170
توبہ يا نفس كو پاك و صاف كرنا
نفس كو پاك اور صاف كرنے كا بہتريں راستہ گناہوں كا نہ كرنا اور اپنے آپ كو گناہوں سے محفوظ ركھنا ہے اگر كوئي شخص گناہوں سے بالكل آلودہ نہ ہو اور نفس كى ذاتى پاكى اور صفا پر باقى رہے تو يہ اس شخص سے افضل ہے جو گناہ كرنے كے بعد توبہ كر لے_ جس شخص نے گناہ كا مزہ نہيں چكھا اور اس كى عادت نہيں ڈالى يہ اس شخص كى نسبت سے جو گناہوں ميں آلودہ رہا ہے اور چاہتا ہے كہ گناہوں كو ترك كردے بہت آسانى سے اور بہتر طريقے سے گناہوں سے چشم پوشى كر سكتا ہے اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''گناہ كا ترك كردينا توبہ كے طلب كرنے سے زيادہ آسان ہے_(312)
ليكن جو انسان گناہوں سے آلودہ ہوجائيں انہيں بھى اللہ تعالى كى رحمت سے نااميد نہيں ہونا چاہئے كيونكہ اللہ تعالى كى طرف رجوع كرنے كا راستہ كسى وقت بھى بند نہيں ہوتا بلكہ مہربان اللہ تعالى نے گناہگاروں كے لئے توبہ كا راسنہ ہميشہ لے لئے كھلا ركھا ہوا ہے اور ان سے چاہا ہے كہ وہ اللہ تعالى كى طرف پلٹ آئيں اور توبہ كے پانى سے نفس كو گناہوں كى گندگى اور پليدى سے دھوڈاليں_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے '' ميرے ان بندوں سے كہ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے كہہ دو كہ وہ اللہ تعالى كى رحمت سے مايوس نہ ہوں كيونكہ خدا تمام گناہوں كو بخش دے گا اور وہ بخشنے والا مہربان ہے_(313)
171
نيز خدا فرماتا ہے كہ '' جب مومن تيرے پاس آئيں تو ان سے كہہ دے كہ تم پر سلام ہو_ خدا نے اپنے اوپر رحمت اور مہربانى لازم قرار دے دى ہے_ تم ميں سے جس نے جہالت كى وجہ سے برے كام انجام ديئے اور توبہ كرليں اور خدا كى طرف پلٹ آئيں اور اصلاح كرليں تو يقينا خدا بخشنے والا مہربان ہے_ (314)
توبہ كى ضرورت
گمان نہيں كيا جا سكتا كہ گناہگاروں كے لئے توبہ كرنے سے كوئي اور چيز لازمى اور ضرورى ہو جو شخص خدا پيغمبر قيامت ثواب عقاب حساب كتاب بہشت دوزخ پر ايمان ركھتا ہو وہ توبہ كے ضرورى اور فورى ہونے ميں شك و ترديد نہيں كرسكتا_
ہم جو اپنے نفس سے مطلع ہيں اور اپنے گناہوں كو جانتے ہيں تو پھر توبہ كرنے سے كيوں غفلت كريں؟ كيا ہم قيامت اور حساب اور كتاب اور دوزخ كے عذاب كا يقين نہيں ركھتے؟ كيا ہم اللہ كہ اس وعدے ميں كہ گناہگاروں كو جہنم كى سزا دونگا شك اور ترديد ركھتے ہيں؟ انسان كا نفس گناہ كے ذريعے تاريك اور سياہ اور پليد ہوجاتا ہے بلكہ ہو سكتا ہے كہ انسان كى شكل حيوان كى شكل ميں تبديل ہوجائے پس كس طرح جرت ركھتے ہيں كہ اس طرح كے نفس كے ساتھ خدا كے حضور جائيں گے اور بہشت ميں خدا كے اوليا' كے ساتھ بيٹھيں گے؟ ہم گناہوں كے ارتكاب كرنے كى وجہ سے اللہ تعالى كے صراط مستقيم كو چھوڑ چكے ہيں اور حيوانيت كى وادى ميں گر چكے ہيں_ خدا سے دور ہوگئے ہيں اور شيطن كے نزديك ہوچكے ہيں اور پھر بھى توقع ركھتے ہيں كہ آخرت ميں سعادتمند اور نجات يافتہ ہونگے اور اللہ كى بہشت ميں اللہ تعالى كى نعمتوں سے فائدہ حاصل كريں گے يہ كتنى لغو اور بے جا توقع ہے؟ لہذا وہ گناہگار جو اپنى سعادت كى فكر ركھتا ہے اس كے لئے سوائے توبہ اور خدا كى طرف پلٹ جانے كے اور كوئي راستہ موجود نہيں ہے_
172
يہ بھى اللہ تعالى كى ايك بہت بڑى مہربانى اور لطف اور كرم ہے كہ اس نے اپنے بندوں كے لئے توبہ كا راستہ كھلا ركھا ہوا ہے زہر كھلايا ہوا انسان جو اپنى صحت كے بارے ميں فكر مند ہے كسى بھى وقت زہر كے نكالے جانے اور اس كے علاج ميں تاخير اور ترديد كو جائز قرا ر نہيں ديتا كيونكہ وہ جانتا ہے كہ اگر اس نے دير كى تو وہ ہلاك ہوجائيگا جب كہ انسان كے لئے گناہ ہر زہر سے زيادہ ہلاك كرنے والا ہوتا ہے_ عام زہر انسان كى دنياوى چند روزہ زندگى كو خطرے ميں ڈالتى ہے تو گناہ انسان كو ہميشہ كى ہلاكت ميں ڈال ديتا ہے اور انسان كى آخرت كى سعادت كو ختم كر ديتا ہے اگر زہر انسان كو دنيا سے جدائي ديتى ہے تو گناہ انسان كو خدا سے دور كرديتا ہے_ اور اللہ تعالى سے قرب اور لقاء كے فيض سے محروم كر ديتا ہے لہذا تمہارے لئے ہر ايك چيز سے توبہ اور انابہ زيادہ ضرورى اور فورى ہے كيونكہ ہمارى معنوى سعادت اور زندگى اس سے وابستہ ہے_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے '' مومنو تم سب اللہ تعالى كى طرف توبہ كرو_ شايد نجات حاصل كر لو_(315)
خدا ايك اور مقام ميں فرماتا ہے ''مومنو خدا كى طرف توبہ نصوح كرو شايد خدا تمہارے گناہوں كو مٹا دے اور تمہيں بہشت ميں داخل كردے كہ جس كے درختوں كے نيچے نہريں جارى ہيں_(316)
پيغمبر خدا نے فرمايا ہے كہ '' ہر درد كے لئے دوا ہوتى ہے_ گناہوں كے لئے استغفار اور توبہ دوا ہے_(317)
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ہر انسان كے دل يعنى روح ميں ايك سفيد نقطہ ہوتا ہے جب وہ گناہ كا ارتكاب كرتا ہے تو اس سفيد نقطہ ميں سياہى وجود ميں آجاتى ہے اگر اس نے توبہ كر لى تو وہ سياہى مٹ جاتى ہے اور اگر گناہ كو پھر بار بار بجلاتا رہا تو آہستہ آہستہ وہ سياہ نقطہ زيادہ ہوتا جاتا ہے يہاں تك كہ وہ اس سارے سفيد نقطہ پر چھا جاتا ہے اس وقت وہ انسان پھر نيكى كى طرف نہيں پلٹتا يہى مراد اللہ
173
تعالى كے اس فرمان ميں كلا بل ران عن قلوبہم بما كانوا يكسبون_(318)يعنى ان كے دلوں پر اس كى وجہ سے كہ انہوں نے انجام ديا ہے زنگ چڑھ جاتا ہے_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے _ '' توبہ كو دير ميں كرنا ايك قسم كا غرور اور دھوكہ ہے اور توبہ ميں تاخير كرنا ايك طرح كى پريشانى اور حيرت ہوتى ہے_ خدا كے سامنے عذر تراشنا موجب ہلاكت ہے_ گناہ پر اصرار كرنا اللہ تعالى كے عذاب اور سزا سے مامون ہونے كا احساس ہے جب كہ اللہ تعالى كے عذاب سے مامون ہونے كا احسان نقصان اٹھانے والے انسان ہى كرتے ہيں_(319)
بہتر ہے كہ ہم ذرا اپنے آپ ميں فكر كريں گذرے ہوئے گناہوں كو ياد كريں اور اپنى عاقبت كے بارے ميں خوب سوچيں اور اپنے سامنے حساب و كتاب كے موقف ميزان اعمال خدا قہار كے سامنے شرمندگى فرشتوں اور مخلوق كے سامنے رسوائي قيامت كى سختى دوزخ كے عذاب اللہ تعالى كى لقاء سے محروميت كو مجسم كريں اور ايك اندرونى انقلاب كے ذريعے اللہ تعالى كى طرف لوٹ آئيں اور توبہ كے زندگى دينے والے پانى سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں كو دھوئيں اور نفس كى پليدى اور گندگى كو دور كريں اور حتمى ارادہ كر ليں كہ گناہوں سے كنارہ كشى كريں گے_ اور آخرت كے سفر اور ذات الہى كى ملاقات كے لئے مہيا ہوجائيں گے ليكن اتنى سادگى سے شيطن ہم سے دستبردار ہونے والا نہيں ہے؟ كيا وہ توبہ اور خدا كى طرف لوٹ جانے كى اجازت دے ديگا؟
وہى شيطن جو ہميں گناہوں كے ارتكاب كرنے پر ابھارتا ہے وہ ہميں توبہ كرنے سے بھى مانھ ہوگا گناہوں كو معمولى اور كمتر بتلائے گا وہ گناہوں كو ہمارے ذہن سے ايسے نكل ديتا ہے كہ ہم ان تمام كو فراموش كرديتے ہيں_ مرنے اور حساب اور كتاب اور سزاى فكر كو ہمارے مغز سے نكال ديتا ہے اور اس طرح ہميں دنيا ميں مشغول كرديتا ہے كہ كبھى توبہ نور استغفار كى فكر ہى نہيں كرتے اور اچانك موت سرپر آجائے گى اور پليد اور كثيف نفس كے ساتھ اس دنيا سے چلے جائيں گے_
174
توبہ كا قبول ہونا
اگر درست توبہ كى جائے تو وہ يقينا حق تعالى كے ہاں قبول واقع ہوتى ہے اور يہ بھى اللہ تعالى كے لطف و كرم ميں سے ايك لطف اور مہربانى ہے_ خداوند عالم نے ہميں دوزخ اور جہنم كے لئے پيدا نہيں كيا_ بلكہ بہشت اور سعادت كے لئے خلق فرمايا ہے پيغمبروں كو بھيجا ہے تا كہ لوگوں كو ہدايت اور سعادت كے راستے كى رہنمائي كريں اور گناہگار بندوں كو توبہ اور اللہ تعالى كى طرف رجوع كرنے كى دعوت ديں توبہ اور استغفار كا دروازہ تمام بندوں كے لئے كھلا ركھا ہوا ہ ے پيغمبر ہميشہ ان كو اس كى طرف دعوت ديتے ہيں_ پيغمبر(ص) اور اولياء خدا ہميشہ لوگوں كو توبہ كى طرف بلاتے ہيں_ خداوند عالم نے بہت سى آيات ميں گناہگار بندوں كو اپنى طرف بلايا ہے اور وعدہ كيا ہے كہ ان كى توبہ كو قبول كرے گا اور اللہ كا وعدہ جھوٹا نہيں ہوا كرتا_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار نے سينكٹروں احاديث ميں لوگوں كو خدا كى طرف پلٹ آنے اور توبہ كرنے كى طرف بلايا ہے اور انہيں اميد دلائي ہے_ جيسے_
اللہ تعالى فرماتا ہے كہ '' وہ خدا ہے جو اپنے بندوں كى توبہ كو قبول كرتا ہے اور ان كے گناہوں كو بخش ديتا ہے اور جو كچھ تم انجام ديتے ہو اس سے آگاہ ہے_ (320)
اللہ تعالى فرماتا ہے كہ '' ميں بہت زيادہ انہيں بخشنے والا ہوں جو توبہ كريں اور ايمان لے آئيں اور نيك اعمال بجالائيں اور ہدايت پاليں_(321)
اگر خدا كو ياد كريں اور گناہوں سے توبہ كريں_ خدا كے سوا كون ہے جو ان كے گناہوں كو بخش دے گاہ اور وہ جو اپنے برے كاموں پر اصرار نہيں كرتے اور گناہوں كى برائي سے آگاہ ہيں يہ وہ لوگ ہيں كہ جن كے اعمال كى جزا بخشا جانا اور ايسے باغات ہيں كہ جن كے درميان نہريں جارى ہيں اور ہميشہ كے لئے وہاں زندگى كريں گے اور عمل كرنے والوں كے لئے ايسے جزا كتنى ہى اچھى ہے_(322)
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' گناہوں سے توبہ كرنے والا اس شخص كي
175
طرح ہے كہ جسنے كوئي گناہ ہى نہ كيا ہو اور جو گناہوں كو بجالانے پر اصرار كرتا ہے اور زبان پر استغفار كے كلمات جارى كرتا ہے يہ مسخرہ كرنے والا ہوتا ہے_(323) اس طرح كى آيات اور روايات بہت زيادہ موجود ہيں لہذا توبہ كے قبول كئے جائے ميں كوئي شك اور ترديد نہيں كرنا چاہئے بلكہ خداوند عالم توبہ كرنے والے كو دوست ركھتا ہے_ قرآن مجيد ميں فرماتا ہے '' يقينا خدا توبہ كرنے والے اور اپنے آپكو پاك كرنے والے كو دوست ركھتا ہے_(324) امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اللہ تعالى كا اس بندہ سے جو توبہ كرتا ہے خوشنود ہونا اس شخص سے زيادہ ہوتا ہے كہ جو تاريك رات ميں اپنے سوارى كے حيوان اور زاد راہ اور توشہ كو گم كرنے كے بعد پيدا كر لے_(325)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جب كوئي بندہ خالص توبہ اور ہميشہ كے لئے كرے تو خداوند عالم اسے دوست ركھتا ہے اور اللہ تعالى اس كے گناہوں كو چھپا ديتا ہے_ راوى نے عرض كى _ اے فرزند رسول صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اللہ تعالى كس طرح گناہوں كو چھپا ديتا ہے؟ آپ نے فرمايا ہے كہ وہ دو فرشتے جو اس كے اعمال كو لكھتے ہيں اس كے گناہ كو بھول جاتے ہيں اور اللہ تعالى اس كے اعضاء اور جوارح زمين كے نقاط كو حكم ديتا ہے كہ توبہ كرنے والے بندے كے گناہوں كو چھپا ديں ايسا شخص خدا كے سامنے جائيگا جب كہ كوئي شخص اور كوئي چيز اس كے گناہوں كى گواہ نہ ہوگي_(326)
توبہ كيا ہے؟
گذرے ہوئے اعمال اور كردار پر ندامت اور پشيمانى كا نام توبہ ہے اور ايسے اس شخص كو توبہ كرنے والا كہا جا سكتا ہے جو واقعا اور تہہ دل سے اپنے گذرے ہوئے گناہوں پر پشيمان اور نادم ہو_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ پشيمان اور ندامت توبہ ہے_(327)
يہ صحيح اور درست ہے كہ خداوند عالم توبہ كو قبول كرتا اور گناہوں كو بخش ديتا ہے ليكن صرف زبان سے استغفراللہ كا لفظ كہہ دينا يا صرف پشيمانى كا اظہار كر دينا يا گريہ
176
كر لينا دليل نہيں ہے كہ وہ واقعا تہ دل سے توبہ كر چكا ہے بلكہ تين علامتوں كے ہونے سے حقيقى اور واقعى توبہ جانى جاتى ہے_
پہلے تو تہہ دل سے دل ميں گذرے گناہوں سے بيزار اور متنفر ہوا اور اپنے نفس ميں غمگين اور پشيمان اور شرمندہ ہو دوسرے حتمى ارادہ ركھتا ہو كہ پھر آئندہ گناہوں كو بجا نہيں لائے گا_
تيسرے اگر گناہ كے نتيجے ميں ايسے كام انجام ديئے ہوں كہ جن كا جبران اور تدارك كيا جا سكتا ہے تو يہ حتمى ارادہ كرے كہ اس كا تدارك اور جبران كرے گا اگر اس كى گردن پر لوگوں كا حق ہو اگر كسى كا مال غضب كيا ہے يا چورى كى ہے يا تلف كر ديا ہے تو پہلى فرصت ميں اس كے ادا كرنے كا حتمى ارادہ كرے اور اگر اس كے ادا كرنے سے عاجز ہے تو جس طرح بھى ہو سكے صاحب حق كو راضى كرے اور اگر كسى كى غيبت اور بدگوئي كى ہے تو اس سے حليت اور معافى طلب كرے اور اگر كسى پر تجاوز اور ظلم و ستم كيا ہے تو اس مظلوم كو راضى كرے اور اگر مال كے حق زكواة خمس و غيرہ كو نہ ديا و تو اسے ادا كرے اور اگر نماز اور روزے اس سے قضا ہوئے ہوں تو ان كى قضا بجالائے اس طرح كرنے والے شخص كو كہا جا سكتا ہے كہ واقعا وہ اپنے گناہوں پر پشيمان ہوگيا اور اس كى توبہ قبول ہوجائيگي_ ليكن جو لوگ توبہ اور استغفار كے كلمات اور الفاظ تو زبان پر جارى كرتے ہيں ليكن دل ميں گناہ سے پشيمان اور شرمندہ نہيں ہوتے اور آئندہ گناہ كے ترك كرنے كا ارادہ بھى نہيں ركھے يا ان گناہوں كو كہ جن كا تدارك اور تلافى كى جانى ہوتى ہے ان كى تلافى نہيں كرتے اس طرح كے انسانوں نے توبہ نہيں كى اور نہ ہى انہيں اپنى توبہ كے قبول ہوجانے كى اميد ركھنى چاہئے گرچہ وہ دعا كى مجالس او رمحافل ميں شريك ہوتے ہوں اور عاطفہ رقت كيوجہ سے متاثر ہو كر آہ و نالہ گريہ و بكاء بھى كر ليتے ہوں_
ايك شخص نے حضرت اميرالمومنين عليہ السلام كے سامنے استغفار كے كلمات زبان پر جارى كئے تو آنحضرت نے فرمايا '' تيرى ماں تيرى عزاء ميں بيٹھے كيا جانتے ہو كہ
177
استغفار او توبہ كيا ہے؟ توبہ كرنا بلند لوگوں كا مرتبہ ہے توبہ اور استغفار چھ چيزوں كا نام ہے_ 1_ گذرے ہوئے گناہوں پر پشيمانى ہونا_ 2_ ہميشہ كے لئے گناہ كے ترك كرنے كا ارادہ كرنا_3_ لوگوں كے حقوق كو ادا كرنا كہ جب تو خدا كے سامنے جائے تو تيرى گردن پر لوگوں كا كوئي حق نہ ہو_ 4_ پورى طرح سے متوجہ ہو كہ جس واجب كو ترك كيا ہے اسے ادا كرے_ 5_ اپنے گناہوں پر اتنا غمناك ہو كہ وہ گوشت جو حرام كے كھانے سے بنا ہے وہ ختم ہوجائے اور تيرى چمڑى تيرى ہڈيوں پر چمٹ جائے اور پھر دوسرا گوشت نكل آئے گا_ 6_ اپنے نفس كو اطاعت كرنے كى سختى اور مشقت ميں ڈالے جيسے پہلے اسے نافرمانى كى لذت اور شيرينى سے لطف اندوز كيا تھا ان كاموں كے بعد تو يہ كہے كہ استغفر اللہ )328) تو گويا يہ پھر توبہ حقيق ہے_ گناہ شيطن اتنا مكار اور فريبى ہے كہ كبھى انسان كو توبہ كے بارے ميں بھى دھوكا دے ديتا ہے_ ممكن ہے كہ كسى گنہگار نے وعظ و نصيحت يا دعا كى مجلس ميں شركت كى اور مجلس يا دعا سے متاثر ہوا اور اس كے آنسو بہنے لگے يا بلند آواز سے رونے لگا اس وقت اسے شيطن كہتا ہے كہ سبحان اللہ كيا كہنا تم ميں كيسى حالت پيدا ہوئي_ بس يہى تو نے توبہ كرلى اور تو گناہوں سے پاك ہوگيا حالانكہ نہ اس كا دل گناہوں پر پشيمان ہوا ہے اور نہ اس كا آئندہ كے لئے گناہوں كے ترك كردينے كا ارادہ ہے اور نہ ہى اس نے ارادہ كيا ہے كہ لوگوں اور خدا كے حقوق كو ادا كرے گا اس طرح كا تحت تاثير ہوجانا توبہ نہيں ہوا كرتى اور نہ ہى نفس كے پاك ہوجانے اور آخرت كى سعادت كا سبب بنتا ہے اس طرح كا كا شخص نہ گناہوں سے لوٹا ہے اور نہ ہى خدا كى طرف پلٹا ہے_
جن چيزوں سے توبہ كى جانى چاہئے
گناہ كيا ہے اور كس گناہ سے توبہ كرنى چاہئے؟ اس سوال كا جواب يہ ہے كہ ہر وہ چيز جو اللہ تعالى كى طرف جانے اور سير و سلوك سے مانع ہو اور دنيا سے علاقمند كر دے اور توبہ كرنے سے روكے ركھے وہ گناہ ہے اور اس سے پرہيز كرنا چاہئے اور نفس
178
كو اس سے پاك كرنا چاہئے گناہ دو قسم پر ہوتے ہيں_ 1_ اخلاقى گناہ_ 2_ عملى گناہ_
1 _ اخلاقى گناہ
برے اخلاق اور صفات نفس كو پليد اور كثيف كر ديتے ہيں اور انسانيت كے صراط مستقيم كے راستے پر چلنے اور قرب الہى تك پہنچنے سے روك ديتے ہيں_ برى صفات اگر نفس ميں رسوخ كر ليں اور بطور عادت اور ملكہ كے بن جائيں تو ذات كے اندر كو تبديل اور تغير كر ديتے ہيں يہاں تك كہ انسانيت كے كس درج پر رہے اسے بھى متاثر كرديتے ہيں_ اخلاقى گناہوں كو اس لحاظ سے كہ اخلاقى گناہ ہيں معمولى اور چھوٹا اور غير اہم شمار نہيں كرنا چاہئے اور ان سے توبہ كرنے سے غافل نہيں ہونا چاہئے بلكہ نفس كو ان سے پاك كرنا ايك ضرورى اور زندگى ساز كام ہے_ برے اخلاق نام ہے_ ريائ، نفاق، غضب، تكبر، خودبيني، خودپسندي، ظلم، مكر و فريب و غيبت، تہمت نگانا، چغلخوري، عيب نكالنا، وعدہ خلافي، جھوٹ حب دنيا حرص اور لالچ، بخيل ہونا حقوق والدين ادا نہ كرنا، قطع رحمي_ كفر ان نعمت ناشكري، اسراف، حسد، بدزبانى گالياں دينا اور اس طرح كى دوسرى برى صفات اور عادات
سينكٹروں روايات اور آيات ان كى مذمت اور ان سے ركنے اور ان كے آثار سے علاج كرنے اور ان كى دنياوى اور اخرى سزا كے بارے ميں وارد ہوئي ہيں_ اخلاقى كتابوں ميں ان كى تشريح اور ان كے بارے ميں بحث كى گئي ہے_ يہاں پر ان كے بارے ميں بحث نہيں كى جا سكتي_ اخلاقى كتابوں اور احاديث ميں ان كے بارے ميں رجوع كيا جا سكتا ہے_
2_ عملى گناہ
عملى گناہوں ميں سے ايك چورى كرنا_ كسى كو قتل كرنا_ زناكاري، لواطت، لوگوں كا مال غصب كرنا، معاملات ميں تقلب كرنا، واجب جہاد سے بھاگ جانا_
179
امانت ميں خيانت كرنا، شراب اور نشہ آور چيز كا پينا، مردار گوشت كھانا، خنزير اور دوسرے حرام گوشت كھانا، قمار بازي، جھوٹى گواہى دينا، بے گناہوں لوگوں پر زنا كى تہمت لگانا، واجب نمازوں كو ترك كرنا، واجب روزے نہ ركھنا، حج نہ كرنا، امر بہ معروف اور نہى منكر كو ترك كرنا، نجس غذا كھانا، اور دوسرے حرام كام جو مفصل كتابوں ميں موجود ہيں كہ جن كى تشريح اور وضاحت يہاں ممكن نہيں ہے_ يہ تو مشہور گناہ ہيں كہ جن سے انسان كو اجتناب كرنا چاہئے اور اگر بجالايا ہو تو ان سے توبہ كرے اور اللہ كى طرف رجوع كرے ليكن كچھ گناہ ايسے بھى ہيں جو مشہور نہيں ہيں اور انہيں گناہوں كے طور پر نہيں بتلايا گيا ليكن وہ اللہ كے برگزيدہ بندوں اور اولياء خدا كے لئے گناہ شمار ہوتے ہيں جيسے مستحبات كا ترك كر دينا يا مكروہات كا بجالانا بلكہ گناہ كے تصور كو او رذات الہى سے كسى غير كى طرف توجہہ كرنے كو اور شيطانى وسوسوں كو جو انسان كو خدا سے غافل كر ديتے ہيں_ يہ تمام اولياء خدا اور اس كى صفات اور افعال كى پورى اور كامل معرفت نہ ركھنے كو جو ہر ايك انسان كے لئے ممكن نہيں ہے اللہ تعالى كے خاص منتخب بندوں كے لئے گناہ شمار ہوتے ہيں اور ان سے وہ توبہ كرتے رہتے تھے بلكہ اس سے بالا تر ذات الہى اور اس كى صفات اور افعال كى پورى اور كامل معرفت نہ ركھنے كو ج و ہر ايك انسان كے لئے ممكن نہيں ہے اللہ تعالى اور اس طرح كے نقص كے احساس سے ان كے جسم پر لرزہ طارى ہوجاتا تھا اور گريہ نالہ و زارى سے خدا كى طرف رجوع كرتے تھے اور توبہ اور استغفار كرتے تھے_ پيغمبروں اور ائمہ اطہار كے توبہ كرنے كو اسى معنى ميں ليا جانا چاہئے_ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ رسو ل خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ہر روز ستر دفعہ استغفار كرتے تھے جبكہ آپ پر كوئي گناہ بھى نہيں تھا_(329) رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ '' كبھى ميرے دل پر تاريكى عارض ہوتى تھى تو اس كے لئے ميں ہر روز ستر دفعہ استغفار كيا كرتا تھا_(330)
|