كرے تو بہتر ہے_ قبلہ رخ بيٹھے اور چار زانوں يعنى پلٹھى مار كر گرچہ تمام حالا ميں بيٹھنا منع ہے ليكن ذكر كرنے كى حالت ميں خواجہ عليہ السلام جب صبح كى نماز سے فارغ ہوتے تھے تو اسى جگہ پلتھى مار كر يعنى چار زانوں سورج كے نكلنے تك بيٹھے رہتے تھے_ ذكر كرنے كے وقت اپنے ہاتھوں كو رانوں پر ركھے اور دل كو حاضر كرے اور آنكھيں بند كر لے اور پورى تعظيم كے ساتھ ذكر كرنا شروع كردے اور لا الہ الا اللہ كے جملے كو پورى طاقت سے گويا اس كى ناف لا الہ سے اٹھے اور الا اللہ دل پر بيٹھ جائے اور اس كا تمام اعضاء پر اثر ظاہر ہو رہا ہو ليكن اپنى آواز كو بلند نہ كرے اور جتنا ہو سكے آہستہ اور كمتر آواز سے ذكر كرے جيسے كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے _و اذكر ربك فى نفسك تضرعا و خيفة و دون الجہر من القول اس طرح سے تحت ذكر كرتے ہوئے اس كے معنى كو دل ميں فكر كرے دوسرے خيالات كو دور كرے جيسے كہ لا الہ كے معنى سے يہى مراد ہے كہ جو بھى خدا كے علاوہ خيالات ہوں انہيں دور كرے اور گويا يوں سوچے كہ ميں سوائے الا اللہ كے كوئي چيز نہيں چاہتا اور ميرا مقصود اور محبوب صرف الا اللہ ہے اور تمام خيالات كو الا اللہ كے ذريعے دور كر رہا ہوں اور اللہ تعالى كو اپنا مقصود اور محبوب اور مطلوب الا اللہ كے ذريعے سے كر رہا ہوں اور جان لينا چاہئے كہ ہر ذكر ميں اول سے لے كر آخر تك دل نفى اور اثبات ميں
240
حاضر ہو اور لگا رہے_ اور جس وقت دل كے اندر نگاہ كرے اگر كوئي چيز دل كو لبھانے والى ہو تو اسے نظر انداز كر كے دل كو ذات الہى كى طرف توجہہ دے اور الا اللہ كے ذريعے اس چيز كو دل سے اكھيڑ دے اور اس كے ربط كو باطل كردے اور الا اللہ كو اس چيز كى محبت كى جگہ قرار دے دے اسى روش كو دوام دے تا كہ دل آہستہ آہستہ تمام چيزوں كى محبت اور انس سےے خالى ہو كر ذكر الہى سے سرشار ہوجائے_ اس كا باحال ہونا ذكر كے غالب ہوجائے سے ہو_ ذكر كرنے والے كا وجود ذكر كے نور ميں مضمحل ہو جائے اور ذاكر كو ذكر مفرد بنا دے اور تمام تعلقات اور موانع كو اس كے وجود سے ختم كر دے اور اسے جسمانى دنيا سے اخروى دنيا كے لئے آمادہ كردے جيسے وارد ہوا ہے كہ سيروا فقد سبق المفردون جان لے كہ دل اللہ تعالى كے لئے خلوت كى جگہ ہے_ لا يسعنى ارضى و لا سمائي و انما يسعنى قلب عبدى المومن يعنى مجھے نہ زمين اور نہ آسمان سمو سكتا ہے مجھے صرف مومن كا دل سمو سكتا ہے_ اور جب تك دل ميں اغيار كا وجود ہوگا اس وقت تك اللہ تعالى كى عظمت كى غيرت اس سے نفرت كرے گى ليكن جب لا الہ كا چابك دل كو اغيار سے خالى كر دے گا اس وقت الا اللہ كى بادشاہ كى تجلى كا انتظار كيا جا سكتا ہے_ اذا فرغت فانصب و الى ربك فارغب(402) جيسے كہ آپ نے ملاحظہ فرما ليا ہے كہ عرفان كے استاذہ نے ذكر كے دوامى بجالانے كو سير و سلوك كے لئے بہترين طريقہ قرار ديا ہے اور اس كے پہنچنے كے لئے مختلف طريقے اور تجربات اور وصيتيں فرمائي ہيں_ اس مطلب كى علت يہ ہے كہ جتنے ذكر كے طريقے شرعيت ميں وارد ہوئے ان كے بنانے كى اصلى غرض غير خدا سے قطع تعلق كرنا اور پورى توجہہ خدا تعالى كى طرف كرنے كو حاصل كرنا ہے ليكن يہ كام افراد اور مقامات اور حالات كے لحاظ سے فرق ركھتا ہے لہذا كسى نہ كسى استاذ اور مربى كى ضرورت ہے كہ جو اس كام ميں رہبرى انجام دے احاديث اور دعاؤں كى كتابوں ميں بہت زيادہ دعائيں نقل ہوئي ہيں_ اور ہر ايك كے لئے ثواب اور خاصيت ذكر كى گئي ہے_ مطلق دعا اور ذكر دو طرح كے ہوتے ہيں ايك مطلق اور دوسرا مقيد_ بعض ذكر
241
كے لئے خاص زمانہ اور خاص تركيب اور خاص عدد بتلايا گيا ہے ايسے ذكر كو اسى طرح بجالانا چاہئے جيسكہ ائمہ عليہم السلام سے نقل ہوا ہے تا كہ اس كے ثواب اور خاص اثر كو حاصل كيا جا سكے_ اس كے بر عكس بعض ذكر مطلق ہيں جن ميں كوئي قيد نہيں ہے اسے انسان اپنے اختيار سے خاص شرائط اور حالات اور عدد اور زمانے كا تعين كر سكتا ہے_ اور اسے دائمى بجالاتا رہے يا اپنے كسى استاد اور رہنما سے اس ميں راہنمايى حاصل كرے آپ اس بارے ميں احاديث اور دعاؤں كى كتابوں كى طرف رجوع كر سكتے ہيں_
آخر ميں دو مطلب كى طرف توجہہ دلانا ضرورى ہے_ پہلا_ عارف انسان كو معلوم ہونا چاہئے كہ ذكر كرنے كى اصلى غرض و غايت خداوند عالم كى طرف حال اور حضور قلب كا حاصل كرنا ہوتا ہے لہذا ذكر كى تعداد اور زمانے اور كيفيت ميں يہ مطلب مد نظر رہے اور پھر اس كو دائمى بجالائے اور جب تھك جائے يا بے ميل اور رغبت ہو تو اسے چھوڑ دے اور پھر مناسب وقت ميں دوبارہ شروع كر دے_ اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' دل اور روح كبھى حالت اقبال اور توجہہ ركھتى ہے اور كبھى سب اور بے ميل اور بے رغبت نہ ہوتى ہے لہذا جب دل مائل اور رغبت ركھتا ہو اس وقت عمل كيا جائے كيونكہ اگر روح كو عمل كرنے پر مجبور كيا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے_(403)
البتہ اس بارے ميں افراد اور مقامات اور حالات كا فرق ہوا كرتا ہے_
دوسرا_ يہ جاننا چاہئے كہ رياضت نفس اور ذكر كى اصلى غرض اور غايت نفس اور روح كا تكامل اور قرب خداوند ہے_ اللہ تعالى كا تقرب بغير احكام پر عمل كرنے سے ممكن نہيں ہوا كرتا اگر كوئي انسان شرعى يا اجتماعى ذمہ دارى ركھتا ہو تو وہ اسى حالت ميں اللہ تعالى كى ياد ميں ہو سكتا ہے اور جتنا ہو سكے ذكر كو بھى انجام دے اور فراغت كى حالت ميں ذكر كو دائمى بجالائے گوشہ نشين نہيں ہو جانا اور اجتماعى اور شرعى ذمہ دارى كو نظر كردينے سے انسان اللہ كا قرب اور تقرب حاصل نہيں كر سكتا_
|