خودسازي
یعنی
تزكيه و تهذيب نفس
1_ مشارطہ اور عہد لينا
نفس كے حساب كو اس طرح شروع كريں دن كى پہلى گھڑى ميں ہر روز كے كاموں كے انجام دينے سے پہلے ايك وقت مشارطہ كے لئے معين كرليں مثال كے طور پر صبح كى نماز كے بعد ايك گوشہ ميں بيٹھ جائيں اور اپنے آپ سے گفتگو كريں اور يوں كہيں_ ابھى ميںزندہ ہوں ليكن يہ معلوم نہيں كہ كب تك زندہ رہوں گا_ شايد ايك گھنٹہ يا اس كم اور زيادہ زندہ رہونگا_ عمر كا گذرا ہوا وقت ضائع ہوگيا ہے ليكن عمر كا باقى وقت ابھى ميرے پاس موجود ہے اور يہى ميرا سرمايہ بن سكتا ہے بقيہ عمر كے ہر وقت ميں آخرت كے لئے زاد راہ مہيا كرسكتا ہوں اور اگر ابھى ميرى موت آگئي اور حضرت عزرائيل عليہ السلام ميرى جان قبض كرنے كے لئے آگئے تو ان سے كتنى خواہش اور تمنا كرتا كہ ايك دن ياايك گھڑى اور ميرى عمر ميں زيادہ كيا جائے؟
اے بيچارے نفس اگر تو اسى حالت ميں ہو اور تيرى يہ تمنا اور خواہش پورى كر دى جائے اور دوبارہ مجھے دنيا ميں لٹا ديا گيا تو سوچ كہ تو كيا كرے گا؟ اے نفس اپنے آپ اور ميرے اوپر رحم كر اور ان گھڑيوں كو بے فائدہ ضائع نہ كر سستى نہ كر كہ قيامت كے دن پشيمان ہوگا_
ليكن اس دن پشيمانى اور حسرت كوئي فائدہ نہيں دے گي_ اے نفس تيرى عمر كى ہر گھڑى كے لئے خداوند عالم نے ايك خزانہ برقرار كر ركھا ہے كہ اس ميں تيرے اچھے اور برے عمل محفوظ كئے جاتے ہيں اور تو ان كا نتيجہ اور انجام قيامت كو ديكھے گا اے نفس كوشش كر كہ ان خزانوں كو نيك اعمال سے پر كردے اور متوجہ رہ كر ان خزانوں كو گناہ اور نافرمانى سے پر نہ كرے_ اسى طرح اپنے جسم كے ہر ہر عضو كو مخاطب كر كے ان سے عہد اور پيمان ليں كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہ كريں مثلاً زبان سے كہيں

161
جھوٹ، غيبت، چغلخوري، عيب جوئي، گالياں، بيودہ گفتگو، توہين، ذليل كرنا، اپنى تعريف كرنا، لڑائي، جھگڑا، جھوٹى گواہى يہ سب كے سب برے اخلاق اور اللہ كى طرف سے حرام كئے گئے ہيں اور انسان كى اخروى زندگى كو تباہ كردينے والے ہيں اے زبان ميں تجھے اجازت نہيں ديتا كہ تو ان كو بجالائے_ اے زبان اپنے اور ميرے اوپر رحم كر اور نافرمانى سے ہاتھ اٹھالے كيونكہ تيرے سب كہے ہوئے اعمال كو خزانہ اور دفتر ميں لكھا جاتا ہے اور قيامت كے دن ان كا مجھے جواب دينا ہوگا_ اس ذريعے سے زبان سے وعدہ ليں كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہ كرے_ اس كے بعد اسے وہ نيك اعمال جو زبان بجالاسكتى ہے_ بتلائے جائيں اور اسے مجبور كريں كہ وہ ان كو سارے دن ميں بجالائے مثلاً اس سے كہيں كہ تو فلان ذكر اور كام سے اپنے اعمال كے دفتر اور خزانے كو نور اور سرور سے پر كردے اور آخرت كے جہاں ميں اس كا نتيجہ حاصل كر اور اس سے غفلت نہ كر كہ پيشمان ہوجائيگي_ اسى طرح سے يہ ہر ايك عضو سے گفتگو كرے اور وعدہ لے كہ گناہوں كا ارتكاب نہ كريں اور نيك اعمال انجام ديں_
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے والد بزرگوار سے نقل كيا ہے كہ آپ نے فرمايا كہ '' جب رات ہوتى ہے تو رات اس طرح كى آواز ديتى ہے كہ جسے سوائے جن اور انسان كے تمام موجودات اس كى آواز كو سنتے ہيں وہ آواز يوں ديتى ہے_ اے آدم كے فرزند ميں نئي مخلوق ہوں جو كام مجھ ميں انجام ديئے جاتے ہيں_ ميں اس كى گواہى دونگى مجھ سے فائدہ اٹھاؤ ميں سورج نكلنے كے بعد پھر اس دنيا ميں نہيں آؤنگى تو پھر مجھ سے اپنى نيكيوں ميں اضافہ نہيں كرسكے گا اور نہ ہى اپنے گناہوں سے توبہ كرسكے گا اور جب رات چلى جاتى ہے اور دن نكل آتا ہے تو دن بھى اسى طرح كى آواز ديتا ہے_ (298)
ممكن ہے كہ نفس امارہ اور شيطان ہميں يہ كہے كہ تو اس قسم كے پروگرام پرتو عمل نہيں كرسكتا مگر ان قيود اور حدود كے ہوتے ہوئے زندگى كى جاسكتى ہے؟ كيا ہر روز ايك گھڑى اس طرح كے حساب كے لئے معين كيا جاسكتى ہے؟ نفس امارہ اور شيطن

162
اس طرح كے وسوسے سے ہميں فريب دينا چاہتا ہے اور ہميں حتمى ارادہ سے روكنا چاہتاہے_ ضرورى ہے كہ اس كے مقابلے كے لئے ڈٹ جانا چاہئے اور اسے كہيں كہ اس طرح كا پروگرام پورى طرح سے قابل عمل ہے اور يہ روزمرہ كى زندگى سے كوئي منافات نہيں ركھتا اور چونكہ يہ ميرے نفس كے پاك كرنے اور اخروى سعادت كے لئے ضرورى ہے لہذا مجھے يہ انجام دينا ہوگا اور اتنا مشكل بھى نہيں ہے _ تو اے نفس ارادہ كر لے اور عزم كر لے يہ كام آسان ہوجائيگا اور اگر ابتداء ميں كچھ مشكل ہو تو آہستہ آہستہ عمل كرنے سے آسان ہوجائيگا_

2_ مراقبت
جب انسان اپنے نفس سے مشارطہ يعنى عہد لے چكے تو پھر اس كے بعد ان عہد پر عمل كرنے كا مرحلہ آتا ہے كہ جسے مراقبت كہا جاتا ہے لہذا تمام دن ميں تمام حالات ميں اپنے نفس كى مراقبت اور محافظت كرتے رہيں كہ وہ وعدہ اور عہد جو كر ركھا ہے اس پر عمل كريں_ انسان كو تمام حالات ميں بيدار اور مواظب رہنا چاہئے اور خدا كو ہميشہ حاضر اور ناظر جانے اور كئے ہوئے وعدے كو ياد ركھے كہ اگر اس نے ايك لحظہ بھى غفلت كى تو ممكن ہے كہ شيطن اور نفس امارہ اس كے ارادے ميں رخنہ اندازى كرے اور كئے وعدہ پر عمل كرنے سے روك دے امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' عاقل وہ ہے جو ہميشہ نفس كے ساتھ جہاد ميں مشغول رہے اور اس كى اصلاح كى كوشش كرتارہے اور اس ذريعے اسے اپنے ملكيت ميں قرار دے عقلمند انسان نفس كو دنيا اور جو كچھ دنيا ميں ہے مشغول ركھنے سے پرہيز كرنے والا ہوتا ہے_(299)
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' نفس پر اعتماد كرنا اور نفس سے خوش بين ہونا شيطن كے لئے بہترين موقع فراہم كرتا ہے_(300) نيز آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص نفس كے اندر سے روكنے والا ركھتا ہو تو خداوند عالم كى طرف سے بھى اسكے لئے محافظت كرنے والا معين كيا جاتا ہے_(301)
جو انسان اپنے نفس كا مراقب ہے وہ ہميشہ بيدار اور خدا كى ياد ميں ہوتا ہے وہ

163
اپنے آپ كو ذات الہى كے سامنے حاضر ديكھتا ہے كسى كام كو بغير سوچے سمجھے انجام نہيں ديتا اگر كوئي گناہ يا نافرمانى اس كے سامنے آئے تو فورا اسے اللہ اور قيامت كے حساب و كتاب كى ياد آجاتى ہے اور وہ اسے چھوڑ ديتا ہے اپنے كئے ہوئے عہد اور پيمان كو نہيں بھلاتا اسى ذريعے سے اپنے نفس كو ہميشہ اپنى ملكيت اور كنٹرول ميں ركھتا ہے اور اپنے نفس كو برائيوں اور ناپاكيوں سے روكے ركھتا ہے ايسا كرنا نفس كو پاك كرنے كا ايك بہترين وسيلہ ہے اس كے علاوہ جو انسان مراقبت ركھتا ہے وہ تمام دن واجبات اور مستحبات كى ياد ميں رہتا ہے اور نيك كام اور خيرات كے بجالانے ميں مشغول رہتا ہے اور كوشش كرتا ہے كہ نماز كو فضيلت كے وقت ميں خضوع اور خشوع اور حضور قلب سے اس طرح بجالائے كہ گويا اس كے عمر كى آخرى نماز ہے_ ہر حالت اور ہر كام ميں اللہ كى ياد ميں ہوتا ہے فارغ وقت بيہودہ اور لغويات ميں نہيں كاٹتا اور آخرت كے لئے ان اوقات سے فائدہ اٹھاتا ہے وقت كى قدر كو پہچانتا ہے اور ہر فرصت سے اپنے نفس كے كام كرنے ميں سعى اور كوشش كرتا ہے اور جتنى طاقت ركھتا سے مستحبات كے بجا لانے ميں بھى كوشش كرتا ہے كتنا ہى اچھا ہے كہ انسان بعض اہم مستحب كے بجالانے كى عادت ڈالے _ اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى ياد تو انسان كے لئے ہر حالت ميں ممكن ہوا كرتى ہے_ سب سے مہم يہ ہے كہ انسان اپنے روز مرہ كے تمام كاموں كو قصد قربت اور اخلاص سے عبادت اور سير و سلوك الى اللہ كے لئے قرار دے دے يہاں تك كہ خورد و نوش اور كسب كار اور سونا اور جاگنا نكاح اور ازدواج اور باقى تمام مباح كاموں كو نيت اور اخلاص كے ساتھ عبادت كى جزو بنا سكتا ہے_ كار و بار اگر حلال روزى كمانے اور مخلوق خدا كى خدمت كى نيت سے ہو تو پھر يہ بھى عبادت ہے_ اسى طرح كھانا پينا اٹھنا بيٹھنا سونا اور جاگنا اگر زندہ رہنے اور اللہ كى بندگى كے لئے قرا ردے تو يہ بھى عبادت ہيں_ اللہ كے مخصوص بندے اسى طرح تھے اور ہيں_

3_ اعمال كا حساب
تيسرا مرحلہ اپنے ہر روز كے اعمال كا حساب كرنا ہے ضرورى ہے انسان دن ميں

164
ايك وقت اپنے سارے دن كے اعمال كے حساب كرنے كے لئے معين كرلے اور كتنا ہى اچھا ہے كہ يہ وقت رات كے سونے كے وقت ہو جب كہ انسان تمام دن كے كاموں سے فارغ ہوجاتا ہے اس وقت تنہائي ميں بيٹھ جائے اور خوب فكر كرے كہ آج سارا دن اس نے كيا كيا ہے ترتيب سے دن كى پہلى گھڑى سے شروع كرے اور آخر غروب تك ايك ايك چيز كا دقيق حساب كرے جس وقت ميں اچھے كاموں اور عبادت ميں مشغول رہا ہے تو خداوند عالم كا اس توفيق دينے پر شكريہ ادا كرے اور ارادہ كر لے كہ اسے بجالاتا رہے گا_ اور جس ميں وقت گناہ اور معصيت كا ارتكاب كيا ہے تو اپنے نفس كو سرزنش كرے اور نفس سے كہے كہ اے بدبخت اور شقى تو نے كيا كيا ہے؟ كيوں تو نے اپنے نامہ اعمال كو گناہ سے سياہ كيا ہے؟ قيامت كے دن خدا كا كيا جواب دے گا؟ خدا كے آخرت ميں دردناك عذاب سے كيا كرے گا؟ خدا نے تجھے عمر اور صحت اور سلامتى اور موقع ديا تھا تا كہ آخرت كے لئے زاد راہ مہيا كرے تو اس نے اس كى عوض اپنے نامہ اعمال كوگناہ سے پر كر ديا ہے_ كيا يہ احتمال نہيں ديتا تھا كہ اس وقت تيرى موت آپہنچے؟ تو اس صورت ميں كيا كرتا؟ اے بے حيا نفس _ كيوں تو نے خدا سے شرم نہيں كي؟
اے جھوٹے اور منافق _ تو تو خدا اور قيامت پر ايمان ركھنے كا ادعا كرتا تھا كيوں تو كردار ميں ايسا نہيں ہوتا_ پھر اس وقت توبہ كرے اور ارادہ كر لے كہ پھر اس طرح كے گناہ كا ارتكاب نہيں كرے گا اور كزرے ہوئے گناہوں كا تدارك كرے گا_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص اپنے نفس كو گناہوں اور عيوب پر سرزنش كرے تو وہ گناہوں كے ارتكاب سے پرہيز كر لے گا_( 302)
اگر انسان محسوس كرے كہ نفس سركش اور نافرمانى كر رہا ہے اور گناہ كے ترك كرنے اور توبہ كرنے پر حاضر نہيں ہو رہا تو پھر انسان كو بھى نفس كا مقابلہ كرنا چاہئے اور اس پر سختى سے پيش آنا چاہئے اس صورت ميں ايك مناسب كام كو وسيلہ بنائے مثلا

165
اگر اس نے حرام مال كھايا ہے يا كسى دوسرى نافرمانى كو بجالايا ہے تو اس كے عوض كچھ مال خدا كى راہ ميں دے دے يا ايك دن يا كئي دن روزہ ركھ لے_ تھوڑے دنوں كے لئے لذيز غذا يا ٹھنڈا، پاني، پينا، چھوڑدے، يا دوسرے لذائذ كے جسے نفس چاہتا ہے اس كے بجالانے سے ايك جائے يا تھوڑے سے وقت كے لئے سورج كى گرمى ميں كھڑا ہو جائے بہرحال نفس امارہ كے سامنے سستى اور كمزورى نہ دكھلائے ور نہ وہ مسلط ہوجائيگا اور انسان كو ہلاكت كى وادى ميں جا پھينكے گا اور اگر تم اس كے سامنے سختى اور مقابلہ كے ساتھ پيش آئے تو وہ تيرا مطيع اور فرمانبردار ہوجائيگا اگر كسى وقت ميں نہ كوئي اچھا كام انجام ديا ہو اور نہ كسى گناہ كا ارتكاب كيا ہو تو پھر بھى نفس كو سرزنش اور ملامت كرے اور اسے كہے كہ كس طرح تم نے عمر كے سرمايہ كو ضايع كيا ہے؟ تو اس وقت نيك عمل بجالا سكتا تھا اور آخرت كے لئے زاد راہ حاصل كر سكتا تھا كيوں نہيں ايسا كيا اے بدبخت نقصان اٹھانے والے كيوں ايسى گران قدر فرصت كو ہاتھ سے جانے ديا ہے_ اس دن جس دن پشيمانى اور حسرت فائدہ مند نہ ہوگى پشيمان ہوگا_ اس طريقے سے پورے وقت جيسے ايك شريك دوسرے شريك سے كرتا ہے اپنے دن رات كے كاموں كو مورد دقت اور مواخذہ قرار دے اگر ہو سكے تو اپنے ان تمام كے نتائج كو كسى كاپى ميں لكھ كے_ بہرحال نفس كے پاك و پاكيزہ بنانے كے لئے مراقبت اور حساب ايك بہت ضرورى اور فائدہ مند كام شمار ہوتا ہے جو شخص بھى سعادت كا طالب ہے اسے اس كو اہميت دينى چاہئے گرچہ يہ كام ابتداء ميں مشكل نظر آتا ہے ليكن اگر ارادہ اور پائيدارى كر لے تو يہ جلدى آسان اور سہل ہوجائيگا اور نفس امارہ كنٹرول اور زير نظر ہوجائيگا_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ميں تمہيں عقلمندوں كا عقلمند اور احمقوں كا حق نہ بتلاؤں؟ عرض كيا گيا يا رسول اللہ(ص) _ فرمايئے آپ نے فرمايا سب سے عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس كا حساب كرے اور مرنے كے بعد كے لئے نيك عمل بجالائے اور سب سے احمق وہ ہے كہ جو خواہشات نفس كى پيروى كرے اور دور دراز خواہشوں ميں سرگرم ہے_ اس آدمى نے عرض كي_ يا رسول اللہ(ص) _ كہ

166
انسان كس طرح اپنے نفس كا حساب كرے؟ آپ (ص) نے فرمايا جب دن ختم ہوجائے اور رات ہوجائے تو اپنے نفس كى طرف رجوع كرے اور اسے كہے اے نفس آج كا دن بھى چلا گيا اور يہ پھر لوٹ كے نہيں آئيگا خداوند عالم تجھ سے اس دن كے بارے ميں سوال كرے گا كہ اس دن كو كن چيزوں ميں گذرا ہے اور كونسا عمل انجام ديا ہے؟ كيا اللہ كا ذكر اور اس كى ياد كى ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كا حق ادا كيا ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كا غم دور كيا ہے؟ كيا اس كى غير حاضرى ميں اس كے اہل و عيال كى سرپرستى كى ہے؟ كيا كسى مومن بھائي كى غيبت سے دفاع كيا ہے؟ كيا كسى مسلمان كى مدد كى ہے؟ آج كے دن كيا كيا ہے_ اس دن جو كچھ انجام ديا ہوا ايك ايك كو ياد كرے اگر وہ ديكھے كہ اس نے نيك كام انجام ديئے ہيں تو خداوند عالم كا اس نعمت اور توفيق پر شكريہ ادا كرے اور اگر ديكھے كہ اس نے گناہ كا ارتكاب كيا ہے اور نافرمانى بجالايا ہے تو توبہ كرے اور ارادہ كرلے كہ اس كے بعد گناہوں كا ارتكاب نہيں كرے گا_ اور پيغمبر اور اس كى آل پر درود بھيج كر اپنے نفس كى كثافتوں كو اس سے دور كرے اور اميرالمومنين عليہ السلام كى ولايت اور بيعت كو اپنے نفس كے سامنے پيش كرے اور آپ كے دشمنوں پر لعنت بھيجے اگر اس نے ايسا كرليا تو خدا اس سے كہے گا كہ '' ميں تم سے قيامت كے دن حساب لينے سے سختى نہيں كرونگا كيونكہ تو ميرے اولياء كيساتھ محبت ركھتا تھا اور ان كے د شمنوں سے دشمنى ركھتا تھا_ (303)
امام موسى كاظم عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' وہ ہم ميں سے نہيں ہے جو اپنے نفس كا ہر روز حساب نہيں كرتا اگر وہ اچھے كام انجام دے تو خداوند عالم سے زيادہ توفيق دينے كو طلب كرے اور اگر نافرمانى اور معصيت كا ارتكاب كيا ہو تو استعفا اور توبہ كرے_ (304)
پيغمبر عليہ السلام نے ابوذر سے فرمايا كہ '' غقلمند انسان كو اپنا وقت تقسيم كرنا چاہيئے ايك وقت خداوند عالم كے ساتھ مناجات كرنے كے لئے مخصوص كرے_ اور ايك

167
وقت اپنے نفس كے حساب لينے كے لئے مختص كرلے اور ايك وقت ان چيزوں ميں غور كرنے ے لئے جو خداوند عالم نے اسے عنايت كى ہيں مخصوص كردے_ (305)
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اپنے نفس سے اس كے كردار اور اعمال كے بارے ميں حساب ليا كرو اس سے واجبات كے ادا كرنے كا مطالبہ كرو اور اس سے چاہو كہ اس دنيا فانى سے استفادہ كرے اور آخرت كے لئے زاد راہ اور توشہ بھيجے اور اس سفر كے لئے قبل اس كے كہ اس كے لئے اٹھائے جاو امادہ ہوجاؤ_ (306)
نيز حضرت على عليہ السلام نے فرماياكہ '' انسان كے لئے كتنا ضرورى ہے كہ ايك وقت اپنے لئے معين كرلے جب كہ تمام كاموں سے فارغ ہوچكا ہو_ اس ميں اپنے نفس كا حساب كرے اور سوچے كہ گذرے ہوئے دن اور رات ميں كونسے اچھے اور فائدہ مند كام انجام ديئے ہيں اور كونسے برے نقصان دينے والوں كاموں كو بجالايا ہے_ (307)
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اپنے نفس سے جہاد كر اور اس سے ايك شريك كے مانند حساب كتاب لے اور ايك قرض خواہ كى طرح اس سے حقوق الہى كے ادا كرنے كا مطالبہ كرے كيونكہ سب سے زيادہ سعادتمند انسان وہ ہے كہ جو اپنے نفس كے حساب كے لئے آمادہ ہو_ (308)
على عليہ السلام نے فرمايا كہ '' كہ جو شخص اپنے نفس كا حساب كرے تو وہ اپنے عيبوں سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اپنے گناہوں كو جان جاتا ہے اور ان سے توبہ كرتا ہے اور اپنے عيبوں كى اصلاح كرتا ہے_ (309)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اس سے پہلے كہ قيامت كے دن تمہارا حساب ليا جائے تم اس دنيا ميں اپنا حساب خود كرلو كيونكہ قيامت كے دن پچاس مقامات پر بندوں كا حساب ليا جائيگا اور ہر ايك مقام ميں ہزار سال تك اس كا حساب ليا جاتا رہيگا_ آپ نے اس كے بعد يہ آيت پڑھى وہ دن كہ جس كى مقدار پچاس ہزار سال ہوگي_ (310)
اس بات كى ياد دھانى بہت ضرورى ہے كہ انسان نفس كے حساب كے وقت خود

168
نفس پر اعتماد نہ كرے اور اس كى بابت خوش عقيدہ نہ ہو كيونكہ نفس بہت ہى مكار اور امارہ سو ہے_ سينكڑوں حيلے بہانے سے اچھے كام كو برا اور برے كو اچھا ظاہر كرتا ہے_ انسان كو اپنے بارے اپنى ذمہ دارى كو نہيں سوچنے ديتا تا كہ انسان اس پر عمل پيرا ہو سكے_ گناہ كے ارتكاب اور عبادت كے ترك كرنے كى كوئي نہ كوئي توجيہ كرے گا_ گناہوں كو فراموشى ميں ڈال دے گا اور معمولى بتلائے گا_ چھوٹى عبادت كو بہت بڑا ظاہر كرے گا اور انسان كو مغرور كردے گا_ موت اور قيامت كو بھلا دے گا اور دور دراز اميدوں كو قوى قرار دے گا_ حساب كرنے كو سخت اور عمل نہ كئے جانے والى چيز بلكہ غير ضرورى ظاہر كردے گا اسى لئے انسان كو اپنے نفس كى بارے ميں بدگمانى ركھتے ہوئے اس كا حساب كرنا چائے_ حساب كرنے ميں بہت وقت كرنى چاہئے اور نفس اور شيطن كے تاويلات اور ہيرا پھيرى كى طرف كان نہيں دھرنے چائيں_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اللہ تعالى كى ياد كے لئے كچھ لوگ ہيں كہ جنہوں نے اللہ تعالى كے ذكر كو دنيا كے عوض قرار دے ركھا ہے لہذا ان كو كار و بار اللہ تعالى كے ذكر سے نہيں روكتا_ اپنى زندگى كو اللہ تعالى كے ذكر كے ساتھ گزارتے ہيں_ گناہوں كے بارے قرآن كى آيات اور احاديث غافل انسانوں كو سناتے ہيں اور عدل اور انصاف كرنے كا حكم ديتے ہيں اور خود بھى اس پر عمل كرتے ہيں_ منكرات سے روكتے ہيں اور خودبھى ان سے ركتے ہيں گويا كہ انہوں نے دنيا كو طے كرليا ہے اور آخرت ميں پہنچ چكے ہيں_ انہوں نے اس دنيا كے علاوہ اور دنيا كو ديكھ ليا ہے اور گويا برزخ كے لوگوں كے حالات جو غائب ہيں ان سے آگاہ ہوچكے ہيں_ قيامت اور اس كے بارے ميں جو وعدے ديئے گئے ہيں گويا ان كے سامنے صحيح موجود ہوچكے ہيں_ دنيا والوں كے لئے غيبى پردے اس طرح ہٹا ديتے ہيں كہ گويا وہ ايسى چيزوں كو ديكھ رہے ہوں كہ جن كو دنيا والے نہيں ديكھ رہے ہوتے اور ايسى چيزوں كو سن رہے ہيں كہ جنہيں دنيا والے نہيں سن رہے_ اگر تو ان كے مقامات عاليہ اور ان كى مجالس كو اپنى عقل كے سامنے مجسم كرے تو گويا وہ يوں نظر آئيں گے كہ انہوں نے اپنے روز

169
كے اعمال نامہ كو كھولا ہوا ہے اور اپنے اعمال كے حساب كرلينے سے فارغ ہوچكے ہيں يہاں تك كہ ہر چھوٹے بڑے كاموں سے كہ جن كاانہيں حكم ديا گيا ہے اور ان كے بجالانے ميں انہوں نے كوتاہى برتى ہے يا جن سے انہيں روكا گيا ہے اور انہوں نے اس كا ارتكاب كريا ہے ان تمام كى ذمہ دارى اپنى گردن پر ڈال ديتے ہيں اور اپنے آپ كو ان كے بجالانے اور اطاعت كرنے ميں كمزور ديكھتے ہيں اور زار زار گريہ و بكاء كرتے ہيں اور گريہ اور بكاء سے اللہ كى بارگاہ ميں اپنى پشيمانى كا اظہار كرتے ہيں_ ان كو تم ہدايت كرنے ولا اور اندھيروں كے چراغ پاؤگے كہ جن كے ارد گرد ملا مكہ نے گھيرا ہوا ہے اور اللہ تعالى كى مہربانى ان پر نازل ہوچكى ہے_ آسمان كے دروازے ان كے لئے كھول ديئےئے ہيں اور ان كے لئے محترم اور مكرم جگہ حاضر كى جاچكى ہے_ (311)