147
متقيوں كے اوصاف
اگر تقوى كو بہتر پہچاننا چاہئيں اور متقين كى صفات اور علامتوں سے بہتر واقف ہونا چاہئيں تو ضرورى ہے كہ ہمام كے خطبے كا جو نہج البلاغہ ميں سے اس كا ترجمہ كر ديں_
ہمام ايك عابد انسان اور اميرالمومنين عليہ السلام كے اصحاب ميں سے تھا ايك دن اس نے حضرت على عليہ السلام كى خدمت ميں عرض كيا يا امير المومنين_ آپ ميرے لئے متقين كى اس طرح صفات بيان فرمائيں كہ گويا ميں ان كو ديكھ رہا ہوں_ اميرالمومنين عليہ السلام نے اس كے جواب ميں تھوڑى دير كى اور پھر آپ نے اجمالى طور سے فرمايا اے ہمام تقوى كو اختيار كر اور نيك كام انجام دينے والا ہو جا كيونكہ خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ خدا متقين اور نيكوكاروں كے ساتھ ہے ھمام نے آپ كے اس مختصر جواب پر اكتفا نہيں كى اور آنحضرت كو قسم دى كہ اس سے زيادہ وضاحت كے ساتھ بيان فرمائيں_ اس وقت آنحضرت(ع) نے حمد و ثناء بارى تعالى اور پيغمبر (ص) پر درود و سلام كے بعد فرمايا _ خداوند عالم نے لوگوں كو پيدا كيا جب كہ ان كى اطاعت سے بے نياز تھا اور ان كى نافرمانيوں سے آمان اور محفوظ تھا كيونكہ گناہگاروں كى نافرمانى اسے كوئي ضرر نہيں پہنچا سكتى اور فرمانبردارى كى اطاعت اسے كوئي فائدہ نہيں دے سكتي_ ان كى روزى ان ميں تقسيم كردى اور ہر آدمى كو اس كى مناسب جگہ پر برقرار كيا_ متقى دنيا ميں اہل فضيلت ہيں_ گفتگو ميں سچے _ لباس پہننے ميں ميانہ رو_
راستہ چلنے ميں متواضع _ حرام كاموں سے آنكھيں بند كر ركھى ہيں_ جو علم
148
انہيں فائدہ ديتا ہے اے سنتے ہيں مصيبتوں اور گرفتاريوں ميں اس طرح ہوتے ہيں جس طرح آرام اور خوشى ميں ہوتے ہيں_ اگر موت ان كے لئے پہلے سے معين نہ كى جا چكى ہوتى تو ثواب كے شوق اور عتاب كے خوف سے ايك لحظہ بھى ان كى جان ان كے بدن ميں قرار نہ پاتي_ خدا ان كى نگاہ ميں بہت عظيم اور بزرگ ہے اسى لئے غير خدا ان كى نگاہ ميں معمولى نظر آتا ہے_ بہشت كى نسبت اس شخص كى مانند ہيں كہ جس نے بہشت كو ديكھا ہے اور بہشت كى نعمتوں سے بہرہ مندہ ہو رہا ہے_ اور جہنم كى نسبت اس شخص كى طرح ہيں كہ جس نے اسے ديكھا ہے اور اس ميں عذاب پا رہا ہے_ ان كے دل محزون ہيں اور لوگ ان كے شر سے امان ميں ہيں_ ان كے بدن لاغر اور ان كى ضروريات تھوڑى ہيں_ ان كے نفس عفيف اور پاك ہيں_ اس دنيا ميں تھوڑے دن صبر كرتے ہيں تا كہ اس كے بعد ہميشہ كے آرام اور خوشى ميں جا پہنچيں اور يہ تجارت منفعت آور ہے جو ان كے پروردگار نے ان كے لئے فراہم كى ہے_ دنيا ان كى طرف رخ كرتى ہے ليكن وہ اس كے قبول كرنے سے روگرداغن كرتے ہيں_ دنيا انہيں اپنا قيدى بنانا چاہتى ہے ليكن وہ اپنى جان خريد ليتے ہيں اور آزاد كرا ليتے ہيں_ رات كے وقت نماز كے لئے كھڑے ہوجائے ہيں_ قرآن كى آيات كو سوچ اور بچار سے پڑھتے ہيں_ اس ميں سوچنے اور فكر كرنے سے اپنے آپ كو غمگين اور محزون بناتے ہيں اور اسى وسيلے سے اپنے درد كى دواء ڈھونڈتے ہيں جب ايسى آيت كو پڑھتے ہيں كہ جس ميں شوق دلايا گيا ہو تو وہ اميد وار ہوجاتے ہيں اور اس طرح شوق ميں آتے ہيں كہ گويا جزا اور ثواب كو اپنى آنكھوں سے مشاہدہ كر رہے ہيں _ اور جب ايسى آيت كو پڑھتے ہيں كہ جس ميں خوف اور ترس ہو تو دل كے كانوں سے اس كى طرف اس طرح توجہ كرتے ہيں كہ گويا دوزخ ميں رہنے والوں كى آہ و زارى اور فرياد ان كے كانوں ميں سنائي دے رہى ہے_ ركوع كے لئے خم ہوتے ہيں اور سجدے كے لئے اپنى پيشانيوں اور ہتھيليوں اور پائوں اور زانوں كو زمين پر بچھا ديتے ہيں اپنے نفس كى آزادى كو خدا سے تقاضا كرتے ہيں_ جب دن ہوتا ہے تو بردبار دانا نيكوكار اور باتقوى ہيں_
149
خدا كے خوف نے ان كو اس تير كى مانند كر ديا ہے كہ جسے چھيلا جائے اور لاغر اور كمزور كر ديا ہے_ انہيں ديكھنے والے گمان كرتے ہيں كہ وہ بيمار ہيں جب كہ وہ بيمار نہيں ہيں_ كہا جاتا ہے كہ ديوانے ہيں جب كہ وہ ديوانے نہيں ہيں بلكہ قيامت جيسى عظيم چيز ميں فكر كرنے نے ان كو اپنے آپ سے بے خود كر ديا ہے_
اپنے تھوڑے عمل پر راضى نہيں ہوتے اور زيادہ عمل كو زيادہ نہيں سمجھتے_ اپنى روح اور نفس كو اس گمان ميں كہ وہ اطاعت ميں كوتاہى كر رہے ہيں متہم كرتے ہيں اور اپنے اعمال سے خوف اور ہراس ميں ہوتے ہيں_ جب ان ميں سے كسى كى تعريف كى جائے تو جو اس كے بارے ميں كہا گياہے اس سے ڈرتے ہيں اور كہتے ہيں كہ ہم اپنے آپ كو دو سروں سے بہتر پہچانتے ہيں اوراللہ تعالى ہم سے زيادہ آگاہ اور باخبر ہے_ خدايا جو كچھ ہمارے بارے ميں كہا گيا ہے اس پر ہمارا مواخذہ نہ كرنا اور اس سے بالاتر قرار دے جو وہ گمان كرتے ہيں اور ان گناہوں كو جو دوسرے نہيں جانتے بخش دے_
اہل تقوى كى نشانى يہ ہے كہ تو اسے دينى معاملہ ميں نرمى اور دور انديشى كے ساتھ قوى ديكھے گا اوريقيين ميں با ايمان اور مضبوط _ علم كے حصول ميں حريص بردبارى ميں دانشمند مالدار ہوتے ہوئے_ ميانہ روي، عبادت باخشوع اور فقر ميں آبرو مند اور با وقار_ سختيوں ميں صبر كرنے والے _ حلال روزى كے حاصل ميں كوشش كرنے وال_ ہدايت كے طلب كرنے ميں علاقمندي_ طمع سے دور اور سخت جان_ نيك كام كرنے كے باوجود خوف زدہ ہيں_ رات كے وقت شكرانہ ادا كرنے ميں ہمت باندھتے ہيں اور دن ميں ذكر اور خدا كى ياد كو اہميت دينے والے_ رات كو اس ڈر سے كہ شايد غفلت برتى ہو خوف زدہ_ دن كو اللہ تعالى كے فضل و كرم و رحمت كيوجہ سے خوشحال_ اگر نفس نے كہ جسد وہ پسند نہيں كرتا سختى برتى تو وہ بھى س كے بدلے جسے نفس پسند كرتا ہے بجا نہيں لاتے _ اس كا رابط اور علاقمند نيك كاموں سے ہوتا ہے اور فنا ہوتے والى دنياوى چيز كى طرف ميلان نہيں ركھتے_ تحمل اور بردبارى كو عقلمندى سے اور گفتار
150
كو كردار كے ساتھ ملاتے ہے_ اسے ديكھے گا كہ اس كى خواہشات تھوڑى اور اس كى خطائيں بھى كم_ دل خشوع كرنے والا اور نفس قناعت ركھنے والا_ اس كى خوراك تھوڑى اور اسے كام آسان اس كا دين محفوظ اور اس كى نفسانى خواہشات ختم ہوچكى ہيں اور غصہ بيٹھ چكا ہے_ لوگ اس كے احسان اور نيكى كى اميد ركھتے ہيں اور اس كے شر سے امن و امان ميں ہيں اگر لوگوں ميں غافل اور بے خبر نظر آ رہا ہو تو وہ اللہ تعالى كے ذكر كرنے والا شمار ہو رہا ہو گا اور اگر ذكر كرنے والوں ميں موجود ہوا تو وہ غفلت كرنے والوں ميں شمار نہيں ہوگا_
گالياں دينے سے پرہيز كرتا ہے نرمى سے بات كرتا ہے_ برے كام اس سے نہيں ديكھے جاتے اور نيك كاموں ميں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے_ خيرات اور نيكى كى طرف قدم بڑھانے والا اور برائيوں سے بھاگ جانے والا ہوتا ہے_ سختيوں ميں باوقار اور مصيبتوں ميں صبر كرنے والا آرام اور آسائشے ميں شكر گزار جو اس كے نزديك مبغوض ہے اس پر ظلم نہيں كرتا _ جس كو دوست ركھتا ہے اس كے لئے گناہ نہيں كرتا گواہوں كى گواہى دينے سے پہلے حق كا اقرار كر ليتا ہے_ جسے حفظ كر ليا ہے اسے ضائع نہيں كرتا اور جو اسے بتلايا جائے اسے نہيں بھلاتا _ كسى كو برے لقب سے نہيں بلاتا_ ہمسايہ كو نقصان نہيں پہنچاتا_ لوگوں پر جب مصيبتيں ٹوٹ پڑيں تو اس سے خوشى نہيں كرتا_ باطل كے راستے ميں قدم نہيں ركھتا اور حق سے خارج نہيں ہوتا_ اگر چپ رہے تو چپ رہنے سے غمگين نہيں ہوتا اگر ہنسے تو ہنسنے كى آواز بلند نہيں ہوتى اور اگر اس پر ظلم كيا جائے تو صبر كرتا ہے تا كہ اس كا انتقام اس كے لئے لے لے_ اس كا نفس اس كى طرف سے سختى ميں ہوتا ہے ليكن لوگوں كے نفس اس كى طرف سے آرام اور آسائشے ميں ہوتے ہيں آخروى كاموں كے لئے اپنے نفس كو سختيوں ميں ڈالتا ہے اور لوگوں كو اپنى جانب سے آرام اور آسائشے پہنچاتا ہے_ اس كا كسى سے دور ہوجانا زہد اور عفت كى وجہ سے ہوتا ہے اور كسى سے نزديك ہونا خوش خلقى اور مہربانى سے ہوتا ہے دور ہونا تكبر اور خودخواہى كيوجہ سے نہيں ہوتا اور نزديك ہونا مكرر اور فريب
151
سے نہيں ہوتا_
راوى كہتا ہے كہ جب امير المومنين كى كلام اس جگہ پہنچى تو ہمام نے ايك چيخ مارى اور بيہوش ہوگيا_ اور اپنى روح خالق روح كے سپرد كردي_ آنحضرت(ع) نے فرمايا ہيں '' اس طرح كى پيش آمد كيوجہ سے اس كے بارے ميں خوف زدہ تھا_آپ نے اس كے بعد فرمايا لائق افراد ميں وعظ اس طرح كا اثر كرتے ہيں_(273)
152
نفس پر كنٹرول كرنے اور اسے پاك كرنے كا اہم سبب مراقبت ہوتا ہے
اپنے آپ كو بنانے او رسنوار نے اور نفس كو پاك كرنے كا ايك اہم سبب نفس پر مراقبت اور توجہ ركھنا ہوتا ہے_ جو انسان اپنى سعادت كے متعلق سوچنا اور فكر ركھتا ہو وہ برے اخلاق اور نفسانى بيماريوں سے غافل نہيں رہ سكتا بلكہ اسے ہر وقت اپنے نفس پر توجہہ ركھنى چاہئے اور تمام اخلاق اور كردار ملكات اور افكار كو اپنے كنٹرول ميں ركھنا چاہئے اور اس پر پورى نگاہ ركھے_ ہم اس مطلب كو كئي ايك مطالب كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں_
اعمال كا ضبط كرنا اور لكھنا
قرآن اور احاديث پيغمبر اور اہلبيت عليہم السلام سے معلوم ہوتا كہ انسان كے تمام اعمال حركات گفتار سانس لينا افكار اور نظريات نيت تمام كے تمام نامہ اعمال ميں ضبط اور ثبت كئے جاتے ہيں اور قيامت تك حساب دينے كے لئے باقى رہتے ہيں اور ہر ايك انسان قيامت كے دن اپنے اچھے برے اعمال كى جزا اور سزا ديا جائيگا جيسے خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ '' قيامت كے دن لوگ گروہ در گروہ خارج ہونگے تا كہ وہ اپنے اعمال كو ديكھ ليں جس نے ايك ذرا بھر نيكى انجام دى ہوگى وہ اسے ديكھے گا اور
153
جس نے ذرا بھر برائي انجام دى ہوگى اسے ديكھے گا_(274)
نيز فرماتا ہے كہ '' كتاب ركھى جائيگى مجرموں كو ديكھے گا كہ وہ اس سے جو ان كے نامہ اعمال ميں ثبت ہے خوف زدہ ہيں اور كہتے ہونگے كہ يہ كيسى كتاب ہے كہ جس نے تمام چيزوں كو ثبت كر ركھا ہے اور كسى چھوٹے بڑے كام كو نہيں چھوڑااپنے تمام اعمال كو حاضر شدہ ديكھيں گے تيرا خدا كسى پر ظلم نہيں كرتا_(275)
خدا فرماتا ہے ''قيامت كے دن جس نے جو عمل خير انجام ديا ہوگا حاضر ديكھے گا اور جن برے عمل كا ارتكاب كيا ہوگا اسے بھى حاضر پائيگا اور آرزو كرے گا كہ اس كے اور اس كے عمل كے درميان بہت زيادہ فاصلہ ہوتا_(276)
خدا فرماتا ہے '' كوئي بات زبان پر نہيں لاتا مگر اس كے لكھنے كے لئے فرشتے كو حاضر اور نگاہ كرنے والا پائے گا_(277)
اگر ہمارا يہ عقيدہ ہے كہ انسان كے تمام اعمال اور كردار حركات اور گفتار يہاں تك كہ افكار اور نظريات سوچ اور فكر لكھے جاتے ہيں تو پھر ہم كس طرح ان كے انجام دينے سے غافل رہ سكتے ہيں؟
قيامت ميں حساب
بہت زيادہ آيات اور روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ قيامت كے دن بہت زيادہ وقت سے بندوں كا حساب ليا جائيگا_ بندوں كے تمام اعمال چھوٹے بڑے كا حساب ليا جائيگا اور معمولى سے معمولى كام سے بھى غفلت نہيں كى جائيگى جيسے خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' عدالت كے ترازو كو قيامت كے دن نصب كيا جائيگا اور كسى طرح ظلم نہيں كيا جائيگا اگر خردل كے دانہ كے ايك مثقال برابر عقل كيا ہوگا تو اسے بھى حساب ميں لايا جائيگا او رخود ہم حساب لينے كے لئے كافى ہيں_(278)
نيز فرماتا ہے '' جو كچھ باطن اور اندر ميں ركھتے ہو خواہ اسے ظارہ كرو يا چھپائے ركھو خدا تم سے اس كا بھى حساب لے گا_(279)
154
نيز خدا فرماتا ہے '' اعمال كا وزن كيا جانا قيامت كے دن حق كے مطابق ہوگا جن كے اعمال كا پلڑا بھارى ہوگا وہ نجات پائيں گے اور جن كے اعمال كا پلڑا ہلكا ہوگا تو انہوں نے اپنے نفس كو نقصان پہنچايا ہے اس لئے كہ انہوں نے ہمارى آيات پر ظلم كيا ہے_(280) قرآن مجيد ميں قيامت كو يوم الحساب كہا گيا ہے اور خدا كو سريع الحساب يعنى بہت جلدى حساب لينے والا كہا گيا ہے_
آيات اور بہت زيادہ روايات كى رو سے ايك سخت مرحلہ جو تمام بندوں كے لئے پيش لانے والا ہے وہ اعمال كا حساب و كتاب اور ان كا تولا جانا ہے_ انسانى اپنى تمام عمر ميں تھوڑے تھوڑے اعمال بالاتا ہے اور كئي دن كے بعد انہيں فراموش كر ديتا ہے حالانكہ معمولى سے معمولى كام بھى اس صفحہ ہستى سے نہيں مٹتے بلكہ تمام اس دنيا ميں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہيں اور انسان كے ساتھ باقى رہ جاتے ہيں گرچہ انسان اس جہان ميں بطور كلى ان سے غافل ہى كيوں نہ ہوچكا ہو_ مرنے كے بعد جب اس كى چشم بصيرت روشن ہوگى تو تمام اعمال ايك جگہ اكٹھے مشاہدہ كرے گا اس وقت اسے احساس ہوگا كہ تمام اعمال گفتار اور كردار عقائد اور افكار حاضر ہيں اور اس كے ساتھ موجود ہيں اور كسى وقت اس سے جدا نہيں ہوئے_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ '' ہر آدمى قيامت كے دن حساب كے لئے محشر ميں اس حالت ميں آئے گا كہ ايك فرشتہ اسے لے آرہا ہوگا اور وہ اس كے ہر نيك اور بد كا گواہ بھى ہوگا اسے كہا جائے گا تو اس واقعيت اور حقيقت سے غافل تھا ليكن آج تيرى باطنى انكھ بينا او روشن ہوگئي ہے_(281)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' قيامت كے دن خدا كا بندہ ايك قدم نہيں اٹھائيگا مگر اس سے چار چيزوں كا سوال كيا جائيگا_ اس كى عمر سے كہ كس راستے ميں خرچ كى ہے_ اس كى جوانى سے كہ اسے كس راستے ميں خرچ كيا ہے_ اس كے مال سے كہ كس طريقے سے كمايا اور كہاں خرچ كيا ہے_ اور ہم اہلبيت كى دوستى كے بارے ميں سوال كيا جائيگا_(282)
155
ايك اور حديث ميں پيغمبر(ص) نے فرمايا ہے كہ '' بندے كو قيامت كے دن حساب كے لئے حاضر كريں گے_ ہر ايك دن كے لئے كہ اس نے دنيا ميں زندگى كى ہے_ ہر دن رات كے ہر ساعت كے لئے چوبيس خزانے لائيں گے ايك خزينہ كو كھوليں گے جو نور اور سرور سے پر ہوگا _ خدا كا بندہ اس كے ديكھنے سے اتنا خوشحال ہوگا كہ اگر اس كى خوشحالى كو جہنميوں كے درميان تقسيم كيا جائے تو وہ كسى درد اور تكليف كو محسوس نہيں كريں گے يہ وہ ساعت ہوگى كہ جس ميں وہ اللہ تعالى كى اطاعت ميں مشغول ہوا تھا_ اس كے بعد ايك دوسرے خزينہ كو كھوليں گے كہ جو تاريك او ربدبو دار وحشت آور ہوگا خدا كا بندہ اس كے ديكھنے سے اس طرح جزع اور فزع كرے گا كہ اگر اسے بہشتيوں ميں تقسيم كيا جائے تو بہشت كى تمام نعمتيں ان كے لئے ناگوار ہوجائيں گى يہ وہ ساعت تھى كہ جس ميں وہ اللہ تعالى كى نافرمانى كر رہا تھا_ اس كے بعد اس كے لئے تيسرے خزانہ كو كھوليں گے كہ جو بالكل خالى ہوگا نہ اس ميں خوش كرنے والا عمل ہوگا اور نہ غم لانے والا عمل ہوگا يہ وہ ساعت ہے كہ جس ميں خدا كا بندہ سويا ہوا تھا يا مباح كاموں ميں مشغول ہوا تھا_ خدا كا بندہ اس كے ديكھنے سے بھى غمگين اور افسوس ناك ہوگا كيونكہ وہ اسے دنيا ميں اچھے كاموں سے پر كر سكتا تھا اور كوتاہى اور سستى كى وجہ سے اس نے ايسا كيا تھا_ اسى لئے خداوند عالم قيامت كے بارے ميں فرماتا ہے كہ يوم التاغبن يعنى خسارے اور نقصان كا دن_(283)
قيامت كے دن بندوں كا بطور وقت حساب ليا جائيگا اور انكا انجام معين كيا جائيگا تمام گذرے ہوئے اعمال كا حساب ليا جائے گا_ انسان كے اعضاء اور جوارح پيغمبر اور فرشتے يہاں تك زمين گواہى دے گى بہت سخت حساب ہوگا اور اس پر انسان كا انجام معين كيا جائے گا دل حساب كے ہونے كى وجہ سے دھڑك رہے ہونگے اور بدن اس سے لرزہ باندام ہونگے ايسا خوف ہوگا كہ مائيں اپنے شيرخوار بچوں كو بھول جائيں گى اور حاملہ عورتيں بچے سقط كرديں گى تمام لوگ مضطرب ہونگے كہ ان كا انجام كيا ہوگا كيا ان كے حساب كا نتيجہ اللہ تعالى كى خوشنودى اور آزادى كا پروانہ ہوگا اور پيغمبروں
156
اور اولياء خدا كے سامنے سر خروى اور بہشت ميں ہميشہ كى زندگى ہوگى _ اللہ كے نيك بندوں كى ہمسايگى ہوگى يا اللہ تعالى كا غيظ اور غضب لوگوں كے درميانى رسوائي اور دوزخ ميں ہميشہ كى زندگى ہوگي_
احاديث سے معلوم ہوتا ہے كہ بندوں كا حساب ايك جيسا نہيں ہوگا_ بعض انسانوں كا حساب بہت سخت اور مشكل اور طولانى ہوگا_ دوسرى بعض كا حساب آسان اور سادہ ہوگا_ حساب مختلف مراحل ميں ليا جائيگا_ اور ہر مرحلہ اور متوقف ميں ايك چيز سے سوال كيا جائے گا سب سے زيادہ سخت مرحلہ اور موقف مظالم كا ہوگا اس مرحلہ ميں حقوق الناس اور ان پر ظلم اور جور سے سوال كيا جائيگا اس مرحلہ ميں پورى طرح حساب ليا جائيگا اور ہر ايك انسان اپنا قرض دوسرے قرض خواہ كو ادا كرے گا_ جائے تاسف ہے كہ وہاں انسان كے پاس مال نہيں ہوگا كہ وہ قرض خواہوں كا قرض ادا كر كرسكے ناچار اس كو اپنى نيكيوں سے ادا كرے گا اگر اس كے پاس نيكياں ہوئيں تو ان كو لے كر مال كے عوض قرض خواہوں كو ادا كرے گا اور اگر اس كے پاس نيكياں نہ ہوئيں تو قرض خواہوں كى برائيوں كو اس كے نام اعمال ميں ڈال ديا جائيگا بہرحال وہ بہت سخت د ن ہوگا_ خداوند عالم ہم تمام كى فرياد رسى فرمائے_ آمين_
البتہ حساب كى سختى اور طوالت تمام انسانوں كے لئے برابر نہ ہوگى بلكہ انسان كى اچھائيوں اور برائيوں كے حساب سے فرق كرے گى ليكن خدا كے نيك اور متقى اور لائق بندوں كے لئے حساب تھوڑى مدت ميں اور آسان ہوگا_ پيغمبر اكرم نے اس شخص كے جواب ميں كہ جس نے حساب كے طويل ہونے كے بارے ميں سوال كيا تھا_ فرمايا_ ''خدا كى قسم كہ مومن پر اتنا آسان اور سہل ہوگا كہ واجب نماز كے پڑھنے سے بھى آسانتر ہوگا_( 284)
قيامت سے پہلے اپنا حساب كريں
جو شخص قيامت حساب اور كتاب اور اعمال اور جزاء اور سزا كا عقيدہ اور ايمان
157
ركھتا ہے اور جانتا ہے كہ تمام اعمال ضبط اور ثبت ہو رہے ہيں اور قيامت كے دن بہت وقت سے انكا حساب ليا جائے گا اور ان كى اچھى يا برى جزاء اور سزا دى جائيگى وہ كس طرح اپنے اعمال اور كردار اور اخلاق سے لا پرواہ اور بے تغاوت نہيں ہوسكتا ہے؟ كيا وہ يہ نہ سوچے كہ دن اور رات ماہ اور سال اور اپنى عمر ميں كيا كر رہا ہے؟ اور آخرت كے لے كونسا زاد راہ اور توشہ بھيج رہا ہے؟ ايمان كا لازمہ يہ ہے كہ ہم اسى دنيا ميں اپنے اعمال كا حساب كرليں اور خوب غور اور فكر كريں كہ ہم نے ابھى تك كيا انجام ديا ہے اور كيا كر رہے ہيں؟ حساب كرليں اورخوب غور اور فكر كريں كہ ہم نے ابھى تك كيا انجام ديا ہے اور كيا كر رہے ہيں؟ بعينہ اس عقلمند تاجر كى طرح جو ہر روز اور ہر مہينے اور سال اپنى آمدن خرچ كا حساب كرتا ہے كہ كہيں اسے نقصان نہ ہوجائے اور اس كا سرمايہ ضائع نہ ہوجائے_
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اس سے پہلے كہ تمہارا قيامت كے دن حساب ليا جائے اسى د نيا ميں اپنے اعمال كو ناپ تول لو_ (285) حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص اسى دنيا ميں اپنا حساب كرلے وہ فائدہ ميں رہے گا_ (286)
امام على نقى عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' وہ ہم ميں سے نہيں ہے جو ہر روز اپنا حساب نہيں كرتا اگر اس نے نيك كام انجام ديئے ہوں تو اللہ تعالى سے اور زيادہ كى توفيق طلب كرے اور اگر برے كام انجام ديئے ہوں تو استغفار اور توبہ كرے_ (287)
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو اپنے آپ كا جساب كرلے وہ فائدہ ميں ہوگا اور جو اپنے حساب سے غافل ہوگا وہ نقصان اٹھائيگا_ جو اس دنيا ميں ڈرے وہ قيامت كے دن امن ميں ہوگا اور جو نصيحت حاصل كرے وہ آگاہ ہوجائيگا جو شخص ديكھے وہ سمجھے گا اور جو سمجھے گا وہ دانا اور عقلمند ہوجائيگا_ (288)
پيغمبر اكرم نے جناب ابوذر سے فرمايا '' اے ابوذر اس سے پہلے كہ تيرا حساب قيامت ميں ليا جائے تو اپنا حساب اسى دنيا ميں كرلے كيونكہ آج كا حساب آخرت كے حساب سے زيادہ آسان ہے اپنے نفس كو قيامت كے دن وزن كئے جانے سے پہلے اسي
158
دنيا ميں وزن كرلے اور اسى وسيلے سے اپنے آپ كو قيامت كے دن كے لئے كہ جس دن تو خدا كے سامنے جائے گا اور معمولى سے معمولى چيز اس ذات سے مخفى نہيں ہے آمادہ كرلے_ آپ نے فرمايا اے آباذر انسان متقى نہيں ہوتا مگر يہ كہ وہ اپنے نفس كا حساب اس سے بھى سخت جو ايك شريك دوسرے شريك سے كرتا ہے كرے انسان كو خوب سوچنا چاہئے كہ كھانے والى پينے والى پہننے والى چيزيں كس راستے سے حاصل كر رہا ہے_ كيا حلال سے ہے يا حرام سے؟ اے اباذر جو شخص اس كا پابند نہ ہو كہ مال كو كس طريقے سے حاصل كر رہا ہے خدا بھى پرواہ نہيں كرے گا كہ اسے كس راستے سے جہنم ميں داخل كرے_ (289)
امام زين العابدين عليہ السلام نے فرمايا ہے '' اے آدم كى اولاد تو ہميشہ خير و خوبى پر ہوگا جب تك اپنے نفس ميں وعظ كرنے والا ركھے رہے گا اور اپنے نفس كے حساب كرتے رہنے كا پابند رہے گا اور اللہ كا خوف تيرا ظاہر ہوا اور محزون ہونا تيرا باطن ہو_ اے آدم كا فرزند تو مرجائيگا اور قيامت كے دن اٹھايا جائيگا اور اللہ تعالى اور اللہ كے عدل كے ترازو كے سامنے حساب كے لئے حاضر ہوگا لہذا قيامت كے دن حساب دينے كے لئے آمادہ ہوجاؤ_ (290)
انسان اس جہان ميں تاجر كى طرح ہے كہ اس كا سرمايہ اس كى محدود عمر ہے يعنى يہى دن اور رات ہفتے اور مہينے اور سال_ يہ عمر كا سرمايہ ہو نہ ہو خرچ ہو كر رہے گا_ اور آہستہ آہستہ موت كے نزديك ہوجائيگا جوانى بڑھاپے ميں طاقت كمزورى ميں اور صحت اور سلامتى بيمارى ميں تبديل ہوجائيگى اگر انسان نے عمر كو نيك كاموں ميں خرچ كيا اور آخرت كے لئے توشہ اور زاد راہ بھيجا تو اس نے نقصان اور ضرر نہيں كيا كيونكہ اس نے اپنے لئے مستقبل سعادتمند اور اچھا فراہم كرليا ليكن اگر اس نے عمر كے گران قدر سرمايہ جوانى اور اپنى سلامتى كو ضائع كيا اور اس كے مقابلے ميں آخرت كے لئے نيك عمل ذخيرہ نہ بنايا بلكہ برے اخلاق اور گناہ كے ارتكاب سے اپنے نفس كو كثيف اور آلودہ كيا تو اس نے اتنا بڑا نقصان اٹھايا ہے كہ جس كى تلافى نہيں كى جا
159
سكتي_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے '' عصر كى قسم كہ انسان نقصان اور خسارہ ميں ہے مگر وہ انسان جو ايمان لائيں اور نيك عمل بجالائيں اور حق اور بردبارى كى ايك دوسرے كو سفارش كريں _ (291)
اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں_ كہ ''عاقل وہ ہے جو آج كے دن ميں كل يعنى قيامت كى فكر كرے اور اپنے آپ كو آزاد كرنے كى كوشش كرے اور اس كہ لئے كہ جس سے بھاگ جانا يعنى موت سے ممكن نہيں ہے نيك اعمال انجام دے_ (292)
نيز آنحضرت فرمايا ہے كہ ''جو شخص اپنا حساب كرے تو وہ اپنے عيبوں كو سمجھ پاتا ہے اور گناہوں كو معلوم كرليتا ہے اور پھر گناہوں سے توبہ كرتا ہے اور اپنے عيبوں كى اصلاح كرتا ہے_ (293)
كس طرح حساب كريں
نفس پر كنٹرول كرنا سادہ اور آسان كام نہيں ہوتا بلكہ سوچ اور فكر اور سياست بردبارى اور حتمى ارادے كا محتاج ہوتا ہے_ كيا نفس امارہ اتنى آسانى سے رام اور مطيع ہوسكتا ہے؟ كيا اتنى سادگى سے فيصلے اور حساب كے لئے حاضر ہوجاتا ہے؟ كيا اتنى آسانى سے حساب دے ديتا ہے؟ اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' جس نے اپنے نفس كو اپنى تدبير اور سياست كے كنٹرول ميں نہ ديا تو اس نے اسے ضائع كرديا ہے_ (294)
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كہ جس شخص نے اپنے نفس كا فريب اور دھوكہ دينا مول لے ليا تو وہ اس كو ہلاك ميں ڈال دے گا_ (295)
آنحضرت نے فرمايا ہے كہ ''جس شخص كے نفس ميں بيدارى اورآگاہى ہو تو خداوند عالم كى طرف سے اس كے لئے نگاہ بان معين كيا جائيگا_(296)
نيز آنحضرت(ص) نے فرمايا ہے كہ ''پے در پے جہاد سے اپنے نفس كے مالك بنو
160
اور اپنے كنٹرول ميں ركھو_( 297) نفس كے حساب كو تين مرحلوں ميں انجام ديا جائے تا كہ تدريجاً وہ اس كى عادت كرے اور مطيع ہوجائے_
|