188
كمالات انسان كى بنياد ايمان ہے
نفس انسانى كے كمالات تك پہنچنے اور ذات الہى كے قرب كى طرف حركت كرنے كى اساس اور بنياد ايمان اور معرفت ہے ايك كمال تك پہنچنے والے انسان كو اپنے مقصد اور حركت كى غرض و غايت كو اپنے سامنے واضح ركھنا چاہئے اور اسے معلوم ہو كہ وہ كدھر اور كہاں جانا چاہتا ہے اور كس طريقے اور راستے سے وہ حركت كرے ورنہ وہ مقصد تك نہيں پہنچ سكے گا_ اللہ تعالى پر ايمان اس كى حركت كى سمت كو بتلاتا ہے اور اس كے مقصد اور غرض كو واضح كرتا ہے_ جو لوگ خدا پر ايمان نہ ركھتے ہونگے وہ صراط مستقيم كے طے كرنے سے عاجز اور ناتواں ہونگے_ خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' جو لوگ اللہ تعالى اور قيامت پر ايمان نہيں ركھتے وہ سيدھے راستے سے منحرف ہيں_(339)
نيز اللہ تعالى فرماتا ہے بلكہ وہ لوگ كہ جو آخرت كے عالم پر ايمان نہيں ركھتے وہ كمال كے عالم سے دور ہوا كرتے اور صرف ماديات اور اپنے نفس كى حيوانى خواہشات كے پورا كرنے ميں لگے رہتے ہيں_(340) اسى لئے اس كا مقصد اور غرض سوائے مادى جہان كے اور كچھ نہيں ہوتا وہ كمال كے راستے پر ہى نہيں ہے تا كہ قرب الہى تك پہنچنے كا اس كے لئے كوئي امكان باقى ہو اس كے حركت كى سمت صرف دنيا ہے اور انسانيت كے صراط مستقيم كے مرتبے سے دور ہوچكا ہے اگر كافر كوئي اچھا كام بھى كرے تو وہ اس
189
كے نفس كے كامل ہونے اور قرب تك پہنچنے كا وسيلہ نہيں بن سكے گا اس واسطے كہ اس نے اس كام كو خدا اور اس سے قرب حاصل كرنے كے لئے انجام نہيں ديا ہے بلكہ اس كا مقصد دنيا كے لئے اسے انجام دينا تھا كہ جس كا نتيجہ اسے اسى دنيا ميں مل جائے گا اور قيامت كے دن اس كے لئے كوئي اثر نہيں ركھتا ہوگا_
خدا قرآن ميں فرماتا ہے _ '' ان لوگوں كى مثال جو اپنے پروردگار كے كافر ہوئے ہيں ان كے اعمال خاكستر اور راكھ كى طرح ہيں كہ جو ان ميں سخت اندھيرى كے خطرے سے دو چار ہوں اور ادھر ادھر بكھر جائيں اور جسے انہوں نے كمايا ہے اس كى حفاظت كرنے پر قدرت نہيں ركھتے يہى نجات كے راستے سے گمراہ اور دور ہيں_(341)
بہرحال اعمال كى بنياد اور اساس ايمان ہے اور ايمان ہى عمل كو ارزش اور قيمت ديتا ہے اگر مومن كى روح ايمان اور توحيد سے مخلوط ہوئي تو وہ نورانى ہوجائيگى اور خدا كى طرف صعود اور رجوع كرے گى اور پھر نيك عمل بھى اس كى مدد كرے گا_ قرآن مجيد ميں ہے '' جو شخص عزت كا طلبكار تو اسے معلوم ہونا چاہئے كہ تمام عزت خدا كے پاس ہے_ توحيد كا اچھا كلمہ خدا كى طرف بلند ہوتا ہے اور نيك عمل اسے اوپر لے جاتا ہے_(342)
نيك عمل انسان كى روح كو بلندى پر لے جاتا ہے اور قرب الہى كے مقام تك پہنچا ديتا ہے اور پاك و پاكيزہ اور خوشمنا زندگى اس كے لئے فراہم كرتا ہے ليكن اس كى شرط يہ ہے كہ ايمان ركھتا ہو_ بغير ايمان كے روح تا ريك اور ظلمانى ہے اور قرب الہى اور پاك و پاكيزہ زندگى كى لياقت نہيں ركھتى قرآن مجيد ميں ہے_ ''جو بھى نيك عمل انجام دے خواہ مرد ہو يا عورت ايسى حالت ميں كہ ايمان ركھتا ہو ہم اسے پاك و پاكيزہ زندگى كے لئے زندہ كريں گے_(343)
لہذا كمال حاصل كرنے والے انسان كو پہلے اپنے ايمان كو قوى كرنے كى كوشش كرنى چاہئے كہ جتنا اس كا ايمان قوى تر ہوگا اتنا ہى وہ قوى درجات كمال كو حاصل كر سكے گا_ قرآن فرماتا ہے كہ '' خدا تم ميں سے جو ايمان ركھتا ہوا سے بالا اور بلند لے جاتا
190
ہے اور ان كو جو علم ركھتے ہوں بلند كرتا ہے خدا اس سے كو جو تم انجام ديتے ہو عالم اور آگاہ ہے_(344)
191
تكامل اور قرب حاصل كرنيكے اسباب
نفس كى تكميل اور قرب خدا كئي ايك وسيلے اور ذريعے سے حاصل كيا جا سكتا ہے كہ ان ميں مہم ترين كى طرف ہم اشارہ كريں گي_
1_ ذكر خدا_ 2_ فضائل اور مكارم اخلاق كى تربيت_ 3 _ نيك عمل_ 4_ جہاد اور شہادت_ 5_ احسان اور خدمت خلق خدا_ 6_ دعا_ 7_ روزہ_ كہ ان تمام كو يہا_ں بيان كريں گے_
پہلا وسيلہ
ذكر خدا
ذكر كو نفس كى اندرونى اور باطنى قرب الہى كى طرف حركت كرنے كا نقطہ آغاز جانتا چاہئے_ قرب كى طرف حركت كرنے والا انسان ذكر كے ذريعے مادى دنيا سے بالاتر ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ عالم صفا اور نورانيت ميں قدم ركھتا ہے اور كامل سے كامل
192
تر ہوتا جاتا ہے يہاں تك كہ اللہ تعالى كے قرب كا مقام حاصل كر ليتا ہے _ اللہ تعالى كى ياد اور ذكر عبادات كى روح اور احكام كے تشريع كرنے كى بزرگترين غرض اور غايت ہے_ اور ہر عبادت كى قدر و قيمت اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنے كيوجہ سے ہوا كرتى ہے_ آيات اور احاديث ميں اللہ كے ذكر اور ياد كى بہت زيادہ سفارش كى گئي ہے_ جيسے قرآن مجيد ميں ہے كہ '' جو لوگ ايمان لے آئے ہيں وہ اللہ كے ذكر كو بہت زيادہ كرتے ہيں_(345)
نيز فرماتا ہے كہ '' عقلمند وہ انسان ہيں كہ جو قيام و قعود يعنى اٹھتے بيٹھتے ہوتے جاگتے خدا كو ياد كرتے ہيں اور زمين اور آسمان كى خلقت ميں فكر كرتے ہيں اور كہتے ہيں_ اے پروردگار اس عظيم خلقت كو تو نے بيہودہ اور بيكار پيدا نہيں كيا تو پاك اور پاكيزہ ہے ہميں دوزخ كے عذاب سے محفوظ ركھنا_(346)
خداوند عالم فرماتا ہے كہ '' جس نے اپنے نفس كو پاك كيا اور اللہ تعالى كو ياد كيا اور نماز پڑھى وہى نجات پاگيا_(347) خدا فرماتا ہے _ اپنے پروردگار كا نام صبح اور شام ليا كرو_(348)
نيز فرمايا هے که اپنے خالق کو زياده ياد کياگر اور اس کي صبح اور شام تسبيح کيالر _ (249)
اور نيز فرمايا ہے كہ '' جب تم نے نماز پڑھ لى ہو تو خدا كو قيام او رقعود اور سونے كے وقت ياد كيا كر_(350)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص اللہ تعالى كا ذكر زيادہ كرے خدا اسے بہشت ميں اپنے لئے لطف و كرم كے سائے ميں قرار دے گا_ (351)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ '' جتنا ہو سكتا ہے خدا كو ياد كيا كرو_ دن اور رات كے ہر وقت ميں_ كيونكہ خداوند عالم نے تمہيں زيادہ ياد كرنے كا حكم ديا ہے_ خدا اس مومن كو ياد كرتا ہے جو اسے ياد كرے اور جان لو كہ كوئي مومن بندہ خدا كو ياد نہيں كرتا مگر خدا بھى اسے اچھائي ميں ياد كرتا ہے_(352)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خداوند عالم نے حضرت موسى عليہ السلام كو فرمايا كہ دن اور رات ميں مجھے زيادہ يا د كيا اور ذكر كرتے وقت خشوع اور
193
خضوع كرنے والا اور مصيبت كے وقت صبر كرنے والا اور مجھے ياد كرنے كے وقت آرام اور سكون ميں ہوا كر_ ميرى عبادت كر اور ميرا شريك قرار نہ دے تم تمام كى برگشت اور لوٹنا ميرى طرف ہى ہوگا_ اے موسى مجھے اپنا ذخيرہ بنا اور نيك اعمال كے خزانے ميرے سپرد كر_(352)
ايك اور جگہ امام جعفر صادق نے فرمايا ہے كہ ہر چيز كى كوئي نہ كوئي حد اور انتہا ہوتى ہے مگر خدا كے ذكر كے لئے كوئي حد اور انتہا نہيں ہے_ خدا كى طرف سے جو واجبات ہيں _ ان كے بجالانے كى حد ہے_ رمضان المبارك كا روزہ محدود ہے_ حج بھى محدود ہے كہ جسے اس كے موسوم ميں بجالانے سے ختم ہوجاتا ہے_ مگر اللہ كے ذكر كے لئے كوئي حد نہيں ہے اور اللہ تعالى نے تھوڑے ذكر كرنے پر اكتفاء نہيں كى پھر آپ نے يہ آيت پڑھي_
يا ايہا الذين امنوا ذكروا اللہ ذكر كثيرا و سبحوہ بكرة و اصيلا_ ايمان والو اللہ تعالى كا بہت زيادہ ذكر كيا كرو اور اس كى صبح اور شام تسبيح كيا كرو_ اللہ تعالى نے اس آيت ميں ذكر كے لئے كوئي مقدار اور حد معين نہيں كى آپ نے اس كى بعد فرمايا كہ ميرے والد بہت زيادہ ذكر كيا كرتے تھے_ ميں آپ كے ساتھ راستے ميں جا رہا تھا_ تو آپ ذكر الہى ميں مشغول تھے اگر آپ كے ساتھ كھانا كھاتا تھا تو آپ ذكر الہى كيا كرتے تھے يہاں تك كہ آپ لوگوں كے ساتھ بات كر رہے ہوتے تھے تو اللہ تعالى كے ذكر سے غافل نہ ہوتے تھے اور ميں ديكھ رہا ہوتا تھا كہ آپ كى زبان مبارك آپ كے دھن مبارك كے اندر ہوتى تھى تو آپ لا الہ الا اللہ فرما رہے ہوتے تھے_ صبح كى نماز كے بعد ہميں اكٹھا بٹھا ديتے اور حكم ديتے كہ دن نكلتے تك ذكر الہى كرو_ اور پھر آپ نے فرمايا كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ كيا ميں تمہيں بہترين عمل كى خبر نہ دوں جوہر عمل سے پہلے تمہارے درجات كو بلند كر دے ؟ اور خدا كے نزديك تمام چيزوں سے زيادہ پاكيزہ اور پسنديدہ ہو؟ اور تمہارے لئے در ہم اور دينار سے بہتر ہو يہاں تك كہ خدا كى راہ ميں جہاد سے بھى افضال ہو؟ عرض
194
كيا يا رسول اللہ _ ضرور فرمايئےآپ نے فرمايا كہ اللہ تعالى كا ذكر زيادہ كيا كرو پھر امام عليہ السلام نے فرمايا كہ ايك آدمى نے رسول خدا كى خدمت ميں عرض كى كہ مسجد والوں ميں سب سے زيادہ بہتر كون ہے؟ آپ نے فرمايا كہ جو دوسروں سے زيادہ اللہ تعالى كا ذكر كرے_ پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص ذكر كرنے والى زبان ركھتا ہو اس كو دنيا اور آخرت كى خير عطاء كى جا چكى ہے_(354)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ '' قرآن كى تلاوت كر اور اللہ تعالى كا ذكر بہت زيادہ كر تيرے لئے ذكر كا اجز آسمان ميں ہوگا اور زمين ميں تيرے لئے نور ہوگا_(355)
امام حسن عليہ السلام نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے نقل كيا ہے كہ '' آپ نے فرمايا ہے كہ جنت كے باغات كى طرف سبقت اور جلدى كرو اصحاب نے عرض كيا كہ بہشت كے باغ كون ہيں؟ آپ نے فرمايا ذكر كے حلقے اور دائرے_(356)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو غافل لوگوں ميں اللہ تعالى كے فكر كرنے والا ہو تو گويا وہ جہاد سے بھاگنے والوں كے درميان مجاہد ہے اور اس طرح كے مجاہد كے لئے بہشت واجب ہے_(357)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمايا ہے كہ '' بہشت كہ باغوں سے استفادہ كرو_ عرض كيا گيا_ يا رسول اللہ _ بہشت كے باغ كيا ہيں؟ آپ(ص) نے فرمايا كہ ذكر كى مجالس_ صبح شام اللہ كا ذكر كرو_ جو شخص چاہتا ہے كہ خدا كے ہاں اپنى قدر اور منزل معلوم كرے تو ديكھے كہ خدا كى قدر اور منزلت اس كے نزديك كيا ہے كيونكہ خدا اپنے بندے كو اس مقام تك پہنچاتا ہے كہ جس مقام كو بندے نے خدا كے لئے اختيار كر ركھا ہے اور جان لو كہ تمہارے اعمال ميں سے بہترين عمل خدا كے نزديك اور اعمال ميں پاكيزہ ترين عمل جوہر ايك عمل سے بہتر ہو اور تمہارے درجات كو بلند كرے اور تمہارے لئے اس سے بہتر ہو كہ جس پر سورج چمكتا ہے وہ اللہ تعالى كا ذكر ہے_(358)
195
يہ آيات اور روايات كہ جو بطور نمونہ ذكر ہوتى ہيں ان سے ذكر الہى كى قدر اور قيمت كو آپ نے معلوم كر ليا ہے_ اب يہ ديكھا جائے كہ ذكر خدا سے مراد كيا ہے؟
ذكر خدا كا مراد
يہ معلوم ہوچكا ہے كہ اللہ تعالى كا ذكر عبادت ميں سے ايك بڑى عبادت ہے اور نفس كے پاك و پاكيزہ اور اس كى تكميل اور سير و سلوك الى اللہ كا بہترين وسيلہ ہے اب ديكھيں كہ ذكر خدا سے جو آيات اور روايات ميں وارد ہوا ہے كيا مراد ہے_ كيا اس سے مراد يہى لفظى ذكر مثل سبحان و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ يا اس سے مراد كوئي اور چيز ہے؟ كيا يہ الفاظ بغير باطنى توجہ كے اتنا بڑا اثر ركھتے ہيں يا نہ؟
لغت ميں ذكر كے معنى لفظى ذكر كے بھى آئے ہيں كہ جو زبان سے كئے جاتے ہيں اور توجہ قلب اور حضور باطن كے معنى بھى آئے ہيں احاديث ميں بھى ذكر ان دو معنوں ميں استعمال ہوا ہے_ حديث ميں آيا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے مناجات كرتے وقت عرض كى كہ '' اے خالق_ اس كى جزاء اور ثواب كہ جس نے تجھے زبان اور دل ميں ياد كيا ہو كيا ہے؟ جواب آيا اے موسي(ع) ميں اسے قيامت ميں عرش كے سايہ اور اپنى پناہ ميں قرار دونگا_359) '' اس حديث كو ديكھيں تو معلوم ہوگا كہ اس ميں ذكر لفظى جو زبان پر ہوتا ہے اور قلبى ذكر دونوں ميں استعمال ہوا ہے اور دوسرى بہت سى روايات موجود ہيں كہ جن ميں ذكر ان دونوں ميں استعمال ہوا ہے ليكن غالبا اور اكثر ذكر كو توجہ قلبى اور حضور باطنى ميں استعمال كيا گيا ہے اور حقيقى اور كامل ذكر ابھى يہى ہوا كرتا ہے_ خدا كے ذكر سے مراد ايك ايسى حالت ہے كہ خدا كو روح كے لحاظ سے ديكھ رہا ہو اور باطن ميں جہاں كے خالق كى طرف اس طرح متوجہ ہو كہ خدا كو حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ كو خدا كے سامنے جانے جو شخص اس طرح كى حالت ميں خدا كو ياد كرتا ہو تو و ہ اللہ تعالى كے احكام پر عمل كرے گا اور واجبات كو بجالائيگا اور حرام چيزوں كو ترك كرے گا_ اس معنى كے لحاظ سے اللہ كا ذكر آسان ہے_ امام جعفر صادق
196
عليہ السلام نے فرمايا ہے '' سب سے مشكل ترين عمل كہ جو ہر شخص سے نہيں ہو سكتا_ تين ہيں اپنے آپ سے لوگوں كو اس طرح انصاف دينا اور عدل كرنا كہ را ضى نہ ہو دوسروں كے لئے وہ چيز كہ جس كو وہ خود اپنے لئے پسند نہيں كرتا_
2_ مومن بھائي كے ساتھ مال ميں مساوات اور غمگسارى كرنا_ 3_ ہر حالت ميں اللہ تعالى كا ذكر كرنا_
ذكر سے فقط سبحا ن اللہ اور لا الہ اللہ مراد نہيں ہے بلكہ اللہ تعالى كا ذكر يہ ہے كہ جب كوئي واجب كام سامنے آئے تو اسے بجالائے اور جب حرام كام سامنے ائے تو اسے ترك كرے_( 360)
رسولخدا نے فرمايا كہ '' تين چيزيں ايسى ہيں جو اس امت كے لئے بلند و بالا اور مشكل ہيں_ 1_ مومن بھائي كے ساتھ مال ميں مساوات اور برابرى اور غمگساري_ 2_ اپنے آپ سے لوگوں كو انصاف دينا_ 3_ تمام حالات ميں خدا كا ذكر_ يہاں ذكر سے مراد سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ نہيں ہے بلكہ ذكر سے مراد انسان كا خدا كو اس طرح ياد كرنا ہے كہ جب كوئي حرام كام سامنے آئے تو خدا سے ڈرے اور اسے ترك كردے_ (361)
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خدا كا سہو اور غفلت ميں ذكر نہ كر اور اسے فراموش نہ كر_ اللہ تعالى كا كامل ذكر اس طرح كر كہ تيرا دل اور زبان ايك دوسرے كے ہمراہ ہوں تيرا باطن اور ظاہر ايكدوسرے كے مطابق ہو تو اللہ تعالى كا حقيقى ذكر سوائے اس حالت كے نہيں كرسكتا مگر تب جب كہ تو ذكر كى حالت ميں اپنے نفس كو فراموش كردے اور بالاخرہ تو اپنے آپ كو نہ پائے_ (362)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے جو شخص حقيقتاً اللہ تعالى كى ياد ميں ہو گاہ وہ اللہ كا مطيع اور فرمانبردار ہوگا جو شخص اللہ سے غافل ہوگا وہ اللہ كى معصيت اور نافرمانى كرے گا_ اللہ تعالى كى اطاعت ہدايت كى علامت ہے اور اللہ تعالى كى نافرمانى گمراہى كى نشانى ہے_ ذكر اور غفلت معصيت اور اطاعت كى بنياد ميں ہے_ ''
لہذا اپنے دل كو قبلہ قرار دے اور زبان كو سوائے دل كے حكم اور عقل اور
197
رضا الہى كى موافقت كے حركت نہ دے كيونكہ اللہ تيرے باطن ظاہر سے آگاہ ہے اس شخص كى طرح ہو كہ جس كى روح قبض ہو رہى يا اس شخص كى طرح جو اعمال كے حساب دينے ميں اللہ تعالى كے حضور كھڑا ہے_ اپنے نفس كو سوائے الہى احكام كے جو تيرے لئے بہت اہم ہيں_ يعنى اوامر اور نواہى الہى اور اس كے وعدے اور عہد كے علاوہ كسى ميں مشغول نہ كر حزن اور ملال كے پانى سے اپنے دل كو دھوئے اور پاك و پاكيزہ كرے_ جب كہ خدا تجھے ياد كرتا ہے تو تو بھى خدا كو ياد كر كيونكہ خدا نے تجھے اس حالت ميں ياد كيا كہ وہ تجھ سے بے نياز ہے اسى لئے خدا كا تجھے ياد كرنا زيادہ ارزش اور قيمت ركھتا ہے اور زيادہ لذيذ اور كاملتر ہے اور تيرے ياد كرنے سے بہت پہلے ہے_
تيرى اللہ تعالى كى صفت اور اس كا ذكر تيرے لئے خضوع اور حياء اور اس كے سامنے تواضع كا موجب ہوگا اور اس كا نتيجہ اس كے فضل اور كرم كا مشاہدہ ہے اس حالت ميں اگر تيرى اطاعت زيادہ بھى ہوئي تو وہ اللہ تعالى كے عطاء كے مقابلے ميں كم ہوگى لہذا اپنے اعمال كو صرف خدا كے لئے بجالا_ اگر اپنے خدا كے ذكر كرنے كو بڑا سمجھے تو يہ ريا اور خودپسندى جہالت اور لوگوں سے بداخلاقى اپنى عبادت كو بڑا قرار دينے اور اللہ تعالى كے فضل و كرم سے غفلت كا موجب ہوگا_ اس طرح كا ذكر سوائے اللہ تعالى سے دور ہونے كے اور كوئي ثمر اور نتيجہ نہيں دے گا اور زمانے كے گذرجانے سے سوائے غم اور اندوہ كے كوئي اور اثر نہيں ركھے گا_ اللہ تعالى كا ذكر دو قسم پر تقسيم ہوجاتا ہے_ ايك خالص ذكر كہ جس ميں دل بھى ہمراہى كر رہا ہو_ دوسرا وہ ذكر جو غير خدا كى ياد كى نفس كرديتا ہو جيسے كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ ميں تيرى مدح نہيں كرسكتا تو اس طرح ہے كہ جس طرح تو نے اپنى صفت خود بيان كى ہے_
لہذا رسول خدا نے اپنے ذكر كى كوئي وقعت اور ارزش قرار نہيں دى كيونكہ اس مطلب كى طرف متوجہ تھے كہ بندے كا خدا كے ذ كر كرنے پر اللہ تعالى كا بندے كا ذكر
198
كرنا مقدم ہے لہذا وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے كمتر ہيں وہ اپنے اللہ كے ذكر كو ناچيز اور معمولى قرار دينے كے زيادہ سزاوار ہيں لہذا جو شخص اللہ تعالى كا ذكر كرنا چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے كہ جب تك اللہ اسے توفيق نہ دے اور خود بندے كو ياد نہ كرے وہ اللہ كے ذكر كرنے پر قدرت نہيں ركھے سكتا_ (363)
جيسے كہ ملاحظہ كر رہے ہيں ان روايات ميں قلبى توجہ اور باطنى حضور كو ذكر كرنے كا مصداق بتلايا گيا ہے نہ صرف قلبى خطور اور بے اثر ذہنى تصور كو بلكہ باطنى حضور جو يہ اثر دكھلائے كہ جس كى علامتوں ميں سے اوامر اور نواہى الہى كى اطاعت كو علامت قرار ديا گيا ہے ليكن يہ اس امر كى دليل نہيں ہے كہ لفظى اور زبانى ذكر و اذكارش لا الہ الا اللہ سبحان اللہ الحمد و غيرہ كے اللہ كے حقيقى ذكر كا مصداق نہيں ہيں بلكہ خود يہ كلمات بھى اللہ تعالى كے ذكر كا ايك مرتبہ اور درجہ ہيں علاوہ اس كے كہ يہ اذكار بھى قلب اور دل سے پھوٹتے ہيں_
جو شخص ان لفظى اذكار كو زبان پر جارى كرتا ہے وہ بھى دل ميں گرچہ كم ہى كيوں نہ ہو خدا كى طرف توجہ ركھتا ہے اس لئے كہ وہ خدا كى طرف توجہ ركھتا تھا تب ہى تو اس نے ان اذكار كو زبان پر جارى كيا ہے_ اسلام كى نگاہ ميں ان كلمات اور اذكار كا كہنا بھى مطلوب ہے اور ثواب ركھتا ہے ليكن شرط يہ ہے كہ قصد قربت سے ہوں جيسے كہ ظاہرى نماز انہيں الفاظ اور حركات كا نام ہے كہ جس كے بجالانے كا ہميں حكم ديا گيا ہے گرچہ نماز كى روح قلب كا حضور اور باطنى توجہ ہے_
ذكر كے مراتب
ذكر كے لئے كئي ايك مراتب اور درجات ہيں كہ سب سے كمتر مرتبہ اور درجہ لفظى اور ززبانى ذكر سے شروع ہوتا ہے يہاں تك كہ وہ انقطاع كامل اور شہود اور فتا تك جا پہنچتا ہے_
199
پہلا درجہ
پہلے درجے ميں چونكہ ذكر كرنے والا خدا كى طرف توجہ كرتا ہے اور قصد قربت سے خاص اور مخصوص زبان پر بغير معانى سمجھے اور متوجہہ ہوئے جار ى كرديتا ہے_
دوسرا درجہ _
قصد قربت سے ذكر كرتا ہے اور ذكر كرنے كى حالت ميں ان كے معانى كو بھى ذہن ميں خطور ديتا ہے_
تيسرا درجہ
زبان قلب كى پيروى كرتى ہے اور ذكر كہتى ہے اس معنى ميں كہ جب دل خدا كى طرف توجہہ كرتا ہے اور اپنے باطن ذات ميں ان اذكار كے معانى پر ايمان ركھتا ہے تو پھر وہ زبان كو حكم ديتا ہے كہ وہ خدا كا ذكر شروع كردے_
چوتھا درجہ
خدا كى طرف رجوع كرنے والا انسان خالق جہان كے بارے ميں حضور قلبى اور توجہ كامل ركھتا ہے اور اسے حاضر اور ناظر اور اپنے آپ كو اس ذات كے سامنے حاضر ديكھتا ہے_ خدا كى طرف رجوع كرنے والے انسان اس حالت ميں درجات ركھتے ہيں اور مختلف ہوتے ہيں بعض كاملتر ہيں جتنى مقدار غير خدا سے قطع قطع كرے گا اتنى ہى مقدار خدا سے مانوس اور اس سے علاقمند ہوگا يہاں تك كہ انقلاع كامل اور لقاء اور فتاء كى حد تك پہنچ جائيگا_ اس درجے ميں خدا كى طرف رجوع كرنے والا انسان اعلى ترين درجے پر ہوتا ہے_ اس كے سامنے دنيا كے حجاب اٹھ جاتے ہيں_ اور غير حقيقى اور مجازى علاقہ اور ربط اس نے ختم كرديئے ہوتے ہيں اور خيرات اور كمال كے مركز سے متصل ہوجاتا ہے لہذا اس كے سامنے تمام چيزيں يہاں تك كہ وہ اپنى ذات كو كبھي
200
چھوڑ كر خدا كى طرف رجوع كرتا ہے_ غير خدا سے قطع روابط ركھتا ہے اور صرف ذات الہى سے اپنى محبت كو مختص كرديتا ہے_ سوائے خدا كے اور كوئي كمال نہيں ديكھتا تا كہ اس سے دل كو لگائے اور وابستہ كرے كسى كو مونس نہيں ديكھتا تا كہ اس سے انس اور محبت كرے_ اس طرح كے خاص بندوں نے عظمت اور جلال و كمال او رخير اور نور و ايمان كے سرچشمہ كو پاليا ہوتا ہے اور اپنى باطنى آنكھ سے جمال الہى كا مشاہدہ كر رہے ہوتے ہيں_ يہاں تك كہ ايك لحظہ بھى وہ دنيا كى مجازى چيزوں كى طرف متوجہ نہيں ہوتے اور انہيں ا پنا دل نہيں ديتے چونكہ وہ كمالات كے منبع تك پہنچ چكے ہيں لہذا ان كى نگاہ ميں مجازى اور عارضى كمالات كوئي حيثيت نہيں ركھتے وہ اللہ تعالى كے لقاء اور عشق اور محبت ميں جلتے رہتے ہيں اور خدا سے انس اور محبت كى لذت كو دنياوى چيزوں سے تبادلہ نہيں كرتے اور اگر جہاں كى ظاہرى چيزوں كو بھى ديكھتے ہيں تو اس ميں بھى نو رجمال الہى اور وجود كامل كى نشانى اور علامت كا عكس مشاہدہ كرتے ہيں_ (364)
امام حسين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' كس طرح تيرے وجود كے ثابت كرنے كے لئے اس چيز سے استدلال كيا جائے كہ جو وہ خود تيرى محتاج ہے؟ كيا تيرے غير كے لئے ظہور ہے جو تيرى ذلت كے لئے موجود نہيں ہے تا كہ تو اس كے ظہور كے ذريعے ظاہر كيا جائے؟ كب تو دور تھا تا كہ آثار اور علائم تيرے تك پہنچنے كے اسباب بن سكيں؟ وہ آنكھ اندھى ہے جو تجھے اپنا مراقب اور مشاہدہ كرنے والا نہيں ديكھتي؟ كتنا نقصان ميں ہے وہ بندہ كہ جسے تو نے اپنى محبت سے كچھ حصہ نہيں ديا؟_(365)
اميرالمومنين عليہ السلام شعبانيہ مناجات ميں فرماتے ہيں_ '' اے خدا پورى طرح اپنے ميں غرق اور كامل ہونے كو مجھے عطا كر اور ميرے دل كى آنكھوں كو اپنے جمال كے نور كے مشاہدہ كرنے كا نور عطا فرما تا كہ ميرے دل كى آنكھيں نور كے حجاب كو پار كر كے تيرى عظمت تك پہنچ جائيں اور ہمارى روحيں تيرے مقام قدس سے جا وصل ہوں_( 366)
201
امام زين العابدين عليہ السلام اس طرح كے خاص بندوں كے حق ميں يوں ارشاد فرماتے ہيں:
'' خدايا تير ى ثناء اور تعريف جو تيرے لائق اور سزاوار ہے زبان سے بيان كرنے ميں وہ تيرے بندے عاجز ہيں تيرى ذات كے جمال حقيقت تك پہنچنے سے وہ عاجز ہيں_ تيرے جمال كے انوار كو ديكھنے كى آنكھيں قدرت نہيں ركھتى _ تو اپنے بندوں كے لئے تيرى معرفت كے مقام تك پہنچنے كے لئے سوائے عجز كے اظہار كے اور كچھ نہيں ركھا_ خدايا ہميں ان بندوں سے قرار دے كہ تيرے لقاء كے شوق كا پودا جن كے دلوں ميں بويا گيا ہے_ اور محبت كى آتش نے ان كى دلوں كو گھير ركھا ہے لہذا وہ عالى افكار كے آشيانہ ميں اترتے ہيں اور مقام قرب و شہود الہى كے باغات سے نعمتيں حاصل كرتے ہيں اور محبت كے چشمے سے لطف و كرم كے جام پيتے ہيں_ صفا اور محبت اور مودت كے چشمہ ميں وارد ہوتے ہيں_ ان كے دل كى آنكھوں سے پردہ اٹھ گيا ہے اور عقائد ميں شك و ترديد اور تاريكى ان كے دلوں سے دور ہوگئي ہے اور ان كے دلوں ميں شك كا گذر زائل ہوچكا ہے_ تحقيق كے ذريعے ان كے دلوں كى معرفت نے وسعت پيدا كرلى ہے_ اور زہد كى دوڑ لگانے ميں ان كى ہمت بلند ہوچكى ہے_ خدا كے ساتھ معاملہ كرنے ميں پسنديدہ خاطر ہوتے ہيں اور خدا كے ساتھ انس كى مجلس ميں پاكيزہ باطن ركھتے ہيں اور خوف كے مقامات ميں امن اور آرام كا راستہ موجود پاتے ہيں اور اپنے پروردگار كى طرف رجوع كرنے ميں مطمئن نفس ركھتے ہيں_ سعادت اور نجات كے راستے ميں يقين كے مرتبہ تك پہنچے ہوئے ہيں_ محبوب كے مشاہدہ كرنے ميں ان كى آنكھيں روشن ہيں اور اس كے پانے ميں كہ جس كى اميد كرتے باطنى آرام اور اطمينان ركھتے ہيں_ دنيا كے معاملات ميں آخرت كے لئے فائدہ حاصل كيا_ اے خدا_ تيرے ذكر كے الہام كے تصورات دلوں پر كتنے لذت آور ہوتے ہيں_ اور تيرى طرف غيب كے تفكر كے ذريعے آنے ميں كتنا مٹھاس اور شرينى ہے_ اور تيرى محبت كا طعام كتنا مزے دار ہے_
202
اور تيرے قرب كا پانى كتنا لذيذ اور خوشگوار ہے_ ہميں دور كرنے او رنكال ديئےانے سے پناہ دے اور ہميں مخصوص تر عارف اور اپنے بندوں ميں صالح ترين بندہ اور اطاعت كرنے ميں صادق ترين اور عبادت كرنے والوں ميں خالص ترين عبادت كرنے والا قرار دے_ اے بزرگتر اور عظيم اور كريم اور احسان كرنے والا خدا_ تجھے تيرى عطا اور رحمت كى قسم_ اے ارحم الرحمين_'' (367)
خلاصہ چوتھا مرتبہ اور مقام بہت ہى عالى اور بلند و بالا ہے اور پھر اس كے كئي ايك درجات اور مراتب ہيں جو ذات مقدس واجب الوجود اور كمال و جمال غير متناہى تك جاتے ہيں_ اہل اللہ اور عارفين كى اصطلاح ميں ان كے مختلف نام ہيں جيسے مقام ذكر مقام انس مقام انقطاع مقام محبت، مقام شوق، مقام رضا، مقام خوف، مقام شہود، مقام عين اليقين، مقام حق اليقين، اور آخرى مقام جسے مقام فنا نام ديتے ہيں يہ تعبيرات اكثر آيات اور احاديث سے لى گئي ہيں او رہر ايك نام كى كچھ نہ كچھ مناسبت بھى ہے_
جب عارف اور عبادت گذار واجب الوجود ذات الہى كے جمال اور عظمت غير متناہى كى طرف توجہ كرے اور اس كى محبت اور فيوضات كو سامنے ركھے اور اپنى تقصير اور ناتوانى اور مقام اعلى تك نہ پہنچنے كى مسافت سے دور ہونے كا احساس كرے تو پھر اس كے دل ميں شوق اور عشق سوز اور گداز پيدا ہوتا ہے تو اس كيفيت اور مقام كا نام شوق كا مقام ديا جاتا ہے_ جب كمالات كے درجات اور مقامات پر كوئي پہنچ جائے تو وہ انہيں درجات اور معلومات سے انس كرنے لگتا ہے اور خوش اور شاد ہوجاتا ہے تو اسى مناسبت سے اس درجے اور رتبے كو مقام انس سے تعبير كرتے ہيں اور جب عظمت اور كمال غير متناہى ذات الہى كى طرف توجہ كرے اور اس عظمت كے مقام كے پانے ميں اپنى كمزورى اور عجز اور قصور پر مطلع اور واقف ہو تو اس كا دل لرزتا او ردكھتا ہے اس كے تمام وجود پر خوف اور ڈر چھاجاتا ہے تو پھر وہ گريہ و زارى كرنے لگتا ہے تو اسى مناسبت سے اس حالت كا نام مقام خوف ركھ ديا جاتا ہے_ اسى طرح باقى تمام مقامات كسى نہ كسى انسان كى كيفيت اور حالت كى مناسبت سے ركھے جاتے ہيں_
203
بہتر يہى ہے كہ يہ ناچيز بندہ جو يہ كتاب لكھ رہا ہے او رجو خواہشات نفس اور مادى تاريكيوں اور ظلمات كا قيدي_ مقامات معنوى كے حاصل كرنے سے محروم ہے اس بحر بيكراں ميں وارد نہ ہو اور ان مقامات عاليہ كى شرح اور توضح انہيں لوگوں كے لئے چھوڑ دے جو اس كى قابليت اور اہليت ركھتے ہيں كيونكہ جس نے محبت اور انس اور لقاء اللہ كا ذائقہ ہى نہ چكا ہو وہ ان مقامات عاليہ كى توضيح اور تشريح سے عاجز اور ناتوان ہوگا_ نيكوں كو دوست ركھتا ہوں اگر چہ انہيں سے نہيں ہوں_
خدايا ہميں اپنے ذكر كى حلاوت عنايت فرما اور ہميں حالات چكھنے والے افراد سے قرار دے يہاں بہتر ہوگا كہ جو اس كے اہل تھے ان كى بات اور گفتگو كو نقل كيا جائے_ عارف ربانى فيلسوف عالى ملاصدرا شيرازى لكھتے ہيں_ اگر كسى بندے پر اللہ تعالى كى رحمت كے سائے پڑ جائيں تو وہ خواب غفلت اور جہالت سے بيدار ہوجاتا ہے اور جان ليتا ہے كہ اس محسوس جہان كے علاوہ بھى كوئي دوسرا جہان ہے_ حيوانى لذت سے اعلى اور بھى لذات ہيں تو اس حالت ميں وہ باطل اور بے ارزش امور سے روگردانى كرليتا ہے اور گناہوں كے ارتكاب سے اللہ تعالى سے توبہ كرتا ہے پھر اللہ تعالى كى آيات اور نشانيوں ميں فكر اور غور شروع كرديتا ہے اور مواعظ الہى كو سنتا ہے اور پيغمبر اكرم كى احاديث ميں غور كرتا ہے اور شرعيت كے مطابق عمل كرتا ہے اور آخرت كے كمالات حاصل كرنے كے لئے دنيا كے لغويات اور فضوليات جيسے جاہ و جلال مقام و منصب مال اور متاع سے دستبردار ہوجاتا ہے اور اگر اس سے زيادہ اللہ كى رحمت اس كے شامل حال ہوجائے تو حتمى ارادہ كرليتا ہے كہ غير خدا سے چشم پوشى كرے اور اللہ تعالى كى جانب حركت كرے اور خواہش نفس كے مقام كو چھوڑ كر اللہ تعالى كى طرف حركت كرے اس حالت ميں اس پر اللہ تعالى كے انوار ملكوتى ظاہر ہو جاتے ہيں او رعالم غيب كا دروازہ اس كے لئے كھل جاتا ہے اور عالم قدس كے صفحات آہستہ آہستہ اس كے لئے آشكار ہوجاتے ہيں اور غيبى امور كى مثالى صورت ميں مشاہدہ كرتا ہے جب وہ امور غيبى كے مشاہدے كى لذت كو چكھ لے تو پھر خلوت او ر دائمى ذكر
204
كرنے سے علاقمند ہوجاتا ہے اس كا دل حسى مشاغل سے خالى ہوجاتا ہے اور تمام وجود كے ساتھ اللہ تعالى كى طرف توجہ پيدا كرليتا ہے_ اس حالت ميں اس پر علوم لدنى آہستہ آہستہ اترنے لگتے ہيں اور معنوى انوار كبھى كبھى اس كے لئے ظاہر ہونے لگتے ہيں يہاں تك كہ كامل تمكن اور تحقق حاصل كرليتا ہے_ تلون مزاجى اور تغير دور ہو جاتى ہے اور آرام اور سكون اس پر نازل ہوجاتا ہے اس حالت ميں وہ عالم جبروت ميں وارد ہوجاتا ہے اور عقول مفارقہ كا مشاہدہ كرتا ہے او ران كے انوار سے نورانى ہوجاتا ہے اور اس كے لئے قدرت اور سلطان الہى اور عظمت اور كبرياء كا نور آشكار ہوجاتا ہے اور اس كى انانيت اور وجود كو متلاشى اور ھباء منشوارا كرديتا ہے اور ذات احديت كى عظمت اور قدرت كے سامنے ساقط ہوجاتا ہے اس حالت اور مقام كو مقام احديت كہا جاتا ہے اور اغيار سالك كى نگاہ ميں مستہلك ہوجاتے ہيں اور لمن الملك اليوم الواحد القہار كى آواز كوسنتا ہے_ (368)
عارف ربانى ملا فيض كاشانى لكھتے ہيں كہ خدائي محبت اور اس كى تقويت اور رويت خدا اور اس كے لقاء كے لئے اسباب مہيا كرنے كا طريقہ معرفت اور اس كو تقويت دينا ہوا كرتا ہے_ معرفت حاصل كرنے كا طريقہ قلب كو دنياوى علائق اور مشاغل اور كامل طور پر انقطاع الى اللہ كا وسيلہ اور ذريعہ صرف ذكر اور فكر اور غير خدا كى محبت كو دل سے نكالنا ہے_ كيونكہ دل ايك برتن كى مانند ہے_ اگر برتن پانى سے بھرا ہوا ہو تو پھر اس ميں سركہ ڈالنے كى گنجائشے نہيں ہوتى پانى كو برتن سے خالى كيا جائے تا كہ اس ميں سركہ ڈالا جاسكے_ خداوند كريم نے كسى كے لئے دو دل پيدا نہيں كئے كامل محبت يوں ہوگى كہ سارے دل ميں خدا كو دوست ركھے جب غير خدا كى طرف توجہ ركھے گا تو دل كا كچھ حصہ غير خدا ميں مشغول ہوگا پس انسان جتنا غير خدا كے ساتھ مشغول رہے گا اتنى مقدار خدا كى محبت ميں كمى واقع ہوگى مگر غير خدا كى طرف توجہ اس نيت سے ہو كہ وہ بھى خدا كى مخلوق اور خدا كا فعل ہے اور ہ اللہ تعالى كے اسماء اور صفات كا مظہر ہے_ خدا نے قرآن مجيد ميں اسى مطلب كى طرف اشارہ كيا ہے
205
قل اللہ ثم ذرہم يہ حالت شوق كے غلبہ سے حاصل ہوتى ہے بايں معنى كہ انسان كو شش كر
ے كہ جو كچھ اس كے لئے آشكار ہوا ہے اس سے زيادہ آشكار ہو اور اس كى طرف جو اسے ابھى تك حاصل نہيں ہوا ہے شوق پيدا كرے كيونكہ شوق اس چيز سے متعلق ہوتا ہے كہ كوئي چيز كچھ آشكار ہو اور كچھ آشكا رنہ ہو ہميشہ ان دو ميں رہے گا كہ جس كى كوئي انتہا نہيں ہے اس واسطے كہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہيں ان كى كوئي انتہا نہيں ہے اس واسطے كہ جو درجات اور مراتب اسے حاصل ہوئے ہيں ان كى كوئي انتہا نہيں ہے اسى طرح خدا كے كمال اور جمال جو باقى ہيں ان كى زيادتى كا كوئي كنارہ نہيں_ بلكہ وصال كے حاصل ہوجانے سے وہ لذت بخش شوق كا احساس كرتا ہے كہ جس ميں كوئي الم اور درد نہيں ہوا كرتا پس شوق كبھى بھى ختم نہيں ہوتا بالخصوص جب بہت سے بالا درجا كو مشاہدہ كرتا ہے_ يسعى نورہم بين ايديہم و بايمانہم يقولون ربنا اتمم لنا نورنا_ (369)
|