خودسازي
یعنی
تزكيه و تهذيب نفس
214
پہنچنے كے راستے
ايمان كے كامل كرنے اور مقام ذكر اور شہود تك پہنچنے كے لئے مندرجہ ذيل امور سے استفادہ كيا جا سكتا ہے_

1_ فكر اور دليل
وہ دلائل اور استدلالات جو توحيد اور وجود خدا كے ثابت كرنے كے لئے لائے جاتے ہيں وہ ايمان كو كامل كرنے كا سبب بن سكتے ہيں يا وہ دليليں جو فلسفہ اور علم كلام اور علم عرفان كى كتابوں ميں بيان كى گئي ہيں ان سے ثابت كيا جاتا ہے كہ تمام موجودات عالم ذات كے لحاظ سے محتاج اور فقير بلكہ عين احتياج اور فقر ہيں وہ اپنے وجود كو باقى ركھنے ميں اور تمام افعال اور حركات ميں ايك ايسى ذات كے محتاج ہيں جو بے نياز اور غنى ہو بلكہ اسى ذات سے ان كا ربط اور اتصال ہے_ تمام موجودات عالم محتاج اور محدود ہيں صرف ايك ذات ہے جو اپنے وجود ميں مستفنى بالذات ہے اور كمال غير متناہى ركھتى ہے اور وہ ذات واجب الوجود ہے كہ جس ميں كوئي نقص اور احتياج نہيں اور اسكے وجود ميں كوئي احتياج نہيں ہے_ وہ ذات تمام كمالات كى مالك ہے_ اس كے علم اور قدرت اور حيات اورتمام كمالات كى كوئي حد اور انتہا نہيں ہے ہر جگہ حاضر اور ناظر ہے اور كوئي چيز اس سے چھپى ہوئي نہيں ہے_ تمام موجودات سے نزديك ہے يہاں تك كہ وہ شاہ رگ سے خود انسان سے زيادہ نزديك ہے_ بہت سى آيات اور احاديث خدا كى انہى صفات كو بيان كرتى ہيں_

215
خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' مشرق اور مغرب خدا كى ملكيت ہے پس تم جس طرف توجہ كرو گے خدا وہاں موجود ہے_(383) نيز خدا فرماتا ہے كہ '' خدا تمہارے ساتھ ہے جہاں بھى تم ہو اور تمہارے كاموں كو جانتا ہے اور ان سے باخبر ہے_(384)
نيز خدا فرماتا ہے كہ '' ہم انسان سے اس كى شاہ رگ سے زيادہ نزديك ہيں_(385)
نيز خدا فرماتا ہے كہ '' خدا ہر چيز كو ديكھنے والا اور حاضر ہے_(386)
خدا كے پہچاننے ميں غور اور فكر كرنا انسان كو كفر كى تاريكى سے نكال كر خدا پر ايمان لے آنے كى طرف لے جاتا ہے اور تكامل اور كمال تك پہنچنے كا راستہ كھول ديتا ہے اور عمل كى طرف جو ايمان كا لازمہ ہے دعوت ديتا ہے_

2_ آيات ا لہى ميں غور كرنا
خدا اس دنيا كى ہر ايك چيز كو خدا كى نشانى قرار ديتا ہے_ خدا متعدد آيات ميں تاكيد فرماتا ہے كہ خدا كى نشانيوں اور آيات ميں خوب غور اور فكر كرو تا كہ ان كى رعنائيوں اور حسن سے اور ان كے نظم اور حساب سے ہونے كيوجہ سے جو تمام عالم پر برقرار ہے ايك دانا اور قادر اور عليم اور حكيم خدا كو معلوم كرلوگے_ انسان سے اس كا مطالبہ كيا گيا ہے كہ وہ اپنى خلقت اور وہ اسرار اور رموز اور حيرت انگيز قدرت جو اس كے جسم اور روح ميں ركھ ديئے گئے ہيں اور اسى طرح مختلف زبانوں اور رنگوں اور شكلوں اور ہمسر كے وجود كو خوب غور سے سوچو اور فكر كرو_ اسى طرح انسان سے مطالبہ كيا گيا ہے كہ وہ سورج اور ستاروں كى خلقت اور ان كى منظم حركت اور حسن اور زيبائي ميں غور اور فكر كرے اسى طرح انسان سے مطالبہ كيا گيا ہے كہ وہ زمين اور پہاڑوں اور درخت نباتات اور مختلف سمندرى اور خشكى كے حيوانات ميں غور اور فكر كرے_ قرآن مجيد ميں اس طرح كے مطالبے كے بہت سے نمونوں كى طرف اشارہ كيا گيا ہے بہت ہى صحيح اور درست ہے كہ يہ جہان حسن اور تعجب ميں ڈالنے والى چيزوں سے ہے_ جس شى كو ديكھيں اس ميں سينكڑوں مصلحتيں تعجب آور موجود ہيں_ سورج ستارے كہكشاں بادل حيرت انگيز ايٹم زمين آسمان، پہاڑ، درخت، نباتات، مختلف دريائي اور خشكى كے حيوانات معدنيات، سمندر دريا، بڑے بڑے جنگل، چھوٹے بڑے، درخت

216
اور نباتات، بڑے حيوانات، ہاتھي، اونٹ يہاں تك كہ چيونٹيوں اور مچھر بلكہ حيوانات جو دور بين سے ديكھے جاتے ہيں جيسے ويرس اور جراثيم و غيرہ انسان ان كى زيبائي اور ظرافت كو جب مشاہدے كرے اور موجودات جہاں ميں جو رموز اور مصالح، ہيں اور اس جہاں كے نظم اور ضبط اور اس ميں ربط اور اتصال كو جو ان پر حاكم ہے ديكھے تو ان تمام چيزوں سے ايك ايسے خالق اور پيدا كرنے والے كا جو عظيم اور صاحب قدرت اور بے انتہا علم اور حكمت ركھنے والا ہے كا علم پيدا كريگا_ اور حيرت اور تعجب ميں غرق ہوجائيگا او ر تہ دل سے كہے گا اے ميرے رب تو نے ان چيزوں كو بيہودہ اور لغعو پيدا نہيں كيا_ ربنا ما خلقت ہدا باطلا_ آسمان كو جو ستاروں سے اوپر ہے اسے ديكھے اور ان ميں خوب غور اور فكر كرے جنگل كے پاس بيٹھ جائے اور اللہ تعالى كى عظمت اور قدت كا نظارہ كرے كہ كتنا عمدہ اور زيبا اور خوشمنا جہان ہے_

3_ عبادت
ايمان اور معرفت كے بعد انسان كو نيك اعمال اور اپنے فرائض كے بجالانے ميں سعى اور كوشش كرنى چاہئے اس واسطے كے عمل كے ذريعے ہى ايمان كامل سے كاملتر ہوتا ہے يہاں تك كہ اللہ تعالى كے قرب كے مقام تك پہنچتا ہے_ يہ صحيح ہے كہ ايمان اور معرفت اور توحيد بلندى كى طرف لے جاتى ہے ليكن نيك عمل اس ميں اس كى مدد كرتے ہيں_ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ '' جو شخص عزت چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے كہ تمام عزت خدا كے ہاں ہوتى ہے توحيد كا نيك كلمہ خدا كيطرف جاتا ہے اور نيك عمل اسے اوپر لے جاتا ہے_(387) نيك عمل كى نسبت ايمان اور معرفت كے لئے پٹرول كى ہے جو ہوائي جہاز ميں ڈالا جاتا ہے جب تك ہوائي جہاز ميں پٹرول ہو گا وہ بلندى كى طرف پرواز كرتا جائيگا اور جب بھى اس كا پٹرول ختم ہوجائيگا وہ تمام كا تمام گر جائيگا اسى طرح ايمان اور معرفت جب تك اس كے ساتھ نيك عمل انجام پاتا رہے گا وہ انسان كو اعلى مقامات كى طرف لے جاتا رہے گا ليكن جب اس كى نيك عمل مدد كرنا چھوڑ دے گا ايمان ختم ہوجائيگا_ خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' اپنے پروردگار كى عبادت كرتا كہ تجھے يقيقن كا مقام حاصل ہوجائے_(388)

217
نفس كى تكميل اور اس كى تربيت اور مقام يقين تك پہنچنے كا تنہا ايك راستہ ہے اور وہ ہے خدا كى عبادت اور بندگى اور اپنے فرائض كى بجا آوري_ اگر كوئي خيال كرے كہ عبادت كے علاوہ كسى اور راستے سے اعلى مقامات پر فائز ہو سكتا ہے تو وہ بہت ہى سخت اشتباہ كر رہا ہے_
انشاء اللہ بعد ميں نيك عمل كے متعلق بھى بحث كريں گے_

4_ اذكار اور دعائيں_
اسلام دعاؤں كے ہميشہ پڑھنے رہنے كو بہت اہميت ديتا ہے_ اذكار اور دعائيں پيغمبر اور ائمہ عليہم السلام سے نقل ہوئي ہيں اور ان كے پڑھنے پر ثواب بھى بتلائے گئے ہيں_ ذكر اذكار در حقيقت عبادت كى ايك قسم ہے جو نفس كى تكميل اور قرب الہى كا سبب ہوتے ہے جيسے پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' پانچ چيزيں ہيں جو انسان كے ميزان عمل كو بھارى كر ديتى ہيں_ سبحان اللہ _ الحمد اللہ اور لا الہ الا اللہ و اللہ اكبر اور نيك بيٹے كى موت پر صبر كرنا_(389)
آپ(ص) نے فرمايا كہ '' جب مجھے معراج پر لے جايا گيا اور ميں بہشت ميں داخل ہوا تو ميں نے ملائكہ كو ديكھا كہ وہ سونے چاندى كا محل بنانے ميں مشغول تھے ليكن كبھى كام كرنا چھوڑ ديتے تھے اور كبھى كام كرنا شروع كر ديتے تھے_ ميں نے ان سے كہا كہ كيوں كام كرنے لگ جاتے ہو اور كام كرنا چھوڑ ديتے ہو؟ انہوں نے كہا جب محل تعمير كرنے كا ميٹريل آجاتا ہے تو كام كرتے ہيں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو كام كرنا چھوڑ ديتے ہيں_ ميں نے پوچھا كہ تمہارے كام كرنے ميٹريل كونسا ہوتا ہے؟ انہوں نے كہا كہ سبحان اللہ و الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ و اللہ اكبر ہے_
جب مومن دنيا ميں يہ ذكر كرتا رہتا ہے ہميں ميٹريل ملتا رہتا ہے اور ہم بھى كام كرتے رہتے ہيں اور جب وہ اس ذكر سے غافل ہوجاتا ہے اور اسے پڑھنا چھوڑ ديتا ہے تو ہم بھى كام كرنا چھوڑ ديتے ہيں_(390)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص سبحان اللہ كہے تو اس كے لئے بہشت ميں ايك درخت لگا ديا جاتا ہے اور جو شخص الحمد اللہ كہے تو خدا

218
اس كے لئے بہشت ميں درخت لگا ديتا ہے اور جو شخص لا الہ الا اللہ كہے اس كے لئے خدا بہشت ميں درخت لگا ديتا ہے_ اس وقت قريشى مرد نے عرض كى _ يا رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم پھر تو ہمارے لئے بہشت ميں بہت ہى درخت ہونگے؟ آپ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ ہاں اسى طرح ہى ہوگا ليكن خيال ركھنا كہ كوئي آگ نہ بھيجنا كہ جو ان درختوں كو جلا دے كيونكہ خداوند قرآن ميں فرماتا ہے كہ اے وہ لوگو جو ايمان لے آئے ہو تم خدا اور اس كے رسول كى اطاعت كرو اور اپنے اعمال كو باطل نہ كرو_(391)
جو كلام بھى انسان كو خدا كى ياد دلائے اور اس ميں اللہ تعالى كى تعريف اور تسبيح اور تمجيد ہو تو وہ كلام ذكر كہلائيگا ليكن احاديث ميں خاص خاص دعاؤں اور اذكار كا ذكر ہوا ہے اور ان كے پڑھنے كے اثرات اور ثواب بھى بتلايا گيا ہے كہ جن ميں سے زيادہ اہم لا الہ الا اللہ سبحان اللہ _ الحمد اللہ _ اللہ اكبر_ لا حول و لا قوة الا باللہ_ حسبنا اللہ و نعم الوكيل _ لا الہ الا اللہ سبحانك انى كنت من الظالمين_ يا حى يا قيوم يا من لا الہ الا انت افوض امرى الى اللہ ان اللہ بصير بالعباد_ لا حول و لا قوة الا باللہ العلى العظيم _ يا اللہ_ يا رب_ يا رحمن_ يا ارحم الراحمين_ يا ذالجلال و الاكرام_ يا غنى يا مغنى اسى طرح اور دوسرے اسماء حسنى كے جو دعاوں اور احاديث ميں نقل ہوئے ہيں_ يہ تمام كے تمام ذكر ہيں اور انسان كو خدا كى ياد دلاتے ہيں اور اللہ تعالى كے ہاں تقرب كا وسيلہ بنتے ہيں_ اللہ كى طرف رجوع كرنے والا انسان ان ميں سے كسى ايك كو انتخاب كر كے اسے ہميشہ پڑھتا رہے ليكن بعض اہل معرفت ان ميں سے بعض كو ترجيح ديتے ہيں_ بعض لا الہ الا اللہ كے پڑھنے كى سفارش كرتے ہيں اور دوسرے بعض نے سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اكبر كو انتخاب كيا ہے اور بعض نے دوسرے بعض كلمات كو ترجيح دى ہے ليكن بعض احاديث سے معلوم ہوتا ہے كہ ان سب پر لا الہ الا اللہ ترجيح ركھتا ہے_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ بہترين عبادت لا الہ الا اللہ كہا ہے_(392)
آپ(ص) نے فرمايا كہ '' لا الہ الا اللہ اذكار كا سردار اور ان سے بڑا ہے_(393)

219
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جبرائيل(ع) سے نقل كيا ہے كہ '' خداوند عالم فرماتا ہے كہ لا الہ الا اللہ كا كلمہ ميرى پناہ گاہ اور قلعہ ہے جو اس ميں داخل ہوجائے وہ عذاب ديئے جانے سے امان ميں ہوگا_(394)
ليكن ذكر كرنے كى غرض اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنا ہوتا ہے لہذا كہا جا سكتا ہے كہ جو كلام بھى اللہ تعالى كى طرف زيادہ توجہہ دلائے اس كا ذكر كرنا زيادہ مناسب ہوگا_ حالات اور افراد اور مقامات مختلف ہوتے ہيں_ لہذا ہو سكتا ہے كہ يا اللہ كا كلمہ بعض افراد كے لئے يا بعض حالات ميں زيادہ مناسب افراد كے لئے لا الہ الا اللہ كا كلمہ اور دوسرے بعض افراد كے لئے يا غفار يا ستار مناسب ہو اسى طرح دوسرے اذكار_ اسلئے اگر كوئي انسان كسى استاد يا كامل مربى تك رسائل ركھتا ہو تو اس كے لئے بہتر ہے كہ و اس سے مدد طلب كرے اور اگر اسے كسى تك رسائي نہ ہو تو وہ دعاؤں اور احاديث كى كتابوں اور پيغمبر اكرم اور ائمہ عليہم السلام كے فرامين سے استفادہ كرے تمام اذكار اور عبادات اچھى ہيں جب كہ ان كو صحيح بجا لايا جائے تو وہ ان كے ذريعے اللہ كا تقرب حاصل كر سكتا ہے اور مقامات عاليہ تك رسائل حاصل كر لے گا_ انسان ان تمام سے يا ان ميں سے بعض سے استفادہ كر سكتا ہے ليكن مشائخ اور ماہرين استادوں نے مقام ذكر اور شہود تك پہنچے كے لئے بعض مخصوص اذكار كا انتخاب كيا ہوا ہے كہ جنہيں خاص كيفيت اور خاص عدد كے ساتھ ہميشہ پڑھنے رہنے كى سفارش كى ہے تا كہ وہ اس مقصد كو حاصل كر سكے_
ليكن اس نقطہ كى طرف بہت زيادہ توجہہ دينے كى ضرورت ہے كہ جو دعائيں اور اذكار شرعيت ميں وارد ہوئي ہيں گرچہ سب عبادت ہيں اور اجمالا تقرب كا موجب بھى ہوتى ہيں ليكن ان كى اصلى غرض غير خدا سے بالكل اور كامل طور سے قطع قطع كرنا اور حضور قلب سے ذات الہى كى طرف توجہ كرنا ہے_ لہذا ہميں صرف اذكار كے الفاظ كے تكرار پر ہى اكتفاء كرنى چاہيئے اور نہ ہى اصلى ا على غرض و غايت اور معنى كى طرف توجہہ كرنے سے غافل ہو جائيں كيونكہ الفاظ كا تكرار بلكہ انہيں ہميشہ پڑھتے رہنا اتنا مشكل نہيں ہے اس واسطے كہ الفاظ كے ذكر كرتے وقت كئي قسم كے افكار اور مختلف

220
طرح كے خيالات انسان پر ہجوم كرتے رہتے ہيں اور اسے خدا كى ياد سے غافل كر ديتے ہيں اور جب تك خيالات اور افكار كو دور نہيں كيا جاتا اس وقت تك نفس افاضات اور اشراقات الہى كے قبول كرنے كى لياقت پيدا نہيں كر سكتا_
صرف يہى كام انسان كو اصلى غرض تك نہيں پہنچا سكتا وہ جو مفيد اور فائدہ مند ہے وہ ذات الہى كى طرف حضور قلب اور خيالات كا دور كرنا اور فكر كا ايك مركز پر برقرار ركھنا ہوتا ہے اور يہ كام بہت زيادہ مشكل ہے اس واسطے كہ ذكر كرتے وقت كئي طرح كے فكر اور مختلف خيالات انسان پر ہجوم اور ہوتے ہيں اور اس كو خدا كى ياد سے غافل كر ديتے ہيں اور جب تك دل سے خيالات كو دور نہ كرے اس وقت تك انسانى نفس اللہ تعالى كے فيض اور اشراق كى لياقت پيدا نہيں كرتا وہ دل اللہ تعالى كے انوار كا محل بنتا ہے كہ جو اغيار سے خالى ہو_ خيالات كا دور كرنا اور فكر كو ايك جگہ جمع كرنا ايك حتمى ارادے اور جہاد اور محافظ اور پائيدارى كا محتاج ہوتا ہے اور اس طرح نہيں ہوتا كہ ايك دفعہ بغير كسى ممارست اور دوام كے ايسا ممكن ہو جائے نفس كے ساتھ نرمى بر تنى چاہئے اور آہستہ آہستہ اسے اس كى عادت دى جانى چاہئے_