خودسازي
یعنی
تزكيه و تهذيب نفس
206
ذكر اور بقاء كے آثار اور علائم
جيسے كہ پہلے ذكر ہوچكا ہے كہ ذكر اور شہود اور لقاء ايك باطنى مقام اور معنوى اور روحانى پايہ تكميل نفس كا ذريعہ ہے_ عارف انسان اس مقام تك جب پہنچ جائے تو وہ ايك ايسے مقام تك پہنچا ہے كہ وہ اس سے پہلے يہاں تك نہيں پہنچا تھا اگر يہ كہا جاتا ہے كہ مقام شہود ايك حقيقت اور واقعيت ہے اور اسى طرح جب كہا جاتا ہے كہ مقام انس يا مقام رضا يا مقام محبت يا مقام شوق يا مقام وصال يا مقام لقاء تو يہ مجاز گوئي اور مجازى معنى مراد نہيں ہوتے بلكہ يہ سب حقيقت ہيں لہذا مقام ذكر وجود واقعى كا ايك مرتبہ ہے اور رتبہ اور وہ نئے علائم اور آ ثار ركھتا ہے اس كمال كا وجود اس كے آثار اور علامتوں سے پہچانا جاتا ہے_ ہم يہاں اسكے كچھ اثرات بتلاتے ہيں:

خداوند عالم كى اطاعت
جب كوئي آدمى مقام شہود اور ذكر تك پہنچ چكا ہو اور اپنے باطن ميں ذات احديت كے جمال كا مشاہدہ كرلے اور اپنے آپ كو اس ذات كے سامنے پائے تو پھر بغير كسى شك كے سوفيصدى اس كے احكام كى پيروى كرے گا اور جو كچھ خدا كہے گا اس بجالائيگا اور جس سے روكا ہوگا اسے ترك كرے گا اگر انسان يہ معلوم كرنا چاہے كہ آيا اس مقام تك پہنچا ہے يا نہ تو اسے اوامر اور نواہى الہى كى پابندى سے معلوم كرے اور جتنى اس ميں پابندى كى نسبت ہو اسى نسبت سے اس مقام تك پہنچے كو سمجھ لے يہ ممكن ہى نہيں ہے كہ انسان مقام شہود اور انس تك پہنچا ہوا ہو اور پھر اللہ تعالى كے

207
احكام كى كامل طور سے پابندى نہ كرے_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے ذكر كى شناسائي او رتعريف ميں فرمايا ہے كہ '' ذكر كے يہ معنى ہيں كہ جب تيرے سامنے اللہ تعالى كى كوئي حكم آئے تو اسے بجالائے اور اگر منع كيا ہو تو اس سے رك جائے_ (370)
امام حسين عليہ السلام نے عرفہ كى دعا ميں فرمايا ہے '' اے وہ ذات كہ جس نے اپنے ذكر كى مٹھاس اور شرينى كو اپنے دوستوں كے موہنہ ميں ڈالا ہے كہ جس كى وجہ سے وہ تيرى عبادت كے لئے تيرے سامنے آكھڑے ہوتے ہيں_ (371)
اور تيرے سامنے خضوع اور خشوع كرتے ہيں_ اے وہ ذات كہ جس نے ہيبت كا لباس اپنے اولياء كو پہنايا ہے كہ وہ تيرے سامنے كھڑے ہوں اور استغفار كريں_
خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ '' ان سے كہہ دو كہ اگر واقعى خدا كودوست ركھتے ہو تو ميرى پيروى كرو تا كہ خدا بھى تمہيں دوست ركھے_ (372)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص واقعى خدا كا ذكر كرنے والا ہوگا تو وہ ذات الہى كا فرمانبردار اور مطيع بھى ہوگا اور جو شخض غافل ہوگا وہ گنہگار ہوگا_ (373)

خضوع اور عاجزي
جو انسان خدا كى عظمت اور قدرت كا مشاہدہ كرے گا تو وہ مجبوراً اس كے سامنے خضوع كرے گا اور اپنے قصور اور ناتوانى سے شرمندہ اور شرمسار ہوگا_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' تيرا يہ جان لينا كہ تو خدا كا مورد توجہہ ہے تو يہ تيرے خضوع اور حيا اور شرمندگى كا باعث بنے گا_ (374)
عشق اور محبت_ مقام شہود كى ايك علامت اور اثر عبادت سے زيادہ علاقہ اور اس سے لذت حاصل كرنا ہوتا ہے كيونكہ جس نے لذت الہى كى عظمت اور قدرت كو پاليا ہو اور اپنے آپ كو اس كے حضور ميں سمجھتا ہو اور عظمت اور كمال الہى كا مشاہدہ كرليا

208
ہو تو پھر وہ مناجات اور انس اور راز و نياز كى لذت كو ہر دو سرى لذت پر ترجيح دے گا_ جو لوگ معنوى لذات سے محروم ہيں وہ مجازى لذات اور جلدى ختم ہوجانے والى لذات سے جو در حقيقت سوائے الم اور غم كے ختم كرنے كے علاوہ كچھ نہيں ہوتيں اپنا دل لگا ليتے ہيں_ ليكن جنہوں نے حقيقى لذات اور پروردگار كى مناجات اور عبادت كو چكھ ليا ہو تو وہ اپنى خوش حالى او رزيبائي كو كسى دوسرى لذت سے معاملہ نہيں كرتے_ يہى وہ اللہ كے خالص بندے ہيں كہ جو خدا كى عبادت اس لحاظ سے كرتے كہ وہ عبادت كا سزاوار ہے نہ ثواب كى اميد ركھتے ہيں اور نہ سزا كا خوف_
پيغمبر عليہ السلام اور حضرت على عليہ السلام اور امام زين العابدين عليہ السلام اور ديگر ائمہ عليہم السلام كى عبادات اور سوز و گداز كو آپ نے سناہى ہے_
اطمينان اور آرام_ دنيا مصائب اور گرفتارى رنج و بلا كا گھر ہے_ دنيا كے ابتلات اور گرفتاريوں كو تين قسم پر تقسيم كيا جاسكتا ہے_
1_ كئي طرح كى مصيبتيں جيسے اپنى اور اپنے رشتہ داروں كى بيمارياں_ خود مرنا اور لواحقين كى موت_ ظلم اور تجاوز دوسروں كى حق كشى اور ايك دوسرے سے مزاحمت اور لڑائي جھگڑنے_
2_ دنياوى امور كے نہ ہونے كہ جنہيں حاصل نہيں كرسكتا_
3_ اس كا خوف كہ جو ہاتھ ميں وہ نہ نكل جائے اپنے مال كے چورى ہوجانے يا تلف ہوجانے كا ڈريا زمانے كے حوادث كيوجہ سے اولاد نہ چلى جائے اپنے بيمار ہونے يا اپنى موت كا خوف اور ڈر اور اس طرح كے د وسرے امور كے اكثر انسان كے آرام اور سكون كو ختم كرديتے ہيں ان تمام كى اصل وجہ دنيا سے علاقمندى اور محبت اور خدا كے ذكر سے غافل رہنا ہوا كرتا ہے_
قرآن مجيد ميں ہے كہ '' جو ہمارے ذكر سے روگردانى كرتا ہے_ اس كى زندگى سخت ہوگي_ (375)

209
ليكن اللہ كے خالص بندے جو كمالات اور خيرات كے مقامات تك پہنچ چكے ہيں اور اللہ تعالى كے بے نہايت كمال اور جمال كا مشاہدہ كرليا ہے اور اللہ تعالى كے ذكر اور اس كى ذات كى محبت ميں خوش ہيں اور كوئي غم اور غصہ نہيں ركھتے كيونكہ وہ جب خدا كو ركھتے ہيں تو سب چيزيں ركھتے ہيں دنياوى امور سے لگاؤ نہيں لگا ركھا تا كہ ا ن كے نہ ہونے سے خوف اور ڈر ركھتے ہوں_ كمالات اور خيرات كے منبع اور مركز سے دل لگا ركھا ہے اور خود بھى صاحب كمال ہيں_
امام حسين عليہ السلام عرفہ كى دعا ميں فرماتے ہيں_ '' خدايا تيرى ذات ہے كہ جس نے اجنبيوں كو اپنے اولياء كے دلوں سے باہر نكال ديا ہے كہ جس كى وجہ سے وہ تيرے سوا كسى كو دوست نہيںركھتے اور تيرے غير سے پناہ نہيں مانگتے وہ خوفناك مصائب ميں تجھ سے انس اور محبت ركھتے ہيں اگر ان ميں معرفت اور شناسائي حاصل ہوئي ہے تو وہ بھى تيرى ہدايت كى وجہ سے ہے_ جو تجھے نہيں پاتا وہ كس چيز كو پاسكتا ہے؟ جو تجھے ركھتا ہو وہ كس چيز كو نہيں ركھتا؟ كتنا نقصان ميں ہے وہ انسان جو تيرے عوض كسى دوسرے كو اختيار كرے؟ كتنا بدبخت ہے وہ انسان جو تيرے سوا كسى دوسرے كى طرف رجوع كرے_ كس طرح انسان كسى دوسرے سے اميد ركھے جب كہ تيرے احسان اس سے قطع اور ختم نہيں ہوئے؟ كس طرح انسان اپنى حاجات كو دوسرے سے طلب كرے جب كہ تيرے احسان كرنے كى عادت نہيں بدلي؟ (376)
خلاصہ مقام ذكر اور شہود تك پہنچنے كى ايك علامت اور اثر انسان ميں آرام اور سكون اور اطمينان قطب ہے اور سوائے خدا كے كوئي اور نہيں جو دل كى كشتى كو زندگى كى متلاطم امواج سے آرام اور سكون دے سكے_ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے '' جو لوگ ايمان لے آئے ہيں ان كے دل اللہ تعالى كے ذكر سے آرام اور اطمينان ميں ہيں اور ياد ركھو كہ دل كو تو صرف خدا كے ذكر سے ہى آرام اور اطمينان اور سكون حاصل ہوتا ہے_ (377)

210
خدا كى بندے كى طر توجہ _
جب بندہ خدا كو ياد كرتا ہے تو خدا بھى اس كے عوض بندے كو مورد عنايت اور توجہ قرار ديتا ہے_ يہ مطلب آيات اور روايات سے مستفاد ہوتا ہے_
خدا فرماتا ہے ''مجھے ياد كرو تا كہ ميں تمہيں ياد كروں_(378)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خدا نے فرمايا ہے_ اے ادم كے فرزند مجھے اپنے دل ميں ياد كر تا كہ ميں تجھے اپنے دل ميں ياد كروں_ اے آدم كے فرزند مجھے خلوت اور تنہايى ميں ياد كر تا كہ ميں تجھے خلوت ميں ياد كروں_ اے آدم زاد مجھے مجمع ميں ياد كر تا كہ ميں تيرے مجمع سے مجمع ميں ياد كروں آپ نے فرمايا كہ جو انسان خدا كو لوگوں كے درميان ياد كرے خدا اسے ملائكہ كے درميان ياد كرتا ہے_(379)
اللہ تعالى كا بندے كى طرف متوجہ ہونا اور لطف و كرم كرنا ايك اعتبارى اور تشريفاتى چيز نہيں ہے بلكہ يہ ايك حقيقت اور واقعيت ہے اس كى دو ميں سے ايك سے توجيہ كى جا سكتى ہے_
1_ جب بندہ خدا كو ياد كرنا ہے تو اس كے ذريعے فيض الہى كو قبول كرنے كے لئے آمادہ ہو جاتا ہے خداوند عالم بھى اس پر كمال كو نازل كرتا ہے اور اس كے درجات كو بلند كر ديتا ہے_
2_ جب اللہ تعالى كا ذكر كرنے والا انسان خدا كو ياد كرتا ہے تو وہ اللہ تعالى كى طرف حركت كرتا ہے اور وہ اللہ تعالى كے لطف اور كرم كا مورد قرار پاتا ہے_ اسے خدا عالى مرتبہ كے لئے جلب اور جذب كر ديتا ہے اور اس كے دل كے كنٹرول كرنے كو اپنے ذمہ لے ليتا ہے_
پيغمبر گرامى نے فرمايا ہے كہ '' خداوند عالم فرماتا ہے كہ جب ميں بندے كو اپنے ميں مشغول اور متوجہ پاتا ہوں تو اسے سوال اور مناجات كرنے كا علاقمند بنا ديتا ہوں اور اگر بھى اس پر غفلت طارى ہو جائے تو اس كے عارض ہونے سے ركاوٹ كھڑى كر ديتا

211
ہوں_ يہ يندے ميرے حقيقى اولياء ہيں يہ واقعى بہادر اور شجاع ہيں اور يہ وہ لوگ ہيں كہ اگر ميں چاہتا ہوں كہ زمين والوں كو ہلاك كردں تو ان كے وجود كى بركت سے زمين والوں سے عذاب كو دور كرديتاہوں_(380)
خلاصہ خدا كو اپنى بندے كى طرف توجہہ كرنا ايك اعتبارى اور تشريفاتى كام نہيں ہے بلكہ اس كى ايك حقيقت ہے جو ان دو ميں سے ايك توجيہہ كى جا سكتى ہے اگر چہ دونوں كو بھى اكٹھا كيا جا سكتا ہے_

خدا كا بندے سے محبت كرنا_
ذكر خدا كى آثار ميں سے ايك اثر اور علامت خدا كا ايسے بندے سے محبت كا ہو جانا ہوتا ہے_ آيات اور روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ جب بندہ خدا كى ياد ميں ہو اور خدا اور اس كے پيغمبر عليہ السلام كے احكام پر عمل كرنے والا ہو تو خدا بھى اس كے عوض ايسے بندے كو دوست ركھتا ہے_ خدا قرآن ميں فرماتا ہے '' اے لوگو اگر واقعاً خدا كو دوست ركھتے ہو تو ميرى پيروى كرو تا كہ خدا بھى تمہيں دوست ركھے_(381)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے پيغمبر عليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ '' جو شخص اللہ تعالى كا بہت زيادہ ذكر كرے تو وہ اللہ تعالى كا مورد محبت قرار پائيگا_ جو شخص اللہ تعالى كى ياد ميں بہت زيادہ ہو گا اس كے لئے دو برات كے نامے لكھ ديئے جائيں گے ايك دوزخ سے برات اور دوسرے نفاق سے برات_(382)
اللہ تعالى كى بندے سے محبت كوئي اعتبار اور تشريفاتى امر نہيں ہوتا اور يہ اس معنى ميں بھى نہيں ہوتى جو محبت بندے كو خدا سے ہوتى ہے_ انسان ميں محبت كے ہونے كے معنى اس كا كسى چيز سے كہ جس كا وہ محتاج ہے ولى لگاؤ اور علاقمندى ہوا كرتى ہے ليكن خدا كے محبت كرنے كے ايسے معنى مراد نہيں ہوا كرتے اور نہ ہى اللہ تعالى ميں يہ معنى صحيح ہے_ خدا كے محبت كرنے كى يوں وضاحت كى جائے كہ خدا بندے پر اپنا لطف و كرم زيادہ كرتا ہے اور اسے عبادت اور توجہہ اور اخلاص كى زيادہ توفيق

212
عنايت فرماتا ہے ك جس ذريعے كمالات اور قرب كے درجات كى طرف اسے جذب اور جلب كرتا ہے اور چونكہ خدا اپنے بندے كو دوست ركھتا ہے اور چاہتا ہے كہ وہ راز اور نياز كو سنے تو اسے دعا نماز ذكر اور مناجات كرنے كى توفيق عطا كرتا ہے اور چونكہ اس كے تقرب كو دوست ركھتا ہے تو اس كے لئے كمال تك رسائي كا وسيلہ فراہم كر ديتا ہے خلاصہ يہ ہے كہ چونكہ خدا اپنے بندے كو دوست ركھتا ہے لہذا اس كے دل كو اپنے كنٹرول ميں لے ليتا ہے اور توفيق ديتا ہے كہ وہ بہتر اور سريع تر اس كے مقام قرب كى طرف حركت كرے_

اہم اثر:
اس مقام ذكر ميں اس كے حاصل كرنيوالے كو بہت عالى فوائد حاصل ہو جاتے ہيں كہ جن كے بيان كرنے كے لئے قلم اور زبان عاجز اور ناتوان ہے اور سوائے اس مقام تك پہنچنے والوں كے اور كوئي بھى اس سے مطلع نہيں ہو سكتا_
عارف اپنے نفس كے صاف اور پاك اور اپنے باطن كو تصفيہ كرنے عبادت اور رياضت تفكر اور دائمى ذكر كرنے كے ذريعے اسے ايسے مقام تك پہنچتا ہے كہ وہ اپنى باطنى آنكھ اور كان كے ذريعے حقائق اور واقعات كا مشاہدہ كرتا ہے اور انہيں سنتا ہے كہ جو ظاہرى آنكھ اور كان كے ذريعے ديكھنے اور سننے كے قابل نہيں ہوتے_ كبھى كبھى وہ موجودات كى تسبيح اور تقديس بلكہ ملائكہ كى تسبيح كو بھى سنتا ہے اور ان كے ساتھ ہم آواز ہو جاتا ہے جب كہ وہ اسى دنيا ميں زندگى كر رہا ہوتا ہے اور دنيا كے لوگوں كے ساتھ معاشرت كر رہا ہو تا ہے ليكن اپنے اندر ميں ايك اعلى نقطہ كو ديكھتا ہے اور كسى دوسرے جہان ميں اس طرح زندگى كر رہا ہوتا ہے كہ گويا وہ اس جہان ميں زندہ نہيں ہے دوسرے جہان كى دوزخ اور بہشت كا مشاہدہ كرتا ہے_ اور نيك اور صالح افراد اور فرشتوں سے ربط ركھتا ہے_ دوسرے جہان سے مانوس اور دوسرى طرح كى نعمتوں كو پا رہا ہے ليكن وہ ان چيزوں كے بارے ميں غالباً كسى سے ذكر نہيں كرتا كيونكہ

213
اس طرح كے افراد راز كو چھپانے والے ہوتے ہيں اور اس طرح كى شہرت كو پسند نہيں كرتے_
عارف كے قلب پر علوم اور معارف وارد ہوتے ہيں اور بعض ايسے كشف اور شہود ركھتا ہے جو متعارف علوم جيسے نہيں ہوتے_ عارف ايك ايسے مقام تك جا پہنچتا ہے كہ وہ تمام چيزوں سے يہاں تك كہ اپنے نفس سے بھى غافل ہوتا ہے اور سوائے ذات الہى كے اسماء اور صفات كے اور كسى طرف متوجہ نہيں ہوتا اللہ تعالى كى ذات كو ہر جگہ حاضر اور ناظر ديكھتا ہے كہ خود اس نے فرمايا كہ وہى اول ہے اور وہى آخر ہے اور وہى ظاہر ہے اور وہى باطن ہے_ ہو الاول و الاخر و الظاہر و الباطن_
تمام دنيا كو اللہ تعالى كى صفات كا مظہر اور تمام كمال اور جمال كو اسى ذلت سے جانتا ہے_
تمام دنيا كو اللہ كى صفات كا مظہر اور تمام كمال اور جمال كو اسى ذات سے جانتا ہے _ تمام موجودات كو ذات كے لحاظ سے فقير اور محتاج سمجھتا ہے اور صرف غنى مطلق بے نياز اللہ تعالى كى ذات كو ديكھتا ہے_ اور ذات الہى كے جمال اور كمال مطلق كے مشاہدے ميں غرق رہتا ہے_ اور يہ بھى معلوم رہے كہ خود مقام فناء كے كئي درجات اور مقامات ہيں كہ بہتر يہى ہے كہ يہ مولف ان سے محروم ان مقامات كے بيان كرنے سے احتراز ہى كرے_ خدا ان كو مبارك كرے جو ان مقامات كے اہل ہيں_